Freitag, 15. Juli 2011

اَ ن دیکھے‘ پر جانے دوست

اَ ن دیکھے‘ پر جانے دوست

میری ادبی زندگی میں بہت سے دوست آئے۔کچھ نے چند قدم تک ساتھ نبھایا۔بعض سے لمبی دوستی نبھی۔کسی سے نباہ میں میرا سلیقہ کام آیا تو کسی سے نباہ میں اُس کی اپنی محبت کارگر رہی۔ادبی دوستوں میں اَن دیکھے دوستوں سے تعلق کی نوعیت عام دوستیوں سے خاصی مختلف ہوجاتی ہے۔میرے بہت سے اَن دیکھے دوست ہیں لیکن یہ میرے لئے اور میں ان کے لئے انجانے نہیں۔ایسے دوستوں کی فہرست خاصی طویل ہے تاہم ان میں سے بعض بہت زیادہ اہم دوستوں کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتاہوں۔
ایسے دوستوں میں سب سے پہلے نمبر پر مشہور جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا نام آتا ہے۔میں نے غالباََساتویں جماعت سے انہیں پڑھنا شروع کیا تھا۔شروع میں جاسوسی سیریز کے ناول پڑھے۔ان میں کرنل فریدی‘کیپٹن حمید اور قاسم کے کردار مجھے بے حد دلچسپ لگے ۔ پھر عمران سیریز کے ناول پڑھے تو ان کا ایک الگ ذائقہ محسوس ہوا۔میں ابنِ صفی کے ناول اپنے شہر کی ’’تھری اسٹار لائبریری‘‘سے کرائے پر لاتا تھا اور دن میں بعض اوقات دودو ناول آرام سے پڑھ جاتا تھا۔خانپور میں میرے گھر سے یہ لائبریری تقریباََ دس ‘پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر تھی۔میں ناول لیتے ہی پڑھنا شروع کردیتا تھا اور گھر پہنچنے تک اس کا آدھے سے کچھ کم حصہ پڑھ چکا ہوتا تھا۔رستے میں کبھی کبھار کسی سائیکل والے سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ جاتی‘ گھر پر بھی ناول ختم کرنے کے بعد سانس لیتا تھا۔
عمران سیریز میں ایکسٹو کی ٹیم کے متوازی مجھے ٹی۔تھری بی یعنی تھریسیا کا کردار بہت اچھا لگتا تھا۔سنگ ہی کے کردار کی اپنی ایک الگ آن بان تھی۔میں آج بھی اگر کبھی بہت بوریت محسوس کروں اور کسی اچھی ادبی کتاب سے بھی بوریت دور نہ ہو توابنِ صفی کا کوئی ناول پڑھ لیتا ہوں۔ابنِ صفی سے پہلے مجھے کسی مصنف نے اس طرح سے نہیں جکڑا تھا۔سو ان سے غائبانہ طور پر محبت کا ایک تعلق بن گیا۔اسی لئے مجھے وہ ہمیشہ اپنے دوست محسوس ہوئے ۔ایسے دوست جو دوست ہونے کے باوجود رہنمائی کا کام بھی خاموشی سے کرتے رہے۔ اگرچہ میری تحریریں‘ اُن کے موضوعات اورمیدان سے بالکل الگ ہیں لیکن مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میری نثر پر کہیں نہ کہیں ان کے اسلوب کا کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہے۔ہماری ادبی دنیا نے ابنِ صفی کے ساتھ انصاف یا ناانصافی تو کیا کرنا تھی انہیں ادب کے زمرہ سے ہی خارج رکھا ہے جو ادبی جرم سے کم نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ابنِ صفی سے میرے جیسے سینکڑوں ادیبوں نے پڑھنے اور لکھنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔اور ہماری ادبی دنیا کی کم ظرفی ہے کہ ابنِ صفی سے سیکھنے والوں نے بھی انہیں نظر انداز کیا ہے۔میری دلی آرزو تھی کہ مجھے ان کے ناولوں کا مکمل سیٹ مل جائے تو میں مربوط طریقے سے ان کے فن پر تحقیقی اور تنقیدی کام کروں۔حال ہی میں مجھے انگلینڈ جانے کا موقعہ ملا تو وہاں ابنِ صفی کی ایک عزیزہ اور لندن کی معروف افسانہ نگار اور کالم نگارصفیہ صدیقی تقریب کے دوران مجھے ملنے آئیں۔مجھے ان سے مل کر دوہری خوشی ہوئی ایک تو اس لئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پڑھتے رہتے تھے ۔دوسرے اس لئے کہ ان سے ملاقات کے دوران ابنِ صفی کا مکمل سیٹ دستیاب ہونے کی امید بن گئی ہے۔کراچی میں مقیم ابنِ صفی کے صاحبزادے ڈاکٹر ایثار احمد صفی سے میرا رابطہ انہوں نے کرادیا ہے۔سو جودوست ادبی مباحث میں مجھ سے تنگ یا خفا ہیں ‘ان کے لئے خوشخبری ہے کہ میں ابنِ صفی کا مکمل سیٹ ملنے کے بعد شاید سال بھر تک بالکل اسی پراجیکٹ کا ہوجاؤں گا۔سو اس عرصہ میں مذکورہ سارے دوست میری واپسی تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔خدا کرے مجھے یہ کام کرنے کی توفیق مل جائے!
میں نے بے روزگاری کے ایام میں تین ماہ کے لئے گوجرانوالہ میں ملازمت کی تھی۔تب تو امین خیال جی سے رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن جیسے ہی ماہیے کی تحریک شروع ہوئی‘میرا امین خیال جی سے رابطہ ہوگیا۔ اس رابطے میں ماہیے کی محبت شامل تھی۔امین خیال جی اس لئے خوش تھے کہ پنجابی کی لوک شاعری اردو میں مقبول ہو رہی ہے۔میں اس لئے خوش تھا کہ پنجابی کے ایک اہم اورمعروف شاعر کی شمولیت سے اردو ماہیے کی اس تحریک کو تقویت ملے گی۔بے شک ماہیے کو تقویت ملی لیکن ہماری دوستی بہت جلد اس سطح سے اونچی چلی گئی۔جب امین خیال جی نے پنجابی اخبار ’’بھنگڑا‘‘ کا اردو ماہیا نمبر شائع کیا تب ان کے شاگرد اور پرانے دوست غلام مصطفی بسملؔ نہ صرف ان کے ساتھ تھے بلکہ ان کا دَم بھرتے تھے۔انہوں نے ماہیا نمبر میں اختلافی اداریہ لکھا۔میں نے بڑی نیازمندی کے ساتھ اس کے جواب میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ واضح کرتے ہوئے فیصلہ انہیں پر چھوڑ دیا۔امین خیال جی نے وہ خط من و عن شائع کردیا۔اس پر بسمل صاحب نے جواب دینے کی بجائے امین خیال جی سے لاتعلقی اختیار کرلی۔نہ استاد کی استادی کا خیال کیا‘نہ پرانی دوستی کا پاس کیا اور نہ ہی علمی سطح پر دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی ہمت کی۔تب امین خیال جی بہت دکھی ہوئے تھے۔اگرچہ بسمل صاحب نے پھر خود پسِ پردہ رہ کر مختلف لوگوں سے مجھ پر مختلف قسم کے حملے کرائے لیکن دلائل کی سطح پر ان کا بھی وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے بسمل صاحب کے اپنے اداریے کا ہوچکا تھا۔تاہم مجھے ابھی تک یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ میری وجہ سے امین خیال جی اپنے ایک عزیز شاگرد اور دوست کو گنوا بیٹھے ہیں۔ دراصل امین خیال جی دوستی نبھانے والے دوست ہیں اسی لئے مجھے ان کے نقصان کا احساس ابھی تک تنگ کرتا رہتا ہے۔دوستی میں وہ اتنے بے لوث ہیں کہ فی زمانہ انسان کو اتنا بے لوث نہیں ہونا چاہئے۔
میری تحریروں کو امین خیال جی نہ صرف محبت کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ میری تحریروں کے تراشے سنبھال سنبھال کر انہوں نے رکھ چھوڑ ے ہیں۔صرف میرے ہی نہیں‘ دوسرے دوستوں کے تئیں بھی ان کا رویہ ایسا ہی ہے۔میری ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘قسط وار چھپ رہی ہیں اور وہ ہر قسط پر مجھے اتنی داد دیتے ہیں کہ مجھے نئی قسط لکھنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔میرے سفرنامہ’’سُوئے حجاز‘‘کی ایک قسط سہ ماہی ’’شعرو سخن‘‘مانسہرہ میں چھپی تو انہوں نے مجھے ’’مستجاب الدعوات‘‘سمجھ لیا اور بعض مسائل کے حل کے لئے دعا کرنے کی تاکید کر دی۔تب میں نے انہیں لکھا کہ میں کسی ریاکارانہ انکساری کے بغیر لکھ رہا ہوں کہ میں بے حد گنہگار انسان ہوں۔اس کے باوجود خدا کی مِنّت کروں گا کہ آپ کی مشکلات دور کردے۔خدا جانے پھر ان کی مشکلات دور ہوئیں یا اور بڑھ گئیں۔
امین خیال جی سے ٹیلی فون پر بھی کبھی کبھی بات ہوجاتی ہے۔خطوط کے ذریعے تو رابطہ مستقل طور پر قائم ہے۔ان کے خط اتنے محبت بھرے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات میں سچ مچ آبدیدہ ہوجاتا ہوں اورسوچنے لگتا ہوں کہ یہ میری کونسی نیکی ہے جس کے اجر کے طور پر خدا نے مجھے ایسی بے لوث اوربے غرض دوستی عطا کردی ہے۔امین خیال جی نے مجھے اپنی ذات کے لئے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی لیکن اپنے دوسرے دوستوں کے لئے وہ ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔دوستوں کی کامیابیوں کے لئے وہ کوشش کرتے رہتے ہیں اور ان کامیابیوں پر پھر خود ہی خوش ہوتے ہیں ۔
تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے ان کے ایک دوست نے ایک اور دوست سے ان کا تعارف یہ کہہ کرکرایا کہ یہ امین خیال ہے‘میرا دوست‘جس کے پچھلے پینتیس سال سے میرے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔اس پر دوسرے دوست نے کہا کہ کوئی اورتعارف ؟۔۔۔۔اس پر امین خیال جی کے دوست نے کہا: کیا پینتیس سالہ دوستی سے بڑھ کر بھی کوئی تعارف ہوسکتاہے!
میری ادبی ترقی جتنی بھی ہے اور جیسی بھی ہے یہ میرے دوستوں میں سے سب سے زیادہ امین خیال جی کی محبت ‘خلوص اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
نذیر فتح پوری’’ اسباق ‘‘ پُونہ کے مدیر ہیں۔ان سے براہِ راست قلمی رابطہ تو بہت بعد میں ہواہمارے درمیان محبت کا پہلا غیر ارادی اور غیر مفاداتی رابطہ تب ہوا جب انہوں نے ’’اسباق‘‘کا ضخیم اور بڑے سائز کا سالِ اوّلیں نمبر شائع کیا۔یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔اس میں انہوں نے میرا ایک مضمون ’اوراق‘لاہور سے لے کر شائع کیا تھا۔’’جدید افسانے کا اصل مسئلہ‘‘کے عنوان سے میرا مضمون دراصل شہزاد منظر کے ایک مضمون کے جواب میں تھا۔اس کے بعد ۱۹۹۲ء میں ان سے رابطہ ہوا۔تب انہوں نے پہلے رابطہ پر ہی نہ صرف ’’اسباق‘‘میں میرا گوشہ چھاپنے کا پروگرام بنا لیا بلکہ انڈیا میں ماہیے کے درست وزن کورائج کرنے کے لئے میرا ساتھ دیا۔نہ صرف خود ماہیے کہے بلکہ اپنے دوسرے احباب کو بھی اس کے لئے تحریک کی۔اگرچہ انڈیا میں ماہیے کی برسات ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ماہیے کی طرف آمد کے بعد شروع ہوئی تاہم اس برسات کے لئے بخارات نذیر فتح پوری کے ذریعے بننا شروع ہوگئے تھے۔نذیر فتح پوری کی شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ صرف پرائمری پاس ہیں‘اس کے باوجود شعر و ادب کے ساتھ ان کی وابستگی اور ان کی تخلیقی سرگرمیاں حیران کن ہیں۔تعلیم کسی تخلیق کارکو پالش تو کرسکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ تخلیقی صلاحیتیں خدا کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں۔نذیر فتح پوری اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔
احمد حسین مجاہد کے ماہیے ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع ہوئے تو میں نے ان کی تلاش شروع کی۔ان سے رابطہ ہوا تو بہت ہی محبت کرنے والے انسان لگے۔ان کی آمد سے ماہیے کی تحریک کو عروضی حوالے سے بڑی تقویت ملی۔یار لوگوں کا عام طور پر خیال ہے کہ میں جرمنی میں ہونے کے باعث کوئی بہت مالدارانسان ہوں ۔چنانچہ کئی اغراض کے بندے محبت جتاتے ہوئے آئے۔ایسے لجاجت آمیز او رمنت سماجت والے خط لکھے کہ میں ان کی طلب پر شرمندہ ہوگیا اور ان کی تھوڑی سی مدد کردینا ضروری سمجھا۔اُن غرض کے بندوں نے غرض پوری ہونے کے بعد ایسے آنکھیں پھیرلیں کہ میں اُن کے لجاجت سے بھرے خطوط دوبارہ پڑھ کر حیران ہوتا رہا۔ایک بار میرے پاس یہاں چند پاکستانی ڈاک ٹکٹ موجود تھے ۔میں نے ایسے ہی وہ ٹکٹ احمد حسین مجاہد کے خط میں ڈال دئیے۔دراصل انہیں میں وہاں سے پوسٹ کرنے کے لئے اپنے دوسرے خطوط بھیجتا رہتا ہوں۔شاید کچھ ان کا خیال تھا۔جواباََاحمد حسین مجاہد کا تھوڑی سی خفگی والا خط آیاکہ میں دوستی میں یہ خطوط پوسٹ کرنا افورڈ کر سکتا ہوں۔ٹکٹ واپس لیجئے اور آئندہ ایسی زیادتی مت کیجئے گا۔
احمد حسین مجاہد کے اس طرزِ عمل نے مجھے ’’غرض کے بندوں‘‘ اور محبت کرنے والے دوستوں کے فرق سے آشناکر دیا وگرنہ میں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہورہا تھا کہ شاید رابطہ کرنے والے بیشتر لوگ ’’اغراض‘‘کے باعث ہی محبت جتاتے ہیں۔احمد حسین مجاہد ایک معقول سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔بنکنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ان کی مصروفیات کا مجھے اندازہ ہے۔اس کے باوجود میں انہیں تھکاتا رہتا ہوں۔ہر رسالے کے ماہیا نمبر میں ان کا براہِ راست یا بالواسطہ اہم کردار شامل رہاہے۔رسالہ’’گلبن‘‘کے غزل نمبر کے لئے میرابہت سارا مطلوبہ میٹر اور اس کے علاوہ بھی بہت سارا اہم میٹر مجھے فراہم کیا۔یہ خاصا محنت طلب کام تھا۔انہوں نے نام کی پرواہ کئے بغیر کام کیا اور نام میرا ہی ہوا۔میری غلطی کہ اپنی بہت زیادہ مصروفیات کے باعث اداریہ میں ان کا شکریہ تک ادا کرنا بھول گیا۔لیکن مجال ہے انہوں نے ہلکا سا شکوہ بھی کیا ہو۔حالانکہ یہ’’شکریہ‘‘ان کا کم از کم ادبی حق تھا۔
احمد حسین مجاہد ماہیے کے معیار کے سلسلے میں متفکر رہتے ہیں اور مجھے اس سلسلے میں توجہ بھی دلاتے رہتے ہیں۔ان کے ٹکٹ والے تجربے سے ملتا جلتا ایک تجربہ ترنّم ریاض سے رابطے پر پیش آیا۔ان سے رابطہ ان کی ماہیا نگاری کے باعث ہوا۔دہلی میں رہنے والے کسی ماہیا نگار کے ہاں پنجابی مزاج سے لبریز ماہیے ملنا حیران کن بات تھی۔تب ترنّم ریاض نے وضاحت کی کہ وہ اپنے والدین میں سے ایک کی طرف سے لاہوری پنجابی اور ایک کی طرف سے کشمیری ہیں۔تب میری حیرت تو دور ہوگئی لیکن خوشی برقرار رہی۔میں نے انہیں انڈیا کے دوستوں کے لئے اپنی ڈاک آگے پوسٹ کرنے کے لئے بھیجی‘ ساتھ ہی انہیں لکھا کہ کہ آپ کو جلد ہی ڈاک کے جملہ اخراجات بھیج دوں گا‘اس پر ایسا بگڑیں کہ باقاعدہ خفا ہوگئیں اور مجھ سے’’سوری‘‘ کہلوا کر پھر ٹھیک ہوئیں۔تب میں نے اندازہ کیا کہ یہ احمد حسین مجاہد اور ترنّم ریاض کہیں روحانی طور پر بہن بھائی ہیں۔
ترنّم ریاض بہت ہی اچھی خاتون ہیں۔افسانے لکھتی ہیں۔تھوڑی بہت نظمیں بھی لکھی ہیں‘لیکن ماہیا نگاری میں تو انہوں نے کمال ہی کردیا ہے۔میری تحریروں کی اتنی فین ہیں کہ مجھے ’’پِیرومُرشد‘‘کہہ کر شرمندہ کرتی رہتی ہیں۔جب انہوں نے میرے ڈاک کے اخراجات لینے سے بھی انکار کردیا تب میں نے بہانے سے انہیں کہا کہ’’مجھے دلی میں کوئی ایسا شریف نوجوان ڈھونڈ دیں جو ادب سے شغف بھی رکھتا ہو اور میرے ادب سے متعلق بعض کا م بھی وہاں کردیا کرے۔جس میں کتابوں اور رسالوں کی ڈسپیچنگ بھی شامل ہوگی‘‘۔بی بی نے صاف جواب دیا ’’فی الحال دلی میں مجھ سے زیادہ شریف کوئی نہیں ہے۔ جب مجھے خود سے زیادہ کوئی شریف مل گیا ‘آپ کو بتا دوں گی‘‘
پروفیسر ریاض دلی کے اقتدار کے کوریڈورز میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں۔لیکن وہ اقتدار کے مقابلہ میں تخلیقی کام کی اہمیت کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اسی وجہ سے اپنی اہلیہ ترنّم ریاض کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں۔جب مجھے اپنے طور پر پروفیسرریاض کی سیاسی اہمیت کا علم ہوا تو میں نے ترنّم ریاض کو لکھا کہ اب تو آپ کو ’’بی بی جی!‘‘لکھنا پڑے گا۔تب جواب آیا مجھے ایسا مت لکھئے گا۔آپ کے ملک کی بی بی(بے نظیر بھٹو) کا یہ حال ہو اہے کہ وہ وطن واپس جانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ سو مجھے میرے وطن میں ہی رہنے دیں۔بی بی جی مت لکھیں۔
’’اردو دنیا‘‘جرمنی کے دوسرے شمارہ(دسمبر ۱۹۹۹ء)میں ترنّم کی ایک تصویر شائع ہوئی۔ رسالے کے ایڈیٹرارشاد ہاشمی ملے تو ایک دوست کا حال بتانے لگے۔دوست نے رسالہ لیا ۔باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔اندر کا صفحہ کھولا اور پھر اسی صفحہ کا ہی ہورہا۔ موصوف بس ترنّم ریاض کی تصویر کو ہی دیکھے جارہے تھے۔ارشادہاشمی انہیں ہوش میں واپس لائے کہ بھائی !رسالہ ابھی آگے بھی ہے۔تب وہ تھوڑا سا خفیف ہوئے اور ورق اُلٹنے لگے۔ویسے تو ’’اردو دنیا‘‘نے بہت اچھی اچھی تصویریں چھاپی ہیں تاہم ترنّم ریاض‘فرزانہ خان نیناںؔ ‘فرحت نواز‘کوکب اختر اور ریحانہ قمر کی تصویریں بلا شبہ خواتین کی خوبصورت تصویروں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔
ڈاکٹر رضیہ حامد بھوپال کی ایک اہم ادبی شخصیت ہیں۔دہلی سے ان کا ایک ادبی رسالہ’’فکر وآگہی‘‘شائع ہوتا ہے۔جس کے خصوصی نمبروں کی خاص اہمیت بنتی ہے۔میری کتاب ’’میری محبتیں‘‘ان کے ہاتھ لگی اور بے حد پسند آئی۔مجھے ان کا جو توصیفی خط ملا اس نے ان کی حوصلہ افزائی سے شرابور کر دیا۔ بے ساختہ لکھی گئی ایسی چند سطریں جو کئی مضامین پربھی بھاری ہیں۔صرف پہلی سطر سے ہی ان کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:’’میری محبتیں کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی‘‘
ڈاکٹر رضیہ حامد کا ادارتی کام ہو یاتصنیف وترتیب و تدوین کا۔۔۔ ، وہ سکہ رائج الوقت کی بجائے اپنے اصل موضوع پر سنجیدہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔انہوں نے اپنے والد مرحوم کے حوالہ سے محبت میں گندھا ہوا مختصر مگر بھرپور کام کیا ہے۔مجھے لگا کہ میں نے ’’میری محبتیں‘‘ میں جو چند چراغ جلائے تھے،ان کے نتیجہ میں حقیقی اور محبت کے رشتوں کے مزید چراغ جلنے شروع ہو گئے ہیں۔ آج کے عہدِ ناسپاس میں جب قریبی رشتے ٹوٹ پھوٹ کی تاریکی کا شکارہورہے ہیں،ضروری ہے کہ ان رشتوں کی اہمیت کو قلبی حوالوں سے روشن کیا جائے۔
میرے تئیں ڈاکٹر رضیہ حامد بہت زیادہ خلوص اور تعلقِ خاطر رکھتی ہیں۔ان کے شوہر حامد صاحب اور ان کے ساحبزادے عامر میاں سے بھی میرا رابطہ رہتا ہے۔میں اس اخلاص اور محبت کی تفصیل یہاں درج نہیں کر سکتا کہ اس کے لیے تو ایک پورا مضمون درکار ہوگا،تاہم یہ حقیقت ہے ڈاکٹر رضیہ حامد کی حوصلہ افزائی میرے لیے بڑی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہے۔اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔
رؤف خیر بہت اچھے دوست ہیں۔ایک بار ان کا خط آیا تو ان سے رابطہ ہوا۔پھر یکایک رابطہ ٹوٹ گیا۔میں نے کافی انتظار کے بعد دوستانہ خفگی کے ساتھ انہیں خط لکھا۔اس کے جواب میں انہوں نے جو خط لکھا اُس سے مجھے بڑی دلی تقویت ملی۔ حالانکہ رؤف خیر نے میری بعض کتابوں کے مطالعہ کے بعد مجھے اپنے خوبصورت تاثرات سے خاصا حوصلہ دیاہے۔ تاہم یہ خط اتنا خوش کرنے والا ہے کہ میں اس کا ایک حصہ یہاں درج کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں سے رؤف خیر کی محبت کے ساتھ بہت ساری دوسری اَن دیکھی ادبی محبتوں کا بھی انکشاف ہورہا ہے۔خط تاخیر سے لکھنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بیان کیا:
’’حکومتِ مغربی بنگال کی دعوت پر کلکتہ گیا جہاں ٹیپو سلطان صدی تقاریب کے سلسلے میں ایک کُل ہند مشاعرہ ۳؍مئی کو منعقد ہوا۔وہیں ماہیا نگاروں سے ملاقاتیں رہیں۔فراغ روہوی‘ضمیر یوسف‘نسیم فائق‘نوشاد مومن‘محسن باعشن حسرت وغیرہ وغیرہ سب آپ کے عشق کے گرفتار نکلے‘یعنے ؂
ہم ہوئے ‘تم ہوئے کہ مِیرؔ ہوئے
اُن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
آپ پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ رہتے کہاں ہیں اور کہاں کہاں اپنے چاہنے والے پیدا کر رکھے ہیں‘‘
ایسی وضاحت کے بعد کون کافر رؤف خیر سے ناراض رہ سکتا تھا۔ویسے مِیرؔ کا شعر مجھ پر فِٹ کرکے رؤف خیر نے کچھ اچھا نہیں کیا کیونکہ اس میں زلف کا ذکر آتا ہے اور میں تو کب کا ’’فارغ البال‘‘ہوچکا ہوں۔
کلکتہ  کا  جو  ذکر  کیا  تو  نے    ہم نشیں
اک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
کلکتہ کے کچھ اور دوست بھی مجھے یاد آرہے ہیں۔اختر بارک پوری‘شمیم انجم وارثی‘احمد کمال حشمی‘کچھ اور نام فی الوقت بھول رہا ہوں۔یہ سب بھی اَ ن دیکھی محبت کے زمرے میں شامل ہیں۔خدا سب کو خوش رکھے۔یہاں کسی فلمی گیت کا ایک شعر یاد آگیا ہے ؂
پیار جھوٹا نہ ہو ‘ پیار کم ہی سہی
ساتھ دے تو کوئی‘ دوقدم ہی سہی
مانسہرہ سے ایک دن مجھے ایک خط ملا۔کوئی جان عالم صاحب تھے۔ایک سہ ماہی رسالہ’’شعرو سخن‘‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔ مجھ سے تعاون چاہتے تھے۔میں نے انہیں اپنی ایک دو کتابیں فراہم کردیں۔چند تخلیقات بھیج دیں۔سالانہ چندہ بھی اداکردیا لیکن یہ صاحب تو جان کو آگئے۔میں نے یہی سمجھا کہ رسالہ کیلئے مزید چندہ درکار ہوگا۔لیکن پھر پتہ چلا کہ رسالے کا چندہ تو کہیں رستے میں ہی رہ گیا ہے ۔جان عالم میرے خاکوں اور افسانوں سے بہت خوش تھے۔شاعری بھی انہیں پسند تھی لیکن میری نثر کی بہت تعریف کرنے لگے۔اسی دوران میں نے اپنے سفرنامہ’’سُوئے حجاز‘‘کا ایک باب انہیں اشاعت کے لئے بھیجا ۔ساتھ ہی لکھا کہ اسے سہولت کے ساتھ چھاپ سکیں تو چھاپیں ورنہ بیشک رہنے دیں۔دراصل میرے اس سفرنامہ میں از خود بہت ساری ’’بریلویت‘‘آگئی تھی اور بعض دوستوں کی دل شکنی کا بھی خدشہ تھا۔جان عالم نے وہ قسط چھاپ دی اور ہر طرح سے خیروعافیت رہی۔
یوں جان عالم سے دوستی میں فکری مکالمہ شروع ہوا۔میں حیران ہوا کہ جان عالم نے کم عمری میں ہی کتنا سفر طے کر لیا ہے۔یہ نوجوان روحانیت کی دنیا سے گزرتا ہواسوالات کی دنیا میں آ گیا۔سوال اُٹھتے رہے اور اس کی جستجو بڑھتی رہی اور جان عالم کی جان یقین اور گمان کے بیچ اَٹکی رہی۔کسی سے سوال کرتے ہوئے بھی ڈرتا کہ کہیں کوئی جواب دینے کی بجائے فتویٰ ہی نہ صادر کردے۔کم ظرف لوگ تو ماہیے کی بحث میں بھی فتویٰ صادر کرنے سے باز نہیں آئے۔جان عالم کے پاس تو ویسے بھی بڑے تیکھے سوال تھے۔اسی دوران اسکی زندگی کئی زاویوں میں بٹتی گئی۔ اچھائی اور برائی کے چکر میں ہی خواہشوں کا سفر شروع ہوگیا۔لوگ ‘ آئے‘ گئے۔۔۔۔کچھ زخم‘ کچھ یادیں‘۔۔۔احساسِ محرومی‘۔۔۔احساسِ نارسائی۔۔۔ سب جمع ہوتا رہا۔
پھر اس نے سر سید احمد خاں‘مولانا اسلم جیراج پوری‘مولانا عبداﷲ چکڑالوی‘مولانا غلام احمد پرویزجیسے قرآنی فکر کے داعیوں کو پڑھا۔اسے لگا کہ یہاں تو ہر شے کا منطقی جواب دیا جارہا ہے۔سوال مرتے جارہے ہیں۔غیر محسوس طریقے سے جستجو کے ساتھ روح کو بھی ما را جارہا ہے۔چنانچہ جان عالم مادیت پرست افکار والی پُر کشش تفاسیر کے سحر سے بھی نکل آیا اور پھر اسے لگا کہ جنہیں میں نے سوال سمجھا تھا وہ توسرے سے سوال تھے ہی نہیں۔سوال تو وہ ہوتے ہیں جن کے پیچھے جہانِ حیرت ہو۔ یوں حیرت کی تلاش میں تصوف کی طرف راغب ہوا۔اور پھر تصوف کی دنیا سے بھی نکل آیا۔اس کے تجربے کے مطابق ہر انسان کے اندر ایک صوفی موجود ہے بس اسے تخلیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن یہ بھی ہے کہ تصوف درحقیقت ہمیں صرف سفر کی طرف Stimulateکرتا ہے‘خود سفر نہیں ہے۔ہم mediumکو منزل سمجھ کر رستے میں رُک جاتے ہیں۔ جان عالم کے نزدیک تصوف کی شان یہ ہے کہ دنیا کے اند ر رہتے ہوئے دنیا سے کاٹ کررکھ دے۔جیسے حضرت علیؓکا تِیر نماز کے دوران نکالا جاتا ہے اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔اب عالم یہ ہے کہ جانِ عالم کہیں بھی نہیں ہے اور ہر جگہ تھوڑا تھوڑاموجود بھی ہے۔اس سارے سفر کے نتیجہ میں مطالعہ ء قرآن اور مطالعہ ء حدیث کو اس نے حرزِ جاں بنالیا ہے۔ایسا شخص جو اپنے ارد گرد کے ڈر سے کسی سے سوال پوچھنے کی ہمت نہ رکھتا ہو ‘کیا اُس سے یہ سارے بھید دوستی کی گہری حد تک گئے بغیر اگلوائے جاسکتے تھے؟اور کیا محض ایڈیٹر اور رائٹر کے رشتے سے ایسا فکری مکالمہ کیا جاسکتا تھا؟مجھے خوشی ہے کہ ایک ایسا شخص میری تحریروں کا فین ہے جس کے فکری سفر کے باعث میں خود اس کا فین ہوں۔یوں بھی ہم اپنے اپنے فکری اسفار میں کہیں آس پاس سے ضرور گزرتے ہیں۔اسی لئے اس نوجوان کی دوستی سے مجھے ایک الگ سی خوشبو آتی ہے۔
ماہیے کی بحث چٹخی تو راولپنڈی سے مجھے تین دوست یکے بعد دیگرے ملے۔عارف فرہاد‘محمد وسیم انجم اور اختر رضا کیکوٹی ۔ ۔ ۔ عارف فرہاد تخلیقی لحاظ سے زیادہ فعال ہیں تاہم مجھے ان تینوں دوستوں سے خلوص کی ایک جیسی مہک آتی ہے۔عارف فرہاد نے راولپنڈی سے ماہیے کے فروغ کے لئے بنیادی نوعیت کی خدمات انجام دی ہیں۔میری دو کتابیں ’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘ اور ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘عارف فرہاد کی محنت کے نتیجہ میں شائع ہوسکی ہیں۔انہوں نے انہیں اپنے ادارہ’’فرہاد پبلی کیشنز‘‘ کے زیرِ اہتمام شائع کیا ۔
محمد وسیم انجم نے بھی اپنی بساط کے مطابق ماہیے کی ترویج کے لئے خاصا کام کیا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ وسیم انجم اور عارف فرہاد دونوں کو وہاں کے بعض ماہیا مخالفین کی مقتدر حیثیت کے باعث ذاتی طور پر مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود ماہیے کے تئیں اور میرے لئے ان کے اخلاص میں کوئی کمی نہیں آئی۔وسیم انجم سے دوستی عارف فرہاد کے ذریعے سے ہوئی تھی۔میری تین کتابیں’’میری محبتیں‘‘۔’’عمرِ گریزاں‘‘ اور’’محبت کے پھول‘‘ انہوں نے عارف فرہاد کے ہاں دیکھیں۔ان سے وہ کتابیں لے کر ان پر ایک دلچسپ سا مضمون لکھا اور اسے شائع کرا دیا۔یوں ہمارا رابطہ ہوا۔پھر انہوں نے میری دوسری کتابوں پر بھی مضامین لکھے اور جلد ہی ایک کتاب’’حیدر قریشی فکرو فن‘‘مکمل کرکے چھاپ دی۔وسیم انجم مزاجاََ اور فطر تاََ دوستی نبھانے والے ‘محبت کرنے والے اور مخلص نوجوان ہیں۔ان کے ذریعے پھر مجھے ماہیا نگار اختر رضا کیکوٹی کی دوستی نصیب ہوئی ۔یہ تب ویکلی ’’ہوٹل ٹائمز‘‘اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے۔میری کتابیں انہوں نے وسیم انجم سے لے کر پڑھیں اور ہماری دوستی ہو گئی۔ماہیے کے فروغ کے لئے انہوں نے اپنے اخبار کا فورم مہیا کردیا ۔مجھ سے محبت میں اس حد تک گئے کہ میرے ردِ عمل والے وہ مضامین جو کوئی اور اخبار یا رسالہ چھاپنے سے ہچکچاتا تھا انہوں نے بے دھڑک اپنے اخبار میں چھاپے‘ خود میرے لئے اپنے اخبار کے دوصفحات مختص کر کے اور اس پر میری حیثیت سے بڑھ کر عنوان دے کر میری عزت افزائی کی۔ عارف فرہاد ‘محمد وسیم انجم اور اختر رضا کیکوٹی تینوں دوست راولپنڈی میں میرے اَن دیکھے لیکن بے حد جانے پہچانے دوست ہیں۔سچی بات ہے ان کی دوستی میرے لئے بڑی تقویت کا باعث بنی ہے۔
دو ماہی’’گلبن‘‘احمد آبادکے ایڈیٹر سیّد ظفر ہاشمی سے تعلق کی نوعیت بھی نذیر فتح پوری کی طرح بہت پرانی اور غائبانہ تھی۔ ’’گلبن‘‘کے اجراء کے تھوڑے عرصہ بعد ہی اس میں میری بعض تخلیقات شائع ہوئیں۔یہ تخلیقات ڈاکٹر مناظر عاشق کے ذریعے سے چھَپیں۔تب وہ ’’گلبن‘‘سے براہِ راست وابستہ تھے۔ پھر ان سے ۱۹۹۳ء میں رابطہ ہوا۔میں نے ’’ماہیے کے بارے میں چند باتیں‘‘کے عنوان سے ایک تعارفی نوٹ لکھا اور ماہیے کا ایک انتخاب کرکے انہیں بھیجا۔انہوں نے اسے اہتمام سے شائع کیا۔پھر ’’گلبن‘‘ماہیے کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا رسالہ بن گیا۔اس کا ماہیا نمبر شائع ہوا۔لیکن میرے تعلق کی نوعیت ماہیے کی حد سے آگے چلی گئی۔ایک دوسرے سے ملے بغیر ہمارے فیملی مراسم ہوگئے۔ اب بھابی ثریا اور میری بھتیجی سیما نہ میرے لئے اجنبی ہیں نہ میں ان کے لئے اجنبی ہوں ۔ سید ظفر ہاشمی کے ساتھ یہ مراسم ان کے خلوص اور محبت کا نتیجہ ہیں ۔
ابھی مجھے علامہ شارق جمال(ناگپور)‘قاضی حسیب(کراچی)‘سیّد اخترالاسلام (میرٹھ) ‘ شفیق سرونجی‘سلیم انصاری‘ساجد حمید(شیموگہ)‘غیاث انجم(بکارو سٹیل سٹی)‘ناوک حمزہ پوری‘ظہیر غازی پوری ‘محسن بھوپالی(کراچی)‘نیاز احمدصوفی(لاہور)‘بشری رحمن (لاہور) ‘ شاہدہ ناز(جہلم)قاضی اعجاز محور(گوجرانوالہ)،ذوالفقار احسن(سرگودھا)اور کئی اور نام یاد آ رہے ہیں۔ان میں سے بعض کے ساتھ میرے باقاعدہ دوستانہ تعلقات ہیں۔بعض سے براہِ راست رابطہ نہیں لیکن وہ میری تحریریں پڑھ کر اپنی محبت بھری رائے رسائل میں ہی بھیجتے رہتے ہیں۔ان کے جذبات پڑھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ یہ لوگ تو کسی ربط کے بغیر صرف تحریر پڑھ کر خوشی کا اظہار کرنے والے مخلص لوگ ہیں اور تب ہی میں انہیں بھی اپنے اچھے دوستوں میں شمار کرتا ہوں۔
ناوک حمزہ پوری صاحب کے ساتھ تعلق میں پہلے بزرگی کا ایک حجاب سا تھا۔بعد میں انہوں اپنی بے تکلفی سے اسے بھی دور کردیا۔شارق جمال صاحب کے ساتھ بزرگی والا حجاب آج بھی قائم ہے لیکن مجھے ان کی محبت کا ہمیشہ احساس ہوتا ہے۔ظہیر غازی پوری کے ساتھ ابھی تک میری جھڑپیں ہی ہوئی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم اس کے باوجود ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں۔اسی لئے ان سے جھگڑوں کے باوجود مجھے ان سے بھی اپنائیت کی خوشبو آتی ہے۔ایک گمشدہ دوست ذکاء الدین شایاں ہیں۔’’جدید ادب‘‘کے پہلے دور میں ان سے بڑی دوستی رہی ۔پھر پتہ نہیں کیا ہوا میں ابھی بھی انہیں دل سے یاد کرتا ہوں۔
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی سے دوستی کی نوعیت کچھ اور طرح کی ہے۔افسوس کہ ہم نے حال ہی میں ایک دوسرے سے انگلینڈ میں ملاقات کرلی ہے۔یوں وہ اَن دیکھے دوست نہیں رہے وگرنہ ان کے بارے میں تو بہت کچھ لکھنا تھا۔حالانکہ یہ ملاقات بھی کیا تھی۔
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی  آرزو  تھی   ملا قات       کی
ڈاکٹر مناظر کے ذریعے ہی ایک اور دوست ڈاکٹر فراز حامدی سے رابطہ ہوا۔انہیں میں نے بہت ہی مخلص ‘محبت کرنے والا اور دعا گو دوست پایا ہے۔ڈاکٹر جمیلہ عرشی کے بھائی ہی نہیں ادبی رہنما بھی ہیں۔مجھے ان کے ذریعے زندگی کے بعض نئے گوشے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔
ان سارے دوستوں سے ہٹ کر اب ایک ایسے دوست کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔جو مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے۔یہ بہت ہی انوکھادوست ہے۔اس سے میرا کوئی بھی بھید نہیں چھپا۔ایسے بھید جو انسان اپنے آپ سے بھی بعض اوقات چھپانا چاہتا ہے‘ میرے وہ بھید بھی اس کے علم میں ہیں۔اس نے ہمیشہ میرا بھلا چاہا ہے۔میں نے اس کی بات نہیں مانی اور نقصان اٹھایا تو اس نے خود ہی نقصان کی تلافی بھی کردی۔ایک زمانے میں ہمارا شدید قسم کا جھگڑا ہوگیا۔میں نے اس کے زندگی بھر کے احسانات کو نظر انداز کر کے اسے طعنہ دے دیا کہ تم ہو ہی کیا؟۔۔۔۔۔۔اس نے تب بھی بُرا نہیں منایا۔ حالانکہ تب میرے سارے گھر والوں نے بھی مجھے بے حد بُرا بھلا کہا تھا۔ویسے ایک بات ہے بظاہر بُرا نہ ماننے کے باوجود مجھے لگتا ہے اس نے مجھے خاصا رگڑا دلایا ہے۔دوستی میں ایسا بھی تو ہوتا ہے۔خصوصاََ محبت میں تو محبوب ‘محب پر یا محب‘محبوب پر بے وفائی کی صورت میں وار بھی کرا دیتا ہے۔سو اس نے بھی مجھے رگڑے دلائے۔اُن لوگوں کے ہاتھوں جنہیں میں اس سے زیادہ اپنا سمجھ بیٹھا تھا۔
آخر کار مجھے خود ہی اس کی طرف آنا پڑا۔لیکن میری واپسی محض نقصان اور فائدے کے باعث نہ تھی۔میں نے اس عرصہ میں اس کی دوستی اور محبت کا باقی دنیا کی دوستیوں اور محبتوں سے موازنہ بھی کیا اور پھر اس سے از سرِ نَو دوستی کرلی۔تجدیدِ محبت کرلی۔
کیا کوئی کسی ایسے دوست کا تصور کر سکتا ہے جو کبھی سامنے آکر ملا بھی نہ ہو اور اپنے دوست کی خیر خواہی میں ماں ‘باپ‘ بھائی‘ بہن ‘بیوی‘بچوں ‘ مخلص دوستوں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔شاید آپ نے میرے اس بہت ہی پیارے دوست کو پہچان لیا ہے۔جی ہاں یہ میرا خدا ہے! جو ہم سب کا خدا ہے۔ہم سب کا خیر خواہ اور ہم سب سے بے پناہ محبت کرنے والا۔اپنا انکار کرنے والوں کے انکار پر مسکرا کر ان سے بھی محبت کرنے والا۔ مجھے جتنی دوستیاں نصیب ہوئی ہیں میرے اسی دوست کی عنایت سے نصیب ہوئی ہیں۔میں نے خلوصِ دل سے اس سے کہا تھا کہ مجھے بے لوث پیار کرنے والے دوست عطا فرما۔اس نے بے لوث دوستوں کی دولت سے مجھے مالامال کردیا۔اوپر جتنے اَن دیکھے دوستوں کا ذکر ہے وہ سب میرے اسی سب سے بڑے دوست کی محبت کا نتیجہ ہیں۔اسی کی عنایت ہیں ؂
ستم جو ہم پہ کئے اس نے بے حساب کئے
کرم  بھی  کرنے پہ  آیا  تو  بے شمار  دیا
اَن دیکھے دوست انسانوں میں سے ہوں یا خود خد اہو۔ ان کی دوستی فاصلے اور اَن دیکھے ہونے کے باوجودسچے خلوص کی مہک اور سچی محبت کی خوشبو دیتی رہتی ہے ۔یوں دوستی اور تعلق کو جانا پہچانا بنادیتی ہے۔اسی لئے میرے سارے اَن دیکھے دوست میرے لئے جانے پہچانے دوست ہیں اور مجھے ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کی موجودگی کا احساس رہتا ہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen