Freitag, 15. Juli 2011

دعائیں اور قسمت

دعائیں اور قسمت


مذہب کی ایک سطح عقائد اور فروعات سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا کے بیشتر مذہبی جھگڑے اسی سطح سے اُبھرے اور خونریز فسادات کی حد تک گئے۔مذہبی اختلافات اور فسادات کا یہ سلسلہ آج بھی دنیا بھر میں کسی نہ کسی رنگ میں چل رہا ہے۔جبکہ مذہب کی دوسری اور اہم سطح روحانیت سے متعلق ہے۔دنیا کے ہر مذہب اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ صرف اسی کے مسلک پر عمل پیرا ہوکر خدا سے روحانی تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔یوں ہر دعویدار کے بقول دنیا کے ننانوے فیصد مذاہب جھوٹ ہیں اور صرف وہی سچ ہیں۔میرے ایک نِیم دہریہ قسم کے دوست مسعود شاہ ہنستے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ننانوے فیصدمذاہب کو جھوٹ کہنے والے ‘اپنے لئے ایک فیصد جھوٹ بچا لیتے ہیں اور اسے سچ قرار دیتے ہیں۔
معتقدات سے ہٹ کر جہاں تک خدا سے کچھ مانگنے کا تعلق ہے‘میرے نزدیک یہ ہر انسان اور خدا سے اس کے تعلق کی نوعیت پر منحصر ہے۔نسیم سیفی صاحب طویل عرصہ تک بعض افریقی ممالک میں مقیم رہے۔وہ ایک بار بتانے لگے کہ خشک سالی کے باعث قحط کا خطرہ پیدا ہو گیاتو مسلمانوں نے نمازِ استسقاء پڑھنے کے لئے ایک تاریخ کا اعلان کردیا۔اس تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے سِکھ حضرات نے ایک گراؤنڈ میں اپنے طریقِ عبادت کے مطابق اجتماعی دعا کی اور مسلمانوں کے نماز استسقاء پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔برسات نے پہلے ہی دھرتی کو سیراب کردیا۔
’’مظلوم کی دعا اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا‘‘عمومی طور پر انسانی تاریخ اور عصرِ حاضر کی صورتحال کو دیکھیں تو اس فرمان میں ہمیں بے شمار مستثنیات دکھائی دیں گی۔لیکن مجھے ذاتی زندگی میں ہمیشہ اس فرمان کی سچائی کا جلوہ بلکہ جلالی جلوہ دیکھنے کو ملا ہے۔میں جب بھی مظلومیت کی حالت میں ہوا‘میرے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی عام انسان تھا تو وہ بھی خدا کی گرفت سے نہیں بچا اور اگر کسی کو خدا سے تعلق کا کوئی زعم تھا اور اس نے میرے خلاف کوئی ظالمانہ کاروائی کی تو جس نوعیت کی کاروائی کی گئی‘زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندر ویسی ہی کاروائی خود اس کے خلاف ہو گئی یا اس سے بھی زیادہ رُسوائی اسے بڑے پیمانے پر مل گئی۔ میں نے ایک چیز اور بھی نوٹ کی ہے۔اگر میں کسی کی زیادتی کا بدلہ خود لے لوں تو میرا بدلہ ہی اس کی سزا ہوتا ہے۔لیکن اگر میں کسی سے بدلہ نہ لے سکوں۔۔۔خواہ مجبوری کے باعث‘خواہ صبر کرکے۔۔۔میری خاموشی کے نتیجہ میں ظالم کو قدرت کی طرف سے ایسی سزا ملی کہ میں خود بھی بعض اوقات دُکھی ہو گیا کہ مولا! اتنی کڑی سزا تو انہیں نہ دینا تھی۔بعینہٖ اگر میں کسی کے ساتھ کبھی ناجائز زیادتی کرجاؤں تو مجھے بھی خدا کی طرف سے سزا ملنے کا احساس ہوتا ہے اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ فلاں زیادتی کی سزا ہے۔
چند قرآنی اور مسنون دعائیں مجھے بچپن میں رٹا دی گئی تھیں۔ان کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن میں جب کسی دُکھ کی حالت میں ہوتا ہمیشہ اپنی زبان میں خدا سے دعا کرتا۔بہت بار ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے دعا کی اور اسی حالت میں مجھے دعا کی قبولیت کا یقین بھی ہو گیا۔جب بارہا ایسا ہوا تو میں نے اپنے بعض قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا۔اس بتانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو دعا بظاہر قبول ہو چکی تھی‘ایک لمبے وقفہ تک معلّق ہو گئی۔دو تین بار ایسے جھٹکے لگنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قبولیت دعا کا نشان تو خدا کے مامورین اور اولیاء کے لئے مخصوص ہے۔میری کسی بھی دعا کا قبول ہونا میرا انفرادی معاملہ ہے۔اگر میں اسے دوسروں کو بتاؤں گا تو مقامِ ولایت پر قدم رکھنے جیسی جسارت کروں گا‘جس کا میں اہل ہی نہیں۔سو اسی لئے وہ دعائیں جن کی قبولیت کے بارہ میں دوسروں کو بتا دیتا ہوں‘لمبے عرصہ کے لئے ردّو قبول کے درمیان معلّق ہوجاتی ہیں اور یہی میرے افشاء کی سزا ہوتی ہے۔
عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف
نہ  مسترد  ہوئے اب تک  نہ  مستجاب  ہوئے
اپنی زبان میں دعاؤں کا میرا سلسلہ اُس وقت متزلزل ہونے لگا جب میں نے ۱۹۸۶ء میں اپنے ابا جی اور امی جی کی لمبی عمر کی دعائیں مانگنا شروع کیں اورمیرے دیکھتے ہی دیکھتے میرے دونوں بزرگ دنیاسے چل بسے۔پھر میں نے اپنے باباجی(تایا جی)کے لئے یہی دعا کی اور وہ بھی فوت ہوگئے۔تب میں جو بھی دعا کرتا اُس کی تاثیر اُلٹ ہوجاتی ؂
جو  دعا  کرتے تھے  اُلٹا ہی  اثر ہوتا تھا
تیری چاہت کی دعا رب سے بچا لی ہم نے
اسی دوران مجھے پھٹی پرانی اور خستہ سی حالت میں قرآنی اور مسنون دعاؤں کی ایک چھوٹی سی کتاب ملی۔ہر دعا کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی درج تھا۔مجھے یہ کتاب کیا ملی‘نئی زندگی مل گئی۔اسے لاہور سے کے۔ اے۔ عزیز نے شائع کیا تھا۔انہیں اور ان کی اولاد کو میں آج بھی اپنی دعاؤں میں شامل رکھتا ہوں۔اس کتاب کے ذریعے مجھے پہلی بار صبح اور شام کی مسنون دعاؤں کا علم ہوا۔پھر دن بھر میں پیش آمدہ مختلف مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے والی دعائیں۔خیروبرکت کی دعاؤں سے لے کر ’’سید الاستغفار‘‘ تک دعاؤں کا ایک خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا۔تب میں نہ صرف بے روزگار تھا بلکہ ۸۰ ہزار روپے کا مقروض ہو چکا تھا۔اور بعض’’صاحبِ ایمان‘‘لوگ مجھے ’’ کیفرِ کردار ‘‘ تک پہنچا کر اپنی صداقت کا نشان بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔
ان دعاؤں کو میں نے اتنی بار دل کی گہرائی سے پڑھا کہ مجھے زبانی یاد ہوگئیں اور آج بھی میرے روزانہ وظیفہ کا حصہ ہیں۔اگرچہ ان کے وِرد میں اب پہلے جیسی لذّت اور کیفیت تو نصیب نہیں ہوتی(اس کی وجہ میری اپنی داخلی کیفیت ہے)‘تاہم میں نے ان دعاؤں کو آج بھی حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ان کے نتیجہ میں پہلے مرحلہ میں مجھے پاکستان انٹرنیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں اردو پڑھانے کی بہت عمدہ جاب مل گئی اور دوسرے مرحلہ میں مجھے جرمنی پہنچنا اور یہاں سیٹ ہونا نصیب ہو گیا۔یہ دعائیں مختلف کتابچوں کی صورت میں دینی کتب کی دوکانوں سے باآسانی مل جاتی ہیں۔اپنے ذاتی تجربہ نہیں‘پیہم تجربات کی بنیاد پر میں دعا کا ایک مسنون نسخہ سارے دوستوں کے لئے یہاں بیان کئے دیتا ہوں۔جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سورۃ یاسین اور سورۃ صافات پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا لیں اور خدا سے کوئی ایک(صرف ایک)دلی مُراد مانگیں۔
جائز مُراد ہونے کی صورت میں ایک دو جمعوں میں ہی مُراد پوری ہو جاتی ہے۔کوئی بہت ہی مشکل قسم کا کام ہو تو اس کی مشکل کے مطابق وقت زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔لیکن ثابت قدمی سے اور باقاعدگی سے یہ وظیفہ جاری رکھنا ضروری ہے۔میں نے جرمنی پہنچنے کے لئے لگ بھگ دوسال تک یہی مُراد مانگی تھی اور یہ میری سب سے طویل دورانیے کی دعا تھی۔دعا کا یہ طریق مسنون ہے لیکن مُراد مانگتے وقت ہر بندے کا خدا کے ساتھ اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔میں تو ضد کرکے بیٹھ گیا تھا۔رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا ’’میں نے جرمنی جانا ہے۔مجھے جرمنی پہنچائیں‘‘کی رَٹ لگا دی تھی۔دو سال تک رُلانے کے بعد خدا نے نہ صرف یہ مُراد پوری کردی بلکہ اس کے ساتھ اور بھی بہت ساری دعائیں از خود پوری ہو گئیں۔
یہاں جرمنی میں میرے ایک دوست ہیں ارشادہاشمی صاحب۔کمپیوٹر انجینئر ہیں۔بہت ہی بھلے آدمی ہیں۔آج کل جرمنی سے ایک ادبی خبر نامہ’’اردودنیا‘‘بھی نکال رہے ہیں۔ایک بار انہوں نے اپنی بعض ذاتی پریشانیوں کی بابت بتایا تو میں نے انہیں مخصوص دعاؤں کے وِردکی تحریک کی۔دعاؤں والی وہ پھٹی پرانی کتاب میں نے آج بھی بہت سنبھال کررکھی ہوئی ہے۔میں نے ہاشمی صاحب کو وہ کتاب دیتے ہوئے کہا اس کی فوٹو کاپی کرالیں۔ان دعاؤں کے باعث میرے سارے دُکھ دور ہو گئے ہیں۔ہاشمی صاحب نے کتاب میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے مسکرا کر کہا :
’’اب آپ باقاعدہ طور پر کہہ سکتے ہیں‘ ۔ ؂لے جا مِری دعائیں لے جا‘‘
دعاؤں کی کتاب کے ساتھ انہوں نے برجستہ طور پر جو گانا جوڑ دیا تھا‘اس پر میں بھی بے ساختہ مسکرا دیا۔
بیدار ہونے اور رات کو سونے سے پہلے کی دعائیں اور فجر کی نماز کے بعد کی بہت ساری دعائیں۔۔۔اوران کے علاوہ میری زندگی سے گہر ا تعلق رکھنے والی بعض دعائیں ایسی ہیں جن کا میں دن میں ایک بار مکمل وِرد کرتاہوں۔اپنی جاب پر جاتے ہوئے مجھے بذریعہ ٹرین آدھے گھنٹے کاسفر کرنا ہوتا ہے اور اس عرصہ میں ان ساری دعاؤں کا ورد مکمل کرلیتا ہوں۔ورد کرتے ہوئے ہونٹ تو بہر حال ہلتے ہیں۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے سامنے کوئی گوری بیٹھی ہے اور میرے ہِلتے ہوئے ہونٹوں کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔وِرد کرتے ہوئے میں عموماََ غضِّ بصر سے کام لیتا ہوں۔اس کے باوجود کبھی کبھار نظر اُٹھ تو جاتی ہے۔ایک بار عام گوریوں سے کہیں زیادہ خوبصورت گوری میرے سامنے آبیٹھی اور میرے وِرد پر اس کی حیرت بھی غیر معمولی سی لگی۔مجھے لگا یہ ابھی مجھ سے پوچھ بیٹھے گی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں؟۔۔۔اُس نے تو نہیں پوچھا لیکن اپنی اُس وقت کی حالت پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا اور وظیفہ کے دوران ہی ایک شریر سی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی۔لطیفہ یوں ہے:
ایک صاحب اپنے دوست کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہاں ایک پنجرے میں دو طوطے بند ہیں۔ایک طوطا حالتِ سجدہ میں ہے اور ایک طوطا مسلسل تسبیح کر رہا ہے۔وہ صاحب دونوں طوطوں کی شرافت اور نیکی سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے دوست سے کہنے لگے میرے پاس ایک طوطی ہے جو بہت شرارتی ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو وہ طوطی دوچار ہفتوں کے لئے آپ کے طوطوں کے پاس چھوڑ جاؤں تاکہ ان کی رفاقت میں طوطی کی بھی تربیت ہو جائے۔دوست راضی ہو گیا تو وہ صاحب اپنی طوطی لے آئے۔جیسے ہی طوطی کو طوطوں والے پنجرے میں ڈالا گیا‘تسبیح والے طوطے نے فوراََ اپنی تسبیح پرے پھینکی اور سجدہ ریز طوطے کو ہلا کر کہنے لگا:یار! اُٹھ جاؤ‘آخر ہماری دعا قبول ہو ہی گئی۔
دعاؤں کے سلسلے میں میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اگر کوئی دعا بہت زور لگانے کے باوجود بھی قبول نہیں ہوتی تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ اس دعا کا قبول نہ ہونا ہی میرے حق میں بہتر ہے۔اس سلسلے میں یہ قرآنی فرمان ہمیشہ میرے مدِّ نظر رہتا ہے کہ بہت سی باتیں ہیں‘جنہیں تم اپنے لئے بہتر سمجھتے ہو لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہیں۔اور بہت سی باتیں ہیں جنہیں تم اپنے لئے بہتر نہیں سمجھتے لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہوتی ہیں۔اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔۔۔۔دعا کی ایک اور قِسم جو قبول نہیں ہوتی وہ تقدیرِ مبرم سے متصادم دعا ہے‘ جب ایک چیز مقدّر میں ہی نہیں ہے تو دعا کے باوجود اس کا ملنا محال ہے۔
مقدّرکی بات چلی ہے تو یہاں واضح کردوں کہ میں قسمت پر بہت یقین رکھتا ہوں۔میرے لڑکپن میں خانپور میں ہماری ایک ملنے والی خالہ جمیلہ نے میرا ہاتھ دیکھ کر بتایا تھا کہ اس کے حالات ۴۰ سال کی عمر کے بعد ٹھیک ہوں گے‘البتہ یہ باقی سارے بھائی بہنوں سے زیادہ علم حاصل کرے گا۔میں نے ناممکن قسم کے ظاہری حالات کے باوجود ایم اے کرلیا لیکن میرے حالات ۴۰ سال کی عمر کے بعد ہی ٹھیک ہونا شروع ہوئے۔ویسے ہاتھ کی لکیروں کے فیصلوں کے باوجود بھی بعض استثناء نکل آتے ہیں۔مثلاََ میرے ہاتھ پر قسمت کی لکیر‘دماغ کی لکیر سے ٹکرا کر رُک گئی ہے۔میں جب کسی بات پر اَڑ گیا تو بڑے سے بڑے فائدے کو بھی نظر انداز کردیا اور یوں کئی بار اپنا نقصان کیا۔دوسری طرف میری بیوی مبارکہ کے ہاتھ پر قسمت کی لکیر بہت واضح‘صاف اور روشن ہے۔سو میری خوش قسمتی در اصل میری بیوی کی مرہونِ منّت ہے۔اسی طرح میرے ہاتھ پر شہرت کی لکیر نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر محبت کرنے والے چند دوست اچھے لفظوں میں اور مجھ سے برہم احباب مجھے ملامت کرکے بھی یاد کر لیتے ہیں تو اس تھوڑی سی ’’شہرت‘‘کا سبب ابا جی کے دو خواب ہیں۔ابا جی کے وہ دونوں خواب اپنی کتاب’’میری محبتیں‘‘سے یہاں نقل کئے دیتا ہوں:
’’میری پیدائش سے چند ماہ پہلے ابا جی نے یکے بعد دیگر دو خواب دیکھے تھے۔پہلا خواب یہ تھا کہ ایک بڑا اور گھنا درخت ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ابا جی اس درخت کے اُوپر‘عین درمیان میں کھڑے ہوئے ہیں۔یہ خواب سُن کر ابا جی کے ایک دوست روشن دین صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا خواب یہ تھا کہ لمبے لمبے قد والے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھ بلند کرکے ’’حیدر ۔۔۔۔۔۔حیدر ‘‘کے نعرے لگا رہے ہیں۔ان دونوں خوابوں کے چند ماہ بعد میری پیدائش ہوئی۔ابا جی نے اپنے مُرشد کو خط لکھا کہ بیٹے کا نام تجویز فرمادیں‘
مر شد کو ابا جی کے خواب کا علم نہیں تھا۔انہوں نے مجھے حیدر بنا دیا۔‘‘
جبر و قدر کا مسئلہ سُلجھانے کے لئے یا سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بزرگانِ دین سے لے کر فلسفیوں تک ہر کسی نے اپنی اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق اظہارِ خیال کیا ہے۔جبر کی طرف جھکاؤ ہو تو قسمت کا لکھا اٹل قرار پاتا ہے اور تصوّف کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔اختیار کی طرف جھکاؤ ہو تو عمل کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔یوں قسمت سے لے کر دعاتک سب باتیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ اصل حقیقت کہیں اِن دونوں تصوّرات کے بین بین ہے۔
میں ذات پات کا قائل نہیں ہوں لیکن مجھے نسلی حوالے کے اثرات کا تھوڑا بہت احساس ضرور ہوا ہے۔مثلاََ قریشی ہونے کے ناطے مجھے کسی روحانی سفر میں کسی مقام تک پہنچنے کے لئے دس قدم چلنا پڑتا ہے تو کسی دوسرے کو شاید بیس‘تیس یا چالیس قدم چلنے کے بعد وہاں پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔اس کے باوجود اگر کوئی قریشی اس طرف پیش قدمی ہی نہ کرے تو وہ روحانیت سے محروم ہوتا چلا جائے گااور دوسرے اپنی کم رفتاری کے باوجود قربِ خداوندی میں آگے بڑھتے جائیں گے۔ہندؤں کے ذات پات کے تصوّر کو انسانی حوالے سے اب درست نہیں ماناجا سکتا لیکن اس میں بھی کہیں کوئی جزوی سچائی ضرور ہے ۔ انسانوں کی طبقاتی تفریق کو الگ رکھیں۔ہر انسان کے خود اپنے وجود کے بھی کئی طبقے بنے ہوئے ہیں۔دماغ برہمن کی طرح خود کو افضل سمجھتا ہے اور دل کے توسط سے باقی جسم سے رابطہ رکھتا ہے۔دائیں ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ کمتر ہے۔جسم کے نیچے کے حصہ کو صاف رکھنے کے باوجود ہم خود ایک اچھوت ہی سمجھتے ہیں۔
اس قسم کے خیالات کی کشمکش اپنی جگہ۔۔۔۔میری معمول کی دعاؤں میں ڈیڑھ برس پہلے ایک اور اضافہ ہوا۔میں صبح‘شام تینوں قُل شریف تین تین بار پہلے ہی سے پڑھتا ہوں۔لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلے میں سویا ہواتھا۔نیند میں ہی میں سورۃ فلق پڑھ رہا تھا۔اسی حالت میں آنکھ کھُل گئی تو میرے ہونٹوں پر سورۃ فلق اسی طرح جاری تھی۔جاگنے کے باوجود میرے ہونٹ اس وقت تک ہِلتے رہے جب تک میں نے سورۃ الناس مکمل کر کے درود شریف پڑھ نہیں لیا۔تب میں بیداری کے بعد پھر بیدار ہوا۔مجھے محسوس ہوا کہ اپنے اندر اور اپنے باہر کے دشمنوں اور جنّات سے محفوظ رہنے کے لئے مجھے سورۃ معوذتین کا وِرد کثرت سے کرتے رہنا چاہئے۔چنانچہ خاص طور پر پیدل ‘بس یا ٹرین سے سفر کرتے ہوئے ‘اپنی مخصوص دعاؤں کا وِرد مکمل کرنے کے بعد میں سفر کا بیشتر وقت سورۃ معوذتین کو بار بار پڑھنے میں صَرف کرتا ہوں۔ اس وِرد کے دوران مجھے کئی بار محسوس ہوا کہ میرے دشمنوں کے وار ضائع ہوتے جارہے ہیں یا اُنہیں پر اُلٹتے جا رہے ہیں۔باہر کے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے دشمن مجھے اپنے رُوبروبے چارگی سے بیٹھے دکھائی دئیے اور اندر کے لاکھوں میل دور رہنے والے دشمن مجھے دُور بھاگتے دکھائی دئیے۔یہ محض کسی ادیب کی لفظ گری نہیں ہے۔میں نے حقیقتاََ اپنے باطن کے کشف سے بارہا ایسا دیکھا ہے۔
اب یہی دعا ہے کہ کہ ایسی ہی دافع البلیّات دعاؤں کے سائے میں زندگی کا یہ سفر آسانی کے ساتھ‘حفاظت کے ساتھ‘اور بے حد آرام و سکون اور اطمینان کے ساتھ مجھے اگلی دنیا میں لے جائے۔موت میرے لئے دُکھ کا مُوجب نہیں راحت کا مُوجب بنے۔ہجر کا احساس نہیں بلکہ وصل کا پیغام ہو اور وصل کا راحت بھرا پیغام تو جب بھی آئے‘عشّاق کی خوش نصیبی ہوتا ہے۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen