Freitag, 15. Juli 2011

بندۂمزدور کی اوقات

بندۂمزدور کی اوقات


۱۹۶۸ ؁ء میں جب میں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا ‘میری عمر ۱۶ سال ہو چکی تھی جبکہ سرکاری کاغذات کے مطابق میں ابھی ۱۵ برس کا ہوا تھا۔رزلٹ آنے کے بعد میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں اب ملازمت کرنا چاہتا ہوں اور ملازمت کے ساتھ اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھوں گا۔تب ابا جی نے حئی سنز شوگر ملز کے جنرل مینجر عزیز حسین کی بیگم سے بات کی ‘انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ملازمت کرنے کی بات سن کر کہنے لگیں:ہائے ۔۔۔ہائے وہ تو ابھی بالکل ہی بچہ ہے۔۔۔۔۔بہر حال ان کی سفارش پر مجھے شوگر مل میں لیبارٹری سیمپلر کی مزدوری مل گئی۔یہ شاید مشقت کے لحاظ سے کافی آسان مزدوری تھی۔اس مزدوری کو پانے کے لئے مجھے اُس وقت سول ہسپتال خانپور کے ڈاکٹر محمد اکبر ملک سے اپنی عمر کا ایک سرٹیفیکیٹ لینا پڑا‘جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ لڑکا اٹھارہ سال کا ہوچکا ہے۔اس سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لئے مجھے مبلغ۲۰روپے’’فیس‘‘کے طور پر ادا کرنے پڑے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے میری نبض دیکھ کر ہی سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تھا۔لیب سیمپلر کی حیثیت سے میری تنخواہ ۷۸روپے ماہانہ تھی۔ڈھائی مہینے کے بعد مجھے لیبارٹری بوائے بنا دیا گیا اور تنخواہ ۱۰۴روپے ماہانہ ہوگئی۔تین سال کے بعد لیبارٹری انالسٹ کی ترقی ملی تو میری تنخواہ ۱۵۰روپے سے ۲۰۰روپے ماہانہ کے لگ بھگ ہو گئی‘ اسی دوران میں ۱۹۷۴ ؁ء کے سیشن تک اپنے ایف اے‘بی اے اور ایم اے کے امتحان پاس کر گیا۔
جب مبارکہ اور بچے جرمنی آنے والے تھے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی عمر تقریباََ آٹھ سال تھی۔شعیب نے اس سے پوچھا کہ آپ جرمنی کیسے جائیں گے؟تو ٹیپو نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔۔’’یا ہوائی جہاز سے جائیں گے یا تانگے سے جائیں گے‘‘ٹیپو کی یہ بات اس لئے یہاںیاد آگئی کہ اس سے ملتا جلتا اپنے مَن کا بھولپن یاد آ گیا ہے۔دسویں کا رزلٹ آنے سے پہلے میں من ہی من میں ارادہ بنایا کرتا تھاکہ نوکری کے ساتھ پڑھائی کروں گا۔یا تو گریجوایشن کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھوں گا اور ایک دن ڈپٹی کمشنر بنو ں گا‘یاپھر وٹرنری ڈاکٹر بن جاؤں گا۔ڈپٹی کمشنر بننے کی آرزو تو پھر بھی ممکنات میں سے تھی لیکن وٹرنری ڈاکٹر بننا تو ممکن ہی نہیں تھا۔دسویں میں میرے مضامین آرٹس گروپ کے تھے۔اس میں جنرل سائنس کا مضمون بھی میں نے مر مر کرپاس کیا تھا۔وٹرنری ڈاکٹر بننے کے لئے تو ایف ایس سی کرنا پہلی سیڑھی تھی جو میرے لئے بذریعہ تانگہ جرمنی جانے سے زیادہ مشکل تھی۔بہر حال شوگر مل کی نوکری کے پہلے دن جب مجھے لیبارٹری کی کھڑکیوں کے شیشوں اور فرش کی صفائی کرنا پڑی تو میرے اندر کے ڈپٹی کمشنر اور وٹرنری ڈاکٹر دونوں کی موت واقع ہو گئی۔صفائی کرتے ہوئے‘اپنے دوسرے ساتھیوں سے منہ چھُپا کر میں ان دونوں کی موت پر باقاعدہ آنسوؤں سے روتا رہا۔
اس ملز کی شفٹوں کی ڈیوٹی کے اوقات کار یوں تھے:صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کی شفٹ ‘شام چھ بجے سے نصف شب دو بجے تک کی شفٹ اور رات دو بجے سے صبح دس بجے تک کی شفٹ۔ہر ہفتے کے بعد شفٹ تبدیل ہو جاتی۔ملازمت بھی سیزنل تھی۔گنے کا سیزن ختم ہو جاتا تو ہمیں فارغ کردیا جاتا۔اس کا فائدہ یہ ہواکہ ان فارغ مہینوں میں مجھے اپنی پڑھائی پر زیادہ دھیان دینے کا موقعہ مل جاتا۔ ۱۹۷۱ء میں میری شادی ہو گئی۔شادی کی خبر سُن کر ہمارے چیف کیمسٹ نے کہا :تم تو کہتے تھے کہ نوکری کے ساتھ پڑھائی جاری رکھوں گا‘اب شادی کے بعد کیسے پڑھ سکو گے؟میں نے کہا جی اگلے سال مجھے بی اے کا امتحان تو دینا ہی دینا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۲ء میں جب میں نے بی اے کا امتحان دے دیا اور اسے پاس بھی کر لیاتو اُس وقت کے چیف کیمسٹ کوثر صاحب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے۔اسی کیفیت میں انہوں نے مجھے اسی وقت ایک سو روپے کا انعام دیا۔میں نے رقم لینے میں ہچکچاہٹ کی تو کہنے لگے یہ انعام ’’سٹوڈنٹ حیدر‘‘ کے لئے ہے۔یہ انعامی رقم اس لحاظ سے مفید رہی کہ مجھے ایم اے کے کورس کی کتابیں خریدنے میں آسانی ہو گئی۔ایم اے کرنے کے بعد مجھے بطور لیبارٹری انالسٹ مستقل کردیا گیا۔اب میری ملازمت سیزنل نہیں رہی تھی۔
عملی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بعد میرے اندر نا انصافی کے خلاف بغاوت کے خیالات پرورش پانے لگے تھے لیکن مجھے ایک خاص اخلاقیات اور چند اصولوں کا پاس بھی تھا۔ملز انتظامیہ مجھے نظر انداز کر رہی تھی۔ایک حد تک ان کی مجبوری جائز لگتی کہ میں نے تو ایم اے اردو کیا ہے اور میری ملازمت کی لائن لیبارٹری کی ہے۔ایم اے اردو اور لیبارٹری کا کوئی جوڑ ہی نہیں۔لیکن ایک عرصہ کے بعد جب اُس وقت کی ملز انتظامیہ کے بیس بائیس سال کی عمروں کے چار پانچ نوجوان بھانجے‘بھتیجے اور بیٹے آفیسرز کیڈر میں آئے اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے میٹرک اور انڈر میٹرک نوجوان ہیں تو مجھے ملز انتظامیہ کے خلاف اپنی ساری برہمی جائز لگنے لگی۔اگر وہ لوگ چاہتے تو مجھے لیبارٹری سے مین آفس میں ٹرانسفر کرکے اس طرح کی ملازمت دے سکتے تھے۔لیکن یہ تو بہت بعد کے زمانے کی بات ہے۔بات یہ ہورہی تھی کہ میرے اندر بغاوت کے افکاربھی پرورش پانے لگے تھے اور مجھے ایک خاص اخلاقیات کا پاس بھی تھا۔اسی دوران ملز میں مزدور یونین قائم ہوئی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔تھوڑے عرصہ کے بعد دیکھا کہ جو لوگ یونین بنانے والے تھے ان میں سے بیشتر کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور بعض نئے چہرے سامنے آگئے ہیں۔جب یونین کے صدر رانا محمد حسین اور جنرل سیکریٹری نذیر احمد بنے تو مزدوروں کے لئے خاصی مراعات حاصل کی گئیں۔یہ لوگ کسی سیاسی لیڈر یا مذہبی پِیر کی طرح مزدوروں میں مقبول ہوگئے۔
ہماری لیبارٹری کے عملہ میں عام مزدوروں کے مقابلہ میں تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔بعض دوستوں نے کہا کہ جب جمہوری طریقِ کار ہے تو ہم بھی یونین کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں ہمارے دو لیبارٹری کیمسٹ عبدالمجید اور مہدی حسن پیش پیش تھے۔مہدی حسن نے انڈیا سے بی ایس سی کیا تھا۔خوبصورت اور نازک سے نوجوان تھے۔حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔۱۹۶۵ء کے بعد یہ لوگ پاکستان آئے تھے اور تھوڑی سی مشکلات کے بعد قانونی تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔عبدالمجید اور مہدی حسن دونوں نے مزدور یونین کے الیکشن میں بحیثیت صدر اور جنرل سیکریٹری کھڑے ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بھڑک اُٹھے۔انہوں نے ملز کے گیٹ پر ایک پبلک میٹنگ کی جس میں ان دونوں پر ملز انتظامیہ سے ساز باز کرنے کا الزام لگایا۔مجید صاحب کو پکڑ کر لے گئے۔پبلک میٹنگ میں ان پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے جواب طلبی کی گئی۔انہوں نے جمہوری طریقِ کار کی بات کرنا چاہی لیکن ہُوٹنگ کراکے انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔مزید زیادتی یہ کی گئی کہ ان کے منہ پر سرِ عام تھوڑی سی سیاہی مَل دی گئی۔یہ سانحہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔میں خود مزدور تھا‘مزدوروں کے حقوق کے لئے آئینی اور قانونی طریقے سے لڑنے کے لئے بھی تیار تھا لیکن ایسے غیر جمہوری عمل اور کھلم کھلا غنڈہ گردی کے باعث میں اس مزدور یونین کے ایسے لیڈروں کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔
یہ سب کچھ در اصل عوامی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دی گئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ تھا۔رانا محمد حسین ‘پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں میں شامل تھے۔گویا حکومتی سرپرستی کے سا تھ انہیں اپنی پارٹی کا تحفظ بھی حاصل تھا۔ان ساری طاقتوں کو مزدور کے مفاد میں استعمال کرنا چاہئے تھالیکن رانا محمد حسین اور نذیر احمد نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے بعد جب بھی الیکشن ہوتے یہ دونوں عہدیدار ہمیشہ بلا مقابلہ صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر کامیاب ہوتے۔رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بحیثیت ملازم اب اپنی ڈیوٹی نہیں کرتے تھے۔بعض اکھڑ قسم کے مزدوروں کو انہوں نے اپنے محافظینِ خاص بنا لیا ۔ان محافظین کی یہ ڈیوٹی تھی کہ جہاں بھی کوئی مذکورہ دونوں لیڈروں کے خلاف بات کرے اس کی وہیں سرکوبی کر دی جائے۔ دہشت گردی کا یہ رویہ آگے چل کر پوری مزدور تحریک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔
جب جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کا خون کرکے ملک میں مارشل لانافذ کیا تو مزدوروں کے معاملہ میں حکومت کا رویہ بالکل بر عکس ہو گیا۔بھٹو کے دور میں جتنی بے جا رعائت دی گئی تھی اب اس سے بھی زیادہ بے جا سختی کی جانے لگی تھی۔ہمارے لیب کیمسٹ عبدالمجید جو مزدوروں کے تشدد کا نشانہ بن چکے تھے‘اب لیب انچارج کے عہدہ پر فائز تھے۔اب وہ ہمارے نئے چیف کیمسٹ نذیر صاحب کے ستم کا نشانہ بنے ۔انہوں نے بھری لیبارٹری میں سرِ عام مجید صاحب کی بے عزتی کی۔یہاں تک کہ مجید صاحب آنسوؤں سے روتے ہوئے لیبارٹری سے باہر نکل گئے۔مجھے جب اس زیادتی کا علم ہوا میں نے لیبارٹری کے سارے عملہ کو یک جا کرنے کی کوشش کی۔ایک ساتھی بشیر باجوہ نے مجھے صاف لفظوں میں کہا کہ مجید کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو۔وہ اسی لائق ہے۔اسے بچاؤگے تو وہ بچانے والوں کو ڈبودے گا۔چیف کیمسٹ نذیر صاحب سے میرے ذاتی مراسم خوشگوار تھے لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ مجید صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کراکے رہنا ہے۔ہم نے مہم شروع کی تو مزدور یونین بھی ہماری مدد کو آگئی۔جنرل ضیا کا دور آنے کے بعد شاید یونین کو ہم جیسے لوگوں کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ہم نے چیف کیمسٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجید صاحب نے نہ صرف چیف صاحب سے صلح کرلی بلکہ جارحانہ انداز میں مجھ پر حکم بھی چلانے لگے۔چند دنوں کے بعد انہیں لیب انچارج سے ترقی دے کر شفٹ کیمسٹ بنا دیا گیا۔لیکن میں تو انتظامیہ کے عمومی رویے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہواتھا۔ میرے لئے اب بیٹھ جانا مناسب نہ تھا۔ملز انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔اسی دوران ایک دن جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھے لیبارٹری سے باہر ’’پین اسٹیشن‘‘پر بلوایا۔وہاں انتظامیہ کے بیشتر افسران تشریف فرما تھے۔میں وہاں پہنچا تو کسی رسمی علیک سلیک کے بغیر جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھ پر چڑھائی شروع کردی۔انہوں نے انتہائی غلیظ گالیاں بکتے ہوئے مزدوروں میں پائی جانے والی ساری گڑ بڑکا ذمہ دار مجھے قرار دیا۔یہ وار اتنا اچانک ہوا تھا کہ میں ہکّا بکّا رہ گیا۔اس زیادتی نے مجھے رانا محمد حسین اور نذیر احمد سے مزید قریب کردیا۔
یہ ۱۹۷۹ء کا زمانہ تھا۔ تب جنرل ضیا نے کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کراکے اور سینکڑوں مزدوروں کا قتلِ عام کراکر اصلاََپورے ملک کے مزدوروں کو وارننگ دے دی تھی۔اس کے باوجود مجھے گالیاں دئیے جانے والے سانحہ کے بعد دس ‘بارہ دن کے اندر ملز کے مزدوروں نے بعض افسران کی زور دار اور سرِعام پٹائی کردی۔جن اہم افسران کی پٹائی ہوئی ان میں کین مینجر‘چیف انجینئر اور چیف کیمسٹ بطور خاص شامل تھے۔گنے سے چینی تیار کی جاتی ہے اور گنّوں سے ہی ان مزدور دشمن افسران کی مرمت ہوئی کین مینجر کا پیشاب ہی خطا نہیں ہوا‘ پتلون بھی گندی ہوگئی۔چیف کیمسٹ کو مزدوروں نے گیٹ پر روکا اور پکڑ کر جیپ سے اتارا۔انہوں نے منت کی کہ مجھے مت مارنا۔مزدوروں نے کہا آپ ناچ کر دکھاؤ تو نہیں ماریں گے۔چنانچہ چیف صاحب نے تھوڑا سا بھدہ ڈانس کیا۔اس کے باوجود مزدوروں نے تو انہیں مارنا ہی تھا‘سو بھدے ڈانس سے ناراض ہو کر انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔جنرل منیجر اس مار سے بچ نکلے جس کا مجھے افسوس ہوا۔یہ سب کچھ میری اخلاقیات کے خلاف تھالیکن میرے ساتھ ہونے والی ملز انتظامیہ کی غنڈہ گردی سے لے کر کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے سینکڑوں بے گناہ مزدوروں کے قتلِ عام تک مزدوروں کے ساتھ ملز انتظامیہ کے عمومی رویے کو سامنے رکھیں تو یہ سب کچھ جائز تھااور اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔تنگ آمد بجنگ آمد۔
اس واقعہ کے وقت ہم لوگ ملز ایریا سے دُور اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اس کے باوجود مقدمات درج ہوئے۔مقامی تھانے میں پندرہ مزدوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔’’این آئی آر سی‘‘جو مزدوروں کے معاملات کی سب سے بڑی عدالت ہے اور جس کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں‘وہاں پندرہ کی بجائے صرف سات مزدوروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔یہاں رانا محمد حسین اور نذیر احمد کے ساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ نے شہر کی سرکاری انتظامیہ کی مدد سے ایک پاکٹ یونین تیار کر لی جو ہماری یونین کے مقابلے میں سرکاری طور پر تسلیم کرالی گئی۔ اس یونین کے خاص عہدیداروں میں الطاف احمد اور اظہر ادیب طبعاََ اچھے انسان تھے۔اظہر ادیب تو شاعر بھی ہیں۔بعد میں جب ہماری دوستی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بعض ادبی رسائل میں تھوڑا بہت چھپے تھے لیکن پھر ادبی دنیا سے ان کا رابطہ نہ رہا۔میرے ساتھ دوستی ہوئی تو نہ صرف شاعری میں متحرک ہوئے بلکہ ادبی رسائل میں بھی چَھپنے لگے۔میں نے خانپور سے’’جدید ادب‘‘جاری کر رکھا تھا۔اظہر ادیب سے بھاولپور سے ’’اسلوب‘‘جاری کرایا۔اس کے صرف تین شمارے چَھپ سکے۔۔۔۔۔لیکن فی الوقت بات ہورہی تھی شوگر مل کی مزدور یونینوں کی۔۔۔
ہمارے مقابلے میں قائم کی گئی پاکٹ یونین نے کچھ رانا محمد حسین کی یونین کی پرانی زیادتیوں کی تشہیر کرکے‘کچھ مزدوروں کو مراعات دلاکے اور کچھ ڈرا دھمکا کے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش شروع کی لیکن ان کی بے حد محنت کے باوجود انہیں کامیاب ہونے میں خاصا وقت لگ گیا۔ملز انتظامیہ نے ایک طرف رانا محمد حسین ‘ نذیر احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات دائر کررکھے تھے دوسری طرف دونوں لیڈروں کا ملز کے اندر داخلہ ممنوع کر رکھا تھا۔یوں انہیں مزدوروں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔تیسری طرف پاکٹ یونین کی کاروائیاں جاری تھیں۔’’این آئی آر سی ‘‘والا مقدمہ خاصا پریشان کن تھا۔مختلف اطراف سے ایسے دباؤ بنانے کے بعد ملز انتظامیہ نے رانا محمد حسین سے اپنی شرائط پر ’’مفاہمت‘‘کی بات چیت شروع کی۔یہ وہ وقت تھا جب نذیر احمد جنرل سیکریٹری بھی تھک ہار کر گھر میں بیٹھ گئے تھے۔رانا محمد حسین ملز انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کے لئے بالکل تنہا رہ گئے تھے۔ان کے سارے وفادار‘جاں نثاراور مرتے دَم تک ساتھ نبھانے کے دعویدار ساتھی غائب ہو گئے تھے ۔ایسے وقت میں صرف حیدر قریشی تھا‘جس کے پاس وہ آتے‘مجھے ساتھ لیتے اورملز انتظامیہ سے معاملہ طے کرنے جاتے۔کبھی اسی یونین نے محض اصولی اختلاف کرنے اور غیر مشروط فرماں برداری سے انکار کرنے کے جرم میں مجھے مزدور دشمن‘انتظامیہ کا ایجنٹ‘غدار اور پتہ نہیں کیسے کیسے اعزازات سے نوازا تھا اور آج یہی یونین اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی تو میں ہی تھا جو اس کی زندگی کی دعا مانگ رہا تھا اور ممکنہ حد تک دوا کے لئے بھی تگ و دو کر رہا تھا۔اسی دوران مجھے اباجی کے ذریعے‘انور صاحب ڈسٹلری انچارج کے ذریعے اور چوہدری فضل صاحب گوڈان انچارج کے ذریعے خوشنما آفرز دئیے گئے۔ایک بار تو خود چیف کیمسٹ نذیر صاحب نے بھی براہِ راست مجھے پیش کش کی لیکن میں اصولوں کی پاسداری کی دُھن میں ہر پیش کش پر انکار کرتا گیا۔
ویسے اب سوچتا ہوں کہ جب رانا محمد حسین سے لے کر مجید صاحب لیب انچارج تک ہر کسی نے اپنے مفادات کو مقدم رکھا تو مجھے بھی اپنا نہیں تو اپنے خاندان کے آرام و آسائش کا کچھ خیال رکھ لینا چاہئیے تھا۔اس کے باوجود مجھے معلوم ہے کہ آئندہ بھی کبھی زندگی کے کسی شعبے میں ایسی صورتحال سامنے آئی تو میں پھر اُن لوگوں کے مشکل وقت میں اُن کا ساتھ نبھا رہا ہوں گا جو اپنے اچھے وقت میں مجھے خوار کرتے رہے ہوں گے۔
رانا محمد حسین نے آخر گھٹنے ٹیک دئیے۔ صدر‘جنرل سیکریٹری اور مارپیٹ کرنے والے نمایاں مزدوروں سمیت ۱۵ ۔افراد نے ’’از خود ‘‘استعفےٰ دے دئیے۔اس کے بدلے میں انہیں تھوڑی تھوڑی سی اضافی رقم دے دی گئی اور سارے مقدمات واپس لے لئے گئے۔جس دن مذکورہ مزدوروں نے استعفےٰ دئیے‘میرے چیف نذیر صاحب نے اپنے گھر سے لیبارٹری میں فون کرکے خصوصی طور پر میری ’’خیریت‘‘دریافت کی۔اس کے بعد ان کی طرف سے میرے خلاف انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔صرف ذہنی اذیت دینے والا۔۔۔۔۔تذلیل کرنے والا سلسلہ۔۔۔۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ملز انتظامیہ کے افسران ایک پکنک پارٹی پر گئے۔وہیں نذیر صاحب چیف کیمسٹ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔جنرل منیجر سعید صاحب ایک سرکاری مقدمے کی زد میں آگئے۔یہ چینی کی اسمگلنگ کا کوئی بڑا سکینڈل تھا جس میں حئی سنز شوگر ملز کے ڈائریکٹر آصف صاحب کو بھی ملوث کردیا گیا تھا۔حئی سنز گروپ چونکہ اُس زمانے میں بھٹو مرحوم کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا اس لیے ممکن ہے جنرل ضیاء الحق نے سیاسی انتقام کی خاطر حئی سنز گروپ کو نشانہ بنایا ہو۔وجہ کچھ بھی رہی ہو‘جنرل منیجر سعید صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی میرے خلاف انتظامیہ کا جارحانہ محاذ ختم ہو گیا۔
نئی انتظامیہ کے چیف کیمسٹ شیر باز خاں نیازی بڑے ذہین آدمی نکلے۔پہلی دفعہ لیبارٹری میں آئے تو میں اپنے بگڑے مزاج کے مطابق کرسی پر بیٹھا رہا۔انہوں نے اسے نوٹ کیا ‘پھر اپنے طور پر میرے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔میرا ریکارڈ دیکھا‘اپنے طور پر کسی نتیجے پرپہنچے۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ لیبارٹری میں آئے۔باقی سارا عملہ انہیں’’سر!سلام‘‘کہہ رہا تھا اور میں حسبِ معمول اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نیازی صاحب سیدھے میرے پاس آئے ۔میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے’’حیدر صاحب!السلام علیکم‘‘۔یہ بڑا ہی اچانک وار تھا۔بالکل غیر متوقع۔میں بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے ہاتھ ملایا ‘وعلیکم السلام کہا۔انہوں نے میری خیریت پوچھی اور چلے گئے۔اگلے دن جیسے ہی وہ لیبارٹری میں داخل ہوئے‘میں اُٹھ کر ڈارک روم کی طرف کھسکنے لگاتاکہ سامنا ہی نہ ہو۔لیکن نیازی صاحب نے مجھے آدھے راستے ہی سے آواز دے دی۔’’حیدر صاحب!السلام علیکم ‘‘۔اس بار مجھے لگا ان کا ہاتھ مجھ سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں بڑھا‘میرے دل کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے آگے بڑھا ہے۔میں شرمندہ ہوکر پلٹا‘سلام کا جواب دیا‘ہاتھ ملایا اور پھر میں خود یہ کوشش کرنے لگا کہ نیازی صاحب سے پہلے انہیں سلام کہوں لیکن انہوں نے بہت کم اس کا موقعہ دیا۔میرا خیال ہے انہوں نے میرے اندر کے باغی کو بڑی حد تک سمجھ لیا تھا اور اسے مزید بھڑکانے کی بجائے محبت آمیزانداز سے میرے باغیانہ جذبے کی تہذیب کرنے لگے تھے۔
پاکٹ یونین کے صدر الطاف کو ذاتی طور پر میں نے ہمیشہ بہت اچھا انسان پایاتھا۔رانا محمد حسین کے عروج کے زمانہ میں ان کے بے جا جبر و تشدد کے نتیجہ میںیہ اُن کے مخالف ہوئے تھے۔پھر جب ملز انتظامیہ سے انہیں مدد ملی تو انہوں نے اس سے فائدہ اُٹھایاتاکہ رانا محمد حسین اور ان کے متشدد گروپ کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔مجھے انہوں نے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ رانا صاحب کے سابقہ کردار کا میں بھی مخالف ہوں لیکن اِس وقت یہ لوگ مظلوم ہیں اس لیے میں ان کا ساتھ دوں گا۔چنانچہ میں نے آخر تک ان کا ساتھ نبھایا۔ الطاف صاحب کا خیال یہ تھا کہ رانا گروپ مزاجاََ متشدد ہو چکا ہے اس لیے دوبارہ طاقت میں آکر یہ لوگ پھر پہلے والی زیادتیاں کریں گے ۔مزید یہ کہ بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کے باعث مزدور کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کے لئے اب یہی راستہ غنیمت ہے۔جنرل ضیا کے فوجی دور کے حوالے سے الطاف صاحب کی باتیں کچھ اتنی غلط نہ تھیں ۔تاہم میں نے رانا گروپ کی یونین ختم ہونے تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔جب یونین ختم ہوگئی تو الطاف گروپ پوری طرح چھا گیا۔انہیں مزدوروں کی تائید ملی تو انہوں نے مزدوروں کے حقوق اور مفادات کے لئے جدو جہد شروع کردی۔ملز انتظامیہ کا خیال تھا کہ انہیں ہم نے مقبول لیڈر بنایا ہے اس لیے انہیں صرف ہمارے ہی اشاروں پر چلنا چاہیے۔الطاف گروپ کا موقف یہ تھا کہ ایک مجبوری اور مصلحت کے تحت ہم نے ملز انتظامیہ کی مدد سے فائدہ اُٹھایا ہے وگرنہ ہم بنیادی طور پر مزدور ہیں اور مزدور مفادات کا تحفظ ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔چنانچہ جلد ہی ملز انتطامیہ اور الطاف گروپ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔
نئے چیف کیمسٹ نیازی صاحب میرے معاملے میں خاصے مہربان تھے۔ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں مجھے شفٹ کیمسٹ کے عہدہ کی ترقی مل گئی لیکن یہ ترقی دوسرے شفٹ کیمسٹوں کے لئے دُکھ کا سبب بن گئی۔ان کے لئے میٹرک پاس مجید صاحب تو بطور شفٹ کیمسٹ قابلِ قبول تھے لیکن ایم اے اردو حیدر قریشی قابلِ قبول نہیں تھا۔۔۔۔ایم ایس سی اور کیمیکل انجینئر شفٹ کیمسٹوں میں خودمیں بھی اپنے اپ کو ’’مِس فٹ‘‘محسوس کرتا تھا لیکن پھر میٹرک پاس مجید صاحب؟۔۔۔۔۔۔اس تناؤ میں مجھے اصل ڈیوٹی دینے کی بجائے گنّا تولنے کی چیکنگ کی سپیشل ڈیوٹی دے دی گئی۔مجھے یہ سب کچھ خاصا توہین آمیز لگ رہا تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ کے بعض افسران کے بھانجے‘بھتیجے‘بیٹے قسم کے رشتوں والے چند نوجوان میرے ساتھ آگئے۔یہ سب مڈل اور میٹرک پاس لڑکے تھے اور ان کی تنخواہیں مجھ سے ڈیڑھ گُنا‘دو گُنا تک زیادہ تھیں۔میں جو اُنیس سال سے یہاں مشقت کر رہا تھا‘اس صورتحال سے بے حد دل برداشتہ ہوا۔کبھی کبھی خیال آتا کہ کہیں نیازی صاحب نے خلوص اور محبت کا جال بچھا کر مجھے پھنسانے کی چال تو نہیں چلی تھی؟آفیسر کیڈر میں لانے کے باوجود نہ تو مجھے میری اصل ڈیوٹی دی گئی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ کیا گیا۔بس اتنا ہوا کہ اب میں براہِ راست لیبر یونین سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن نیازی صاحب کے لئے میں خود اتنا مخلص ہو چکا تھا کہ ان کی کسی زیادتی کوبھی خاموشی سے برداشت کر سکتاتھا۔ سو ایسا ہی کیا۔آج بھی میں پوری ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ نیازی صاحب کے تئیں میری خاموشی‘کسی بے بسی کی زائیدہ نہیں تھی۔میں بظاہر بے بس ہونے کے باوجود ابھی بالکل ہی بے بس نہیں ہوا تھا۔میں حقیقتاََ ان کے لئے مخلص تھا۔
اسی دوران الطاف گروپ نے کسی مسئلے پر نیازی صاحب کے خلاف ہنگامہ کیا اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ایک دو اور مسئلوں پر بھی نیازی صاحب کے لئے پریشانی پیدا ہوئی‘یہاں تک کہ انہیں دل کا عارضہ ہو گیا۔ان کے خلاف ان سارے ہنگاموں میں وہ سارے افسران بھی کہیں نہ کہیں موجود تھے جنہوں نے میرے شفٹ کیمسٹ بنائے جانے پر احتجاج کیا تھا۔خود مجید صاحب بھی پس پردہ پیش پیش تھے۔۔۔۔۔۔۔اب میں ایک اعتراف کر لینا چاہتا ہوں کہ اگر میں ان سارے ہنگاموں میں نیازی صاحب کو بچا لے جانا چاہتا توالطاف اور اظہر ادیب مجھ سے دور نہیں تھے۔ ان سے بات کر کے باعزت سمجھوتہ کراسکتا تھا۔ لیکن میں خاموش تماشائی ہی بنا رہا۔نیازی صاحب نے ایک بار بھی مجھ سے بات کی ہوتی توشاید سارا منظر تبدیل ہوجاتا۔ اب سوچتا ہوں ممکن ہے وہ خود میری ترقی کے بعد میرے ساتھ ہونے والے سلوک پر دل ہی دل میں شرمند گی محسوس کرتے ہوں اور اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوں اور اسی شرمندگی کی وجہ سے مجھ سے بات نہ کی ہو۔بہر حال نیازی صاحب نے پھر یہ ملازمت چھوڑ دی اور ان کے بعد میں نے بھی جلد ہی شوگر مل کی نوکری چھوڑ دی۔
محبتوں میں  تم سے جو  نباہ بھی نہ کر سکا
تمہارے بعد پھر کسی کی چاہ بھی نہ کر سکا
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen