Freitag, 15. Juli 2011

پڑھنے سے پڑھانے تک

پڑھنے سے پڑھانے تک

عام طور پر ہر انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گو دہوتی ہے۔میری پہلی درسگاہ بھی میری ماں کی گود تھی۔ اور دوسرا اسکول اباجی کی خصوصی توجہ تھی۔جب ابا جی کی رحیم یار خان میں کپڑے کی دوکان تھی مجھے دوکان پر بلوالیا کرتے تھے اور اردو لکھنا پڑھنا سکھایا کرتے تھے۔جب کوئی فاش قسم کی غلطی ہوتی‘مجھے ایک تھپڑ پڑتا۔میں رونے لگتا تو اباجی پھر پیار کرنے لگتے۔پیسے دیتے۔۔پیسے ملنے پر میں بھاگ کر جاتا اور بازار کی قریبی دوکان سے کھانے کی کوئی چیز لے آتا۔جب تک وہ چیز کھاتارہتا‘ میری چھٹی رہتی۔چیز ختم ہوجاتی تو پھر پڑھائی شروع ہوجاتی۔یوں دن میں لگ بھگ چار پانچ دفعہ سبق بھولتا‘تھپڑ کھاتا‘پیار پاتا اور پھرچَنے‘مرونڈا‘میٹھی گولیاں‘مکھانے وغیرہ کھاتا۔سبق بھولنے میں تھوڑا سا نقصان تھا مگر بہت سارا فائدہ بھی تھا۔اب سوچتا ہوں تو اباجی کے تھپڑوں والا’’نقصان‘‘ہی مجھے سب سے بڑا فائدہ اور اپنا اثاثہ لگتا ہے۔
اباجی کی اس توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اسکول میں داخل ہونے سے پہلے اخبار پڑھنے لگ گیا تھا۔جب مجھے اسکول میں داخلے کے لئے لے جایا گیا تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر راجہ محبوب صاحب نے میرا ٹیسٹ لیا اور مجھے کچی‘پکّی کلاسوں کی بجائے سیدھا دوسری جماعت میں داخل کرلیاگیا۔پرائمری لیول پر میری پڑھائی کے سلسلے کی یہی ایک اہم بات تھی۔میں پڑھائی میں نہ اوّل درجہ کا طالب علم تھا ‘نہ نکمّا تھا۔بس اوسط درجے سے تھوڑا سا بہتر طالب علم تھا۔مڈل اسکول کے زمانے تک ہم لوگ خانپور آچکے تھے تھے۔کالونی مڈل اسکول خانپور ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔بروقت اسکول پہنچنے کی دُھن میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں اسکول میں پہنچنے والاسب سے پہلا بچہ ہوتا ۔
ریاضی اور سائنس کے مضامین میں تو میں ہمیشہ سے نکّما رہاہوں۔عربی‘فارسی اور ڈرائنگ کے اختیاری مضامین میں مجھے عربی زیادہ مناسب لگی‘چنانچہ میں نے یہ مضمون چھٹی جماعت سے ہی لے لیا۔لیکن ہمارے عربی ٹیچر علّامہ عبدالخالق اشرفؔ صاحب اتنے متشدد نکلے کہ میں عربی سے ہی ڈرنے لگا۔چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مجھے ضَرَبَ ضَرَبَ کی گردان یاد نہیں ہو سکی اور میں تین سال تک علّامہ صاحب کی ضربِ شدید کا نشانہ بنا رہا۔ہائی اسکول میں جاکر جیسے ہی پتہ چلا کہ یہاں عربی کا مضمون چھوڑ سکتا ہوں‘میں نے فوراََ خدا کا شکر ادا کیا۔بعد میں دیکھا کہ یہاں کے عربی ٹیچر مولوی خدا بخش صاحب بہت ہی نرم دل اور شفیق انسان تھے۔مڈل اسکول میں ماسٹر فریدی صاحب مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ آئیڈیل ٹیچر تو نہیں لیکن کسی حد تک ایسے ہی تھے۔دو اور ٹیچرز کے نام یاد نہیں رہے البتہ ان کے چہرے اور میرے تئیں ان کے رویے مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔میں ساتویں جماعت میں تھا۔ایک ٹیچر جنرل سائنس اور ریاضی پڑھاتے تھے۔مجھے انتہائی نکمے لڑکوں میں شمار کرتے۔ایک بار کسی اور مضمون کے ٹیچر کی غیر موجودگی کے باعث انہیں ہماری کلاس لینی پڑی۔یہاں انہوں نے جو پہلا سوال پوچھا میں نے فوراََ اس کا جواب بتادیا تو ہلکا سا مسکرائے اور بولے: کمال ہے تمہیں بھی اس کا جواب آتا ہے۔لیکن پھر کبھی وہ حیران اور کبھی پریشان ہونے لگے جب میں ہر سوال کے جواب میں ہاتھ کھڑا کرنے لگا۔وہ بھی ہربار مجھ سے ہی کہہ دیتے کہ بتاؤ کیا جواب ہے‘ اور ہربار میرا جواب درست ہوتا۔دوسرے ٹیچر غالباََ اسکول کے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔پھر ہیڈ ماسٹر ہوئے ۔بعد میں تحصیل دار ہو کر محکمہ تعلیم سے چلے گئے۔یہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔بے حد نفیس اور شفیق۔مجھے کلاس کے اچھے بچوں میں شمار کرتے تھے۔ایک دن انہیں جنرل سائنس کی کلاس لینی پڑی تو انہیں اس مضمون میں میری نالائقی کا اندازہ ہو گیا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ہم لوگ بے حد بھیانک غربت کی زد میں آئے ہوئے تھے۔سردیوں کے دن آرہے تھے اور میرے پَیروں میں ہوائی چپّل تھی۔تب خالہ حبیبہ نے اپنے پرانے ’’کوٹ شوز‘‘مجھے دیدئیے۔خالہ حبیبہ کے پاؤں ہمیشہ سے چھوٹے ہیں۔اسی لئے مجھے وہ ’’کوٹ شوز‘‘پورے آگئے اور میری سردیاں آرام سے گزر گئیں۔اسکول کے بعض لڑکوں نے میرا مذاق بھی اڑایا لیکن اس مذاق کی تکلیف سردیوں میں ہوائی چپل پہننے کی تکلیف سے کم تھی۔اس لئے اسے برداشت کرلیا۔برداشت نہ بھی کرتا تو کیا کرلیتا۔گھریلو حالات کو دیکھتے ہوئے میری یہ عادت بن گئی کہ نئے تعلیمی سال پر اپنی پچھلی کلاس کی کتابیں سیکنڈ ہینڈ قیمت پر بیچ دیتا اور نئی کلاس کی کتابیں کسی اپنے جیسے لڑکے سے آدھی قیمت پر خرید لیتا۔ اسکول کی کاپیوں کے سلسلے میں میرایہ طریقِ کار رہا کہ کاغذوں کے دستے خرید کر ہاتھ سے ان کی کاپیاں بنا لیتا۔ والدین نے کبھی ایسا کرنے کو نہیں کہا ‘لیکن میں نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ والدین پر کم سے کم بوجھ ڈالوں۔
میں اسکول کی بزمِ ادب میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہاہوں۔ایک بار خانپور تحصیل کے مڈل اسکولوں میں‘ شاید آٹھویں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لئے تقریری مقابلہ ہوا۔میں اس مقابلے میں اوّل آیا۔انعام میں ایک ٹیبل لیمپ اور علامہ اقبال کی ’’بانگِ درا‘‘دو چیزیں ملیں۔ٹیبل لیمپ ہمارے ایک ٹیچر ہاشمی صاحب نے رکھ لیا(ہاشمی صاحب بعد میں ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی بنے)میرے لئے ’’بانگِ درا‘‘ہی کافی تھی اس تقریری مقابلے میں تقریر کا عنوان تھا’’کھیل کے میدان میں کردار کی تشکیل‘‘۔تب میری ساتویں جماعت کا سال ختم ہونے کے قریب تھا۔میری تقریر مجھے ابا جی نے لکھ کر دی تھی اور تیاری بھی انہوں نے کرائی تھی۔اپنی کلاس میں بیت بازی کے مقابلوں میں میری اہمیت ہمیشہ بنی رہی۔
آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول خانپور میں داخلہ مل گیا۔اس اسکول میں داخل ہونا میرے لئے اس وجہ سے زیادہ خوشی کا باعث تھا کہ کبھی اباجی بھی اسی اسکول میں پڑھ چکے تھے۔نویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر محمد خان صاحب تھے۔ڈیرہ غازی خاں کے علاقہ کے رہنے والے تھے۔انہوں نے پہلے دن کلاس کے ہر طالب علم سے اس کے تعارف کے ساتھ اس کے رجحان کے بارے میں معلومات حاصل کی۔جب مجھ سے پوچھا گیا کہ بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے؟تو میں نے بے اختیارانہ طور پر کہا کہ اردو کی خدمت کروں گا۔تب محمد خان صاحب نے کہا:بابائے اردو کا جانشین بننے کا ارادہ ہے۔ حالانکہ اس وقت ادبی دنیا میں آنے کی بات میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔محمد خان صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جو تبصرہ کیا تھا ‘مجھے لگتا ہے اندر ہی اندر لا شعوری طورپر اس نے میری حوصلہ افزائی کی تھی۔ صرف پانچ چھ ماہ کے بعد ہی محمد خان صاحب کا تبادلہ ہوگیا تو محمد صدیق صاحب ہمارے کلاس ٹیچر بنے۔صدیق صاحب ہائی اسکول میں میرے سب سے زیادہ پسندیدہ ٹیچر تھے۔اسکول کے زمانہ کے ایک عرصہ بعد جب میں ادبی رسالوں میں چھپنے لگا تھا ‘ایک بار ریڈیو بھاولپور سے ایک ادبی پروگرام کرکے واپس آرہا تھا‘یہ وہ عمر تھی جب ریڈیو پر اپنی کوئی غزل یا افسانہ پڑھنے کو میں اپنی معراج سمجھتا تھا۔ٹرین میں صدیق صاحب مل گئے۔میں انہیں اپنی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں جوش و خروش سے بتانے لگا۔ میرا خیال تھا وہ میری حوصلہ افزائی کریں گے۔لیکن وہ مجھے یہ بتانے لگے کہ ان کے شاگردوں میں فلاں فلاں ڈاکٹر بن گئے۔فلاں فلاں انجینئر بن گئے۔۔۔۔مقابلے کا امتحان پاس کر گئے۔اپنے ایسے شاگردوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا سر فخر سے بلند ہورہا تھااور میں اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہا تھا۔
ہائی اسکول میں مولوی خدا بخش صاحب(اگر میں نام بھول نہیں رہا تو یہی نام تھا)اصلاََ عربی اور اسلامیات کے ٹیچرتھے۔ تھوڑے عرصہ کے لئے انہوں نے ہماری اردو کلاسز لی تھیں۔اردو پڑھاتے ہوئے‘ خصو صاََ اشعار کی تشریح کرتے ہوئے مزے مزے کی باتیں کر جاتے۔ہماری اردو کی نصابی کتاب میں مولانا چراغ حسن حسرتؔ کا مشہور مزاحیہ مضمون’’لکڑی کی ٹانگ‘‘بھی شامل تھا۔یہ مضمون ان کے مضامین کے مجموعہ’’کیلے کا چھلکا‘‘ سے لیا گیا تھا۔مضمون کی ریڈنگ کے بعد اس پر بات شروع ہوئی تو میں نے کہا :یہ ’لکڑی کی ٹانگ‘۔۔۔’کیلے کے چھلکے‘سے حاصل کی گئی ہے۔مولوی صاحب میرا جملہ سُن کر محظوظ ہوئے ۔مجھے دوتین بار ایسے شاباش دی جیسے داد دے رہے ہوں۔
۱۹۶۸ء میں دسویں کا امتحان پاس کرتے ہی میں نے حئی سنز شوگر ملز جیٹھہ بُھٹہ ‘خانپورمیں مزدوری کرلی۔ تب ایک صاحب نے پیش کش کی کہ حیدر کالج میں پڑھنا چاہے تو اس کے جملہ تعلیمی اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں۔لیکن میرا مسئلہ کالج کی تعلیم سے زیادہ اباجی کے بوجھ کو بانٹنا تھا۔یہ الگ بات کہ اس سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر خدمت کر ہی نہیں سکا۔زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ابا جی کے سر پر ایک من کا وزن تھا اورمیں نے اس میں سے ایک چھٹانک وزن کم کردیا۔میں نے شوگر مل میں ۱۹؍سال تک مزدوری کی ۔نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر اپنا سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔خدا کے فضل اور امی‘ ابو کی دعاؤں سے ۱۹۷۰ء میں ایف اے‘۱۹۷۲ء میں بی اے اور ۱۹۷۴ء میں ایم اے (اردو)کرلیا۔(سال ۱۹۷۴ء کا ایم اے کا امتحان ۱۹۷۵ء میں منعقد ہوا تھا۔تاہم میرے امتحان کا سیشن ۱۹۷۴ء شمار ہوتا ہے)۔
شوگر مل میں طویل عرصہ تک مزدوری کرنے کے بعدمجھے پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں اردو پڑھانے کی جاب ملی۔یہاں پر سرکاری لیکچرر کے گریڈ کے ساتھ مزید بہت ساری مراعات تھیں۔فری رہائش‘فری بجلی‘پانی‘تین وقت کا پکا پکایا کھانا جو تینوں وقت گھر پر پہنچایا جاتا تھا۔میں نے مبارکہ سے کہا کبھی بنی اسرائیل پر من و سلویٰ اترتا تھا۔ خدا نے ہم جیسوں پر بھی فضل فرما دیا ہے۔ہمیں بھی من و سلویٰ عطا ہو رہا ہے۔بنی اسرائیل کو تو وہی مخصوص ڈشیں مل رہی تھیں جن کی یکسانیت سے تنگ آکر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لہسن‘پیاز اور مسور کی دال کی فرمائش کرنے لگے تھے۔جبکہ ہمیں تو ہر بار نئی ڈشیں نصیب ہو تی تھیں۔اُن نعمتوں پر آج بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اُس تعلیمی ادارہ کے مالک اور پرنسپل بریگیڈئیر اعجاز اکبر صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اﷲ انہیں خوش رکھے۔
مجھے نویں‘دسویں‘کیمرج اور ایف ایس سی کی کلاسوں کو اردو پڑھاناہوتی تھی۔پڑھانے کا تجربہ ہوا تو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ میں تو خود از سرِ نَو پڑھائی کر رہا ہوں۔بچوں کو پڑھانے سے پہلے خود پوری تیاری کرنا۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ میں استاد سے زیادہ ایک اچھا طالب علم بن رہا ہوں۔طالب علموں کے ساتھ میرا رویہ مدرّسانہ سے زیادہ دوستانہ تھا۔اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔فائدہ یہ ہوا کہ طلبہ مجھ سے مانوس ہو گئے اور اپنے بعض مسائل کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ مانگنے لگے۔اور تو اور ایک سینئر طالب علم نے اپنے ایک عشق کے سارے کوائف مجھے بتا کر مشورہ مانگا۔لڑکے کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے اسے مناسب مشورہ دے دیا۔نقصان یہ ہوا کہ بعض اساتذہ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ بعض طلبہ ضرورت سے زیادہ بے تکلف ہونے لگے۔باہر تک تو خیر تھی‘کلاس روم میں بھی ان کی بے تکلفی بڑھنے لگی۔جملے بنانے کی مشق کے دوران بے تکلف طلبہ کچھ زیادہ ہی کھلنے لگے۔بعض جملے جان بُوجھ کر غلط بناتے ‘ جو غلط ہو کر بھی بامعنی ہوتے تھے اور ان سے جملہ بنانے والے کی ذہانت عیاں ہوتی تھی۔اس وقت مجھے جو جملے یاد آرہے ہیں ‘درج کر رہا ہوں۔
پیٹھ پیچھے برائی کرنا : کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے گناہ ہوتا ہے اور ایڈز کی بیماری بھی ہو جاتی ہے۔
کار گذاری: بارش کی وجہ سے بہت کیچڑ ہو گیا تھا اور میں نے بڑی مشکل سے پُل پر سے کار گذا ری
مت ماری جانا: ڈاکو نے اپنی بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا تم مفت میں میرے ساتھ مت ماری جانا۔
پو پھٹنا: جنگل میں شیر کو دیکھتے ہی میری پو پھٹ گئی۔
سٹاف روم میں ہم دوست اساتذہ ایسے جملوں پر دل کھول کر ہنستے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر سائنس کے کسی استادنے ’داشتہ آید بکار‘ کا مطلب پوچھا تو ایک ذہین استاد طیّب صاحب نے کہا پوری مثل یوں ہے ’’اہلیہ آید بہ تانگہ ‘داشتہ آید بہ کار‘‘ اور مطلب بالکل واضح ہے۔
میری تعلیم سرکاری اسکولوں کے جس ماحول میں ہوئی تھی پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج کا ماحول اس سے بالکل مختلف تھا۔اعلیٰ تعلیمی معیار کی حامل اس درسگاہ میں لکھ پتیوں اور کروڑپتیوں کے بچے زیادہ تھے۔میں ٹاٹ اسکول سے اپنی پڑھائی شروع کرنے والا ،انگلش میڈیم ماحول میں پڑھا رہا تھا۔
وہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا اور یہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen