Freitag, 15. Juli 2011

چند پرانی اور نئی یادیں

چند پرانی اور نئی یادیں

سال ۲۰۰۸ء شروع ہوتے ہی مجھے یادوں کے حوالے سے ایک خوشی یہ ملی کہ میرے بچپن کے ہم جماعت اے کے ماجد کا اچانک ٹیلی فون آگیا۔ اے کے ماجد کا تھوڑا سا ذکر ’’میری محبتیں‘‘ کے ’’پرانے ادبی دوست‘‘ میں موجود ہے۔ عبدالخالق ماجدکو اے کے ماجد بنانے میں میرا مشورہ بھی شامل تھا۔ہم چھٹی جماعت سے ایک ساتھ ہوئے اور خانپور میں قیام تک ہمارا باہمی ملنا جلنا رہا۔سکول کے زمانے میں ان کی کھیتی باڑی والی زمین اور ان کا گھرخانپور کی شہری حدکے ساتھ ملحق تھا۔اب تو وہ سارا علاقہ بھی خانپور کی شہری حد میں آچکا ہے۔ شہر سے جڑے ہوئے اُس گاؤں میں ہم دونوں درختوں کی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کرتے۔اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم ذہنوں سے سوچی ہوئی باتیں کرتے۔ہمارے کوئی لمبے چوڑے خواب نہیں تھے۔زندگی جیسے گزر رہی تھی ہم دونوں اسی میں خوش تھے۔اے کے ماجد کے والد اور والدہ دیہاتی مزاج کے شفقت اور محبت بھرے کردار تھے۔پھران کے والد اور والدہ کا انتقال ہوا تو حالات میں تبدیلی آئی۔اے کے ماجد نے قومی بچت کے مرکز میں جاب کر لی تھی۔وہ جاب اب بھی قائم ہے۔اے کے ماجد نے ماڈل ٹاؤن کے قریب کی نئی آبادی میں پلاٹ لے لیے تھے۔وہاں گھر بنا لیا تھا اور گھر بسا بھی لیا تھا۔اے کے ماجد کے دیہات والے گھر میں ہم لسی پیا کرتے تھے تو ماڈل ٹاؤن کی حد سے جڑے ہوئے گھر میں ہم کافی پیا کرتے تھے۔دودھ پتی کی طرز پر ہم دودھ کافی بناتے تھے اور اسے پی کر دونوں ہی خود کو کسی حد تک نئے زمانے کا فرد سمجھتے تھے۔حالانکہ ہم دونوں ایک حد تک دیہاتی اور ایک حد تک شہری تھے۔اب سوچ رہا ہوں کہ اے کے ماجد ہمیشہ شہر اور ماڈل ٹاؤن سے الگ لیکن قریب کیوں رہا ہے؟۔۔۔وہ خود شہر یا ماڈل ٹاؤن کا حصہ نہیں بنا بلکہ اس کے کنارے پر آباد ہو کر پھر اُسے اپنے اندر جذب کر لیا ۔شاید اس کی یہی خوبی ہماری دوستی کا لاشعوری سبب بنی رہی اور یہی رویہ میرے اندر پروان چڑھتا رہا جو اب خود میرے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔بہر حال اے کے ماجد کا فون آیا تو پہلی بار ذوقؔ کا یہ شعر روح کی گہرائی تک مزہ دے گیا۔
اے دوست  کسی  ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
اے کے ماجد کے فون کے ساتھ ایک اور فون بھی اچانک آگیا۔یہ تھے خانپور کے ظفر اقبال ماچے توڑ۔ضیاع الحقی دور کے حوالے سے ’’آئین سے انحراف‘‘جیسی کتاب لکھنے والے ظفر اقبال ماچے توڑ کے ساتھ ایک دو بار پہلے بھی ٹیلی فون پر رابطہ ہو چکا تھا تاہم اس بار طویل عرصہ کے بعد ان کا فون آیا تو اچھا لگا۔مزید کمال یہ ہوا کہ سعید شباب کی ہمت کے نتیجہ میں جمیل محسن کے ساتھ بھی رابطہ ہو گیا۔جمیل محسن ہمیشہ جیسا خوش مزاج تھا۔ ڈاکٹر نذر خلیق،سعید شباب اور ارشد خالد کے ساتھ تو ویسے بھی ٹیلی فون پر مستقل رابطہ رہتا تھا۔البتہ آجکل ارشد خالدکے ساتھ رابطہ زیادہ رہتا ہے۔ اب خانپور سے جمیل محسن کے فون کے بعد میرے ابتدائی دوستوں سے رابطہ کا ایک دور مکمل ہو گیا ہے۔
ایک بار کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے مجھے لگا کہ ابھی باتھ روم میں جا کر پیشاب کرکے آتا ہوں۔لیکن میرے اُٹھنے سے پہلے ہی خانپور سے نذر خلیق کا فون آگیا ۔میرا خیال تھا بات جلد مکمل ہو جائے گی لیکن نذر خلیق لمبی بات کرنے کے موڈ میں تھے۔میں نے تار کے بغیر والا فون اُٹھایا ہوا تھا، اسے دائیں کندھے اور کان سے ٹکا کر میں باتھ روم میں چلا گیا ۔گھر پر عام طور پر سلوار قمیص پہنتا ہوں۔سو کموڈ کی وجہ سے سلوار اتار کر ہی بیٹھتا ہوں۔میں نے سلوار اتارنے،پیشاب کرنے،طہارت کرنے،پھر سے سلوار پہننے اور ہاتھ دھونے تک سارے مرحلے آسانی سے طے کر لیے۔۔۔اس دوران گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔لیکن سلوار کا ازار بند’’آزارِ جاں‘‘بن گیا۔اب یہ مضحکہ خیز صورتحال تھی کہ میں ایک ہاتھ سے ٹیلی فون تھامے نذر خلیق کے ساتھ گپ شپ کر رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے سلوار کے ازار بند کو تھامے باتھ روم سے باہر نکلا۔مبارکہ کو اشاروں میں کہا کہ میرا ازار بند باندھ دیں۔مبارکہ نے اس ناگہانی اور تماشہ صورتحال پر بڑبڑاتے ہوئے ازار بند باندھ دیالیکن ان کی بڑبڑاہٹ اتنی بلند آہنگ تھی کہ نذر خلیق نے فون پر ہی پوچھ لیا:کیا بات ہے لگتا ہے بھابی کسی بات پر غصہ کر رہی ہیں؟
میں نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر انہیں ساری بات بتا دی،نتیجتاََ ان کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ نکلا۔اسی ہنسی کے دوران ہی انہوں نے کہا کہ جب چار پانچ سال کے بچوں والے کام کرائیں گے تو اس عمر کے بچوں کو جیسی ڈانٹ پڑتی ہے ویسی ڈانٹ تو لازماََ پڑے گی۔
تار کے بغیر والے ٹیلی فون کے فوائد کے ساتھ اب اپنے کمپیوٹر کے’’ بغیر تار والے‘‘ کی بورڈ اور ماؤس کا بھی کچھ ذکرہو جائے ۔یہ کمپیوٹر ابھی نیا لیا ہے۔میرے چھوٹے داماد عادل نے اس کی ساری انسٹالیشن مکمل کرکے مجھے اس کی سہولیات کے بارے میں جب یہ بتایا کہ میں کی بورڈ اور ماؤس کو لے کر کمپیوٹر والی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے اپنے کمرے کے صوفہ پرآرام دہ طریقہ سے بیٹھ کر اور کی بورڈ کو گود میں لے کر بھی سارا کام کر سکتا ہوں تو مجھے اس سہولت نے بڑا خوش کیا۔میں نے ایک بار صوفہ پر بیٹھ کر اردو میں لکھنے کا تجربہ کیا۔دوسری بار صوفہ پر اُلٹا لیٹ کر اور کی بورڈ اور ماؤس کو سامنے رکھ کر اردو لکھنے کا کام کیا۔دونوں تجربے پھر مبارکہ کے سامنے دہرائے۔وہ جو میرے کمپیوٹر والے کمرہ کو ویسے ہی سوتن کا کمرہ کہتی ہیں،ان تجربوں پر صرف مسکرا کر رہ گئیں۔در اصل یہ نیا کمپیوٹر مجھے میری ۵۶ویں سالگرہ پر مبارکہ نے ہی تحفہ کے طور پر لے کر دیا ہے۔
’’بغیر تار والے‘‘ کی بورڈاور ماؤس کی سہولت اس وقت میری دسترس میں ہے تو اپنا تجربہ لکھ دیا ہے،وگرنہ لیپ ٹاپ میں یہ سہولت اس سے بھی زیادہ مزے کے ساتھ میسر ہے۔لیکن مجھے ابھی تک لیپ ٹاپ لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔موبائل ٹیلی فونز میں اب ایسی سہولت بھی آگئی ہے کہ موبائل آپ کی جیب میں پڑا ہے اور آپ تنہا، راہ چلتے، ہاتھ اپنی جیب میں ڈالے، کسی کے ساتھ گپ شپ کرتے چلے جا رہے ہیں۔چند برس پہلے کوئی عام دیکھنے والایہ منظر دیکھتا تویہی سمجھتا کہ شاید کوئی نیم خبطی ہے جوخود کلامی کرتا جا رہا ہے۔اب کوئی نیم خبطی بھی اس انداز میں جاتا دکھائی دے تو یہی خیال آئے گا کہ کوئی موبائل پر کسی کے ساتھ محو گفتگو ہے۔محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!
چند روز قبل جرمنی کے دو شاعر دوست ظفراللہ محمود اور طاہر عدیم مجھے کہہ رہے تھے کہ برلن میں ایک مشاعرہ ہے،اس میں شرکت کے لیے چلیں۔میں نے مشاعرہ بازی سے پرہیز کی اپنی مجبوریاں بتائیں۔پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلاتو میں نے وضاحت کی کہ بھائی! ان مشاعروں سے اردو کی جو بین الاقوامیت بننی ہے سو بننی ہے،مجھے تو اب عالمی کانفرنسوں اور سیمینارز کے حقیقی نتائج پر بہت سے تحفظات ہیں۔نشستند،خوردند،برخاستندسے زیادہ کوئی نتیجہ سامنے آیا ہو تو بتایا جائے۔پھر مجھے وہ کانفرنسیں اور سیمینارز یاد آنے لگے جن میں مجھے مدعو کیا گیا لیکن میں نے شرکت سے معذرت کر لی۔سجاد ظہیر صدی کی تقریبات کے حوالے سے ان کی صاحبزادی نور ظہیر نے بذاتِ خود مدعو کیا ،ڈاکٹر خلیق انجم نے انجمن ترقی اردو ہند کی صد سالہ تقریب کے ضمن میں مدعو کیا،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام اردو کی نئی بستیاں کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں مدعو کیا،ڈاکٹر خلیل طوق أر نے استنبول یونیورسٹی کے سیمینار میں مدعو کیا،لندن کی میلینئم کانفرنس کے منتظمین نے اس کانفرنس کے بعد کی کانفرنس میں مدعو کیا۔۔۔میں نے ان سب سے معذرت کی تھی۔وجہ؟۔۔۔تمام دعوت ناموں میں قیام و طعام وغیرہ امور کی ذمہ داری لی جاتی تھی لیکن ہوائی جہاز کا ٹکٹ ’’بین الاقوامی ادیبوں‘‘ کو اپنی جیب سے خریدنا تھا۔میں چونکہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے ادب کے ساتھ شرکت سے معذرت کر لیتا ہوں۔اور اس لیے قلبِ یو رپ میں بیٹھ کر بھی پورے کا پورا مقامی شاعر اور ادیب ہوں اور اس بات پر خوش ہوں کہ میں معروف معنوں میں ’’بین الاقوامی ادیب‘‘نہیں ہوں۔
امریکہ میں جون ۲۰۰۰ء میں اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک اردو کانفرنس ہوئی تھی۔مجھے اس میں ہوائی سفر کا خرچہ دینے کی یقین دہانی کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔میں جاناچاہتا تھا لیکن امریکی ویزہ کے حصول میں انتظامی تاخیر کی وجہ سے شریک نہ ہو سکا۔اس کا مجھے افسوس رہا ۔
نومبر ۲۰۰۸ء میں لندن کے ایک سیمینار میں ائیر ٹکٹ کی ادائیگی کے ساتھ مدعو کیا گیا لیکن شرکت کی حامی بھرنے کے باوجود میں نے بعد میں معذرت کر لی۔وجہ صرف یہ ہوئی کہ متعلقہ تنظیم کے جنرل سیکریٹری فہیم اخترنے پہلے مجھے کہا کہ جرمنی سے(بلکہ یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی ) کوئی اور شاعر اپنے کرایہ پر آنا چاہیں تو ان کے قیام و طعام کا انتظام ان کی تنظیم کے ذمہ ہو گا۔ میں نے انہیں دو شاعروں ظفراللہ محمود اورطاہر عدیم کے نام دے دئیے۔ایک سامع کا نام بھی دے دیا۔انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ والے دوستوں کے لیے برطانیہ سے ویزہ لیٹر بھیج دیا۔لیکن کانفرنس سے چند دن پہلے مجھے لکھا کہ ہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے صرف آپ کے قیام کا انتظام کر سکیں گے، دوسرے مہمانوں کے لیے قیام کا انتظام نہیں کر سکتے،اگر وہ اپنے قیام کا انتظام کر سکیں تو آجائیں۔برطانیہ میں دو چار دوستوں کے قیام طعام کا انتظام کرنا کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔یہ بات اچھے پیرائے میں بھی کہی جا سکتی تھی۔لیکن جس انداز میں یہ پیغام دیا گیا وہ اتنا نامناسب تھا اور مجھے اتنا برا لگا کہ میں نے خود بھی جانے سے معذرت کر لی۔
زندگی میں جن چند کانفرنسوں میں شریک ہوا ہوں ان کانفرنسوں میں بھی میری ترجیحات سادہ سی رہی ہیں۔ ماریشس کی کانفرنس کے الوداعی ڈنر(جو ملک کے نائب صدر کی جانب سے تھا)میں شرکت کی بجائے میں نے ماریشس کی ایک بچی کو اس کے گھر پر اردو ای میل بھیجنے کا طریقہ سکھانے پروقت صرف کر دیا۔جبکہ دوسری طرف الوداعی ڈنر میں ملک کے وزیر اعظم اور نائب صدر شریک ہو رہے تھے۔اب بھی میں یہاں جرمنی کے کسی مشاعرہ میں شرکت کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کسی بچے کو اردو پروگرام کا شوق پیدا ہو جائے۔سو برلن کے مشاعرہ کی بجائے ایک دوست سجاد ساجن کی دو بیٹیوں عروج اور علینہ کو میں نے اردو پروگرام سے متعارف کرا دیا ہے۔عروج کو تو اردو سیکھنے کا ویسے ہی بہت شوق تھا،چنانچہ اردو پروگرام کو سمجھنے کے بعد اسی وقت ایک گھنٹے کے اندر اس بچی نے ایک غزل ٹائپ کرکے پیش کر دی۔تاہم علینہ نے اس لحاظ سے بہت حیران کیا کہ اردو میں زیادہ دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود اسی وقت بہن سے کچھ سمجھا اور پھر اسی وقت اس نے بھی ایک غزل ٹائپ کر کے شاباش حاصل کر لی۔مجھے ایسے بچوں کی اردو سے دلچسپی یہاں کی روایتی مشاعرہ بازی سے بہت زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے۔
بہت زیادہ پُر امید نہ ہونے کے باوجود اپنی اگلی نسلوں کے ساتھ ذہنی فاصلہ کم کرنے کے لیے میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ہلکی پھلکی کو شش کرتا رہتا ہوں۔پوتوں،پوتیوں اور نواسوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ان کے والدین کے بچپن کے حوالے سے اپنی لکھی تحریروں کے اقتباس سناتا ہوں تو بچے بہت خوش ہوتے ہیں پھر اپنے ماں باپ سے پوچھتے ہیں:آپ نے سچ مچ ایسا کیا تھا؟بات کی تصدیق ہونے پر پہلے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ایک بار اسی طرح کی باتیں ہو رہی تھیں تو ایک بچے نے کہا کہ آپ نے ہمارے بارے میں بھی ایسا کچھ لکھا ہے؟
میں نے ذہن پر زور دیا تو اپنے نواسے رُومی(مشہود)کا ٹی وی والا واقعہ یاد آگیا جو یادوں کے باب ’’گراموفون سے سی ڈی تک‘‘ میں شامل ہے۔ بچوں کو وہ واقعہ سنایاتو سب نہ صرف ہنسنے لگے بلکہ رُومی کو چھیڑنے بھی لگے۔دوسرے نواسے جگنو(مسرور)نے کہا کہ آپ نے رُومی کا ذکر کیا ہے،ہم باقی بچوں کا بھی ذکر کریں۔میں نے اسے بتایا کہ یادوں کے ایک باب ’’رہے نام اللہ کا!‘‘میں اس کے اور پوتے شہر یار کے ختمِ قرآن کا ذکر کیا ہوا ہے۔جب بچوں کو وہ حصہ پڑھ کر سنایا توجگنو نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے،پر جیسا رومی کا واقعہ لکھا ہے ویسا ہونا چاہئے تھا۔جگنوکی معصومیت میں چھپی شوخی نے مجھے کافی مزہ دیا۔
میں موجودہ پاپولر میوزک سے بہت بور ہوتا ہوں،لیکن بچوں کو یہی زیادہ پسند ہے۔میں نے سوچا انہیں تھوڑا بہت پرانے گانوں کا بھی ذوق دیا جائے۔سو میں نے بچوں کے نک ناموں کی مناسبت سے چند گانے ڈھونڈ لیے۔مثلاََ :
پوتے شہری (شہر یار)کے لیے ۔۔
کوئی شہری بابو دل لہری بابو ہائے رے پگ باندھ گیا گھنگرو میں چھم چھم نچدی پھراں۔
نواسے رُ ومی(مشہود)کے لیے ۔۔نار دانہ، انار دانہ۔۔اساں رُومی ٹوپی والے نال جانا
شہر ی پہلے توگانے پر غصہ کرتا تھا،پھر شرمانے لگا اور اب اس کا عادی ہو گیا ہے۔رُومی والا گانا سب نے پسند کیا۔میرے سب سے چھوٹے نواسے شام(احتشام)کو یہ گانا زیادہ ہی پسند آگیا۔اپنی توتلی زبان میں وہ گانا گنگنانے لگا تو رُومی کے نک نام کی بجائے اس کے اصل نام کو گانے میں فٹ کر دیا۔’’نار دانہ، انار دانہ۔۔۔مشہود ٹوپی والے نال جانا‘‘۔
شام نے اپنے طور پر یہی سمجھا کہ یہ گانا اس کے بھائی رُومی(مشہود) کے لیے ہے ،اس لیے اس کا کوئی بھی نام لیا جا سکتاہے۔اب بچوں کو کیا پتہ کہ رُومی ٹوپی کس تہذیب کی علامت تھی۔شام ؔ کے لیے میں نے ایک فلمی بھجن کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ سنا دیا۔
شامؔ ! تیری بنسی کو بجنے سے کام
پاپا کا بھی شامؔ ہے تو ماما کا بھی شامؔ
جگنو کے لیے عالم لوہار کی جگنی سے کام چلانا پڑا اور سونو کے لیے سونی والا گانا تلاش کرنا پڑا۔لڑکے تو سارے خوش ہو گئے۔اب میری پوتی ماہ نور(ماہا) نے کہا کہ میرا گانا بھی لائیں۔اس پر لڑکوں نے مذاق میں ماہی لفظ والے بعض گانے بیان کرنا شروع کر دئیے۔لیکن میں نے اسے بتایا کہ میں نے ماہا کے بارے میں خود ایک ماہیا لکھا ہے۔پھر وہ ماہیا اسے ماہیے کی لَے میں گنگنا کر سنایا:
ماہاؔ مِری پوتی ہے
روتے ہوئے ہنستی
ہنستے ہوئے روتی ہے
اس پرچار سال کی ماہا ؔ بڑی خوش ہوئی اور سب کو اس ماہیے کی تشریح کر کے بتاتی پھرے کہ جب میں چھوٹی تھی تو ایسا کرتی تھی اور دادا ابو نے یہ بات لکھی ہے۔علیشا اور ماہم ابھی بہت چھوٹی ہیں ،وقت آنے پر وہ بھی اپنے حصہ کے ماہیے سن لیں گی۔
ستمبر ۲۰۰۸ء میں میرے چھوٹے بیٹے طارق(ٹیپو) کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہو چکی ہے۔میرا نیا پوتا شایان ابھی بمشکل پانچ ماہ کا ہے۔ہمارے گھرمیں ایک ڈیکوریشن مکرامالٹکا ہوا ہے۔مختلف رنگوں کے خوبصورت گول ڈیزائنزکے بیچ ایک میوزیکل راڈ جھول رہا ہے۔ اسے ہلائیں تو جلترنگ سی آواز آتی ہے ۔رنگین گولائیوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آواز مل کر ایک انوکھا سا منظر بنا دیتی ہیں۔شایان جب کسی وجہ سے رو رہا ہو اور چپ نہ کر رہا ہو تو میں اسے اس مکراما کے قریب لا کر مکراما کے میوزیکل راڈ کو تھوڑا سا چھیڑتا ہوں ،رنگوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آواز آتی ہے تو شایان رونا بھول کر پہلے حیرت سے اس منظر کو دیکھتا ہے پھر جیسے اس کے اندر ایک جوش سا بھر جاتا ہے اور دوسری بار راڈ کو چھیڑنے تک وہ خود بھی ایسے ہمکتا ہے کہ میرے لیے وہ بھی اس سارے منظر کا حصہ بن جاتا ہے۔شایان کے ہمکنے اور پُرجوش ہونے سے مجھ پر دنیاایک اور زاویے سے منکشف ہوئی۔مجھے لگا ہم سب انسان جو مختلف خواہشوں کی تکمیل اور مختلف چیزوں کے حصول کے لیے بھاگتے ہیں اور پھر جن خواہشوں کو پورا کر لیتے ہیں اور جن چیزوں کو حاصل کر لیتے ہیں، ان سب کی کیفیت بھی بس رنگوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آمیزش جیسی ہوتی ہے۔اب رنگوں اور جلترنگ کے روبرو شایان کے ہمکنے سے مجھ پر جو حقیقت ظاہرہوئی ہے تو میں خود ایک عجیب سی خوشگواریت کے احساس میں گھر گیا ہوں۔ایسا احساس جو زندگی کی ایسی بے معنویت کے انکشاف سے عبارت ہے جو بیک وقت بے معنی بھی ہے اور با معنی بھی۔
طارق نے اپنے بچپن میں ابا جی کی وفات پر اپنی ایک معصومانہ حرکت سے مجھے خدا کے بارے میں ایک انوکھی آگاہی عطا کر دی تھی۔تو اب طارق کے بیٹے شایان نے اپنے باپ سے بھی کم عمری میں مجھ پر زندگی کی خواہشوں کی حقیقت منکشف کر دی ہے۔پر اپنی تمام تر بے معنویت کے باوجودخواہشوں کی جھلمل اور جلترنگ اس عمر میں بھی مجھے اپنے شایان جیسا ہی کر دیتی ہیں۔خدا جانے جھلمل اور جلترنگ میں وقتی طور پر اتنی معنویت کہاں سے آ جاتی ہے اور اس کوپالینے کے بعد کہاں غائب ہو جاتی ہے!یہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ بات ہو تی جارہی ہے ،سو اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔
جس وقت میں جگنو اور سونو کے لیے گانے تلاش کر رہا تھا،ایک مزے کا لطیفہ ہو گیا۔یو ٹیوب پر اردو گانوں کے بہت سارے چینل دستیاب ہیں۔ہر گانے کے ساتھ اس سے متعلقہ نوعیت کے کئی اور گانے بھی دائیں طرف سامنے آجاتے ہیں۔یعنی بائیں طرف چھوٹی سکرین پر آپ کا پسندیدہ ایک گانا چل رہا ہے اور دائیں جانب اسی انداز کے یا ملتے جلتے گانوں کی ایک لسٹ آویزاں ہوتی ہے ،جہاں سے آپ اپنی پسند کے مزید گانے منتخب کرسکتے ہیں۔میرے سارے پوتے،نواسے،پوتیاں وغیرہ میرے ارد گرد کھڑے تھے۔چھوٹا بیٹا ٹیپو بھی دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔اسکرین پر ایک نیااور مشہورگانا:
’’کجرارے۔۔کجرارے
تیرے کارے کارے نیناں‘‘
لگا ہوا تھا۔میں نے اسے تبدیل کرنا چاہا تو بچوں نے شور مچا دیا کہ یہ گانا سننا ہے۔میں نے سوچا بچے یہ گانا دیکھ لیں ،میں اسی دوران اس کے دائیں جانب والی لسٹ کو دیکھ لیتا ہوں۔شاید وہاں سے جگنو اور سونوکے نام والا کوئی گانا مل جائے۔
اب صورتحال یوں بنی کہ میں عینک اتار کر دائیں جانب والی لسٹ کوکمپیوٹر اسکرین پر جھک کر، قریب سے ہو کر دیکھ رہا ہوں اور اُدھر گانے پر ایشوریا رائے رقص فرما ہیں۔
میرا چین وَین سب اُجڑا
ظالم نظر ہٹا لے
برباد ہو رہے ہیں جی ترے اپنے شہر والے
یہ الفاظ گانے کی ابتدا میں دہراکرگائے جاتے ہیں۔سو جب دوسری بار محترمہ ایشوریہ رائے نے ’’ظالم نظر ہٹا لے‘‘کے الفاظ ارشاد فرمائے توپیچھے سے ٹیپو کی شرارت سے بھری شوخ آواز آئی۔’’ابو! اب تو نظر ہٹا لیں‘‘
کبھی کبھی غیر ارادی طور پر ایسی صورتحال بن جاتی ہے کہ واقعاتی حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی سامنے کا منظرحقیقی واقعہ جیسا ہی لگتا ہے۔ اس واقعہ کے وقت ٹیپو کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ میرے چہرے پر بھی منعکس ہو رہی تھی۔چھوٹے بچوں کو پتہ نہیں کتنی بات سمجھ میں آئی،لیکن وہ سب کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔میں اب بھی اس منظر کو ذہن میں لاتا ہوں تو ٹیپو والی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل جاتی ہے۔
جیسا کہ ذکر کر چکا ہوں کہ بچوں کے لیے مذکورہ گانوں کی تلاش میں مجھے انٹرنیٹ پر یو ٹیوب میں جا کر وہاں سے پرانے پاکستانی اور انڈین فلمی گیتوں کے حصہ میں جانا پڑا۔وہاں ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ لنک ملتا گیا۔بچوں کے کام سے نمٹ کر میں خود بچہ بن گیا اور کئی نایاب اور بھولے بسرے گیتوں کو اپنی دسترس میں پا کردیر تک ان سے لطف اندوز ہوتا رہا۔یوں ان گیتوں کے زمانوں سے جڑی ہوئی کئی ذاتی یادیں ذہن میں آتی رہیں،دل میں جگمگاتی رہیں اور آنکھوں میں جھلملاتی رہیں۔
مجھے پہلی دفعہ بڑی سطح پرتجربہ ہوا کہ ایسی یادیں کس طرح ہمارا کتھارسس کر دیتی ہیں۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen