Freitag, 15. Juli 2011

۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ

۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ

شعرو ادب میں مردانہ اور زنانہ ڈبوں والی کوئی بات نہیں رہی تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی سوسائٹی میں خواتین کے مختلف رشتوں اور رنگوں سے حسن پیدا ہوا ہے۔میری زندگی پر میری والدہ کا جتنا گہرا اثر ہے وہ میری مختلف تحریروں میں ب�آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔اردو میں والدہ کے حوالے سے اب کئی لوگ لکھنے لگے ہیں۔ عام طور پر قدرت اللہ شہاب کے خاکے’’ماں جی‘‘ کو اس نوعیت کا پہلا اردو نمونہ کہا جاتا ہے۔تاہم میں اپنی معلومات کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ قدرت اللہ شہاب سے بھی بہت پہلے سر محمد ظفر اللہ خان نے ۱۹۳۸ء میں ایک مختصر سی کتاب ’’میری والدہ‘‘شائع کی تھی ۔اپنے کردار کی مضبوطی کے حوالے سے اور بعض دوسرے حوالوں سے بھی سر محمد ظفراللہ خان کی والدہ کا کردار قدرت اللہ شہاب کی’’ماں جی‘‘سے کہیں زیادہ اہم دکھائی دیتا ہے۔لیکن کچھ ہماری اردو سوسائٹی کے بعض تحفظات اور تعصبات کے باعث اور کچھ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین میں سے بعض کی بے خبری کے باعث اردو میں ماں کے بارے میں لکھے گئے اس اولین شہ پارے کی طرف توجہ ہی نہیں جا سکی۔میرا خیال ہے کہ سر محمد ظفراللہ خان اور قدرت اللہ شہاب کے بعد اکبر حمیدی نے ’’ماں جی‘‘ کے عنوان سے ایک زبردست خاکہ لکھا جو ان کی والدہ کا نہیں بلکہ دادی کا خاکہ تھا۔ دادی کو انگریزی میں گرانڈ مدر یعنی بڑی ماں کہتے ہیں۔سو یوں اکبر حمیدی نے اس خاکے کے ذریعے ماں کے رشتے کے ایک اور زاویے کو اجاگر کیا۔اکبر حمیدی کے بعد میں نے’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘کے عنوان سے اپنی امی جی کا خاکہ لکھا۔اس کے بعد جیسے والدہ کے بارے میں لکھنے والوں کی بہار آگئی۔بعض دوستوں نے اپنی اپنی والدہ کے حوالے سے پوری کتابیں لکھ دیں۔ اگر چہ ایسی کتابوں میں طوالت کے باعث جذباتیت زیادہ راہ پا گئی ہے تاہم ایک مثبت رویے کی طرف لکھنے والے دھیان تو دینے لگے،یہی بڑی بات ہے۔ اپنی والدہ کے علاوہ میں نے اپنی بڑی بہن کا خاکہ’’محبت کی نمناک خوشبو‘‘ اوراپنی اہلیہ کا خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘لکھا جنہیں ادبی دنیا میں کافی پسند کیا گیا۔مجموعی طور پر میرے خاکوں اور یادوں میں ماں،دادی،نانی،بہن، بیٹی، ممانی، کے کردار براہ راست آئے ہوئے ہیں۔مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنی امی جی کے اثرات سے خود کو کبھی بھی آزاد نہیں کر سکتا بلکہ ان کے اثرات سے آزاد ہونا ہی نہیں چاہتا۔
عورت کے یہ سارے روپ میرے دل میں عقیدت ، احترام اور محبت سے گندھے ہوئے ہیں ۔اس پس منظر کے ساتھ اردو دنیا کی خواتین کے بارے میں غور کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ وہاں عقیدت تو نہیں ہے لیکن بہت ساری ایسی ادبی خواتین ہیں جن کے لئے میرے دل میں احترام اور محبت کے جذبات ہیں۔کئی ہیں جن کے لئے دنیاوی سطح پر سہی لیکن اخلاص موجود ہے۔بعض خواتین کے منفی روپ بھی ہیں ۔ کئی ایسی ادبی خواتین ہیں جن سے ملنا میرے لئے ذاتی طور پر ایک اعزاز سے کم نہیں۔سو یادوں کے اس باب میں ادبی حوالے سے ایسی شاعرات اور ادیباؤں کو یاد کروں گا جن سے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرملاقات ہوئی ہے ۔کہیں کہیں ادب سے غیر متعلق خواتین کا ذکر ناگزیر ہوا تو وہ بھی آجائے گاکیونکہ یادوں کا بہاؤ توخواتین کی طرف ہے۔
قرۃالعین حیدرسے دو بار ملاقات ہوئی۔ایک بار جب وہ پہلی بار پاکستان آئیں تو ان کے اعزاز میں فیصل آباد کے چناب کلب نے ایک ادبی تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا۔میں اس میں شریک ہوا تھا اور تقریب کے بعد بھی ان کے ساتھ تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی۔تاہم اس ملاقات کا حاصل فوٹو سیشن رہا۔کشور ناہید لاہور سے ان کے ساتھ آئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ جو بڑے بڑے مردوں کے سامنے مردانہ وار گفتگو کرتی ہیں وہی کشور ناہید ان کے سامنے سراپا نیاز بنی ہوئی تھیں۔قرۃالعین حیدر سے دوسری ملاقات سال ۲۰۰۰ء میں لندن میں ہوئی۔یہاں بھی ایک کانفرنس چل رہی تھی اور یہاں بھی سلام دعا،پہلی ملاقات کا ہلکا سا ذکراور فوٹو سیشن۔فیصل آباد والی تصویرانہیں دنوں میں ماہنامہ ماہِ نَو لاہور میں چھپی تھی اور لندن والی تصویر تو انگلینڈ اور جرمنی کے رسالوں میں چھپ چکی ہے۔ پہلی ملاقات میں وہ زور آور دکھائی دی تھیں جبکہ اس بار وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔تاہم ان کے ساتھ ملنا بھی میرے لئے ملاقاتِ مسیحا و خضر جیسی بات تھی۔
کشور ناہید کا ذکر ہوا ہے،ان کے بارے میں مثبت اور منفی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ان سے میری بہت زیادہ ملاقاتیں تو نہیں رہیں لیکن اتنی کم بھی نہیں ہوئیں۔میں جدید ادب کی اشاعت کے سلسلے میں جب لاہور جاتاتھا تو مختلف ادباء سے ملا کرتا تھا۔کشور ناہید سے بھی سات آٹھ بار تو ملاقات ہوئی ہو گی۔خوش مزاج اور لبرل خاتون ہیں۔مردوں کی محفل میں بیٹھ کر بھی پوری محفل پر چھا جاتی تھیں۔مرد حضرات زچ ہو کر پھر ان کے ساتھ مردوں جیسا رویہ اختیار کر لیتے۔ایک بار عید الفطر کے بعد ادیبوں کی عید ملن پارٹی ہوئی۔اس میں کشور ناہید حسبِ معمول خوب چہک رہی تھیں جبکہ ان کے شوہر یوسف کامران خاموش بیٹھے تھے۔کسی ادیب نے اس صورتحال کی طرف توجہ دلائی تو ڈاکٹر انور سدید کہنے لگے عید الفطر کے موقعہ پر کشور ناہید بولتی ہیں اور یوسف کامران چُپ رہتے ہیں اور عید الاضحی پریوسف کامران بولتے ہیں اور کشور ناہید خاموش رہتی ہیں۔ایک اور موقعہ پر پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری کشور کے جملوں کی لپیٹ میں آگئے۔انہیں کشور ناہید کے جملوں کا جواب نہیں سوجھ رہا تھا، آخر تنگ آکر بولے:اگر میں نے تمہیں پہلے دیکھ لیا ہوتا تو قومی ترانے میں کبھی یہ مصرعہ شامل نہ کرتا ؂ کشورِ حسین شادباد!
مدت کے بعد ماریشس کی ادبی کانفرنس میں ان سے ملاقات ہوئی۔شفقت سے پیش آئیں۔لیکن جملہ بازی سے وہاں بھی باز نہیں آئیں۔رات کو مشاعرہ ہوا تھا۔ میں نے اس میں جو غزل سنائی تھی ،اس کے ایک شعر پر کشور نے داد دی ۔
دودھ  بدن  ہے  وہ  تو مصری کوزہ   ہم 
سو اب اس کے عشق میں گھلنے والے ہیں
اگلے دن ایک اجلاس کی صدارت کشور ناہید کے ذمہ تھی۔وہ کرسئ صدارت پر بیٹھی تھیں۔اسٹیج سیکریٹری اعلان کر رہے تھے کہ اب فلاں صاحب اسٹیج پر آکر ساری کانفرنس کی تقاریر اور مقالات کا خلاصہ دو دو سطروں میں کوزے میں سمندر کی طرح بند کرکے پیش کریں گے۔جب وہ صاحب اسٹیج کی طرف جانے لگے تو میں نے صدا لگائی: لائیے صاحب!آپ اپنے کوزے۔اس پر کشور ناہید نے صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی جواب داغا:’’پر۔۔۔ مصری اپنی اپنی‘‘۔
کشور ناہید غزل اور نظم کے میدان میں آگے چلتیں تو ان کے ہاں موجود امکانات بہتر طور پر سامنے آتے لیکن انہوں نے خود ہی نثری نظم کو سب کچھ مان کر شاعری کی دنیا میں اپنے تخلیقی امکانات کی راہیں مسدود کر دیں۔اس کے باوجود ان کے مجموعی ادبی کام کے حوالے سے بھی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی انہیں ایک بہادر خاتون کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
۱۹۹۳ء میں دہلی میں مجھے امرتا پریتم سے تین چار بار ملنے کا موقعہ ملا۔حوض خاص کے علاقہ میں ان کی رہائش گاہ پر ان سے طویل نشستیں ہوئیں۔تب اردو میں ماہیے کی بحث کا آغازہو رہا تھا،میں نے ان سے بھی اس موضوع پر بات کی۔عروضی حوالے سے تو انہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب میں نے ایک ماہیا گنگنا کر انہیں سنایا توکہنے لگیں یہ تجربہ تو ساحر لدھیانوی کئی سال پہلے اردو میں کر چکے ہیں۔میں نے فلم نیا دور کا حوالہ دے کر ماہیا سنایا :دل لے کے دغا دیں گے؍یار ہیں مطلب کے؍ یہ دیں گے تو کیا دیں گے
میرے حافظہ کی تحسین کرنے لگیں۔ایک پاکستانی شاعر نے ان کی پنجابی نظموں کے اردو میں تراجم کئے تھے،امرتا پریتم ان سے مطمئن نہیں تھیں۔چنانچہ ہم نے طے کیا کہ وہ نظم سنائیں گی اور ساتھ کے ساتھ اردو ترجمہ کرتے جائیں گے۔اس طرح ان کی کوئی آٹھ دس نظموں کا ترجمہ کیا گیا۔افسوس کہ میں اپنی مسافرت میں وہ قیمتی کام کہیں گم کر بیٹھاہوں۔امروز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔اور امرتاکے بیٹے کو بھی دیکھا جس کی شکل ساحر سے ملتی ہے اور جس کا بہت سارا ذکر امرتا پریتم نے اپنی کتاب’’ رسیدی ٹکٹ‘‘میں کیا ہوا ہے۔امرتا پریتم نے جو کچھ لکھا ہے سب سچ ہوگا لیکن مجھے اس جوان کا ذہنی توازن کچھ گڑ بڑ سا لگاتھا۔
ایک بار ٹائمز آف انڈیا کے سنڈے ایڈیشن میں ہندی کے ایک معروف ادیب(اس وقت نام ذہن میں نہیں آرہا) کا مضمون چھپا۔وہ ساحر کے اور امرتا کے پرانے دوستوں میں سے تھے لیکن اس مضمون میں انہوں نے امرتا کے بارے میں بعض نامناسب باتوں کا ذکر کیا تھا۔میں اسی روز سہ پہر کے بعد ملنے گیا تو گھر پر افسردگی اور ذہنی تناؤ کی سی کیفیت طاری تھی۔امروز غصہ میں دکھائی دے رہے تھے۔مجھے افسوس ہوا کہ میں ایسے موقعہ پر ان کے گھر کیوں چلا گیا۔بہر حال امرتا پریتم سے ملنا بھی میرے لئے ایک اعزاز رہا۔یہ ان سینیئرز میں سے ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارے دلوں میں اپنے لئے ادب کی مزید نئی راہوں کی تلاش کی جستجو پیدا ہوئی۔
بانو قدسیہ سے صرف ایک بار اور ان کی کوٹھی پر ملاقات ہوئی۔اشفاق صاحب علیل ہو گئے تھے۔ڈاکٹروزیر آغا کے ساتھ میں بھی ان کی عیادت کے لئے گیا ۔اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے لئے تو میں کوئی انجان سا نیا ادیب تھالیکن خدا بھلا کرے ممتاز مفتی کا جو اسلام آباد سے اشفاق صاحب کی عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے۔جدید ادب کے حوالے سے میرا ان سے باقاعدہ رابطہ رہتا تھا سو انہوں نے اتنے تپاک سے ملاقات کی کہ اپنا کچھ بھرم سا رہ گیا۔تاہم بانو قدسیہ سے رسمی علیک سلیک ہی ہوئی۔ان سے اصل ملاقات تو تب ہوئی جب ان کا ناول راجہ گدھ پڑھا۔ عشرت آفریں(کراچی۔حال امریکہ)،حمیدہ معین رضوی(لندن)نوشی گیلانی(بہاولپور۔حال امریکہ ) صفیہ صدیقی(لندن)سے سرسری ایک دو ملاقاتیں ہوئیں تاہم ان کا مثبت تاثر میرے ذہن میں رہا۔پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے پاکستانی ادیبوں کا ایک وفد جرمنی میں آیا تھا۔تب انتظار حسین صاحب کو میں اپنے ہاں لے آیا ۔اگلے روز انہیں جس گھر پر پہنچانے گیا وہاں پاکستانی وفد کے دوسرے افراد سے بھی ملاقات ہوئی۔میں نے ایک خاتون کو دیکھ کر استفسار کیا:آپ خالدہ حسین ہیں؟۔۔خالدہ حسین ان کے ساتھ بیٹھی تھیں اور وہ خاتون فہمیدہ ریاض تھیں۔عمر کے اس مقام پر بھی اچھی لگیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان کی بے باک شاعری کبھی اچھی نہیں لگی۔شاید یہ مرد شاونزم کی کوئی صورت ہو لیکن میرا تاثر ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔
ماہ طلعت زاہدی سے ایک بار بہاولپور میں ہونے والی ایک ادبی کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد ایک بار ان کے گھر ملتان میں ملاقات ہوئی۔دھان پان سی بی بی ماہ طلعت اپنے انداز کی بھلی شاعرہ ہیں۔اب بھی رسائل میں کہیں دکھائی دے جائیں تو انہیں پڑھ کر خوش ہوتا ہوں۔خانپور کی ایک شاعرہ تھیں سیدہ ماہ طلعت۔ان دونوں ماہ طلعتوں کے ناموں کا مسئلہ سامنے آیاتو خانپور کی ماہ طلعت،نے غزالہ طلعت کے قلمی نام سے لکھنا شروع کر دیا اور پھر بہت جلد ان کی شادی ہو گئی اور ان کی شاعری کا شوق اپنے انجام کو پہنچ گیا۔خانپور کی ایک شاعرہ شیما سیال تھیں۔اردو اور سرئیکی میں شاعری کرتی تھیں۔ان کی شادی کے بعد بھی شاعری کا سلسلہ جاری رہا۔ان کے مقابلہ میں ان کی چھوٹی بہن پروین عزیز میں شاعرانہ صلاحیت بہت عمدہ تھی۔خانپور کی سب سے اچھی شاعرہ انہیں کہا جا سکتا ہے۔شروع میں مجھ سے ان کے معاملہ میں کچھ زیادتی ہوئی،میں نے انہیں نظر انداز کیا۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے غلطی کا احساس ہوا۔میں نے اس کی تلافی کرنا چاہی لیکن تب تک وہ مجھ سے شدید خفا ہو چکی تھیں۔وہ شاعری کی طرف آئیں لیکن بے دلی سے۔اب خانپور میں ہی انگریزی کی پروفیسر ہیں۔تاہم میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میری زیادتی کی وجہ سے پروین عزیز نظر انداز ہوئیں اور اس سے اتنا دلبرداشتہ ہوئیں کہ ادب سے ہی کسی حد تک کنارا کر گئیں۔میں خود بھی پھر ادب کی دنیا میں انہیں واپس نہ لا سکا۔اور میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ پروین عزیز کو ابتدا میں اچھی حوصلہ افزائی کرنے والے احباب مل جاتے تو وہ یقیناََ آج کی ایک معتبر شاعرہ ہوتیں۔ایسا نہیں ہوا تو یہ میرا ادبی گناہ ہے۔
خدا میرے ادبی بے انصافی کے گناہ کو معاف کرے۔
ثمینہ راجہ رحیم یارخان کے قریب ایک گاؤں راجہ کوٹ میں رہتی تھیں۔ان میں شروع سے ہی شاندار تخلیقی صلاحیتیں تھیں۔گاؤں کے ماحول میں تو شاید یہ صلاحیتیں پوری طرح ابھر نہ پاتیں تاہم انہوں نے ہمت سے کام لیا اور قسمت نے یاوری کی اور وہ جلد ہی اسلام آباد کے کشادہ ماحول میں پہنچ گئیں۔اردو کے ایک اچھے شاعر زمان ملک سے ان کی شادی ہو گئی۔پھر غالباََ رشتہ زیادہ نبھ نہیں سکا۔تاہم ثمینہ راجہ نے بڑی بہادری کے ساتھ سماجی سطح پر بھی اور ادبی سطح پر بھی زندگی کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ثمینہ راجہ کو ادبی دنیا میں کافی حد تک پذیرائی ملی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا جو ادبی مقام بنتا ہے ابھی تک ان کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا گیا۔میری ان کے ساتھ رحیم یارخان کے زمانے سے ہی خط و کتابت تھی۔ادبی رابطہ تھا۔تاہم ان سے بالمشافہ ملاقات غالباََ ۹۲۔۱۹۹۱ء ہوئی تھی۔عذرا اصغر نے میری اسلام آباد میں آمد پر اپنے گھر میں ہی ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کا اہتمام کیا تھا۔ثمینہ راجہ بھی اس موقعہ پر آئی تھیں۔
عذرا اصغر کے گھراور ان کے نام سے کچھ ان کابھی ذکر ہوجائے۔ویسے میں ان کا خاکہ لکھ چکا ہوں جو میرے خاکوں کے مجموعہ میں شامل ہے۔میرے پہلے دو شعری مجموعے اور پہلا افسانوی مجموعہ عذرا اصغر نے اپنے اشاعتی ادارہ تجدید اشاعت گھر کی طرف سے شائع کئے تھے۔ ان کے سرورق ان کی صاحبزادی شبہ طراز نے بڑی محنت کے ساتھ بنائے تھے۔شبہ طراز بیک وقت شاعرہ بھی ہیں اور مصورہ بھی۔ان سے بھی عذرا کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی تھی،جہاں وہ اپنے سسرال سے آئی ہوئی تھیں۔ویسے فون پر تو کچھ عرصہ پہلے بھی میری شبہ اور عذرا دونوں سے بات ہوئی تھی۔میرا دل رکھنے کے لئے دونوں نے تھوڑے تھوڑے سے ماہیے بھی کہے تھے۔
ہندوستان میں کرشنا پال سے جوگندر پال جی کے ہاں ملاقات ہوئی ۔جوگندر پال جی کی اہلیہ کرشنا پال یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ہندی میں زیادہ تر لکھتی ہیں۔جوگندر پال جی کی کئی کہانیوں کے انہوں نے ہندی میں ترجمے کئے ہیں۔ان سے دہلی میں کئی بار ملاقات ہوئی۔مجھے ایک بار حدیث قدسی’’زمانے کو برا مت کہو،میں خود زمانہ ہوں‘‘ کا اصل عربی متن درکار تھا۔کرشنا پال سے ذکر ہواتو انہوں نے دوسرے دن مجھے عربی متن فراہم کر دیا۔پتہ چلا انہوں نے یونیورسٹی کے عربی یا اسلامیات کے پروفیسر سے پوچھ کر متن حاصل کر لیا اور مجھے دے دیا۔جوگندر پال جی اور کرشنا پال کی صاحبزادی سکریتا پال کمار انگریزی کی ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں۔متعدد بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کر چکی ہیں۔ انگریزی کی اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ان کی متعدد انگریزی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ان سے دو بار ملاقات ہوئی تھی اور گفتگو کرتے ہوئے اپنی کم علمی کا احساس ہوتا رہا تھا۔
ظفر پیامی کے قلمی نام سے لکھنے والے دیوان صاحب کی اہلیہ منورما دیوان اردو کی ممتاز صحافی ہیں ۔یہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کے داعیوں کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ان سے دو تین بار ملاقات ہوئی اور ہر ملاقات کا ایک گہرا نقش میرے دل پر موجود ہے۔ کرشنا سوبتی ہندی کی پاپولر رائٹرہیں۔دیوندر اسر مجھے ان سے ملانے لے گئے۔بہت اچھی طرح ملیں۔باتوں باتوں میں حضرت خواجہ غلام فرید کا ذکر چھڑا اور پٹھانے خان کا نام آیا تو کرشنا سوبتی بتانے لگیں کہ پٹھانے خاں ہندو تھے۔پاکستان بننے کے بعد وہاں رہ گئے تو مسلمان ہو گئے تاہم انہوں نے خواجہ غلام فرید کے در کی غلامی پکڑ لی ۔خیال رہے کہ بر صغیر کے مسلمان اولیاء کے مزاروں پر ہندو بھی اتنی ہی عقیدت سے حاضری دیتے ہیں جتنی عقیدت سے مسلمان حاضر ہوا کرتے ہیں۔کرشنا سوبتی کا کہنا تھا کہ پٹھانے خاں کے گلے میں جو درد اورسوزہے وہ اسی المیہ کے بھیتر کی داستان ہے۔جیسے میرے لئے پٹھانے خاں کے بارے میں کرشنا سوبتی کے بیان کی تردید کرنا مشکل ہے اسی طرح میں اس کی تصدیق بھی نہیں کر سکتا۔مجھے اتنا یاد ہے ابا جی بتایا کرتے تھے کہ وہ اپنے بچپن میں پٹھانے خاں کو سڑکوں اور بازاروں میں گاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ظاہر ہے تب پٹھانے خاں کا بھی بچپن ہی ہوگا۔اب تو حضرت خواجہ غلام فرید کانام اور کلام ذہن میں آتے ہی پٹھانے خاں کا چہرہ بھی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ حیدر آباد دکن کی رہنے والی ممتاز افسانہ نگارجیلانی بانو سے ان کی پاکستان میں آمد پرڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ملاقات ہوئی تھی۔لیکن یہ بس رسمی سی ملاقات تھی۔شمیم حنفی کی اہلیہ صبا حنفی کے ساتھ ماریشس میں اچھی ملاقاتیں رہی تھیں۔شمیم حنفی کی صحبت نے ان کا ادبی ذوق نکھار دیا ہے۔بنیادی طور پر بچوں کی تعلیم ان کا شعبہ ہے لیکن جز وقتی شاعری بھی کرتی ہیں ۔بہت ہی نفیس اور شائستہ خاتون ہیں۔
کسی زمانے کی معروف براڈ کاسٹرثریا شہاب جرمنی میں رہ رہی تھیں۔ان سے ملاقات ہوئی تو تھوڑا ربط بڑھا۔وہ ڈیلی جنگ لندن سے بھی منسلک تھیں۔جرمنی میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے پوری طرح رابطے رکھتی تھیں۔مجھ سے انہوں نے جنگ لندن کے لئے ایک انٹرویو کیاجو اس اخبار میں تب ہی چھپ گیا تھا۔میں نے اس انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں ادب کی مجلسی زندگی سے اپنی بے رغبتی اور بے تعلقی کااظہار کیا تھا۔ثریا نے دل میں طے کر لیا کہ اس بندے کو مجلسی زندگی میں لانا ہے۔چنانچہ جلد ہی ایک حلقۂ ادب قائم کرکے مجھے اس کا سیکریٹری بنا دیا گیا۔ میں نے کام شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد تو وزن میں شعر بھی نہیں سنا سکتی۔بے وزن کلام تنقید کے لئے پیش کیا جانے لگا تو میں نے کہا کہ یہ تو حلقہ کے نام پر دھبہ ہے۔کمال یہ ہے کہ یہاں کے شعراء مکمل بے وزن ہونے کے باوجود پورے اعتماد کے ساتھ خود کو باوزن شاعر سمجھتے تھے۔چنانچہ میں نے ایسے ماحول سے جان چھڑانے کے لئے حلقہ کی سیکریٹری شپ چھوڑ دی۔دو تین ہفتوں کے بعد ثریا میرے ہاں آگئیں۔نہیں حلقہ آپ نے ہی چلانا ہے۔بہر حال مجھے اس حلقہ میں دوسری اور تیسری بار بھی جانا پڑا۔لیکن حلقہ ادب تو ’’ہلکا‘‘ادب بھی نہیں تھا۔تیسری بار میں نے کچھ ناراضی اورکچھ منت کے ساتھ جان چھڑائی۔
ثریا شہاب ادبی طور پر پہلے افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئیں۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’’سرخ لباس‘‘چھپ چکا تھا لیکن اس میں ایک افسانہ بھی ایسا نہیں جسے کسی ادبی حوالے کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔اسی دوران ان کا ناول’’سفر جاری ہے‘‘چھپ کر آگیا۔میں اس ناول کو پڑھ کر حیران ہوا اور خوش بھی ہوا۔ناول بڑا نہ سہی لیکن ثریا کی ادبی پہچان اس سے بن رہی تھی۔اس دوران میں انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ترتیب دینے کے لئے مجھے اپنا مسودہ دیا۔میں نے اس پر بہت محنت کی۔بہت سی بے وزن چیزیں قلم زد کیں۔چند ایک کی درستی کی۔نظموں کی نوک پلک سنواری۔ردھم سے عاری نظموں کو الگ کرکے میں نے مشورہ دیا کہ انہیں نثری نظم کے الگ سیکشن میں شامل کر لیں۔
لیکن جب مجموعہ چھپ کر آیا تو نظم اور نثری نظم سب ملی جلی تھیں۔ایک بار انہوں نے مجھے کہا کہ میرا ایک ادھورا ناول ہے،آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں تو شاید اس پر ہم گفتگو کر سکیں اور ناول مکمل ہو جائے۔میں نے وقت کی کمی اور اپنی دوسری مصروفیات کے باعث معذرت کر لی۔تھوڑے عرصہ کے بعد ان کا ناول ’’بارشوں کے موسم میں ‘‘چھپ گیا۔تاہم مجھے ایک حیرانی رہتی ہے کہ ان کے پہلے ناول کے بعد دوسرے ناول کی زبان و بیان پر گرفت مضبوط ہونا چاہئے تھی لیکن دوسرے ناول پر یہ گرفت پہلے کے مقابلہ میں بے حد کمزور ہے۔
بنیادی طور پر ثریا نیوز ریڈر تھیں۔ٹی وی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنگ لندن کی نمائندگی کرکے جرمنی میں رونق میلہ لگائے رکھا۔پھر انہیں کینسر کا عارضہ ہو گیا۔ جرمنی میں علاج معالجہ کی شاندار سہولتوں کے ہوتے ہوئے ثریا نے پاکستان واپس جانے کا طے کر لیا۔ ان کے جرمن شوہر مسٹر ہنس بھی ان کے ساتھ پاکستان چلے گئے۔چند برس وہاں رہے۔اب سنا ہے کہ وہ بھی ثریا کو چھوڑ کر جرمنی میں واپس آگئے ہیں۔اور ثریا ڈپلومیٹس کے شہر اسلام آباد میں کینسر کے عارضہ کی آخری اسٹیج پر بالکل تنہائی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
جرمنی میں برلن سے ایک شاعرہ کا پتہ چلا۔رخسانہ شمیم ان کا نام تھا۔ان سے رابطہ ہوا تو تھوڑے عرصہ کے بعد ملنے کے لئے آگئیں۔تین چار دن ہمارے گھر پر رہیں۔شاعری واعری کا تو کچھ خاص پتہ نہیں چلا کہ کیسے کرتی ہیں لیکن مجھے ایسا لگا کہ اپنے بعض مسائل کی وجہ سے وہ کچھ نیم خبطی سی ہو رہی ہیں۔پھر پتہ چلا کہ وہ امریکہ جا رہی ہیں۔ان کا کلام ’’توازن‘‘ مالیگاؤں میں چھپتا رہتا ہے۔
جرمنی میں اردو بولنے والی جرمن خواتین ڈاکٹر کرسٹینا اور اولرک اسٹارک ہیں۔دونوں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا ئی زبانوں کے شعبہ سے متعلق ہیں۔اولرک اسٹارک تو اب شکاگو چلی گئی ہیں۔کرسٹینا اب بھی اسی ادارہ میں ہیں۔انہوں نے مشرقی جرمنی کے زمانہ میں برلن سے قرۃالعین حیدر پر پی ایچ ڈی کی تھی۔میرا خیال تھا کہ انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہو گی لیکن کرسٹینا نے خود ایک بار بتایا کہ مقالہ جرمن زبان میں لکھا تھا۔ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔بوقت ضرورت ہم رابطہ کر لیتے ہیں۔اردو بول چال سکھانے کے لئے نصابی نوعیت کا کام زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ اردو ادب کا ایک انتخاب جرمن زبان میں ترجمہ کرکے شائع کرچکی ہیں۔ادبی تحقیق کے حوالے سے کسی ریفرینس کی ضرورت ہو اور وہ ان کی دسترس میں ہو تو فراہمی کے لئے مخلصانہ تعاون کرتی ہیں۔قلی قطب شاہ اور ملّا وجہی سے لے کر ن۔م۔راشد اور میرا جی تک کتنے ہی اردو شاعروں اور ادیبوں پرانگریزی اور جرمن زبانوں میں مضامین لکھ چکی ہیں۔شاعروں سے زیادہ نثر نگاروں پر کام کیا ہے۔کئی یورپی اور عالمی ادبی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کر چکی ہیں،لیکن ان کا میلان مجلسی سے زیادہ علمی ہے۔
اردو جاننے والی اور فیض احمد فیض کی عاشقِ صادق روس کی ڈاکٹر لڈمیلا باغ و بہار شخصیت کی حامل ہیں۔اردو ادب پر ان کی نظر کافی گہری ہے۔کثیر المطالعہ ہیں اور ادبی شعور بھی رکھتی ہیں۔ترقی پسند تحریک سے شروع سے وابستگی رہی جو روح میں رچ سی گئی۔لیکن اب جو سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد کیمونزم کا زور ٹوٹا ہے تو ڈاکٹر لڈمیلا نے بھی خود کو نئی صورتحال میں اچھے طریقے سے ایڈجسٹ کر لیا ہے۔فیض اور اردو سے ان کی وابستگی آج بھی قائم ہے۔دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی اردو کانفرنس ہوانہیں بلایا جاتا ہے۔بے شک ہم لوگوں کے لئے کسی گورے یا گوری کا اردو بولنا حیرانی اور خوشی کا موجب بنتا ہے اور انہیں بلانے میں یہ فیکٹر بھی موجود ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر لڈمیلا اپنی اہلیت کی بنا پراردو،فیض اور ترقی پسند حوالے سے بلائے جانے کا استحقاق رکھتی ہیں۔میری ان سے دو کانفرنسوں میں ملاقات ہو چکی ہے اور وہ اتنے خلوص کا تاثر دیتی ہیں کہ جیسے میں ان کے لئے ذرا سا بھی اجنبی نہیں رہا۔
ڈاکٹر وسیم بیگم دہلی سے انگلینڈ آئی تھیں تو میں نے شاہد ماہلی صاحب کے ساتھ انہیں بھی جرمنی میں مدعو کیا تھا۔یہاں انہوں نے غالب پر ہونے والی ایک تقریب میں اپنا مقالہ پڑھا تھا۔دہلی جانے کے بعد کبھی کبھار ان سے رابطہ ہوجاتا تھا۔پھر ایک لمبا وقفہ آیا اور اس کے بعد اچانک ان کی ای میل ملی جس میں انہوں نے لکھا کہ انہین علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنی پسند کی جاب مل گئی ہے۔تحقیق کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہیں۔بعض رسائل میں ان کے تبصرے بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
صدیقہ بیگم ادبِ لطیف کے بانی برکت علی چوہدری کی صاحبزادی ہیں۔خود شاعرہ یا ادیبہ نہیں ہیں لیکن نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے اپنے پُرکھوں کی یاد کے طور پر ادبِ لطیف کو جیسے تیسے جاری رکھا ہوا ہے۔پاکستان میں اپنے بے روزگاری کے دور میں مجھے ادبِ لطیف کے لئے تھوڑ ابہت کام کرنے کا موقعہ ملا۔ان کے پچپن سالہ نمبر کے لئے میں نے بطور خاص محنت کی تھی۔لاہور میں کئی بار ان سے ویسے بھی ملنا رہا۔ملنسار خاتون ہیں۔جرمنی آنے کے بعد بھی وقتاََ فوقتاََ ان سے رابطہ رہتا ہے۔ادبِ لطیف کی ویب سائٹ اردوستان کے زیر اہتمام میں نے جاری کرائی تھی۔کاشف صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میرے کہنے پر اتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ادبِ لطیف کی تاریخ ترقی پسند تحریک کی حمایت سے عبارت رہی ہے۔تاہم اس کی گولڈن جوبلی تقریب کی صدارت قدرت اللہ شہاب سے کرائی گئی اور انہوں نے اپنی تقریر میں ادبِ لطیف کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پرانے دکھ بیان کئے اور ادارہ کا شکریہ ادا کیا کہ اب انہیں اتنی عزت دی گئی ہے۔صدیقہ بیگم نے جرمنی میں مقیم ایک رائٹر خاتون سلمیٰ جبیں سید کا اتہ پتہ بھیجا اور انہیں اپنی دوست لکھا۔ان سے رابطہ ہوا۔میں انہیں وہ سلمیٰ جبیں سمجھتا رہا جوخواتین کے رسائل میں لکھا کرتی تھیں اور رضیہ بٹ کی طرح پاپولر ناولسٹ بھی تھیں۔ لیکن جب وہ میرے ہاں آئیں تو انہوں نے اس کی تردید کی۔لکھنے کا شوق انہیں ضرور رہا لیکن بنیادی طور پر براڈ کاسٹر تھیں۔قمر علی عباسی بڑے خوش مزاج انسان ہیں اور ان کے سفر نامے بھی ان کی شخصیت کی طرح خوشگوار ہوتے ہیں۔اپنے جرمنی کے سفر نامہ ’’اور دیوار گر گئی‘‘ میں انہوں نے ہم سب کا محبت کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن ثریا شہاب اور سلمیٰ سید کے ذکر میں بین السطور جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کچھ گراں سا گزرا ۔ہم سب خطا کے پتلے انسان ہیں کوئی ادبی خامی ہو تو ضرور بیان کریں لیکن شخصی کمزوریوں کا ذکر محبت کے باب میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔بہر حال یہ تو یونہی بات سے بات نکل آئی۔ قمر علی عباسی سے اور ان کی اہلیہ اور کسی زمانے کی معروف ٹی وی اسٹار نیلوفر عباسی سے دو تین بارملاقات ہو چکی ہے۔ دونوں میاں بیوی ایک بار جرمنی میں میرے گھر بھی تشریف لا چکے ہیں۔نیلوفر عباسی کی گفتگو میںیہاں مغرب میں مقیم کئی شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ ادبی شعور جھلکتا تھاجو میرے لئے حیران کن بات تھی۔ دورانِ گفتگو نیلوفر عباسی نے جب یہ بتایا کہ آصف فرخی ان کے خالہ زاد بھائی ہیں تو ان کے ادبی شعور پر حیرت دور ہو گئی اور یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ وہ ایک علمی و ادبی خاندان کی فرد ہیں۔کراچی میں مقیم فردوس حیدر معروف افسانہ نگار ہیں۔ٹی وی کے لئے ان کی ایک دو سیریلز بھی کافی مقبول ہوئیں۔ان سے سلطان جمیل نسیم صاحب اور جمیل زبیری صاحب کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔کراچی میں دو تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ایک بار دہلی میں بھی جوگندر پال جی کے یہاں ملاقات ہوئی ۔مجھے ان کی شخصیت میں ہمیشہ ایک نفاست اور وقارکا احساس ہوا۔ہم بہت زیادہ نہیں ملے لیکن جتنا ملے ہماری گفتگو نے ادب کے کئی تازہ موضوعات کو اپنے محیط میں لیا اور ہم نے ان پر بے تکلفانہ اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
سیدہ حنا جب پشاور میں تھیں اور وہاں سے اپنا رسالہ ابلاغ نکالتی تھیں،تب ان سے رابطہ ہوا۔میں اپنے سسرال پشاور گیا تو ان سے بھی ملنے کے لئے گیا۔حامد سروش اور سیدہ حنا دونوں اچھے لوگ تھے۔دونوں بہن بھائی مل کر ادب کی خدمت کر رہے تھے۔اچانک کہیں بیچ میں ماہیے کا مسئلہ شروع ہو گیا اور پھر کسی نہ کسی بہانے سے یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا،سو ٹوٹ گیا۔پھرہمارے درمیان گھمسان کا رن پڑا تھا۔ماہیے کی بحث کو ادبی سلیقے سے آگے بڑھا جا سکتا تھا لیکن اُدھر سے ایسی بے جا الزام تراشیاں ہوئیں کہ پھر ویسا ہی جواب دینا پڑ گیا۔ہمارے جھگڑے سے کئی جعلی یا کمزور شاعروں اور ادیبوں نے رسالہ ابلاغ سے فائدے سمیٹے۔بہر حال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔اب سیدہ حنا کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاہی کر سکتا ہوں۔ اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین۔
نجمہ منصور سے ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ملاقات ہوئی۔مجھے اوراق میں پڑھتی رہتی تھیں۔انہیں دنوں ان کی نثری نظموں کا مجموعہ شائع ہونے والا تھا۔انہوں نے اپنی نثری نظمیں مجھے دیں اور ان پر تاثرات لکھنے کی فرمائش کی۔میں نے انہیں بتایا کہ میں نثری نظم میں شعری مواد کو تو مانتا ہوں لیکن اسے شاعری نہیں مانتا۔اس کے باوجود انہوں نے اصرار کیا کہ میں جیسے چاہوں اپنی رائے کا اظہار کردوں۔چنانچہ میں نے مناسب طور پر اپنی رائے لکھ دی،اسے انہوں نے اپنی اولین کتاب ’’میں سپنے اور آنکھیں‘‘میں شامل کر لیا۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’سلگتے خواب‘‘چھپا تو انہوں نے سرگودھا میں کسی ادیب سے لے کر پڑھا اور پھر مجھے ایک خط لکھا جس میں مبارک باد اور خوشی کے اظہار کے ساتھ میری شاعری پر دلی تاثرات کا اظہار کیا۔
روشن آرا نزہت لاہور میں پنجاب سیکریٹریٹ میں شعبہ اطلاعات میں سیکشن آفیسر تھیں۔جنرل ضیا الحق کا آمرانہ دور تھا۔ملک میں سرِ عام کوڑوں کی سزاؤں اور دوسری اسی طرح کی تعزیرات کے ذریعے اسلام کی ایسی خوفناک صورت پیش کی جا رہی تھی جو مغربی دنیا کے وقتی مفادات پورے کرنے کے ساتھ آج خود مغربی دنیا کے اعتراضات کی زد میں ہے اور جس کی قیمت پاکستان ابھی تک ادا کر رہا ہے۔میں جدید ادب کو کتابی صورت میں ہر دو ماہ کے بعد چھاپ رہا تھا۔سنسر شپ لگی تو پرچہ سنسر کرانے کے لئے متعلقہ آفس میں گیا۔وہاں کی کرتا دھرتا روشن آرا نزہت تھیں۔مجھے ڈر تھا کہ کتابی سلسلہ دیکھ کربندش کا حکم ہی نہ ہو جائے لیکن وہ بہت شفیق انداز سے ملیں۔اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ میں خانپور جیسے شہر میں بیٹھ کر ایسا کام کر رہا ہوں۔انہوں نے رسالے کی جڑی ہوئی کاپیوں کو سرسری نظر سے دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ اس میں کوئی قابلِ اعتراض سیاسی مواد تو نہیں ہے۔اور میری وضاحت پر انہوں نے اسی وقت پرچہ کی سنسر شپ کا مرحلہ کلئیر کر دیا۔جبکہ عام طور پر کتابوں اور رسالوں کی کلیرنس کے لئے ایک دو دن کے بعد کا وقت دیا جاتا تھا۔وہ خود ناول نگار تھیں اور نظمیں بھی لکھتی تھیں۔میرے ساتھ ان کی خصوصی توجہ اور جدید ادب کے معاملہ میں بہت زیادہ رعائت کا علم سرگودھا کے ادبی دوستوں کو بھی تھا۔چنانچہ شاید اس کو ٹھیک سے نہ سمجھنے کانتیجہ ہوا کہ راغب شکیب نے اپنے سفرنامہ ’’سفر ہم سفر‘‘میں خانپور کے حلقۂ ادب کا ذکر کرتے ہوئے روشن آرا نزہت کو بھی خانپور کی ناول نگار شمار کیا۔یہ بات جب روشن آرا کو معلوم ہوئی تو خوش ہوئیں کہ چلو آپ لوگوں کے شہر میں شمار کی گئی ہوں۔ روشن آراء نزہت جہاں بھی ہوں خدا انہیں خوش رکھے۔
راغب شکیب کے ذکر سے سیما شکیب یاد آگئیں۔ان کی شادی ہونے سے پہلے ہی سیما سے میرا رابطہ تھا۔وہ جدیدادب میں چھپا کرتی تھیں۔جب دونوں کی شادی کی خبر ملی تو بہت خوشی ہوئی۔پھر ان میاں بیوی سے سرگودھا میں بھی ملاقات ہوئی اور یہ لوگ ربوہ میں بھی مجھے ملنے آئے۔وہاں میں نے اپنے گھر پر ہی چند ادبی دوستوں کو بھی مدعو کر لیا تھا ۔ ڈاکٹرپرویز پروازی نے راغب کے سفر نامہ پر مضمون پڑھا تھا ۔سیما شکیب بطور شاعرہ چونکاتے ہوئے ابھری تھیں۔ان کی غزل تمام عام اور خاص شاعرات سے کچھ الگ دکھائی دیتی تھی۔
نہ میں کسی کی نہ کوئی مِری سہیلی تھی
ہر ایک کھیل میں اپنے خلاف کھیلی تھی
لیکن شادی کے بعد گھر گرہستی نبھانے میں ان کی شاعری کی چمک ماند پڑتی گئی۔اگرچہ انہوں نے بعد میں بھی راغب کے ساتھ مل کر کافی ادبی کام کیا لیکن ان کی وہ تخلیقی چمک جو شروع کی غزلوں اور نظموں میں دکھائی دی تھی ،نہ صرف ارتقائی سفر نہ کر سکی بلکہ اسی مقام پر بھی نہ رہ سکی۔یہ صرف سیما کا مسئلہ نہیں ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے کئی با صلاحیت خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں کا پورا اظہار کر ہی نہیں پاتیں ۔اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ سیما شکیب اردو شاعرات میں اپنی الگ جگہ رکھتی ہیں۔
پروین عاطف سے میرا قلمی رابطہ تھا لیکن آمنا سامنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ افسانے بھی اچھے لکھتی ہیں لیکن مجھے ان کے سفر نامے زیادہ اچھے لگے۔اب کالم نگاری بھی کرنے لگی ہیں۔ایک بار ایک محفل میں ان کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ یہ میں ہوں ۔ میرے جانے کے بعد انہیں میرا علم ہوا تو افسوس کرنے لگیں۔ایک دو دوستوں سے بھی افسوس کا اظہار کیاکہ مجھے بتانا تو چاہئے تھا کہ میں حیدر قریشی ہوں۔لیکن میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ جن سے کافی سارا قلمی رابطہ تھا انہیں دیکھ بھی لیا تھا۔اور اب مجھے حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی ایک تقریب یاد آرہی ہے۔اس میں بعض مرد حضرات کے انداز گفتگو کے نتیجہ میں پروین عاطف نے شکوہ کیا کہ خواتین کا کچھ لحاظ کرنا چاہئے، حلقہ کے اجلاسوں میں خواتین پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔تب ممتاز مفتی نے اپنی روایتی شگفتگی کے ساتھ کہا تھا:لیکن آٹے میں سارا مزہ تو نمک کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔
امریکہ میں مقیم ریحانہ قمر کا بہت چرچا سننے میں آرہا تھا۔ان سے رابطہ ہوا تو ادبی حوالے کے علاوہ ذاتی طور بھی اچھا لگا۔میں نے ان کے ساتھ جرمنی میں ایک تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ان کی کتاب’’ہم پھر نہ ملیں شاید‘‘ ملی تو پڑھ کر حیرت ہوئی کہ یہ تو پروین شاکر سے آگے کی کوئی شاعرہ ہیں۔جرمنی میں آئیں ،تقریب ہوئی،رونق میلہ رہا۔۔۔۔بعد میں میری زندگی کی یہ ایک ادبی غلطی ثابت ہوئی۔جب میں ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کر رہا تھا مجھے امریکہ سے افتخار نسیم نے ایک دو بار بتایا کہ یہ خود نہیں لکھتیں بلکہ لاہور میں عباس تابش انہیں لکھ کر دیتے ہیں۔میں ان کی بات نہیں مانا تو افتخار نسیم نے اتناکہا دیکھ لینا بعد میں جب اصلیت سامنے آگئی تو خود ہی پچھتاؤ گے۔اس بات کے معاملہ میں افتخار نسیم ولی ثابت ہوئے۔ان کی بات سچ نکلی۔ بعد میں اصلیت کھل گئی۔جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے مجھ سے صرف ایک شاعر کے بارے میں فرمائش کی کہ اس کے اعزاز میں ایک تقریب جرمنی میں کرادوں ۔اس کے لئے پانچ سو ڈالر کی رقم دینے کی پیش کش بھی از خود کر دی۔(میں نے موقعہ پر ہی معذرت کر لی کہ اب ایسی تقریب کرانا مشکل ہے)۔پھر بھی انہوں نے غور کرنے کے لئے کہا۔میں نے بعد میں غور ضرور کیا لیکن اس بات پر کہ ریحانہ قمرنے صرف عباس تابش کے لئے ہی کیوں کہا؟
ایک اور بات جو مجھے کھٹکنے لگی۔۔۔جرمنی میں قیام کے پورے عرصہ میں بھی اور اپنے طویل دورانیہ کے ٹیلی فونز پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھی انہوں نے کبھی ادب کی صورتحال پر کوئی گفتگو نہیں کی۔ادبی اشوزکا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔بس اپنی غزلیں سنا دیاکرتیں یا پھر دوسری گپ شپ۔میں ان کی غزل سنتے ہوئے پیچیدہ بحر کے باعث رُک رُک جاتا ۔اتنی عروضی مہارت پر حیرت ہوتی۔اسی دوران میں نے ان کی ایک زمین میں غزل کہی۔ان کی چار اشعار کی غزل ان کے شعری مجموعہ’’ہم پھر نہ ملیں شاید‘‘میں شامل تھی۔میں نے اس زمین میںآٹھ شعر کہے۔میں عام طور پر جن بحورمیں شعر کہتا ہوں یہ ان سے بالکل مختلف تھی اور سچی بات ہے اس بحر میں شعر کہتے ہوئے میں جیسے پسینے پسینے ہو گیا لیکن میں نے سارے کے سارے اچھے شعر نکالے۔
جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے
تری  چاہت  میں  مر  جانا  ضروری ہو گیا ہے
درختوں   پر   پرندے  لَوٹ   آنا   چاہتے    ہیں
خزاں رُت کا گزر  جانا  ضروری  ہو  گیا  ہے
نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اس دل پہ حیدرؔ
پرانے  زخم  بھر  جانا  ضروری  ہو  گیا  ہے
جب یہ غزل محترمہ کو سنائی تو انہوں نے اسے اتنا رواروی سے لیا کہ میں حیران رہ گیا۔جس نے خود اس بحر کو نبھایا ہو اُس کی تودوسرے کے ہر شعر کے ایک ایک لفظ پر نظر ہوتی ہے کہ اس نے کیسے اسے ادا کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہی غزل میں نے عباس تابش کو سنائی ہوتی تو وہ اس کے معائب اور محاسن کو ساتھ ساتھ دیکھتے جاتے۔شاعر اور غیر شاعر کے فرق کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب مجھے عباس تابش کا شعری مجموعہ’’چاند کسی سے مت کہنا‘‘مل گیا۔قطع نظر اس سے کہ ریحانہ قمر کے نام کے قمر اور عباس تابش کے مجموعہ کے چاند میں کسی روحانی نسبت کا اشارہ تو نہیں ہے ؟،مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ عباس تابش کی پسندیدہ بحور (جو میرے لئے کافی مشکل بحور ہیں۔شاید ہر شاعر کے اپنے مزاج سے ان بحور کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے)اور ریحانہ قمر کی بحور اصل میں دونوں ایک ہیں۔مجھے یاد آرہا ہے کہ انہیں دنوں میں غالباََ لاہور کی کسی تقریب کی رپورٹنگ میں یہ بات آئی کہ ریحانہ قمر کی شاعری میں نسائیت ملتی ہے۔اور افتخار نسیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہم نہ کہتے تھے کہ عباس تابش کی شاعری میں نسائیت پائی جاتی ہے۔
انہیں دنوں میں لالی چودھری کا ایک خط تخلیق لاہور میں شائع ہوا۔اس میں نام لئے بغیر بتایا گیا تھا کہ ایک شاعر نے ایک بھری محفل میں خود بتایا کہ مجھے فلاں خاتون نے اتنے ڈالرز دئیے ہیں کہ میرے لئے شاعری لکھو بھی اور اسے کتابی صورت میں چھپوا بھی دو ۔ میں نے ان شاعر اور شاعرہ کے بارے میں لالی چودھری اور نیر جہاں دو ذرائع سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ ’’شاعرہ‘‘ ریحانہ قمرہیں اور جس پاکستانی شاعر نے انکشاف کیا وہ عباس تابش ہیں۔نیر جہاں نے تو یہ بھی بتایا کہ جب میں نے عباس تابش کو اس ادبی بد دیانتی سے روکنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا توریحانہ کسی اور شاعر سے یہی کام کرا لے گی۔اس لئے مجھے ہی چار پیسے کما لینے دیں۔اور اب تو صرف عباس تابش ہی نہیں ہمارے ادب کے کتنے ہیں اچھے اور شاندار شعراء اس بُرے کام میں لگ گئے ہیں۔اور مغربی دنیا میں اردو کی نئی بستیاں زیادہ تر اسی طرح بسی ہوئی ہیں۔جو گنتی کے چند اچھے اورجینوئن لکھنے والے ہیں وہ ایسی بستیوں سے پرے اپنی ذات کے ویرانوں میں ادبی مراقبہ کر رہے ہیں۔
مجھے ذاتی طور پر جب واضح ہوگیا کہ محترمہ خود شعر نہیں کہتیں تب میں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ کو یا تو اپنی ہی بحور میں موقعہ پر قافیہ ردیف کی تبدیلی کے ساتھ وزن میں شعر کہنے کے ٹیسٹ سے گزر نا چاہئے یا پھر دوسروں سے لکھوا کر کتابیں چھپوانے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے ۔ساتھ ہی میں نے کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں جو مضمون پڑھا تھا اسے کہیں نہیں چھپوائیے وگرنہ مجھے معذرت کے ساتھ اعلان کرنا پڑے گا کہ اسے اب ترمیم کے ساتھ اصل شاعر عباس تابش کی شاعری پر میرا مضمون شمار کیا جائے۔مغربی ممالک میں شاعر بن جانے والے بہت سارے شعرا اسی طرح کے ہیں۔اس المیہ کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ ایک تو یہاں اصل اور نقل کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ دوسرے سارے جعلی شعراء اپنے مالی وسائل کے بل پر اپنے ’’شاعر گروں‘‘اور دوسرے چاہنے والوں کے ذریعے پھر خود اوریجنل شعراء کے خلاف گند اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔مسئلے کا آسان حل یہی ہے کہ جو لوگ مغربی دنیا میں بس جانے کے بعد ادھیڑ عمر میں جا کر یکایک شاعر بن گئے ہیں ان سب کا پاکستان اور انڈیا میں جانے پر ایک ٹیسٹ لیا جائے جس میں صرف اتنا دیکھا جائے کہ یہ وزن میں شعر کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب ادب سے متعلق سرکاری اداروں میں بھی ایسے جعلی شعرا کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہونے لگی ہے۔یوں مختلف حکومتی شعبوں میں کرپشن کی جو داستانیں گزشتہ نصف صدی سے بنتی آرہی ہیں ان کی طرح اب ادب کے حکومتی شعبہ میں بھی ایسی کرپشن پھیلتی جائے گی۔ ریحانہ قمر اگر واقعی خود شعر کہتی ہیں اور ان کا اوریجنل شاعرہ ہونا ثابت ہوجائے تو میں نہایت شرمندگی کے ساتھ ان سے معافی مانگ لوں گا۔لیکن جو موجودہ صورت ہے اس کے مطابق وہ قطعاََ شاعرہ نہیں ہیں اور انہیں ان بحور میں تو شعر کہنے کا پتہ ہی نہیں جو اِن کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ریحانہ قمر کے اس ذکر میں ان تمام شاعرات کو شمار کر لیا جائے جو جرمنی،انگلینڈ،امریکہ اور کینیڈا میں انہیں کی طرح یا پھر بے وزن ،شعری مجموعے چھپوا چکی ہیں یا چھپوارہی ہیں۔
ریحانہ قمر کے ذکر کے ساتھ افتخار نسیم کا ذکر ہوا ہے تو یہاں ان کا بھی کچھ بیان ہو جائے۔مجھے شروع میں ان کے جسمانی مسئلہ کا قطعاََ کوئی علم نہیں تھا۔یہاں تک کہ وہ جرمنی میں میرے ہاں آئے تو انہیں میں نے شادی کی تقریب میں مردانہ حصہ میں ٹھہرایا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ انسانیت میں مرد اور عورت کی بجائے تیسری صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔اور اس صنف میں بھی کہیں دو قسمیں ہوتی ہیں۔ایک مردانہ مخنث اور ایک زنانہ مخنث۔افتخار نسیم کا تعلق موخر الذکر سے ہے۔سو یوں خواتین شاعرات کے ذکر میں بھی انہیں شامل کیا جا سکتا ہے اور مرد شعرا کے ذکر میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر اس طبقہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میں اس طبقہ کے دوہرے استحقاق کا حامی ہوں۔افتخار نسیم جو اب افتی نسیم کے نام سے مقبول ہیں اس لحاظ سے بہت بہادر ہیں کہ اپنے پاکستانی ماحول کی سماجی گھٹن اور منافقت کے باوجود انہوں نے اپنی نام نہاد مردانگی کا بھرم رکھنے کی بجائے کھل کراپنی جسمانی حقیقت کو بتا دیا۔اس پر ان کے خاندان میں کہرام برپا ہوا۔ان کی ماں جیسی بڑی بہن نے انہیں خط لکھا کہ مجھے بتاؤ کس نے تمہیں اس راہ پر ڈالا ہے میں اس کا گلا گھونٹ دوں گی۔تب افتی نے اپنی بہن کو جواب میں کچھ ایسا لکھاکہ مجھے جس نے ایسا بنایا ہے ہمارے ہاتھ اس کے گلے تک نہیں پہنچ سکتے،صرف اس کے سامنے دعا کے لئے اُٹھ سکتے ہیں۔
چونکہ مجھے شروع میں افتی کے مسائل کا اندازہ نہیں تھا اس لئے میں انہیں ایک عام مرد ادیب کی طرح لیتا تھا۔چنانچہ ان کے ساتھ کچھ نوک جھونک بھی رہی لیکن جیسے ہی مجھے اصل بات کا علم ہوا مجھے اپنی ساری نوک جھونک کا افسوس ہوا اور افتی سے کسی قسم کا لفظی الجھاؤ بھی اچھا نہ لگا۔ہاں ویسے میں ان کے ساتھ ہلکی پھلکی جملہ بازی کر لیتا ہوں لیکن دلی احترام کے ساتھ۔اپنے کڑے جسمانی،نفسیاتی اور سماجی مسائل سے گزرتے ہوئے افتی نے تخلیقی اظہار سے اپنی شخصیت کو سنبھالا دیا ہے اور ایک بڑی،کڑوی سچائی کا اظہار کرکے معاشرتی منافقت کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔اپنے مخصوص موضوع کے حوالے سے افتی کو امریکہ کے بعض نصابوں میں بھی جگہ مل گئی ہے جو بہر حال اس کی کامیابی ہے۔
لندن میں عطیہ خان سے ملاقات ہوئی،بزرگ اور بھلی خاتون ہیں۔مختلف نثری اصناف میں طبع آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ان سے بعض اصناف خلط ملط بھی ہو جاتی ہیں۔ اپنی ہلکی پھلکی تحریروں کو انشائیہ لکھ دیتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ چھپا تو اس میں کام کی چیز وہ تحریر تھی جس میں انہوں نے اپنی داستان بیان کی تھی۔بڑی پُر تاثیر تحریر تھی۔اسے ادبِ لطیف لاہور نے بھی اپنی ایک اشاعت میں شائع کر دیا تھا۔میں نے انہیں توجہ دلائی کہ اپنے افسانوں اور اس مضمون کے فرق کو دیکھیں اور اپنی داستان جیسی تحریریں اردو ادب کو عطا کریں۔
رضیہ اسماعیل سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی۔اصلاََ ان کا ذکر یادوں کی اس قسط میں ہونا چاہئے تھا جس میں اَن دیکھے احباب کا ذکر ہے، لیکن شومءئ قسمت کہ اس قسط میں ان کا ذکر کرنا بھول گیا۔ان سے رابطے اور تعلق کی ایسی صورت ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر یادوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکے گا۔اس لیے خواتین سے متعلق اس قسط میں ہی ان کا ذکر کر رہا ہوں۔یوں بھی ہمارا باہمی رابطہ اتنا زیادہ رہا ہے کہ اسے براہِ راست ملنے جیسا ربط بھی کہا جا سکتا ہے۔رضیہ اسماعیل انگلینڈ کی ان معدودے چند خواتین میں شمار ہوتی ہیں جو بیک وقت شعر بھی کہتی ہیں اور نثر بھی لکھتی ہیں۔طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھتی ہیں تو انہیں اسی حیثیت میں پیش کرتی ہیں،انشائیہ یا کوئی اور اس طرح کا لیبل نہیں لگاتیں۔غزل سے لے کر نثری نظم تک میں طبع آزمائی کر چکی ہیں اور ان سب کے الگ الگ مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم آگہی کی سربراہ ہیں اوراس کے لیے متحرک بھی رہتی ہیں۔
میرے لیے دو حوالوں سے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ ہونے سے پہلے ماہیا نگاری شروع کر رکھی تھی اور مجھ سے تب رابطہ ہوا جب ان کا مجموعہ تقریباََ مکمل ہو چکا تھا۔ان کے ماہیے اپنے ذائقے اور مزاج کے لحاظ سے مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے دل کی آواز ہیں،شاید ایسی آواز جسے سب اپنے اندر سنتے ہیں لیکن سب ہی دوسروں سے چھپاتے ہیں۔صرف دو مثالوں سے ہی میری بات کو جانچا جا سکتا ہے۔
کڑوے ہیں سکھ ماہیا                         کلچر کا رونا ہے   
کس کو سنائیں اب                           آکے ولایت میں
انگلینڈ کے دُکھ ماہیا                       اب کچھ تو کھونا ہے
رضیہ اسماعیل نے ایک اور اچھا کام یہ کیا کہ بی بی سی ایشیا کے ذریعے اردو ماہیا کو متعارف کرایا۔نہ صرف ماہیا کو متعارف کرایا بلکہ میرا بھی وہاں سے ایک انٹرویو کرا دیا۔یہ انٹرویو بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی درمیانی شب کافی دیر تک جاری رہا۔اور دونوں صدیوں کا نکتۂ اتصال اس میں شامل رہا۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی اور یہ صرف رضیہ اسماعیل کے ذریعے ہو پایا تھا۔بعد میں بی بی سی ایشیا کے منتظمین مجھے فون کرکے مختلف شاعروں کے نام اور فون نمبرز مانگتے رہے۔یوں میں نے پاکستان اور انڈیا میں مقیم اپنے بہت سارے دوستوں کے بی بی سی ایشیا ریڈیو کے ذریعے براہِ راست انٹرویوز کرادئیے۔جن دوستوں کے انٹرویوز نشر ہوئے انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا تاہم انٹرویوز کے ہونے کو اپنے عظیم ادیب ہونے کاثبوت نہیں بنایا۔صرف انڈیا سے دو دوستوں نے ایسا کیا اور ان کے ایسا کرنے پر مجھے شرمندگی ہوتی رہی جب وہ لکھ رہے تھے اور چھاپ رہے تھے کہ انڈیا سے صرف ہمارا برا ہِ راست انٹرویو ہوا ہے جبکہ اس دوران اور ان سے پہلے بھی کئی پاکستانی اور انڈین اردو شاعروں،شاعرات کے انٹرویوز ہو چکے تھے اور میرے ہی ذریعے ہو چکے تھے۔میری شرمندگی دہری تھی کہ ان کے فخریہ اعلان چھپنے کے بعد میں انہیں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا دعویٰ غلط ہے اور دوسری طرف جن دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایسا دعویٰ کیا جا رہا ہے میں ان کے سامنے بھی سوائے شرمندگی کے اظہار کے اور کچھ نہ کر سکا ۔جبکہ صرف ترنم ریاض کا دو بار انٹرویو ہو چکا تھا۔بہر حال اس سارے اچھے کام کے عقب میں بنیادی کردار رضیہ اسماعیل کا تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد رضیہ اسماعیل اب ڈاکٹر رضیہ اسماعیل بن چکی ہیں،تاہم میں انہیں لیڈی ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کہتا ہوں۔
فرزانہ خان نیناں انگلینڈ کے شہر نوٹنگھم میں رہتی ہیں۔ایک بار جرمنی کے کسی مشاعرے میں شرکت کے لئے آئیں تو میرے ہاں بھی آئیں۔ان کے شوہر اختر خان بھی ساتھ تھے۔پھر جب ایک بار میں انگلینڈ کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے گیا تو دونوں میاں بیوی لندن آئے،مجھے اپنے شہر لے گئے،وہاں ایک چھوٹی سی تقریب برپا کر ڈالی اور پھر کانفرنس میں بھی شرکت کرکے ساتھ رہے۔میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ نام میں سے نیناں کو حذف کر دیں لیکن انہوں نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا۔اپنے اپنے ذہن کی بات ہے۔شاید میرا مشورہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ایک بار انہوں نے اپنی پسند کے گانوں کی ایک کیسٹ خود ریکارڈ کرکے مجھے تحفتاََ بھیجی۔ان گانوں میں ایک گانا موسیقار روی کی اپنی آواز میں تھا جسے میں ایک عرصہ سے تلاش کر رہا تھا۔وہ کیسٹ میں نے ابھی تک سنبھال رکھی ہے۔کچھ عرصہ سے ان کی شاعری میں ان کے معمول سے زیادہ پختگی آنے لگی ہے جو ظاہر ہے ان کی شعرو ادب سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔کچھ عرصہ ایک ٹی وی چینل سے بھی وابستہ ر ہیں۔ایک ادبی پروگرام کرتی تھیں جس میں کئی کال کرنے والے مزے سے بے وزن اشعار بھی سناتے ۔ لیکن بے وزن شعر سنانے والے تو ہر چینل پر کال کرتے سنائی دیتے ہیں۔شاید فرزانہ خان کے پروگرام میں ان کا تناسب نسبتاََ کم ہی رہا۔
پروین شیر کینیڈا میں ایک طویل عرصہ سے مقیم ہیں۔(اس طویل عرصہ سے ان کی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش نہ کریں۔ملاقات پر سارے اندازے غلط ثابت ہوں گے)ان سے چند برسوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ تھا۔ستیہ پال آنند نے بھی ان کی تعریف کی تھی ۔ شاعرہ ہونے کے ساتھ مصورہ بھی ہیں اور موسیقی سے بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہیں شاعرہ،مصورہ اور موسیقار کہا جا سکتا ہے۔ان کا شعری مجموعہ’’کرچیاں‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر کرسٹینا نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اس کتاب کی تقریب کی ۔تقریب کے بعد پروین شیر اور ان کے شوہر وارث شیر میرے گھر آئے،دو تین دن ہمارے ہاں رہے۔ان کی کتاب دیکھی تو دیکھتے ہی رہ گئے۔سائز کے بارے میں پروین بتا رہی تھیں کہ اسے ’’کافی ٹیبل بک‘‘ کہتے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ توکافی ٹیبل سے بھی کافی بڑے سائز کی بک لگ رہی ہے۔بہر حال اس کتاب میں ان کی اردو شاعری کے ساتھ انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے اور ہر نظم یا غزل کے ساتھ موضوعاتی اعتبار سے میل کرتی ہوئی ان کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ دی گئی ہے ۔یوں یہ کتاب اردو اور انگریزی کے قارئین کے ساتھ مصوری سے دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ بھی حاصل کرتی ہے اور اپنی پیش کش کے لحاظ سے واقعتاََ ایک منفرد تجربہ ہے۔ پروین شیر کی کامیابیوں کے پیچھے ان کے شوہر پروفیسر وارث شیر کی حوصلہ افزائی کا بڑا عمل دخل ہے۔پروین شیر کا خاندانی پس منظر بھی علم و ادب سے منور ہے۔ شکیلہ اختر اور اختر اورینوی دو بڑے حوالے ہیں جو ان کے خالہ، خالو تھے۔
اور اب کچھ ذکرفرحت نواز کا۔خانپور میں جدید ادب کے سات آٹھ برس ہم نے مل کر رسالہ نکالا تھا۔فرحت کی شاعری میں ایک انوکھی چمک تھی۔میرا خیال ہے شعر کہنے کے لئے جس انسپائریشن کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم ایک دوسرے کے لئے ویسی انسپائریشن رہے ہیں۔اس کا اندازہ پہلی بار تب ہوا جب ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ہم دونوں کے ساتھ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ہمیں باری باری بلایا جا رہا تھا۔میں کچھ غزلیں سنا کر جاتا،پھر فرحت سے کچھ سنا جاتا۔دو تین بار ایسا ہوا تو لگا کچھ سوال جواب جیسی صورت خوامخواہ بن رہی ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب فرحت نے میرے بعد آتے ہی اپنی نظم شروع کر دی’’مجھ کو اوور ٹیک نہ کرنا‘‘۔اور ان کی نظم کے بعد ڈاکٹر انوار احمد نے کچھ دلچسپ سے جملے کہہ دئیے۔فرحت کے ساتھ تب تک رابطہ رہا جب تک جدید ادب جاری رہا اور میں خانپور میں رہا۔جب رسالہ بند ہوا تو میں خانپور شہر کو چھوڑ کر گوجرانوالہ،ربوہ ،لاہوراور ایبٹ آباد تک بھٹکتا پھرا ۔اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا ۔تب تک وہ ایم اے اکنامکس اور ایم اے انگریزی کرنے کے بعد انگریزی کی لیکچرر ہو گئی تھیں۔پھر ایک بار پتہ چلا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے اور اپنی شادی کی تصویریں میرے لئے بھیجی ہیں۔افسوس میں ان کی انڈونیشین نژاد سہیلی ایڈا(سعیدہ) تک دیر سے پہنچا۔وہ کافی انتظار کے بعد فرحت کو ان کی وہ البم واپس بھیج چکی تھیں جو میرے لئے بھیجی گئی تھی۔اس کے بعد وہ اپنی لیکچرر شپ اور ازدواجی زندگی میں مصروف ہو گئیں اور ادب پس پشت چلا گیا۔کبھی کبھار ادھراُدھر سے خبر مل جاتی کہ اب وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہیں،اب دو بچوں کی ماں بن گئی ہیں۔
اسی دوران جب بہاولپوریونیورسٹی میں میرے بارے میں تحقیقی کام شروع کیا گیا تو مقالہ نگار بچی نے میرے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے سوالنامہ تیار کیا،جو کہیں فرحت کو بھی پہنچایا گیا۔تیرہ دوستوں اور عزیزوں میں سے فرحت کے جواب سب سے پہلے مقالہ نگار کو موصول ہوئے۔فرحت نے نہ صرف بڑے خلوص کے ساتھ سوالات کے جواب دئیے بلکہ میری حیثیت سے کہیں زیادہ مجھے عزت دی۔یوں ہمارا رابطہ پھر سے بحال ہو گیا۔میرا بڑا بیٹا شعیب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان گیا تو فرحت کے گھر بھی گیا اور ان کی ساری فیملی سے مل کر آیا۔پھر طارق پاکستان گیا تو وہ بھی ان سب سے مل کر آیا۔ میری خواہش تھی کہ فرحت پھر سے تخلیقی طور پر متحرک ہوں،وہ بھی ایسا چاہنے لگی تھیں لیکن غالباََ گھریلو اور تدریسی مصرفیات انہیں مہلت نہیں دے رہیں۔ فرحت کے ساتھ میرے روابط میں لاگ اور لگاؤ دونوں تھے لیکن ان کے ساتھ سب سے اہم چیز ہمارا ایک دوسرے پر گہرا اعتماد اوررشتوں کے تقدس کا احترام تھا۔مجھے خوشی ہے کہ ہم دونوں نے اپنے رشتوں کی پاکیزگی کو کبھی بھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ان کے ساتھ رابطہ رہے یا نہ رہے لیکن ایک انسپائریشن اور ایک اعتماد کبھی کم نہیں ہوئے ۔
فرحت نواز،پروین عزیز اور ثمینہ راجہ تینوں میرے آبائی علاقہ کی شاعرات تھیں۔فرحت کو جتنے مواقع میسر آئے انہوں نے عمدہ ادبی کام کیا۔پروین کے ساتھ کچھ میں نے اور کچھ قسمت نے اچھا نہیں کیا اور یوں ایک بہت اچھی شاعرہ سامنے نہ آسکیں۔ثمینہ کے حالات بھی کچھ ایسے موافق نہ تھے لیکن انہوں نے اپنے حالات سے خود ٹکر لی ،قسمت نے ان کا ساتھ دیااور اب بہر حال وہ اردو کی ایک اچھی بلکہ بہت اچھی شاعرہ شمار کی جاتی ہیں۔
***

1 Kommentar: