Freitag, 15. Juli 2011

رہے نام اللہ کا

رہے نام اللہ کا


نام تو اللہ کا ہی رہنے والا ہے،باقی سب کو فنا ہے لیکن یہ نام کیا چیز ہے؟چلیں ہم انسان تو نام کی مجبوری رکھتے ہیں ،کیا خدا کوبھی نام کی ضرورت ہے؟یہ مسئلہ تھوڑا سا نازک ہے،اس لئے اس پر آگے چل کر بات کروں گا۔فی الحال اپنے نام کے ساتھ یورپ میں ہونے والے سلوک کا حال بتادوں۔میرا پورا نام قریشی غلام حیدر ارشد ہے۔ادب کی دنیا میں آیا تو اتنے طویل نام کو سنبھالنا مشکل لگا،سو قلمی نام حیدر قریشی موزوں لگا اور اسے اختیار کر لیا۔ میرے آنے سے پہلے میری اہلیہ اور تین بچے جرمنی پہنچ چکے تھے۔پاکستان میں تو تین چار ٹکڑوں کے نام عام طور پر رکھے جاتے ہیں۔اور ان ٹکڑوں میں فیملی نام اور پہلے نام کی تخصیص بھی نہیں کی جاتی۔چنانچہ چوہدری شاہ محمد صاحب کی اگلی پیڑھی آسانی سے شاہ صاحب بن جاتی ہے۔لیکن ادھر یورپ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ بچے دو ہی اچھے کی طرح نام کے بھی دو ہی حصے اچھے۔مبارکہ سے پوچھا گیا کہ فیملی نام کیا ہے؟اس نے آسانی سے خود کو مبارکہ حید ر لکھوا لیا۔بچوں کے نام بھی اسی طرح حیدر فیملی نام کے ساتھ لکھ لئے گئے۔جب میں جرمنی میں پہنچا تو میرے ساتھ آنے والے بیٹوں نے بھی اپنے نام شعیب حیدر اور عثمان حیدر لکھوائے،جبکہ میں نے اپنا پورا نام قریشی فیملی نام کے ساتھ درج کرایا۔اب صورتحال یوں بنی کہ میرے گھر کے باقی سارے افراد کا فیملی نام حیدر تھا اور میرا فیملی نام قریشی۔کسی آفس سے واسطہ پڑتا تو وہاں تھوڑی سی الجھن ہوتی لیکن پھر مسئلہ حل ہوجاتا۔
اسی دوران ایک آفس کی افسر نے بتایا کہ ہمیں تو اس صورتحال سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن آگے چل کر جب آپ لوگوں نے جرمن نیشنلٹی حاصل کرنا چاہی ،تب آپ لوگوں کو فیملی بک بنواتے وقت مشکل پیش آئے گی۔اس لئے یا تو باقی سب کا فیملی نام قریشی کرا لیں یا اپنا فیملی نام حیدر کر لیں۔مجھے مسئلے کی نزاکت کا اندازہ ہو گیا۔اس کا حل ڈھونڈنے کے لئے ایک وکیل سے رابطہ کیا۔فیملی نام میں تبدیلی سرکاری اور عدالتی سطح پر کرانا ہوتی ہے اور فی کس کے حساب سے یکساں فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔اب صورتحال یوں بنی کہ یا تو میرا فیملی نام بھی حیدر کرا لیا جائے اور صرف ایک بندے کی فیس ادا کی جائے یا پھر چھ افراد کا فیملی نام قریشی کرایا جائے اور چھ گنا زیادہ فیس ادا کی جائے۔اپنی مالی حالت دیکھتے ہوئے یہی مناسب لگا کہ میرا فیملی نام ہی حیدر کرا لیا جائے۔سو یوں اب میرا فیملی نام حیدر ہو گیا اور پہلا نام شاہ محمد کی طرح قریشی ہو گیا۔یوں قریشیت کے حوالے سے ہم اہلِ عرب خود ہی عجم ہوگئے۔باقی صاحب! کہاں کا عرب اور کہاں کا عجم۔ہم سیدھے سادے پاکستانی تھے اور اب اتنی ہی سیدھی سادی پاکستانی اصلیت کے ساتھ جرمن نیشنلٹی کے حامل ہیں۔فیملی نام کی اس تیکنیکی تبدیلی کے نتیجہ میں واقعتاََ ہم بہت سی قباحتوں سے بچ گئے اور بہت سارے کام بڑی آسانی سے ہو گئے۔
فیملی نام کے مسئلہ کو شاید پاکستانی دوست ٹھیک سے نہ سمجھ پائیں اس لئے یہاں کی بہت ساری مثالوں میں سے ایک دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں۔ایک لڑکے کے والدرانا تھے اور پاکستان میں مجسٹریٹ تھے،ان کی والدہ قریشی تھیں۔میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔لڑکے کی والدہ بیٹے کو لے کر جرمنی میں آگئیں۔یہاں انہوں نے اپنا فیملی نام قریشی لکھوایا اور اسی مناسبت سے راجپوت بیٹے کا فیملی نام بھی قریشی ہو گیا۔ایک خاتون پہلے جرمنی پہنچیں تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بیگم لکھوایا۔اندراج کرنے والوں نے بیگم کو بطور فیملی نام لکھ لیا۔اس کے بعد لطیفہ اس وقت بنا جب ان کے ہر بچے کے نام کے ساتھ بیگم بطور فیملی نام کے لکھا گیا۔مثلاََ عتیق بیگم،لئیق بیگم وغیرہ۔اس فیملی کو واقعتاََ بعد میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اور کئی برس کی بھاگ دوڑ کے بعد اب اپنے نام ٹھیک کرا سکے ہیں ،جبکہ خرچہ بھی بہت کرنا پڑا۔
یہ نام اور ذات کیا ہے؟ بلہے شاہ نے کہا تھا:
چل اوئے بلہیا اوتھے چلیے جتھے سارے اَنھیں
نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی ساہنوں منے
(بلہے شاہ! چلو وہاں چلیں جہاں سب اندھے ہوں،
تاکہ نہ کوئی ہماری ذات پہچان سکے اور نہ ہی ہمیں مانے۔)
ذات اور ہستی تو صرف خدا ہی کی ہے۔اور نام ۔۔پتہ نہیں خدا کا کوئی ایسا نام بھی ہے جس کے بغیر اس کی شناخت ممکن نہ ہو؟جہاں تک مختلف مسالک اور مذاہب کا تعلق ہے،جسے خدا کا جو نام ملا ہواہے یا بتا دیا گیا ہے وہ اسی نام کو خدا کا اصل نام قرار دیتا ہے۔اورخدا کے لئے دوسروں کے اختیار کردہ ناموں کوصفاتی یا فرضی نام سمجھتا ہے۔یہاں جرمنی میں مسیحی فرقہ یہوواہ وٹنسز کے کچھ لوگ میرے پاس آتے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ خدا کا اصل نام یہوواہ ہے۔میں نے انہیں کہا کہ سارے اچھے نام جو خدا کے لئے بولے جاتے ہیں،میں ان سب کا احترام کرتا ہوں۔اس لئے مجھے یہوواہ کے نام پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ صرف یہی نام خدا کا حقیقی نام ہے۔پاکستان میں بھی اسلام کے نام پر انتہا پسندی کی جو لہر آئی ہوئی تھی اس کے نتیجہ میں وہاں خدا کا لفظ ایک طرح سے ممنوع قرار دے دیا گیا اور صرف’ اللہ ‘نام کو حقیقی قرار دیا گیا۔’اللہ‘ نام تو خود میری روزمرہ بول چال کا بھی حصہ ہے لیکن میں صرف اسی پر ایسا اصرار نہیں کرتا کہ دوسروں کے ناموں پر پابندی لگادوں۔خدا کا نام تو ویسے بھی فارسی روایت کا حصہ ہے جو اردو میں رچ بس چکاہے۔خدا کے نام کوچھوڑ کر صرف اللہ پر اصرارکرنے والے دنوں میں مجھے اکبر الہٰ آبادی کا ایک شعر یاد آتا رہا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ  اکبر ؔ  نام  لیتا  ہے  خدا  کا  اس  زمانے  میں
لفظ اللہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ اِیل الہٰ سے بنا ہے۔ الہٰ کا مطلب ہے معبود۔ اِیل کا لفظ خدا کے لئے بولا جاتا ہے۔حضرت اسماعیل کا اصل نام اسمع اِیل ہے۔یعنی خدا نے سن لی۔بی بی ہاجرہ کے دکھ کو دیکھ کر خدا نے ان کی سن لی اورفرشتہ کے ذریعے انہیں ایک بیٹا ہونے کی بشارت دی تھی۔اور اس کا یہی نام رکھنے کا حکم دیا تھا یعنی اسمع اِیل۔چار معروف فرشتوں کے نام بھی خدا (اِیل)سے ان کی وابستگی اور نسبت کو ظاہر کرتے ہیں۔جبرایل، میکائیل، عزرائیل ، اسرافیل ۔ ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بنائے ہوئے بیت اِیل کا ذکر بھی بائبل میں موجود ہے۔اور بائبل میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ایل بمعنی خدا مذکور ہے۔ باقی واللہ اعلم!
جرمن زبان میں خدا کے لئےt Got گاٹ کا لفظ بولا جاتا ہے۔اس کا صحیح تلفظ گاٹ اور گوٹ کے درمیان کی آوز میں ہے۔جس میں گؤٹ سے ملتی جلتی آواز نکلتی ہے۔میں یہاں جس اولڈ ہوم میں ملازم ہوں،یہاں ایک بزرگ خاتون فراؤ کلاسن (Frau Klassen) داخل ہوئی تھیں،اب فوت ہو چکی ہیں۔وہ جب کبھی کسی بات پر جھنجھلا جاتیں تو گوٹ گوٹ گوٹ گوٹ چار پانچ بار ایک ساتھ کہہ جاتیں اور میں دل ہی میں کہتا فراؤ کلاسن تم نے تو اپنے خدا کو گھوٹ کر رکھ دیا۔
سائنسی ترقی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر سے کلوننگ کے عہد تک آگئی ہے۔ابھی آئرن ایج تھا،’’لوہے کے پر اُگ آئے‘‘تھے،ہم اسی عہد کے سحر میں تھے کہ ڈیجیٹ ایج شروع ہوگیا ۔چِپ کی جادو گری کی حیرتیں ختم نہیں ہوئیں کہ کلوننگ کا زمانہ بھی شروع ہو گیا۔اور ابھی پتہ نہیں مزید کیا سے کیا ہوتاجائے گا۔نئی سائنسی ترقیات سے ایک سطح پر مذہبی تصورات میں ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے تو ایک بڑی سطح پر مذہب کااثبات بھی ہو رہا ہے۔
کمپیوٹر چِپ کی کارکردگی دیکھیں تو اس میں لکھت پڑھت کے ساتھ آڈیو،ویڈیو ریکارڈنگ بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔اگر انسانی چِپ کی کار کردگی اتنی حیران کن ہے تو منکر نکیر کے تصوراور انسانی اعمال و افعال کی خدائی ریکارڈنگ کی بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔
میں چھ سات برس تک تو کمپیوٹر سے اور انٹر نیٹ سے جنون کی حد تک وابستہ رہا ہوں۔لیکن اب لگتا ہے دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہو گئی ہے اور بس عام بہاؤ والی حالت ہو گئی ہے۔معمول کے اخبارات دیکھے،ای میلز پڑھیں،جواب بھیجے،اپنا ادبی کام کیا اور بس!وہ جو کئی کئی گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھنے کا شوق تھا اب ختم ہوگیا ہے۔ہاں معمول کے مطابق روزانہ ایک سے دو گھنٹے تک کمپیوٹر پر صرف ہوجاتے ہیں ۔تاہم اپنے سارے بچوں کے مقابلہ میں اب بھی کمپیوٹر پر زیادہ وقت میں ہی بیٹھتا ہوں۔
جب میرے بچوں کے بچے گھر پر آتے ہیں،مجھے اپنی بہت ساری چیزوں کی فکر رہتی ہے اور میں ان سے انہیں بچائے پھرتا ہوں۔ایک سال سے نو سال کی عمر تک کے یہ سارے بچے مجھ سے متعلق چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔میری کتابیں ہوں،ٹوپیاں ہوں،کھانے پینے کی شوگر فری اشیاء ہوں یا میرا کمپیوٹر ہو،میرے پوتے ، پوتیاں ،نواسے سب اپنے اپنے طور پر داؤ میں لگے رہتے ہیں۔ٹوپیاں پہن لیں گے،اشیاء چکھتے پھریں گے۔ ایک بچہ میری زیر مطالعہ کتاب کو اٹھائے گا اور جو صفحہ ایک بار دیکھ لے گا ،اسے پھر کوئی اور کتاب میں نہیں دیکھ سکے گا۔ایک پوتاپہلے کتابیں کتر کتر کر کھاتا تھا۔میں نے کہا بھئی یہ تو علم اور ادب کو ہضم کر رہا ہے۔ کمپیوٹر پرنٹر کے لئے اے۔۴ سائز کے پیپرز کے پیکٹس کو بچے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر ہر بچہ ان پیپرز پر اپنی مرضی کی پینٹنگ یا شاعری کر رہا ہوتا ہے۔پیپرز کو بچوں سے بچانے کے لئے آخر اپنے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک پرنٹر کو میں نے کمپیوٹر ٹیبل پر اس طرح سیٹ کیا کہ بچوں کا ہاتھ کاغذات والے حصے تک پہنچ ہی نہ سکے۔ میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو سب کے ہاتھ میں پیپرز تھے اور وہ اپنے معمول کے مطابق پینٹنگ یا شاعری’’ کرنے‘‘ میں مصروف تھے۔پہلے بڑے افراد سے پوچھا کہ کس نے انہیں اتنے سارے پیپر نکال کر دئیے ہیں؟۔۔کسی بڑے نے ایسا نہیں کیا تھا۔پھر بچوں سے ڈائریکٹ تفتیش شروع کی تو پتہ چلا بڑے پوتے نے سب کو پیپر نکال کر دئیے ہیں۔میں نے اس سے پوچھا آپ میز کے اوپر چڑھ گئے تھے؟ پوتے نے بتایا کہ نہیں ویسے نکالے ہیں۔میں اسے کمپیوٹر والے کمرے میں لایا۔اس کی عمر ،قد اور میز پر رکھے پرنٹر کی سیٹنگ ایسی تھی کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر یا میز پر چڑھے بغیر پیپر نکال ہی نہیں سکتا تھا۔میں نے اسے کہا ایک اور پیپر نکال کر دکھاؤ۔
پوتے نے فوراََ پرنٹر کا سوئچ آن کیا پھر اس کے اس بٹن کو دبایا جس کے ذریعے حسبِ ضرورت فوٹو کاپی نکالی جا سکتی ہے۔بٹن دبانے کی دیر تھی بالکل پیچھے رکھے ہوئے پیپرز میں سے ایک پیپر باہر �آگیا۔چونکہ فوٹو کاپی کرنے کے لئے کوئی میٹر نہیں رکھا تھا اس لئے پیپر پلین ہی آنا تھا۔میں پوتے کی ترکیب پر حیران ہو کر ہنس رہا تھا اور پوتا مجھ سے پوچھ رہا تھا دادا ابو ! اور کاغذ نکال دوں؟
پوتے کے ساتھ اس تجربہ کے بعد مجھے لگا کہ کمپیوٹر چِپ کے کمالات کی طرح،اگلی زندگی میں ہمارے اعمال کا سارا ریکارڈ ہونے کے باوجود ہم گنہگاروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی کئی ترکیبوں پر اللہ میاں بھی پہلے تو پوچھے گا کہ اوئے بدمعاشو! تم نے یہ ساری حرکتیں کیسے کی تھیں؟ اور پھر ہمارے کسی جواب کے بغیر ہی ہنس دے گا کہ وہ تو سب کچھ ہی جانتا ہے۔اس کے پاس سارا ریکارڈ بھی موجود ہے ۔
کمپیوٹر برق رفتاری کی علامت ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں رفتار بہت تیز ہے۔ہم لوگ ۳۰ میل فی گھنٹہ سے زندگی شروع کرنے والے ۵۰ کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہی پاکستان میں خوش ہوجاتے تھے۔کسی عزیز کو الوادع کہنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جاتے یا کوئی ہمیں الوداع کہنے آتا،گاڑی ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ رینگنا شروع کرتی تو الوداع کہنے والے چلتی ٹرین کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے چلتے اور الوداع کہنے کا یہ ایک ڈیڑھ منٹ کا وقت جیسے ملنے اور بچھڑنے کے سارے زمانے ساتھ لئے ہوتا تھا۔ابا جی کبھی ہمیں ٹرین پر سوار کرنے آتے تو عموماََ پلیٹ فارم کے آخری سرے تک ساتھ ساتھ چلتے آتے۔اور جب پلیٹ فارم اور ابا جی ایک ساتھ آنکھ سے اوجھل ہوجاتے تو اگلی منزل پر جانے کی خوشی کے باوجود ایسے لگتا جیسے ابا جی گم ہوگئے ہیں۔اور اب کہ زندگی کی اس منزل پر آگیا ہوں جہاں لوکل ٹرین بھی سٹارٹ ہوتی ہے تواتنی رفتار پکڑ لیتی ہے کہ ایک قدم بھی ساتھ ساتھ چلنے کی نوبت نہیں آنے دیتی۔یہاں ایک بار بچوں کو ٹرین کے ذریعے سفرکرکے ہمبرگ جانا تھا،میں انہیں خدا حافظ کہنے کے لئے ریلوے اسٹیشن تک ساتھ گیا۔جب ٹرین روانہ ہوئی تو میں بچوں کو ٹرین کے ساتھ چلتے چلتے ہاتھ ہلا کرخدا حافظ کہنے کی خواہش دل میں ہی لئے رہ گیا۔لیکن اس تجربہ نے مجھے فرینکفرٹ ریلوے اسٹیشن پر ابا جی سے ملا دیا۔مجھے لگا ابا جی عدم کے پلیٹ فارم پر کھڑے مجھے زندگی کی ٹرین میں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ،ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔
خیر بات ہو رہی تھی مخصوص جدید سائنسی تجربات و ایجادات کی۔ حال ہی میں کلوننگ کا ایک انوکھا تجربہ کا میابی کے ساتھ کیا گیا تھا۔کسی جاندار کے کسی ایک سیل کو لے کر سائنسی عمل سے گزار کر ہوبہو ویسا ہی جاندار بنا دینا۔یہاں تک کہ آپ کے مکھڑے پر دائیں جانب تل ہے تو آپ کے ایک سیل سے بنایا جانے والا آپ کا ہمزاد بھی بعینہ ویسے تل کا حامل ہوگا۔اس کے نتیجہ میں پیدائش کے عمل میں مرد اور عورت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔یہاں ٹیسٹ ٹیوب بے بی والا کوئی جھنجھٹ بھی نہیں ہے۔ بے شک یہ تجربہ ایک سطح پر بہت سارے مذہبی تصورات کو توڑتا دکھائی دیتا ہے۔میرے جیسا بندہ جو بچپن میں خوش الحانی سے ایک نظم میں یہ شعر پڑھا کرتا تھا
بنا  سکتا  نہیں  اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز
تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اس پہ آساں ہے
اب عمر کے اس حصے میں دیکھ رہا ہے کہ ایک بھیڑ(ڈولی) کی کلوننگ کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔اس کے بعد اسی انداز کے چند اور تجربے بھی ہوئے ہیں تاہم پہلے تجربے کے بعد کسی بڑے بریک تھرو کی خبر نہیں آئی۔اس تجربہ کے فوراََ بعد پوپ سمیت سنجیدہ مذہبی حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور امریکہ سمیت بعض ممالک نے بھی اس تجربہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ویسے امریکہ کی تشویش کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ آج کی ترقی یافتہ ترین سائنس کے عہد کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ کرنے والا کوئی امریکی نہیں تھا بلکہ اسکاٹ لینڈ کا ایک سائنس دان تھا۔جدید سائنس کی ابتدا گلیلیو سے شروع کریں تو اس کے یہ کہنے پر کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد گردش کر رہی ہے،اُ س وقت کے پوپ کے حکم سے اسے کافر قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔اب کلوننگ کے تجربے پر ناپسندیدگی کرنے والے بھی در اصل سائنس کو عقائد کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔بے شک کلوننگ کے کامیاب تجربہ سے موت پر قابو پانے کے انسانی خواب کی امیدیں بڑھ گئی ہیں ۔ ہم پرانی داستانوں میں جو آبِ حیات ڈھونڈتے پھرتے تھے،کلوننگ بھی اس سے ملتی جلتی کوئی چیز لگتی ہے۔ویسے آبِ حیات کی تلاش کا ایک اور تجربہ بھی ہو رہا ہے جس کے مطابق انسانی زندگی کو دو اڑھائی سو سال تک آسانی سے لے جایا جا سکے گا۔سائنس ابھی سائنسی آبِ حیات کے کنارے تک پہنچنے والی ہے مگر ہم تو اپنی داستانوں میں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آبِ حیات پی چکنے والے سارے لوگ آبِ حیات نہر کے کنارے پرایسی عبرتناک حالت میں زندہ تھے کہ تڑپ رہے تھے اور موت کی دعا کر رہے تھے لیکن انہیں موت نہیں آ رہی تھی۔شاید ہماری سائنس بھی اسی طرف یا اس سے کچھ ملتی جلتی طرف جا رہی ہے۔اس کے باوجود کہ سائنسی ایجادات کے اس تیز رفتار دور میں کوئی ایجاد کسی ایسی تباہی کا باعث بن سکتی ہے جو انسان کو پھر سے پتھر کے زمانے میں لے جائے،پھر بھی میں مذہب کی طرح سائنس کی بھی خودمختاری کا حامی ہوں۔کلوننگ کے تجربہ کی کامیابی سے ایک چھوٹی سطح پر مذہبی افکار پر ضرب تو لگی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر مذہب کا اثبات ہوا ہے۔اگر ایک سائنسدان کسی جاندار کے ایک سیل سے بالکل ویسا جاندار بنا سکتا ہے تو حیات بعد الموت کا مذہبی عقیدہ سائنسی طور پر ثابت ہو گیا کہ خدا کے لئے ہماری خاک یا راکھ میں سے کسی ایک سیل کو نکال کر اس سے ہمیں دوبارہ زندہ کر دینا کونسا مشکل کام ہو گا۔قرآن شریف میں کئی مقامات پر معترضین کے الفاظ آئے ہیں کہ جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے تو پھر ہمیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔اللہ کی قدرتوں کا تو اپناہی انداز ہے لیکن کلوننگ کا تجربہ بجائے خود حیات بعد الموت کے عقیدہ پر اعتراض کا سائنسی جواب ہے۔
میری کئی دہریے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔پاکستان میں،انڈیا میں اور اب یہاں جرمنی میں بھی۔دہریے لوگوں کی کم از کم دو قسمیں تو میرے ذہن میں واضح ہیں۔ایک قسم کے دہریے وہ ہیں جو کچے پکے مطالعہ کے ساتھ، دانشور کہلانے کے لئے شوقیہ دہریے بن گئے۔ یہ لوگ محض محفلوں میں نمایاں ہونے کے لئے نازیبا زبان میں بات کرتے ہیں ۔خدا کو سمجھنے کی کاوش یا اس کی جستجو(چاہے اس کے نتیجہ میں بندہ کوچۂ الحاد میں بھی چلا جائے)ان کے ہاں بالکل نہیں ہوتی۔نام آوری کے ایسے شوقین دہریوں کو میں شیخ چلی دہریے سمجھتا ہوں۔ان کے بر عکس وہ لوگ جو واقعتاََ خدا کی ہستی کو عقل کے ذریعے سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں،میں ان کے انکار کے باوجود انہیں خدا پرست کہتا ہوں۔
لاتسبو الدہر والی حدیث قدسی میں خدا خود کہتا ہے کہ زمانے (دہر) کو برا مت کہو،میں خود زمانہ(دہر) ہوں۔تو صاحب!اگر خدا دہر ہے تو دہریہ کا مطلب ہوا خدا پرست۔
مختلف مذاہب کا پس منظر رکھنے والے دہریوں میں ایک دلچسپ چیز میں نے یہ دیکھی کہ کسی نہ کسی سطح پر وہ اپنے مذہب سے لازماََ وابستہ ہوتے ہیں۔یہاں فرینکفرٹ میں ایک بی بی کرسٹین Kerstin خود کو انسانیت کا علمبردار کہتی ہیں۔مسیحی چرچ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں،مذہب ان کے نزدیک نفرتوں کی بنیاد ہے۔مسٹر مُلر Muller خود کو واضح لفظوں میں دہریہ کہتے ہیں۔میں نے ان سے ان کا فکری پس منظر جاننا چاہا تو انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔لیکن اتنا معلوم ہو گیا کہ ان کی اہلیہ یہودی ہیں۔ایک دن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے حوالے سے کسی تازہ خبر پر گفتگو شروع ہوئی تومسٹر مُلر کی ساری دہریت کھل گئی۔مجھے احساس ہوا کہ وہ دہریے تو ہیں لیکن یہودی دہریے۔یوں دہریوں کے بھی کئی مسلک سمجھ لیجیے۔مسلمان دہریے،مسیحی دہریے،ہندو دہریے۔یہاں کراچی کے ایک معروف ترقی پسند نقاد اور لاہور کے بھی ایک نیم ترقی پسند کالم نگار کی یاد آگئی۔ان میں سے ایک نے انڈیا کے ادیب دوستوں میں بیٹھ کر اظہر جاوید کے مسلک کا مذاق اڑایا اور ایک نے میرے مذہبی رجحانات کی خطرناکی سے وہاں کے ہندو دوستوں کو آگاہ کیا۔سو ثابت ہوا کہ دہریوں کی بھی اقسام ہیں یعنی مسلمان دہریے،مسیحی دہریے،ہندودہریے،یہودی دہریے،وغیرہ وغیرہ۔ جو حسبِ موقع صاحبِ ایمان بھی بن جاتے ہیں۔
یہاں مجھے پاکستان سے سائنس کے ایک استاد ایم سلیم کی یاد آگئی۔پندرہ سولہ سال قبل ان کی ایک چھوٹی سی کتاب پڑھی تھی۔’’پُر اسرارکائنات کا معمہ‘‘۔اس میں کاسمالوجیکل حوالے سے بڑی زبردست معلومات درج کی گئی تھی۔لیکن میرے مطلب کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں خلا کی بعض صفات اور خدا کی صفات کا ذکر کیا گیا تھا۔میں نے خدا کو سمجھنے میں اس موازنہ سے زبردست استفادہ کیا۔پہلی سطح پر یہ موازنہ خدا کے بارے میں ہمارے معین تصورات پر کاری ضرب لگاتاہے۔لیکن میں نے (لا الہٰ۔۔) نفی کے اس مرحلہ سے گزر کر خدا کے بارے میں ایک برتر تصور (لا الہ الااللہ )تک رسائی حاصل کی۔نفی کا مرحلہ بجائے خود ایک دلچسپ سفر تھا۔خدا کی جتنی صفات ہیں انہیں ہم دو بڑے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ایک خانے میں وہ صفات آتی ہیں جو انسان میں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں اور خدا میں بہت بڑی سطح پر ان صفات کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔جیسے ربوبیت،رحیمیت،رحمانیت،قہاریت،جباریت وغیرہا۔ ان صفات کے علاوہ ایسی جتنی بھی صفات ہیں جو انسان میں تو نہیں پائی جاتیں لیکن وہ ساری صفات خدا کے ساتھ خلا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ایم سلیم نے مجھے ان صفات کا موازنہ کرکے ایک نئے فکری جہان کی سیر کرادی تھی۔چند مثالیں یہاں بھی درج کر دیتا ہوں۔
۱۔خدا سب سے بڑا ہے۔اس کی بڑائی کی کوئی حد نہیں ہے۔خلا بھی ساری کائنات سے بڑا ہے۔جہاں تک مادی کائنات ہے،خلا موجود ہے اور اس سے سوا بھی خلا ہی خلا ہے۔
۲۔خدا واحد ہے۔خلا بھی پوری کائنات میں ایک ہی ہے۔
۳۔خدا کسی سے پیدا نہیں ہوا۔خلا بھی کسی سے پیدا نہیں ہوا۔
۴۔خدا بے نیاز ہے۔اور بے نیاز کی تعریف یہ ہے کہ اسے کسی کی کوئی ضرورت نہ ہو لیکن سب کو اس کی ضرورت ہو۔اس مادی کائنات کو اپنے وجود کے قیام کے لئے خلا کی اشد ضرورت ہے۔لیکن خلا کو کسی کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ پرواہ۔
۵۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ خلا بھی ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ۔
لیکن شاید اتنا کہہ دینے سے بات واضح نہیں ہو گی اس لئے اس سائنسی نکتے کی آسان لفظوں میں وضاحت کردینا ضروری ہے۔ ڈاکٹروزیر آغا سے زبانی طور پر بھی اور ان کی خود نوشت سوانح کے ذریعے بھی اتنا تو جان چکا ہوں کہ اگر کروڑوں نوری سال سے بھی زیادہ مسافت پر پھیلی ہوئی ساری مادی کائنات میں سے خلا کو نکال دیا جائے تو سارامادہ ایک گیند کے برابر یا اس سے بھی کم چمچ بھر رہ جائے گا۔بعض سائنس دانوں کے نزدیک اسے Compress کیا جائے تویہ اس سے بھی کم ہوکر سوئی کی نوک پر سما جائے گا ۔اگر کوئی اینٹی میٹر اس سے ٹکرا جائے تو یہ مادہ بھی گاما ریز میں تبدیل ہو کر غائب ہوجائے گا اور باقی صرف خلا رہ جائے گا۔اور خدا کی بجائے خلا کے لفظ سے بھی غالبؔ کا یہ شعر اپنے مفہوم میں غلط نہیں رہے گا۔
نہ تھا کچھ، تو خلا تھا، کچھ نہ ہوتا، تو خلا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا!
شہ رگ سے قریب ہونے والی بات کی وضاحت رہی جا رہی ہے۔اسے بھی آسان لفظوں میں بیان کرنا ضروری ہے۔ایٹم کے اندر جو پارٹیکلز ہیں ان کے درمیان بھی خلا ہے۔پروٹون اور الیکٹرون کے درمیان خلا کو سمجھنے کے لئے یہ جان لیں کہ اگر پروٹون کا سائز ایک فٹ بال جتنا تصور کر لیا جائے تو اس سے الیکٹرون تقریباََ دو میل کی دوری پر ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے وجود کے ہر ذرے میں خلا کس حد تک سرایت کئے ہوئے ہے اور اسی مناسبت سے وہ واضح طور پر ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔
سو یوں ایک سطح پر فکری طورپر میرا مسئلہ یہ بنا کہ خدا کو اس کی صفات کے ذریعے جانا جائے تو انسانی صفات اور خلا کی صفات جیسی مشترکہ صفات کو چھوڑ کر کوئی ایسی صفت بھی ہونی چاہئے جو صرف خدا ہی کا امتیاز ہو۔اور وہ صفت کونسی ہے؟۔۔۔میری زندگی کا بیشتر عرصہ ایک شوگر مل میں مزدوری کرتے گزرا ہے۔وہاں لیبارٹری میں گرمیوں کے دنوں میں بہت ہی چھوٹے چھوٹے روشنی کے کیڑے آجاتے تھے(ان کیڑوں کے کچھ احوال کے لئے میرا ایک پرانا افسانہ’’پتھر ہوتے وجود کا دُکھ‘‘ پڑھئے)۔ان میں سے کوئی کیڑا اگر پوری شوگر مل کی حقیقت جا ننا چاہے تو یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔انسان کی حقیقت خدا کے سامنے کیڑے اور شوگر مل کی مناسبت جیسی بھی نہیں ہے۔لیکن پھر بھی انسان میں اپنے خالق و مالک کو جاننے کی جستجو تو ہے۔
حضرت علیؓ کا ایک فرمان اس جستجو میں میری رہنمائی کر گیا۔کمال التوحید نفی عن الصفات۔۔۔توحید کی حقیقت اور کمال تب ظہور فرماتا ہے جب صفات کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ صفات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔اور اس حقیقتِ عظمیٰ کے سامنے صفاتی نام بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔پھر ایک حدیث شریف میں مذکور ایک دعا کے ذریعے بھی خدا کو جاننے کی جستجو کو تسکین سی ملی۔مسلم شریف کی اس دعا کا متعلقہ حصہ یہاں تبرکاََ درج کر دیتا ہوں۔اللھم ۔۔۔اسئا لک بکل اسمِِ ھو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک اواستاء ثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی اے اللہ !۔۔۔میں سوال کرتا ہوں تیرے اس نام کے ساتھ جو تونے اپنے لیے پسند کیا،یا اپنی کتاب میں تونے اتارا ہے،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے،یا اپنے علم غیب میں تو نے اسے اختیار کر رکھا ہے،اس بات کا کہ تو کر دے قرآن مجید کو میرے دل کی فرحت و خوشی۔
گویا خدا کا کوئی ایک ایسا نام ابھی ہے جو بڑی بڑی صاحبِ عرفان ہستیوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔یہ دعا کا اقتباس ہے،پوری دعا میری روز کے معمول کا حصہ ہے اور شاید اسی دعا کی برکت ہے کہ جرمنی جیسے ملک میں رہتے ہوئے اب تک میرے دو نواسوں اور ایک پوتے نے قرآن شریف ختم کر لیا ہے۔بڑے نواسے رومی نے تین سال پہلے سات سال کی عمر میں،دوسرے نواسے جگنو نے اِسی برس(۲۰۰۶ء میں) ساڑھے سات برس کی عمر میں اور بڑے پوتے شہری نے بھی اِسی برس ساڑھے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا ہے۔رومی اور جگنو کی قرأت کا تو مجھے علم تھا کہ بہت عمدہ ہے۔تاہم اپنے پوتے کے بارے میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا تلفظ اور لہجہ بھی اتنا عمدہ ہے۔اب ۲۴ جون (۲۰۰۶ء)کو جب اس کی آمین کی تقریب میں اس سے قرآن شریف سنا تو میں حیران رہ گیا،حقیقتاََ میرے پوتے نے اپنی قرأت سے میرا دل خوش کر دیا۔میری عربی ریڈنگ پنجابی لہجے والی ہے،میرے مقابلہ میں تینوں بچوں کی قرأت سن کر جی خوش ہوتا ہے۔خدا میری بڑی بیٹی اور بڑی بہو کو اجرِ عظیم عطا کرے کہ ان کی توجہ کے بغیر بچے گھر پر رہ کر اتنا پڑھ ہی نہیں سکتے تھے ۔اور باقیوں کو بھی خدا توفیق دے کہ وہ بھی اپنے بچوں کو اسی طرح قرآن شریف پڑھنا سکھا دیں۔آمین
میں نے مسلم شریف والی مذکورہ دعا کواپنے روزانہ معمول کا حصہ بتایا ہے۔دعاؤں کے بارے میں’’ دعائیں اور قسمت‘‘باب میں کچھ ذکر کرچکا ہوں۔اس دوران معمولات میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی آجاتی ہے۔گھر پر فجر کی نماز کے بعد والی دعائیں بدستور جاری ہیں۔پھر گھر سے نکل کر جاب پر جانے تک دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔رمضان شریف کے مہینہ میں ایسا کرتا ہوں کہ چھوٹے سائز کا قرآن شریف جاب پر ساتھ لے جاتا ہوں۔دعاؤں کا سلسلہ مکمل کرنے کے بعد دورانِ سفر قرآن شریف پڑھتا رہتا ہوں۔رمضان شریف کے مہینہ میں یہ عادت سی بن جاتی ہے چنانچہ میں نے رمضان شریف کے بعد بھی قرآن شریف ساتھ لے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔لیکن پھر مجھے ایک دو جھٹکے لگے۔ٹرین کے انتظار میں کھڑا ہوں۔کوئی پاکستانی واقف دوست مل گئے۔رسمی سی خیر خیریت کی باتیں ہوتی ہیں۔اور مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ سچائی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام زندگی میں دن بھر میں کتنے ہی جھوٹ بول جاتے ہیں۔بے ضرر سے سہی لیکن جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے۔دوست مجھ سے کل کا پروگرام پوچھتا ہے اور میں اس سے جان چھڑانے کے لئے ڈیوٹی کا وقت غلط بتادیتا ہوں۔ اس قسم کے کئی جھوٹ جو ہم دن میں بلا تکلف بول جاتے ہیں۔مجھے لگا کہ قرآن شریف کو ساتھ رکھ کرمعمول کی زندگی بسر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔بولتے ہوئے بار بار اٹکنا پڑتا ہے اور پھر رُک جانا پڑتا ہے۔نہ رُکیں تو قرآن اُٹھا کر جھوٹ بولنے والی بات ہو جائے۔اب میرے سامنے دو رستے تھے،یا تو میں ہمیشہ قرآن شریف ساتھ رکھا کروں اور اس طرح بے ضرر قسم کے جھوٹ بولنے سے بھی بچنے کی عادت کو مستحکم کر لوں۔یا پھر قرآن شریف کو صرف گھر پر ہی پڑھا کروں اور بلا وجہ قرآن اٹھا کر جھوٹ بولنے کا مجرم نہ بن جاؤں۔اور صاحب! سچی بات ہے میں نے دوسری صورت اختیار کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔
دعاؤں کا ورد تو اب بھی جاری ہے لیکن غضِ بصر والی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔ٹرین میں بیٹھے ہوئے وِرد از خود جاری رہتا ہے۔ذہن کسی اور طرف ہو تب بھی وِرد عموماََ کسی روک کے بغیر جاری رہتا ہے۔لیکن بعض اوقات سوئی اٹکنے بھی لگتی ہے۔میں دعا پڑھ رہا ہوں: اللھم طھر قلبی من النفاق و عملی من الریآءِ و لسانی من الکذب و عینی من الخیانتہ ۔۔۔۔(اے اللہ میرے دل کو نفاق سے پاک و صاف کر دے اور میرے ہر عمل کو ریا سے اور زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔۔۔)دعا ابھی یہاں تک پہنچتی ہے اور نظر باہر اسٹیشن پر لگے ہوئے ایک بڑے اشتہاری بورڈ پر جا پڑتی ہے۔آٹھ دس خواتین مکمل برہنگی کی حالت میں کھڑی مسکرا رہی ہیں۔اگرچہ اشتہاری کمپنی نے اشتہار کو بے حیائی سے بچانے کے لئے ان خواتین پر دو بڑی پٹیاں کھینچ دی ہیں جن سے ان کی زینت کے مقامات کی کسی ھد تک پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔لیکن عینی من الخیانتہ پڑھتے ہوئے ہی وہ منظر سامنے آجائے توکمزور انسان کیا کرے؟
اگلے اسٹیشن تک دعا پڑھ رہا ہوں رب تقبل توبتی واغسل حوبتی و اَجب دعوتی۔۔اور سامنے بورڈپر ایک مکمل برہنہ مرد کسی سنسر شپ کی پٹی کے بغیر نیم دراز ہے۔البتہ فوٹو گرافی کا کمال یہ ہے کہ اس کا ستر بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ لیکن میری دعا واغسل حو بتی پراٹکتی ہے، میں کراہت کے ساتھ کسی تھوک کے بغیر تھوک نگلنے جیسی کیفیت سے گزرتا ہوں اور باقی دعا مکمل کرنے لگتا ہوں۔سید الاستغفار کے ان الفاظ پر پہنچتا ہوں انا علیٰ عھدک و وعدک مااستطعت۔۔۔۔سامنے کوئی خوبصورت خاتون بورڈ پر توبہ شکن حالت میں بیٹھی دکھائی دیتی ہیں ۔ بدن پرایک گرہ کپڑا بھی نہیں ہے۔لیکن فوٹو گرافر کا کمال یہ ہے کہ بازو کے ایک زاویے سے سینے کی پوری ستر پوشی کر دی ہے اور ٹانگ کے ایک زاویے سے زینت کی بھی ستر پوشی ہو گئی ہے۔لیکن ایسی تصاویراپنی تاثیر کے لحاظ سے بالکل گندی تصویر سے زیادہ ’’ہدف بہ تیر‘‘ثابت ہوتی ہیں۔اورمیں بار بار یہی الفاظ وِرد کئے جاتا ہوں۔انا علیٰ عھدک و وعدک ماا ستطعت ۔۔۔۔۔۔۔ ما ا ستطعت ۔۔ ۔ ۔ ۔ مااستطعت ۔۔۔۔ ۔۔۔ مااستطعت ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ استطاعت سے زیادہ کچھ کیابھی تو نہیں جا سکتا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے ان مولوی صاحب کا لطیفہ یاد آگیا ہے جو جمعہ کے خطبہ میں اس کرب کا اظہار کر رہے تھے کہ معاشرے میں بے حیائی اور عریانی بہت زیادہ پھیل رہی ہے اور پھر بطور ثبوت انہوں نے جزئیات میں جانا شروع کیا تو ایک نمازی نے کھڑے ہو کر التجا کی جناب !آپ نے جمعہ کی جماعت کھڑی کرانی ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں کسی ابتلا میں ڈالنا ہے؟
سو مجھے بھی ایسا کچھ نہیں کرنا ،اپنے ابتلا سے خود ہی گزرنا ہے۔
جو کچھ زمیں دکھائے سو ناچار دیکھنا
اب ہماری اگلی نسلیں اس مغربی ماحول میں کس حد تک خود کو بچا سکیں گی؟یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں بزرگوں کے شوق ہی پورے نہیں ہو رہے۔پچاس سال سے ساٹھ سال تک کی عمر کے کئی پاکستانی جوڑے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔کہیں خواتین کو معاشی تحفظ ملا ہے تو انہوں نے خاوندوں کو چھوڑ دیا ہے اور کہیں مردوں کو کوئی نئی چمک دکھائی دی ہے تو انہوں نے عمر بھر کے ساتھ کو توڑ کر رکھ دیاہے۔وفا کے کئی ایسے بھرم ٹوٹے ہیں جو مشرقی ماحول میں مجبوریوں کے باعث بنے ہوئے تھے۔یورپ میں جہاں یہ احساس ہوا کہ ہمیں معاشی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور معاشرتی طور پر بھی کوئی دباؤ نہیں رہے گا تو مشرقی روایات کے سارے بھرم ٹوٹ کر بکھرگئے۔لیکن صرف مغرب میں مقیم ہم لوگوں کا ہی ذکر کیوں؟اب تو پاکستان بھی انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کی برکت سے، حرکات کے لحاظ سے لگ بھگ آدھا یورپ بن چکا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جو کچھ ریلوے اسٹیشنوں اور بس اڈوں پر سرِ عام دکھائی دیتا ہے وہاں وہ سب کچھ اور اس سے سوا بھی بہت کچھ، انٹرنیٹ پراور ٹی وی چینلز پر دستیاب ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس پر کثرت سے جانے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔میڈیائی یلغار اور مغربی تہذیب کی چکا چوند کے ساتھ قناعت کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گیا ہے۔لیکن اس کی ایک اور وجہ بھی ہے،پاکستان میں ایک طرف لوٹ مار کرنے والے مقتدر طبقے ہیں تو دوسری طرف غربت اور بھوک کی ماری ہوئی رعایا ہے جو قناعت کا درس بھول گئی ہے۔عوام کو معلوم ہو گیا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے انہیں قناعت کا درس دینے والے اور دلانے والے ملی بھگت کے ساتھ ان کا استحصال کر رہے ہیں۔درس دلانے والے لکھ پتی سے کروڑپتی اور اب ارب پتی بنتے جا رہے ہیں۔ قناعت کا درس دینے والے بھی لکھ پتی سے بڑھ کر کروڑ پتی ہو گئے پھر بھی بھوکے ننگے عوام کو ہی درس دیا جارہاہے کہ قناعت سے کام لیں اور وطن کے لئے مزید قربانیاں دیں۔عوام اس فریب سے آشنا ہو گئے ہیں اسی لئے اخلاقی مسائل کے ساتھ افراتفری کا سماں بڑھتا جا رہا ہے۔
اس وقت دنیا کو مذہبی انتہا پسندی سے شدید خطرات لا حق ہیں۔کسی ایک مذہب یا مسلک کو قصوروار کہے بغیر میرے نزدیک ہر مسلک اور مذہب کے انتہا پسند انسانیت کے لئے شدیدخطرہ ہیں۔میرے ذاتی خیال کے مطابق ہر مسلک اور مذہب کے پاس کچھ ایسی بنیادیں ہوتی ہیں جن پر وہ باقاعدہ قائم اور استوار ہوتا ہے۔اسی لئے اس کے پیروکاروں کے لئے اس پر کاربند رہنے کا کچھ جواز بنتا ہے۔اسی طرح ہر مذہب اور مسلک میں کچھ ایسے کمزور پہلو بھی ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ان پرمدلل اعتراض وارد ہوتے ہیں۔بس جہاں ایسے اعتراضات میں شدت آتی ہے وہیں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنے مخالف کے کمزور پہلوؤں پر حملہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔یوں مذہبی نفرتیں بڑھتی ہیں۔عمومی طور پر ہمارے تہذیبی اور ثقافتی میلان کے ساتھ ہمارا نفسیاتی میلان ہمیں کسی مسلک پر کاربند رکھتا ہے۔یا پھر بھیڑ چال کا نسل در نسل رویہ بھی ہمیں ہانکتا ہے۔یوں کوئی انتہائی جذباتی اور مشتعل قسم کا سچا مومن اگر کسی مسیحی،یہودی،ہندو یا سکھ گھرانے میں پیدا ہوتا تو وہاں بھی وہ اتنا ہی مخلص،سچا،کھرا،جذباتی اور مشتعل قسم کا مسیحی،یہودی،ہندو یا سکھ ہوتا۔
میں ہر مذہب کے اس قسم کے مومنین کا احترام بھی کرتا ہوں اور ان سے ڈرتا بھی ہوں اور ہر سال اکبر حمیدی کے الفاظ میں دعا کرتا ہوں:
یا رب العالمین!  ترے  لطف  سے    رہیں
محفوظ ’’مومنین ‘‘ سے ’’کفار‘‘ اس برس
مجھے مذہب اور سائنس کے اس پہلو سے دلچسپی ہے جہاں سائنس آزادانہ طور پرکائنات اور اس کے بھیدوں کی نقاب کشائی کا کوئی مرحلہ سرکرتی ہے اور لا الہ ۔۔کا منظر دکھاتی ہے اور وہیں کہیں آس پاس سے مذہب کی بخشی ہوئی کوئی روحانی کیفیت یا کوئی مابعد الطبیعاتی لہر مجھے اس نفی میں سے اثبات کا جلوہ دکھاتی ہے اور الا اللہ کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔اور یہ سارا سائنسی اور مابعد الطبیعاتی آہنگ میری ادبی جمالیات میں میری ادبی استطاعت کے مطابق اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے۔کمپیوٹر کے چِپ کی کارکردگی منکر نکیر اور یومِ حساب پر ایمان پختہ کرتی ہے تو کلوننگ کا تجربہ حیات بعد الموت کا سائنسی ثبوت دے کر اس عقیدہ پر مجھے مزید راسخ کرتا ہے۔خلا کو نکال دینے سے ساری کائنات کا مادہ سوئی کی نوک پر سما جانے ،اور پھر کسی اینٹی میٹر کے اس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اس کے بھی غائب ہوجانے کا سائنسی دعویٰ مجھے اس قیامت پر پکا یقین دلاتا ہے جس میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف خدا کی ہستی باقی رہے گی۔ میر ا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جارہی ہے،مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔اور بس۔۔۔بات اپنے نام کے حصے بخروں کی داستان سے شروع ہوئی تھی اور اس کے نام پر تمام ہو رہی ہے جو اس ساری بھید بھری کائنات کا مالک و خالق ہے۔ ؂
سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں
رہے نام اللہ کا!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen