Mittwoch, 12. September 2012


رپورتاژ
یادوں کا یہ باب کتاب میں چودھویں نمبر پرشامل ہے۔یہاں سہواََ شامل ہونے سے رہ گیا تھا۔سو اب اسے یہاں آخر میں ہی شامل کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی
                           
ماریشس میں ورلڈ اردو کانفرنس

ماریشس کے ادارہ نیشنل اردو انسٹیٹیوٹ اور اردو اسپیکنگ یونین کے اشتراک سے ۲؍اگست تا ۶؍اگست ۲۰۰۳ ؁ ِ ورلڈ اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔اس سلسلہ میں پاکستان اور انڈیا سے سرکاری وفود کے علاوہ انڈیا،روس،امریکہ،انگلینڈ اور جرمنی سے ادیبوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ماریشس کی منسٹری آف آرٹ اینڈ کلچرنے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے بھر پور تعاون کیا۔
مجھے ۲؍جولائی ۲۰۰۳ء کو نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے سیکریٹری فاروق باؤچہ صاحب کی ای میل ملی۔جس میں اس کانفرنس کے انعقاد کی اطلاع کے ساتھ مجھے مدعو کرتے ہوئے ائیر ٹکٹ بھیجنے کی خبر بھی تھی۔تیرہ سال پہلے ماریشس میں ورلڈ اردو کانفرنس ہوئی تھی اور اب یہ سیکنڈ ورلڈ اردو کانفرنس ہونے جا رہی تھی۔ ائر ماریشس کے توسط سے مجھے ریٹرن ٹکٹ بھیج دی گئی تھی جو میں نے ۲۵؍جولائی کو وصول کی۔ویزہ کے حصول کے لئے میں فرینکفرٹ سے برلن جانے کی ہمت نہیں کررہا تھا۔۲۵؍جولائی کو ماریشس کے سفارت خانہ کو فون پر اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔اگلے دو دن دفتر بند تھے۔۲۸؍جولائی کو سفارتخانہ کی طرف سے ٹیلی فون آیا کہ آپ فلاں فلاں کاغذات فیکس سے بھیج دیں۔کاغذات فیکس کے ذریعے بھیج دئیے تو پھرٹیلی فون آگیا کہ الفاظ مدھم ہیں پڑ ھے نہیں جاتے۔اب فلاں فلاں کوائف بتادیں۔کوائف بتادئیے تو وہ لوگ باقی کاروائی کرتے رہے۔ ۳۰ جولائی کو مجھے بذریعہ فیکس ویزہ موصول ہو گیا۔اور اسی دن سفارتخانہ والوں نے ایک بار پھر فون کرکے تصدیق کر لی کہ مجھے ویزہ مل گیا ہے یانہیں؟یا الہٰی یہ کیسا سفارتخانہ ہے!
۳۱؍جولائی کی شام کو میں ماریشس کے لئے روانہ ہوا۔
یکم اگست کو ماریشس ائیر پورٹ سے سیدھا اس ہو ٹل میں پہنچایا گیاجہاں قیام رہنا تھا۔ہوٹل میں پہلے مرحلہ ہی میں ڈاکٹر خلیق انجم،شاہد ماہلی ،قمر علی عباسی،نیلوفر عباسی،پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر زاہد،ابولکلام قاسمی،( تاشقند کے) تاش مرزا،آزاد شاماتوف اور دیگر احباب سے ملاقات ہوئی۔پروفیسر ابوالکلام قاسمی سے ملاقات میں ایک دلچسپ لطیفہ ہو گیا۔انہوں نے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا نام بتایا تو میرے کانوں نے کچھ اس قسم کا نام سنا۔عبدا ﷲخان کاظمی ۔۔۔وہ یاد دلا رہے تھے کہ جب جدید ادب خانپور سے نکلتا تھا تو ہمارا رابطہ تھا۔لیکن مجھے کوئی عبداﷲ خان کاظمی یاد آتے تو کچھ کہتا۔بس رسمی مسکراہٹ کے ساتھ چپ ہو رہا۔دو دن یہی صورتحال رہی۔ان کا پُرتپاک انداز مجھے شرمندہ کرتارہتا لیکن کچھ یاد نہ آتا۔دوسرے دن شام کو انہوں نے مجھے اپناوزیٹنگ کارڈ دیا تو مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ میں نے اپنا بیگ صوفے پر رکھا اور بے اختیار ان سے لپٹ گیا۔ڈھیر ساری معذرت کی۔اور ایک بار پھر ان سے گلے ملا۔لیکن اس طرح کا ملنا خود ایک یادگار ملنا ہو گیا۔
یکم اگست کو ہمیں اندرا بھون لے جایا گیا۔بس میں بیٹھے تھے کہ اچانک لگا کوئی چاند سا طلوع ہو گیا ہے۔’’ارے قریشی صاحب!آپ بھی تشریف لائے ہیں۔بہت خوشی ہوئی‘‘۔۔یہ روس کی ڈاکٹر لڈمیلا تھیں۔میرے ساتھ دہلی یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحق بیٹھے تھے۔آپ اقبال کے مداحوں میں سے ہیں۔انہوں نے ادبی اور تعلیمی کرپشن کے بارے میں دکھ کا اظہار کرنا شروع کردیا۔یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے۔پی ایچ ڈی کے پراجیکٹس میں گڑ بڑ سے لے کر ادبی ہیرا پھیریوں تک انہوں نے بہت سی سچی باتیں کرڈالیں۔اسی دوران اندرا بھون آگیا۔یہاں کیرالہ کے گورنراور بھارت کے سرکاری وفد کے سربراہ سکندربخت کے اعزاز میں تقریب تھی۔یہاں نہ کسی کو خوش آمدید کہا گیا،نہ کسی کا تعارف کرایا گیا۔نہ کوئی رسمی کاروائی ہوئی۔بس چلتے پھرتے کچھ کھائیے،پیجئے اور بس۔اس کانفرنس کی سب سے فضول تقریب یہی تھی۔
تقریب سے واپسی پر ندا فاضلی کے ساتھ سیٹ ملی۔ ان سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ جرمنی کا نام سنتے ہی بتانے لگے’’ شاعر ‘‘ ممبئی کے تازہ شمارہ میں جرمنی کی ایک شاعرہ اور افسانہ نگار کے بارے میں افتخار امام صدیقی نے کچھ چھاپا ہے۔میں ’’شاعر‘‘تو ابھی تک نہیں دیکھ سکا لیکن یہاں کے سارے عظیم شاعروں اور دانشوروں کی عظمت سے بخوبی واقف ہوں اس لئے شرمندگی سے چپ ہو رہا۔ہوٹل پہنچے تو وہاں کھانے کی میز پر کشور ناہید اور پروفیسر فتح محمد ملک سے ملاقات ہوئی۔
دو اگست کو ناشتہ کافی تاخیر سے کیا۔ڈاکٹر خلیق انجم اور شاہد ماہلی کے ساتھ ساحلِ سمندر تک گئے۔واپسی پر انگلینڈ کے اردو اسکالرڈیوڈ میتھیوز کوجدید ادب کا تازہ شمارہ دیا۔دوپہر کو دو بجے کے بعد ورلڈاردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب ہوئی۔اس تقریب میں ماریشس کے وزیر اعظم،وائس پریذیڈنٹ،آرٹ اور کلچر کے وزیر اور بعض دیگر وزراء بھی شریک ہوئے۔ اس تقریب کے بعد ابھی کچھ وقت باقی تھا اس لئے مہمانوں کو ایک شاپنگ سنٹر لے جایا گیا تاکہ کوئی شاپنگ کرنا چاہیں تو کر لیں۔شاپنگ سنٹر سے باہر آجانے کے بعد بھی ابھی کچھ وقت باقی تھا چنانچہ مہمانوں کو ’’ہرن غار‘‘کا دور سے نظارا کرایا گیا۔یہاں سے سیدھا نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین شہزاد عبداﷲ کے گھر لے جایا گیا۔وہاں ڈنر کا انتظام تھا۔ڈنر میں پاکستانی قائم مقام سفیر رحمت علی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ان کے علاوہ ماریشس کے نائب صدر،بعض وزراء،انڈیا کے سکندر بخت اور جملہ شعراء و ادباء شامل تھے۔۔ڈنر کے بعد ہمیں ایک ڈراما دکھانے کے لئے لے جایا گیا۔یہ ڈرامہ ماریشس میں اردو کا پہلا اسٹیج ڈرامہ تھا جو مکمل لوکل پروڈکشن کا ثمر تھا۔’’رشتہ‘‘کے نام سے دکھایا جانے والا یہ ڈرامہ فاروق رجل کا تحریر کردہ تھا اور رشید نیرووا ،اس کے ڈائریکٹر تھے۔ اولین لوکل پروڈکشن ہونے کے باعث اس ڈرامہ کے تمام اداکاروں کی،رائٹر اور ڈائریکٹر سب کی بہت پذیرائی کی گئی۔
تین اگست کو سار ادن سیر کرنے اورکہیں بیٹھ کر بریانی کھانے کے لئے ایک مناسب جگہ تلاش کرنے میں گزر گیا۔وہ جگہ ملی تو بریانی کھائی ۔ ڈاکٹر یاسمین اورخدا کا شکر ادا کیا۔اس تھکادینے والے سفر کے بعد ہوٹل میں آکر کچھ آرام کیااور پھر ماریشس کے نائب صدر کی جانب سے دئیے گئے ڈنر میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے۔خیال تھا کہ یہاں بہت زیادہ رکھ رکھاؤ سے کام لینا پڑے گا۔۔۔۔لیکن یہ ڈنر بے تکلفانہ سا ہو گیا۔نائب صدر نے خود اعلان کیا کہ آپ بالکل بے تکلفی اور اطمینان کے ساتھ باتیں کریں۔پہلے کچھ رسمی طور پر جذبات کا اظہار کیا گیا۔احمد فراز،ندا فاضلی،فیضان عارف،قمر علی عباسی،نیلوفر عباسی،کشور ناہید اور ڈاکٹر لڈ میلا نے اپنے جذبات اور تاثرات کا اظہار کیا۔اس کے بعد سب اپنی اپنی میزوں پر گپ شپ میں مشغول ہو گئے۔میں جس ٹیبل پر تھا وہاں پروفیسر فتح محمد ملک،ندا فاضلی،پروفیسر امیر عارفی،ڈاکٹر خلیق انجم اور شاہد ماہلی بیٹھے تھے۔یہاں ندا فاضلی نے پہلے فیض کے بارے میں کہا کہ علی سردار جعفری ان سے بڑے شاعر تھے۔اس پر حیدرآباد کے قدیمی باسی پروفیسرامیر عارفی نے کہا کہ نہیں ۔۔مخدوم سردار سے بڑے شاعر تھے۔( سردار جعفری کوفیض سے بڑا کہنے والی بات بعد میں جب میں نے ڈاکٹر لڈ میلا کو بتائی تو انہوں نے بڑا ہی بے ساختہ سا قہقہہ لگایا) ۔بحث ذرا چٹخنے لگی تو ندا فاضلی نے بڑی عقلمندی سے کام لیتے ہوئے کہا ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی لکھا ہے کہ فیض انجماد کا شکار ہو گئے تھے۔اس پر میں نے کہا کہ اس کے باوجود وزیرآغا مانتے ہیں کہ فیض ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی عطا تھے۔انہوں نے علی سردار جعفری کو تو کسی شمار میں ہی نہیں رکھا۔یہ ساری بحث اتنی مزیدار ہو رہی تھی کہ احمد فراز جو نائب صدر کے ساتھ بیٹھے تھے وہیں سے جملوں کی صورت میں شرکت کرنے لگے۔
اب بحث میں خاصی گرماگرمی ہوئی۔ندا فاضلی نے علامہ اقبال کے بارے میں ایک نامناسب سا جملہ کہا جس پر پروفیسر فتح محمد ملک جواب دینے لگے تو میں نے ان سے کہا کہ ملک صاحب اس کا جواب نہ دینا ہی اس کا جواب ہے۔بہر حال گرما گرمی کے بعد مسکراہٹوں پر بات ختم ہوئی۔ ندا فاضلی ہماری ٹیبل سے اٹھ کر چلے گئے تو احمد فراز مسکراتے ہوئے ہماری ٹیبل پر آگئے۔وہ اس ساری بحث کا مزہ لیتے رہے تھے۔
چار اگست کو کانفرنس کا اصل اور اکیڈمک سیشن شروع ہوا۔افتتاحی تقریب کے لئے اسلام بھگن(پرنسپل ایونٹس منیجمنٹ آفیسر۔منسٹری آف آرٹ اینڈ اینڈ کلچر) نے ماریشس میں اردو کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اسٹیج پر چند کلمات کہے ۔ ان کے بعدعنایت حسین عیدن نے افتتاحی خطبہ کے آغاز کے لئے پروفیسر فتح محمد ملک کودعوت دی۔
پروفیسرفتح محمد ملک کو افتتاحی خطبہ کے لئے انتظامیہ کی طرف سے چند نکات دئیے گئے تھے کہ ان کے حوالے سے کچھ کہئے گا۔۔انہوں نے فی البدیہہ خطبہ دیتے ہوئے بعض ایسی باتیں کہہ دیں جو کانفرنس کے ہندوستانی مندوبین کے لئے کافی مشکل ہو گئیں۔چنانچہ دوران خطبہ بھی ہلکا سا ردِ عمل ہوا۔لیکن خطبہ کے بعد ٹی بریک میں چائے کی ہر پیالی میں طوفان اٹھ رہا تھا۔اصلاََ پروفیسر فتح محمد ملک نے جو مثالیں دے کر اپنی بات واضح کرنا چاہی تھی ،اس کے لئے یہ فورم مناسب نہیں تھا۔چنانچہ ایسا لگ رہا تھاکہ اب اگلے سارے سیشن اسی تنازعہ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔افتتاحی خطبہ کے بعد پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسرابوالکلام قاسمی کے ذمہ تھی۔میں جموں کے ظہورالدین،دہلی کے ڈاکٹر خلیق انجم اور دوسرے دوستوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔دوسری طرف دیکھا تو وہاں احمد فراز بھی نہ صرف یہی کام کر رہے تھے بلکہ ٹھنڈا کرنے کے لئے وہ بھی تقریباََ وہی الفاظ کہہ رہے تھے،جو میں ہندوستانی دوستوں کے لئے کہہ رہا تھا۔آخر طے یہ ہوا کہ دونوں صدور اپنی صدارتی تقریر میں اس مسئلہ کو اپنے موقف کے ساتھ سمیٹ لیں گے اور اس کے بعد اسے مزید اچھالا نہیں جائے گا۔خدا کا شکر ہے کہ بعد میں ایسا ہی ہوا۔(ویسے اس کانفرنس کا آخری سیشن اسی نکتے پر مکمل ہوا جو پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے افتتاحی خطبہ میں پیش کیا تھا۔لیکن چونکہ بات کسی پاکستانی کے منہ سے نہیں نکلی تھی بلکہ ماریشس والے خود وہی بات کہہ رہے تھے،اس لئے کوئی ہنگامہ نہیں ہوا)۔
پہلے سیشن کے صدور تھے پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسر ابوالکلام قاسمی ۔۔۔۔۔نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے صابر گودڑ۔ سب سے پہلے پڑھے جانے والے پروفیسر محمد زاہد کے مضمون کا عنوان تھا’’ ہندوستان میں اردو زبان کی صورت حال‘‘ لیکن ان کی گفتگو کا دائرہ علی گڑھ تک محدود رہا۔شاہد ماہلی کا مقالہ’’اکیسویں صدی میں اردو کے مسائل‘‘پر تھا۔انہوں نے اس ضمن میں بعض عمدہ تجاویز پیش کیں۔تیسرا مقالہ انور سعید کا تھا جس میں انہوں نے برصغیر میں ادب کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔چوتھا مقالہ ڈیوڈ میتھیوز کا تھا۔’’اردو ادب۔۔مسرت اور غم‘‘۔وقت کی کمی کے باعث وہ صرف خوشکن صورتحال ہی بیان کرسکے۔غم کا فسانہ بیان ہونے سے رہ گیا۔پانچویں نمبر پر قمر علی عباسی تشریف لائے۔انہوں نے زبانی تقریر کی۔اردو کے سلسلے میں اچھی اچھی باتیں کیں اور بتایا کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے۔آخر میں اس سیشن کے دونوں صدور پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور پروفیسر شمیم حنفی نے صدارتی خطاب کیا۔ابوالکلام قاسمی نے بہت عمدگی،شائستگی اور مدلل طریقے سے نہ صرف اپنے موقف کو واضح کیا بلکہ اس انداز سے اپنی بات مکمل کی کہ افتتاحی خطبہ سے پیدا ہونے والی ساری تلخی دور ہو گئی۔پروفیسر شمیم حنفی نے اپنے عالمانہ انداز سے اور اختصار کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ساری بحث کو سمیٹا۔
پہلا سیشن مکمل ہونے کے بعد لنچ کا پروگرام تھا۔لنچ کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز اور رضا علی عابدی نے کی۔نظامت ابنِ کنول نے کی۔ سب سے پہلے فیضان عارف نے ’’انگلینڈ میں اردو‘‘کے موضوع پر اپنا مقالہ پڑھا۔ان کے بعدخال مرزاؤف تاش مرزا نے ازبیکستان میں اردو کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔تیسرے نمبر پر ریاض گوکھل نے’’ماریشس میں اردو ادب‘‘کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔یہ مقالہ بہت سے مندوبین کے لئے اتنا معلوماتی تھا کہ وقت کی کمی کے باوجود اسے زائد وقت دیا گیا۔ان کے بعد ’’انگلینڈ میں اردو‘‘کے موضوع پر عبدالغفار عزم نے تقریر کی۔ان کے بعد مجھے اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔میں نے مغربی ممالک میں ادب کی صورتحال کو ادب کے مرکزی دھارے کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔اس کے ساتھ مغربی ممالک میں جعلی شاعروں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح پچاس سال کے بعد یکایک کوئی شاعربن کر نمودار ہوتا ہے اور دو سال میں تین مجموعوں کا خالق بن جاتا ہے۔اس کے ذمہ دار انڈیا اور پاکستان کے وہ استادشعراء ہیں جو بھاری معاوضے پر انہیں پورے پورے شعری مجموعے لکھ کردے رہے ہیں۔میرا مقالہ ختم ہوتے ہی مجھے اسٹیج پر سب سے پہلے ڈاکٹر لڈمیلا نے بے حد تپاک کے ساتھ ہاتھ ملا کر مبارکباد دی۔بعد میں مجھے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر خلیق انجم،پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر ابوالکلام قاسمی،صبا حنفی،نیلوفر عباسی نے خصوصی طور پر مقالہ کی تعریف کی۔ خلیق انجم اورفتح محمد ملک نے تو اسے انجمن ترقی اردو دہلی اور مقتدرہ اسلام آباد میں چھاپنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔میرے بعد ڈاکٹر لڈ میلاویسی لیویا نے اپنے مخصوص انداز میں ’’روس میں اردو‘‘مقالہ پیش کیا۔ان کے مقالہ کے بعد رضا علی عابدی اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز دونوں نے صدارتی تقاریر کیں۔
اس سیشن کے بعد پہلے ہمیں ہوٹل لے جایا گیا۔وہاں سے کچھ تیاری کے بعد ماریشس میں شیزان ہوٹل لے جایا گیا۔یہاں پاکستانی ہائی کمیشن کی جانب سے سب کے لئے ڈنر کا انتظام تھا۔ڈنر کے فوراََ بعد مشاعرہ تھا۔سو شیزان ہوٹل سے مشاعرہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔مشاعرہ کی نظامت ندا فاضلی نے کی۔صدارت احمد فراز کر رہے تھے۔تین مقامی شعراء نے کلام سنایا۔یہ تھے جناب طاہر صاحب، جناب صابر گودڑ صاحب اور ناز انور عثمانی صاحب۔۔۔مجھے آخر الذکر بطور شاعر اچھے لگے جبکہ صابر گودڑ مقالہ نگاری میں بہت محنت کر رہے ہیں۔ویسے ماریشس کے شعراء کو مقامی شعراء کہنے کے بجائے وہاں کے نیشنل لیول کے شعراء بھی کہا جا سکتا ہے۔
ان کے بعد ان شعراء نے باری باری اپنا کلام سنایا۔پاپولر میرٹھی،اے جی عزم،فیضان عارف،حیدر قریشی،شاہد ماہلی،زمان آزردہ،امیر عارفی،شمیم حنفی،ظہورالدین،کشور ناہید ،ندا فاضلی اوراحمد فراز۔حاضرین بالکل خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے۔ہمارے مشاعرہ کے شعراء کو ان کی خاموشی کھل رہی تھی۔لیکن مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ شعراء کو نہ صرف توجہ سے سن رہے ہیں بلکہ اچھے اشعار سے لطف بھی اٹھا رہے ہیں۔’’واہ واہ۔۔ اور۔۔ مکرر‘‘ کے لایعنی شور سے پاک یہ مشاعرہ مجھے اچھا لگا۔رات کو دیر گئے اپنے ہوٹل پہنچے اور بے سدھ ہو کر سو گئے۔
پانچ اگست کو اس کانفرنس کے اکیڈمک سیشن کا تیسرا اجلاس تھا۔اس اجلاس کے صدور تھے پروفیسر اصغر عباس اورپروفیسر انیس اشفاق۔نظامت پروفیسر محمد زاہد کر رہے تھے۔’’اردو تعلیم‘‘کے موضوع پر ہونے والے اس سیشن کی پہلی مقالہ نگار ڈاکٹر ظلِ ہما تھیں۔ان کے بعد صابر گودڑ نے ’’ماریشس میں اردو کی تعلیم‘‘کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ان کے بعد صبا حنفی صاحبہ نے پری پرائمری کلاسز میں اردو پڑھانے کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔یہ بہت ہی عمدہ اور معلوماتی مقالہ تھا۔ان کے بعد پروفیسر قاضی افضال حسین نے اردو کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم کے موضوع پرتقریر کی۔انہوں نے اپنے موقف کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا اور حاضرین کو بھی پُر امید کر دیا۔پروفیسر الطاف اعظمی کا موضوع بھی یہی تھا۔تاہم انہوں نے ہمدرد یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ ماریشس میں اس کا قیام اردو کے لئے بھی اور طب کے لئے بھی مفید ثابت ہوگا۔ان کی تجویز کی معقولیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔آخر میں پروفیسر زمان آزردہ نے تیسرے میلینیئم میں اردو ٹیکسٹ بکس کے حوالے سے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا۔ان کے بعد پروفیسر اصغر عباس نے اپنا صدارتی تقریر کا وقت بھی پروفیسر انیس اشفاق کو دے دیا۔انہوں نے تمام مقالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس سیشن کو سب سے بہترین مقالات کا سیشن قرار دیا۔اس کے ساتھ ہی چائے کے لئے وقفہ ہوا۔چائے کے وقفہ کے بعد کانفرنس کا چوتھا سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت پروفیسر زمان آزردہ اور پروفیسر فتح محمد ملک نے کی اور نظامت رحمت علی نے کی۔اس سیشن میں نیلوفر عباسی،رضا علی عابدی اور ایرینا وغیرہ نے مقالات پڑھنے تھے۔اس سیشن کے دوران کانفرنس کی ریزولیشن کمیٹی کا اجلاس تھا۔ریزولیشن کمیٹی میں شامل ہونے کی وجہ سے میں اس سیشن کے مقالات سننے سے محروم رہا۔ریزولیشن کمیٹی کا احوال ذرا آگے چل کر آئے گا۔
اس سیشن کے بعد لنچ بریک ہوا۔اور اس کے بعد کانفرنس کا پانچواں سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر لڈمیلا نے کی جبکہ نظامت کے فرائض سعید میاجون نے ادا کئے۔اہم اردو ناولوں کے ذکر پر مبنی ڈاکٹر ابنِ کنول کا مقالہ بڑی حد تک متوازن تھا۔’’بیسویں صدی میں غزل‘‘پروفیسرانیس اشفاق کے مقالہ کا موضوع تھا۔بہت زیادہ پھیلے ہوئے موضوع کو انہوں نے بڑے سلیقے کے ساتھ چار حصوں میں بانٹ کر پوری صدی کے مختلف ادوار کی غزل کو یوں سمیٹا کہ سچ مچ دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ان کے بعد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے’’مہجری ادب اور ہجرت کا مسئلہ‘‘کے موضوع پر اپنا پُر مغز مقالہ پیش کیا۔آخر میں پروفیسر ظہورالدین نے اردو میں ’’ماڈرن ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم‘‘کے موضوع پر معلوماتی مقالہ پیش کیا۔مقالات کے بعد ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر لڈمیلا دونوں نے اپنے اپنے صدارتی خطاب میں پیش کئے گئے مقالات پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔
۶؍اگست کو کانفرنس کا چھٹا اور آخری اکیڈمک سیشن شروع ہوا۔صدارت پروفیسر ابولکلام قاسمی اورڈاکٹر امیر عارفی کر ہے تھے اور نظامت ریاض گوکھل نے کی۔اس سیشن کا مرکزی موضوع تھا اردو مسلم کلچر کی نمائندہ۔جو بات پروفیسر فتح محمد ملک نے افتتاحی خطبہ میں کہی تھی وہی سخن گسترانہ بات اب سیشن کے ’’اکیڈمک مقطع ‘‘میں آپڑی تھی۔پروفیسر عبدالحق،اے رحمت علی اور آزاد شاماتوف نے اپنے اپنے موضوعاتی دائرہ کارمیں اسلامی کلچر اور اردو کے تعلق سے بہت سی اچھی اچھی باتیں کیں۔پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے مقالہ ’’اردو اور مسلم کلچر‘‘میں مولویت اور صوفی ازم کے فرق کو واضح کرنے کے ساتھ جب صوفیانہ رواداری اور اخوت و محبت کو اسلامی کلچر کی بنیاد بنایا تو ان سے کسی کو کوئی گلہ نہ رہا ۔یوں جب اس کلچر کو اردو کے ساتھ جوڑاگیا تو سب خوش ہو گئے۔ بات وہی تھی جو صدارتی خطبہ میں آئی تھی لیکن پہلے بیان میں رواروی کے باعث کچھ بے احتیاطی سی ہو گئی تھی اور اب آخری بیان میں وہی باتیں احتیاط کے ساتھ آگئی تھیں۔سو سب لوگ خوش ہوئے۔پروفیسر امیر عارفی اور ابوالکلام قاسمی نے سیشن کے اختتام پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔یہاں اکیڈمک سیشن کا اختتام ہو گیا ۔
چائے کے وقفہ کے بعد کانفرنس کا ساتواں سیشن شروع ہوا۔اس میں ریزولیوشن پیش ہونا تھا اور اس پر بحث کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔صدارت ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی۔نظامت اے۔ رحمت علی کے ذمہ رہی۔ریزولیوشن کمیٹی میں ڈاکٹر خلیق انجم،پروفیسر شمیم حنفی،شہزاد عبداﷲ،اسلام بھگن،عبدالغفار عزم، فیضان عارف اور حیدر قریشی شامل تھے۔ ریزولیوشن کمیٹی نے ’’عالمی اردو نیٹ ورک‘‘کے نام سے ایک ادارہ کی تشکیل کی سفارش کی۔جس کے ابتدائی مراکز ماریشس،انڈیا،پاکستان اور انگلینڈ میں ہوں گے۔بعد میں ان میں اضافہ بھی کیا جاتا رہے گا۔عالمی سطح پر اردو دنیا کو مربوط اور یکجا کرنے کا یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔لیکن اتنا پھیلا ہوا ہے کہ دستیاب وسائل کو دیکھتے ہوئے میں اس کی کامیابی کی امید پر کچھ تحفظات رکھتا ہوں۔ میں نے اس کمیٹی میں ایک ذمہ داری قبول کی اور وہ یہ کہ عالمی اردو نیٹ ورک کی جو ویب سائٹ قائم کی جائے گی اس کی ساری ذمہ داری میں اٹھانے کو تیار ہوں۔میں نے یہ ذمہ داری اپنے دوستوں خورشید اقبال(اردو دوست ڈاٹ کام) اورکاشف الہدیٰ(اردوستان ڈاٹ کام) پر اپنے بھروسے کے باعث بے دھڑک اٹھا لی تھی۔مجھے یقین ہے کہ میرے یہ دوست مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیں گے۔
پہلے ریزولیوشن انگریزی میں پیش کیا گیا پھر ڈاکٹر خلیق انجم نے اسے اردو میں بیان کیا۔ جب ریزولیوشن پیش ہوا تو بعض دوستوں نے کہا کہ ممالک کی فہرست میں امریکہ اور کینیڈا کو بھی شامل کیا جائے۔اصولی طور پر اس رائے کو تسلیم کر لیا گیا۔رضا علی عابدی صاحب نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ ویب سائٹ کیسے اتنی جلدی بنا لیں گے۔ان کے جواب میں مجھے اسٹیج پر آنا پڑا ۔میں نے کہا کہ جہاں تک ویب سائٹ کے پراجیکٹ کا تعلق ہے میں تمام حاضرین کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ جب مجھے تنظیم کی جانب سے میٹر فراہم کر دیا جائے گا،میں دوماہ میں ویب سائٹ کو آن لائن کرادوں گا(اس اعلان پر حسبِ توقع حاضرین کی طرف سے پُر زور تالیاں بجائی گئیں) ۔بہر حال ریزولیوشن منظور کر لیا گیا۔اب عمل درآمد کی نوبت کب آتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔پروفیسرقاضی افضال حسین نے ریزولیوشن پر ہونے والی بحث کو سمیٹا اور پھر لنچ بریک ہوگیا۔
لنچ کے بعد کانفرنس کا آٹھواں اور بالکل آخری سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت کشورناہید اور پروفیسر الطاف اعظمی نے کی۔نظامت اسلام بھگن نے کی۔دوران اجلاس آرٹ اور کلچرکے وزیر ایم۔ رام داس بھی تشریف لے آئے۔فاروق حسنونے اکیڈمک سیشن کے تمام مقالات کی رپورٹ پیش کی۔ان کو بلانے سے پہلے بتایا گیا کہ انہوں نے ہر مقالہ کے خلاصہ کو ایک دو سطر میں سمو کر دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔چنانچہ جب فاروق حسنو ڈائس کی طرف آنے لگے تو میں نے کہہ دیا’’لائیے صاحب! اپنے کوزے‘‘۔۔۔اس پر کشور ناہید نے اپنی کرسئ صدارت سے ہی کہا’’پر۔۔ مصری اپنی اپنی‘‘۔۔۔
فاروق حسنوکی رپورٹ کے بعد اسکول کے بچوں کو ان کی مختلف کامیابیوں پر انعامات دئیے گئے۔
تقسیم انعامات کے بعد ووٹ آف تھینکس کے لئے فاروق باؤچہ کو آنا تھا لیکن ان کی جگہ کوئی اور دوست آگئے۔ان کا نام اب یاد نہیں رہا۔
اپنے طور مجھے اس کانفرنس کی بعض باتیں اور بعض پہلو اچھے لگے۔سب سے پہلے تو یہ کہ اس کانفرنس کے کرتا دھرتا شہزاد عبداﷲ اور سیکریٹری فاروق باؤچہ اردو کی خدمت کاجذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ضروری نہیں سمجھا کہ وہ خود کو بطور شاعر یا ادیب متعارف کرائیں۔ہمارے ہاں تو یار لوگ پہلے دوسروں سے شاعری لکھوا کر اپنے مجموعے چھپواتے ہیں اور اس کے بعد کانفرنسوں کا ڈول ڈالتے ہیں۔ کانفرنس سے پہلے ہی میں نے پتہ کیا تھا کہ مجھے یہاں مدعو کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔معلوم ہوا پروفیسر شمیم حنفی نے میرا نام دیا تھا۔یہ میرے لئے خوشگوار انکشاف تھا۔میرا کبھی پروفیسرشمیم حنفی سے براہ راست رابطہ نہیں رہا۔اس کے باوجود انہوں نے میرا نام تجویز کیا۔میں نے اس کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے مجھے مزید زیر بار کر دیا۔ پروفیسرشمیم حنفی سے ملاقات کے دوران ان کی محبت کے باوجود مجھے ایک ڈر سا لگا رہتا۔جیسے اسکول کے زمانے میں بعض اساتذہ کا ڈر رہتا ہے۔ایسا ڈر جس میں احترام کا عنصر غالب ہوتا ہے۔میں نے جھجھک کے ساتھ انہیں یہ بات بتا ئی تو وہ مسکرائے،میری حوصلہ افزائی کے لئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ان کے بر عکس ان کی اہلیہ بھابی صبا کے ساتھ تو میری جیسے ایک دم دوستی ہو گئی۔حالانکہ خواتین کے معاملہ میں تھوڑی سی جھجھک فطری بات ہوتی ہے۔بھابی صبا حنفی سے میری گپ شپ زیادہ رہی۔ڈاکٹر لڈمیلا سدا بہار خاتون ہیں۔زندہ دل بھی اور صاحبِ علم بھی۔ان سے جتنی ملاقات رہی خوشگوار رہی۔ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے میری پہلی بار ملاقات ہوئی ۔ایک اور اچھی ملاقات پاپولر میرٹھی کے توسط سے پی کے آریا سے رہی۔ہندی جرنلزم کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والے اس نوجوان کے دائرہ کار میں ٹی وی سے لے کر ادب تک سب کچھ آگیا ہے۔آخری دن اس وقت مجھے عجیب سی خوشی ہوئی جب وہ ماریشس میں مقیم ایک ہندوستانی لڑکی کے ساتھ آئے۔وہ شرما فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔میں نے یونہی کہا کہ ہمارے بھی ایک شرما جی ہیں۔ہمت رائے شرما ،اردو ماہیے کے بانی۔انہوں نے بے اختیار کہا وہ تو میرے پھوپھا جی ہیں۔ہمت رائے شرما جی سے میرے تعلق کی نوعیت کو جاننے والے دوست بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ تب مجھے کتنی خوشی ہوئی ہو گی۔قمر علی عباسی اور ان کی اہلیہ نیلوفر عباسی امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔عباسی صاحب نے جرمنی کا سفر نامہ لکھا ہے’’اور دیوار گر گئی‘‘۔اس میں میرے بعض جملے جس طرح انہوں درج کئے ہیں اس سے ان کے حافظہ کا قائل ہونا پڑا۔میں نے بڑی مشکل سے ایک لفظ کی غلطی ڈھونڈ نکالی۔’’عباسی صاحب! میں نے سیلاب کہا تھا آپ نے طوفان لکھ دیا ہے‘‘۔۔ انہوں نے برجستہ کہا بالکل آپ نے سیلاب کہا تھا کمپوزر نے غلطی سے طوفان لکھ دیا‘‘۔۔۔موت کو چھو کر واپس آنے والے قمر علی عباسی شدید تر نقاہت کے باوجود ویسے ہی زندہ دل تھے،جیسا انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ اﷲ انہیں لمبی عمر عطا کرے۔
میری افغانی ٹوپی میرے لئے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سے مفید رہی۔بیشتر ناواقف لوگ مجھے افغانستان سے آیا ہوا ادیب سمجھتے رہے۔ اس کے نتیجہ میں بعض لوگ مجھ سے کچھ محتاط سے دکھائی دئیے تو بعض لوگ بڑی محبت کے ساتھ ملتے رہے۔آخری دن خوبصورت آنکھوں والی ایک خاتون چائے کے وقفہ کے دوران مجھ سے پوچھنے لگیں آپ افغانستان سے آئے ہیں؟میں نے مختصراََ کہا نہیں۔پھر انہوں نے پوچھا پشاور سے آئے ہیں؟میں نے پھر کہا نہیں۔انہوں نے پریشان ہو کر پوچھا پھر آپ کہاں سے آئے ہیں؟۔۔۔میں نے کہا بی بی آپ کو یہ سوال پہلے پوچھنا چاہئے تھا۔ویسے میں جرمنی سے آیا ہوں۔بی بی بہت حیران ہوئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب ساری مغربی دنیا میں نائین الیون کے بعد افغانی باشندے اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے تھے، میں وہ بے وقوف ہوں جو تب بھی فرینکفرٹ میں اسی ٹوپی کو پہن کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔اس خاتون کا نام تھا فیروزیہ نورنگ۔
اردو پروگرام کے فروغ کے لئے ڈاکٹر یاسمین نے طے کیا کہ آخری سیشن کے بعد میں ان کے ساتھ ان کے ہاں جاؤں گا۔وہاں ان کی بھتیجی صبا ہو گی جو آئی ٹی میں گریجوایشن کر رہی ہے۔میں انہیں اردو پروگرام کو استعمال کرنے کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھا دوں گا۔اردو ای میل بھیجنے کے دونوں طریقے بھی سمجھا دوں گا۔یعنی ان پیج فائل کی اٹیچ منٹ بھیجنا اور گف فائل بنا کر اردو میں ای میل بھیجنا۔یہ باتیں جاننے والوں کے لئے بہت معمولی سی ہیں لیکن نہ جاننے والوں کے لئے بہر حال حیرانی کی باتیں ہیں۔چنانچہ جب میں نے اردو میں ای میل کا کامیاب تجربہ کیا تو عزیزی صبا بچوں کی طرح خوشی کا اظہار کرنے لگی۔اردو پروگرام کو کمپیوٹر میں کاپی کرنا۔پھر ’’یوزرس ڈیفائنڈ کی بورڈ‘‘کو تیار کرنا اور پھر ای میل کے مراحل سے گزرنایہ سب کچھ کرنے اور سمجھانے میں اتنی دیر ہو رہی تھی کہ الوداعی ڈنر پر جانا مشکل ہو گیا تھا۔میری طبیعت ویسے بھی ٹھیک نہیں تھی۔چنانچہ میں نے ڈنر کو مس کردیا اور اردو پروگرام کے لئے جتنا کچھ میرے بس میں تھااسے آگے پہنچانے میں لگا رہا۔جبکہ الوداعی ڈنر میں وزیر اعظم اور نائب صدر دونوں نے آنا تھا ۔
میرے مقالہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے اردو کی چند اہم اور ادبی قسم کی ویب سائٹس کا ذکر آیا تھا ۔اس پر ماریشس کے احباب نے خاص طور پر خوشی کا اظہار کیا۔میں ماریشس کے احباب کے لئے اپنا اردو پروگرام ’’اردو۔۲۰۰۰‘‘لے گیا تھا۔چنانچہ کانفرنس کے دوران کمپیوٹر رکھنے والے دوستوں کو وہ سوفٹ وےئر دے دیتا تھا۔وہ اپنے کمپیوٹر میں اسے کاپی کرکے مجھے واپس کردیتے۔کچھ اس کا اثر تھا۔آخر میں جب ویب سائٹ بنانے کی ذمہ داری بھی میں نے اپنے سر لے لی تو ساری کانفرنس نے مجھے اردو میں آئی ٹی کا ایکسپرٹ قرار دے دیا۔قاضی افضال حسین نے تو اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ دیا کہ حیدر قریشی کہتے ہیں کہ وہ دو ماہ میں ویب سائٹ بنوا دیں گے۔مجھے لگتا ہے دو ماہ سے بھی کم عرصہ میں ایسا کردیں گے۔میں ان ساری باتوں پر اس لئے مسکراتا رہا کہ مجھے علم تھاجب اس تاثر کے بارے میں اپنے دوستوں خورشید اقبال اورکاشف الہدیٰ کو بتاؤں گا تو وہ بہت ہنسیں گے۔اور ان سے پہلے میرا بیٹا ٹیپو ہنسے گا جو مجھے انگلی پکڑ کر کمپیوٹر کو استعمال کرناسکھاتا ہے۔چنانچہ بعد میں یہی ہوا۔لیکن مجھے خوشی ہے کہ ان سب کی وجہ سے سہی ماریشس میں اردو پروگرام بڑے پیمانے پر متعارف ہو رہا ہے،یہ بھی اردو کے فروغ کی ایک صورت ہے۔
***