Freitag, 15. Juli 2011

بزمِ جاں

بزمِ جاں




’’میری محبتیں ‘‘کی اشاعت سے پہلے ہی مجھے احساس تھا کہ اس میں شامل بعض شخصیات ایسی تھیں کہ ان پر مزید لکھا جانا چاہئے تھا۔بعض لوگ جن کا بیچ بیچ میں کہیں برسبیلِ تذکرہ نام آگیا ہے‘ان کی زندگی کے بعض خوبصورت انسانی رُخ بھی سامنے آنے چاہئیں تھے۔بہت سارے عزیز اور احباب ایسے ہیں جن کا پورا خاکہ نہیں لکھا جا سکتالیکن ان کے ذکر کے بغیر میری زندگی کی رُوداد بھی ادھوری رہے گی اور میری محبتیں بھی۔۔۔۔۔مزید خاکہ نگاری تو جب بھی ہوئی اپنے وقت پرہو گی۔ فی الوقت میں اپنی زندگی۔۔۔گزاری ہوئی زندگی کی طرف تو پلٹ کر دیکھ سکتا ہوں۔اپنے بہت سارے پیاروں‘رشتہ داروں‘دوستوں اور’’کرم فرماؤں‘‘سے تجدیدِ ملاقات تو کرسکتا ہوں۔سو بکھری ہوئی یادوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
جرمنی پہنچنے کے بعد بچپن میں امّی جی سے سنی ہوئی کئی کہانیاں یاد آئیں۔مبارکہ جس کی سادگی کا میں پاکستان میں مذاق اڑایا کرتا تھا‘جرمنی میں اب اس کے سامنے میں ایک پاکستانی’’پینڈو‘‘تھا۔مبارکہ بچوں سمیت مجھ سے اڑھائی سال پہلے جرمنی میںآچکی تھی اس لئے یہ ملک اس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا جبکہ میں ’’کثرتِ نظّارہ‘‘سے ایسے رُک رُک جاتا تھا جیسے شہر کے چوراہے پر ’’گواچی گاں‘‘کھڑی ہوتی ہے۔پہلی بار ایک مارکیٹ میں داخل ہونا تھا۔میں دروازے کے قریب پہنچا تو آٹو میٹک دروازہ اپنے آپ کھل گیااورمیرا منہ حیرت سے کھل گیا۔امی جی سے سنی ہوئی ’’ علی بابا اور چالیس چور‘‘والی کہانی یاد آگئی ۔اُس کہانی میں ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے سے دروازہ کھلتا تھا۔یہاں تو مجھے ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔زمین دوز ریلوے اسٹیشنوں میں‘مارکیٹوں میں‘اُوپر نیچے آنے جانے کے لئے خودکا رسیڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔میں نے پہلی بار جھجھک کے ساتھ بجلی کی سیڑھی پر قدم رکھا‘ہلکا سا چکر آیا۔میں نے لحظہ بھر کے لئے آنکھیں موندلیں‘جیسے ہی آنکھیں کھولیں‘اُوپر کی منزل پر پہنچ چکا تھا۔کسی اناڑی کی طرح سیڑھی کی حد سے باہر آیاتو امی جی کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں یاد آنے لگیں۔کہیں کوئی نیک دل دیو ہے‘کہیں سبز پری اورکہیں کوئی درویش ہے جو مہم جُو شہزادے کو کسی لمبی مسافت کی کوفت سے بچانے کے لئے‘اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے آنکھیں مُوندنے کے لئے کہتے ہیں‘پھر جب شہزادہ آنکھیں کھولتا ہے تو منزلِ مقصود پر پہنچا ہوتا ہے۔میں اُوپری منزل پر پہنچا تو میرے ساتھ نہ کوئی نیک دل دیوتھا‘نہ کوئی درویش اور نہ ہی کوئی سبز پری۔۔۔۔صرف مبارکہ میرے ساتھ تھی ۔اس نے اگر سبز سوٹ پہنا بھی ہوا تھا تو وہ اس کے برقعہ کے کوٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔اس کے باوجود میں نے مبارکہ کو من ہی من میں سبز پری سمجھا اور خود کو شہزادہ گلفام سمجھ کر خوش ہو لیا۔
یہاں کے گھروں میں کھڑکیوں کا شیشہ ایسا ہے کہ آپ اندر بیٹھے ہوئے باہر کی ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ باہر کھڑا ہوا کوئی آدمی آپ کو بالکل نہیں دیکھ سکتا۔جب مجھے پہلے پہل اس کا علم ہوا دھیان فوراََ سلیمانی ٹوپی والی کہانی کی طرف چلا گیا۔مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں امی جی کی سُنائی ہوئی ڈھیر ساری کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار بن گیا ہوں۔ساری کہانیاں جیسے اپنے آپ کو میرے وجود میں دُہرانے لگی ہیں۔کاش!امی جی زندہ ہوتیں اور میں انہیں اُن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حقیقی رُوپ دکھا سکتا۔اب تو وہ خود ہی کہانی بن گئی ہیں۔
اپنے ہاں تو غالبؔ اُس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہوتا ہے۔اِدھر مغرب میں اُس تین گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ایک طرف ایسا توبہ شکن منظر ہوتا ہے‘ دوسری طرف برقعہ میں لپٹی لپٹائی مبارکہ بیگم۔۔۔۔۔میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے‘پردہ کا مطلب خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہاں جرمنی میں اس قسم کا برقعہ تو پردے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہر کسی کو متجسّس کردیتا ہے کہ یہ کیا شے جا رہی ہے؟میں نے دو تین دفعہ اسے تجربہ کرایا کہ عام آنے جانے والی گوریوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن مبارکہ کے بھاری بھر کم پردے کی وجہ سے ہر گزرنے والا ہمیں تعجب سے دیکھتا ہے اور ضرور دیکھتا ہے۔یوں مبارکہ کی بے پردگی ہو نہ ہومیری اچھی خاصی بے پردگی ہو جاتی ہے۔لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔
ایبٹ آباد میں قیام کے دوران طاہر احمد کے بعد ایک اور صاحب سے میری گہری دوستی تھی۔یہ سرگودھا کے مسعود انور تھے۔ڈاکٹر انور سدید کے صاحبزادے۔۔۔۔ان کے ساتھ انور سدید صاحب والی نسبت سے تو دوستی تھی ہی‘لیکن ہماری ایک حد تک ہم عمری بھی اس کے استحکام کا باعث بنی۔ادب اور سیاست کی تازہ صورتحال پر ہم کھل کر گفتگو کرتے تھے۔موسیقی سے مسعود انور کو خاصا لگاؤ تھا۔انہوں نے آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کا نایاب ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔کسی لائبریری کی کتابوں کی طرح انہیں ترتیب سے رکھا تھا۔امید ہے ابھی تک اُن کا شوق سلامت ہوگا۔اُن دنوں وہ ذاتی طور پر ویڈیو کیسٹس میں ادیبوں کے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔خدا جانے وہ منصوبہ کہاں تک پہنچا۔ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تھی کہ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑالیتے تھے لیکن ایک دن مسعود نے ایک بات اتنی سنجیدگی اور عقیدت سے کہی کہ ہمیں بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔
انہیں کسی زمانے میں سوتے وقت سینے پر بوجھ اور گھبراہٹ کی شکایت ہوجاتی تھی۔معدے کی خرابی ‘سینے کی جلن اور دیگر امکانی بیماریوں کے سارے علاج کرالئے ‘کوئی افاقہ نہیں ہوا۔اس دوران ان کی ایک پِیر سائیں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مسعود کو ہدایت کی کہ گھر کے کمروں کی دیواروں سے ساری تصویریں اتار دیں کیونکہ تصویروں کی اصل رُوحیں رات کو آپ کے سینے پر چلتی ہیں۔مسعود نے ایسا ہی کیا اور حیرت انگیز طور پر صحت یا ب ہو گئے۔ہو سکتا ہے یہ پِیر سائیں کا فیضانِ نظر ہو اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی اثرہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال اچھا رہا۔تب مجھے بھی اُن پِیر سائیں سے ملنے کی خواہش ہوئی‘ لیکن رابطہ ہونے سے پہلے مجھے وطنِ عزیز کو خیر باد کہنا پڑ گیا ۔۔۔۔۔اس قصہ کو سننے کے بعد ایک دن میں اور طاہر شاپنگ کرنے گئے۔وہاں طاہر بڑے شوق سے ریکھا‘سری دیوی ‘ مادھوری اور دوسری مقبول فلمی اداکاراؤں کے پوسٹرز کی قیمتیں معلوم کرنے لگا۔میں نے حیرانی سے اس کا سبب پوچھا‘کیونکہ طاہر کو فلمیریا کی کوئی شکایت نہیں تھی۔سنجیدگی سے کہنے لگا میں چاہتا ہوں راتوں کو ان سب کی رُوحیں میرے سینے پر چلتی رہیں کیونکہ رُوح کا ملن ‘جسم کے ملن سے زیادہ اہم ہے۔اس لئے ان کے پوسٹرز اپنے کمرے میں لگاؤں گا۔
ایبٹ آباد میں ہمارے کالج کے بعض اساتذہ’’مریضانِ محبت‘‘بنے ہوئے تھے۔ایک دفعہ یونہی اُوٹ پٹانگ باتیں ہورہی تھیں۔میں نے ان سے کہا کہ خواہش کی شدت خواب کا رُوپ دھارلیتی ہے۔اگر کبھی کسی کو خواب میں اپنی کوئی پسندیدہ شخصیت کسی من پسند حالت میں دکھائی دے تو بیدار ہونے پر بستر کی پائینتی کی طرف سر کر کے سو جائیں۔اُسی رات آپکی وہ پسندیدہ شخصیت اپنی نیند میں وہی خواب عین اُسی حالت میں دیکھ لے گی۔’’مریضانِ محبت‘‘نے اس فارمولے پر تھوڑی سی بے یقینی اور زیادہ خوشی اور حیرت کا اظہار کیا۔اگلے دن دو نوجوان اساتذہ ڈیوٹی پر آئے تو اُن کی آنکھیں سُرخ اور طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی۔ملتے ہی کہنے لگے یار قریشی صاحب! ہم تو ساری رات پائینتیاں ہی بدلتے رہے ہیں۔
خواب کی اس مزاحیہ بات سے اپنی زندگی کے دو واقعات یاد آگئے۔سنجیدہ اور حیران کُن۔۔۔خانپور میں شوگر ملز کی ملازمت کے دوران ایک دفعہ میری شام ۶بجے سے رات ۲ بجے تک والی شفٹ تھی۔گھر سے چلا تو ہلکے سے ٹمپریچر کا احساس ہو رہا تھا‘فیکٹری پہنچنے تک بخار ہو گیا۔میں نے ساتھیوں کو اپنا کام سونپا اور خود لیبارٹری کے ڈارک رُوم میں جاکرلیٹ گیا۔فرش پر فلٹر کلاتھ کا ایک ٹکڑا بچھا ہوا تھا‘ایک اینٹ کا تکیہ بنا لیا لیکن اُوپر لینے کے لئے کوئی کپڑا نہیں تھا۔بخار کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔میں اپنے آپ میں سمٹ کر ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔اسی دوران بخار کی غنودگی کی حالت میں ایسے لگا جیسے کسی نے آکر گرم رضائی میرے اُوپر ڈال دی ہو۔کسی کے آنے‘اپنے اُوپر رضائی ڈالے جانے اور پھر اس رضائی کو اپنے دائیں ‘بائیں اچھی طرح لپیٹنے کا عمل مجھے صاف صاف محسوس ہوا تھا۔پھر مجھے گہری نیند آگئی۔رضائی کی گرمائش سے کھل کر پسینہ آیا ۔
چھٹی کے پہلے سائرن کے ساتھ میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا بخار اُتر چکا ہے۔میں نے رضائی کو اپنے اُوپر سے ہٹاکر اُٹھنا چاہا۔لیکن میرے اُوپر تو کوئی رضائی نہیں تھی۔پھر یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا ایسے واقعات کو کسی کے آگے بیان نہیں کرنا چاہئے ورنہ انسان ایسے تجربات کی لذّت سے محروم کردیا جاتا ہے۔(ابا جی کی وفات کے بعد ابا جی کے تعلق سے ایک تجربے کے بعد مجھے باباجی نے بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔لیکن شاید مجھ میں اخفاء کی برداشت کی قوت نہیں ہے) ۔
لگ بھگ بیس سال کے بعد یہاں جرمنی میں پھر ایک انوکھا واقعہ ہوا۔مجھے انفیکشن کی شکایت تھی۔ایک ہفتہ گزر گیا لیکن سستی کے مارے اپنے فیملی ڈاکٹر Herr Ehrhardt کے پاس نہیں جا سکا۔جب گلا بالکل بیٹھ گیا تب ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ڈاکٹر پہلے تو اس بات پر ناراض ہوا کہ میں اتنی دیر کرکے کیوں آیا ہوں جب حالت اتنی بگڑ گئی ہے۔اب اسے کیا بتاتا کہ یہی تو ہمارے پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے۔جب تک پانی ہمارے گلے تک نہ آجائے ہمیں بے فکری رہتی ہے۔بہرحال ڈاکٹر نے صبح‘دوپہر‘شام تینوں وقت بلا ناغہ سات دن تک کھانے کے لئے گولیاں دیں اور سخت تاکید کی کہ سات دنوں میں ایک وقت کا بھی ناغہ نہیں کرنا۔لیکن ہوا یوں کہ اسی دن میرے ماموں زاد مبشر اور ان کی بیگم ہمیں لینے کے لئے آگئے۔وہ ہمبرگ سائڈ کو چھوڑ کر ہمارے قریب ایک شہر لمبرگ میں نئے نئے آئے تھے۔ان کے مکان کی سیٹنگ کرنی تھی۔اسی کام کے لئے غزالہ اور اجمل بھی آگئے تھے۔میں صبح کی گولی کھا چکا تھا۔دوپہر کی گولی بھی کھا لی۔کام نمٹانے کے بعد غزالہ اور اجمل اپنے گھر چلے گئے۔مبارکہ اور میں وہیں رہ پڑے۔دن بھر کی تھکن کے باعث مجھے سخت نیند آرہی تھی۔اسی حالت میں بار بار یہ احساس ستا رہا تھا کہ پہلے ہی دن گولی کا ناغہ نہ ہو جائے اسے کھا کر ہی سونا چاہئے۔لیکن تھکن اتنی زیادہ تھی کہ میں سوچتا ہی رہ گیا اور نیند نے مجھ پر غلبہ پا لیا۔پھر میں نے نیند میں ہی محسوس کیا کہ وہی انفیکشن کے علاج والی ایک موٹی سی گولی کسی نے میرے منہ میں ڈال دی ہے ۔میں پانی کے بغیر اسے نگلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور بالآخر نگل گیا ہوں۔
صبح بیدار ہوا تو ایسے لگتا تھا میرے ساتھ کوئی پُر اَسرار واقعہ ہو گیا ہے۔مجھے یقین تھا کہ میری گولیوں کے پیکٹ میں سے لازماََ ایک گولی کم ہو چکی ہوگی۔میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ گولیوں کو چیک کیا‘گولیاں جُوں کی تُوں موجود تھیں‘ان میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی۔لیکن یکایک مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر نے جس بیٹھے ہوئے گلے کے ٹھیک ہونے کے لئے سات دن کی دوا دی تھی اور ایک وقت کا ناغہ بھی نہ کرنے کی تاکید کی تھی‘وہ گلا بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔تب میں نے خوشی کے مارے مبارکہ کو زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔جب وہ آئی تو اسے رات کے خواب جیسے تجربے سے آگاہ کیا۔جب سارا قصہ سنا چکا تب مجھے ابا جی کی نصیحت یاد آئی لیکن تِیر تو کمان سے نکل چکا تھا اور پھر مجھے ابا جی بہت یاد آئے۔ہوسکتا ہے خواہش کی شدت خواب میں کسی نفسیاتی طریقے سے علاج بھی کر دیتی ہو۔ایسا ہے تو تب بھی یہ ایک سائنسی بھید ہے ۔ ویسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کیا بھید ہے لیکن ان دو تجربات سے یہ فائدہ ہوا کہ مجھے اپنی کہانی’’بھید‘‘لکھنے کی تحریک ہوئی۔
میرا چھوٹا بھائی اکبر کراچی میں سیٹ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔وہیں ماموں کوثر پہلے سے سیٹ تھے۔ان کا بیٹا شکور باجوہ‘اکبرکا ہم عمر تھااور دوست بھی۔سانگلہ ہل میں مقیم میری ماموں زادآپا حلیمہ کا بڑا بیٹا محمود‘رشتے میں ہمارا بھانجہ ہے۔اکبر اور شکور کے ایج گروپ میں ہونے کے باعث ان کا بھانجہ کم اور دوست زیادہ تھا۔اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے عمروں کے واضح فرق کے باوجود میرے ساتھ بھی بے تکلفی کر جاتا تھا۔محمود تلاش معاش کے سلسلے میں کراچی پہنچا تو تین خوش مزاج نوجوانوں کی مثلث بن گئی۔جہاں یہ تینوں پہنچتے‘شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا۔شکور کی گپ بازی‘اکبر کا پُر لطف طنز اور محمود کی جُگت بازی‘ ۔۔یوں سمجھیں معین اختر‘عمر شریف اور امان اﷲ خان تینوں کامیڈین ایک ساتھ آگئے ہیں۔تینوں مل کر اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتے ۔ایک دوسرے سے بھی ہاتھ کرلیتے تھے۔اکبر گھر پر نہیں تھا۔محمود نے آکر اکبر کی بیوی زاہدہ سے کہا کہ ماموں حیدر کے دوست اظہر ادیب خانپور سے آئے ہیں۔اکبر سے ملنا چاہتے ہیں۔زاہدہ نے کہا اکبر تو دیر سے آئیں گے۔تم انہیں بیٹھک میں بٹھاؤ ‘میں کھانے پینے کو کچھ بھجواتی ہوں۔محمود خود ہی اظہر ادیب بن کر بیٹھک میں بیٹھ گیا ۔پھر اُٹھ کر ریفریشمنٹ لے کر آیا اور خود ہی کھا پی گیا۔اس کے بعد زاہدہ کو آکر بتایا کہ وہ ذرا جلدی میں ہیں اس لئے اب جانا چاہتے ہیں۔شاید پھر کبھی چکر لگائیں لیکن وہ پھر کبھی چکر نہ لگا سکے کیونکہ تھوڑی دیر بعد محمود نے خود ہی اصل بات بتا دی۔
فی الوقت مجھے ان تینوں کے جو کارنامے یاد آرہے ہیں‘انہیں خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ ہی رہنے دینا چاہتا ہوں۔تینوں پاکستانی نوجوان بے روزگار تھے۔تینوں ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔اکبر لندن چلا گیا‘شکور جرمنی آگیا اور محمود امریکہ پہنچ گیا۔اس کے باوجود بھانڈوں کا یہ گروپ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا تھا۔زندگی کی مزاحیہ فلم کے ان تین مرکزی کرداروں کے ساتھ ایک اور کامیڈی کردار ذکیہ کا ہے۔ذکیہ میری ماموں زاد بہن ہے۔دس سال پہلے ٹُن ٹُن(اومادیوی)جیسی لگتی تھی‘چہرہ عابدہ پروین جیسا۔۔۔۔۔اب تو ضخامت میں بہت ترقی کر گئی ہے۔تکلیف دہ موٹاپے کے باوجود اس کی خوش مزاجی اور زندہ دلی سلامت تھی۔یہاں’’تھی‘‘کالفظ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔۱۹۹۶ء میں شکور ۳۹ سال کی عمر میں فوت ہو گیا تو زندگی کی مزاحیہ فلم المیہ سے دوچارہو گئی۔ ہر دَم خوش رہنے اور ہنسنے ‘ہنسانے والوں کو چُپ سی لگ گئی۔
جرمنی میں مقیم ہونے کے باعث شکور کا ہم سے گہرارابطہ تھا۔ہمبرگ سے کسی نہ کسی بہانے ہر مہینے فرینکفرٹ کا چکر لگا جاتاتھا۔اس کا قیام ہمیشہ ہمارے گھر میں رہا۔حالانکہ بھابی رعنا کے بہن بھائی بھی اِدھر ہی رہتے ہیں اور ہمارے اپنے دو کزنز بھی قریب ہی رہتے ہیں لیکن شکور فیملی ہمیشہ ہمارے گھر میں ہی قیام پذیر ہوتی۔ان کے چاروں بچے ہمارے ہاں آنے کے بعد کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔شکور کے مزید ذکر سے پہلے ایک ہلکا سا دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔۔۔کراچی میں ماموں صادق کے گھر کے ساتھ والے گھر سے بھی اس قصے کا تعلق بنتا ہے۔
ایک دفعہ میں کراچی گیا‘ماموں صادق کے ہاں ٹھہرا تھا۔گرمیوں کے دن تھے لیکن راتیں ٹھنڈی ہوجاتی تھیں۔میں رات کو بیٹھک میں سویا۔چھت کا پنکھا چَل رہا تھا۔آدھی رات کومجھے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگاتومیں نے اُٹھ کر چھت کا پنکھا بند کردیااور پھر لیٹ گیا۔مجھے محسوس ہوا کہ سوئچ آف کرنے کے باوجود پنکھا چَل رہا ہے۔بلب جلا کر چیک کرنے کی بجائے میں نے نیچے کی چادر اوپر لے کر گزارہ کرلیا۔پھر بھی مجھے رات بھر ٹھنڈ لگتی رہی۔صبح اُٹھ کر دیکھا تو پنکھا بند تھا۔ممانی زاہدہ سے پوچھا پنکھا آپ نے بند کیا تھا؟انہوں نے کہا’’نہیں‘‘۔
میں نے کہا رات تو یہ بند کرنے کے باوجود بند نہیں ہوا تھاپھر اب کیسے بند ہو گیا؟ جبکہ میں رات بھر ٹھٹھرتا رہا ہوں۔ممانی زاہدہ سارا ماجرا جان گئی تھیں۔انہوں نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا ساتھ والے ہمسایوں کے ملحقہ کمرے کا پنکھا رات بھر چلتا رہا تھا۔ اس کی گڑ گڑاہٹ سے تم سمجھتے رہے کہ تمہارے کمرے کا پنکھا چلتا رہا ہے۔
لیکن پھر مجھے ٹھنڈ کیوں لگتی رہی؟ میں نے پوچھا تو ممانی زاہدہ نے پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بتایا کہ یہ پہاڑی کے رُخ والی کھڑکی کھلی تھی جس سے ہوا آتی رہی۔اُسی دن ممانی زاہدہ نے ہمسایوں سے شکایت کی کہ آپ کے پنکھے کی وجہ سے ہمارا بھانجہ ساری رات پالے سے ٹھرتا رہا ہے ۔اس شکایت پر غور کرنے کے بعد ہمسایوں نے مطالبہ کیا کہ چونکہ ہمارے پنکھے سے آپ کے بھانجے کو ہوا محسوس ہوتی رہی ہے اس لئے رات بھر کا بجلی کا بِل آپ ادا کریں۔ انہیں ہمسایوں کی چھوٹی بہن رعنارفعت بعد میں شکور سے شادی کرکے رعنا شکور بنیں۔
ماموں کوثر اور ممانی شمیم نے اس رشتے کی شدید مخالفت کی پھر یکایک ماموں کوثر اس شادی کے لئے راضی ہو گئے۔میں نے شکور سے پوچھا کہ ماموں کوثر اس رشتے کے لئے یکدم کیسے راضی ہو گئے تھے؟۔۔۔۔شکور کہنے لگا:اُس دن گھر میں بہت سارے مہمان آگئے تھے۔بستر کم پڑ رہے تھے۔سو مجھے رات کو ابا جی کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر سونا پڑا۔تب مجھے دن میں بھی رعنا کے خواب نظر آتے تھے‘رات کو تو آتے ہی آتے تھے۔چنانچہ پتہ نہیں کس پَل میں‘ مَیں کس کیفیت سے دو چار تھاجبکہ چارپائی پر تو ساتھ ابا جی سوئے ہوئے تھے۔اُس رات اباجی تہجد کے وقت سے بھی پہلے اُٹھ گئے۔میرے بیدار ہونے پر انہوں نے مجھے بُرا بھلا کہا اور ساتھ ہی رعنا سے شادی کرنے کی اجازت دے دی۔
ماموں کوثر بنیادی طور پر سیلف میڈ انسان ہیں۔انہوں نے اپنی محنت سے بے شمار کمایا اور شوبازی سے گنوا بھی دیا۔مجھے یاد ہے ہمارے رحیم یارخاں میں قیام کے زمانے میں رحیم یار خاں آئے تھے۔یہاں اباجی سے پیسے مانگنے کی بجائے انہوں نے’لیور برادرز ‘میں دیہاڑی والی مزدوری کی۔تھوڑی سی رقم جوڑی اور تلاشِ رزق میں کراچی جاپہنچے۔وہاں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر پینسلیں‘قلم وغیرہ فروخت کرنے سے کام کا آغاز کیا۔خدا کے فضل اور اپنی محنت سے ایک ہوزری کے مالک بن گئے۔ عروج تک پہنچے تو کچھ ان کی ’’شوبازی‘‘کی عادت نے اور کچھ ممانی شمیم کی’’ میں ‘‘نے پھر زوال سے ہمکنار کردیا۔سب کچھ ختم ہو گیا‘پھر سے فٹ پاتھ پر آگئے لیکن حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔نئے سرے سے محنت کی۔
دوسری بار جب ابھی تگ و دو میں مصروف تھے‘میرا کراچی جانا ہوا۔ایک دن مجھے افسانہ نگار فردوس حیدرکے ہاں جانا تھا‘ماموں بھی ساتھ ہو لئے۔میری پہلی ملاقات تھی لیکن ماموں کوثر نے کچھ سوچے سمجھے بغیر وہاں بھی لمبی لمبی چھوڑنی شروع کردیں۔خود کو پی آئی اے کے ایک پراجیکٹ کا کنٹریکٹر ظاہر کیا۔مجھے خاصی شرمندگی ہو رہی تھی۔یہ شرمندگی اس وقت اور بڑھ گئی جب فردوس حیدر ہمیں خدا حافظ کہنے کے لئے باہر تک آگئیں۔جب انہوں نے دیکھا کہ پی آئی اے کے اتنے بڑے کنٹریکٹر کے پاس گاڑی نہیں ہے‘تب انہوں نے اپنی گاڑی نکال کر گھر تک پہنچا دینے کی پیش کش کی۔میں تو زمین میں گڑا جارہا تھا مگر ماموں کوثر کو معمولی سی خفّت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ان کے حوصلے اور جرأت کا میں تب سے معترف ہوں۔ممانی شمیم کی ’’میں‘‘اور ماموں کوثر کی بے جا’’شوبازی‘‘کے عیب کو نظر انداز کردیا جائے تو ان کی یہ خوبی اُبھر آتی ہے کہ وہ سخت محنت اور لگن والے انسان ہیں۔انہوں نے دوسری بار فٹ پاتھ سے ایک کامیاب فرم قائم کرنے تک کا سفر کرلیا ہے۔اب تو ان کے پاس سچ مچ گاڑیاں بھی آگئی ہیں۔اب جب کبھی کراچی جانا ہوا فردوس حیدر کے ہاں ماموں کوثر کے ساتھ ہی جاؤں گا اور اس بار مجھے خفّت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اس بار سچ مچ ماموں کوثر کے پاس گاڑی ہو گی۔
شکور کو جب پہلے پہل ہسپتال میں داخل کیا گیا ‘مَیں‘اجمل‘شعیب اور عثمان فوراََ ہمبرگ پہنچے ۔ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔بھابی رعنا سے کہنے لگا :دیکھو!بھائی ایسے ہوتے ہیں۔اس کا اصرار تھا کہ ہم سب عید اُس کے ہاں آکے کریں۔میں نے ایک خصوصی پیش کش کے ساتھ اسے کہا کہ آپ سب لوگ عید پر ہمارے ہاں آجائیں۔شکور راضی ہو گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ عید پر ضرور آؤں گا۔
جب ہم واپس آنے لگے ‘شکور نے مجھے اکیلے کو روک لیا۔کچھ گھریلو باتوں کے علاوہ اس نے ایک دُکھ کا اظہار کیا۔کہنے لگا:میں ستمبر (۱۹۹۵ء) میں پاکستان جاکر والدین سے مل کر آیا ہوں۔ابھی اُس سفر کے قرضے نہیں اترے۔ اس غیر حاضری کی وجہ سے نوکری بھی جاتی رہی۔جنوری (۱۹۹۶ء) میں چھوٹی بہن کی شادی پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھاتب سے اباجی (ماموں کوثر)سخت ناراض ہیں۔جب بھی میں نے ٹیلی فون کیاہے میری آواز سنتے ہی ٹیلی فون بند کردیتے ہیں۔یہ بات بتاتے ہوئے اس کے اندر کا سارا کرب اس کی آواز اور اس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔میرے ساتھ اس ملاقات کے بعد بھابی رعنا کی اس سے ایک بار ملاقات ہوئی اور پھر وہ آپریشن رُوم میں چلا گیا۔جگر کی تبدیلی کا آپریشن تھا۔نازک صورتحال تھی۔جرمنی میں مقیم سارے عزیز ہمبرگ پہنچنے لگے۔مبارکہ‘رضوانہ‘حفیظ‘شعیب‘عثمان‘ٹیپو‘اویس،غزالہ‘اجمل‘مبشر ، بھابی نوشی‘عارفہ‘منان‘ سب مضطرب تھے۔بھابی رعنا کی حالت تو ناقابلِ بیان تھی۔
دھڑکتے دلوں کے ساتھ دعائیں ہو رہی تھیں۔لیکن کوئی دعا کارگر نہ ہوئی۔شکور فوت ہو گیا۔اس کی میّت پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا جانے لگا۔اس سلسلے میں اﷲ تعالی اجمل کو جزائے خیر دے جس کی ہمت اور تگ و دو کے نتیجہ میں میّت کو پاکستان بھجوانے کا انتظام ہو سکا۔
عید سے ایک دن پہلے شکور کی میّت ہمبرگ سے فرینکفرٹ پہنچی۔
زندگی بھر گپیں ہانکنے والا میرا کزن مرنے کے بعد وعدے کا اتنا پکا نکلے گا۔
یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen