Freitag, 15. Juli 2011

ابتدائی ادبی زمانہ

ابتدائی ادبی زمانہ

یادوں کے خزینے میں
خانپور اپنا تو
آباد   ہے  سینے   میں

اردو میں الفاظ کے استعمال کے حوالے سے دیکھیں تو خانپور کا تلفظ ’’خان پُور‘‘ بنتا ہے۔خانپور سے تعلق رکھنے والے لیکن بنیادی طور پر لکھنوکے تربیت یافتہ ہمارے ایک قدیم شاعر محسن خانپوری نے خانپور کا ذکر اپنے ایک شعر میں یوں کیا تھا ۔۔۔ ؂
نہیں ہے  قدرتِ حق  سے  بعید کچھ  محسنؔ
کہ لے ہی جائے وہ ساون میں خانپور مجھے
لیکن میری زبان پر ہمیشہ سرائیکی تلفظ والا’’خان پُر‘‘ہی آتا ہے۔اگر اسے ایسے ادا نہ کروں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ میرا خانپور نہیں بلکہ لکھنو کا کوئی مضافاتی خانپور ہے۔سو میرا خانپور لکھنے میں بھلے’’ خان پور‘‘ لکھا جائے لیکن اپنی ادائیگی میں ہمیشہ ’’خان پُر‘‘ ہوتا ہے۔میری شاعری میں خانپور اسی سرائیکی تلفظ کے ساتھ ہی آیا ہے۔مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری ادبی نشوونما میں خانپور کا اور میری سرائیکی دھرتی کا بہت زیادہ حصہ ہے۔
میری بالکل ابتدائی ادبی تربیت میں میرے خاندان کے تین اہم افراد کا لاشعوری عمل دخل رہا۔ان کا میں اپنی بعض تحریروں میں ہلکا سا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ابا جی نے مجھے اسکول جانے سے پہلے جس طرح اردو پڑھنا ،لکھنا سکھا دیا تھا وہ میری ادبی تربیت کا پہلا زینہ تھا۔ پھر امی جی کا گھر میں دلچسپی لے کر ناول پڑھنا بھی مجھے ادب کے ساتھ جوڑنے کا ایک سبب بنا۔امی جی نے ایک بار ایک طویل دعائیہ پنجابی نظم لکھی تھی ۔پھرمیرے بچپن ہی میں ماموں حبیب اﷲ صادق کا شاعر ہونا۔ میں سمجھتا ہوں میرے بچپن کے یہ سارے عوامل میری ادبی تربیت کا سبب بنتے رہے ہیں۔مجھے یاد ہے یہ ۱۹۶۴ء یا ۱۹۶۵ء کا زمانہ تھا ۔میں چھٹی ساتویں میں پڑھتا تھا۔ماموں صادق ڈیرہ اسماعیل خاں سے ہمارے ہاں خانپور آئے تھے۔تب شام کے وقت میں نے اور ابا جی نے ان سے ان کی ایک نظم سنی جو ویت نام کے موضوع پر تھی۔اس کا مرکزی مصرعہ میرے ذہن میں یوں رہ گیا ہے۔ زندہ باد اے ویت نام
ماموں صادق کا ترنم شاعرانہ انداز کا تھا۔مجھے اپنی وہ حیرت آج بھی یاد ہے جب میں ماموں صادق کی نظم سنتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا اور اس دیکھنے میں ایک عجیب سی خوشی اور تفاخر کا احساس شامل تھاکہ میرے ایک ماموں شاعر ہیں!۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جس کو اس کے قسم کے حالات مل جائیں وہ شاعر اور ادیب بن جاتا ہے۔یہ صلاحیت تو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔صلاحیت بیج کی طرح ہوتی ہے اور جب تک اسے مناسب زمین اورموزوںآب و ہوانہ ملے ان کی نشوونما نہیں ہو سکتی۔میرے پانچوں بچوں میں ایسی خداداد صلاحیت نہیں تھی تو میری ادبی زمین اور آب و ہوا کے باوجود ان میں سے کوئی بھی شاعر اور ادیب نہیں بن سکا۔
اپنے گھر والوں کے مذکورہ اثرات سے ابھرتے ہوئے میں نے سب سے پہلی غزل خانپور میں اپنی نویں کلاس کے اختتام تک کہنے کی کوشش کی۔یہ غزل کیا تھی۔بس تُک بندی تھی۔مصرعوں کی روانی میں کہیں نہ کہیں سقم ضرور ہوں گے۔میں نے وہ غزل اس زمانہ میں سب سے چوری چھپے لاہور کے فلمی ماہنامہ’’شمع‘‘کو اشاعت کے لئے بھیجی۔چند دنوں ہی میں ’’شمع‘‘کی طرف سے جواب آگیا کہ آپ کی غزل ناقابلِ اشاعت ہے۔مزید یہ کہ آپ کسی سے اصلاح لیا کریں۔ اس وقت دل کی عجیب حالت تھی۔کبھی ’’شمع‘‘ رسالہ کے ایڈیٹر پر غصہ آتا اور کبھی اپنے آپ میں شر مندگی محسوس ہوتی۔میں نے اس بات پر خدا کا بے حد شکر ادا کیا کہ گھر والوں کو نہ میرے شاعری کرنے کا علم ہوا اور نہ ہی میری غزل کوناقابلِ اشاعت قرار دینے والے اس خط کا علم ہو سکا۔(چلو کچھ بھرم رہ گیا)اس غزل کا مقطع اب بھی مجھے یاد ہے۔
نہیں  لطف  حیدر ؔ وہ  ذکرِ خدا میں
جو ملتا ہے لطف ہم کو ذکرِ صنم میں
اس غزل کے مسترد ہونے کے دو فائدے ہوئے۔ایک تو یہ کہ میں نے پھر چھوٹی موٹی تک بندی کرتے رہنے کے باوجودایک عرصہ تک کسی رسالے کو غزل بھیجنے کی جرات نہیں کی۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے پھر اپنی کسی غزل میں ’’صنم‘‘کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ’’سلگتے خواب‘‘ کی ایک غزل میں ایک بار یہ لفظ از خود آگیا تو میں نے اسے بھی حذف کردیا۔
۱۹۶۸ء میں دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد میں نے حئی سنز شوگر ملز میں ملازمت کر لی۔اسی دوران میں نے ایک چھوٹا سا ناول لکھا۔یہ ناول اسکول کی ایک پتلی سی کاپی میں مکمل ہوگیا ۔ممکن ہے وہ طویل افسانہ ہولیکن مجھے اس زمانہ میں ناول ہی لگا ہو۔لیکن شایدوہ نہ تو ناول تھا نہ افسانہ۔۔۔وہ تو بس میرے اس وقت کے کچے پکے جذبات اور سماجی ناانصافیوں کے زخموں کی کسک کا اظہار تھا۔نیم رومانی،اور نیم انقلابی قسم کی جیسے میری اپنی ہی کہانی تھی جو میں نے لکھی تھی۔اس کہانی کی ایک ہی خوبی تھی کہ اس کا واحد قاری میں خود تھا اور قاری بھی ایسا کہ جو اسے مکمل کرتے ہوئے شدتِ جذبات سے آبدیدہ ہوتارہا اور بعد میں اسے پڑھتے ہوئے غم سے روتا رہا۔اس ناول کا ہیرو غریب تھا جو ظاہرہے میں خود تھا اور ہیروئن امیر تھی اور امیر ہونے کے علاوہ بہت خوبصورت بھی تھی۔ویسے بیک وقت بہت خوبصورت اور بہت امیر ہیروئن مجھے ابھی تک کہیں نہیں ملی۔
شوگر ملز میں ملازمت کرنے کے بعدمیری اپنے ایک ہمسایہ حفیظ سوز صاحب سے سلام دعا بڑھ گئی۔ہمارے گھر کے ساتھ والی گلی میں یہ فیملی آباد تھی۔ حفیظ سوز صاحب فلمی دنیا میں جانے کا شوق رکھتے تھے۔خانپور کے ماحول میں اور میرے اس وقت کے ذہن کے مطابق وہ شاعری کو جتنا جانتے تھے میرے لئے کافی تھا۔کالونی مڈل اسکول خانپور کے سامنے محکمہ انہار کے دفاتر تھے۔وہاں کے کسی افسر کے ایک صاحبزادہ (اب نام یاد نہیں رہا)سے حفیظ سوز کی دوستی تھی۔چنانچہ ہم تینوں نے مل کر ’’ایوان ادب‘‘نامی ایک ادبی انجمن قائم کی۔محکمہ انہار کے افسر کے صاحبزادے اس کے سرپرست،حفیظ سوز صدر،میں جنرل سیکریٹری،امین(مینو)خزانچی مقرر ہوئے۔ تاہم اس ادبی انجمن کا کبھی کوئی اجلاس نہ ہو سکا۔حفیظ سوز نے بھی شوگر ملز میں ملازمت کر لی۔وہاں سے وہ لاہور چلے گئے اوراداکار قوی کے فلمی ادارہ سے منسلک ہو گئے۔لیکن کوئی اہم ترقی نہ کر سکے تو پھر ملتان میں کوئی ملازمت کر لی۔
یہ وہ دور تھا جب ابھی میں نے باقاعدہ ادبی دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا۔۱۹۷۱ء میں ، میں نے پہلی باقاعدہ غزل کہی۔یہ غزل بغیر کسی ردو بدل کے ۱۹۷۲ء کے کسی مہینے میں ہفت روزہ’’ لاہور‘‘ میں چھپ گئی۔ بالکل روایتی انداز کی اس غزل کا مطلع یہ تھا ۔۔۔؂
عقل نے جتنا  مِری  راہ  کو  ہموار  کیا
اتنا ہی میرے جنوں نے اسے دشوار کیا
اس غزل کے چھپنے کے بعد مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہوئی۔چنانچہ پھر میں باقاعدہ غزلیں کہنے لگا۔
۱۹۷۴ء میں بزمِ فرید خانپور کے ذریعے سے مجھے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقعہ ملا اور ہفت روزہ مدینہ بھاولپور میں چھپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ بزمِ فرید کے دوستوں کا تذکرہ میرے خاکوں کے مجموعہ’’میری محبتیں‘‘میں آچکا ہے۔ اسی دوران غالباََ ۱۹۷۵ء کے وسط میں میرا نذر خلیق سے رابطہ ہوا۔انہیں میں نے اپنے ایک محلہ دار کے ساتھ دیکھا۔وہ محلہ دارحفیظ سوز کے بھائی عنایت نصرت صاحب تھے جو نصرت شیخ کے نام سے جانے جاتے تھے۔نصرت شیخ صاحب میرے محلہ دار تھے،میرے دوست حفیظ سوز کے چھوٹے بھائی تھے،اور ہفت روزہ مدینہ بھاولپور کے نمائندہ بھی تھے۔جبکہ میں ’’مدینہ‘‘میں بہت باقاعدگی سے لکھنے والا تھا۔چونکہ میرا میدان شروع سے ہی صحافتی سطح کا نہیں بلکہ ادبی سطح کا تھا(چاہے اس کا لیول کتنا ہی معمولی کیوں نہ رہا ہو) اس لئے کسی اخبار کی نمائندگی نہ میرا مسئلہ تھا نہ مجھے اس سے کوئی غرض تھی۔نذر خلیق تیرہ سال کا لڑکا تھا۔نصرت شیخ کی دوستی سے انہیں صحافت کا شوق ہوا۔مگر نصرت شیخ ہی ان کی راہ کی رکاوٹ بن گئے۔ نذر خلیق نے مجھ سے رابطہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ لکھنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ادب و صحافت سے دلچسپی رکھنے کے ساتھ اپنی تعلیم کو لازماََ مکمل کرنے کی نصیحت کی۔
تب نذر خلیق محلہ رحیم آباد میں رہتے تھے اور میں محلہ خواجگان میں۔لیکن دن میں ہمارا ایک بار ملنا ضروری ہوتا تھا۔ کبھی میں نذر خلیق کے گھر جاتا اور وہاں سے پھر ہم میرے محلہ تک آتے۔کبھی نذرخلیق میرے ہاں آتے اور پھر ہم ان کے محلہ تک جاتے۔یہ عجیب زمانہ تھا جس میں پیدل چلتے ہوئے تھکن کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے پیدل چلتے ہوئے میری رفتار خاصی تیز ہوتی تھی۔نذر خلیق بھی تیز رفتار تھے لیکن جیسے مجھ سے تھوڑا سا پیچھے رہ جاتے تھے۔بعد میں مجھے خانپورسے باہر کے بعض دوستوں سے باقاعدہ سننا پڑا کہ یار !اتنی تیزی اچھی نہیں ہوتی۔اطمینان سے چلتے ہیں۔ میں نے خود بھی اپنی اس عادت پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے مزاج میں جلد بازی کا عنصر بہت زیادہ ہے۔اسی لئے تیزتیز پیدل چلنے سے لے کر کسی کام میں جت جانے کے بعد اسے نمٹا کر ہی دَم لینے تک اسی جلد بازی کے مختلف مظاہر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں زندگی کے مختلف کاموں میں جلد بازی کی طرح، موت کے معاملہ میں بھی جلد بازی سے کام لے جاؤں گا۔بقول اقبال ساجد ؂
میں جلد باز تھا میدانِ عشق ہار گیا
جو آخری تھا وہی داؤ پہلے ہار گیا
ویسے مجھے اقبال ساجد جیسا شکست کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ عشق میں ہار جیت دونوں ہی بے معنی ہوتی ہیں۔ویسے بھی جس کے لئے موت ’’وصلِ یار‘‘جیسی ہو اس کے لئے تو جلدبازی بھی مفید ہوتی ہے۔بس اتنا ہے کہ موت کےوقت عزرائیل سے اتنا ضرور کہنا چاہوں گاکہ:
حضور آہستہ آہستہ،جناب آہستہ آہستہ
ہو سکتا ہے جلدبازی کے نتیجہ میں اتنا کہنے کی نوبت بھی نہ آئے۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بات ہو رہی تھی میری تیز رفتاری کی۔
صفدر صدیق رضی،آسی خانپوری اور نردوش ترابی وغیرہ میرے اچھے دوست تھے لیکن ایک مرحلہ پر آکر یہ سارے دوست مجھ سے الگ ہو کر متحد ہو گئے۔جن دنوں میں یہ دوست متحدہ محاذ بنانے کی تیاری کر رہے تھے ،انہیں دنوں میں ایک بار میں آسی خانپوری صاحب سے ملنے ان کے مینا بازار والے گھر میں گیا۔وہاں صفدر صدیق رضی بھی آ گئے۔کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد میں وہاں سے روانہ ہوا۔مینا بازار سے صدر بازار کو پار کرنے کے بعد میں جیٹھہ بھٹہ بازار کی طرف مڑ کر چند قدم ہی آگے گیا تھا کہ پیچھے سے صفدر صدیق رضی اپنی موٹر سائیکل پر پہنچ گئے۔انہوں نے موٹر سائیکل روک کر پہلے حیرت کا اظہار کیا کہ میں پیدل ہوتے ہوئے اتنی جلدی یہاں تک پہنچ گیا ہوں۔تب میں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بے ساختہ طور پر انہیں کہا تھا’’رضی صاحب! عقل سے پیدل ہونے اور ویسے پیدل ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔اور آپ جانتے ہیں کہ میں صرف ویسے پیدل ہوں‘‘صفدر صدیق رضی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولے:
’’چلیں بیٹھیں میں آپ کو ڈراپ کرتا چلوں گا‘‘
رضی صاحب کا باقی ذکر بعد میں یہاں اس سے پہلے زمانے کی بات ہو رہی تھی۔نذر خلیق کے ساتھ دوستی میں چھوٹے بھائی جیسی صورت تھی۔تب ہم لوگ مل کر نہ صرف ہفت روزہ مدینہ میں چھپتے رہے بلکہ ادبی رسالہ ’’نئی قدریں‘‘ حیدرآبادمیں بھی چھپنے لگے۔بزم فرید سے الگ ہونے کے بعد میں نے نذر خلیق،اے کے ماجداور جمیل محسن کے ساتھ مل کر حلقہ ء ارباب ذوق خانپور کی بنیاد رکھی۔ تب ہی ہم دونوں نے مل کر ’’نئی قدریں‘‘کے ایڈیٹر جناب اختر انصاری اکبرآبادی کو خانپور میں مدعو کیا۔پاپولیشن پلاننگ والوں کے دفتر میں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔یہ دفتر تب پیراڈائز سینما کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہوتا تھا۔ اختر انصاری اکبرآبادی کے بارے میں ہمارے اہلِ ادب کا رویہ زیادہ تر تمسخرانہ رہا ہے۔ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہفت روزہ ’’مدینہ‘‘بھاولپور کے علامہ منظور احمد رحمت کے بعد ادبی جرائد میں میری اوّلین حوصلہ افزائی اختر انصاری اکبر آبادی نے اپنے رسالہ’’نئی قدریں‘‘ میں کی۔اسی لئے میں آج بھی ان کے لئے اپنے دل میں ایک احترام محسوس کرتا ہوں۔
اسی دوران ایک بار میں اور نذر خلیق میرے گھر کے سامنے بیٹھے تھے۔سامنے سڑک پر سے گزرتے ہوئے خواجہ ادریس اور رب نواز قریشی نے ہمیں دیکھا اور ہماری طرف چلے آئے۔میں نے انہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ ملایا اور تشریف رکھنے کو کہا۔خواجہ ادریس کو یہ برا لگا اور انہوں نے تشریف رکھنے کی بجائے مجھے تھپڑ جڑ دیا۔اس واقعہ اور بد مزگی کے بعد نذر خلیق نے ویکلی ’’زندگی‘‘میں اس واقعہ کو درج کرکے میری حمایت میں اور مذکورہ دوستوں کی مذمت میں ایک طویل مکتوب شائع کرایا۔رب نواز قریشی ذاتی طور پر بہت اچھے انسان ہیں۔ہمارے اور ان کے درمیان بہت بڑا طبقاتی فرق تھا اس کے باوجود وہ کئی بار میرے ساتھ برابر ہو کر بیٹھے اور دوستانہ انداز میں ملے۔میری ابتدائی غزلوں کو سن کر انہوں نے ایک دوبار تبدیلی کے معقول مشورے بھی دئیے۔جو مجھے واقعی اچھے لگے۔۔۔خواجہ ادریس بھی طبعاََ اچھے انسان ہیں۔بس یہ بد قسمت واقعہ ایسے ہونا تھا، ہو گیا۔شاید اس میں کچھ میری بے وقوفی بھی شامل تھی۔اختر انصاری کے بعد ۔۔۔۔اور ایک عرصہ کے بعد جب ڈاکٹر وزیر آغا خانپور تشریف لائے تو میں نے ان کے اعزاز میں بلدیہ خانپور کے جناح ہال میں تقریب کا اہتمام کیا۔تب خواجہ ادریس نے سابقہ تلخی کی ساری تلافی کردی۔میں نے ان سے کہا کہ آپ اس تقریب کی نظامت کریں۔انہوں نے بڑی صاف گوئی سے مجھے نصیحت کی کہ اتنا بڑا ادیب ہمارے شہر میں آرہا ہے۔اس تقریب کی نظامت میرے لئے اعزاز ہے لیکن اصلاََ یہ آپ کا حق بنتا ہے۔اس حق کو ضائع نہ کریں۔ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔چنانچہ پھر میں نے ہی اس تقریب کی نظامت کی۔خواجہ ادریس نے اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کیا۔ نہ صرف تقریب میں شرکت کی بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ایک زبردست تقریر کی۔ اس تقریب میں خانپور کے بیشتر اہم شاعر اور ادیب شامل تھے۔نذر خلیق نے بہت سے انتظامی معاملات کو بہتر طور پر سنبھالے رکھا۔
خواجہ ادریس ،رب نواز قریشی کا ذکر ہو اور انجمن انسداد شعراء خانپور کا ذکر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔اس انجمن کا ذکر ’’میری محبتیں‘‘میں آچکا ہے لیکن یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک بار میں بھی ان دوستوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔میں نہ تو مشاعروں کا شاعر ہوں ،نہ مجھے کلام سنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ان دوستوں نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ مجھ سے کلام سننا شروع کیا۔پھر ان سے سنجیدہ گفتگو ہوئی تو کہنے لگے ہم صرف متشاعروں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اچھے شاعروں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ خورشید احمد ٹمی کی مثال دے کر کہنے لگے دیکھیں اگر وہ بے تکی شاعری کرنے میں لگا رہتا تو کیا اس کی افسانہ نگاری اتنی ابھر سکتی جتنی اب ابھر آئی ہے؟۔۔۔بات ان دوستوں کی مناسب تھی۔
اب یہاں جرمنی میں رہتے ہوئے جب میں مغربی ممالک میں مقیم بیسیوں بے وزن شاعروں کو دیکھتا ہوں،جعلی شاعروں اور ادیبوں کو دیکھتا ہوں جو محض دولت کے بَل پر ریڈی میڈ شاعر اور ادیب بن گئے ہیں تو مجھے کئی بار خواجہ ادریس ،رب نواز قریشی ،شیخ فیاض الدین اور انجمن انسداد شعراء خانپور کے دوسرے دوست شدت سے یاد آتے ہیں۔کاش یہ دوست یہاں آسکتے اور ایسے جعلی شاعروں اور ادیبوں کی سرکوبی کے لئے کچھ کر پاتے۔
مجھے تو بالکل ہی بھول گیا تھا لیکن اب نذر خلیق صاحب نے یاد دلایا ہے کہ میں نے ایک بار ایک فلمی رسالہ’’سنگیت‘‘خانپور سے شروع کیا تھا۔یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔تب میں نے جن دوستوں کی ٹیم بنا کر یہ فلمی رسالہ شروع کیا ان میں نذر خلیق بھی شامل تھے۔اس کا صرف ایک ہی شمارہ نکل سکا۔۱۹۷۸ء میں پھر میں نے خانپورسے ’’جدید ادب‘‘جاری کیا۔اس کی ٹیم میں صفدر صدیق رضی اور فرحت نواز(جو اَب رحیم یارخان میں انگریزی کی پروفیسر ہیں)موثر پارٹنر تھے ۔ رضی صرف دو،ڈھائی سال تک دوستی نبھا سکے۔اور پھر وہ ’’جدید ادب‘ ‘ کی ادارت میں شامل نہ رہے۔البتہ فرحت نواز رسالہ کی ادارت میں آخر دَم تک شامل رہیں۔
رضی میرے بہت قریبی دوست تھے۔میرے ذاتی عمومی حالات تو ایسے تھے کہ میں اپنی غزلیں اور دوسری تخلیقات لکھنے کے لئے کاغذ قلم اور سیاہی خریدنے کی بھی پوری استطاعت نہیں رکھتا تھا۔اس کے باوجود ’’جدید ادب‘‘جیسا رسالہ جاری کر رکھا تھا۔اس سلسلے میں صفدر صدیق رضی نے پیراڈائز سینما کے قریب سٹیشنری کی ایک دوکان پر اپنا کھاتہ کھول رکھا تھا اور اسکے مالک کوہدایت کر رکھی تھی کہ حیدر قریشی جو سٹیشنری جب چاہے رضی کے حساب سے لے سکتا ہے۔’’جدید ادب‘‘کے سلسلہ میں جتنی سٹیشنری کی ضرورت پڑتی تھی میں وہاں سے لے لیا کرتا تھا۔اپنی ضرورت کے لئے میں نے کبھی ایک پیسے کی چیز بھی نہیں لی تھی۔ پھر جب وہ ایک بہت ہی معمولی بات پر دوستی کو چھوڑ گئے تب ایسا نہیں کیا کہ مجھے براہ راست کہہ دیتے کہ میری طرف سے ’’جدید ادب‘‘ کا کام ختم ہوا۔اب میری طرف سے کوئی اسٹیشنری نہیں لیجئے گا۔اس کے بجائے انہوں نے سٹیشنری شاپ والوں کو کہہ دیا کہ جب حیدر قریشی کوئی سامان لینے آئے اسے بتادیں کہ میں نے منع کردیا ہے۔مجھے ان کے اندر کی ’’پاک تبدیلی‘‘کا کوئی علم نہ تھا۔چنانچہ حسب معمول اگلے شمارہ کی تیاری کے سلسلہ میں دوکان پر گیا اور ایک دستہ کاغذ کے لئے کہا تومجھے رضی صاحب کا پیغام سنا دیا گیا۔میں پیغام سن کر حیران رہ گیا۔
اچھا ہوا کہ ہم سے محبت نہیں تمہیں
اچھا  ہوا  کہ  دل  کا  یہ ابہام مر گیا
میری ’’اوقات‘‘دیکھئے کہ اس وقت میری جیب میں ایک دستہ کاغذ خریدنے جتنے پیسے بھی نہ تھے کہ اپنی طرف سے ہی کاغذ خرید لیتا۔شرمندہ ہو کر وہاں سے لَوٹ آیا۔میرا خیال ہے کہ ناحق ملنے والے دکھ کی تلافی خدا کی طرف سے کسی نہ کسی اجر کی صورت میں ضرور ملتی ہے۔اب جو کاغذ کے بجائے کمپیوٹر پر بیٹھ کر اپنی تخلیقات لکھتا رہتا ہوں تو شاید یہ بھی انہیں دکھوں کا صلہ ہو جو بعض دوستوں نے بے جا طور پر دئیے۔بہر حال اﷲ صفدر صدیق رضی صاحب کو خوش رکھے۔
خانپور نے مجھے میری ادبی پہچان عطا کی۔بھاولپور کی سطح پر مجھے نقوی احمد پوری،مظہر مسعود،خورشید ناظر،ڈاکٹر انور صابر جیسے دوست عطا کئے ،توپروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد جیسے غائبانہ محبت کرنے والے مہربان بھی ملا دئیے۔ ایک طرف خانپور سے نذر خلیق نے دلی محبت کے ساتھ میرے بارے میں تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک بہت عمدہ کتاب ’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘مرتب کرکے چھاپ دی ہے۔دوسری طرف ڈاکٹر انور صابر کی صاحبزادی منزّہ یاسمین نے اپنے ایم اے کے مقالہ کے لئے میرے ادبی کام کو اپنا موضوع بنایا تو اس میں ڈاکٹر انور صابر اور خورشید ناظر کی محبت کا بھی کچھ حصہ شامل تھا اور ڈاکٹر شفیق تو بہ نفس نفیس اس مقالہ کے نگران تھے۔فل اسکیپ کے ۲۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مقالہ در حقیقت میری سرائیکی دھرتی کی طرف سے خود میرے لئے میری پہچان کا ایک تحفہ ہے۔میں اس مقالہ کو پڑھ کر صرف خوش ہی نہیں ہوا،اپنی دھرتی کے حوالے سے اپنی پہچان کے ایک اہم مرحلے سے بھی گزرا ہوں۔
جیسا کہ میں شروع میں ذکر کرچکا ہوں،میں نے اپنی سب سے پہلی بے تکی اور ناقابلِ اشاعت غزل میں لکھا تھا۔۔ ؂
نہیں  لطف  حیدرؔ وہ  ذکرِ  خدا میں
جو ملتا ہے لطف ہم کو ذکرِ صنم میں
اب اپنے پورے ادبی سفر کو شاعری کے حوالے سے دیکھنے لگا ہوں تو مجھے اپنی تین نئی غزلوں کے مقطعوں میں جیسے اپنے ادبی سفر کی پوری روداد مل گئی ہے۔بس میں نے مذکورہ بالا شعر سے لے کر ان اشعار تک کا سفر کیا ہے۔
یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدرؔ
یا  اب  پیہم  اشک   دعا میں گرتے ہیں


بن جاتا تریاق  اسی  کا  زہر  اگر  تم  حیدر ؔ
کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اُس پر دَم کرتے


آنکھیں اُس کی بھی ہیں اب برسات بھری
حیدرؔ مَیل دلوں  کے  دُھلنے  والے  ہیں
میری شاعری کی بات میری پہلی کے غزل کے مقطع سے شروع ہوئی تھی اور اب تک کی تازہ غزلوں کے مقطعوں تک آ پہنچی ہے۔گویا ’’سخن گسترانہ ‘‘بات مقطع سے شروع ہو کر مقطعوں میں آ پڑی ہے۔
میرے پہلے بے تکے اظہار سے لے کر ایسے اشعار تک۔۔۔۔یہی میرے اب تک کے شعری سفر کی رُوداد ہے۔فکری اور شعری لحاظ سے جتنا بھی سفر طے ہوا ہے سراسر خدا کا فضل اور احسان ہے۔وگرنہ من آنم کہ من دانم!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen