tag:blogger.com,1999:blog-81258460870908305472024-03-12T17:01:22.400-07:00Khatti Mithi YadeN By H.Q.khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.comBlogger21125tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-6229988185323157762012-09-12T04:06:00.004-07:002012-09-12T04:06:56.397-07:00<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;"><br /></span></div>
<div style="text-align: right;">
<span style="font-size: large;">رپورتاژ <br />
یادوں کا یہ باب کتاب میں چودھویں نمبر پرشامل ہے۔یہاں سہواََ شامل ہونے سے رہ گیا تھا۔سو اب اسے یہاں آخر میں ہی شامل کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیدر قریشی </span><span style="font-size: large;"><span style="background-color: blue; font-size: x-large;"></span>
</span></div>
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: x-large;">ماریشس میں ورلڈ اردو کانفرنس</span></div>
<div style="text-align: right;">
<br /><span style="font-size: large;">
ماریشس کے ادارہ نیشنل اردو انسٹیٹیوٹ اور اردو اسپیکنگ
یونین کے اشتراک سے ۲؍اگست تا ۶؍اگست ۲۰۰۳ ِ ورلڈ اردو کانفرنس کا
انعقاد کیا گیا۔اس سلسلہ میں پاکستان اور انڈیا سے سرکاری وفود کے علاوہ
انڈیا،روس،امریکہ،انگلینڈ اور جرمنی سے ادیبوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ماریشس
کی منسٹری آف آرٹ اینڈ کلچرنے اس کانفرنس کو کامیاب بنانے کے لئے بھر پور
تعاون کیا۔
</span><span style="font-size: large;"><br />
مجھے ۲؍جولائی ۲۰۰۳ء کو نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے سیکریٹری
فاروق باؤچہ صاحب کی ای میل ملی۔جس میں اس کانفرنس کے انعقاد کی اطلاع کے
ساتھ مجھے مدعو کرتے ہوئے ائیر ٹکٹ بھیجنے کی خبر بھی تھی۔تیرہ سال پہلے
ماریشس میں ورلڈ اردو کانفرنس ہوئی تھی اور اب یہ سیکنڈ ورلڈ اردو کانفرنس
ہونے جا رہی تھی۔ ائر ماریشس کے توسط سے مجھے ریٹرن ٹکٹ بھیج دی گئی تھی جو
میں نے ۲۵؍جولائی کو وصول کی۔ویزہ کے حصول کے لئے میں فرینکفرٹ سے برلن
جانے کی ہمت نہیں کررہا تھا۔۲۵؍جولائی کو ماریشس کے سفارت خانہ کو فون پر
اپنی مشکل سے آگاہ کیا۔اگلے دو دن دفتر بند تھے۔۲۸؍جولائی کو سفارتخانہ کی
طرف سے ٹیلی فون آیا کہ آپ فلاں فلاں کاغذات فیکس سے بھیج دیں۔کاغذات فیکس
کے ذریعے بھیج دئیے تو پھرٹیلی فون آگیا کہ الفاظ مدھم ہیں پڑ ھے نہیں
جاتے۔اب فلاں فلاں کوائف بتادیں۔کوائف بتادئیے تو وہ لوگ باقی کاروائی کرتے
رہے۔ ۳۰ جولائی کو مجھے بذریعہ فیکس ویزہ موصول ہو گیا۔اور اسی دن
سفارتخانہ والوں نے ایک بار پھر فون کرکے تصدیق کر لی کہ مجھے ویزہ مل گیا
ہے یانہیں؟یا الہٰی یہ کیسا سفارتخانہ ہے!<br />
۳۱؍جولائی کی شام کو میں ماریشس کے لئے روانہ ہوا۔ <br />
یکم اگست کو ماریشس ائیر پورٹ سے سیدھا اس ہو ٹل میں پہنچایا
گیاجہاں قیام رہنا تھا۔ہوٹل میں پہلے مرحلہ ہی میں ڈاکٹر خلیق انجم،شاہد
ماہلی ،قمر علی عباسی،نیلوفر عباسی،پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر
زاہد،ابولکلام قاسمی،( تاشقند کے) تاش مرزا،آزاد شاماتوف اور دیگر احباب سے
ملاقات ہوئی۔پروفیسر ابوالکلام قاسمی سے ملاقات میں ایک دلچسپ لطیفہ ہو
گیا۔انہوں نے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا نام بتایا تو میرے کانوں نے کچھ اس قسم
کا نام سنا۔عبدا ﷲخان کاظمی ۔۔۔وہ یاد دلا رہے تھے کہ جب جدید ادب خانپور
سے نکلتا تھا تو ہمارا رابطہ تھا۔لیکن مجھے کوئی عبداﷲ خان کاظمی یاد آتے
تو کچھ کہتا۔بس رسمی مسکراہٹ کے ساتھ چپ ہو رہا۔دو دن یہی صورتحال رہی۔ان
کا پُرتپاک انداز مجھے شرمندہ کرتارہتا لیکن کچھ یاد نہ آتا۔دوسرے دن شام
کو انہوں نے مجھے اپناوزیٹنگ کارڈ دیا تو مجھ پر جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا۔
میں نے اپنا بیگ صوفے پر رکھا اور بے اختیار ان سے لپٹ گیا۔ڈھیر ساری معذرت
کی۔اور ایک بار پھر ان سے گلے ملا۔لیکن اس طرح کا ملنا خود ایک یادگار
ملنا ہو گیا۔<br />
یکم اگست کو ہمیں اندرا بھون لے جایا گیا۔بس میں بیٹھے تھے کہ
اچانک لگا کوئی چاند سا طلوع ہو گیا ہے۔’’ارے قریشی صاحب!آپ بھی تشریف لائے
ہیں۔بہت خوشی ہوئی‘‘۔۔یہ روس کی ڈاکٹر لڈمیلا تھیں۔میرے ساتھ دہلی
یونیورسٹی کے ڈاکٹر عبدالحق بیٹھے تھے۔آپ اقبال کے مداحوں میں سے ہیں۔انہوں
نے ادبی اور تعلیمی کرپشن کے بارے میں دکھ کا اظہار کرنا شروع
کردیا۔یونیورسٹیوں میں کیا ہو رہا ہے۔پی ایچ ڈی کے پراجیکٹس میں گڑ بڑ سے
لے کر ادبی ہیرا پھیریوں تک انہوں نے بہت سی سچی باتیں کرڈالیں۔اسی دوران
اندرا بھون آگیا۔یہاں کیرالہ کے گورنراور بھارت کے سرکاری وفد کے سربراہ
سکندربخت کے اعزاز میں تقریب تھی۔یہاں نہ کسی کو خوش آمدید کہا گیا،نہ کسی
کا تعارف کرایا گیا۔نہ کوئی رسمی کاروائی ہوئی۔بس چلتے پھرتے کچھ
کھائیے،پیجئے اور بس۔اس کانفرنس کی سب سے فضول تقریب یہی تھی۔<br />
تقریب سے واپسی پر ندا فاضلی کے ساتھ سیٹ ملی۔ ان سے یہ پہلی
ملاقات تھی۔ جرمنی کا نام سنتے ہی بتانے لگے’’ شاعر ‘‘ ممبئی کے تازہ شمارہ
میں جرمنی کی ایک شاعرہ اور افسانہ نگار کے بارے میں افتخار امام صدیقی نے
کچھ چھاپا ہے۔میں ’’شاعر‘‘تو ابھی تک نہیں دیکھ سکا لیکن یہاں کے سارے
عظیم شاعروں اور دانشوروں کی عظمت سے بخوبی واقف ہوں اس لئے شرمندگی سے چپ
ہو رہا۔ہوٹل پہنچے تو وہاں کھانے کی میز پر کشور ناہید اور پروفیسر فتح
محمد ملک سے ملاقات ہوئی۔<br />
دو اگست کو ناشتہ کافی تاخیر سے کیا۔ڈاکٹر خلیق انجم اور شاہد
ماہلی کے ساتھ ساحلِ سمندر تک گئے۔واپسی پر انگلینڈ کے اردو اسکالرڈیوڈ
میتھیوز کوجدید ادب کا تازہ شمارہ دیا۔دوپہر کو دو بجے کے بعد ورلڈاردو
کانفرنس کی افتتاحی تقریب ہوئی۔اس تقریب میں ماریشس کے وزیر اعظم،وائس
پریذیڈنٹ،آرٹ اور کلچر کے وزیر اور بعض دیگر وزراء بھی شریک ہوئے۔ اس تقریب
کے بعد ابھی کچھ وقت باقی تھا اس لئے مہمانوں کو ایک شاپنگ سنٹر لے جایا
گیا تاکہ کوئی شاپنگ کرنا چاہیں تو کر لیں۔شاپنگ سنٹر سے باہر آجانے کے بعد
بھی ابھی کچھ وقت باقی تھا چنانچہ مہمانوں کو ’’ہرن غار‘‘کا دور سے نظارا
کرایا گیا۔یہاں سے سیدھا نیشنل اردو انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین شہزاد عبداﷲ کے
گھر لے جایا گیا۔وہاں ڈنر کا انتظام تھا۔ڈنر میں پاکستانی قائم مقام سفیر
رحمت علی صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ان کے علاوہ ماریشس کے نائب صدر،بعض
وزراء،انڈیا کے سکندر بخت اور جملہ شعراء و ادباء شامل تھے۔۔ڈنر کے بعد
ہمیں ایک ڈراما دکھانے کے لئے لے جایا گیا۔یہ ڈرامہ ماریشس میں اردو کا
پہلا اسٹیج ڈرامہ تھا جو مکمل لوکل پروڈکشن کا ثمر تھا۔’’رشتہ‘‘کے نام سے
دکھایا جانے والا یہ ڈرامہ فاروق رجل کا تحریر کردہ تھا اور رشید نیرووا
،اس کے ڈائریکٹر تھے۔ اولین لوکل پروڈکشن ہونے کے باعث اس ڈرامہ کے تمام
اداکاروں کی،رائٹر اور ڈائریکٹر سب کی بہت پذیرائی کی گئی۔<br />
تین اگست کو سار ادن سیر کرنے اورکہیں بیٹھ کر بریانی کھانے
کے لئے ایک مناسب جگہ تلاش کرنے میں گزر گیا۔وہ جگہ ملی تو بریانی کھائی ۔
ڈاکٹر یاسمین اورخدا کا شکر ادا کیا۔اس تھکادینے والے سفر کے بعد ہوٹل میں
آکر کچھ آرام کیااور پھر ماریشس کے نائب صدر کی جانب سے دئیے گئے ڈنر میں
شرکت کے لئے روانہ ہوئے۔خیال تھا کہ یہاں بہت زیادہ رکھ رکھاؤ سے کام لینا
پڑے گا۔۔۔۔لیکن یہ ڈنر بے تکلفانہ سا ہو گیا۔نائب صدر نے خود اعلان کیا کہ
آپ بالکل بے تکلفی اور اطمینان کے ساتھ باتیں کریں۔پہلے کچھ رسمی طور پر
جذبات کا اظہار کیا گیا۔احمد فراز،ندا فاضلی،فیضان عارف،قمر علی
عباسی،نیلوفر عباسی،کشور ناہید اور ڈاکٹر لڈ میلا نے اپنے جذبات اور تاثرات
کا اظہار کیا۔اس کے بعد سب اپنی اپنی میزوں پر گپ شپ میں مشغول ہو گئے۔میں
جس ٹیبل پر تھا وہاں پروفیسر فتح محمد ملک،ندا فاضلی،پروفیسر امیر
عارفی،ڈاکٹر خلیق انجم اور شاہد ماہلی بیٹھے تھے۔یہاں ندا فاضلی نے پہلے
فیض کے بارے میں کہا کہ علی سردار جعفری ان سے بڑے شاعر تھے۔اس پر حیدرآباد
کے قدیمی باسی پروفیسرامیر عارفی نے کہا کہ نہیں ۔۔مخدوم سردار سے بڑے
شاعر تھے۔( سردار جعفری کوفیض سے بڑا کہنے والی بات بعد میں جب میں نے
ڈاکٹر لڈ میلا کو بتائی تو انہوں نے بڑا ہی بے ساختہ سا قہقہہ لگایا) ۔بحث
ذرا چٹخنے لگی تو ندا فاضلی نے بڑی عقلمندی سے کام لیتے ہوئے کہا ڈاکٹر
وزیر آغا نے بھی لکھا ہے کہ فیض انجماد کا شکار ہو گئے تھے۔اس پر میں نے
کہا کہ اس کے باوجود وزیرآغا مانتے ہیں کہ فیض ترقی پسند تحریک کی سب سے
بڑی عطا تھے۔انہوں نے علی سردار جعفری کو تو کسی شمار میں ہی نہیں رکھا۔یہ
ساری بحث اتنی مزیدار ہو رہی تھی کہ احمد فراز جو نائب صدر کے ساتھ بیٹھے
تھے وہیں سے جملوں کی صورت میں شرکت کرنے لگے۔<br />
اب بحث میں خاصی گرماگرمی ہوئی۔ندا فاضلی نے علامہ اقبال کے بارے میں
ایک نامناسب سا جملہ کہا جس پر پروفیسر فتح محمد ملک جواب دینے لگے تو میں
نے ان سے کہا کہ ملک صاحب اس کا جواب نہ دینا ہی اس کا جواب ہے۔بہر حال
گرما گرمی کے بعد مسکراہٹوں پر بات ختم ہوئی۔ ندا فاضلی ہماری ٹیبل سے اٹھ
کر چلے گئے تو احمد فراز مسکراتے ہوئے ہماری ٹیبل پر آگئے۔وہ اس ساری بحث
کا مزہ لیتے رہے تھے۔ <br />
چار اگست کو کانفرنس کا اصل اور اکیڈمک سیشن شروع ہوا۔افتتاحی
تقریب کے لئے اسلام بھگن(پرنسپل ایونٹس منیجمنٹ آفیسر۔منسٹری آف آرٹ اینڈ
اینڈ کلچر) نے ماریشس میں اردو کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے اسٹیج پر
چند کلمات کہے ۔ ان کے بعدعنایت حسین عیدن نے افتتاحی خطبہ کے آغاز کے لئے
پروفیسر فتح محمد ملک کودعوت دی۔<br />
پروفیسرفتح محمد ملک کو افتتاحی خطبہ کے لئے انتظامیہ کی طرف سے
چند نکات دئیے گئے تھے کہ ان کے حوالے سے کچھ کہئے گا۔۔انہوں نے فی البدیہہ
خطبہ دیتے ہوئے بعض ایسی باتیں کہہ دیں جو کانفرنس کے ہندوستانی مندوبین
کے لئے کافی مشکل ہو گئیں۔چنانچہ دوران خطبہ بھی ہلکا سا ردِ عمل ہوا۔لیکن
خطبہ کے بعد ٹی بریک میں چائے کی ہر پیالی میں طوفان اٹھ رہا تھا۔اصلاََ
پروفیسر فتح محمد ملک نے جو مثالیں دے کر اپنی بات واضح کرنا چاہی تھی ،اس
کے لئے یہ فورم مناسب نہیں تھا۔چنانچہ ایسا لگ رہا تھاکہ اب اگلے سارے سیشن
اسی تنازعہ کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔افتتاحی خطبہ کے بعد پہلے سیشن کی صدارت
پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسرابوالکلام قاسمی کے ذمہ تھی۔میں جموں کے
ظہورالدین،دہلی کے ڈاکٹر خلیق انجم اور دوسرے دوستوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش
کر رہا تھا۔دوسری طرف دیکھا تو وہاں احمد فراز بھی نہ صرف یہی کام کر رہے
تھے بلکہ ٹھنڈا کرنے کے لئے وہ بھی تقریباََ وہی الفاظ کہہ رہے تھے،جو میں
ہندوستانی دوستوں کے لئے کہہ رہا تھا۔آخر طے یہ ہوا کہ دونوں صدور اپنی
صدارتی تقریر میں اس مسئلہ کو اپنے موقف کے ساتھ سمیٹ لیں گے اور اس کے بعد
اسے مزید اچھالا نہیں جائے گا۔خدا کا شکر ہے کہ بعد میں ایسا ہی
ہوا۔(ویسے اس کانفرنس کا آخری سیشن اسی نکتے پر مکمل ہوا جو پروفیسر فتح
محمد ملک نے اپنے افتتاحی خطبہ میں پیش کیا تھا۔لیکن چونکہ بات کسی
پاکستانی کے منہ سے نہیں نکلی تھی بلکہ ماریشس والے خود وہی بات کہہ رہے
تھے،اس لئے کوئی ہنگامہ نہیں ہوا)۔<br />
پہلے سیشن کے صدور تھے پروفیسر شمیم حنفی اور پروفیسر
ابوالکلام قاسمی ۔۔۔۔۔نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے صابر گودڑ۔ سب سے پہلے
پڑھے جانے والے پروفیسر محمد زاہد کے مضمون کا عنوان تھا’’ ہندوستان میں
اردو زبان کی صورت حال‘‘ لیکن ان کی گفتگو کا دائرہ علی گڑھ تک محدود
رہا۔شاہد ماہلی کا مقالہ’’اکیسویں صدی میں اردو کے مسائل‘‘پر تھا۔انہوں نے
اس ضمن میں بعض عمدہ تجاویز پیش کیں۔تیسرا مقالہ انور سعید کا تھا جس میں
انہوں نے برصغیر میں ادب کی صورتحال پر روشنی ڈالی۔چوتھا مقالہ ڈیوڈ
میتھیوز کا تھا۔’’اردو ادب۔۔مسرت اور غم‘‘۔وقت کی کمی کے باعث وہ صرف خوشکن
صورتحال ہی بیان کرسکے۔غم کا فسانہ بیان ہونے سے رہ گیا۔پانچویں نمبر پر
قمر علی عباسی تشریف لائے۔انہوں نے زبانی تقریر کی۔اردو کے سلسلے میں اچھی
اچھی باتیں کیں اور بتایا کہ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں ہے۔آخر میں اس
سیشن کے دونوں صدور پروفیسر ابوالکلام قاسمی اور پروفیسر شمیم حنفی نے
صدارتی خطاب کیا۔ابوالکلام قاسمی نے بہت عمدگی،شائستگی اور مدلل طریقے سے
نہ صرف اپنے موقف کو واضح کیا بلکہ اس انداز سے اپنی بات مکمل کی کہ
افتتاحی خطبہ سے پیدا ہونے والی ساری تلخی دور ہو گئی۔پروفیسر شمیم حنفی نے
اپنے عالمانہ انداز سے اور اختصار کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے
ساری بحث کو سمیٹا۔<br />
پہلا سیشن مکمل ہونے کے بعد لنچ کا پروگرام تھا۔لنچ کے بعد دوسرا سیشن شروع
ہوا۔اس کی صدارت ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز اور رضا علی عابدی نے کی۔نظامت ابنِ
کنول نے کی۔ سب سے پہلے فیضان عارف نے ’’انگلینڈ میں اردو‘‘کے موضوع پر
اپنا مقالہ پڑھا۔ان کے بعدخال مرزاؤف تاش مرزا نے ازبیکستان میں اردو کے
موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔تیسرے نمبر پر ریاض گوکھل نے’’ماریشس میں اردو
ادب‘‘کے موضوع پر مقالہ پڑھا۔یہ مقالہ بہت سے مندوبین کے لئے اتنا
معلوماتی تھا کہ وقت کی کمی کے باوجود اسے زائد وقت دیا گیا۔ان کے بعد
’’انگلینڈ میں اردو‘‘کے موضوع پر عبدالغفار عزم نے تقریر کی۔ان کے بعد مجھے
اپنا مقالہ پڑھنے کے لئے بلایا گیا۔میں نے مغربی ممالک میں ادب کی صورتحال
کو ادب کے مرکزی دھارے کے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی۔اس کے ساتھ مغربی
ممالک میں جعلی شاعروں کے کردار پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح پچاس سال کے
بعد یکایک کوئی شاعربن کر نمودار ہوتا ہے اور دو سال میں تین مجموعوں کا
خالق بن جاتا ہے۔اس کے ذمہ دار انڈیا اور پاکستان کے وہ استادشعراء ہیں جو
بھاری معاوضے پر انہیں پورے پورے شعری مجموعے لکھ کردے رہے ہیں۔میرا مقالہ
ختم ہوتے ہی مجھے اسٹیج پر سب سے پہلے ڈاکٹر لڈمیلا نے بے حد تپاک کے ساتھ
ہاتھ ملا کر مبارکباد دی۔بعد میں مجھے خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر خلیق
انجم،پروفیسر فتح محمد ملک، پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر ابوالکلام قاسمی،صبا
حنفی،نیلوفر عباسی نے خصوصی طور پر مقالہ کی تعریف کی۔ خلیق انجم اورفتح
محمد ملک نے تو اسے انجمن ترقی اردو دہلی اور مقتدرہ اسلام آباد میں چھاپنے
کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔میرے بعد ڈاکٹر لڈ میلاویسی لیویا نے اپنے
مخصوص انداز میں ’’روس میں اردو‘‘مقالہ پیش کیا۔ان کے مقالہ کے بعد رضا علی
عابدی اور ڈاکٹر ڈیوڈ میتھیوز دونوں نے صدارتی تقاریر کیں۔<br />
اس سیشن کے بعد پہلے ہمیں ہوٹل لے جایا گیا۔وہاں سے کچھ تیاری
کے بعد ماریشس میں شیزان ہوٹل لے جایا گیا۔یہاں پاکستانی ہائی کمیشن کی
جانب سے سب کے لئے ڈنر کا انتظام تھا۔ڈنر کے فوراََ بعد مشاعرہ تھا۔سو
شیزان ہوٹل سے مشاعرہ گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔مشاعرہ کی نظامت ندا فاضلی نے
کی۔صدارت احمد فراز کر رہے تھے۔تین مقامی شعراء نے کلام سنایا۔یہ تھے جناب
طاہر صاحب، جناب صابر گودڑ صاحب اور ناز انور عثمانی صاحب۔۔۔مجھے آخر الذکر
بطور شاعر اچھے لگے جبکہ صابر گودڑ مقالہ نگاری میں بہت محنت کر رہے
ہیں۔ویسے ماریشس کے شعراء کو مقامی شعراء کہنے کے بجائے وہاں کے نیشنل لیول
کے شعراء بھی کہا جا سکتا ہے۔<br />
ان کے بعد ان شعراء نے باری باری اپنا کلام سنایا۔پاپولر میرٹھی،اے
جی عزم،فیضان عارف،حیدر قریشی،شاہد ماہلی،زمان آزردہ،امیر عارفی،شمیم
حنفی،ظہورالدین،کشور ناہید ،ندا فاضلی اوراحمد فراز۔حاضرین بالکل خاموشی کے
ساتھ کلام سن رہے تھے۔ہمارے مشاعرہ کے شعراء کو ان کی خاموشی کھل رہی
تھی۔لیکن مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ وہ شعراء کو نہ صرف توجہ سے سن رہے ہیں
بلکہ اچھے اشعار سے لطف بھی اٹھا رہے ہیں۔’’واہ واہ۔۔ اور۔۔ مکرر‘‘ کے
لایعنی شور سے پاک یہ مشاعرہ مجھے اچھا لگا۔رات کو دیر گئے اپنے ہوٹل پہنچے
اور بے سدھ ہو کر سو گئے۔<br />
پانچ اگست کو اس کانفرنس کے اکیڈمک سیشن کا تیسرا اجلاس
تھا۔اس اجلاس کے صدور تھے پروفیسر اصغر عباس اورپروفیسر انیس اشفاق۔نظامت
پروفیسر محمد زاہد کر رہے تھے۔’’اردو تعلیم‘‘کے موضوع پر ہونے والے اس سیشن
کی پہلی مقالہ نگار ڈاکٹر ظلِ ہما تھیں۔ان کے بعد صابر گودڑ نے ’’ماریشس
میں اردو کی تعلیم‘‘کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ان کے بعد صبا حنفی
صاحبہ نے پری پرائمری کلاسز میں اردو پڑھانے کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش
کیا۔یہ بہت ہی عمدہ اور معلوماتی مقالہ تھا۔ان کے بعد پروفیسر قاضی افضال
حسین نے اردو کے ذریعہ اعلیٰ تعلیم کے موضوع پرتقریر کی۔انہوں نے اپنے موقف
کو مضبوط دلائل کے ساتھ پیش کیا اور حاضرین کو بھی پُر امید کر
دیا۔پروفیسر الطاف اعظمی کا موضوع بھی یہی تھا۔تاہم انہوں نے ہمدرد
یونیورسٹی کے حوالے سے کہا کہ ماریشس میں اس کا قیام اردو کے لئے بھی اور
طب کے لئے بھی مفید ثابت ہوگا۔ان کی تجویز کی معقولیت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا۔آخر میں پروفیسر زمان آزردہ نے تیسرے میلینیئم میں اردو ٹیکسٹ بکس کے
حوالے سے اپنے گرانقدر خیالات کا اظہار کیا۔ان کے بعد پروفیسر اصغر عباس
نے اپنا صدارتی تقریر کا وقت بھی پروفیسر انیس اشفاق کو دے دیا۔انہوں نے
تمام مقالات کا تجزیہ کرتے ہوئے اس سیشن کو سب سے بہترین مقالات کا سیشن
قرار دیا۔اس کے ساتھ ہی چائے کے لئے وقفہ ہوا۔چائے کے وقفہ کے بعد کانفرنس
کا چوتھا سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت پروفیسر زمان آزردہ اور پروفیسر فتح
محمد ملک نے کی اور نظامت رحمت علی نے کی۔اس سیشن میں نیلوفر عباسی،رضا علی
عابدی اور ایرینا وغیرہ نے مقالات پڑھنے تھے۔اس سیشن کے دوران کانفرنس کی
ریزولیشن کمیٹی کا اجلاس تھا۔ریزولیشن کمیٹی میں شامل ہونے کی وجہ سے میں
اس سیشن کے مقالات سننے سے محروم رہا۔ریزولیشن کمیٹی کا احوال ذرا آگے چل
کر آئے گا۔<br />
اس سیشن کے بعد لنچ بریک ہوا۔اور اس کے بعد کانفرنس کا پانچواں
سیشن شروع ہوا۔اس کی صدارت پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر لڈمیلا نے کی جبکہ
نظامت کے فرائض سعید میاجون نے ادا کئے۔اہم اردو ناولوں کے ذکر پر مبنی
ڈاکٹر ابنِ کنول کا مقالہ بڑی حد تک متوازن تھا۔’’بیسویں صدی میں
غزل‘‘پروفیسرانیس اشفاق کے مقالہ کا موضوع تھا۔بہت زیادہ پھیلے ہوئے موضوع
کو انہوں نے بڑے سلیقے کے ساتھ چار حصوں میں بانٹ کر پوری صدی کے مختلف
ادوار کی غزل کو یوں سمیٹا کہ سچ مچ دریا کو کوزے میں بند کردیا۔ان کے بعد
پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے’’مہجری ادب اور ہجرت کا مسئلہ‘‘کے موضوع پر
اپنا پُر مغز مقالہ پیش کیا۔آخر میں پروفیسر ظہورالدین نے اردو میں ’’ماڈرن
ازم اور پوسٹ ماڈرن ازم‘‘کے موضوع پر معلوماتی مقالہ پیش کیا۔مقالات کے
بعد ڈاکٹر عبدالحق اور ڈاکٹر لڈمیلا دونوں نے اپنے اپنے صدارتی خطاب میں
پیش کئے گئے مقالات پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔<br />
۶؍اگست کو کانفرنس کا چھٹا اور آخری اکیڈمک سیشن شروع ہوا۔صدارت
پروفیسر ابولکلام قاسمی اورڈاکٹر امیر عارفی کر ہے تھے اور نظامت ریاض
گوکھل نے کی۔اس سیشن کا مرکزی موضوع تھا اردو مسلم کلچر کی نمائندہ۔جو بات
پروفیسر فتح محمد ملک نے افتتاحی خطبہ میں کہی تھی وہی سخن گسترانہ بات اب
سیشن کے ’’اکیڈمک مقطع ‘‘میں آپڑی تھی۔پروفیسر عبدالحق،اے رحمت علی اور
آزاد شاماتوف نے اپنے اپنے موضوعاتی دائرہ کارمیں اسلامی کلچر اور اردو کے
تعلق سے بہت سی اچھی اچھی باتیں کیں۔پروفیسر فتح محمد ملک نے اپنے مقالہ
’’اردو اور مسلم کلچر‘‘میں مولویت اور صوفی ازم کے فرق کو واضح کرنے کے
ساتھ جب صوفیانہ رواداری اور اخوت و محبت کو اسلامی کلچر کی بنیاد بنایا تو
ان سے کسی کو کوئی گلہ نہ رہا ۔یوں جب اس کلچر کو اردو کے ساتھ جوڑاگیا تو
سب خوش ہو گئے۔ بات وہی تھی جو صدارتی خطبہ میں آئی تھی لیکن پہلے بیان
میں رواروی کے باعث کچھ بے احتیاطی سی ہو گئی تھی اور اب آخری بیان میں وہی
باتیں احتیاط کے ساتھ آگئی تھیں۔سو سب لوگ خوش ہوئے۔پروفیسر امیر عارفی
اور ابوالکلام قاسمی نے سیشن کے اختتام پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔یہاں
اکیڈمک سیشن کا اختتام ہو گیا ۔ <br />
چائے کے وقفہ کے بعد کانفرنس کا ساتواں سیشن شروع ہوا۔اس میں
ریزولیوشن پیش ہونا تھا اور اس پر بحث کی گنجائش بھی رکھی گئی تھی۔صدارت
ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر قاضی افضال حسین نے کی۔نظامت اے۔ رحمت علی کے
ذمہ رہی۔ریزولیوشن کمیٹی میں ڈاکٹر خلیق انجم،پروفیسر شمیم حنفی،شہزاد
عبداﷲ،اسلام بھگن،عبدالغفار عزم، فیضان عارف اور حیدر قریشی شامل تھے۔
ریزولیوشن کمیٹی نے ’’عالمی اردو نیٹ ورک‘‘کے نام سے ایک ادارہ کی تشکیل کی
سفارش کی۔جس کے ابتدائی مراکز ماریشس،انڈیا،پاکستان اور انگلینڈ میں ہوں
گے۔بعد میں ان میں اضافہ بھی کیا جاتا رہے گا۔عالمی سطح پر اردو دنیا کو
مربوط اور یکجا کرنے کا یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔لیکن اتنا پھیلا ہوا ہے
کہ دستیاب وسائل کو دیکھتے ہوئے میں اس کی کامیابی کی امید پر کچھ تحفظات
رکھتا ہوں۔ میں نے اس کمیٹی میں ایک ذمہ داری قبول کی اور وہ یہ کہ عالمی
اردو نیٹ ورک کی جو ویب سائٹ قائم کی جائے گی اس کی ساری ذمہ داری میں
اٹھانے کو تیار ہوں۔میں نے یہ ذمہ داری اپنے دوستوں خورشید اقبال(اردو دوست
ڈاٹ کام) اورکاشف الہدیٰ(اردوستان ڈاٹ کام) پر اپنے بھروسے کے باعث بے
دھڑک اٹھا لی تھی۔مجھے یقین ہے کہ میرے یہ دوست مجھے شرمندہ نہیں ہونے دیں
گے۔<br />
پہلے ریزولیوشن انگریزی میں پیش کیا گیا پھر ڈاکٹر خلیق
انجم نے اسے اردو میں بیان کیا۔ جب ریزولیوشن پیش ہوا تو بعض دوستوں نے کہا
کہ ممالک کی فہرست میں امریکہ اور کینیڈا کو بھی شامل کیا جائے۔اصولی طور
پر اس رائے کو تسلیم کر لیا گیا۔رضا علی عابدی صاحب نے تشویش کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ ویب سائٹ کیسے اتنی جلدی بنا لیں
گے۔ان کے جواب میں مجھے اسٹیج پر آنا پڑا ۔میں نے کہا کہ جہاں تک ویب سائٹ
کے پراجیکٹ کا تعلق ہے میں تمام حاضرین کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ جب مجھے
تنظیم کی جانب سے میٹر فراہم کر دیا جائے گا،میں دوماہ میں ویب سائٹ کو آن
لائن کرادوں گا(اس اعلان پر حسبِ توقع حاضرین کی طرف سے پُر زور تالیاں
بجائی گئیں) ۔بہر حال ریزولیوشن منظور کر لیا گیا۔اب عمل درآمد کی نوبت کب
آتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔پروفیسرقاضی افضال حسین نے ریزولیوشن پر ہونے والی
بحث کو سمیٹا اور پھر لنچ بریک ہوگیا۔ <br />
لنچ کے بعد کانفرنس کا آٹھواں اور بالکل آخری سیشن شروع ہوا۔اس
کی صدارت کشورناہید اور پروفیسر الطاف اعظمی نے کی۔نظامت اسلام بھگن نے
کی۔دوران اجلاس آرٹ اور کلچرکے وزیر ایم۔ رام داس بھی تشریف لے آئے۔فاروق
حسنونے اکیڈمک سیشن کے تمام مقالات کی رپورٹ پیش کی۔ان کو بلانے سے پہلے
بتایا گیا کہ انہوں نے ہر مقالہ کے خلاصہ کو ایک دو سطر میں سمو کر دریا کو
کوزے میں بند کردیا ہے۔چنانچہ جب فاروق حسنو ڈائس کی طرف آنے لگے تو میں
نے کہہ دیا’’لائیے صاحب! اپنے کوزے‘‘۔۔۔اس پر کشور ناہید نے اپنی کرسئ
صدارت سے ہی کہا’’پر۔۔ مصری اپنی اپنی‘‘۔۔۔<br />
فاروق حسنوکی رپورٹ کے بعد اسکول کے بچوں کو ان کی مختلف کامیابیوں پر انعامات دئیے گئے۔<br />
تقسیم انعامات کے بعد ووٹ آف تھینکس کے لئے فاروق باؤچہ کو آنا تھا
لیکن ان کی جگہ کوئی اور دوست آگئے۔ان کا نام اب یاد نہیں رہا۔<br />
اپنے طور مجھے اس کانفرنس کی بعض باتیں اور بعض پہلو اچھے لگے۔سب
سے پہلے تو یہ کہ اس کانفرنس کے کرتا دھرتا شہزاد عبداﷲ اور سیکریٹری
فاروق باؤچہ اردو کی خدمت کاجذبہ رکھتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے ضروری
نہیں سمجھا کہ وہ خود کو بطور شاعر یا ادیب متعارف کرائیں۔ہمارے ہاں تو یار
لوگ پہلے دوسروں سے شاعری لکھوا کر اپنے مجموعے چھپواتے ہیں اور اس کے بعد
کانفرنسوں کا ڈول ڈالتے ہیں۔ کانفرنس سے پہلے ہی میں نے پتہ کیا تھا کہ
مجھے یہاں مدعو کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔معلوم ہوا پروفیسر شمیم حنفی نے
میرا نام دیا تھا۔یہ میرے لئے خوشگوار انکشاف تھا۔میرا کبھی پروفیسرشمیم
حنفی سے براہ راست رابطہ نہیں رہا۔اس کے باوجود انہوں نے میرا نام تجویز
کیا۔میں نے اس کے لئے ان کا شکریہ ادا کیا تو انہوں نے مجھے مزید زیر بار
کر دیا۔ پروفیسرشمیم حنفی سے ملاقات کے دوران ان کی محبت کے باوجود مجھے
ایک ڈر سا لگا رہتا۔جیسے اسکول کے زمانے میں بعض اساتذہ کا ڈر رہتا ہے۔ایسا
ڈر جس میں احترام کا عنصر غالب ہوتا ہے۔میں نے جھجھک کے ساتھ انہیں یہ بات
بتا ئی تو وہ مسکرائے،میری حوصلہ افزائی کے لئے میرے کندھے پر ہاتھ
رکھا۔ان کے بر عکس ان کی اہلیہ بھابی صبا کے ساتھ تو میری جیسے ایک دم
دوستی ہو گئی۔حالانکہ خواتین کے معاملہ میں تھوڑی سی جھجھک فطری بات ہوتی
ہے۔بھابی صبا حنفی سے میری گپ شپ زیادہ رہی۔ڈاکٹر لڈمیلا سدا بہار خاتون
ہیں۔زندہ دل بھی اور صاحبِ علم بھی۔ان سے جتنی ملاقات رہی خوشگوار
رہی۔ڈاکٹر خلیق انجم اور پروفیسر فتح محمد ملک صاحب سے میری پہلی بار
ملاقات ہوئی ۔ایک اور اچھی ملاقات پاپولر میرٹھی کے توسط سے پی کے آریا سے
رہی۔ہندی جرنلزم کا جنون کی حد تک شوق رکھنے والے اس نوجوان کے دائرہ کار
میں ٹی وی سے لے کر ادب تک سب کچھ آگیا ہے۔آخری دن اس وقت مجھے عجیب سی
خوشی ہوئی جب وہ ماریشس میں مقیم ایک ہندوستانی لڑکی کے ساتھ آئے۔وہ شرما
فیملی سے تعلق رکھتی تھیں۔میں نے یونہی کہا کہ ہمارے بھی ایک شرما جی
ہیں۔ہمت رائے شرما ،اردو ماہیے کے بانی۔انہوں نے بے اختیار کہا وہ تو میرے
پھوپھا جی ہیں۔ہمت رائے شرما جی سے میرے تعلق کی نوعیت کو جاننے والے دوست
بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ تب مجھے کتنی خوشی ہوئی ہو گی۔قمر علی عباسی اور ان
کی اہلیہ نیلوفر عباسی امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔عباسی صاحب نے جرمنی کا سفر
نامہ لکھا ہے’’اور دیوار گر گئی‘‘۔اس میں میرے بعض جملے جس طرح انہوں درج
کئے ہیں اس سے ان کے حافظہ کا قائل ہونا پڑا۔میں نے بڑی مشکل سے ایک لفظ کی
غلطی ڈھونڈ نکالی۔’’عباسی صاحب! میں نے سیلاب کہا تھا آپ نے طوفان لکھ دیا
ہے‘‘۔۔ انہوں نے برجستہ کہا بالکل آپ نے سیلاب کہا تھا کمپوزر نے غلطی سے
طوفان لکھ دیا‘‘۔۔۔موت کو چھو کر واپس آنے والے قمر علی عباسی شدید تر
نقاہت کے باوجود ویسے ہی زندہ دل تھے،جیسا انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔ اﷲ
انہیں لمبی عمر عطا کرے۔<br />
میری افغانی ٹوپی میرے لئے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں سے
مفید رہی۔بیشتر ناواقف لوگ مجھے افغانستان سے آیا ہوا ادیب سمجھتے رہے۔ اس
کے نتیجہ میں بعض لوگ مجھ سے کچھ محتاط سے دکھائی دئیے تو بعض لوگ بڑی محبت
کے ساتھ ملتے رہے۔آخری دن خوبصورت آنکھوں والی ایک خاتون چائے کے وقفہ کے
دوران مجھ سے پوچھنے لگیں آپ افغانستان سے آئے ہیں؟میں نے مختصراََ کہا
نہیں۔پھر انہوں نے پوچھا پشاور سے آئے ہیں؟میں نے پھر کہا نہیں۔انہوں نے
پریشان ہو کر پوچھا پھر آپ کہاں سے آئے ہیں؟۔۔۔میں نے کہا بی بی آپ کو یہ
سوال پہلے پوچھنا چاہئے تھا۔ویسے میں جرمنی سے آیا ہوں۔بی بی بہت حیران
ہوئیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ جب ساری مغربی دنیا میں نائین الیون کے بعد
افغانی باشندے اپنے آپ کو چھپاتے پھرتے تھے، میں وہ بے وقوف ہوں جو تب بھی
فرینکفرٹ میں اسی ٹوپی کو پہن کر گھومتا پھرتا رہتا تھا۔اس خاتون کا نام
تھا فیروزیہ نورنگ۔<br />
اردو پروگرام کے فروغ کے لئے ڈاکٹر یاسمین نے طے کیا کہ آخری سیشن کے
بعد میں ان کے ساتھ ان کے ہاں جاؤں گا۔وہاں ان کی بھتیجی صبا ہو گی جو آئی
ٹی میں گریجوایشن کر رہی ہے۔میں انہیں اردو پروگرام کو استعمال کرنے کے
بارے میں بنیادی باتیں سمجھا دوں گا۔اردو ای میل بھیجنے کے دونوں طریقے بھی
سمجھا دوں گا۔یعنی ان پیج فائل کی اٹیچ منٹ بھیجنا اور گف فائل بنا کر
اردو میں ای میل بھیجنا۔یہ باتیں جاننے والوں کے لئے بہت معمولی سی ہیں
لیکن نہ جاننے والوں کے لئے بہر حال حیرانی کی باتیں ہیں۔چنانچہ جب میں نے
اردو میں ای میل کا کامیاب تجربہ کیا تو عزیزی صبا بچوں کی طرح خوشی کا
اظہار کرنے لگی۔اردو پروگرام کو کمپیوٹر میں کاپی کرنا۔پھر ’’یوزرس ڈیفائنڈ
کی بورڈ‘‘کو تیار کرنا اور پھر ای میل کے مراحل سے گزرنایہ سب کچھ کرنے
اور سمجھانے میں اتنی دیر ہو رہی تھی کہ الوداعی ڈنر پر جانا مشکل ہو گیا
تھا۔میری طبیعت ویسے بھی ٹھیک نہیں تھی۔چنانچہ میں نے ڈنر کو مس کردیا اور
اردو پروگرام کے لئے جتنا کچھ میرے بس میں تھااسے آگے پہنچانے میں لگا
رہا۔جبکہ الوداعی ڈنر میں وزیر اعظم اور نائب صدر دونوں نے آنا تھا ۔<br />
میرے مقالہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے اردو کی چند
اہم اور ادبی قسم کی ویب سائٹس کا ذکر آیا تھا ۔اس پر ماریشس کے احباب نے
خاص طور پر خوشی کا اظہار کیا۔میں ماریشس کے احباب کے لئے اپنا اردو
پروگرام ’’اردو۔۲۰۰۰‘‘لے گیا تھا۔چنانچہ کانفرنس کے دوران کمپیوٹر رکھنے
والے دوستوں کو وہ سوفٹ وےئر دے دیتا تھا۔وہ اپنے کمپیوٹر میں اسے کاپی
کرکے مجھے واپس کردیتے۔کچھ اس کا اثر تھا۔آخر میں جب ویب سائٹ بنانے کی ذمہ
داری بھی میں نے اپنے سر لے لی تو ساری کانفرنس نے مجھے اردو میں آئی ٹی
کا ایکسپرٹ قرار دے دیا۔قاضی افضال حسین نے تو اپنی تقریر میں یہاں تک کہہ
دیا کہ حیدر قریشی کہتے ہیں کہ وہ دو ماہ میں ویب سائٹ بنوا دیں گے۔مجھے
لگتا ہے دو ماہ سے بھی کم عرصہ میں ایسا کردیں گے۔میں ان ساری باتوں پر اس
لئے مسکراتا رہا کہ مجھے علم تھاجب اس تاثر کے بارے میں اپنے دوستوں خورشید
اقبال اورکاشف الہدیٰ کو بتاؤں گا تو وہ بہت ہنسیں گے۔اور ان سے پہلے میرا
بیٹا ٹیپو ہنسے گا جو مجھے انگلی پکڑ کر کمپیوٹر کو استعمال کرناسکھاتا
ہے۔چنانچہ بعد میں یہی ہوا۔لیکن مجھے خوشی ہے کہ ان سب کی وجہ سے سہی
ماریشس میں اردو پروگرام بڑے پیمانے پر متعارف ہو رہا ہے،یہ بھی اردو کے
فروغ کی ایک صورت ہے۔<br />
*** </span><br />
</div>
khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-4969399035779789512011-07-15T06:36:00.000-07:002011-07-15T23:07:26.878-07:00بزمِ جاں<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">بزمِ جاں</span></b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>’’میری محبتیں ‘‘کی اشاعت سے پہلے ہی مجھے احساس تھا کہ اس میں شامل بعض شخصیات ایسی تھیں کہ ان پر مزید لکھا جانا چاہئے تھا۔بعض لوگ جن کا بیچ بیچ میں کہیں برسبیلِ تذکرہ نام آگیا ہے‘ان کی زندگی کے بعض خوبصورت انسانی رُخ بھی سامنے آنے چاہئیں تھے۔بہت سارے عزیز اور احباب ایسے ہیں جن کا پورا خاکہ نہیں لکھا جا سکتالیکن ان کے ذکر کے بغیر میری زندگی کی رُوداد بھی ادھوری رہے گی اور میری محبتیں بھی۔۔۔۔۔مزید خاکہ نگاری تو جب بھی ہوئی اپنے وقت پرہو گی۔ فی الوقت میں اپنی زندگی۔۔۔گزاری ہوئی زندگی کی طرف تو پلٹ کر دیکھ سکتا ہوں۔اپنے بہت سارے پیاروں‘رشتہ داروں‘دوستوں اور’’کرم فرماؤں‘‘سے تجدیدِ ملاقات تو کرسکتا ہوں۔سو بکھری ہوئی یادوں کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔</b><br />
<b>جرمنی پہنچنے کے بعد بچپن میں امّی جی سے سنی ہوئی کئی کہانیاں یاد آئیں۔مبارکہ جس کی سادگی کا میں پاکستان میں مذاق اڑایا کرتا تھا‘جرمنی میں اب اس کے سامنے میں ایک پاکستانی’’پینڈو‘‘تھا۔مبارکہ بچوں سمیت مجھ سے اڑھائی سال پہلے جرمنی میںآچکی تھی اس لئے یہ ملک اس کے لئے اجنبی نہیں رہا تھا جبکہ میں ’’کثرتِ نظّارہ‘‘سے ایسے رُک رُک جاتا تھا جیسے شہر کے چوراہے پر ’’گواچی گاں‘‘کھڑی ہوتی ہے۔پہلی بار ایک مارکیٹ میں داخل ہونا تھا۔میں دروازے کے قریب پہنچا تو آٹو میٹک دروازہ اپنے آپ کھل گیااورمیرا منہ حیرت سے کھل گیا۔امی جی سے سنی ہوئی ’’ علی بابا اور چالیس چور‘‘والی کہانی یاد آگئی ۔اُس کہانی میں ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے سے دروازہ کھلتا تھا۔یہاں تو مجھے ’’کھل جا سم سم‘‘کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئی۔دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔زمین دوز ریلوے اسٹیشنوں میں‘مارکیٹوں میں‘اُوپر نیچے آنے جانے کے لئے خودکا رسیڑھیاں لگی ہوئی ہیں۔میں نے پہلی بار جھجھک کے ساتھ بجلی کی سیڑھی پر قدم رکھا‘ہلکا سا چکر آیا۔میں نے لحظہ بھر کے لئے آنکھیں موندلیں‘جیسے ہی آنکھیں کھولیں‘اُوپر کی منزل پر پہنچ چکا تھا۔کسی اناڑی کی طرح سیڑھی کی حد سے باہر آیاتو امی جی کی سنائی ہوئی کئی کہانیاں یاد آنے لگیں۔کہیں کوئی نیک دل دیو ہے‘کہیں سبز پری اورکہیں کوئی درویش ہے جو مہم جُو شہزادے کو کسی لمبی مسافت کی کوفت سے بچانے کے لئے‘اس کی مدد کرتے ہوئے اُسے آنکھیں مُوندنے کے لئے کہتے ہیں‘پھر جب شہزادہ آنکھیں کھولتا ہے تو منزلِ مقصود پر پہنچا ہوتا ہے۔میں اُوپری منزل پر پہنچا تو میرے ساتھ نہ کوئی نیک دل دیوتھا‘نہ کوئی درویش اور نہ ہی کوئی سبز پری۔۔۔۔صرف مبارکہ میرے ساتھ تھی ۔اس نے اگر سبز سوٹ پہنا بھی ہوا تھا تو وہ اس کے برقعہ کے کوٹ کے نیچے چھپا ہوا تھا۔اس کے باوجود میں نے مبارکہ کو من ہی من میں سبز پری سمجھا اور خود کو شہزادہ گلفام سمجھ کر خوش ہو لیا۔</b><br />
<b>یہاں کے گھروں میں کھڑکیوں کا شیشہ ایسا ہے کہ آپ اندر بیٹھے ہوئے باہر کی ہر چیز کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ باہر کھڑا ہوا کوئی آدمی آپ کو بالکل نہیں دیکھ سکتا۔جب مجھے پہلے پہل اس کا علم ہوا دھیان فوراََ سلیمانی ٹوپی والی کہانی کی طرف چلا گیا۔مجھے ایسے لگنے لگا جیسے میں امی جی کی سُنائی ہوئی ڈھیر ساری کہانیوں کا جیتا جاگتا کردار بن گیا ہوں۔ساری کہانیاں جیسے اپنے آپ کو میرے وجود میں دُہرانے لگی ہیں۔کاش!امی جی زندہ ہوتیں اور میں انہیں اُن کی سنائی ہوئی کہانیوں کا حقیقی رُوپ دکھا سکتا۔اب تو وہ خود ہی کہانی بن گئی ہیں۔ </b><br />
<b>اپنے ہاں تو غالبؔ اُس چارگرہ کپڑے کا افسوس کرتے رہے جس کی قسمت میں عاشق کا گریباں ہونا لکھا ہوتا ہے۔اِدھر مغرب میں اُس تین گرہ کپڑے کی قسمت پر رشک آتا ہے جو گرمیوں میں حسینانِ مغرب نے زیب تن کر رکھا ہوتا ہے۔ایک طرف ایسا توبہ شکن منظر ہوتا ہے‘ دوسری طرف برقعہ میں لپٹی لپٹائی مبارکہ بیگم۔۔۔۔۔میں نے اسے کئی بار سمجھایا ہے‘پردہ کا مطلب خود کو دوسروں کی نظروں سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔پاکستان میں تو چلو ٹھیک ہے لیکن یہاں جرمنی میں اس قسم کا برقعہ تو پردے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ہر کسی کو متجسّس کردیتا ہے کہ یہ کیا شے جا رہی ہے؟میں نے دو تین دفعہ اسے تجربہ کرایا کہ عام آنے جانے والی گوریوں کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا لیکن مبارکہ کے بھاری بھر کم پردے کی وجہ سے ہر گزرنے والا ہمیں تعجب سے دیکھتا ہے اور ضرور دیکھتا ہے۔یوں مبارکہ کی بے پردگی ہو نہ ہومیری اچھی خاصی بے پردگی ہو جاتی ہے۔لیکن اس پر میری کسی بات کا اثر نہیں ہوتا۔</b><br />
<b>ایبٹ آباد میں قیام کے دوران طاہر احمد کے بعد ایک اور صاحب سے میری گہری دوستی تھی۔یہ سرگودھا کے مسعود انور تھے۔ڈاکٹر انور سدید کے صاحبزادے۔۔۔۔ان کے ساتھ انور سدید صاحب والی نسبت سے تو دوستی تھی ہی‘لیکن ہماری ایک حد تک ہم عمری بھی اس کے استحکام کا باعث بنی۔ادب اور سیاست کی تازہ صورتحال پر ہم کھل کر گفتگو کرتے تھے۔موسیقی سے مسعود انور کو خاصا لگاؤ تھا۔انہوں نے آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں کا نایاب ذخیرہ جمع کر رکھا تھا۔کسی لائبریری کی کتابوں کی طرح انہیں ترتیب سے رکھا تھا۔امید ہے ابھی تک اُن کا شوق سلامت ہوگا۔اُن دنوں وہ ذاتی طور پر ویڈیو کیسٹس میں ادیبوں کے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔خدا جانے وہ منصوبہ کہاں تک پہنچا۔ہمارے درمیان اتنی بے تکلفی تھی کہ ہم ایک دوسرے کا مذاق اڑالیتے تھے لیکن ایک دن مسعود نے ایک بات اتنی سنجیدگی اور عقیدت سے کہی کہ ہمیں بھی سنجیدہ ہونا پڑا۔</b><br />
<b>انہیں کسی زمانے میں سوتے وقت سینے پر بوجھ اور گھبراہٹ کی شکایت ہوجاتی تھی۔معدے کی خرابی ‘سینے کی جلن اور دیگر امکانی بیماریوں کے سارے علاج کرالئے ‘کوئی افاقہ نہیں ہوا۔اس دوران ان کی ایک پِیر سائیں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مسعود کو ہدایت کی کہ گھر کے کمروں کی دیواروں سے ساری تصویریں اتار دیں کیونکہ تصویروں کی اصل رُوحیں رات کو آپ کے سینے پر چلتی ہیں۔مسعود نے ایسا ہی کیا اور حیرت انگیز طور پر صحت یا ب ہو گئے۔ہو سکتا ہے یہ پِیر سائیں کا فیضانِ نظر ہو اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفسیاتی اثرہوا ہو۔ نتیجہ بہرحال اچھا رہا۔تب مجھے بھی اُن پِیر سائیں سے ملنے کی خواہش ہوئی‘ لیکن رابطہ ہونے سے پہلے مجھے وطنِ عزیز کو خیر باد کہنا پڑ گیا ۔۔۔۔۔اس قصہ کو سننے کے بعد ایک دن میں اور طاہر شاپنگ کرنے گئے۔وہاں طاہر بڑے شوق سے ریکھا‘سری دیوی ‘ مادھوری اور دوسری مقبول فلمی اداکاراؤں کے پوسٹرز کی قیمتیں معلوم کرنے لگا۔میں نے حیرانی سے اس کا سبب پوچھا‘کیونکہ طاہر کو فلمیریا کی کوئی شکایت نہیں تھی۔سنجیدگی سے کہنے لگا میں چاہتا ہوں راتوں کو ان سب کی رُوحیں میرے سینے پر چلتی رہیں کیونکہ رُوح کا ملن ‘جسم کے ملن سے زیادہ اہم ہے۔اس لئے ان کے پوسٹرز اپنے کمرے میں لگاؤں گا۔</b><br />
<b>ایبٹ آباد میں ہمارے کالج کے بعض اساتذہ’’مریضانِ محبت‘‘بنے ہوئے تھے۔ایک دفعہ یونہی اُوٹ پٹانگ باتیں ہورہی تھیں۔میں نے ان سے کہا کہ خواہش کی شدت خواب کا رُوپ دھارلیتی ہے۔اگر کبھی کسی کو خواب میں اپنی کوئی پسندیدہ شخصیت کسی من پسند حالت میں دکھائی دے تو بیدار ہونے پر بستر کی پائینتی کی طرف سر کر کے سو جائیں۔اُسی رات آپکی وہ پسندیدہ شخصیت اپنی نیند میں وہی خواب عین اُسی حالت میں دیکھ لے گی۔’’مریضانِ محبت‘‘نے اس فارمولے پر تھوڑی سی بے یقینی اور زیادہ خوشی اور حیرت کا اظہار کیا۔اگلے دن دو نوجوان اساتذہ ڈیوٹی پر آئے تو اُن کی آنکھیں سُرخ اور طبیعت بوجھل بوجھل سی تھی۔ملتے ہی کہنے لگے یار قریشی صاحب! ہم تو ساری رات پائینتیاں ہی بدلتے رہے ہیں۔</b><br />
<b>خواب کی اس مزاحیہ بات سے اپنی زندگی کے دو واقعات یاد آگئے۔سنجیدہ اور حیران کُن۔۔۔خانپور میں شوگر ملز کی ملازمت کے دوران ایک دفعہ میری شام ۶بجے سے رات ۲ بجے تک والی شفٹ تھی۔گھر سے چلا تو ہلکے سے ٹمپریچر کا احساس ہو رہا تھا‘فیکٹری پہنچنے تک بخار ہو گیا۔میں نے ساتھیوں کو اپنا کام سونپا اور خود لیبارٹری کے ڈارک رُوم میں جاکرلیٹ گیا۔فرش پر فلٹر کلاتھ کا ایک ٹکڑا بچھا ہوا تھا‘ایک اینٹ کا تکیہ بنا لیا لیکن اُوپر لینے کے لئے کوئی کپڑا نہیں تھا۔بخار کی وجہ سے ٹھنڈ بھی لگ رہی تھی۔میں اپنے آپ میں سمٹ کر ٹھنڈ سے بچنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔اسی دوران بخار کی غنودگی کی حالت میں ایسے لگا جیسے کسی نے آکر گرم رضائی میرے اُوپر ڈال دی ہو۔کسی کے آنے‘اپنے اُوپر رضائی ڈالے جانے اور پھر اس رضائی کو اپنے دائیں ‘بائیں اچھی طرح لپیٹنے کا عمل مجھے صاف صاف محسوس ہوا تھا۔پھر مجھے گہری نیند آگئی۔رضائی کی گرمائش سے کھل کر پسینہ آیا ۔</b><br />
<b>چھٹی کے پہلے سائرن کے ساتھ میری آنکھ کھلی تو مجھے محسوس ہوا بخار اُتر چکا ہے۔میں نے رضائی کو اپنے اُوپر سے ہٹاکر اُٹھنا چاہا۔لیکن میرے اُوپر تو کوئی رضائی نہیں تھی۔پھر یہ سب کیا تھا؟۔۔۔۔میں نے ابا جی کو یہ بات بتائی تو انہوں نے کہا ایسے واقعات کو کسی کے آگے بیان نہیں کرنا چاہئے ورنہ انسان ایسے تجربات کی لذّت سے محروم کردیا جاتا ہے۔(ابا جی کی وفات کے بعد ابا جی کے تعلق سے ایک تجربے کے بعد مجھے باباجی نے بھی ایسی ہی نصیحت کی تھی۔لیکن شاید مجھ میں اخفاء کی برداشت کی قوت نہیں ہے) ۔</b><br />
<b>لگ بھگ بیس سال کے بعد یہاں جرمنی میں پھر ایک انوکھا واقعہ ہوا۔مجھے انفیکشن کی شکایت تھی۔ایک ہفتہ گزر گیا لیکن سستی کے مارے اپنے فیملی ڈاکٹر Herr Ehrhardt کے پاس نہیں جا سکا۔جب گلا بالکل بیٹھ گیا تب ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔ڈاکٹر پہلے تو اس بات پر ناراض ہوا کہ میں اتنی دیر کرکے کیوں آیا ہوں جب حالت اتنی بگڑ گئی ہے۔اب اسے کیا بتاتا کہ یہی تو ہمارے پاکستانی ہونے کا ثبوت ہے۔جب تک پانی ہمارے گلے تک نہ آجائے ہمیں بے فکری رہتی ہے۔بہرحال ڈاکٹر نے صبح‘دوپہر‘شام تینوں وقت بلا ناغہ سات دن تک کھانے کے لئے گولیاں دیں اور سخت تاکید کی کہ سات دنوں میں ایک وقت کا بھی ناغہ نہیں کرنا۔لیکن ہوا یوں کہ اسی دن میرے ماموں زاد مبشر اور ان کی بیگم ہمیں لینے کے لئے آگئے۔وہ ہمبرگ سائڈ کو چھوڑ کر ہمارے قریب ایک شہر لمبرگ میں نئے نئے آئے تھے۔ان کے مکان کی سیٹنگ کرنی تھی۔اسی کام کے لئے غزالہ اور اجمل بھی آگئے تھے۔میں صبح کی گولی کھا چکا تھا۔دوپہر کی گولی بھی کھا لی۔کام نمٹانے کے بعد غزالہ اور اجمل اپنے گھر چلے گئے۔مبارکہ اور میں وہیں رہ پڑے۔دن بھر کی تھکن کے باعث مجھے سخت نیند آرہی تھی۔اسی حالت میں بار بار یہ احساس ستا رہا تھا کہ پہلے ہی دن گولی کا ناغہ نہ ہو جائے اسے کھا کر ہی سونا چاہئے۔لیکن تھکن اتنی زیادہ تھی کہ میں سوچتا ہی رہ گیا اور نیند نے مجھ پر غلبہ پا لیا۔پھر میں نے نیند میں ہی محسوس کیا کہ وہی انفیکشن کے علاج والی ایک موٹی سی گولی کسی نے میرے منہ میں ڈال دی ہے ۔میں پانی کے بغیر اسے نگلنے کی کوشش کر رہا ہوں اور بالآخر نگل گیا ہوں۔</b><br />
<b>صبح بیدار ہوا تو ایسے لگتا تھا میرے ساتھ کوئی پُر اَسرار واقعہ ہو گیا ہے۔مجھے یقین تھا کہ میری گولیوں کے پیکٹ میں سے لازماََ ایک گولی کم ہو چکی ہوگی۔میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ گولیوں کو چیک کیا‘گولیاں جُوں کی تُوں موجود تھیں‘ان میں کوئی کمی نہیں ہوئی تھی۔لیکن یکایک مجھے احساس ہوا کہ ڈاکٹر نے جس بیٹھے ہوئے گلے کے ٹھیک ہونے کے لئے سات دن کی دوا دی تھی اور ایک وقت کا ناغہ بھی نہ کرنے کی تاکید کی تھی‘وہ گلا بالکل ٹھیک ہو چکا تھا۔تب میں نے خوشی کے مارے مبارکہ کو زور زور سے پکارنا شروع کردیا۔جب وہ آئی تو اسے رات کے خواب جیسے تجربے سے آگاہ کیا۔جب سارا قصہ سنا چکا تب مجھے ابا جی کی نصیحت یاد آئی لیکن تِیر تو کمان سے نکل چکا تھا اور پھر مجھے ابا جی بہت یاد آئے۔ہوسکتا ہے خواہش کی شدت خواب میں کسی نفسیاتی طریقے سے علاج بھی کر دیتی ہو۔ایسا ہے تو تب بھی یہ ایک سائنسی بھید ہے ۔ ویسے تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کیا بھید ہے لیکن ان دو تجربات سے یہ فائدہ ہوا کہ مجھے اپنی کہانی’’بھید‘‘لکھنے کی تحریک ہوئی۔</b><br />
<b>میرا چھوٹا بھائی اکبر کراچی میں سیٹ ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔وہیں ماموں کوثر پہلے سے سیٹ تھے۔ان کا بیٹا شکور باجوہ‘اکبرکا ہم عمر تھااور دوست بھی۔سانگلہ ہل میں مقیم میری ماموں زادآپا حلیمہ کا بڑا بیٹا محمود‘رشتے میں ہمارا بھانجہ ہے۔اکبر اور شکور کے ایج گروپ میں ہونے کے باعث ان کا بھانجہ کم اور دوست زیادہ تھا۔اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے عمروں کے واضح فرق کے باوجود میرے ساتھ بھی بے تکلفی کر جاتا تھا۔محمود تلاش معاش کے سلسلے میں کراچی پہنچا تو تین خوش مزاج نوجوانوں کی مثلث بن گئی۔جہاں یہ تینوں پہنچتے‘شیطان بھی ان سے پناہ مانگتا۔شکور کی گپ بازی‘اکبر کا پُر لطف طنز اور محمود کی جُگت بازی‘ ۔۔یوں سمجھیں معین اختر‘عمر شریف اور امان اﷲ خان تینوں کامیڈین ایک ساتھ آگئے ہیں۔تینوں مل کر اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیتے ۔ایک دوسرے سے بھی ہاتھ کرلیتے تھے۔اکبر گھر پر نہیں تھا۔محمود نے آکر اکبر کی بیوی زاہدہ سے کہا کہ ماموں حیدر کے دوست اظہر ادیب خانپور سے آئے ہیں۔اکبر سے ملنا چاہتے ہیں۔زاہدہ نے کہا اکبر تو دیر سے آئیں گے۔تم انہیں بیٹھک میں بٹھاؤ ‘میں کھانے پینے کو کچھ بھجواتی ہوں۔محمود خود ہی اظہر ادیب بن کر بیٹھک میں بیٹھ گیا ۔پھر اُٹھ کر ریفریشمنٹ لے کر آیا اور خود ہی کھا پی گیا۔اس کے بعد زاہدہ کو آکر بتایا کہ وہ ذرا جلدی میں ہیں اس لئے اب جانا چاہتے ہیں۔شاید پھر کبھی چکر لگائیں لیکن وہ پھر کبھی چکر نہ لگا سکے کیونکہ تھوڑی دیر بعد محمود نے خود ہی اصل بات بتا دی۔</b><br />
<b>فی الوقت مجھے ان تینوں کے جو کارنامے یاد آرہے ہیں‘انہیں خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ ہی رہنے دینا چاہتا ہوں۔تینوں پاکستانی نوجوان بے روزگار تھے۔تینوں ترکِ وطن پر مجبور ہوئے۔اکبر لندن چلا گیا‘شکور جرمنی آگیا اور محمود امریکہ پہنچ گیا۔اس کے باوجود بھانڈوں کا یہ گروپ ایک دوسرے سے جُڑا ہوا تھا۔زندگی کی مزاحیہ فلم کے ان تین مرکزی کرداروں کے ساتھ ایک اور کامیڈی کردار ذکیہ کا ہے۔ذکیہ میری ماموں زاد بہن ہے۔دس سال پہلے ٹُن ٹُن(اومادیوی)جیسی لگتی تھی‘چہرہ عابدہ پروین جیسا۔۔۔۔۔اب تو ضخامت میں بہت ترقی کر گئی ہے۔تکلیف دہ موٹاپے کے باوجود اس کی خوش مزاجی اور زندہ دلی سلامت تھی۔یہاں’’تھی‘‘کالفظ میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔۱۹۹۶ء میں شکور ۳۹ سال کی عمر میں فوت ہو گیا تو زندگی کی مزاحیہ فلم المیہ سے دوچارہو گئی۔ ہر دَم خوش رہنے اور ہنسنے ‘ہنسانے والوں کو چُپ سی لگ گئی۔</b><br />
<b>جرمنی میں مقیم ہونے کے باعث شکور کا ہم سے گہرارابطہ تھا۔ہمبرگ سے کسی نہ کسی بہانے ہر مہینے فرینکفرٹ کا چکر لگا جاتاتھا۔اس کا قیام ہمیشہ ہمارے گھر میں رہا۔حالانکہ بھابی رعنا کے بہن بھائی بھی اِدھر ہی رہتے ہیں اور ہمارے اپنے دو کزنز بھی قریب ہی رہتے ہیں لیکن شکور فیملی ہمیشہ ہمارے گھر میں ہی قیام پذیر ہوتی۔ان کے چاروں بچے ہمارے ہاں آنے کے بعد کہیں اور جانے کا نام نہیں لیتے تھے۔شکور کے مزید ذکر سے پہلے ایک ہلکا سا دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔۔۔کراچی میں ماموں صادق کے گھر کے ساتھ والے گھر سے بھی اس قصے کا تعلق بنتا ہے۔</b><br />
<b>ایک دفعہ میں کراچی گیا‘ماموں صادق کے ہاں ٹھہرا تھا۔گرمیوں کے دن تھے لیکن راتیں ٹھنڈی ہوجاتی تھیں۔میں رات کو بیٹھک میں سویا۔چھت کا پنکھا چَل رہا تھا۔آدھی رات کومجھے ٹھنڈک کا احساس ہونے لگاتومیں نے اُٹھ کر چھت کا پنکھا بند کردیااور پھر لیٹ گیا۔مجھے محسوس ہوا کہ سوئچ آف کرنے کے باوجود پنکھا چَل رہا ہے۔بلب جلا کر چیک کرنے کی بجائے میں نے نیچے کی چادر اوپر لے کر گزارہ کرلیا۔پھر بھی مجھے رات بھر ٹھنڈ لگتی رہی۔صبح اُٹھ کر دیکھا تو پنکھا بند تھا۔ممانی زاہدہ سے پوچھا پنکھا آپ نے بند کیا تھا؟انہوں نے کہا’’نہیں‘‘۔</b><br />
<b>میں نے کہا رات تو یہ بند کرنے کے باوجود بند نہیں ہوا تھاپھر اب کیسے بند ہو گیا؟ جبکہ میں رات بھر ٹھٹھرتا رہا ہوں۔ممانی زاہدہ سارا ماجرا جان گئی تھیں۔انہوں نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا ساتھ والے ہمسایوں کے ملحقہ کمرے کا پنکھا رات بھر چلتا رہا تھا۔ اس کی گڑ گڑاہٹ سے تم سمجھتے رہے کہ تمہارے کمرے کا پنکھا چلتا رہا ہے۔</b><br />
<b>لیکن پھر مجھے ٹھنڈ کیوں لگتی رہی؟ میں نے پوچھا تو ممانی زاہدہ نے پھر ایک زوردار قہقہہ لگایا اور بتایا کہ یہ پہاڑی کے رُخ والی کھڑکی کھلی تھی جس سے ہوا آتی رہی۔اُسی دن ممانی زاہدہ نے ہمسایوں سے شکایت کی کہ آپ کے پنکھے کی وجہ سے ہمارا بھانجہ ساری رات پالے سے ٹھرتا رہا ہے ۔اس شکایت پر غور کرنے کے بعد ہمسایوں نے مطالبہ کیا کہ چونکہ ہمارے پنکھے سے آپ کے بھانجے کو ہوا محسوس ہوتی رہی ہے اس لئے رات بھر کا بجلی کا بِل آپ ادا کریں۔ انہیں ہمسایوں کی چھوٹی بہن رعنارفعت بعد میں شکور سے شادی کرکے رعنا شکور بنیں۔</b><br />
<b>ماموں کوثر اور ممانی شمیم نے اس رشتے کی شدید مخالفت کی پھر یکایک ماموں کوثر اس شادی کے لئے راضی ہو گئے۔میں نے شکور سے پوچھا کہ ماموں کوثر اس رشتے کے لئے یکدم کیسے راضی ہو گئے تھے؟۔۔۔۔شکور کہنے لگا:اُس دن گھر میں بہت سارے مہمان آگئے تھے۔بستر کم پڑ رہے تھے۔سو مجھے رات کو ابا جی کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر سونا پڑا۔تب مجھے دن میں بھی رعنا کے خواب نظر آتے تھے‘رات کو تو آتے ہی آتے تھے۔چنانچہ پتہ نہیں کس پَل میں‘ مَیں کس کیفیت سے دو چار تھاجبکہ چارپائی پر تو ساتھ ابا جی سوئے ہوئے تھے۔اُس رات اباجی تہجد کے وقت سے بھی پہلے اُٹھ گئے۔میرے بیدار ہونے پر انہوں نے مجھے بُرا بھلا کہا اور ساتھ ہی رعنا سے شادی کرنے کی اجازت دے دی۔</b><br />
<b>ماموں کوثر بنیادی طور پر سیلف میڈ انسان ہیں۔انہوں نے اپنی محنت سے بے شمار کمایا اور شوبازی سے گنوا بھی دیا۔مجھے یاد ہے ہمارے رحیم یارخاں میں قیام کے زمانے میں رحیم یار خاں آئے تھے۔یہاں اباجی سے پیسے مانگنے کی بجائے انہوں نے’لیور برادرز ‘میں دیہاڑی والی مزدوری کی۔تھوڑی سی رقم جوڑی اور تلاشِ رزق میں کراچی جاپہنچے۔وہاں فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر پینسلیں‘قلم وغیرہ فروخت کرنے سے کام کا آغاز کیا۔خدا کے فضل اور اپنی محنت سے ایک ہوزری کے مالک بن گئے۔ عروج تک پہنچے تو کچھ ان کی ’’شوبازی‘‘کی عادت نے اور کچھ ممانی شمیم کی’’ میں ‘‘نے پھر زوال سے ہمکنار کردیا۔سب کچھ ختم ہو گیا‘پھر سے فٹ پاتھ پر آگئے لیکن حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔نئے سرے سے محنت کی۔</b><br />
<b>دوسری بار جب ابھی تگ و دو میں مصروف تھے‘میرا کراچی جانا ہوا۔ایک دن مجھے افسانہ نگار فردوس حیدرکے ہاں جانا تھا‘ماموں بھی ساتھ ہو لئے۔میری پہلی ملاقات تھی لیکن ماموں کوثر نے کچھ سوچے سمجھے بغیر وہاں بھی لمبی لمبی چھوڑنی شروع کردیں۔خود کو پی آئی اے کے ایک پراجیکٹ کا کنٹریکٹر ظاہر کیا۔مجھے خاصی شرمندگی ہو رہی تھی۔یہ شرمندگی اس وقت اور بڑھ گئی جب فردوس حیدر ہمیں خدا حافظ کہنے کے لئے باہر تک آگئیں۔جب انہوں نے دیکھا کہ پی آئی اے کے اتنے بڑے کنٹریکٹر کے پاس گاڑی نہیں ہے‘تب انہوں نے اپنی گاڑی نکال کر گھر تک پہنچا دینے کی پیش کش کی۔میں تو زمین میں گڑا جارہا تھا مگر ماموں کوثر کو معمولی سی خفّت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ان کے حوصلے اور جرأت کا میں تب سے معترف ہوں۔ممانی شمیم کی ’’میں‘‘اور ماموں کوثر کی بے جا’’شوبازی‘‘کے عیب کو نظر انداز کردیا جائے تو ان کی یہ خوبی اُبھر آتی ہے کہ وہ سخت محنت اور لگن والے انسان ہیں۔انہوں نے دوسری بار فٹ پاتھ سے ایک کامیاب فرم قائم کرنے تک کا سفر کرلیا ہے۔اب تو ان کے پاس سچ مچ گاڑیاں بھی آگئی ہیں۔اب جب کبھی کراچی جانا ہوا فردوس حیدر کے ہاں ماموں کوثر کے ساتھ ہی جاؤں گا اور اس بار مجھے خفّت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا کیونکہ اس بار سچ مچ ماموں کوثر کے پاس گاڑی ہو گی۔</b><br />
<b>شکور کو جب پہلے پہل ہسپتال میں داخل کیا گیا ‘مَیں‘اجمل‘شعیب اور عثمان فوراََ ہمبرگ پہنچے ۔ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔بھابی رعنا سے کہنے لگا :دیکھو!بھائی ایسے ہوتے ہیں۔اس کا اصرار تھا کہ ہم سب عید اُس کے ہاں آکے کریں۔میں نے ایک خصوصی پیش کش کے ساتھ اسے کہا کہ آپ سب لوگ عید پر ہمارے ہاں آجائیں۔شکور راضی ہو گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ عید پر ضرور آؤں گا۔</b><br />
<b>جب ہم واپس آنے لگے ‘شکور نے مجھے اکیلے کو روک لیا۔کچھ گھریلو باتوں کے علاوہ اس نے ایک دُکھ کا اظہار کیا۔کہنے لگا:میں ستمبر (۱۹۹۵ء) میں پاکستان جاکر والدین سے مل کر آیا ہوں۔ابھی اُس سفر کے قرضے نہیں اترے۔ اس غیر حاضری کی وجہ سے نوکری بھی جاتی رہی۔جنوری (۱۹۹۶ء) میں چھوٹی بہن کی شادی پر جانا میرے لئے ممکن نہیں تھاتب سے اباجی (ماموں کوثر)سخت ناراض ہیں۔جب بھی میں نے ٹیلی فون کیاہے میری آواز سنتے ہی ٹیلی فون بند کردیتے ہیں۔یہ بات بتاتے ہوئے اس کے اندر کا سارا کرب اس کی آواز اور اس کی آنکھوں سے عیاں تھا۔میرے ساتھ اس ملاقات کے بعد بھابی رعنا کی اس سے ایک بار ملاقات ہوئی اور پھر وہ آپریشن رُوم میں چلا گیا۔جگر کی تبدیلی کا آپریشن تھا۔نازک صورتحال تھی۔جرمنی میں مقیم سارے عزیز ہمبرگ پہنچنے لگے۔مبارکہ‘رضوانہ‘حفیظ‘شعیب‘عثمان‘ٹیپو‘اویس،غزالہ‘اجمل‘مبشر ، بھابی نوشی‘عارفہ‘منان‘ سب مضطرب تھے۔بھابی رعنا کی حالت تو ناقابلِ بیان تھی۔</b><br />
<b>دھڑکتے دلوں کے ساتھ دعائیں ہو رہی تھیں۔لیکن کوئی دعا کارگر نہ ہوئی۔شکور فوت ہو گیا۔اس کی میّت پاکستان بھجوانے کا انتظام کیا جانے لگا۔اس سلسلے میں اﷲ تعالی اجمل کو جزائے خیر دے جس کی ہمت اور تگ و دو کے نتیجہ میں میّت کو پاکستان بھجوانے کا انتظام ہو سکا۔</b><br />
<b>عید سے ایک دن پہلے شکور کی میّت ہمبرگ سے فرینکفرٹ پہنچی۔</b><br />
<b>زندگی بھر گپیں ہانکنے والا میرا کزن مرنے کے بعد وعدے کا اتنا پکا نکلے گا۔</b><br />
<b>یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ </b></div><div style="text-align: center;">*** </div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-6487442872426274552011-07-15T06:34:00.000-07:002011-07-15T23:08:25.632-07:00ددھیال کے رشتہ دار<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">ددھیال کے رشتہ دار</span></b></div><br />
<b>میرے ددھیال میں ابا جی اور بابا جی صرف دو ہی بھائی تھے‘بہن کوئی نہ تھی‘سو ہماری کوئی پھوپھی نہ تھیں۔تاہم ابا جی اور بابا جی کی دو کزنز تھیں۔بُوا حیات خاتوں اور بُوا لال خاتوں۔دونوں سے ہمیں پھوپھیوں کا اتنا پیار ملا کہ کسی حد تک پھوپھیوں کی عدم موجودگی کی تلافی ہوگئی۔بُوا حیات خاتوں چاچڑاں شریف میں بیاہی ہوئی تھیں۔ہمارے رحیم یار خاں میں قیام کے دوران ‘اور پھر خانپور میں قیام کے دوران بھی ان کا ہمارے ہاں مسلسل آنا جانا رہا۔ان کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی۔مجھے امی جی کے بعد بچپن میں سب سے زیادہ کہانیاں بُواحیات خاتوں نے سُنائیں۔ان کی کہانیوں میں انسانوں ‘پرندوں اورجانوروں کے کردار مل جل کر رہتے تھے۔</b><br />
<b>بُوڑھی مائی نے کوّے سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>چڑیا شہزادے سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>ایک کہانی جو مجھے آج بھی بہت اچھی طرح یاد ہے اس میں تو چُوہا‘بلّی‘کتّا‘ڈانگ‘آگ‘چھوٹی نہر‘بڑی نہر‘درخت۔۔۔۔یہ ساری چیزیں بھی باتیں کرتی تھیں۔شاید ایسی کہانیاں انسان اور فطرت میں مغائرت سے پہلے کے ‘پرانے زمانے کی یادوں کی بازگشت ہوتی ہیں جو کچھ ہمارے شعور میں اور کچھ لا شعور میں ہمیں ورثہ در ورثہ ملتی رہتی ہیں۔</b><br />
<b>بوا حیات خاتوں بڑھاپے میں بھی بے حد خوبصورت تھیں۔ذہین لیکن دل کی سادہ۔۔۔زمانے کی رفتار پر حیران لیکن اس کے حیرت انگیز ارتقا کو جانتی بھی تھیں اور مانتی بھی تھیں۔ان کے بر عکس بُوا لال خاتوں بہت ہی بھولی بھالی تھیں۔بُوا لال خاتوں کوٹ شہباز میں بیاہی ہوئی تھیں۔کوٹ شہباز قریشیوں کی اپنی بستی ہے۔پہلے تو ایک ہی بڑی ساری حویلی تھی جس کے اندر سب کے اپنے اپنے گھر تھے۔اب حویلی سے باہر بھی مکانات کی تعمیر ہوگئی ہے تاہم اصل حویلی ابھی بھی قائم ہے۔۔۔اگررحیم یارخاں سے ظاہر پِیر کی طرف جائیں تو رستے میں</b><br />
<b>’’ شیخ واہن ‘‘کا اسٹاپ آتا ہے۔یہاں سے اندازاََ دو میل کے فاصلے پر’’ کوٹ شہباز‘‘ہے۔</b><br />
<b>بچپن میں ہم نے جب بھی کوٹ شہباز جانا ہونا تھا شیخ واہن کے بس اڈے پر ہمیشہ پہلے سے ایک تانگہ موجود ہوتا تھاجو ہمیں کوٹ شہباز لے جاتا تھا۔معروف سیاستدان مخدوم حمیدالدین ہاشمی اور مخدوم نور محمد ہاشمی صاحبان کا گاؤں ’’میانوالی قریشیاں‘‘کوٹ شہباز سے آٹھ دس میل کے فاصلے پر ہے۔دونوں بستیوں میں قریشی برادری کا رشتہ تھا۔شادی اور مَرگ پر آنا جانا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر بات ہو رہی تھی بُوا لال خاتوں کے بھولپن کی۔کسی عزیز کی بیماری کے باعث بُوا رحیم یارخاں آئیں۔ہسپتال میں عیادت کے لئے گئیں۔یہ ۶۰۔۱۹۵۹ء کی بات ہے۔ہسپتال میں مریض کے قریب ایک پیڈسٹل فین رکھا ہوا تھا جو دائیں‘بائیں گھوم رہا تھا۔بُوا لال خاتوں نے ایک دو بار یہ منظر حیرت سے دیکھا پھر خوفزدہ ہو کر کہنے لگیں:</b><br />
<b>یہ کیا اَسرار ہے؟یہ تو کوئی طلسماتی شے ہے۔خود بخود کبھی اِس طرف ہوا دینے لگتی ہے کبھی اُس طرف ہوا دینے لگتی ہے۔۔۔۔</b><br />
<b>یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی رحیم یار خاں میں ہمارے گھر میں بھی بجلی نہیں آئی تھی۔لکڑی کے تختے سے بھاری بھرکم کپڑا لٹکا کراسے چھت پر لٹکا دیا جاتا تھا ۔تختے سے ایک مضبوط ڈوری باندھی جاتی پھر اسے ایک چرخی سے گزار کر کھینچا جاتا۔بجلی آنے سے پہلے ایسے پنکھے ہوا کرتے تھے۔کوٹ شہباز میں بھی ایسے ہی پنکھے تھے۔اب تو کوٹ شہباز بھی بجلی کی برکتوں سے فیض یاب ہو رہا ہے۔</b><br />
<b>بُوا لال خاتوں پہلی بار لاہور گئیں۔ایک تو لاہور ریلوے اسٹیشن کی پُر شکوہ عمارت‘پھر ہجومِ خلق ۔اوراس ہجوم میں سُرخ وردی میں ملبوس قلیوں کی فوج ظفر موج۔اوپر سے قلیوں کا ’فرطِ محبت ‘سے سامان اُٹھانے میں سبقت لے جانے کی کوشش‘اور اس کوشش میں سامان کی کھینچا تانی۔۔۔۔بُوا لال خاتوں نے سمجھا ڈاکوؤں نے ہَلّہ بول دیا ہے۔چنانچہ انہوں نے بچاؤ۔۔۔بچاؤ ۔۔۔کا شور مچا دیا۔</b><br />
<b>یہ بھولپن تو سن پچاس اور ساٹھ کے درمیانی عرصہ کا ہے۔اَسّی کی دَہائی میں جبکہ گھر گھر ٹی وی پہنچ چکا تھا‘اس زمانے میں بھی بھولے بھالے لوگ مل جاتے تھے۔خانپور میں مبارکہ کی ایک سہیلی تھی سعیدہ۔۔۔سعیدہ کی والدہ کنیز بی بی نے ساری زندگی فلم نہیں دیکھی تھی۔ان کے گھر ٹی وی آیا تو ماسی کنیز نے ٹی وی پر مَردوں کو دیکھ کر پردہ کر لیا تاکہ ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے مَرد انہیں بے پردہ نہ دیکھ لیں۔ سعیدہ اور ماسی کنیز ابھی بھی خانپور میں مقیم ہیں۔اﷲ انہیں خوش رکھے۔۔۔۔۔۔ہمارا معاشرہ جب تک ایسے معصوم لوگوں سے بسا ہوا تھا تب تک قناعت پسند اور آسودہ تھا۔علم کی برکات سے انکار نہیں لیکن جب سے ہمارے معاشرے میں معصومیت کی جگہ چالاکی آ گئی ہے‘قناعت کی جگہ حرص نے لے لی ہے۔رزق کی فراوانی کے باوجود معاشرہ بے سکون اور بے چَین ہے۔اس کے ذمہ دار بلا امتیاز ہم سب ہیں۔</b><br />
<b>کوٹ شہباز کے اہلِ قریش رحیم یار خاں جب بھی آتے‘ ہمارے ہاں قیام کرتے۔ خانپور میں بھی ہمارا گھر ان کے قیام کا مرکز رہا ۔رحیم یار خاں میں رہائش کے دنوں کی بات ہے میرا چھوٹا بھائی اکبر (جو اَب لندن میں مقیم ہے)گھر کے صحن میں بیٹھا مٹی سے کھیل رہا تھا۔تب اس کی عمر چار سال کے لگ بھگ تھی۔کھیلتے کھیلتے اچانک چونک کربولا:’’اوہ!‘‘ امی جی اس کی طرف متوجہ ہوئیں تو کہنے لگا :کوٹ شہباز والے آرہے ہیں۔۔۔۔امی جی نے خیال کیا کہ بچے کو بعض عزیزوں کا خیال آگیا ہوگااس لئے ایسی بات کردی ہے۔کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد اکبر نے پھر ویسی ہی ’’اوہ!‘‘کی اور پھر بتانے لگا:ان کی جیپ خراب ہوگئی ہے۔امی جی تو ابا جی کی بزرگی اور روحانیت سے بھی الجھتی رہتی تھیں‘کچھ کچھ معاملہ بھانپ گئیں اور کہنے لگیں: بڑے میاں سو بڑے میاں‘چھوٹے میاں سبحان اﷲ۔۔۔ابھی ان کے باپ کی بزرگی مانی نہیں گئی اور یہ بیٹا بھی بزرگی جتانے لگاہے۔تھوڑے وقفہ کے بعد اکبر نے پھر ’’اوہ‘‘کی اور کہا:جیپ ٹھیک ہو گئی ہے ۔اب وہ ہمارے گھر آرہے ہیں۔۔۔۔اورپھر سچ مچ تھوڑی دیر کے بعد کوٹ شہباز والے آگئے۔امی جی نے ان کے آتے ہی پوچھا:کیا آپ لوگوں کی جیپ رستے میں خراب ہوگئی تھی؟۔۔۔۔وہ سب کے سب ہکا بکا رہ گئے کہ یہ خبر ہمارے گھر کیسے پہنچ گئی۔اکبر جو اپنے آپ میں مگن بدستور مٹی سے کھیل رہا تھا‘امی جی نے اس کی طرف اشارہ کرکے بتایا کہ ہمیں تو ساری رپورٹ یہی دیتا رہا ہے۔</b><br />
<b>بوا لال خاتوں کے بعد بھی کوٹ شہباز کے عزیزوں سے پیار محبت کا تعلق قائم رہا۔یہ تعلق ختم تو نہیں ہوا لیکن اس میں تھوڑی سی دراڑ ضرور پیدا ہوگئی۔ہم لوگ قریشی ہونے کے باوجود ذات پات کو اہمیت نہیں دیتے۔میری والدہ باجوہ خاندان سے ہیں۔میری بیوی بھی باجوی ہے کہ میری ماموں زاد ہے۔رشتے ناطے میں ہم صرف’’موزوں رشتے‘‘کو اہمیت دیتے ہیں۔میری ایک بھابی جاٹ خاندان کی ہے‘ایک ارائیں اور ایک اعوان۔ایک بہنوئی سید ہے‘ایک راجپوت ہے اور دوجاٹ۔۔۔میری بڑی بہن کی شادی ہوئی۔کوٹ شہباز والے عزیز بڑے چاؤ سے شریک ہوئے۔شادی سے پہلے آکر رونق لگائی۔رخصتی والے دن جب بارات آئی تو انہوں نے دیکھا کہ بارات میں اونچے اونچے طروّں والے پنجابی جاٹ موجود ہیں۔اِدھر اُدھر سے سن گن لی۔جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ دولہا کا نام چوہدری عبدالرّحیم ہے اور قریشیوں کی بیٹی کا بیاہ ایک جاٹ سے ہو رہا ہے‘اُن کی قریشی شان کو دھچکا سا لگا۔خاموشی سے ایک بس بُک کراکے لائے اور تمام مرد‘خواتین اور بچے بس میں بیٹھ کر اپنے گاؤں چلے گئے۔شادی کے ہنگامے میں ہمیں پتہ بھی نہ چل سکا۔وہ تو جب رخصتی کا وقت آیا اور اُن میں سے بعض عزیزوں کو آگے لانے کی ضرورت پڑی‘تب پتہ چلا کہ وہ تو سب کے سب خاموش احتجاج کرتے ہوئے جاچکے ہیں۔تب ابا جی کو اپنے ان عزیزوں پر افسوس ہوا۔ان سے ملنا ملانا تو ترک نہیں کیا لیکن انہیں پھر کسی بچے کی شادی پر مدعو نہیں کیا۔</b><br />
<b>کوٹ شہباز کے عزیزوں کی بڑی بڑی زمینیں تھیں لیکن زیادہ تر غیرآباد۔۔۔۔۱۹۷۰ء کے لگ بھگ انہوں نے زمینوں کا صحیح استعمال کرنا شروع کیا۔بھاولپور ڈویژن کے مختلف دیہاتوں میں ان کے مُرید موجود تھے۔ہر چھ ماہ بعد پِیر صاحبان اپنا دورہ کرتے‘سادہ لوح عقیدت مندوں سے ڈھیروں ڈھیر اناج‘دوسری چیزیں اور نقدی سمیٹ لاتے۔ان سادہ لوح عقیدت مندوں کی دینی حالت کا اندازہ اس ایک واقعہ سے کر لیں:ہم سارے گھر والے کوٹ شہباز گئے ہوئے تھے‘وہاں بھائی شہان کے گھر(بوا لال خاتوں اپنے اسی بیٹے کے ہاں رہتی تھیں) پنجاب کی سندھ سے ملحقہ سرحد کے کسی گاؤں سے چند مُرید خواتین آئیں(مُرید مَردوں کو باہر ڈیرے پر ٹھہرایا جاتا تھا ) ۔ گھرکے دروازے سے باہر ہی وہ خواتین فرطِ عقیدت سے زمین پر بیٹھ گئیں۔وہاں سے کمرے تک کا فاصلہ جو لگ بھگ ۳۰میٹر تھا‘انہوں نے زمین پر گھسٹ گھسٹ کر طے کیا۔تمام بیبیوں کے پَیروں کو عقیدت سے چھُوا اور زمین پر ہی بیٹھی رہیں۔۔۔۔اسی دوران قریب کی مسجد سے ظہر کی اذان شروع ہوئی ۔۔۔سب خاموش ہو گئے۔۔۔اذان ختم ہوئی تو سب نے کلمہ شریف پڑھا‘مُریدنیاں حیرانی سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔آخر ان میں سے ایک نے جو نسبتاََ بڑی عمر کی تھی‘بڑی ہی عاجزی سے بوا لال خاتوں سے پوچھا:’’بی بی پہلے وہ جوان رُوڑ رہا تھا۔وہ چُپ ہوا تو آپ سب رُوڑنے لگ گئیں۔یہ کیا معاملہ تھا؟‘‘</b><br />
<b>اگر یہ واقعہ ہمارا چشم دید نہ ہوتا تو میں کبھی بھی نہ مانتا کہ وطنِ عزیز کے کسی دیہات میں ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جن بے چاروں کو نہ کلمے کا پتہ ہے نہ اذان کاعلم ہے۔کوٹ شہباز میں مُلیر درّن‘مُلیر مِیم اور ادی بالن بفضلہ تعالی زندہ ہیں‘وہ یقیناََ اپنی مخصوص مسکراہٹوں کے ساتھ اس واقعہ کی تصدیق کریں گی۔</b><br />
<b>ہم جب بھی کوٹ شہباز جاتے ہماری اس طرح آؤ بھگت کی جاتی جیسے ہم ان کے پِیر ہوں۔حویلی کا ہر گھر ہمیں اپنے ہاں ٹھہرانے پر مُصر ہوتا تھا۔لیکن ہم نے ہمیشہ بوا لال خاتوں کی بڑی بیٹی مُلیر دُرّن کے ہاں ہی قیام کیا۔میزبانی پر تُلے ہوئے اتنے گھر تھے کہ صبح‘دوپہر‘شام کے کھانے کے لئے ہمیں مشکل پڑ جاتی۔پھر باقاعدہ ٹائم ٹیبل بناتے تاکہ ایک ہی وقت میں دو دو ‘تین تین گھروں میں کھانا تیار نہ ہو۔کوٹ شہباز کے قریشی اپنے مُریدوں سے مال سمیٹ لاتے تھے لیکن جب ہم واپس آنے لگتے‘ساری حویلی کے گھروں سے اس طرح تحائف آنا شروع ہو جاتے جیسے مُریدانِ باصفا اپنے پِیروں کے سامنے نذرانے پیش کر رہے ہوں۔ گندم‘ چاول‘ پیاز‘ آلو‘ لہسن‘ چینی‘گُڑ وغیرہا چیزوں کے ڈھیر لگ جاتے ۔پھلوں سے لے کر کپڑوں تک اتنی چیزیں ہوتیں کہ ہمارے لئے انہیں گھر لے جانا مشکل ہو جاتا ۔ یہ مشکل بھی پھر انہیں عزیزوں میں سے کوئی دور کرتا اور سارا سامان بحفاظت ہمارے گھر پہنچ جاتا۔وہ سارے تحائف اب بظاہر عجیب سے لگتے ہیں لیکن ان کے ساتھ جو رشتوں کا تقدس‘محبت اور خلوص کی دولت ہوتی تھی وہ اتنی قیمتی تھی کہ اس کے مقابلے میں آج کی زندگی کی ساری آسائشیں اورنعمتیں بے معنی لگنے لگتی ہیں۔</b><br />
<b>اوپر میں نے بعض ناموں کے ساتھ مُلیر کا لفظ استعمال کیا ہے۔یہ سرائیکی لفظ ہے۔ماموں زاد رشتوں کے لئے بولا جاتا ہے۔خالہ زاد کے لئے مُسات‘پھوپھی زاد کے لئے پھوپھیر اور تایا زاد‘چچازادکے لئے سوتر بولا جاتا ہے۔کوٹ شہباز کے عزیزوں کو یاد کرنے لگا ہوں تو کئی خوبصورت نام ستاروں کی طرح میری یادوں میں کہکشاں سی بنانے لگے ہیں۔بوا لال خاتوں کی اولاد میں میاں پِیرن دِتہ‘میاں شہان‘مُلیر درّن‘مُلیر مِیم‘ادی بالن‘۔پھر چاچا قادر بخش‘چاچا گومے شاہ‘میاں نواز شاہ‘۔ان سب کی اولاد وں میں میاں شہبازن‘میاں مجیدن‘میاں رؤف‘میاں کریم بخش‘میاں سرفراز‘میاں بھورل شاہ‘میاں حبیبن‘ میاں فیضن‘میاں ارشاد‘میاں وڈا‘میاں شیر‘بی بی صغریٰ‘بی بی رئیسہ‘بی بی مکھنی‘بی بی حرباب‘بی بی اشفاق‘بی بی پروین‘بی بی مقصود‘بی بی حاکم‘بی بی ہوتن‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے علاوہ متعدد اور چہرے ہیں جو اس وقت پوری طرح میرے ذہن اور دل میں آئے ہوئے ہیں لیکن میری بد قسمتی ہے کہ مجھے ان کے نام یاد نہیں آرہے۔چاچا گومے شاہ اور چاچا قادر بخش ہم سے ہمیشہ اس بات پر شاکی رہے کہ ہم نے چچا کا رشتہ پسِ پشت ڈال دیا ہے اور بوا کے رشتے کو معتبر کر دیا ہے۔وہ ایک جملہ بھی بولا کرتے تھے:’’وو میاں! مُنڈھ کُوں چھوڑ تے پاند کوں پکڑی پے او۔مُنڈھ تاں اساں نال اے‘‘ان کی اس شکایت میں بھی محبت ہی تھی۔</b><br />
<b>بی بی رئیسہ ‘مُلیر دُرّن کی بیٹی ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ عزیز رہی ہے۔پھر وہ میاں پِیرن دِتہ کے بیٹے وڈے میاں کی دلہن بن گئی تو مجھے اور عزیز ہوگئی۔بی بی اشفاق بچپن میں بہت ہی پیاری بچی تھی۔پتہ نہیں اسے کس کی نظر کھا گئی۔۱۹۹۱ء میں مبارکہ نے اور میں نے اب تک کا کوٹ شہباز کا آخری سفر کیا۔بی بی اشفاق کو دیکھا تو دل پر گھونسہ سا لگا۔بی بی رئیسہ اور بی بی حُرباب بھی اس کی حالت پر دُکھ کا اظہار کر رہی تھیں۔سارے کوٹ شہباز میں سب سے خوبصورت بچی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔</b><br />
<b>کوٹ شہباز میں وٹہ سٹہ (بدلے کی شادی)کا رواج تھا‘وہ بھی برابر کی قریشی برادری میں۔جس لڑکی کا وٹہ لینے کے لئے لڑکا نہیں ہوا‘اُسے زندگی بھر شادی کے بغیر رہنا ہے۔میاں نواز شاہ کی بہن(نام یاد نہیں رہا) اور ادی بالن اسی رسم کا شکار ہوئیں۔ان کے بجھے ہوئے چہرے یاد کرتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ قریشِ مکّہ جو نام نہادغیرت کے نام پر بیٹیوں کوزندہ گاڑ دیتے تھے‘شاید اس لحاظ سے بہتر تھے کہ ایک ہی بار مارڈالتے تھے جبکہ زندگی بھر کنواری بٹھا دی جانے والی بیٹیاں تو ہر پَل میں ایک نئی موت کا شکار ہوتی چلی جاتی ہیں۔</b><br />
<b>کوٹ شہباز میں تو صرف وٹے سٹے کا رواج تھا جبکہ باقی سرائیکی علاقے میں وٹے سٹے کا متبادل ٹکا کہلاتا ہے۔یعنی اگر رشتہ کے بدلے میں رشتہ نہیں ہے تو ایک معقول رقم ادا کرکے لڑکی کا رشتہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔وٹہ سٹہ میں ایسے بھی ہوا کہ باپ نے اپنی بیٹی بیاہی اور اس کے بدلہ میں دولہا والوں کی بہن سے اپنی دوسری شادی رچالی۔ایسامفاہمانہ رویّہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لڑکی بیاہتے وقت فریق ثانی کے پاس وٹہ نہیں تھا تو اس نے اپنے ہاں ہونے والی پہلی بیٹی وٹہ میں لکھ دی۔اسے’’پیٹ لکھوا لینا‘‘کہا جاتا ہے۔ٹکے والی شادی میں صرف رقم بھی چلتی ہے اور رقم کے ساتھ دوسری چیزیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔مثلاََ ایک بکری‘دو مُرغیاں‘ایک سیکنڈ ہینڈ سائیکل اور ۵۰۰ روپے دے کر لڑکی کا رشتہ حاصل کیا گیا۔تاہم قریشیوں میں صرف وٹہ سٹہ ہی کا رواج تھا‘وہ بھی صرف قریشیوں کے ساتھ۔امی جی پنجابی تھیں۔ان کے خاندان میں وٹہ سٹہ جیسی کوئی قبیح رسم رائج نہیں تھی۔ابا جی سے ان کی شادی ہوئی۔پہلی دفعہ سرائیکی ماحول میں آئیں۔پندرہ برس کی عمر۔۔۔اتنی خوبصورت لڑکی۔۔۔۔دلہن کو دیکھنے کے لئے آنے والیاں پوچھتیں:</b><br />
<b>بہن!وٹہ تو قریشیوں کا تھا نہیں۔۔۔پھر ٹکا دیا ہوگا؟</b><br />
<b>کوئی رشتہ دار خاتون جو امی جی کا خیال رکھنے کے لئے موجود ہوتیں‘جواب دیتیں: نہیں بہن ٹکا نہیں لیا‘اﷲ واسطے دی ہے۔</b><br />
<b>جب دس بارہ خواتین نے یہی بات کی اور ہر بار یہی وضاحت کی گئی تو امی جی نے رونا شروع کر دیا۔تب ابا جی نے انہیں سمجھایا کہ علم کی کمی کے باعث ہمارے علاقے میں بہت ساری غیراخلاقی اور غیر اسلامی رسمیں رائج ہیں۔آپ ایسی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں کہ ہماری شادی تو درست اسلامی طریق سے ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ویسے کوٹ شہباز کے قریشیوں میں بھی اب بیٹیوں کے رشتے کی اہمیت واضح ہونے لگی ہے۔رشتے تو بے شک قریبی رشتہ داروں میں کئے ہیں لیکن اب وٹے سٹے کے بغیر بھی رشتے کرنے لگے ہیں۔اس معاملے میں میاں نواز شاہ‘میاں کریم بخش‘میاں ارشاد ‘میاں فیضن ااور مُلیر دُرّن کو وہاں کے ابتدائی انقلابی قرار دیا جا سکتا ہے۔مجھے امید ہے کہ ان چراغوں سے مزیدچراغ جلے ہوں گے اور قبیح رسموں کا اندھیرا مسلسل کم ہو تا جا رہا ہوگا۔</b><br />
<b>ایک زمانہ تھا جب کوٹ شہباز میں اسکول نہیں کھلنے دیا جاتا تھا۔نوکری کرنے کو اپنی توہین سمجھا جاتا تھا۔خدا خدا کرکے ایک اسکول کھولا گیا تو صرف لڑکوں کے لئے۔۔۔۔لڑکیوں کو پڑھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔وہی زمانۂ جاہلیت کے قریشِ مکّہ والی باتیں۔۔۔لیکن آس پاس کے علاقوں میں تو علم کی روشنی پھیل رہی تھی۔سو پِیروں کے مُرید باغی ہونے لگے۔ان کی تعداد کم ہونے لگی۔فارغ بیٹھ کر روٹی کھانے کا امکان ختم ہونے لگا تو علم کے حصول کا احساس بھی ہونے لگا۔چنانچہ اب بعض لڑکے پڑھ لکھ کر نوکریاں کرنے لگے ہیں۔بالآخر لڑکیوں کا اسکول بھی کھول دیا گیا ہے۔بعض قریشیوں نے خود کاشتکاری کی طرف توجہ کی ہے۔باغات لگائے ہیں۔بعض نے تجارت کا پیشہ اپنا لیا ہے۔خدا ان سب کے کاروبار کو ترقی عطا کرے‘ان کے اموال میں برکت بھر دے اور انہیں خوش رکھے۔ہمارے ددھیال کے ان دور کے رشتہ داروں نے ہمیں کبھی دل سے دوری کا احساس نہیں ہونے دیا۔ہمیشہ اتنی محبت دی کہ ہماری جھولیاں چھوٹی پڑگئیں۔</b><br />
<b>آپی کی رخصتی سے پہلے ان لوگوں کا خاموشی سے رُوٹھ کر چلے جانا بھی ان کی محبت ہی کا ایک انداز تھا۔</b><br />
<b>قبیلہ قریش والی محبت کا انداز! </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-75262533401209990342011-07-15T06:31:00.000-07:002011-07-15T23:09:10.747-07:00کزنز<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">کزنز</span></b></div><br />
<b>میرے چچازاد اور پھوپھی زاد بھائی بہن نہیں ہیں۔خالہ زاد بھائی بہنوں میں صرف خالہ سعیدہ کی دو بیٹیاں صالحہ اور نعیمہ میرے ایج گروپ میں آتی ہیں۔خالہ حبیبہ کے بیٹے‘بیٹی عمر کے لحاظ سے مجھ سے بہت چھوٹے ہیں۔سو اُن سے محبت کا تعلق تو ہے لیکن دوستانہ بے تکلفی والی بات نہیں ہے۔میرے تین ماموں زاد صحیح معنوں میں میرے ایج گروپ کے ہیں۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ اور مبشّر۔۔۔۔کریم اﷲ ‘مجیداﷲ جڑواں بھائی ہیں اور بڑے ماموں کے بیٹے ہیں۔مبشّر میری بیوی کا بھائی اور ماموں ناصر کا اکلوتا بیٹا ہے۔ ماموں کوثر کا بیٹا شکور اگرچہ عمر میں مجھ سے پانچ سال چھوٹا تھا لیکن بے تکلفی میں سب سے آگے تھا۔باقی ماموں زاد اور خالہ زاد یا تو عمر میں مجھ سے بہت بڑے ہیں یا بہت چھوٹے۔اسی لئے ان کے معاملے میں احترام یا شفقت کا ایک پردہ حائل ہے۔اپنی ماموں زاد آپی نعیمہ سے بچپن میں میری گہری دوستی تھی۔صالحہ اور نعیمہ دونوں میری کھوئی ہوئی کزنز ہیں۔خالہ سعید ہ ہالینڈ میں مقیم تھیں۔وہاں ان کی اپنے شوہر سے ناچاقی ہو گئی۔معاملہ بڑھا تو دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔خالہ سعیدہ غم و غصہ کی حالت میں دونوں بیٹیوں صالحہ اور نعیمہ کو بھی ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ صاحب کے پاس چھوڑ آئیں۔صالحہ اور نعیمہ کو ان کے والد ڈاکٹر غلام احمد بشیرؔ اور ان کی دوسری(ڈچ)بیوی نے پالا پوسا۔ وہ دونوں فوت ہو گئے۔صالحہ اور نعیمہ کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہ ہوسکا۔جرمنی آنے کے معاََبعد سے مسلسل کوشش کر رہا ہوں۔ابھی تک کوئی واضح سراغ نہیں مل سکا ۔دنیا امید پر قائم ہے۔مجھے لگتا ہے کہ ہم بچپن کے بچھڑے ہوئے کزنز ایک بار ضرور آمنے سامنے ہوں گے۔چاہے یہ آمنا سامنا بڑھاپے کی سرحدپر ہی کیوں نہ ہو۔*۱</b><br />
<b>مجھے یقین ہے کہ جب بھی ہماری ملاقات ہوئی صالحہ کو یاد آجائے گاکہ مکئی کے کھائے ہوئے سِٹّے کو توڑ کر اور اس میں چڑیوں اور کبوتروں کے پروں کو ٹھونس کر وہ کیسی عمدہ شٹل بنایا کرتی اور ہم دونوں ریکٹ کے طور پر اسکول کی تختیوں کو استعمال کرتے ہوئے اس شٹل سے اپنی دیسی بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے۔نعیمہ کو اور کچھ یاد آئے نہ آئے لیکن یہ تو ضرور یاد آئے گا کہ اسے بچپن میں مٹی کھانے کا شوق تھا جبکہ آپی‘میں اور صالحہ خدائی فوجدار کی طرح اس کی تاک میں رہتے تھے ۔ایک بار اس نے بڑی عقلمندی سے کام لیاتھا۔ہمسایوں کی کچی دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی۔پہلے اِدھر اُدھر دیکھتی پھر بڑی مہارت کے ساتھ دیوار کی طرف منہ کرکے کچی مٹی کی دیوار کو چاٹ لیتی۔اس کی تمام تر مہارت کے باوجود میں نے اس کی چوری پکڑلی تھی۔اور پھر حسبِ معمول صالحہ ‘آپی اورمیں۔۔۔۔۔۔۔ہم تینوں نعیمہ کو ٹانگوں اور بازوؤں سے اٹھائے ہوئے گھر لئے جا رہے تھے جہاں لازماََ اسے خالہ سعیدہ سے ڈانٹ پڑنی تھی۔ایک عرصہ کے بعد رشید احمد صدیقی کا پُر لطف مضمون ’’میرا بچپن‘‘پڑھا تو شگفتگی کے تمام تر احساس کے باوجود میں اداس ہو گیا۔مجھے صالحہ اور نعیمہ دونوں خالہ زاد بہنیں بہت یاد آئیں۔</b><br />
<b>کریم اﷲ ‘ مجیداﷲ مجھ سے سوا سال بڑے ہیں جبکہ مبشّر مجھ سے ایک سال چھوٹاہے۔بچپن میں ہی مبشّر کی دوستیاں بڑی عمر کے لوگوں سے زیادہ ہوتی تھیں۔لڑائی بھڑائی میں بھی وہ تیز تھا۔میں جسمانی لڑائی میں ہمیشہ سے پھسڈی ہوں۔کریم اﷲ‘ مجیداﷲ تو اس معاملے میں میرے بھی بڑے بھائی ہیں۔جڑواں بھائی ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ وابستہ تھے۔اب تو خیر ان کی شکلیں صاف پہچانی جاتی ہیں لیکن بچپن میں تو انہیں پہچاننے میں اچھے اچھوں کو مغالطہ ہو جاتاتھا۔ اباجی نے کئی بار دونوں کو پہچاننے کی کوشش کی۔کافی غور سے دونوں کے چہرے دیکھنے کے بعد جب اباجی ایک کو کریم اﷲ کہتے تو وہ مجیداﷲ نکلتااور جسے مجیداﷲ کہتے وہ کریم اﷲ نکلتا۔دونوں کو پہچان نہ پانے پراباجی پھر خود ہی ہنسنے لگ جاتے۔ ایک بار اباجی نے کسی شناخت کی بنیاد پر نہیں بلکہ تُکے سے ٹھیک نام بتا دیا کہ تم کریم اﷲ ہو تب کریم اﷲ نے بڑی مہارت سے کہہ دیا :نہیں پھوپھا جان میں تو مجیداﷲ ہوں۔اور اباجی انہیں پہچان نہ پانے پر ہمیشہ کی طرح ہنسنے لگے۔</b><br />
<b>بچپن میں میرا کسی سے جھگڑا ہوجاتا تو میں عام طور پر مبشّر کو مدد کے لئے بُلا لاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر میرا کریم اﷲ اور مجیداﷲ سے جھگڑا ہو گیا۔وہ دوبھائی‘میں اکیلا۔۔۔اتفاق سے مبشّر نے دور سے ہی یہ منظر دیکھااور از خود لپکا چلاآیا۔ آتے ہی اس نے دخل در معقولات کرتے ہوئے مجیداﷲ کو پکڑا اور اس کا سر ریت میں گھِسانے لگا‘اور مجھے بھی ہدایت کی کہ صرف مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔اوپر سے کریم اﷲ ہم دونوں کو مار رہا تھا لیکن مبشّر یہی کہے جارہا تھا کہ مجیداﷲ پر ہی سارا زور لگاؤں۔۔۔۔۔ہم دونوں کے زور کا نتیجہ یہ نکلا کہ مجیداﷲ نے رونا شروع کردیا۔مجیداﷲ کے روتے ہی کریم اﷲ نے نہ صرف ہمیں مارنا چھوڑ دیا بلکہ خود بھی رونے لگ گیا۔تب مجھے اندازہ ہوا کہ مبشّر صرف ایک ہی بھائی پر سارا دباؤ کیوں ڈال رہا تھا۔جڑواں بچوں کی محبت کا یہ بھی انوکھا رنگ تھا۔</b><br />
<b>مبشّرکی ’’پھوں پھاں‘‘ اور ’’ٹَے کا‘‘ بہت تھا اسی لئے اس کی دوستی سے مجھے فائدہ ہوجاتا تھا۔ایک بار پتہ نہیں کس بات پر ہمارا جھگڑا ہو گیا۔مبشّر نے پَتری کا ایک ننھا منّا سا چاقو مجھ پر تان لیا۔ میں نے وہیں سے دوڑ لگائی اور ناناجی کو جاکر بتایا کہ مبشّر مجھے چاقو مارنے لگا تھا۔ناناجی نے فوری کاروائی کے لئے ماموں سمیع اﷲ کو بھیجا۔ماموں سمیع نے آکر مبشّر کو ایک چپت رسید کی تو وہ کہنے لگا کہ میں تو صرف ڈرا رہا تھا۔ اس چاقو کی ’’خوفناکی‘‘ کااندازہ اس سے لگا لیں کہ ماموں سمیع نے اسی وقت مبشّر سے لے کر‘ انگلیوں سے مروڑ تروڑ کراسے دور پھینک دیا تھا۔</b><br />
<b>چھوٹے کزنز میں سے خالہ سعیدہ کی دوسری شادی سے ہونے والی پہلی بیٹی زاہدہ‘ماموں ناصر کی غزالہ‘ ماموں سمیع کی نوشی‘ ماموں صادق کی سمیرہ اور خالہ حبیبہ کا آصف مجھے زیادہ عزیز رہے ہیں۔ زاہدہ میرے چھوٹے بھائی اکبر سے بیاہی گئی اور میری چھوٹی بہن زبیدہ کی شادی کریم اﷲ سے ہوئی۔سمیرہ اور آصف مجھے اس لئے بھی عزیز رہے کہ دونوں نے کبھی شاعری شروع کی تھی۔ماموں صادق خود ایک عرصہ تک شاعری کرتے رہے تھے۔اس لئے مجھے لگتا تھا کہ سمیرا ماموں صادق کا شاعری کا ورثہ ضرور سنبھالے گی۔لیکن وہ تو کمپیوٹر ایکسپرٹ بن گئی۔شاعری کہیں بیچ میں ہی رہ گئی۔آصف کی شاعری سے عطا ء اﷲ خاں نیازی عیسیٰ خیلوی کی گلوکاری کی طرف دھیان جاتا تھا۔لیکن ابتدا میں ایسا ہونا بھی غنیمت تھا۔کچھ عرصہ تک آصف کو شاعری کا شوق رہا پھر اس کا بھی پتہ نہیں چلا۔</b><br />
<b>ماموں ناصر کی سب سے چھوٹی بیٹی بشریٰ ہما کو بیک وقت شاعری اور گلوکاری کا شوق ہے۔ایک دفعہ اس نے مجھے اور مبارکہ کو لتا جی کے چند گانے سنائے۔گانے سُن کر میں حیران رہ گیا۔بشریٰ نے بڑے اچھے انداز میں لتا جی کے گانے سنائے تھے لیکن میری حیرت کا پس منظر کچھ اور تھا۔دراصل ممانی آصفہ نے گھر کا ماحول بے حد مذہبی بنا یا ہواتھا ۔ٹیلی ویژن صرف ان اوقات میں آن کیا جاتا تھاجب اس پر تلاوت‘اذان‘ کوئی دینی پروگرام یا پھر خبر نامہ آرہا ہو۔ایسے ماحول میں بشریٰ نے اتنے گانے کیسے یاد کر لئے اور اپنی آواز میں اتنی پختگی کیسے پیدا کرلی؟میں نے اپنی حیرت کو چھپائے بغیر سیدھا سوال کر دیا تو بشریٰ نے شرماتے ہوئے بتایا۔۔۔بھائی جان!وہ اصل میں ناں ۔۔ ۔ وہ جب ٹی وی پر اذان لگتی تھی تو میں اذان کے ساتھ اپنی آواز اٹھاتی تھی اس طرح آواز پر گرفت ہوتی گئی۔پھر جب باجی غزالہ جرمنی چلی گئیں تو وہ اپنا چھوٹا ٹیپ ریکارڈرمجھے دے گئیں۔اس میں مہندر کپور کے گانوں کی ایک کیسٹ تھی۔اس کیسٹ میں وہ گانا بھی تھا’’نہ منہ چھُپا کے جیؤ اور نہ سر جھُکا کے جیؤ‘‘۔جب امی گھر پر نہیں ہوتی تھیں تو میں اسی گانے پر آواز اُٹھانے کی پریکٹس کرتی تھی۔یوں اب گانے کا شوق پورا کر لیتی ہوں لیکن امی سے چوری چھُپے۔آپ بھی امی کو نہیں بتائیے گا۔ان کے سامنے تو میں صرف دینی نظمیں سُر کے ساتھ پڑھتی ہوں۔</b><br />
<b>ماموں صادق کابیٹااویس میرے بڑے بچوں کے ایج گروپ کا ہے۔گزشتہ تین برس سے امریکی آرمی کی طرف سے اس کی جرمنی میں تعیناتی ہوئی تو اس سے بھی تھوڑی سی دوستی ہوگئی۔اس کے بچپن اور اپنے ’’عالمِ شباب‘‘کا ایک لطیفہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔میں خانپور سے کراچی گیا۔قیام ماموں صادق کے ہاں تھا۔اویس پانچ‘چھ سال کا تھا۔مجھے کافی دیر تک دیکھتا رہا ۔پھر میرے قریب آ کرکہنے لگا:بھائی! آپ ہیں تو آدمی ‘پر لگتے نہیں ہیں ۔میں اس کے جملے کی سادگی کا مزہ لے رہا تھا کہ ماموں صادق کہنے لگے : یار!تم شادی شدہ ہونے کے باوجود لڑکے ہی لگتے ہو۔اویس کی دانشمندی دیکھو کہ اس نے لڑکے میں چھُپے ہوئے مرد کو کیسے پہچان لیا ہے۔ماموں صادق کی وضاحت کے باوجود مجھے اویس کے جملے کی سادگی مزہ دیتی رہی۔اب جرمنی میں اویس آیا تو میں نے اسے اس کی بات یاد دلائی۔</b><br />
<b>غالب ؔ کو یہ گِلہ رہا کہ ’’آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا‘‘۔لیکن اب تو وہ زمانہ آگیا ہے کہ آدمی کو آدمی ہونا بھی میسّر نہیں ہے‘ آدمی یا تو روبوٹ بن گیا ہے یا جانور۔۔۔۔۔اویس کے آنے کے بعدایک بار میں شیو کر کے فارغ ہوا اور آئینے میں خود کو دیکھنے لگا تو مجھے اپنے ہی اندرسے آواز آئی:لگتے تم آدمی ہو ‘پر ہو نہیں۔</b><br />
<b>پتہ نہیں یہ میری اپنی آواز تھی </b><br />
<b>آدم کی روح کی آواز تھی</b><br />
<b>یا پھر روحِ کائنات کی ! </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b></div><b>*یادوں کا یہ حصہ دو ماہی’’گلبن‘‘احمد آباد کے شمارہ مئی ‘جون۱۹۹۹ء میں شائع ہوا تھا۔اسی مہینے میرا نعیمہ سے رابطہ ہوا۔پھر مبارکہ‘مانو‘اور میں ہم تینوں ہالینڈ گئے۔نعیمہ نے واضح کردیا کہ صالحہ اپنے کسی رشتہ دار سے ملنا نہیں چاہتی۔نعیمہ‘اس کے ڈچ شوہر اور دو پیارے سے بچوں نے ہمارا اچھا سواگت کیا۔ہمیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ خالہ سعیدہ کی دونوں بیٹیاں(ماں کی کمی کے علاوہ)ہر طرح سے خوش و خرّم ہیں۔نعیمہ کی بیٹی نے تھوڑا سا دکھ کا اظہار کیا کہ میری ماں اپنی ماں کے سائے میں پلتی تو اچھا تھا۔تب میں نے اسے کہا شکر کروایسا نہیں ہوا ‘ورنہ تم دنیا میں ہی نہ آتیں اور نعیمہ‘صالحہ سرگودھا کے چک ۶۴ میں اُپلے تھاپ رہی ہوتیں۔میں نے یہ بات تو آسانی سے بتادی لیکن اُپلوں کے بارے میں سمجھانے میں خاصی مشکل پیش آئی۔ بعد میں نعیمہ نے بتایا کہ صالحہ نے مجھے اَلٹی میٹم دے دیا ہے کہ یا تو نئے دریافت ہونے والوں سے رشتہ داری رکھو‘ یا مجھ سے۔چنانچہ پھر یہ تعلق ٹوٹ گیا۔تاہم اس ملاقات سے جب یہ واضح ہوا کہ نعیمہ کی پاکستان سے روانگی کے وقت میری عمر صرف تین سال تھی تو مجھے اپنی یادداشت پر شدید حیرت ہوئی۔ایک بار پہلے بھی میں نے ماموں ناصر کو اپنے بچپن کے زمانے کی ایک بات کے بارے میں تھوڑا سا بتایا تھا۔وہ بات ایسی تھی کہ کوئی بزرگ اپنے بچوں سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔لیکن بات دلچسپ تھی۔ماموں ناصر میری بات سُن کر جیسے سنّاٹے میں آگئے۔پھر مسکرا کر کہنے لگے تمہارا دماغ شیطان کا دماغ ہے۔تب تم صرف ساڑھے تین سال کے تھے۔میرا خیال ہے اس کا تعلق حافظے سے زیادہ یاد سے وابستگی سے ہے۔کہیں کوئی بات حافظے سے چِپک جاتی ہے اور بس۔</b><br />
<div style="text-align: center;">*** </div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-38725646298488745402011-07-15T06:28:00.000-07:002011-07-15T23:09:56.200-07:00پڑھنے سے پڑھانے تک<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">پڑھنے سے پڑھانے تک</span></b></div><br />
<b>عام طور پر ہر انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گو دہوتی ہے۔میری پہلی درسگاہ بھی میری ماں کی گود تھی۔ اور دوسرا اسکول اباجی کی خصوصی توجہ تھی۔جب ابا جی کی رحیم یار خان میں کپڑے کی دوکان تھی مجھے دوکان پر بلوالیا کرتے تھے اور اردو لکھنا پڑھنا سکھایا کرتے تھے۔جب کوئی فاش قسم کی غلطی ہوتی‘مجھے ایک تھپڑ پڑتا۔میں رونے لگتا تو اباجی پھر پیار کرنے لگتے۔پیسے دیتے۔۔پیسے ملنے پر میں بھاگ کر جاتا اور بازار کی قریبی دوکان سے کھانے کی کوئی چیز لے آتا۔جب تک وہ چیز کھاتارہتا‘ میری چھٹی رہتی۔چیز ختم ہوجاتی تو پھر پڑھائی شروع ہوجاتی۔یوں دن میں لگ بھگ چار پانچ دفعہ سبق بھولتا‘تھپڑ کھاتا‘پیار پاتا اور پھرچَنے‘مرونڈا‘میٹھی گولیاں‘مکھانے وغیرہ کھاتا۔سبق بھولنے میں تھوڑا سا نقصان تھا مگر بہت سارا فائدہ بھی تھا۔اب سوچتا ہوں تو اباجی کے تھپڑوں والا’’نقصان‘‘ہی مجھے سب سے بڑا فائدہ اور اپنا اثاثہ لگتا ہے۔</b><br />
<b>اباجی کی اس توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اسکول میں داخل ہونے سے پہلے اخبار پڑھنے لگ گیا تھا۔جب مجھے اسکول میں داخلے کے لئے لے جایا گیا تو اسکول کے ہیڈ ماسٹر راجہ محبوب صاحب نے میرا ٹیسٹ لیا اور مجھے کچی‘پکّی کلاسوں کی بجائے سیدھا دوسری جماعت میں داخل کرلیاگیا۔پرائمری لیول پر میری پڑھائی کے سلسلے کی یہی ایک اہم بات تھی۔میں پڑھائی میں نہ اوّل درجہ کا طالب علم تھا ‘نہ نکمّا تھا۔بس اوسط درجے سے تھوڑا سا بہتر طالب علم تھا۔مڈل اسکول کے زمانے تک ہم لوگ خانپور آچکے تھے تھے۔کالونی مڈل اسکول خانپور ہمارے گھر کے قریب ہی تھا۔بروقت اسکول پہنچنے کی دُھن میں کئی بار ایسا ہوا کہ میں اسکول میں پہنچنے والاسب سے پہلا بچہ ہوتا ۔</b><br />
<b>ریاضی اور سائنس کے مضامین میں تو میں ہمیشہ سے نکّما رہاہوں۔عربی‘فارسی اور ڈرائنگ کے اختیاری مضامین میں مجھے عربی زیادہ مناسب لگی‘چنانچہ میں نے یہ مضمون چھٹی جماعت سے ہی لے لیا۔لیکن ہمارے عربی ٹیچر علّامہ عبدالخالق اشرفؔ صاحب اتنے متشدد نکلے کہ میں عربی سے ہی ڈرنے لگا۔چھٹی جماعت سے آٹھویں جماعت تک مجھے ضَرَبَ ضَرَبَ کی گردان یاد نہیں ہو سکی اور میں تین سال تک علّامہ صاحب کی ضربِ شدید کا نشانہ بنا رہا۔ہائی اسکول میں جاکر جیسے ہی پتہ چلا کہ یہاں عربی کا مضمون چھوڑ سکتا ہوں‘میں نے فوراََ خدا کا شکر ادا کیا۔بعد میں دیکھا کہ یہاں کے عربی ٹیچر مولوی خدا بخش صاحب بہت ہی نرم دل اور شفیق انسان تھے۔مڈل اسکول میں ماسٹر فریدی صاحب مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔ آئیڈیل ٹیچر تو نہیں لیکن کسی حد تک ایسے ہی تھے۔دو اور ٹیچرز کے نام یاد نہیں رہے البتہ ان کے چہرے اور میرے تئیں ان کے رویے مجھے اچھی طرح یاد ہیں۔میں ساتویں جماعت میں تھا۔ایک ٹیچر جنرل سائنس اور ریاضی پڑھاتے تھے۔مجھے انتہائی نکمے لڑکوں میں شمار کرتے۔ایک بار کسی اور مضمون کے ٹیچر کی غیر موجودگی کے باعث انہیں ہماری کلاس لینی پڑی۔یہاں انہوں نے جو پہلا سوال پوچھا میں نے فوراََ اس کا جواب بتادیا تو ہلکا سا مسکرائے اور بولے: کمال ہے تمہیں بھی اس کا جواب آتا ہے۔لیکن پھر کبھی وہ حیران اور کبھی پریشان ہونے لگے جب میں ہر سوال کے جواب میں ہاتھ کھڑا کرنے لگا۔وہ بھی ہربار مجھ سے ہی کہہ دیتے کہ بتاؤ کیا جواب ہے‘ اور ہربار میرا جواب درست ہوتا۔دوسرے ٹیچر غالباََ اسکول کے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر بھی تھے۔پھر ہیڈ ماسٹر ہوئے ۔بعد میں تحصیل دار ہو کر محکمہ تعلیم سے چلے گئے۔یہ مجھے بہت اچھے لگتے تھے۔بے حد نفیس اور شفیق۔مجھے کلاس کے اچھے بچوں میں شمار کرتے تھے۔ایک دن انہیں جنرل سائنس کی کلاس لینی پڑی تو انہیں اس مضمون میں میری نالائقی کا اندازہ ہو گیا۔</b><br />
<b>یہ وہ زمانہ تھا جب ہم لوگ بے حد بھیانک غربت کی زد میں آئے ہوئے تھے۔سردیوں کے دن آرہے تھے اور میرے پَیروں میں ہوائی چپّل تھی۔تب خالہ حبیبہ نے اپنے پرانے ’’کوٹ شوز‘‘مجھے دیدئیے۔خالہ حبیبہ کے پاؤں ہمیشہ سے چھوٹے ہیں۔اسی لئے مجھے وہ ’’کوٹ شوز‘‘پورے آگئے اور میری سردیاں آرام سے گزر گئیں۔اسکول کے بعض لڑکوں نے میرا مذاق بھی اڑایا لیکن اس مذاق کی تکلیف سردیوں میں ہوائی چپل پہننے کی تکلیف سے کم تھی۔اس لئے اسے برداشت کرلیا۔برداشت نہ بھی کرتا تو کیا کرلیتا۔گھریلو حالات کو دیکھتے ہوئے میری یہ عادت بن گئی کہ نئے تعلیمی سال پر اپنی پچھلی کلاس کی کتابیں سیکنڈ ہینڈ قیمت پر بیچ دیتا اور نئی کلاس کی کتابیں کسی اپنے جیسے لڑکے سے آدھی قیمت پر خرید لیتا۔ اسکول کی کاپیوں کے سلسلے میں میرایہ طریقِ کار رہا کہ کاغذوں کے دستے خرید کر ہاتھ سے ان کی کاپیاں بنا لیتا۔ والدین نے کبھی ایسا کرنے کو نہیں کہا ‘لیکن میں نے ممکنہ حد تک کوشش کی کہ والدین پر کم سے کم بوجھ ڈالوں۔</b><br />
<b>میں اسکول کی بزمِ ادب میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہاہوں۔ایک بار خانپور تحصیل کے مڈل اسکولوں میں‘ شاید آٹھویں جماعت تک کے تمام طلبہ کے لئے تقریری مقابلہ ہوا۔میں اس مقابلے میں اوّل آیا۔انعام میں ایک ٹیبل لیمپ اور علامہ اقبال کی ’’بانگِ درا‘‘دو چیزیں ملیں۔ٹیبل لیمپ ہمارے ایک ٹیچر ہاشمی صاحب نے رکھ لیا(ہاشمی صاحب بعد میں ہمارے اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی بنے)میرے لئے ’’بانگِ درا‘‘ہی کافی تھی اس تقریری مقابلے میں تقریر کا عنوان تھا’’کھیل کے میدان میں کردار کی تشکیل‘‘۔تب میری ساتویں جماعت کا سال ختم ہونے کے قریب تھا۔میری تقریر مجھے ابا جی نے لکھ کر دی تھی اور تیاری بھی انہوں نے کرائی تھی۔اپنی کلاس میں بیت بازی کے مقابلوں میں میری اہمیت ہمیشہ بنی رہی۔ </b><br />
<b>آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول خانپور میں داخلہ مل گیا۔اس اسکول میں داخل ہونا میرے لئے اس وجہ سے زیادہ خوشی کا باعث تھا کہ کبھی اباجی بھی اسی اسکول میں پڑھ چکے تھے۔نویں جماعت میں ہمارے کلاس ٹیچر محمد خان صاحب تھے۔ڈیرہ غازی خاں کے علاقہ کے رہنے والے تھے۔انہوں نے پہلے دن کلاس کے ہر طالب علم سے اس کے تعارف کے ساتھ اس کے رجحان کے بارے میں معلومات حاصل کی۔جب مجھ سے پوچھا گیا کہ بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے؟تو میں نے بے اختیارانہ طور پر کہا کہ اردو کی خدمت کروں گا۔تب محمد خان صاحب نے کہا:بابائے اردو کا جانشین بننے کا ارادہ ہے۔ حالانکہ اس وقت ادبی دنیا میں آنے کی بات میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھی۔محمد خان صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جو تبصرہ کیا تھا ‘مجھے لگتا ہے اندر ہی اندر لا شعوری طورپر اس نے میری حوصلہ افزائی کی تھی۔ صرف پانچ چھ ماہ کے بعد ہی محمد خان صاحب کا تبادلہ ہوگیا تو محمد صدیق صاحب ہمارے کلاس ٹیچر بنے۔صدیق صاحب ہائی اسکول میں میرے سب سے زیادہ پسندیدہ ٹیچر تھے۔اسکول کے زمانہ کے ایک عرصہ بعد جب میں ادبی رسالوں میں چھپنے لگا تھا ‘ایک بار ریڈیو بھاولپور سے ایک ادبی پروگرام کرکے واپس آرہا تھا‘یہ وہ عمر تھی جب ریڈیو پر اپنی کوئی غزل یا افسانہ پڑھنے کو میں اپنی معراج سمجھتا تھا۔ٹرین میں صدیق صاحب مل گئے۔میں انہیں اپنی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں جوش و خروش سے بتانے لگا۔ میرا خیال تھا وہ میری حوصلہ افزائی کریں گے۔لیکن وہ مجھے یہ بتانے لگے کہ ان کے شاگردوں میں فلاں فلاں ڈاکٹر بن گئے۔فلاں فلاں انجینئر بن گئے۔۔۔۔مقابلے کا امتحان پاس کر گئے۔اپنے ایسے شاگردوں کی تفصیل بتاتے ہوئے ان کا سر فخر سے بلند ہورہا تھااور میں اپنے آپ سے شرمندہ ہو رہا تھا۔</b><br />
<b>ہائی اسکول میں مولوی خدا بخش صاحب(اگر میں نام بھول نہیں رہا تو یہی نام تھا)اصلاََ عربی اور اسلامیات کے ٹیچرتھے۔ تھوڑے عرصہ کے لئے انہوں نے ہماری اردو کلاسز لی تھیں۔اردو پڑھاتے ہوئے‘ خصو صاََ اشعار کی تشریح کرتے ہوئے مزے مزے کی باتیں کر جاتے۔ہماری اردو کی نصابی کتاب میں مولانا چراغ حسن حسرتؔ کا مشہور مزاحیہ مضمون’’لکڑی کی ٹانگ‘‘بھی شامل تھا۔یہ مضمون ان کے مضامین کے مجموعہ’’کیلے کا چھلکا‘‘ سے لیا گیا تھا۔مضمون کی ریڈنگ کے بعد اس پر بات شروع ہوئی تو میں نے کہا :یہ ’لکڑی کی ٹانگ‘۔۔۔’کیلے کے چھلکے‘سے حاصل کی گئی ہے۔مولوی صاحب میرا جملہ سُن کر محظوظ ہوئے ۔مجھے دوتین بار ایسے شاباش دی جیسے داد دے رہے ہوں۔</b><br />
<b>۱۹۶۸ء میں دسویں کا امتحان پاس کرتے ہی میں نے حئی سنز شوگر ملز جیٹھہ بُھٹہ ‘خانپورمیں مزدوری کرلی۔ تب ایک صاحب نے پیش کش کی کہ حیدر کالج میں پڑھنا چاہے تو اس کے جملہ تعلیمی اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں۔لیکن میرا مسئلہ کالج کی تعلیم سے زیادہ اباجی کے بوجھ کو بانٹنا تھا۔یہ الگ بات کہ اس سلسلے میں کوئی قابلِ ذکر خدمت کر ہی نہیں سکا۔زیادہ سے زیادہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ابا جی کے سر پر ایک من کا وزن تھا اورمیں نے اس میں سے ایک چھٹانک وزن کم کردیا۔میں نے شوگر مل میں ۱۹؍سال تک مزدوری کی ۔نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ طور پر اپنا سلسلۂ تعلیم جاری رکھا۔خدا کے فضل اور امی‘ ابو کی دعاؤں سے ۱۹۷۰ء میں ایف اے‘۱۹۷۲ء میں بی اے اور ۱۹۷۴ء میں ایم اے (اردو)کرلیا۔(سال ۱۹۷۴ء کا ایم اے کا امتحان ۱۹۷۵ء میں منعقد ہوا تھا۔تاہم میرے امتحان کا سیشن ۱۹۷۴ء شمار ہوتا ہے)۔</b><br />
<b>شوگر مل میں طویل عرصہ تک مزدوری کرنے کے بعدمجھے پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں اردو پڑھانے کی جاب ملی۔یہاں پر سرکاری لیکچرر کے گریڈ کے ساتھ مزید بہت ساری مراعات تھیں۔فری رہائش‘فری بجلی‘پانی‘تین وقت کا پکا پکایا کھانا جو تینوں وقت گھر پر پہنچایا جاتا تھا۔میں نے مبارکہ سے کہا کبھی بنی اسرائیل پر من و سلویٰ اترتا تھا۔ خدا نے ہم جیسوں پر بھی فضل فرما دیا ہے۔ہمیں بھی من و سلویٰ عطا ہو رہا ہے۔بنی اسرائیل کو تو وہی مخصوص ڈشیں مل رہی تھیں جن کی یکسانیت سے تنگ آکر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لہسن‘پیاز اور مسور کی دال کی فرمائش کرنے لگے تھے۔جبکہ ہمیں تو ہر بار نئی ڈشیں نصیب ہو تی تھیں۔اُن نعمتوں پر آج بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور اُس تعلیمی ادارہ کے مالک اور پرنسپل بریگیڈئیر اعجاز اکبر صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اﷲ انہیں خوش رکھے۔</b><br />
<b>مجھے نویں‘دسویں‘کیمرج اور ایف ایس سی کی کلاسوں کو اردو پڑھاناہوتی تھی۔پڑھانے کا تجربہ ہوا تو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ میں تو خود از سرِ نَو پڑھائی کر رہا ہوں۔بچوں کو پڑھانے سے پہلے خود پوری تیاری کرنا۔۔۔۔۔مجھے لگا کہ میں استاد سے زیادہ ایک اچھا طالب علم بن رہا ہوں۔طالب علموں کے ساتھ میرا رویہ مدرّسانہ سے زیادہ دوستانہ تھا۔اس کا مجھے فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔فائدہ یہ ہوا کہ طلبہ مجھ سے مانوس ہو گئے اور اپنے بعض مسائل کے سلسلے میں مجھ سے مشورہ مانگنے لگے۔اور تو اور ایک سینئر طالب علم نے اپنے ایک عشق کے سارے کوائف مجھے بتا کر مشورہ مانگا۔لڑکے کی سنجیدگی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں نے اسے مناسب مشورہ دے دیا۔نقصان یہ ہوا کہ بعض اساتذہ مجھ سے حسد کرنے لگے۔ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ بعض طلبہ ضرورت سے زیادہ بے تکلف ہونے لگے۔باہر تک تو خیر تھی‘کلاس روم میں بھی ان کی بے تکلفی بڑھنے لگی۔جملے بنانے کی مشق کے دوران بے تکلف طلبہ کچھ زیادہ ہی کھلنے لگے۔بعض جملے جان بُوجھ کر غلط بناتے ‘ جو غلط ہو کر بھی بامعنی ہوتے تھے اور ان سے جملہ بنانے والے کی ذہانت عیاں ہوتی تھی۔اس وقت مجھے جو جملے یاد آرہے ہیں ‘درج کر رہا ہوں۔</b><br />
<b>پیٹھ پیچھے برائی کرنا : کسی کے پیٹھ پیچھے برائی کرنے سے گناہ ہوتا ہے اور ایڈز کی بیماری بھی ہو جاتی ہے۔</b><br />
<b>کار گذاری: بارش کی وجہ سے بہت کیچڑ ہو گیا تھا اور میں نے بڑی مشکل سے پُل پر سے کار گذا ری </b><br />
<b>مت ماری جانا: ڈاکو نے اپنی بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا تم مفت میں میرے ساتھ مت ماری جانا۔</b><br />
<b>پو پھٹنا: جنگل میں شیر کو دیکھتے ہی میری پو پھٹ گئی۔</b><br />
<b>سٹاف روم میں ہم دوست اساتذہ ایسے جملوں پر دل کھول کر ہنستے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر سائنس کے کسی استادنے ’داشتہ آید بکار‘ کا مطلب پوچھا تو ایک ذہین استاد طیّب صاحب نے کہا پوری مثل یوں ہے ’’اہلیہ آید بہ تانگہ ‘داشتہ آید بہ کار‘‘ اور مطلب بالکل واضح ہے۔</b><br />
<b>میری تعلیم سرکاری اسکولوں کے جس ماحول میں ہوئی تھی پاکستان انٹر نیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج کا ماحول اس سے بالکل مختلف تھا۔اعلیٰ تعلیمی معیار کی حامل اس درسگاہ میں لکھ پتیوں اور کروڑپتیوں کے بچے زیادہ تھے۔میں ٹاٹ اسکول سے اپنی پڑھائی شروع کرنے والا ،انگلش میڈیم ماحول میں پڑھا رہا تھا۔</b><br />
<b>وہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا اور یہ بھی زندگی کا ایک تجربہ تھا۔</b><br />
<div style="text-align: center;">*** </div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-87493983046207613702011-07-15T06:25:00.000-07:002011-07-15T23:10:47.565-07:00بندۂمزدور کی اوقات<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">بندۂمزدور کی اوقات</span></b></div><b><br />
</b><br />
<b>۱۹۶۸ ء میں جب میں نے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیا ‘میری عمر ۱۶ سال ہو چکی تھی جبکہ سرکاری کاغذات کے مطابق میں ابھی ۱۵ برس کا ہوا تھا۔رزلٹ آنے کے بعد میں نے گھر والوں کو بتایا کہ میں اب ملازمت کرنا چاہتا ہوں اور ملازمت کے ساتھ اپنی پڑھائی کا سلسلہ بھی پرائیویٹ طور پر جاری رکھوں گا۔تب ابا جی نے حئی سنز شوگر ملز کے جنرل مینجر عزیز حسین کی بیگم سے بات کی ‘انہوں نے مجھے دیکھا ہوا تھا۔ملازمت کرنے کی بات سن کر کہنے لگیں:ہائے ۔۔۔ہائے وہ تو ابھی بالکل ہی بچہ ہے۔۔۔۔۔بہر حال ان کی سفارش پر مجھے شوگر مل میں لیبارٹری سیمپلر کی مزدوری مل گئی۔یہ شاید مشقت کے لحاظ سے کافی آسان مزدوری تھی۔اس مزدوری کو پانے کے لئے مجھے اُس وقت سول ہسپتال خانپور کے ڈاکٹر محمد اکبر ملک سے اپنی عمر کا ایک سرٹیفیکیٹ لینا پڑا‘جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ لڑکا اٹھارہ سال کا ہوچکا ہے۔اس سرٹیفیکیٹ کے حصول کے لئے مجھے مبلغ۲۰روپے’’فیس‘‘کے طور پر ادا کرنے پڑے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے میری نبض دیکھ کر ہی سرٹیفیکیٹ جاری کردیا تھا۔لیب سیمپلر کی حیثیت سے میری تنخواہ ۷۸روپے ماہانہ تھی۔ڈھائی مہینے کے بعد مجھے لیبارٹری بوائے بنا دیا گیا اور تنخواہ ۱۰۴روپے ماہانہ ہوگئی۔تین سال کے بعد لیبارٹری انالسٹ کی ترقی ملی تو میری تنخواہ ۱۵۰روپے سے ۲۰۰روپے ماہانہ کے لگ بھگ ہو گئی‘ اسی دوران میں ۱۹۷۴ ء کے سیشن تک اپنے ایف اے‘بی اے اور ایم اے کے امتحان پاس کر گیا۔</b><br />
<b>جب مبارکہ اور بچے جرمنی آنے والے تھے چھوٹے بیٹے ٹیپو کی عمر تقریباََ آٹھ سال تھی۔شعیب نے اس سے پوچھا کہ آپ جرمنی کیسے جائیں گے؟تو ٹیپو نے بڑی معصومیت کے ساتھ جواب دیا۔۔’’یا ہوائی جہاز سے جائیں گے یا تانگے سے جائیں گے‘‘ٹیپو کی یہ بات اس لئے یہاںیاد آگئی کہ اس سے ملتا جلتا اپنے مَن کا بھولپن یاد آ گیا ہے۔دسویں کا رزلٹ آنے سے پہلے میں من ہی من میں ارادہ بنایا کرتا تھاکہ نوکری کے ساتھ پڑھائی کروں گا۔یا تو گریجوایشن کے بعد مقابلے کے امتحان میں بیٹھوں گا اور ایک دن ڈپٹی کمشنر بنو ں گا‘یاپھر وٹرنری ڈاکٹر بن جاؤں گا۔ڈپٹی کمشنر بننے کی آرزو تو پھر بھی ممکنات میں سے تھی لیکن وٹرنری ڈاکٹر بننا تو ممکن ہی نہیں تھا۔دسویں میں میرے مضامین آرٹس گروپ کے تھے۔اس میں جنرل سائنس کا مضمون بھی میں نے مر مر کرپاس کیا تھا۔وٹرنری ڈاکٹر بننے کے لئے تو ایف ایس سی کرنا پہلی سیڑھی تھی جو میرے لئے بذریعہ تانگہ جرمنی جانے سے زیادہ مشکل تھی۔بہر حال شوگر مل کی نوکری کے پہلے دن جب مجھے لیبارٹری کی کھڑکیوں کے شیشوں اور فرش کی صفائی کرنا پڑی تو میرے اندر کے ڈپٹی کمشنر اور وٹرنری ڈاکٹر دونوں کی موت واقع ہو گئی۔صفائی کرتے ہوئے‘اپنے دوسرے ساتھیوں سے منہ چھُپا کر میں ان دونوں کی موت پر باقاعدہ آنسوؤں سے روتا رہا۔ </b><br />
<b>اس ملز کی شفٹوں کی ڈیوٹی کے اوقات کار یوں تھے:صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک کی شفٹ ‘شام چھ بجے سے نصف شب دو بجے تک کی شفٹ اور رات دو بجے سے صبح دس بجے تک کی شفٹ۔ہر ہفتے کے بعد شفٹ تبدیل ہو جاتی۔ملازمت بھی سیزنل تھی۔گنے کا سیزن ختم ہو جاتا تو ہمیں فارغ کردیا جاتا۔اس کا فائدہ یہ ہواکہ ان فارغ مہینوں میں مجھے اپنی پڑھائی پر زیادہ دھیان دینے کا موقعہ مل جاتا۔ ۱۹۷۱ء میں میری شادی ہو گئی۔شادی کی خبر سُن کر ہمارے چیف کیمسٹ نے کہا :تم تو کہتے تھے کہ نوکری کے ساتھ پڑھائی جاری رکھوں گا‘اب شادی کے بعد کیسے پڑھ سکو گے؟میں نے کہا جی اگلے سال مجھے بی اے کا امتحان تو دینا ہی دینا ہے۔چنانچہ ۱۹۷۲ء میں جب میں نے بی اے کا امتحان دے دیا اور اسے پاس بھی کر لیاتو اُس وقت کے چیف کیمسٹ کوثر صاحب حیران بھی ہوئے اور خوش بھی ہوئے۔اسی کیفیت میں انہوں نے مجھے اسی وقت ایک سو روپے کا انعام دیا۔میں نے رقم لینے میں ہچکچاہٹ کی تو کہنے لگے یہ انعام ’’سٹوڈنٹ حیدر‘‘ کے لئے ہے۔یہ انعامی رقم اس لحاظ سے مفید رہی کہ مجھے ایم اے کے کورس کی کتابیں خریدنے میں آسانی ہو گئی۔ایم اے کرنے کے بعد مجھے بطور لیبارٹری انالسٹ مستقل کردیا گیا۔اب میری ملازمت سیزنل نہیں رہی تھی۔</b><br />
<b>عملی زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کے بعد میرے اندر نا انصافی کے خلاف بغاوت کے خیالات پرورش پانے لگے تھے لیکن مجھے ایک خاص اخلاقیات اور چند اصولوں کا پاس بھی تھا۔ملز انتظامیہ مجھے نظر انداز کر رہی تھی۔ایک حد تک ان کی مجبوری جائز لگتی کہ میں نے تو ایم اے اردو کیا ہے اور میری ملازمت کی لائن لیبارٹری کی ہے۔ایم اے اردو اور لیبارٹری کا کوئی جوڑ ہی نہیں۔لیکن ایک عرصہ کے بعد جب اُس وقت کی ملز انتظامیہ کے بیس بائیس سال کی عمروں کے چار پانچ نوجوان بھانجے‘بھتیجے اور بیٹے آفیسرز کیڈر میں آئے اور مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہ سارے کے سارے میٹرک اور انڈر میٹرک نوجوان ہیں تو مجھے ملز انتظامیہ کے خلاف اپنی ساری برہمی جائز لگنے لگی۔اگر وہ لوگ چاہتے تو مجھے لیبارٹری سے مین آفس میں ٹرانسفر کرکے اس طرح کی ملازمت دے سکتے تھے۔لیکن یہ تو بہت بعد کے زمانے کی بات ہے۔بات یہ ہورہی تھی کہ میرے اندر بغاوت کے افکاربھی پرورش پانے لگے تھے اور مجھے ایک خاص اخلاقیات کا پاس بھی تھا۔اسی دوران ملز میں مزدور یونین قائم ہوئی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔تھوڑے عرصہ کے بعد دیکھا کہ جو لوگ یونین بنانے والے تھے ان میں سے بیشتر کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور بعض نئے چہرے سامنے آگئے ہیں۔جب یونین کے صدر رانا محمد حسین اور جنرل سیکریٹری نذیر احمد بنے تو مزدوروں کے لئے خاصی مراعات حاصل کی گئیں۔یہ لوگ کسی سیاسی لیڈر یا مذہبی پِیر کی طرح مزدوروں میں مقبول ہوگئے۔</b><br />
<b>ہماری لیبارٹری کے عملہ میں عام مزدوروں کے مقابلہ میں تھوڑے بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔بعض دوستوں نے کہا کہ جب جمہوری طریقِ کار ہے تو ہم بھی یونین کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اس سلسلہ میں ہمارے دو لیبارٹری کیمسٹ عبدالمجید اور مہدی حسن پیش پیش تھے۔مہدی حسن نے انڈیا سے بی ایس سی کیا تھا۔خوبصورت اور نازک سے نوجوان تھے۔حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔۱۹۶۵ء کے بعد یہ لوگ پاکستان آئے تھے اور تھوڑی سی مشکلات کے بعد قانونی تحفظ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔عبدالمجید اور مہدی حسن دونوں نے مزدور یونین کے الیکشن میں بحیثیت صدر اور جنرل سیکریٹری کھڑے ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بھڑک اُٹھے۔انہوں نے ملز کے گیٹ پر ایک پبلک میٹنگ کی جس میں ان دونوں پر ملز انتظامیہ سے ساز باز کرنے کا الزام لگایا۔مجید صاحب کو پکڑ کر لے گئے۔پبلک میٹنگ میں ان پر الزامات عائد کرتے ہوئے ان سے جواب طلبی کی گئی۔انہوں نے جمہوری طریقِ کار کی بات کرنا چاہی لیکن ہُوٹنگ کراکے انہیں بولنے نہیں دیا گیا۔مزید زیادتی یہ کی گئی کہ ان کے منہ پر سرِ عام تھوڑی سی سیاہی مَل دی گئی۔یہ سانحہ میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا۔میں خود مزدور تھا‘مزدوروں کے حقوق کے لئے آئینی اور قانونی طریقے سے لڑنے کے لئے بھی تیار تھا لیکن ایسے غیر جمہوری عمل اور کھلم کھلا غنڈہ گردی کے باعث میں اس مزدور یونین کے ایسے لیڈروں کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔</b><br />
<b>یہ سب کچھ در اصل عوامی وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرف سے دی گئی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ تھا۔رانا محمد حسین ‘پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں میں شامل تھے۔گویا حکومتی سرپرستی کے سا تھ انہیں اپنی پارٹی کا تحفظ بھی حاصل تھا۔ان ساری طاقتوں کو مزدور کے مفاد میں استعمال کرنا چاہئے تھالیکن رانا محمد حسین اور نذیر احمد نے اپنے مخالفین کو نشانہ بنانا شروع کردیا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے بعد جب بھی الیکشن ہوتے یہ دونوں عہدیدار ہمیشہ بلا مقابلہ صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدوں پر کامیاب ہوتے۔رانا محمد حسین اور نذیر احمد دونوں بحیثیت ملازم اب اپنی ڈیوٹی نہیں کرتے تھے۔بعض اکھڑ قسم کے مزدوروں کو انہوں نے اپنے محافظینِ خاص بنا لیا ۔ان محافظین کی یہ ڈیوٹی تھی کہ جہاں بھی کوئی مذکورہ دونوں لیڈروں کے خلاف بات کرے اس کی وہیں سرکوبی کر دی جائے۔ دہشت گردی کا یہ رویہ آگے چل کر پوری مزدور تحریک کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔</b><br />
<b>جب جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کا خون کرکے ملک میں مارشل لانافذ کیا تو مزدوروں کے معاملہ میں حکومت کا رویہ بالکل بر عکس ہو گیا۔بھٹو کے دور میں جتنی بے جا رعائت دی گئی تھی اب اس سے بھی زیادہ بے جا سختی کی جانے لگی تھی۔ہمارے لیب کیمسٹ عبدالمجید جو مزدوروں کے تشدد کا نشانہ بن چکے تھے‘اب لیب انچارج کے عہدہ پر فائز تھے۔اب وہ ہمارے نئے چیف کیمسٹ نذیر صاحب کے ستم کا نشانہ بنے ۔انہوں نے بھری لیبارٹری میں سرِ عام مجید صاحب کی بے عزتی کی۔یہاں تک کہ مجید صاحب آنسوؤں سے روتے ہوئے لیبارٹری سے باہر نکل گئے۔مجھے جب اس زیادتی کا علم ہوا میں نے لیبارٹری کے سارے عملہ کو یک جا کرنے کی کوشش کی۔ایک ساتھی بشیر باجوہ نے مجھے صاف لفظوں میں کہا کہ مجید کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ہونے دو۔وہ اسی لائق ہے۔اسے بچاؤگے تو وہ بچانے والوں کو ڈبودے گا۔چیف کیمسٹ نذیر صاحب سے میرے ذاتی مراسم خوشگوار تھے لیکن میں نے تہیہ کر لیا کہ مجید صاحب کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تلافی کراکے رہنا ہے۔ہم نے مہم شروع کی تو مزدور یونین بھی ہماری مدد کو آگئی۔جنرل ضیا کا دور آنے کے بعد شاید یونین کو ہم جیسے لوگوں کی ضرورت پیش آگئی تھی۔ہم نے چیف کیمسٹ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردینے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب مجید صاحب نے نہ صرف چیف صاحب سے صلح کرلی بلکہ جارحانہ انداز میں مجھ پر حکم بھی چلانے لگے۔چند دنوں کے بعد انہیں لیب انچارج سے ترقی دے کر شفٹ کیمسٹ بنا دیا گیا۔لیکن میں تو انتظامیہ کے عمومی رویے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہواتھا۔ میرے لئے اب بیٹھ جانا مناسب نہ تھا۔ملز انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔اسی دوران ایک دن جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھے لیبارٹری سے باہر ’’پین اسٹیشن‘‘پر بلوایا۔وہاں انتظامیہ کے بیشتر افسران تشریف فرما تھے۔میں وہاں پہنچا تو کسی رسمی علیک سلیک کے بغیر جنرل مینجر سعید صاحب نے مجھ پر چڑھائی شروع کردی۔انہوں نے انتہائی غلیظ گالیاں بکتے ہوئے مزدوروں میں پائی جانے والی ساری گڑ بڑکا ذمہ دار مجھے قرار دیا۔یہ وار اتنا اچانک ہوا تھا کہ میں ہکّا بکّا رہ گیا۔اس زیادتی نے مجھے رانا محمد حسین اور نذیر احمد سے مزید قریب کردیا۔</b><br />
<b>یہ ۱۹۷۹ء کا زمانہ تھا۔ تب جنرل ضیا نے کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں مزدوروں پر اندھا دھند فائرنگ کراکے اور سینکڑوں مزدوروں کا قتلِ عام کراکر اصلاََپورے ملک کے مزدوروں کو وارننگ دے دی تھی۔اس کے باوجود مجھے گالیاں دئیے جانے والے سانحہ کے بعد دس ‘بارہ دن کے اندر ملز کے مزدوروں نے بعض افسران کی زور دار اور سرِعام پٹائی کردی۔جن اہم افسران کی پٹائی ہوئی ان میں کین مینجر‘چیف انجینئر اور چیف کیمسٹ بطور خاص شامل تھے۔گنے سے چینی تیار کی جاتی ہے اور گنّوں سے ہی ان مزدور دشمن افسران کی مرمت ہوئی کین مینجر کا پیشاب ہی خطا نہیں ہوا‘ پتلون بھی گندی ہوگئی۔چیف کیمسٹ کو مزدوروں نے گیٹ پر روکا اور پکڑ کر جیپ سے اتارا۔انہوں نے منت کی کہ مجھے مت مارنا۔مزدوروں نے کہا آپ ناچ کر دکھاؤ تو نہیں ماریں گے۔چنانچہ چیف صاحب نے تھوڑا سا بھدہ ڈانس کیا۔اس کے باوجود مزدوروں نے تو انہیں مارنا ہی تھا‘سو بھدے ڈانس سے ناراض ہو کر انہیں بھی مارا پیٹا گیا۔جنرل منیجر اس مار سے بچ نکلے جس کا مجھے افسوس ہوا۔یہ سب کچھ میری اخلاقیات کے خلاف تھالیکن میرے ساتھ ہونے والی ملز انتظامیہ کی غنڈہ گردی سے لے کر کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے سینکڑوں بے گناہ مزدوروں کے قتلِ عام تک مزدوروں کے ساتھ ملز انتظامیہ کے عمومی رویے کو سامنے رکھیں تو یہ سب کچھ جائز تھااور اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔تنگ آمد بجنگ آمد۔</b><br />
<b>اس واقعہ کے وقت ہم لوگ ملز ایریا سے دُور اپنے اپنے گھروں میں تھے۔اس کے باوجود مقدمات درج ہوئے۔مقامی تھانے میں پندرہ مزدوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی۔’’این آئی آر سی‘‘جو مزدوروں کے معاملات کی سب سے بڑی عدالت ہے اور جس کے فیصلے کے خلاف صرف سپریم کورٹ میں جا سکتے ہیں‘وہاں پندرہ کی بجائے صرف سات مزدوروں کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔یہاں رانا محمد حسین اور نذیر احمد کے ساتھ میرا نام بھی شامل تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ نے شہر کی سرکاری انتظامیہ کی مدد سے ایک پاکٹ یونین تیار کر لی جو ہماری یونین کے مقابلے میں سرکاری طور پر تسلیم کرالی گئی۔ اس یونین کے خاص عہدیداروں میں الطاف احمد اور اظہر ادیب طبعاََ اچھے انسان تھے۔اظہر ادیب تو شاعر بھی ہیں۔بعد میں جب ہماری دوستی ہوئی تو پتہ چلا کہ وہ بعض ادبی رسائل میں تھوڑا بہت چھپے تھے لیکن پھر ادبی دنیا سے ان کا رابطہ نہ رہا۔میرے ساتھ دوستی ہوئی تو نہ صرف شاعری میں متحرک ہوئے بلکہ ادبی رسائل میں بھی چَھپنے لگے۔میں نے خانپور سے’’جدید ادب‘‘جاری کر رکھا تھا۔اظہر ادیب سے بھاولپور سے ’’اسلوب‘‘جاری کرایا۔اس کے صرف تین شمارے چَھپ سکے۔۔۔۔۔لیکن فی الوقت بات ہورہی تھی شوگر مل کی مزدور یونینوں کی۔۔۔</b><br />
<b>ہمارے مقابلے میں قائم کی گئی پاکٹ یونین نے کچھ رانا محمد حسین کی یونین کی پرانی زیادتیوں کی تشہیر کرکے‘کچھ مزدوروں کو مراعات دلاکے اور کچھ ڈرا دھمکا کے اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش شروع کی لیکن ان کی بے حد محنت کے باوجود انہیں کامیاب ہونے میں خاصا وقت لگ گیا۔ملز انتظامیہ نے ایک طرف رانا محمد حسین ‘ نذیر احمد اور ان کے ساتھیوں کے خلاف مقدمات دائر کررکھے تھے دوسری طرف دونوں لیڈروں کا ملز کے اندر داخلہ ممنوع کر رکھا تھا۔یوں انہیں مزدوروں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا تھا۔تیسری طرف پاکٹ یونین کی کاروائیاں جاری تھیں۔’’این آئی آر سی ‘‘والا مقدمہ خاصا پریشان کن تھا۔مختلف اطراف سے ایسے دباؤ بنانے کے بعد ملز انتظامیہ نے رانا محمد حسین سے اپنی شرائط پر ’’مفاہمت‘‘کی بات چیت شروع کی۔یہ وہ وقت تھا جب نذیر احمد جنرل سیکریٹری بھی تھک ہار کر گھر میں بیٹھ گئے تھے۔رانا محمد حسین ملز انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کے لئے بالکل تنہا رہ گئے تھے۔ان کے سارے وفادار‘جاں نثاراور مرتے دَم تک ساتھ نبھانے کے دعویدار ساتھی غائب ہو گئے تھے ۔ایسے وقت میں صرف حیدر قریشی تھا‘جس کے پاس وہ آتے‘مجھے ساتھ لیتے اورملز انتظامیہ سے معاملہ طے کرنے جاتے۔کبھی اسی یونین نے محض اصولی اختلاف کرنے اور غیر مشروط فرماں برداری سے انکار کرنے کے جرم میں مجھے مزدور دشمن‘انتظامیہ کا ایجنٹ‘غدار اور پتہ نہیں کیسے کیسے اعزازات سے نوازا تھا اور آج یہی یونین اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی تو میں ہی تھا جو اس کی زندگی کی دعا مانگ رہا تھا اور ممکنہ حد تک دوا کے لئے بھی تگ و دو کر رہا تھا۔اسی دوران مجھے اباجی کے ذریعے‘انور صاحب ڈسٹلری انچارج کے ذریعے اور چوہدری فضل صاحب گوڈان انچارج کے ذریعے خوشنما آفرز دئیے گئے۔ایک بار تو خود چیف کیمسٹ نذیر صاحب نے بھی براہِ راست مجھے پیش کش کی لیکن میں اصولوں کی پاسداری کی دُھن میں ہر پیش کش پر انکار کرتا گیا۔</b><br />
<b>ویسے اب سوچتا ہوں کہ جب رانا محمد حسین سے لے کر مجید صاحب لیب انچارج تک ہر کسی نے اپنے مفادات کو مقدم رکھا تو مجھے بھی اپنا نہیں تو اپنے خاندان کے آرام و آسائش کا کچھ خیال رکھ لینا چاہئیے تھا۔اس کے باوجود مجھے معلوم ہے کہ آئندہ بھی کبھی زندگی کے کسی شعبے میں ایسی صورتحال سامنے آئی تو میں پھر اُن لوگوں کے مشکل وقت میں اُن کا ساتھ نبھا رہا ہوں گا جو اپنے اچھے وقت میں مجھے خوار کرتے رہے ہوں گے۔</b><br />
<b>رانا محمد حسین نے آخر گھٹنے ٹیک دئیے۔ صدر‘جنرل سیکریٹری اور مارپیٹ کرنے والے نمایاں مزدوروں سمیت ۱۵ ۔افراد نے ’’از خود ‘‘استعفےٰ دے دئیے۔اس کے بدلے میں انہیں تھوڑی تھوڑی سی اضافی رقم دے دی گئی اور سارے مقدمات واپس لے لئے گئے۔جس دن مذکورہ مزدوروں نے استعفےٰ دئیے‘میرے چیف نذیر صاحب نے اپنے گھر سے لیبارٹری میں فون کرکے خصوصی طور پر میری ’’خیریت‘‘دریافت کی۔اس کے بعد ان کی طرف سے میرے خلاف انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔صرف ذہنی اذیت دینے والا۔۔۔۔۔تذلیل کرنے والا سلسلہ۔۔۔۔لیکن یہ سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ملز انتظامیہ کے افسران ایک پکنک پارٹی پر گئے۔وہیں نذیر صاحب چیف کیمسٹ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون ۔جنرل منیجر سعید صاحب ایک سرکاری مقدمے کی زد میں آگئے۔یہ چینی کی اسمگلنگ کا کوئی بڑا سکینڈل تھا جس میں حئی سنز شوگر ملز کے ڈائریکٹر آصف صاحب کو بھی ملوث کردیا گیا تھا۔حئی سنز گروپ چونکہ اُس زمانے میں بھٹو مرحوم کے ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا اس لیے ممکن ہے جنرل ضیاء الحق نے سیاسی انتقام کی خاطر حئی سنز گروپ کو نشانہ بنایا ہو۔وجہ کچھ بھی رہی ہو‘جنرل منیجر سعید صاحب کی گرفتاری کے ساتھ ہی میرے خلاف انتظامیہ کا جارحانہ محاذ ختم ہو گیا۔</b><br />
<b>نئی انتظامیہ کے چیف کیمسٹ شیر باز خاں نیازی بڑے ذہین آدمی نکلے۔پہلی دفعہ لیبارٹری میں آئے تو میں اپنے بگڑے مزاج کے مطابق کرسی پر بیٹھا رہا۔انہوں نے اسے نوٹ کیا ‘پھر اپنے طور پر میرے بارے میں معلومات حاصل کیں ۔میرا ریکارڈ دیکھا‘اپنے طور پر کسی نتیجے پرپہنچے۔۔اور پھر یوں ہوا کہ وہ لیبارٹری میں آئے۔باقی سارا عملہ انہیں’’سر!سلام‘‘کہہ رہا تھا اور میں حسبِ معمول اپنی کرسی پر بیٹھا تھا۔ نیازی صاحب سیدھے میرے پاس آئے ۔میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے’’حیدر صاحب!السلام علیکم‘‘۔یہ بڑا ہی اچانک وار تھا۔بالکل غیر متوقع۔میں بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے ہاتھ ملایا ‘وعلیکم السلام کہا۔انہوں نے میری خیریت پوچھی اور چلے گئے۔اگلے دن جیسے ہی وہ لیبارٹری میں داخل ہوئے‘میں اُٹھ کر ڈارک روم کی طرف کھسکنے لگاتاکہ سامنا ہی نہ ہو۔لیکن نیازی صاحب نے مجھے آدھے راستے ہی سے آواز دے دی۔’’حیدر صاحب!السلام علیکم ‘‘۔اس بار مجھے لگا ان کا ہاتھ مجھ سے ہاتھ ملانے کے لئے نہیں بڑھا‘میرے دل کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے آگے بڑھا ہے۔میں شرمندہ ہوکر پلٹا‘سلام کا جواب دیا‘ہاتھ ملایا اور پھر میں خود یہ کوشش کرنے لگا کہ نیازی صاحب سے پہلے انہیں سلام کہوں لیکن انہوں نے بہت کم اس کا موقعہ دیا۔میرا خیال ہے انہوں نے میرے اندر کے باغی کو بڑی حد تک سمجھ لیا تھا اور اسے مزید بھڑکانے کی بجائے محبت آمیزانداز سے میرے باغیانہ جذبے کی تہذیب کرنے لگے تھے۔</b><br />
<b>پاکٹ یونین کے صدر الطاف کو ذاتی طور پر میں نے ہمیشہ بہت اچھا انسان پایاتھا۔رانا محمد حسین کے عروج کے زمانہ میں ان کے بے جا جبر و تشدد کے نتیجہ میںیہ اُن کے مخالف ہوئے تھے۔پھر جب ملز انتظامیہ سے انہیں مدد ملی تو انہوں نے اس سے فائدہ اُٹھایاتاکہ رانا محمد حسین اور ان کے متشدد گروپ کو ٹھکانے لگایا جاسکے۔مجھے انہوں نے ایک دو بار سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے انہیں صاف کہہ دیا کہ رانا صاحب کے سابقہ کردار کا میں بھی مخالف ہوں لیکن اِس وقت یہ لوگ مظلوم ہیں اس لیے میں ان کا ساتھ دوں گا۔چنانچہ میں نے آخر تک ان کا ساتھ نبھایا۔ الطاف صاحب کا خیال یہ تھا کہ رانا گروپ مزاجاََ متشدد ہو چکا ہے اس لیے دوبارہ طاقت میں آکر یہ لوگ پھر پہلے والی زیادتیاں کریں گے ۔مزید یہ کہ بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے کے باعث مزدور کے اجتماعی مفاد کے تحفظ کے لئے اب یہی راستہ غنیمت ہے۔جنرل ضیا کے فوجی دور کے حوالے سے الطاف صاحب کی باتیں کچھ اتنی غلط نہ تھیں ۔تاہم میں نے رانا گروپ کی یونین ختم ہونے تک ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔جب یونین ختم ہوگئی تو الطاف گروپ پوری طرح چھا گیا۔انہیں مزدوروں کی تائید ملی تو انہوں نے مزدوروں کے حقوق اور مفادات کے لئے جدو جہد شروع کردی۔ملز انتظامیہ کا خیال تھا کہ انہیں ہم نے مقبول لیڈر بنایا ہے اس لیے انہیں صرف ہمارے ہی اشاروں پر چلنا چاہیے۔الطاف گروپ کا موقف یہ تھا کہ ایک مجبوری اور مصلحت کے تحت ہم نے ملز انتظامیہ کی مدد سے فائدہ اُٹھایا ہے وگرنہ ہم بنیادی طور پر مزدور ہیں اور مزدور مفادات کا تحفظ ہی ہماری اوّلین ترجیح ہے۔چنانچہ جلد ہی ملز انتطامیہ اور الطاف گروپ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔</b><br />
<b>نئے چیف کیمسٹ نیازی صاحب میرے معاملے میں خاصے مہربان تھے۔ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں مجھے شفٹ کیمسٹ کے عہدہ کی ترقی مل گئی لیکن یہ ترقی دوسرے شفٹ کیمسٹوں کے لئے دُکھ کا سبب بن گئی۔ان کے لئے میٹرک پاس مجید صاحب تو بطور شفٹ کیمسٹ قابلِ قبول تھے لیکن ایم اے اردو حیدر قریشی قابلِ قبول نہیں تھا۔۔۔۔ایم ایس سی اور کیمیکل انجینئر شفٹ کیمسٹوں میں خودمیں بھی اپنے اپ کو ’’مِس فٹ‘‘محسوس کرتا تھا لیکن پھر میٹرک پاس مجید صاحب؟۔۔۔۔۔۔اس تناؤ میں مجھے اصل ڈیوٹی دینے کی بجائے گنّا تولنے کی چیکنگ کی سپیشل ڈیوٹی دے دی گئی۔مجھے یہ سب کچھ خاصا توہین آمیز لگ رہا تھا۔اسی دوران ملز انتظامیہ کے بعض افسران کے بھانجے‘بھتیجے‘بیٹے قسم کے رشتوں والے چند نوجوان میرے ساتھ آگئے۔یہ سب مڈل اور میٹرک پاس لڑکے تھے اور ان کی تنخواہیں مجھ سے ڈیڑھ گُنا‘دو گُنا تک زیادہ تھیں۔میں جو اُنیس سال سے یہاں مشقت کر رہا تھا‘اس صورتحال سے بے حد دل برداشتہ ہوا۔کبھی کبھی خیال آتا کہ کہیں نیازی صاحب نے خلوص اور محبت کا جال بچھا کر مجھے پھنسانے کی چال تو نہیں چلی تھی؟آفیسر کیڈر میں لانے کے باوجود نہ تو مجھے میری اصل ڈیوٹی دی گئی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ کیا گیا۔بس اتنا ہوا کہ اب میں براہِ راست لیبر یونین سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ لیکن نیازی صاحب کے لئے میں خود اتنا مخلص ہو چکا تھا کہ ان کی کسی زیادتی کوبھی خاموشی سے برداشت کر سکتاتھا۔ سو ایسا ہی کیا۔آج بھی میں پوری ایمانداری سے کہہ سکتا ہوں کہ نیازی صاحب کے تئیں میری خاموشی‘کسی بے بسی کی زائیدہ نہیں تھی۔میں بظاہر بے بس ہونے کے باوجود ابھی بالکل ہی بے بس نہیں ہوا تھا۔میں حقیقتاََ ان کے لئے مخلص تھا۔</b><br />
<b>اسی دوران الطاف گروپ نے کسی مسئلے پر نیازی صاحب کے خلاف ہنگامہ کیا اور انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ایک دو اور مسئلوں پر بھی نیازی صاحب کے لئے پریشانی پیدا ہوئی‘یہاں تک کہ انہیں دل کا عارضہ ہو گیا۔ان کے خلاف ان سارے ہنگاموں میں وہ سارے افسران بھی کہیں نہ کہیں موجود تھے جنہوں نے میرے شفٹ کیمسٹ بنائے جانے پر احتجاج کیا تھا۔خود مجید صاحب بھی پس پردہ پیش پیش تھے۔۔۔۔۔۔۔اب میں ایک اعتراف کر لینا چاہتا ہوں کہ اگر میں ان سارے ہنگاموں میں نیازی صاحب کو بچا لے جانا چاہتا توالطاف اور اظہر ادیب مجھ سے دور نہیں تھے۔ ان سے بات کر کے باعزت سمجھوتہ کراسکتا تھا۔ لیکن میں خاموش تماشائی ہی بنا رہا۔نیازی صاحب نے ایک بار بھی مجھ سے بات کی ہوتی توشاید سارا منظر تبدیل ہوجاتا۔ اب سوچتا ہوں ممکن ہے وہ خود میری ترقی کے بعد میرے ساتھ ہونے والے سلوک پر دل ہی دل میں شرمند گی محسوس کرتے ہوں اور اپنے آپ کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہوں اور اسی شرمندگی کی وجہ سے مجھ سے بات نہ کی ہو۔بہر حال نیازی صاحب نے پھر یہ ملازمت چھوڑ دی اور ان کے بعد میں نے بھی جلد ہی شوگر مل کی نوکری چھوڑ دی۔ </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>محبتوں میں تم سے جو نباہ بھی نہ کر سکا </b><br />
<b>تمہارے بعد پھر کسی کی چاہ بھی نہ کر سکا</b></div><div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-61849604996638811352011-07-15T06:22:00.000-07:002011-07-15T23:12:21.370-07:00گراموفون سے سی ڈی تک<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">گراموفون سے سی ڈی تک </span></b></div><br />
<b>رحیم یار خاں میں قیام کے زمانے میں ، ہمارے بچپن میں جب ہمارے گھرمیں بجلی آئی تو بجلی سے چلنے والا ریڈیو بھی آ گیا ۔تا ہم گھر میں ریڈیو آنے سے پہلے ہم بابا جی کے ہاں خانپور میں گراموفون مشین سے متعارف ہو چکے تھے ۔ آپی اور میں ، ہم دونوں گانا سننے کی بجائے گانا گانے والوں کو ڈھونڈا کرتے تھے ۔ کبھی مشین کے بکس کو کھٹکھٹاتے تھے ، کبھی اس کے ساتھ منسلک بھونپو کے اندر جھانک کر گانے والوں کو تلاش کرتے تھے ۔ ریڈیو کے معاملے میں بھی ہم اسی طرح حیران ہوئے اور پھرا س کے عادی ہو گئے ۔ ایک بار بابا جی اپنی ایک گراموفون مشین رحیم یار خاں لے آئے ، وہاں انہوں نے پتہ نہیں کس تکنیک سے مشین کا کنکشن ریڈیو سے جوڑ دیا ۔ ایک کمرے میں مشین رکھ دی گئی دوسرے میں ریڈیو ، مشین پر کوئی گراموفون ریکارڈ چلایا جاتا تو ریڈیو سے وہی گانا سنائی دیتا ۔ بچپن کی حیرت انگیز باتوں میں یہ ہمارے لئے ایک اور حیرت انگیز بات تھی ۔ ۔۔ ایک بار بابا جی گراموفون مشین کے پاس بیٹھے تھے ، انہوں نے اپنے سامنے بہت سارے گراموفون ریکارڈز پھیلا رکھے تھے ۔ شاید اپنی پسند کے بعض ریکارڈز الگ کر رہے تھے ۔ اسی دوران پتہ نہیں کسی کام سے وہ تھوڑ ی دیر کے لئے اٹھے تو میں اُنہیں کے انداز میں انہیں کی جگہ پر جا کر بیٹھ گیا اور کچھ سمجھے بوجھے بغیر ان ریکارڈز کو باباجی کی طرح غور سے دیکھنے لگا ۔ پھر گھٹنوں کے بل ایک طرف بڑھا تو چار پانچ ریکارڈز میرے گھٹنوں کے نیچے آ کر ٹوٹ گئے ۔ اسی دوران بابا جی آ گئے ۔ اس نقصان سے تھوڑا سے پریشان تو دِکھے لیکن مجھے ڈانٹا نہیں ۔۔۔ ایک عرصہ بعد بابا جی میری اسی غلطی کو یوں مزے سے بتایا کرتے جیسے میں نے کوئی کارنامہ سرانجام دیا تھا ۔ زندگی بھر تو مجھ سے ڈھنگ کا کوئی کام نہیں ہو سکا تا ہم اتنا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں ہی چار پانچ ریکارڈز توڑ دیئے تھے ۔ یہ غالباً-58 1957 کا زمانہ تھا ۔</b><br />
<b>اب یہاں جرمنی میں ایک بار میری بڑی بیٹی ہمارے ہاں آئی ہوئی تھی ، میرا نواسہ رومی کھیل رہا تھا ، سامنے ٹی وی بھی چل رہا تھا ۔ اچانک ٹی وی پر ایک نیم برہنہ سا اشتہار آ گیا ۔ ڈھائی سال کے رومی کی نظر ادھر پڑی تو کھیلنا چھوڑ کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ میں نے فوراً ریموٹ کے ٹیکسٹ کا بٹن دبا دیا ۔ رومی کو لگا کہ میں نے ٹی وی کے ساتھ کچھ کر دیا ہے ۔ اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا تو میں بالکل انجان بن گیا ۔ تب وہ دوڑ کر ٹی وی کے قریب گیا اور جھک کر یوں سکرین کے نیچے سے دیکھنے لگا جیسے ٹیکسٹ کی عبارت کے نیچے سے وہ نیم برہنہ خواتین تھوڑی سی دکھائی دے جائیں گی ۔ میں اس کی اس حرکت پر بے اختیار مسکرا دیا ۔ تب ہی مجھے احساس ہوا کہ بچپن کی معصومیت کا انداز بے شک وقت بدلنے کے ساتھ بدل جاتا ہے لیکن بچپن کی معصومیت بہر حال معصومیت ہی رہتی ہے ۔</b><br />
<b>خانپور منتقل ہونے تک ہمارے گھر کے اقتصادی حالات کافی بگڑ چکے تھے ۔ بابا جی کا گراموفون مشینوں کا شوق بھی ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔ ایک دو مشینیں کباڑ کی طرح گھر کے کسی کونے میں پڑی ہوئی تھیں ۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ایک مشین ٹھیک ہو جائے اور میں اس پر ریکارڈ لگا کر سن سکوں ۔ بابا جی سے بات کی تو پتہ چلا ایک مشین ٹھیک ہے ۔ اسے جھاڑ پونچھ کر چلانا چاہا تو پتہ چلا بعض پرزوں کو تیل کی ضرورت ہے ۔ تیل گھر میں ہی موجود تھا ، سو یہ مسئلہ بابا جی کی مدد سے حل ہو گیا لیکن پھر ایک بڑا مسئلہ سامنے آ گیا ۔ ریکارڈ چلانے کے لئے مخصوص سوئیوں کی ضرورت تھی ۔ سوئیاں بازار سے خریدی جا سکتی تھیں لیکن پیسے کہاں سے آئیں ؟ یہ گہرا مسئلہ تھا ۔۔۔ مجھے لڑکپن سے ہی گھر کے حالات کا احساس ہو گیا تھا اس لئے امی جی ، ابا جی یا بابا جی سے ایسی فرمائش کرنا ہی زیادتی لگتی تھی ۔ لیکن ادھر گراموفون مشین پر ریکارڈز سننے کی شدید خواہش تھی ۔ مشین موجود تھی ، ریکارڈز بھی موجود تھے لیکن سارا معاملہ مشین کی سوئی پر اٹک گیا تھا ۔ یہ خواہش ، حسرت میں تبدیل ہونے ہی والی تھی کہ قدرت نے دستگیری فرما دی ۔ لیکن سوئیوں کے حصول کی داستاں اب ذرا بعد میں ۔۔۔ پہلے خانپور کا ہی ایک اور واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔</b><br />
<b>ہمارے گھر کے مغربی اور جنوبی اطراف میں سیال فیملی کے گھر تھے ۔ یہ فیملی کئی بھائیوں اور کزنز اور پھر آگے ان کی اولادوں کے گھروں پر مشتمل تھی ۔ ان سب کے گھر دور تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے ۔ ہمارے گھر کے جنوبی (عقبی ) جانب منیر سیال کا گھر تھا ۔ عمر میں یہ مجھ سے سات آٹھ سال بڑے تھے ۔ ان کے والد فوت ہو گئے تھے ۔ بیوہ ماں تھی اور منیر سیال تھے ۔ صبح سویرے منیر سیال دال چھولے کی چھابڑی لگاتے تھے ۔ جو کچھ کماتے لا کر ماں کے ہاتھ میں رکھ دیتے ۔ گھر کا خرچہ چل رہا تھا ۔ دراصل منیر کے والد یہی کام کیا کرتے تھے ۔ ان کی وفات کے بعد اپنی ماں کو سہارا دینے کے لئے منیر کو اپنے والد کی چھابڑی سنبھالنی پڑی ۔ جب ہم لوگ خانپور میں رہنے لگے تو مجھے اور میرے چھوٹے بھائی اکبر کو ایک ساتھ سکول جاتے آتے دیکھ کر منیر سیال کے دل میں بھی پڑھنے کی دبی ہوئی خواہش نے سر اٹھایا ۔ غالباً چوتھی جماعت کے بعد انہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا اور اس بات کو چار پانچ سال گز ر چکے تھے ۔ منیر سیال نے اپنی ماں سے کہا کہ میں پھر سے پڑھنا چاہتا ہوں ۔ماں نے اسے برا بھلا کہا کہ تم پڑھو گے تو گھر کا خرچ کیسے چلے گا ۔ سیال برادری کے بعض دیگر بزرگ خواتین و حضرات کو پتہ چلا تو وہ سارے لوگ جو اپنی اولاد کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہے تھے ، انہوں نے بھی منیر کی پڑھائی کی مخالفت کی اور یہاں تک کہہ دیا اس کا باپ پڑھا تھا جو یہ بدبخت پڑھے گا ۔ مگر وہ’’ بدبخت‘‘تو اپنی ضد پر اڑ گیا تھا ۔ روزانہ ماں بیٹے میں ہونے والے جھگڑے کی آوازیں ہمارے گھر تک سنائی دیتیں ۔ آخر ایک دن امی جی نے منیر کی ماں سے پوچھ لیا کہ آپ کے گھرمیں کیا جھگڑا ہوتا رہتا ہے ؟ ۔ منیر کی ماں نے منیر کو برا بھلا کہتے ہوئے اس کے دوبارہ پڑھائی شروع کرنے کے ’’مذموم ارادے‘‘ کی بابت بتایا تو امی جی نے انہیں سمجھایا کہ اگر وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ بہت اچھی بات ہے ۔ امی جی کے سمجھانے کا منیر کی ماں پر مثبت اثر ہوا اور انہوں نے آخر کار منیر کو پڑھنے کی اجازت دے دی ۔ </b><br />
<b>منیر نے ابتدا میں چھابڑی بھی لگائے رکھی اور گھر پر پڑھائی کرنے لگا ۔ اس دوران انہوں نے مجھ سے ٹیوشن کی مدد مانگی اور کہا وہ مجھے مناسب ٹیوشن فیس بھی دیں گے ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں صرف ایک بار ٹیوشن فیس لونگا ، کیونکہ مجھے گراموفون مشین والی سوئیاں خریدنی ہیں اور یہ فیس صرف چار آنے ہو گی ۔ منیرنے اسی وقت جیب سے چونی نکال کر فیس ادا کی اور میں انہیں پڑھانے کی بجائے سیدھا بازار کی طرف بھاگا ۔وہاں سے مطلوبہ سوئیاں خریدیں ۔ گھر آ کر مشین پر گھسے ہوئے ریکارڈز کو لگا لگا کر سنتا رہا ۔ گھسے ہوئے ریکارڈز کو اتنی بار سن لیا کہ مزید سننے کی تمنا نہ رہی ۔ پھر اسی دن ہی میں نے گراموفون مشین کو اٹھا کر اس کے اصل مقام پر رکھ دیا ۔ </b><br />
<b>منیر سیال نے شروع شروع میں مجھ سے تھوڑی سی اردو پڑھی ۔ پھر ہمارے اسکول کے ایک دو ٹیچر ان کی مدد کرنے لگے ۔ سال ڈیڑھ سال میں انہوں نے آٹھویں جماعت کا بورڈ کا امتحان دیا اور کامیاب ہو گئے ۔ پھر تین سال کے بعد پرائیویٹ طور پر ہی دسویں کے امتحان میں شرکت کی اور اس میں بھی کامیاب رہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سکول ٹیچر کا کورس ptc کر لیا ۔ پھر ایف اے بھی کر لیا ۔ ایک گاؤں میں ٹیچر لگ گئے ، شادی خانہ آبادی بھی ہو گئی ۔ منیر سیال کو میری اور اکبر کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہوا تھا ۔ مجھے دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد ملازمت کے ساتھ ایف اے ، بی اے اور ایم اے کرنے کی توفیق ملی تو اس شوق میں مجھے کچھ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر منیر کے کردار سے تحریک ضرور ملی تھی ۔ شاید ایسے ہی چراغ سے چراغ جلتے ہیں </b><br />
<b>جب ہمارے حالات قدرے بہتر ہونے لگے تو بابا جی ایک سیکنڈ ہینڈ بلکہ تھرڈ یا فورتھ ہینڈ ریڈیو ٹرانزسٹر لے آئے ۔ ہر سیٹ کی طرح اس سیٹ پر بھی دائیں بائیں KC--MC-MW-SW کے حروف لکھے ہوئے تھے ۔ میڈیم ویو یا شارٹ ویو پروگراموں کی فریکوئنسی تلاش کرنے کے لئے ان سے راہنمائی ملتی ہے ۔ اکبر تب چھٹی جماعت میں تھا ۔ نئی نئی اے بی سی سیکھی تھی ۔ چنانچہ وہ انہیں بڑی روانی کے ساتھ مؤ ، سؤ ، کک، مک پڑھتا تھا ۔ ریڈیو کے پیچھے کا کور جب چاہتے کھول لیتے بلکہ اکثر کھلا ہی رکھتے ۔ پرزوں کے اصل نام تو خدا جانے کیا ہوں گے ۔ دیسی حساب سے بیشتر پرزوں کے نام ہمیں یاد ہو گئے تھے ۔ کسی تار کا ٹانکا ٹوٹ جاتا تو بابا جی خود ہی ٹانکا لگا لیتے تھے ، ایک بار ریڈیو کے سپیکر سے منسلک تار کا ٹانکا ٹوٹ گیا ۔ بابا جی گھر پر نہیں تھے ۔ مجھے پریشانی یہ تھی کہ میں نے آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس سے پروگرام’’ یک رنگ‘‘ سننا تھا ۔ یہ پروگرام مجھے ویسے بھی اچھا لگتا تھا لیکن اس دن یک رنگ کا الوداعی پروگرام تھا ۔ یک رنگ ۔۔۔۔ یک رنگ کے نام تھا ۔ تب میں نے تار کا ننگا حصہ اسپیکر کی متعلقہ جگہ پر انگلی کے ساتھ مسلسل چپکائے رکھا اور یوں وہ سارا پروگرام سنا ۔ ٹانکوں کے مسئلے سے ہٹ کر بھی ریڈیو سیٹ کا طرز عمل ضدی بچوں جیسا تھا ۔ چلتے چلتے کبھی آواز کا ازخود بڑھ جانا اور کبھی بالکل خاموش ہو جانا ۔ جب ریڈیو کا کوئی بٹن کارگر نہ ہوتا تب ایک دو تھپڑ لگانے سے ریڈیو عموماً ٹھیک ہو جاتا تھا ۔ ایک بار جب مختلف پرزوں کو چھیڑنے سے لے کر تھپڑ لگانے تک کوئی نسخہ کار گر نہ ہوا تو باباجی نے یہ سمجھ کر کہ اب یہ بالکل ہی ختم ہو گیا ہے ، پاؤں کا جوتا اٹھا کر غصے سے ریڈیو پر دے مارا ۔ یقین کیجئے ریڈیو اسی وقت ٹھیک ہو گیا ۔ ہم سارے گھر والوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا ۔ ابا جی کو ریڈیو سے صرف خبروں کی حد تک سروکار تھا ۔۔۔۔ بابا جی کے اور میرے درمیان پسندیدہ اسٹیشن لگانے کی کشمکش چلتی رہتی تھی ۔ بابا جی کو پاکستانی گانے اور خاص طور پر نورجہاں کے گانے بہت پسند تھے ۔ قوالیاں بھی بڑے شوق سے سنتے تھے ۔ مجھے اس زمانے میں صرف انڈین گانے اچھے لگتے تھے ۔ بابا جی نے ریڈیو لاہور یا ملتان لگایاہوا ہے ۔ میں اٹھا اور آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس لگا دی ۔ عصر کے بعد کبھی کبھا ر آکاش وانی بمبئی وِوِدھ بھارتی وگیا پن کاری کرم بھی کیچ ہو جاتا ۔ میرے لئے اس پروگرام کی کمرشلز بھی دلچسپ ہوتی تھیں ۔</b><br />
<b>دراصل دلی، لکھنؤ ، کلکتہ اور بمبئی جیسے شہروں کے بارے میں تاریخ اور اردو کی درسی کتابوں میں جتنا پڑھا تھا اس کی وجہ سے یہ شہر میرے لئے خوابوں کے شہر ہو گئے تھے ۔ سو بمبئے ریڈیو سن کر میں جیسے اپنے خواب کی آوازیں سن رہا ہوتا تھا ۔ جب مجھے دلی جانے کا موقعہ ملا تب خواب اور حقیقت کا فرق معلوم ہوا ۔ میرے خوابوں والے دلی کی ہلکی سی پرچھائیں مجھے غالب کے مزار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے دربار میں نظر آئی ۔ جامع مسجد دہلی اور لال قلعہ کے علاقوں میں بھی ایسی پرچھائیوں کا ہلکا سا احساس ہوا لیکن دلی تو کیا سے کیا ہو چکی ۔ دہلی سے Delhi ہو چکی ۔ اب اگر کبھی لکھنؤ ، کلکتہ اور بمبئے جانے کا موقعہ ملا تو ظاہر ہے مجھے یہ تجربہ تو ہو ہی گیا ہے کہ اپنے خوابوں والے شہر تو اب کہیں بھی نہیں ملیں گے ، لیکن خوابوں کی ہلکی ہلکی پرچھائیاں تو کہیں نہ کہیں مل ہی جائیں گی ۔</b><br />
<b>محمد رفیع اور لتا منگیشکر تو مشرقی موسیقی کے امر گلوگار ہیں ۔ مکیش ، مہندر کپور ، طلعت محمود ، آشا بھونسلے ، گیتا دت ، ہیمنت کمار ، کشور کمار ، سمن کلیان پور ، مبارک بیگم اور منا ڈے کے بہت سارے گانے مجھے پسند ہیں ۔ پاکستانی گلوکاروں میں سلیم رضا ، زبیدہ خانم ، مہدی حسن ، مسعود رانا ، احمد رشدی ، مالا ، نسیم بیگم ، مسرت نذیر ، اسد امانت وغیرہ کے گیت مجھے اچھے لگتے ہیں ۔ ملکہ ترنم نورجہاں نے 1970 ء کے عرصہ تک بے حد عمدہ گیت گائے ، لیکن مجھے لگتا ہے اس کے بعد ان کی آواز جیسے پھٹ گئی ہو ۔ سمن اور مبارک بیگم نے بعض بے حد خوبصورت گانے گائے ہیں لیکن خدا جانے وہ فلم انڈسٹری میں کیوں نہیں ٹک پائیں ۔ آشا بھونسلے مجھے کئی جہات سے اچھی لگتی ہیں لیکن حال ہی میں انہوں نے جو اپنے خوبصورت گیتوں کو پاپ میوزک سے آمیز کر کے البم نکالے ہیں ان سے مجھے ذاتی طور پر بے حد شاک لگا ہے ۔ یہ تو فلمی گلوکاروں کے بارے میں میری پسند کا ایک خاکہ سا تھا ۔ پرائیویٹ گانے والوں میں مجھے سب سے زیادہ لوک گلوکار پسند ہیں ۔ صوفیائے کرام کا کلام گانے والے گلوکار، پھر غزلیں گانے والے اور قوالیاں گانے والے بھی ۔ حامد بیلا‘ نصرت فتح علی خاں ، پٹھانے خاں ، شوکت علی ، عالم لوہار ، ریشماں ، غلام علی ، جگجیت ، چترا ، پنکج ادھاس اور بے شمار دوسرے گلوکار میری پسند ہیں ۔ کبھی کبھار سہگل کے اور اُس دور کے گلوکاروں کے گانے سننے میں بھی مزہ آتا ہے ۔ اگر میں اپنے پسندیدہ گانوں کی فہرست تیار کر نے بیٹھوں تو شاید ایک چھوٹی سی کتا ب تیار ہو جائے ۔ یہاں میں دو گیتوں کا خصوصی ذکر کرنا چاہتاہوں ۔ پہلا گانا فلم خاموشی کا ہے اور اسے لتا جی نے گایا ہے </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ہم نے دیکھی ہے ان کی آنکھوں کی مہکتی خوشبو </b><br />
<b>ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو </b></div><b>یہ گانا میں نے پہلی بار جب سنا تو رات کا وقت تھا " تعمیل ارشاد " پروگرام لگا ہو ا تھا ۔ گرمیوں کا موسم ، ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔یہ گیت شروع ہوا تو مجھ پر عجیب سا جادو طاری ہو گیا ۔ یہ گانا میرے پسندیدہ ترین گانوں میں سے ایک ہے ۔ دوسرا گانا بھی لتا جی کا ہے فلم ’’انوپما‘‘ سے :</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>’’کچھ دل نے کہا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ؍کچھ دل نے سنا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔</b><br />
<b>؍ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ ‘‘</b></div><b>میں ریڈیو کی سوئی گھما رہا تھا کہ یہ گیت سنائی دیا ۔ آخری انترا چل رہا تھا ۔ ادھر ریڈیو بھی مستی سی کر رہا تھا ۔ لیکن تیر تو نشانے پر لگ چکا تھا ۔ میں نے مکھڑا ذہن نشین کر لیا تب فلم کا نام معلوم نہیں تھا اور پھر مجھے اس گیت کی تلاش ہی رہی ۔ جب حالات بہتر ہوئے ، اپنا کیسٹ پلےئر آ گیا تب میں نے اس گانے کی تلاش تیز کر دی ۔ لیکن جس سے بھی گانے کی بابت پوچھتے وہ دوکاندار ہنس دیتا کہ جی یہ بھی کوئی گانا ہو گا ۔ </b><br />
<b>کچھ دل نے کہا ، کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ 1993 میں جب میں دلی میں تھا تب زی ٹی وی کی نشریات ختم ہونے کے بعد رات کو گانوں کی ایک ہی آڈیوکیسٹ مسلسل اس چینل سے نشر ہوتی رہتی تھی ۔ ان گانوں میں یہ گانا بھی شامل تھا ۔ مجھے یہ گانا کیا ملا ، کوئی کھویا ہوا خزانہ مل گیا تاہم بات صرف ان گیتوں پر ختم نہیں ہوتی لیکن یہاں یہ باتیں کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہیں گی ۔ </b><br />
<b>گراموفون اور ریڈیو کے زمانے میں گویا ایک نقاب سا حائل تھا ۔ ٹی وی نے آ کر پہلے تو یہ نقاب اتارا‘پھر اور بھی بہت کچھ اتار دیا ۔ سیٹلائٹ نے کثرت کا ایسا تماشہ دکھایا کہ چینل کا انتخاب کرنا مشکل ہو گیا ۔ گراموفون کے زمانے میں فلم بھی تھی لیکن میرے لئے اس کا ہونا ‘’’نہ ہونے‘‘ کے برابر تھا ۔ میں نے تیس سال کی عمر تک فلم نہیں دیکھی ۔ سینما ہاؤس میں جا کر اب بھی نہیں دیکھی ، وی سی آر ، ایشیا نیٹ اور زی ٹی وی کے ذریعے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ زندگی کے ابتدائی تیس برسوں کی کسر بھی نکال دی ہے اور آنے والے کئی برسوں کا کوٹہ بھی پورا کر لیا ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے اتنی فلمیں دیکھ لی ہیں کہ اب فلم دیکھنے کی خواہش ہی نہیں رہی ۔کبھی کوئی بہت اچھی فلم سننے میں آئے تو اسے دیکھ لیتا ہوں ۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں وہ گیت جوریڈیو پر اچانک سننے کو ملتے تھے اور عجیب جادو سا کر دیتے تھے ۔ ٹیپ ریکارڈر آنے کے بعد پوری طرح ہماری دسترس میں آ گئے ہیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ا ب گانا سننے کے لئے ریڈیو کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی ۔ جب جی چاہے کیسٹ لگائیں اور پسندیدہ گانا سن لیں لیکن نقصان یہ ہوا کہ کتنے ہی خوبصورت گانے بار بار سن کر وہ سرور گم ہو گیا ہے جو ریڈیو پر وہی گیت اچانک سننے سے ملتا تھا ۔</b><br />
<b>شروع میں گراموفون کے ریکارڈ میں ایک طرف ایک گانا ہوتا تھا دوسری طرف ایک اور گانا ہوتا تھا۔ ہر گانے کے بعد ریکارڈ کو تبدیل کرنا پڑتا تھا ، مشین کی چابی بھرنا ہوتی تھی ۔ اور اب سی ڈی کا زمانہ آ گیا ہے ۔ سی ڈی پلےئر پر بیک وقت تین سی ڈی لگی ہیں ۔ لگ بھگ پچاس گانے آپکے ہاتھ میں ہیں ۔ مرضی کا گانا سنتے رہیں ۔ اٹھ کر سی ڈی پلےئر کے کسی بٹن کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے ، ریموٹ سے کنٹرول کیجئے اور اپنی پسند کے گانے سنتے رہئے ۔ ٹیپ ریکارڈ ر کی طرح یہ مجبوری بھی نہیں ہے کہ چھ یا آٹھ گانے ہیں اور ریکارڈڈ ترتیب کے مطابق باری باری آتے جائیں گے ۔بس مطلوبہ سی ڈی کا نمبر دبائیں ‘ پسندیدہ گانے کا نمبر دبائیں اور اطمینان سے اپنی پسند کا گانا سن لیں ۔ میں کفران نعمت کو بدترین گناہوں میں شمار کرتا ہوں ۔ زندگی کے تلخ ترین حالات سے گزرنے کے بعد خدا نے اس قسم کی آسائشیں اور سہولتیں عطا کی ہیں تو ان کے لئے تہہ دل سے خدا کی شکر گذار ی کرتا رہتا ہوں ۔گراموفون مشین اور سی ڈی پلےئر میں اتنا فرق ہے جتنا بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی اور آخری ربع صدی میں فرق ہے ۔ زمانہ وہی ہے ، صدی وہی ہے ، بس گراموفون مشین اب سی ڈی پلےئر کا روپ اختیار کر گئی ہے ۔</b></div><div style="text-align: right;"><b>اور ہاں ۔۔۔۔ میری ذاتی زندگی بھی تو گراموفون سے سی ڈی جیسی ہو گئی ہے ۔ فالحمدللہ علی ذلک ۔</b><br />
<div style="text-align: center;">*** </div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-39665683879939861412011-07-15T06:18:00.000-07:002011-07-15T23:06:13.170-07:00اخلاقی قدریں اور ویا گرا<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">اخلاقی قدریں اور ویا گرا</span></b></div><b><br />
</b><br />
<b>میرے بچپن کے دور میں رحیم یار خاں اور مقامی آبادی میں خواتین کے لئے شٹل کا ک برقعہ رائج تھا ۔ شہری لوگوں میں تھوڑی تھوڑی تبدیلی آ رہی تھی ۔ سفید کفن نما برقعہ کی جگہ ریشمیں کپڑے کا سیاہ برقعہ پہنا جانے لگا تھا ۔ شٹل کاک برقعہ والے حلقے میں لیڈی ہملٹن کے سیاہ برقعے کو " بے حیائی " سمجھا جاتا تھا۔ میرے جوان ہونے تک ۔۔۔۔۔ یعنی بیس سال کے اندر اندر ہی نہ صر ف شٹل کاک برقعہ تقریباً غائب ہو گیا بلکہ سیاہ برقعہ سے بڑھ کر چادریں اوڑھنے کا رواج شروع ہو گیا۔ اب تو ان شہروں میں صرف دوپٹہ اوڑھے ہوئے بلکہ دوپٹہ گلے میں ڈالے ہوئے بیبیاں بھی عام دکھائی دیتی ہیں ۔ لڑکیوں کو پڑھائی کرانے کامعاملہ بھی شروع میں کچھ ایسا ہی تھا ۔ خانپور میں ہماری ایک ہمسائی ماسی خانزادی لڑکیوں کو پڑھانے کی سخت مخالف تھیں ۔ ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں پڑھنا لکھنا سیکھ جائیں تو اپنے یاروں کو محبت نامے لکھتی ہیں ۔ بعض دوسری ہمسائیوں کا خیال تھا کہ لڑکیوں کو پانچ جماعت تک تعلیم ضرور حاصل کرنا چاہیئے ۔ ہمارے گھر والوں کے مطابق بچیوں کو دسویں تک تعلیم دلانے میں کوئی حرج نہیں لیکن کالج کی تعلیم ٹھیک نہیں تھی ۔ پھر ہمارے اپنے ہی عزیزوں اور احباب میں تین طرح کے لوگ ملے ۔ ایک کے نزدیک لڑکیوں کو کالج تک پڑھانے میں کوئی حرج نہیں لیکن یونیورسٹی نہیں بھیجیں ، وہاں ماحول بہت زیادہ کھلا ہوتا ہے ۔ دوسروں کے موقف کے مطابق لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تعلیم تو دلانا چاہیئے لیکن ملازمت نہیں کرانا چاہیئے ۔ کیونکہ خواتین کوملازمت کرانے دیں تو اس سے بہت سارے اخلاقی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں ۔جبکہ تیسروں کے نزدیک خواتین کا ملازمت کرنا قابلِ اعتراض نہیں تھا۔ان کے خیال کے مطابق اخلاقی مسائل اَن پڑھ دیہاتی ماحول میں بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ تعلیم اور ملازمت سے خواتین میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔ برقعہ کی سخت پابندی اور لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت سے شروع ہونے والا " اخلاقی قدروں "کا سفر وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی اپنے آپ کو بدلتا چلا گیا ۔ ایسے ماحول میں ہی میں پلا بڑھا اور اس کے مختلف اثرات مجھ پر مرتسم ہوئے۔ </b><br />
<b>اخلاقیات کی ایک قسم تو عالمی اور دائمی نوعیت کی ہے ، جو تمام مذاہب میں قدر مشترک ہے ، تاہم کبھی کبھی انفرادی نوعیت کی اخلاقیات اپنا جواز خود لے کر آتی ہے ۔ غالباً 1975 ء کی بات ہے ، بزم فرید خانپور کی مقامی نوعیت کی ادبی تقریبات کا سلسلہ جاری تھا ۔ تب ہی ریڈیو پاکستان بہاولپور کی ریکارڈنگ ٹیم خانپور آئی ۔ نصراللہ خاں ناصر پروڈیوسر تھے ۔ ہم نے گورنمنٹ سکول حلقہ نمبر ۲ میں ایک چھوٹے سے مشاعرے کا انتظام کیا ۔ صدارت کے لئے شیخ فیاض الدین کو مدعو کیا گیا جو خانپور کے تجارتی حلقوں کی معروف شخصیت تھے ۔ شاعری کے اچھے قاری اور سامع تھے ۔ مشاعرہ بعد از نماز مغرب ہونا تھا ۔ سو جیسے ہی مشاعرہ شروع ہونے لگا ، شیخ فیاض کے دو ملازم ، ایک نوجوان کو اس طرح پکڑے ہوئے اندر لائے کہ صرف قمیص نوجوان کے تن پر تھی اور اس کی دھوتی ایک ملازم کے ہاتھ میں تھی ۔ ملازموں نے یہ بتایا کہ یہ بدکار قریب کے ویرانے میں ایک گدھی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کر رہا تھا اور وہ اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لائے ہیں ۔ نوجوان کے چہرے پر خوف اور شرمندگی کے گہرے اثرات تھے ۔ شیخ فیاض نے اس نوجوان سے اس کے دو تین نجی کوائف دریافت کئے ۔ کوئی بے حد مفلوک الحال تھا ۔ شیخ فیاض نے اپنے ملازمین کو ڈانٹ کر کہا یہ اتنا غریب ہے کہ نہ تو شادی کر سکتا ہے نہ کوٹھے پر جا سکتا ہے ۔ ایسے حال میں یہ غلطی کر بیٹھا ہے تو تمہیں اس سے کیا نقصان پہنچا ہے ، چلو اس کی دھوتی اسے واپس کر و ۔۔۔۔۔ پھر اس نوجوان سے بڑی ملائمت سے کہا جا بچے جا ۔۔۔۔ یہ واقعہ کوئی بہت بڑا واقعہ نہیں تھا لیکن میں جزا ، سزا کے جن تصورات کو بے حد اہمیت دیتا تھا ، مجھے پہلی دفعہ ان میں معافی کی گنجائش محسوس ہوئی ۔ شیخ فیاض کے رویے کا میں کوئی جواز نہیں دینا چاہتا ۔شاید دے ہی نہیں سکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ تب سے مجھے شیخ فیاض بحیثیت انسان ہمیشہ اچھے لگے ۔</b><br />
<b>اس سے مختلف ایک اور واقعہ چند سال پہلے جرمنی میں ہوا تھا ۔ ایک معروف مذہبی جماعت کے ایک سابقہ اعلیٰ عہدیدار جو عمر کے لحاظ سے لگ بھگ 60 کے پیٹے میں تھے ، ایک 40 سالہ پاکستانی خاتون کے ساتھ ایک آئس شاپ کے بیس منٹ کی ٹائلٹ سے پکڑے گئے ۔ ہوا یوں کہ دونوں کو محبت بڑھانے کے لئے Langen شہر کی ایک اٹالین آئس کریم شاپ مناسب لگی ۔ عشق کے اگلے مراحل طے کرنے کے لئے طے شدہ پروگرام کے مطابق پہلے خاتون بیس منٹ میں گئیں ، پھر وہ بزرگ بھی بیس منٹ میں اتر گئے ۔ اتفاق کی بات تھی کاؤنٹر پر موجود اطالوی دوکاندار نے خاتون کو نیچے جاتے نہیں دیکھا تھا لیکن بزرگ کو جاتے دیکھ لیا ۔ چنانچہ جب بزرگ کی واپسی میں دیر ہونے لگی تو دوکاندار کو یہ خدشہ ہوا کہ بزرگ آدمی تھے کہیں لیٹرین میں ہی دل کا دورہ نہ پڑ گیا ہو ۔ چنانچہ اس پریشانی کے ساتھ جب وہ نیچے گئے تو مردانہ لیٹرین کا دروازہ کھٹکٹانے پر مضحکہ خیز نظارا سامنے آیا ۔ مذکورہ خاتون اپنا لباس درست کرتی ہوئی اور بزرگوار اپنی بیلٹ باندھتے ہوئے باہر نکلے ۔ یورپ میں باہمی رضامندی سے ہونے والا جنسی عمل کوئی سماجی یا اخلاقی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن لیٹرین میں Sex Play یورپ والوں کے لئے مضحکہ خیز حرکت ضرور تھی ۔ سو یوں یہ قصہ یہاں عام ہوا ۔</b><br />
<b>ان دو مختلف نوعیت کے واقعات کے ساتھ مجھے ایک ہولناک واقعہ یاد آ رہا ہے ۔ خانپور میں سیال فیملی کے لوگ ہمارے ہمسائے تھے ۔ عمومی طور پر یہ سب ہی اچھے لوگ تھے ۔ چھوٹی موٹی ناراضیاں تو قریبی رشتہ داروں میں بھی ہوتی ہیں یہ تو پھر ہمسائے تھے ۔ سارے لوگ اپنی سماجی اخلاقیات کے پابند تھے ۔ 1982 ء میں جب ہم نے اپنا پرانا گھر فروخت کیا اور ماڈل ٹاؤن میں کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہونے لگے تو سیال فیملی کے ایک دوست ملنے آئے ۔ مکان کا سودا کرانے میں انہوں نے بھی تھوڑا سا مثبت کردار ادا کیا تھا ۔ بظاہر وہ مجھے خدا حافظ کہنے آئے تھے لیکن میں اس وقت سناٹے میں آ گیا جب انہوں نے بڑی لپٹی ہوئی مگر کچھ اس مفہوم میں بات کی کہ میرے ملنے جلنے والے دوست احباب بہت ہیں اس لئے یہ گھر تو بہت چھوٹا تھا ۔ بات کا طنزیہ انداز ایسا تھا جس کا میرے ذہن میں کہیں شائبہ تک نہ تھا ۔ شاید وہ مجھے ذہنی اذیت میں مبتلا کر کے لطف اٹھانا چاہتے تھے ۔ سو بظاہر تو نہیں لیکن اندر ہی اندر مجھے کہیں اذیت سی ضرور محسوس ہوئی ۔ آخر انہوں ایسا گمان بھی کیوں کیا ؟ ۔۔۔۔۔ اور ایک دن یہ اذیت بالکل ختم ہو گئی ۔ خانپور شہر کی تاریخ کا یہ ہولناک سانحہ یکایک سامنے آیا ۔ سیال فیملی کے اسی کرم فرما کی دو بیٹیوں اور تین لڑکوں کو پولیس نے دن دہاڑے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا تھا ۔ ایک مکان میں دونوں بہنیں مذکورہ لڑکوں کے ساتھ فحش فلمیں دیکھتے ہوئے وہی سین دہرا رہی تھیں ۔ اس سانحہ کے ساتھ مزید المیہ یہ ہوا کہ جائے وقوعہ سے پولیس اسٹیشن تک سارے گرفتار شدگان کو ننگے پاؤں پیدل چلا کر لایا گیا ۔ سب کے تن پر صرف ان کی لمبی قمیصیں تھیں جبکہ سب کی شلواریں اور جوتے ان کے سروں پر دھرے تھے ۔ آگے عبرت کی ایک الگ داستان ہے ۔ یہ واقعہ کچھ زیادہ ہی تکلیف دہ سا بیان ہو گیا ہے ، اس لئے ہلکی پھلکی شرارت والی یادوں کو کریدتا ہوں ۔ </b><br />
<b>چند سال پہلے بخش لائلپوری لندن سے جرمنی آئے ۔ میرے ہاں مقیم تھے ۔ ان سے جو باتیں ہوئیں ‘ ان میں ایک قصہ بے حد مزے کا تھا ۔ مغرب میں جنسی آزادی ( بے راہروی ) کا مغرب والوں کا اپنا الگ سا تصور ہے ۔ بچوں کے لئے طرح طرح کی گڑیائیں بنانے والوں نے بڑوں کے لئے بھی گڑیائیں بنا دی ہیں ۔ مارکیٹ میں ربڑ کی ایسی گڑیائیں دستیاب ہیں جن میں ہوا بھردیں تو وہ پوری عورت بن جائے ۔ پاکستان سے ایک ادیب لندن گئے تو سیرو سیاحت کے ساتھ ربڑ کی گڑیا بھی خریدی ۔ پھر وطن چلے گئے ۔ چند دن کے بعد بخش لائلپوری کے نام ان کا خط آیا کہ وہ ربڑ کی گڑیا پنکچر ہو گئی ہے ، تم جانتے ہومیں ایک معزز آدمی ہوں اس لئے کسی دوکان پر پنکچر لگوانے کے لئے نہیں جا سکتا ۔ تم مہربانی کرو اور ربڑ کی ایک اور گڑیا لے کر مجھے بھیج دو ۔ چنانچہ بخش لائل پوری نے ان کی فرمائش پوری کر دی۔ تاہم بخش لائل پوری نے گڑیا کے پنکچر ہو جانے کا قصہ ایسے انداز سے سنایا کہ ہنستے ہنستے پیٹ میں بَل پڑ گئے ۔ میں نے انہیں کہا آپ اس معزز ادیب کی فرمائش پوری کرنے کی بجائے اسے لکھتے کہ پہلے سائیکلوں کی مرمت کرنے والے کسی کاری گر کے شاگرد بنو ، وہاں سے پنکچر لگانے کی تربیت حاصل کرو اور پھر خود ہی اپنے کئے ہوئے پنکچر ٹھیک کرتے رہو ۔ </b><br />
<b>ایک اور مزے کا واقعہ ۔۔۔۔۔ اکبر بابر ایڈووکیٹ خانپورکے ممتاز وکلاء میں شمار ہوتے تھے۔اپنے ہی مُوڈ کے آدمی تھے۔شیخ فیاض الدین کی اور ان کی گہری دوستی تھی۔اُن دنوں شیخ فیاض بلدیہ خانپور کے چےئر مین تھے ۔ اکبر بابر کا موڈ خوشگوار تھا ، اپنی موج میں باتیں کر رہے تھے ، اسی لہر میں کہنے لگے بلدیہ خانپور کے سارے کونسلرز Gay ہیں ، سوائے ایک کونسلر کے ( انہوں نے Gay کی جگہ گاف سے شروع ہونے والا ایک سلیس سا لفظ کہا تھا جو اردو پنجابی اور سرائیکی تینوں زبانوں میں یکساں مستعمل ہے ) میں نے پوچھا جو کونسلر Gay نہیں ہے ، کیا وہ شیخ فیاض ہیں ؟ کہنے لگے ہرگز نہیں ۔۔۔۔ وہ بھی گے ہے ۔ میں نے پوچھا کیا ثبوت ہے ؟ کہنے لگے میں خود ثبوت ہوں ۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں ان سے کیا پوچھتا ۔ لیکن پھر خیال آیا اور میں نے آہستہ سے پوچھ ہی لیا کہ وہ خوش نصیب کونسلر کون ہے جو آپ کے بقول گے نہیں ہے ؟ انہوں نے چہکتے ہوئے کہا لیڈی کونسلر ۔۔۔۔۔۔ </b><br />
<b>ڈاکٹر وزیر آغا ایک بار اپنے صاحبزادے سلیم آغا کے ساتھ لندن کی سیاحت کیلئے گئے تھے ۔ ان کی واپسی پر میں اور ڈاکٹر پرویز پروازی ان سے ملنے کے لئے ان کے گاؤں وزیر کوٹ گئے ۔ وزیر آغا اور سلیم لندن کے احوال بتا رہے تھے پرویز پروازی ،ڈاکٹر وزیر آغا کے ایج گروپ کے ہیں ، ان کے دوست بھی ہیں ، سو سلیم آغا ان کا بزرگوں کی طرح احترام کرتے ہیں یکایک پرویز پروازی نے سلیم آغا سے ایک شریر سا سوال پوچھ لیا ۔۔ سنا ہے کہ اصل انگلش نسل خواتین کا Bottom بندر کے Bottom جیسا ہوتا ہے ۔ آپ کا تجربہ کیا کہتا ہےٍ ؟ سلیم آغا کا مزاج بھی اس انداز کی باتوں والا نہیں ہے ، چنانچہ اس اچانک اور بے باک سوال پر وہ شرما کر رہ گئے ۔ لیکن ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی ہی برجستہ معصومیت کے ساتھ کہا ۔۔۔۔۔۔۔ جس نے بندر کا Bottom5 ہی کبھی نہیں دیکھا ، وہ اس بارے میں کیا بتا سکتا ہے ۔ </b><br />
<b>مشرقی عشق میں بندر کا تو نہیں البتہ کتے کا ایک اہم رول رہا ہے ۔ لیلیٰ کا کتا اس کی واضح مثال ہے ۔ ادھر مغرب میں بھی یہاں کی لیلاؤں اور ان کے کتوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جا سکتی ہے ۔بعض کتے تو بلی کے بچے سے بھی زیادہ نازک ہوتے ہیں ۔ ٹھہریئے مغرب کی بات بعد میں ۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مجھے پاکستان کے ایک عزیز کا ایک نازک سا کتا یاد آ گیا ہے ۔ اس عزیز کو کبوتر بازی کا شوق تھا اوراس نے بلی کے بچے جتنا ایک چھوٹا سا کتا بھی پال رکھا تھا ۔ ایک بار یوں ہوا کہ کتا گھر کی چھت پر کبوتروں کے دڑبے کے پاس بیٹھا تھا ، کبوتر دڑبے سے باہر غڑغوں کر رہے تھے ۔ اچانک وہاں ایک بلی آ گئی ، کتا بچارا بہت ہی نازک سا تھا ۔ اس نے بلی کو دیکھ کر اپنے فرض کا احساس کیا اور کبوتروں کی حفاظت کے طور پر اپنی نازک سی غراہٹ کی آواز نکالی ، اس کے ساتھ ہی شاید اسے خیال آ گیا کہ بلی اسے بھی نقصان پہنچا سکتی ہے ، چنانچہ پھر وہ خود ہی پیچھے ہٹتا چلا گیا ۔ وہ عزیز چھت کی سیٹرھیوں کے اوپر ی حصہ سے خود یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا ۔ </b><br />
<b>مجھے ہمیشہ کتوں سے ڈر لگا ہے ۔ اب یہاں بہت ہی چھوٹے اور نفیس سے کتے دیکھنے کے بعد اتنا حوصلہ ہو گیا ہے کہ انہیں محبت بھری نظروں سے مسکرا کر دیکھ لیتا ہوں مگر تھوڑے فاصلے سے ۔۔۔ جب میں جرمنی میں نیا نیا پہنچا ۔ ایک بار صبح کی سیر کر رہا تھا ۔ نہر کے کنارے کنارے جا رہا تھا مجھ سے کافی آگے ایک نوجوان جوڑا اپنی مستی میں جا رہا تھا ۔ ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا بھی تھا ۔ اس کتے کو بلی کے سائز جتنا سمجھ لیں ۔ اس کم بخت کی نظر مجھ پر پڑ گئی اور وہ میری طرف منہ کر کے رک گیا میں نے خوفزدہ آواز میں زور سے ہیلو۔۔۔۔ہیلو ، کہہ کر اس مست جوڑے کو پکارا تو کتا باقاعدہ بھونکنے لگا ۔ میں نے اردو میں ہی چلا کر کہا ، اپنے کتے کو سنبھالو ۔۔۔۔ لڑکی نے مڑکر دیکھا اور اتنے زور سے ہنسنے لگی کہ میں خود کو بے وقوف محسوس کرنے لگا ۔ اسی دوران لڑکے نے کتے کو آواز دی تو وہ بھونکتا ہوا اپنے مالکوں کے پاس چلا گیا اور میری جان میں جان آئی ۔</b><br />
<b>بڑے میاں سو بڑے میاں ، چھوٹے میاں سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔ میرا چھوٹا بیٹا ٹیپو بھی مجھ سے کم ڈرپوک نہیں ہے ۔ پاکستان میں جب ٹیپو اور میرا بھانجا احمد ، دونوں ابھی بہت چھوٹے بچے تھے ، گھر سے باہر گلی میں کھڑے تھے ، اچانک انہیں گلی میں ایک چھوٹا سے کتا دکھائی دیا اور دونوں یہ کہتے ہوئے گھر کو بھاگے ۔ بھادو (بھاگو) ۔۔۔ بھادو ۔۔۔۔۔ شیر آیا ۔ یہاں جرمنی میں جب ٹیپو کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ اسے چیک اپ کے لئے دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا ۔ سائیکل اسٹینڈ پر اس نے اپنی سائیکل لاک کی ، جب ڈاکٹر سے ہو کر واپس آیا تو یہ دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے کہ کوئی اپنا کتا بھی سائیکل اسٹینڈ کے ساتھ باندھ گیا ہے ۔ کتا بے شک چھوٹا تھا لیکن تھا تو کتا ہی ۔۔۔۔ آخر ٹیپو نے چھ سات سال کے ایک جرمن بچے کو پیش کش کی کہ اگر میری سائیکل نکال کر لا دو تو تمھیں ایک مارک دونگا ۔ بچے نے ساری سچویشن سمجھنے کے بعد مسکرا کر آفر قبول کر لی ۔ ٹیپو سے سائیکل کے لاکر کی چابی لی اور آرام سے سائیکل نکال کر لا دی ۔</b><br />
<b>بات ہو رہی تھی مغربی لیلاؤں کے نازک کتوں کی ۔ نازک اندام گوریاں ننھے منھے سائز کے کتوں کے ساتھ پھر بھی سج جاتی ہیں لیکن بعض گوریوں نے تو ایسے جسیم اور خوفناک کتے پال رکھے ہیں کہ ان کے کتے تو کتے خود ان گوریوں کی طرف دیکھتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔ اہل مغرب کا کتوں سے گہری محبت کرنا بظاہر ان کا معاشرتی انداز لگتا ہے لیکن مجھے اس میں ایک ایسا مذہبی حوالہ محسوس ہوتا ہے جسے شاید اہل مغرب اب تسلیم بھی نہ کریں ۔ اصحاب کہف ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکارتھے اور ان کے ساتھ ان کے کتے کا ذکر موجود ہے ۔ سو مذہب کے ابتدائی سفر میں کتے کی وفاداری نے مسیحی اہل مغرب کو کتے کی طرف زیادہ راغب کیا ۔ اس میں مغربی کلچر کے مختلف رنگ بھی ملتے گئے اور یہ وفادار جانور مغربی معاشرت کا ایک حصہ بن گیا ۔ واللہ اعلم بالصواب۔</b><br />
<b>حالیہ دنوں میں ویاگرا کی ایجاد نے ساری دنیا میں خاصا تہلکہ مچایا ہے ۔ مغرب والوں نے شروع میں اسے جائز ضرورت کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے محض زیادہ سے زیادہ لذت انگیز مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شروع میں ہی چار پانچ اموات کی خبریں آ گئیں ۔ ان ساری اموات سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ بعض کم عمر نوجوان اسے استعمال کر بیٹھے ۔ جنہیں اس کے استعمال کی قطعاً ضرورت نہ تھی یا پھر ایسے ادھیڑ عمروں نے اسے استعمال کیا جنہوں نے پہلے ہی خاصی شراب چڑھا رکھی تھی ۔ ویاگرا شراب تو تھی نہیں کہ پہلی شراب میں مل کر نشہ کو بڑھاتی ۔ ایک صاحب نے شراب اور ویاگرا کے استعال کے بعد ڈسکو کلب کا رخ کیا اور وہیں جان دے دی ۔ یہ دل کے مریضوں کے لئے زہر ہے ، دوسرے کسی نشے کے ساتھ انتہائی مضر ہے ۔ 55 سال کی عمر تک کے لوگوں کے لئے عام طور پر مفید ہے لیکن اس کے لئے جائز ضرورت مند ہونا ضروری ہے ۔ سو اہل مغرب نے اب ویاگرا کا جائز استعمال سمجھ لیا ہے ۔</b><br />
<b>ان کے برعکس ہمارے بعض مشرقی دانشوروں نے اس دوا کی مخالفت کرتے ہوئے معلم اخلاق بننے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بعض نے اسے میکانکی عمل قرار دیا ہے ۔ میرا خیال ہے صدیوں تک نوابوں ، راجوں ، مہاراجوں ، بادشاہوں اور شہنشاہوں کے در باری اطباء نے جو نسخہ طبقہ خواص تک محدود رکھا ، اب وہ ویاگرا کی صورت میں زیادہ بہتر ہو کر عام ضرورت مند انسان کو بھی فیض یاب کرنے لگا ہے ۔ ویاگرا کا مثبت استعمال بہت سے ضرورت مندوں کے لئے مفید ثابت ہو گا ۔ جہاں تک میکانکیت کا تعلق ہے ، اگر انسانی جذبات کا تجزیہ کیا جائے تو آج کی سائنس نے اسے بھی کیمیائی تماشہ ثابت کر دیا ہے ۔ فلاں جز کو کم کر دیں تو انسان کا غصہ ختم ہو جائے گا ۔ فلاں جز کو نکال دیں تو غم کا احساس نہیں رہے گا ۔ اور تو اور محبت کا کوئی کیمیائی جز بھی تلاش کر لیا گیا ہے ۔ اسے نکال دیں تو محبت کا جذبہ ہی ختم ہو جائے گا یوں تو پھرمحبت سمیت سارے انسانی جذبات ہی ایک کیمیائی کھیل سے زیادہ کچھ نہیں رہتے ۔ انڈیا کے بارے میں تو میری معلومات زیادہ نہیں ہیں لیکن پاکستان میں " زندگی سے مایوس لوگوں کے لئے خوشخبری " جتانے والے دیسی معالج لاکھوں کی تعداد میں دوکانیں سجائے بیٹھے ہیں جبکہ ان میں 99 فی صد فراڈ ہیں جو مجبور ضرورتمندوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں ۔ ویاگرا کی آمدسے فراڈ قسم کے دیسی معالجین کو خاصا نقصان پہنچے گا ۔ </b><br />
<b>جنسی عمل ہر ذی روح کی زندگی کا اہم حصہ ہے ۔ انسانوں میں اسے اچھے انسانی اور فطری طریقے سے بروئے کار لانے میں ہی بہتری ہے ۔ اس سلسلے میں مغرب اور مشرق کے عمومی رویے انتہا پسندانہ ہیں ۔ اہل مغرب نے سب کچھ کھول کھال کر رکھ دیا ہے ، کچھ بھی مخفی نہیں رہنے دیا جبکہ اہل مشرق نے اس عمل کو ایک طرح سے شٹل کاک برقعہ سے ڈھانپ رکھا ہے ۔ ہم پردے کے اندر سب کچھ کر گذرتے ہیں ۔ یوں ہمارا معاشرہ دوہرے پن کا ملزم قرار پاتا ہے ۔ مشرق اور مغرب کے دونوں رویوں کو کسی حد تک سمجھ لینے کے بعد میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بقائے نسل انسانی کے اس اہم ترین عمل کو شٹل کاک برقعہ سے ملفوف رکھنے کی بجائے ریشمیں برقعہ جتنا پردہ رکھنا چاہیئے ۔ دوہرا لیکن خاصا باریک نقاب ۔ جں میں سے ایک نقاب آنکھوں کو کھلا چھوڑتے ہوئے دوسرے کان تک چلا جائے اور ایک نقاب پورے چہرے پر پڑا رہے ۔ یعنی تھوڑا سا پردہ بہرحال ضروری ہے ۔</b><br />
<div style="text-align: center;">*** </div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-56895389093444106822011-07-15T06:16:00.000-07:002011-07-15T23:13:54.796-07:00دعائیں اور قسمت<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><span style="font-size: x-large;"><b>دعائیں اور قسمت</b></span></div><br />
<br />
<b>مذہب کی ایک سطح عقائد اور فروعات سے تعلق رکھتی ہے۔دنیا کے بیشتر مذہبی جھگڑے اسی سطح سے اُبھرے اور خونریز فسادات کی حد تک گئے۔مذہبی اختلافات اور فسادات کا یہ سلسلہ آج بھی دنیا بھر میں کسی نہ کسی رنگ میں چل رہا ہے۔جبکہ مذہب کی دوسری اور اہم سطح روحانیت سے متعلق ہے۔دنیا کے ہر مذہب اور ہر مسلک سے تعلق رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ صرف اسی کے مسلک پر عمل پیرا ہوکر خدا سے روحانی تعلق قائم کیا جا سکتا ہے۔یوں ہر دعویدار کے بقول دنیا کے ننانوے فیصد مذاہب جھوٹ ہیں اور صرف وہی سچ ہیں۔میرے ایک نِیم دہریہ قسم کے دوست مسعود شاہ ہنستے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ننانوے فیصدمذاہب کو جھوٹ کہنے والے ‘اپنے لئے ایک فیصد جھوٹ بچا لیتے ہیں اور اسے سچ قرار دیتے ہیں۔</b><br />
<b>معتقدات سے ہٹ کر جہاں تک خدا سے کچھ مانگنے کا تعلق ہے‘میرے نزدیک یہ ہر انسان اور خدا سے اس کے تعلق کی نوعیت پر منحصر ہے۔نسیم سیفی صاحب طویل عرصہ تک بعض افریقی ممالک میں مقیم رہے۔وہ ایک بار بتانے لگے کہ خشک سالی کے باعث قحط کا خطرہ پیدا ہو گیاتو مسلمانوں نے نمازِ استسقاء پڑھنے کے لئے ایک تاریخ کا اعلان کردیا۔اس تاریخ سے ایک یا دو دن پہلے سِکھ حضرات نے ایک گراؤنڈ میں اپنے طریقِ عبادت کے مطابق اجتماعی دعا کی اور مسلمانوں کے نماز استسقاء پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔برسات نے پہلے ہی دھرتی کو سیراب کردیا۔</b><br />
<b>’’مظلوم کی دعا اور خدا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا‘‘عمومی طور پر انسانی تاریخ اور عصرِ حاضر کی صورتحال کو دیکھیں تو اس فرمان میں ہمیں بے شمار مستثنیات دکھائی دیں گی۔لیکن مجھے ذاتی زندگی میں ہمیشہ اس فرمان کی سچائی کا جلوہ بلکہ جلالی جلوہ دیکھنے کو ملا ہے۔میں جب بھی مظلومیت کی حالت میں ہوا‘میرے ساتھ ظلم کرنے والا کوئی عام انسان تھا تو وہ بھی خدا کی گرفت سے نہیں بچا اور اگر کسی کو خدا سے تعلق کا کوئی زعم تھا اور اس نے میرے خلاف کوئی ظالمانہ کاروائی کی تو جس نوعیت کی کاروائی کی گئی‘زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندر ویسی ہی کاروائی خود اس کے خلاف ہو گئی یا اس سے بھی زیادہ رُسوائی اسے بڑے پیمانے پر مل گئی۔ میں نے ایک چیز اور بھی نوٹ کی ہے۔اگر میں کسی کی زیادتی کا بدلہ خود لے لوں تو میرا بدلہ ہی اس کی سزا ہوتا ہے۔لیکن اگر میں کسی سے بدلہ نہ لے سکوں۔۔۔خواہ مجبوری کے باعث‘خواہ صبر کرکے۔۔۔میری خاموشی کے نتیجہ میں ظالم کو قدرت کی طرف سے ایسی سزا ملی کہ میں خود بھی بعض اوقات دُکھی ہو گیا کہ مولا! اتنی کڑی سزا تو انہیں نہ دینا تھی۔بعینہٖ اگر میں کسی کے ساتھ کبھی ناجائز زیادتی کرجاؤں تو مجھے بھی خدا کی طرف سے سزا ملنے کا احساس ہوتا ہے اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ فلاں زیادتی کی سزا ہے۔</b><br />
<b>چند قرآنی اور مسنون دعائیں مجھے بچپن میں رٹا دی گئی تھیں۔ان کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن میں جب کسی دُکھ کی حالت میں ہوتا ہمیشہ اپنی زبان میں خدا سے دعا کرتا۔بہت بار ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے دعا کی اور اسی حالت میں مجھے دعا کی قبولیت کا یقین بھی ہو گیا۔جب بارہا ایسا ہوا تو میں نے اپنے بعض قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا۔اس بتانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو دعا بظاہر قبول ہو چکی تھی‘ایک لمبے وقفہ تک معلّق ہو گئی۔دو تین بار ایسے جھٹکے لگنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قبولیت دعا کا نشان تو خدا کے مامورین اور اولیاء کے لئے مخصوص ہے۔میری کسی بھی دعا کا قبول ہونا میرا انفرادی معاملہ ہے۔اگر میں اسے دوسروں کو بتاؤں گا تو مقامِ ولایت پر قدم رکھنے جیسی جسارت کروں گا‘جس کا میں اہل ہی نہیں۔سو اسی لئے وہ دعائیں جن کی قبولیت کے بارہ میں دوسروں کو بتا دیتا ہوں‘لمبے عرصہ کے لئے ردّو قبول کے درمیان معلّق ہوجاتی ہیں اور یہی میرے افشاء کی سزا ہوتی ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف </b><br />
<b>نہ مسترد ہوئے اب تک نہ مستجاب ہوئے </b></div><b>اپنی زبان میں دعاؤں کا میرا سلسلہ اُس وقت متزلزل ہونے لگا جب میں نے ۱۹۸۶ء میں اپنے ابا جی اور امی جی کی لمبی عمر کی دعائیں مانگنا شروع کیں اورمیرے دیکھتے ہی دیکھتے میرے دونوں بزرگ دنیاسے چل بسے۔پھر میں نے اپنے باباجی(تایا جی)کے لئے یہی دعا کی اور وہ بھی فوت ہوگئے۔تب میں جو بھی دعا کرتا اُس کی تاثیر اُلٹ ہوجاتی </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>جو دعا کرتے تھے اُلٹا ہی اثر ہوتا تھا </b><br />
<b>تیری چاہت کی دعا رب سے بچا لی ہم نے </b></div><b>اسی دوران مجھے پھٹی پرانی اور خستہ سی حالت میں قرآنی اور مسنون دعاؤں کی ایک چھوٹی سی کتاب ملی۔ہر دعا کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی درج تھا۔مجھے یہ کتاب کیا ملی‘نئی زندگی مل گئی۔اسے لاہور سے کے۔ اے۔ عزیز نے شائع کیا تھا۔انہیں اور ان کی اولاد کو میں آج بھی اپنی دعاؤں میں شامل رکھتا ہوں۔اس کتاب کے ذریعے مجھے پہلی بار صبح اور شام کی مسنون دعاؤں کا علم ہوا۔پھر دن بھر میں پیش آمدہ مختلف مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے والی دعائیں۔خیروبرکت کی دعاؤں سے لے کر ’’سید الاستغفار‘‘ تک دعاؤں کا ایک خزانہ میرے ہاتھ لگ گیا۔تب میں نہ صرف بے روزگار تھا بلکہ ۸۰ ہزار روپے کا مقروض ہو چکا تھا۔اور بعض’’صاحبِ ایمان‘‘لوگ مجھے ’’ کیفرِ کردار ‘‘ تک پہنچا کر اپنی صداقت کا نشان بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔</b><br />
<b>ان دعاؤں کو میں نے اتنی بار دل کی گہرائی سے پڑھا کہ مجھے زبانی یاد ہوگئیں اور آج بھی میرے روزانہ وظیفہ کا حصہ ہیں۔اگرچہ ان کے وِرد میں اب پہلے جیسی لذّت اور کیفیت تو نصیب نہیں ہوتی(اس کی وجہ میری اپنی داخلی کیفیت ہے)‘تاہم میں نے ان دعاؤں کو آج بھی حرزِ جاں بنا رکھا ہے۔ان کے نتیجہ میں پہلے مرحلہ میں مجھے پاکستان انٹرنیشنل پبلک اسکول اینڈ کالج ایبٹ آباد میں اردو پڑھانے کی بہت عمدہ جاب مل گئی اور دوسرے مرحلہ میں مجھے جرمنی پہنچنا اور یہاں سیٹ ہونا نصیب ہو گیا۔یہ دعائیں مختلف کتابچوں کی صورت میں دینی کتب کی دوکانوں سے باآسانی مل جاتی ہیں۔اپنے ذاتی تجربہ نہیں‘پیہم تجربات کی بنیاد پر میں دعا کا ایک مسنون نسخہ سارے دوستوں کے لئے یہاں بیان کئے دیتا ہوں۔جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سورۃ یاسین اور سورۃ صافات پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھا لیں اور خدا سے کوئی ایک(صرف ایک)دلی مُراد مانگیں۔</b><br />
<b>جائز مُراد ہونے کی صورت میں ایک دو جمعوں میں ہی مُراد پوری ہو جاتی ہے۔کوئی بہت ہی مشکل قسم کا کام ہو تو اس کی مشکل کے مطابق وقت زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔لیکن ثابت قدمی سے اور باقاعدگی سے یہ وظیفہ جاری رکھنا ضروری ہے۔میں نے جرمنی پہنچنے کے لئے لگ بھگ دوسال تک یہی مُراد مانگی تھی اور یہ میری سب سے طویل دورانیے کی دعا تھی۔دعا کا یہ طریق مسنون ہے لیکن مُراد مانگتے وقت ہر بندے کا خدا کے ساتھ اپنا ہی انداز ہوتا ہے۔میں تو ضد کرکے بیٹھ گیا تھا۔رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا ’’میں نے جرمنی جانا ہے۔مجھے جرمنی پہنچائیں‘‘کی رَٹ لگا دی تھی۔دو سال تک رُلانے کے بعد خدا نے نہ صرف یہ مُراد پوری کردی بلکہ اس کے ساتھ اور بھی بہت ساری دعائیں از خود پوری ہو گئیں۔</b><br />
<b>یہاں جرمنی میں میرے ایک دوست ہیں ارشادہاشمی صاحب۔کمپیوٹر انجینئر ہیں۔بہت ہی بھلے آدمی ہیں۔آج کل جرمنی سے ایک ادبی خبر نامہ’’اردودنیا‘‘بھی نکال رہے ہیں۔ایک بار انہوں نے اپنی بعض ذاتی پریشانیوں کی بابت بتایا تو میں نے انہیں مخصوص دعاؤں کے وِردکی تحریک کی۔دعاؤں والی وہ پھٹی پرانی کتاب میں نے آج بھی بہت سنبھال کررکھی ہوئی ہے۔میں نے ہاشمی صاحب کو وہ کتاب دیتے ہوئے کہا اس کی فوٹو کاپی کرالیں۔ان دعاؤں کے باعث میرے سارے دُکھ دور ہو گئے ہیں۔ہاشمی صاحب نے کتاب میرے ہاتھ سے لیتے ہوئے مسکرا کر کہا :</b><br />
<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b>’’اب آپ باقاعدہ طور پر کہہ سکتے ہیں‘ ۔ لے جا مِری دعائیں لے جا‘‘ </b></div><b>دعاؤں کی کتاب کے ساتھ انہوں نے برجستہ طور پر جو گانا جوڑ دیا تھا‘اس پر میں بھی بے ساختہ مسکرا دیا۔</b><br />
<b>بیدار ہونے اور رات کو سونے سے پہلے کی دعائیں اور فجر کی نماز کے بعد کی بہت ساری دعائیں۔۔۔اوران کے علاوہ میری زندگی سے گہر ا تعلق رکھنے والی بعض دعائیں ایسی ہیں جن کا میں دن میں ایک بار مکمل وِرد کرتاہوں۔اپنی جاب پر جاتے ہوئے مجھے بذریعہ ٹرین آدھے گھنٹے کاسفر کرنا ہوتا ہے اور اس عرصہ میں ان ساری دعاؤں کا ورد مکمل کرلیتا ہوں۔ورد کرتے ہوئے ہونٹ تو بہر حال ہلتے ہیں۔بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے سامنے کوئی گوری بیٹھی ہے اور میرے ہِلتے ہوئے ہونٹوں کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔وِرد کرتے ہوئے میں عموماََ غضِّ بصر سے کام لیتا ہوں۔اس کے باوجود کبھی کبھار نظر اُٹھ تو جاتی ہے۔ایک بار عام گوریوں سے کہیں زیادہ خوبصورت گوری میرے سامنے آبیٹھی اور میرے وِرد پر اس کی حیرت بھی غیر معمولی سی لگی۔مجھے لگا یہ ابھی مجھ سے پوچھ بیٹھے گی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں؟۔۔۔اُس نے تو نہیں پوچھا لیکن اپنی اُس وقت کی حالت پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا اور وظیفہ کے دوران ہی ایک شریر سی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل گئی۔لطیفہ یوں ہے:</b><br />
<b>ایک صاحب اپنے دوست کے گھر گئے تو دیکھا کہ وہاں ایک پنجرے میں دو طوطے بند ہیں۔ایک طوطا حالتِ سجدہ میں ہے اور ایک طوطا مسلسل تسبیح کر رہا ہے۔وہ صاحب دونوں طوطوں کی شرافت اور نیکی سے بہت متاثر ہوئے اور اپنے دوست سے کہنے لگے میرے پاس ایک طوطی ہے جو بہت شرارتی ہے۔اگر آپ اجازت دیں تو وہ طوطی دوچار ہفتوں کے لئے آپ کے طوطوں کے پاس چھوڑ جاؤں تاکہ ان کی رفاقت میں طوطی کی بھی تربیت ہو جائے۔دوست راضی ہو گیا تو وہ صاحب اپنی طوطی لے آئے۔جیسے ہی طوطی کو طوطوں والے پنجرے میں ڈالا گیا‘تسبیح والے طوطے نے فوراََ اپنی تسبیح پرے پھینکی اور سجدہ ریز طوطے کو ہلا کر کہنے لگا:یار! اُٹھ جاؤ‘آخر ہماری دعا قبول ہو ہی گئی۔</b><br />
<b>دعاؤں کے سلسلے میں میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ اگر کوئی دعا بہت زور لگانے کے باوجود بھی قبول نہیں ہوتی تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ اس دعا کا قبول نہ ہونا ہی میرے حق میں بہتر ہے۔اس سلسلے میں یہ قرآنی فرمان ہمیشہ میرے مدِّ نظر رہتا ہے کہ بہت سی باتیں ہیں‘جنہیں تم اپنے لئے بہتر سمجھتے ہو لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر نہیں ہیں۔اور بہت سی باتیں ہیں جنہیں تم اپنے لئے بہتر نہیں سمجھتے لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہوتی ہیں۔اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔۔۔۔دعا کی ایک اور قِسم جو قبول نہیں ہوتی وہ تقدیرِ مبرم سے متصادم دعا ہے‘ جب ایک چیز مقدّر میں ہی نہیں ہے تو دعا کے باوجود اس کا ملنا محال ہے۔</b><br />
<b>مقدّرکی بات چلی ہے تو یہاں واضح کردوں کہ میں قسمت پر بہت یقین رکھتا ہوں۔میرے لڑکپن میں خانپور میں ہماری ایک ملنے والی خالہ جمیلہ نے میرا ہاتھ دیکھ کر بتایا تھا کہ اس کے حالات ۴۰ سال کی عمر کے بعد ٹھیک ہوں گے‘البتہ یہ باقی سارے بھائی بہنوں سے زیادہ علم حاصل کرے گا۔میں نے ناممکن قسم کے ظاہری حالات کے باوجود ایم اے کرلیا لیکن میرے حالات ۴۰ سال کی عمر کے بعد ہی ٹھیک ہونا شروع ہوئے۔ویسے ہاتھ کی لکیروں کے فیصلوں کے باوجود بھی بعض استثناء نکل آتے ہیں۔مثلاََ میرے ہاتھ پر قسمت کی لکیر‘دماغ کی لکیر سے ٹکرا کر رُک گئی ہے۔میں جب کسی بات پر اَڑ گیا تو بڑے سے بڑے فائدے کو بھی نظر انداز کردیا اور یوں کئی بار اپنا نقصان کیا۔دوسری طرف میری بیوی مبارکہ کے ہاتھ پر قسمت کی لکیر بہت واضح‘صاف اور روشن ہے۔سو میری خوش قسمتی در اصل میری بیوی کی مرہونِ منّت ہے۔اسی طرح میرے ہاتھ پر شہرت کی لکیر نہیں ہے۔اس کے باوجود اگر محبت کرنے والے چند دوست اچھے لفظوں میں اور مجھ سے برہم احباب مجھے ملامت کرکے بھی یاد کر لیتے ہیں تو اس تھوڑی سی ’’شہرت‘‘کا سبب ابا جی کے دو خواب ہیں۔ابا جی کے وہ دونوں خواب اپنی کتاب’’میری محبتیں‘‘سے یہاں نقل کئے دیتا ہوں:</b><br />
<b>’’میری پیدائش سے چند ماہ پہلے ابا جی نے یکے بعد دیگر دو خواب دیکھے تھے۔پہلا خواب یہ تھا کہ ایک بڑا اور گھنا درخت ہے جس کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ابا جی اس درخت کے اُوپر‘عین درمیان میں کھڑے ہوئے ہیں۔یہ خواب سُن کر ابا جی کے ایک دوست روشن دین صاحب نے کہا کہ آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوگا جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>دوسرا خواب یہ تھا کہ لمبے لمبے قد والے بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے ہاتھ بلند کرکے ’’حیدر ۔۔۔۔۔۔حیدر ‘‘کے نعرے لگا رہے ہیں۔ان دونوں خوابوں کے چند ماہ بعد میری پیدائش ہوئی۔ابا جی نے اپنے مُرشد کو خط لکھا کہ بیٹے کا نام تجویز فرمادیں‘</b><br />
<b>مر شد کو ابا جی کے خواب کا علم نہیں تھا۔انہوں نے مجھے حیدر بنا دیا۔‘‘</b><br />
<b>جبر و قدر کا مسئلہ سُلجھانے کے لئے یا سمجھنے اور سمجھانے کے لئے بزرگانِ دین سے لے کر فلسفیوں تک ہر کسی نے اپنی اپنی سمجھ بُوجھ کے مطابق اظہارِ خیال کیا ہے۔جبر کی طرف جھکاؤ ہو تو قسمت کا لکھا اٹل قرار پاتا ہے اور تصوّف کی طرف رغبت بڑھتی ہے۔اختیار کی طرف جھکاؤ ہو تو عمل کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔یوں قسمت سے لے کر دعاتک سب باتیں غیر اہم ہو جاتی ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ اصل حقیقت کہیں اِن دونوں تصوّرات کے بین بین ہے۔</b><br />
<b>میں ذات پات کا قائل نہیں ہوں لیکن مجھے نسلی حوالے کے اثرات کا تھوڑا بہت احساس ضرور ہوا ہے۔مثلاََ قریشی ہونے کے ناطے مجھے کسی روحانی سفر میں کسی مقام تک پہنچنے کے لئے دس قدم چلنا پڑتا ہے تو کسی دوسرے کو شاید بیس‘تیس یا چالیس قدم چلنے کے بعد وہاں پہنچنا نصیب ہوتا ہے۔اس کے باوجود اگر کوئی قریشی اس طرف پیش قدمی ہی نہ کرے تو وہ روحانیت سے محروم ہوتا چلا جائے گااور دوسرے اپنی کم رفتاری کے باوجود قربِ خداوندی میں آگے بڑھتے جائیں گے۔ہندؤں کے ذات پات کے تصوّر کو انسانی حوالے سے اب درست نہیں ماناجا سکتا لیکن اس میں بھی کہیں کوئی جزوی سچائی ضرور ہے ۔ انسانوں کی طبقاتی تفریق کو الگ رکھیں۔ہر انسان کے خود اپنے وجود کے بھی کئی طبقے بنے ہوئے ہیں۔دماغ برہمن کی طرح خود کو افضل سمجھتا ہے اور دل کے توسط سے باقی جسم سے رابطہ رکھتا ہے۔دائیں ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ کمتر ہے۔جسم کے نیچے کے حصہ کو صاف رکھنے کے باوجود ہم خود ایک اچھوت ہی سمجھتے ہیں۔</b><br />
<b>اس قسم کے خیالات کی کشمکش اپنی جگہ۔۔۔۔میری معمول کی دعاؤں میں ڈیڑھ برس پہلے ایک اور اضافہ ہوا۔میں صبح‘شام تینوں قُل شریف تین تین بار پہلے ہی سے پڑھتا ہوں۔لگ بھگ ڈیڑھ سال پہلے میں سویا ہواتھا۔نیند میں ہی میں سورۃ فلق پڑھ رہا تھا۔اسی حالت میں آنکھ کھُل گئی تو میرے ہونٹوں پر سورۃ فلق اسی طرح جاری تھی۔جاگنے کے باوجود میرے ہونٹ اس وقت تک ہِلتے رہے جب تک میں نے سورۃ الناس مکمل کر کے درود شریف پڑھ نہیں لیا۔تب میں بیداری کے بعد پھر بیدار ہوا۔مجھے محسوس ہوا کہ اپنے اندر اور اپنے باہر کے دشمنوں اور جنّات سے محفوظ رہنے کے لئے مجھے سورۃ معوذتین کا وِرد کثرت سے کرتے رہنا چاہئے۔چنانچہ خاص طور پر پیدل ‘بس یا ٹرین سے سفر کرتے ہوئے ‘اپنی مخصوص دعاؤں کا وِرد مکمل کرنے کے بعد میں سفر کا بیشتر وقت سورۃ معوذتین کو بار بار پڑھنے میں صَرف کرتا ہوں۔ اس وِرد کے دوران مجھے کئی بار محسوس ہوا کہ میرے دشمنوں کے وار ضائع ہوتے جارہے ہیں یا اُنہیں پر اُلٹتے جا رہے ہیں۔باہر کے ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے دشمن مجھے اپنے رُوبروبے چارگی سے بیٹھے دکھائی دئیے اور اندر کے لاکھوں میل دور رہنے والے دشمن مجھے دُور بھاگتے دکھائی دئیے۔یہ محض کسی ادیب کی لفظ گری نہیں ہے۔میں نے حقیقتاََ اپنے باطن کے کشف سے بارہا ایسا دیکھا ہے۔</b><br />
<b>اب یہی دعا ہے کہ کہ ایسی ہی دافع البلیّات دعاؤں کے سائے میں زندگی کا یہ سفر آسانی کے ساتھ‘حفاظت کے ساتھ‘اور بے حد آرام و سکون اور اطمینان کے ساتھ مجھے اگلی دنیا میں لے جائے۔موت میرے لئے دُکھ کا مُوجب نہیں راحت کا مُوجب بنے۔ہجر کا احساس نہیں بلکہ وصل کا پیغام ہو اور وصل کا راحت بھرا پیغام تو جب بھی آئے‘عشّاق کی خوش نصیبی ہوتا ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-14993503375809872412011-07-15T06:11:00.000-07:002011-07-15T23:14:45.525-07:00شوخیاں ‘بچپنا<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">شوخیاں ‘بچپنا</span></b></div><br />
<b>اردو کے ایک بہت اچھے شاعر‘خاکہ نگار اور انشائیہ نگاراکبر حمیدی ہیں۔ہماری گہری دوستی ہے ۔ ایک بار ہم دونوں ڈاکٹر وزیرآغا کے گاؤں وزیر کوٹ ‘اُن سے ملنے کے لئے گئے۔ہم تینوں آغا جی کے کھیتوں کی سیر کر رہے تھے۔آسمان پر چھائے ہوئے بادل گہرے ہوتے جارہے تھے۔آغا جی اپنی فصل کے سلسلے میں فکر مند تھے کہ ابھی دو تین دن تک بارش نہیں ہونی چاہئے۔اکبر حمیدی کہنے لگے:</b><br />
<b>’’اگر ایسا مسئلہ ہے تو بادلوں کو روک دیتے ہیں۔بارش کرانا اور روکنا کون سے مشکل کام ہیں۔‘‘</b><br />
<b>ان کی اس بات پر آغا جی ہنسے تو اکبر حمیدی نے کہا</b><br />
<b>’’آغا صاحب! یہ تو معمولی سی بات ہے۔کیا آپ خود ایسے کام نہیں کر سکتے؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>آغا جی نے ویسے ہی ہنستے ہوئے کہا’’اس قِسم کے سارے کام مجھ سے صرف اُس وقت ہوتے ہیں جب میرا معدہ خراب ہوتا ہے۔لیکن آج کل میرا معدہ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘</b><br />
<b>یہ بات صرف آغا جی کی شگفتہ مزاجی کو ظاہر کرتی ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ ارتکاز کے بَل پر Rain makingاورRain Breakingکے سچے واقعات مجھے آغا جی نے ہی پڑھائے تھے۔میں نے انہیں ابا جی کا ایسا ایک واقعہ سنایا تھا اور انہوں نے مجھے اس نوعیت کی پوری دنیا کی سیر کرادی۔</b><br />
<b>یہاں جرمنی میں ایک بار مجھے صوفیانہ خیالات نے پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیا۔زندگی کی ہر سرگرمی بے معنی لگ رہی تھی۔جی چاہتا تھاکہ کسی ویرانے میں جا کر اﷲ اﷲ کرتے ہوئے زندگی بسر کروں۔پھر زندگی ہی بے معنی لگنے لگی۔میں نے دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو شروع کر دی۔گفتگو گہری اور طویل ہونے لگی تو مبارکہ نے کہا’’ٹھہریں!میں آپ کی شوگر چیک کرتی ہوں‘‘۔۔۔۔جب شوگر چیک کی گئی تو اس کا لیول معمول سے خاصا زیادہ تھا۔شوگر کنٹرول کرنے والی دوا لینے سے حالت بہترہوئی تو زندگی بامعنی اور خوشی سے بھری ہوئی لگنے لگی۔تب میں نے شریر انداز سے مبارکہ سے کہا’’پہلے زمانے میں شوگر کی بیماری کی تشخیص کرنے‘اسے ماپنے اور کنٹرول کرنے کا کچھ پتہ نہ تھا۔شاید اسی وجہ سے بعض شہزادے اپنے محل چھوڑ کر جنگلوں میں چلے گئے۔بُرا ہو اِن جدید سہولیات کا جن کے باعث میں گوتم بُدھ بنتے بنتے رہ گیا‘‘</b><br />
<b>خانپور میں بنک کے شعبہ سے وابستہ دوستوں میں ارشد خالد‘ظفر اقبال ماچے توڑ اور صفدر صدیق رضی کا ذکر تو ’’میری محبتیں‘‘میں آچکا ہے۔بنک سے وابستہ ایک اور دوست نجم الحسن نجمی تھے۔شاعر تھے اور خوش باش قسم کے انسان تھے۔رحیم یارخاں کے قریب کے کسی گاؤں میں ایک شاعر عاشق قریشی رہتے تھے۔بہت ہی روایتی قسم کے شاعر تھے لیکن ان کا کمال یہ تھا کہ دھڑا دھڑ اپنے شعری مجموعے چھپوا رہے تھے۔ایک بار نجمی نے میری موجودگی میں اُن سے پوچھا کہ یار!تم اتنے مجموعے کیسے چھپواتے ہو؟۔۔۔عاشق قریشی نے بتایا کہ ارد گرد کے دیہاتوں کے بڑے زمینداروں سے پہلے سے طے کرلیتا ہوں۔پھرکتاب کا انتساب دو تین زمینداروں کے نام کرکے ان سے کتاب کی لاگت نکلوا لیتا ہوں اور جو کتاب بِکتی ہے وہ میرا منافع ہوتا ہے۔ </b><br />
<b>’’ہائیں!تمہارے مجموعے بِکتے بھی ہیں؟‘‘نجمی نے مضحکہ اُڑانے والے انداز سے پوچھا۔</b><br />
<b>اس پر عاشق قریشی نے بڑی ہی صاف گوئی سے بتایا کہ چھ سات تھانے والوں سے اس کی دوستی ہے۔وہ سب اس سے پچاس‘پچاس جِلدیں لے لیتے ہیں اور تھانے آنے والوں کو تھوپ دیتے ہیں۔جو رقم ملتی ہے ‘آدھی آدھی کرلیتے ہیں۔ </b><br />
<b>تب نجم الحسن نجمی نے کہا کہ یہ کرامت تو سُنی تھی کہ’’تُوں چوراں نُوں قطب بنانویں‘‘(تم نے اپنی نظر سے چوروں کو بھی قطب بنادیا)لیکن ابے سالے تُونے تو کمال کردیا ’’تُوں چوراں نُوں کتب پڑھانویں‘‘(تم نے چوروں کو مطالعۂ کتب پر لگا دیا ہے)۔</b><br />
<b>میری دُور کی نظر کمزور ہے۔پاکستان میں میری عینک کا نمبر -3.75تھا۔ایبٹ آباد میں یہ-3.50ہوگیا تھا اور جرمنی آکر چیک کرایا تو عینک کا نمبر-3.25ہو گیا۔تب میں نے بعض قریبی عزیزوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہمیں ہمارے بزرگوں نے زندگی بھر غضِّ بصر کی تلقین کر کرکے نظر کمزورکرادی۔لیکن ایبٹ آباد میں لیڈی ٹیچرز کی رفاقت سے اور یہاں جرمنی کے کھلے ماحول سے آنکھوں کا درست استعمال شروع کیا تو ان کی کم ہوتی ہوئی روشنی بحال ہونے لگی ہے۔ویسے یہ بات شوخی کی حد تک ہے وگرنہ ڈاکٹر نے میرے استفسار پر بتایا تھا کہ ایک عمر کے بعد دور کی نظر کا نمبر تھوڑا سا کم ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں نزدیک کی نظر پر اثر پڑتا ہے۔یہ اور بات کہ میری دور کی نظر پہلے سے بہتر ہونے کے ساتھ نزدیک کی نظر بھی خدا کے فضل سے ابھی تک بالکل ٹھیک ہے۔</b><br />
<b>بچپن اور لڑکپن میں میرا سب سے پسندیدہ کھیل ’’گُلّی ڈنڈا‘‘ تھا ۔ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں بھی یہ کھیل کھیلنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔تھوڑی سی کرکٹ بھی کھیلے تھے لیکن ہماری کرکٹ کے قواعد ہمارے اپنے تھے۔کپڑے کی کترنوں کو مِلا جُلا کر گیند تیار کی جاتی۔اسے پنجابی میں’’کھِدُّ و‘‘کہتے ہیں۔تختی سے بیٹ کا کام لیتے۔وکٹوں کی جگہ اینٹیں سجائی جاتیں تاکہ وکٹ گرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ بیٹس مین شاٹ کھیلنے کے بعد جتنی چاہے رنز بنا سکتا تھا۔’’کھِدُّ و‘‘کبھی قریبی جھاڑیوں میں گُم ہو جاتا تو بیٹس مین کے وارے نیارے ہو جاتے۔ایسے ہی ایک موقعہ پر میں نے مسلسل پندرہ رنز بنائے تھے۔پھر تھک گیا تھا اس لئے مزید رنز نہیں بنائے۔وگرنہ ایک شاٹ پر سنچری ہو سکتی تھی کیونکہ گیند جھاڑیوں سے ملی ہی نہیں تھی۔ </b><br />
<b>رحیم یارخاں میں ہمارے قیام کے زمانے میں ایک بار میرے ننھال سے بے جی‘خالہ حبیبہ‘ماموں سمیع‘ماموں صادق ‘ماموں کوثر‘ ماموں ناصر ۔۔ ۔ بہت سارے عزیز آئے ہوئے تھے۔تب اباجی اور چاروں ماموؤں نے ایک تفریحی گراؤنڈ میں دوڑکا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ابا جی نے جیت لیا تھا۔</b><br />
<b>جن دنوں میں بے جی(نانی جان)کے ساتھ سارے مذکورہ عزیز آئے ہوئے تھے‘انہیں دنوں ایک نیم دیوانے قسم کے میاں کالے خاں بھی آوارد ہوئے۔یہ ہمارے ننھال کے جاننے والے تھے۔امی جی کودعا یا آشیر واد دینے کے لئے آئے۔ایک بگل سا ان کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔اپنا نام اس بگل پر’’کالے خاں ۔۔۔امام مہدی‘‘لکھوا رکھا تھا۔لیکن بیعت کسی کی نہیں لی۔ان کے بارے میں پتہ چلا کہ پیِروں کے مزاروں پر چڑھائی جانے والی چادریں اتار کر لے جاتے۔کوئی روکتا تو برہم ہو کر کہتے زندوں کو کپڑا ملتا نہیں اور تم مزاروں پر چڑھاتے پھرتے ہو۔مزاروں والے انہیں بھی کوئی پہنچا ہوا سمجھ کر چُپ کر جاتے۔ہمارے ہاں ایک دن رہے۔صبح اُٹھتے ہی کہنے لگے مجھے خدا نے کہا ہے:قالوبلیٰ قد جاء نا۔پھر اس کا پنجابی میں ترجمہ بھی کردیا ۔کالے خاں توں کدوں جانا ایں؟(کالے خاں!تم نے کب یہاں سے جانا ہے؟)اور پھر سب کو دعا دیتے ہوئے فقیرانہ شان کے ساتھ رخصت ہو گئے۔جاتے ہوئے بگل بھی بجاتے جاتے تھے۔</b><br />
<b>قرآنی الفاظ کے پنجابی استعمال کی ایک دلچسپ بات سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری کے لڑکپن سے متعلق ہے۔کہیں پڑھا تھا کہ وہ لڑکپن میں امرتسر کے کسی معروف حکیم صاحب کے شاگرد بنے تھے۔حکیم صاحب کے مطب کے سامنے ہی ان کا گھر تھا۔گھر والے حکیم صاحب کے لئے(غالباََ حقہ کے لئے)دہکتے کوئلوں کا تسلا تیار کردیتے تھے اور کوئی شاگرد آکر وہ تسلا لے جاتاتھا۔ سید عطا ء اﷲ شاہ بخاری کو جب پہلی بار تسلا لانے کے لئے بھیجا گیا تو انہوں نے کسی کپڑے کے بغیر انگلیوں سے تسلے کے کنارے پکڑے ۔ظاہر ہے کہ لوہے کا تسلا خاصا گرم تھا۔ شاہ صاحب جلدی سے سڑک پار کرکے مطب کے تھڑے پر ہی تسلا رکھ کر کہنے لگے’’استاد جی! تصلیٰ نار حامیہ۔</b><br />
<b>ایسے ہی حکیم نورالدین صاحب کا یہ قصہ بھی مشہور ہے ۔کسی نے ان سے قولو قولاََ سدیدا کا مطلب پوچھا تو انہوں نے رواں پنجابی میں اسے یوں واضح کردیا۔قولو۔۔۔کہہ دے‘ قولاََ۔۔۔گَل (بات)‘سدیدا۔۔۔سیدھی سیدھی۔</b><br />
<b>کالے خاں کی بات سے بات کہاں جاپہنچی۔بات ہو رہی تھی ابا جی اور ماموؤں کی ریس کی۔ایک اور موقعہ پر ابا جی‘ماموں کوثر‘ماموں صادق ‘ماموں سمیع اور محلے کے بہت سارے احباب شامل ہوئے ۔فٹ بال میچ کھیلا گیا۔بچوں کو بھی ٹیموں میں شامل کیا گیا۔میں ابا جی کی ٹیم میں تھا۔مجھے ابھی کھیلنا تو آتا نہیں آتا تھا‘پھر بڑوں کے سامنے ویسے بھی کیا کھیل پاتا۔اس کے باوجود ابا جی باآواز بلند ’’شاباش۔۔۔حیدر شاباش۔۔۔‘‘کہہ کر میری ہمت بندھاتے رہے۔کک وہ خود مارتے اور مجھے شاباش دیتے جاتے۔اسی دوران مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی۔میں گراؤنڈ سے باہر کسی مناسب جگہ پر پیشاب کررہا تھا۔تب بھی ابا جی کی آواز آئی:’’شاباش۔۔حیدر شاباش‘‘یہ ایسی سچویشن تھی کہ دونوں ٹیمیں دیر تک ہنستی رہیں۔</b><br />
<b>آپی مجھ سے ایک سال بڑی تھی۔میرے بعد پھر ایک بہن (زبیدہ)پیدا ہوئی۔یوں میں ابتدائی بچپن میں دو بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔(ویسے ہم پانچ بھائی اور پانچ بہنیں‘کُل دس بہن بھائی تھے۔ایک بہن شمسہ فوت ہوگئی تھی)محلے میں بچیوں کی تعدادزیادہ تھی۔چنانچہ میرے بچپن کی ابتدائی گیمز لڑکوں والی کم اور لڑکیوں والی زیادہ تھیں۔رحیم یارخاں کے ماحول میں تب یہ گیمز مقبول تھیں۔’’کوکلا چھپا کے جمعرات آئی اے‘‘۔’’مائی نی مائی تنور تپیا کے نائیں؟‘‘۔’’ککلی کلیر دی‘‘اور’’لکن میٹی‘‘۔</b><br />
<b>ذرا بڑے ہوئے تو بچیوں کی گیمز کی جگہ بچوں کی گیمز کا پتہ چلا۔’’پٹھو گرم‘‘۔’’چکّر بتی‘‘۔’’مِیرو ڈبہ‘‘اور’’گلّی ڈنڈا‘‘۔۔۔’’چکر بتی‘‘اور ’’میرو ڈبہ‘‘ملتی جلتی گیمز تھیں۔آجکل مغرب میں جو ’’بیس بال‘‘گیم مقبول ہے‘اسے’’چکر بتی ‘‘اور’’میرو ڈبہ‘‘کی بدلی ہوئی صورت سمجھیں۔’’پٹھو گرم‘‘میں نے بہت کھیلا لیکن سب سے زیادہ مزہ ’’گلی ڈنڈا‘‘کے کھیل میں آیا۔ایک بار ہم سارے عزیزوں نے یہاں جرمنی کے ایک پارک میں’’کوکلا‘‘کھیلا تو بہت مزہ آیا۔بعد میں ’’گلی ڈنڈا‘‘کھیلنے کا طے کیا تھالیکن ابھی تک پروگرام نہیں بن سکا۔</b><br />
<b>جب ہم لوگ خانپور شفٹ ہوئے تب بابا جی نے مجھے پہلوانی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ۔پہلوان تو میں کیا بنتا البتہ کبڈی کے دو تین داؤ بابا جی سے ضرور سیکھ لئے۔لیکن مجھے یہ کھیل اچھا نہیں لگا۔سچی بات یہ ہے کہ میں جسمانی لڑائی لڑنے کا اہل ہی نہیں ہوں ذہنی لڑائی اور ادب کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ذہنی لڑائی لڑنے میں مجھے ہمیشہ مزہ آیا ہے۔اسی لئے ادبی پنگوں میں الجھا رہتا ہوں۔</b><br />
<b>میرے نزدیک ادبی پنگے تہذیب کے دائرے کے اندر ہوتے ہیں۔ بعض ادیبوں؟ میں جوگمنام’’گشتی مراسلہ بازی‘‘کی ’’خوبی‘‘ پائی جاتی ہے وہ ادب کے دائرے سے ہی نہیں ’’ادنیٰ درجہ کی تہذیب ‘‘سے بھی گری ہوئی حرکت ہے۔ایسے لوگ نہ ادیب ہیں نہ ادب سے ان کا کوئی جائز تعلق ہے۔یہ صرف جعلی اور چور قسم کے لوگ ہیں جو ادب کی دنیا میں گھُس آئے ہیں اور اپنے طرزِ عمل سے ادب میں ’’طوائف الملوکی‘‘پیدا کررہے ہیں۔سو ایسے لوگوں کو میں اپنا حریف ہی نہیں سمجھتا۔ہاں ا دب اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر ادبی پنگا کرنا ایک اور چیز ہے اور ایسے تمام ذہین ادیب دوستوں سے پنگا کرنے میں بھی مزہ آتا ہے۔</b><br />
<b>پنگوں کے لفظ سے’’پِینگ‘‘یاد آگئی۔درختوں پر ’’پینگ‘‘ (جھولا) ڈال کرپینگ چڑھانے کا بھی ایک وقت تک شوق رہا لیکن ایک گیم ایسی ہے جو بچپن سے لے کر جوانی تک ‘شادی کے بعد بھی دیر تک کھیلی ہے۔یہ گیم ’’اشٹاپُو‘‘ہے۔چھ خانے بنا کر‘ایک ٹھیکری کے ساتھ وہ خانے ایک ٹانگ کے بَل پر پُگانے ہوتے تھے۔دواور گیمز بھی یاد آگئیں۔۔’’ماماں جمال خاں‘‘ اور’’ہرا سمندر‘‘۔۔۔یہ بھی بچپن کے مزیدار کھیل تھے۔</b><br />
<b>اِن ڈور گیمز میں ’’کیرم‘‘بھی تھوڑا سا کھیلا ہوں لیکن ’’لوڈو‘‘۔’’بارہ ٹہنی‘‘ اور ’’نوٹہنی‘‘(جسے ہماری سرائیکی میں ’’نَوں تَرین‘‘کہتے ہیں)میری پسندیدہ گیمز ر ہی ہیں۔اب بھی کبھی کبھار کھیل لیتا ہوں۔ ’’کانچ کی گولیاں‘‘۔’’اخروٹ‘‘اور’’تاش کے پتے ‘‘ ان تین گیمز سے بچپن میں ہی اتنا ڈرا دیا گیاتھا کہ یہ بہت بُری گیمز لگتی تھیں۔’’بہت ہی بُرے بچے ایسی گیمز کھیلتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔کانچ کی گو لیاں اور اخروٹ تو کبھی نہیں کھیلا البتہ ایک بار چھوٹے بھائی اکبر نے تاش کے پتے کھیلنے کے گُر سکھا دئیے۔دوتین برس یہ گیم خوب کھیلی لیکن پھر مجھے محسوس ہوا کہ یہ بہت ہی واہیات گیم ہے۔اس میں ہارنے والا‘جیتنے کی اُمید لئے کھیلنے پر تُلا رہتا ہے اور جیتنے والا جیت کے نشے میں مزید کھیلتا چلا جاتا ہے۔یوں ساری ساری رات اس کھیل میں گزر جاتی ہے۔مجھے لگا کہ یہ گیم وقت کا ضیاع ہے۔چنانچہ پھر طبیعت خود ہی اس سے اُچاٹ ہو گئی اور اب میرے سامنے اس کھیل کی رونق بھی لگی ہوئی ہو تب بھی کھیلنے کو جی نہیں کرتا۔</b><br />
<b>لڑکپن کا ایک کھیل ۔۔۔۔جسے میں لکھنے سے پہلے ہچکچایا ہوں اور اب لکھنے لگا ہوں تو میرے چہرے پر خفیف سی شرمندگی والی مسکراہٹ ہے۔میں نے اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر گڈی‘گڈے کے بیاہ کا کھیل بھی بہت کھیلا ہے۔اس میں بہنوں کی سہیلیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔مہندی کی رسم سے لے کر رخصتی تک کی تقریب کی پوری پوری نقل کرتے۔</b><br />
<b>ایک بار میں رحیم یارخاں گیا ۔اپنے پرانے محلے میں گیا تو گلی وہی تھی لیکن گلی کے بیشتر مکان پختہ‘قد آور اور خوبصورت بن چکے تھے جو مکینوں کی خوشحالی کو ظاہر کر رہے تھے۔بُوا زیبُو کا گھر البتہ ویسے کا ویسا ہی کچا کوٹھا اور جھونپڑی نما تھا۔مجھے اس گھرکوجوں کا توں دیکھ کر اس گھر سے جُڑی ہوئی ساری یادیں مسکراتی‘گاتی اور اچھلتی‘کودتی دکھائی دینے لگیں ۔ہر منظر‘ہر یاد‘اس گھر کی چیزوں سے دِکھنے لگی تو میں اپنی خوشی کو نہ چھپا سکا اور بے اختیارانہ میں نے کہہ دیا کہ اس گھر کو جوں کا توں دیکھ کر مجھے بیحدخوشی ہوئی ہے۔تب بوا زیبو کی بڑی بہو نے دُکھی لہجے میں کہا:اگر اس گھر کو ایسے دیکھ کر آپ خوش ہوئے ہیں تو ہمیں بھی خوشی ہے ورنہ ہم تو یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کب حالات بہتر ہوں اور گھر کو پکا کرالیں۔بُوا زیبو کی بہو کا وہ دُکھی لہجہ مجھے ابھی تک شرمندہ کرتا رہتا ہے۔ </b><br />
<b>بالکل ابتدائی بچپن میں‘دوسری اور تیسری جماعت کے دورانیہ میں ہمارے دوستوں کا ایک حلقہ سا بن گیا تھا۔اس میں اکرم‘غوری‘افضل‘نظام دین اور امداد حسین کے نام مجھے ابھی تک یاد ہیں۔لیکن خانپور آنے کے بعد پھر ان میں سے کسی دوست کا کوئی اتہ پتہ نہ چل سکا۔میرے ذہن سے باقی چہرے تو دھندلا گئے لیکن اکرم کا چہرہ ہمیشہ واضح رہا۔لگ بھگ بیس ‘بائیس سال کے بعد کی بات ہے۔تب ہماری شوگر مل کی حبیب بنک برانچ کے مینجر ظفر اقبال ماچے توڑتھے۔ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ رحیم یارخاں سے ایک نئے آفیسر مرزا افضل بیگ آئے ہیں ۔ایک دفعہ دورانِ گفتگو آپ کا ذکر آیا توانہوں نے اپنے بچپن کے ابتدائی دوستوں کے گروپ میں حیدر نامی دوست کا ذکر کیاجو یکایک لاپتہ ہو گیاتھا۔مجھے یہ جان کربیحد خوشی ہوئی ۔</b><br />
<b>افضل سے ملاقات ہوئی‘کچھ یاد نہیں آیا۔چہرے پہچان میں نہیں آئے۔البتہ واقعات کے بیان میں ہم آہنگی تھی۔ آخر افضل ایک دن اُس زمانے کی ایک گروپ تصویر لے کرآیا۔میں نے اکرم اور غوری کو فوراََ پہچان لیا۔تب افضل نے بتایا کہ جسے آپ اکرم کہہ رہے ہیں ‘یہ میں ہوں۔اس سے میں نے اندازہ کیا کہ نام کا ادل بدل بے شک ہوا لیکن میرا ایک اچھا دوست یہی تھا۔</b><br />
<b>’’لیکن یہ(اکرم یا افضل جو بھی ہے)تو بچپن میں بہت دُبلا پتلا اور لمبے قد کا تھا؟‘‘</b><br />
<b>میرے اس تذبذب پر افضل نے بتایا کہ’’دسویں جماعت کے بعد اس کا قد بڑھنا بند ہو گیا تھا‘‘۔</b><br />
<b>پھر میں نے اکرم‘غوری اور امداد کے بارے میں پوچھا تو افضل نے صرف غوری کے بارے میں بتایا کہ اچھی پوزیشن میں ہے۔اکرم کے بارے میں لہجہ درست نہ تھا اور امداد حسین (جو خوشخط تختی لکھنے کے باعث کلاس میں مشہور تھا)کے بارے میں اتنا بتایا کہ وہ کاتب بن گیا ہے۔میں اس کے تحقیر آمیز انداز سے یہی گمان کئے رہا کہ افضل کی ان دوستوں کے ساتھ اَن بَن ہوگی اس لئے ان کا ذکر سرسری اور اس انداز میں کر رہا ہے۔میں بچپن کی گمشدہ دوستیوں کے ملنے پر نہ صرف خوش تھا بلکہ خاصا پُر جوش بھی تھا۔لیکن ایک دو دن کے اندر میں نے افضل کے رویے میں سرد مہری سی محسوس کی تو میرا اپنا میٹر گھوم گیا۔وہ خود کو سماجی لحاظ سے افضل سمجھ رہا تھا جبکہ میں فقیری میں بادشاہی اوربادشاہی میں فقیری کرنے والا بندہ ہوں۔چنانچہ پھر میں نے افضل کو ایسے نظر انداز کردیاکہ شاید وہ خود بھی حیران ہوا ہوگا۔ </b><br />
<b>ایک بار پھر میں رحیم یارخاں گیا تو وہاں ہمارا گھر اپنی اصلی حالت میں موجود ہونے کے باوجود اتنا خستہ اور جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا تھا کہ میں کمروں میں جانے کی ہمت نہ کر سکا۔ایسے لگتا تھا جیسے کسی وقت بھی سارا گھر گرپڑے گا۔</b><br />
<b>بوا زیبو کے گھر‘افضل سے ملاقات کے تجربہ اور اپنے پرانے گرتے ہوئے گھر کو دیکھنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ یادوں کاتعلق گزرے ہوئے واقعات اور مقامات سے منسلک ہونے کے باوجود ہمارے اپنے اندرکی دنیا سے ہوتا ہے۔باہر کی دنیا میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے لیکن ہمارے اندر کی دنیا میں سارے واقعات‘سارے مقامات ویسے کے ویسے ہی آباد ہوتے ہیں۔</b><br />
<b>یہ ہماری یادوں کی دنیا‘ہمارے اندر کی دنیا بھی کتنی عجیب ہے!</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-4011587612973314202011-07-15T06:08:00.000-07:002011-07-15T23:16:27.074-07:00علّتیں‘علالتیں<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">علّتیں‘علالتیں</span></b></div><div style="text-align: right;"><br />
<b>ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔مجھ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں۔کسی زمانے میں غصہ جلد آجاتا تھا لیکن میری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے دوستوں پر بہت جلد اعتبار کرلیتا ہوں۔میں خود اپنے دوستوں کے تئیں جتنا مخلص ہوتا ہوں ‘ان کے بارے میں بھی ویسا ہی تصوّر کرلیتا ہوں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب دوست میرے تصور سے کم ‘بلکہ بہت کم نکلتا ہے توبجائے اپنے تصور اور اپنے رویے کو غلط سمجھنے کے اپنے دوست کو غلط سمجھ لیتا ہوں۔پوری زندگی اسی طرح گزری ہے اور ابھی بھی میرے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔عز ت‘شہرت اور دولت کی تمنّا ہر کسی کو ہوتی ہے۔مجھے بھی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن عزتِ نفس کو مجروح کر کے ملنے والی ظاہری عزت ہو‘شہرت ہو یادولت ہو‘مجھے کبھی اس کی تمنا نہیں رہی۔</b><br />
<b>دسویں کے بعد جب میں نے نوکری کرلی‘تب میں دعا کیا کرتا تھا کہ الٰہی!بے شک مزدوری ہی کرتا رہوں لیکن مجھے ایم اے تک تعلیم حاصل کرنے کی توفیق ضرور دے ۔چلو لوگ یہ تو کہیں گے کہ بے شک مزدور ہے لیکن ایم اے تو کیا ہوا ہے۔۔۔ایم اے پاس مزدور۔۔کیا بات ہے!۔۔۔جب ایم اے کر لیا اور میں مزدور کا مزدور ہی رہ گیاتب میں نے خواہش کی کہ کچھ تو ترقّی کرلوں۔تب ہی مجھے شفٹ کیمسٹ بنا دیا گیا۔یہ آفیسر کیڈر کی جاب تھی۔لیکن میری تنخواہ بہت ہی کم تھی۔وہی مزدور کی حیثیت والی تنخواہ۔۔۔۔قلیل تنخواہ سے تنگ آکر ایک دن میں نے تمنّا کی کہ بندہ بھلے مزدور ہی ہو لیکن تنخواہ تو اچھی ہو۔یہ تمنّا اب جرمنی میں آکر یوں پوری ہوئی ہے کہ یہاں پھر سے مزدور ہو گیا ہوں لیکن پاکستان کے حساب سے تنخواہ مناسب ہے۔ان سارے تجربوں سے میں نے دو باتیں سمجھی ہیں۔ایک تو یہ کہ خدا سے اگر مانگنا ہے تو تھوڑا نہیں مانگو۔ہوس بھی ٹھیک نہیں ہے لیکن اپنے پَیروں کے برابر چادر ضرورمانگو۔جگجیت سنگھ کی گائی ہوئی ایک حمد کا شعر یاد آگیا ہے </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن </b></div><div style="text-align: center;"><b>میری چادر ‘ میرے پَیروں کے برابر کردے</b></div><b>دوسری یہ کہ اﷲ میاں بھی شاید اس انتظار میں یا تاک میں بیٹھا ہوتا ہے کہ کب یہ تھوڑے کی تمنّا کرے اور اس کی آرزو پوری کردوں۔اسی لئے اب میں تھوڑے پر راضی نہیں ہوتا۔مثلاََ اگر کوئی لاٹری ٹکٹ ۱۰۰مارک سے ایک ملین مارک انعام تک کا ہے تو میں سب سے بڑا انعام ہی مانگوں گا۔دوسرے نمبر والا بھی نہیں مانگوں گا۔لاٹری نہیں نکلتی نہ نکلے لیکن مانگنا ہے تو سب سے بڑا انعام ہی مانگنا ہے۔ ویسے یہ صرف مثال سے واضح کیا ہے وگرنہ میں یہاں لاٹری کے چکر میں نہیں پڑا۔</b><br />
<b>جسمانی لڑائی میرے بس کا روگ نہیں ہے۔شاید اسی لئے ذہنی لڑائی لڑنے کی قوت مجھ میں زیادہ ہے۔لیکن افسوس ابھی تک مجھے کسی اچھی علمی لڑائی لڑنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔یورپ کی سطح پر ایسے لوگوں نے جن کے بے وزن شعری مجموعے میں نے بے نقاب کرائے‘جن کے افسانوں کی چوریاں شواہد کے ساتھ ظاہر کیں‘جن کی شعری چوریاں مکمل ثبوت کے ساتھ پیش کیں۔ان لوگوں نے اُن چوریوں اور جعل سازیوں کا جواب دینے کی بجائے میرے خلاف گمنام ’’گشتی مراسلہ بازی‘‘کانہایت غلیظ سلسلہ شروع کیا۔ظاہر ہے ایسی کسی خاتون یا اس کے اسی نوعیت کے چاہنے والوں سے لڑنا میرے بس کی بات ہی نہیں ۔ا س نوعیت کی غلیظ لڑائی کے لئے تو انہیں کے قبیلے کے ا فرادہی ان سے لڑ سکتے ہیں۔</b><br />
<b>ادبی چور اچکوں سے ہٹ کر‘ میں نے ماہیے کی بحث میں تھوڑی سی علمی لڑائی لڑی ہے۔ میرے ہتھیار مضبوط دلائل ہوتے ہیں۔لیکن مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ہماری علمی ‘ادبی دنیا میں عام طور پر محض مضبوط دلائل کام نہیں آتے۔ایک مضمون کے جواب میں میرے مدلل جواب کو نظر انداز کردیا گیا۔لیکن جب میرے احباب میں سے ایک دوست نے مخالفین جیسے انداز میں انہیں جواب دیا تو باوجود اس کے کہ ان کے دلائل مضبوط نہ تھے ‘یار لوگ اس مضمون کے بعد ٹھنڈے پڑ گئے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وقتی کامیابی کے لئے یہی گُر مناسب ہے۔اس کے باوجود میں جانتاہوں کہ میں خود اس گُر کو کبھی بھی استعمال نہیں کر سکوں گا۔شروع میں جب کوئی مخالفانہ مضمون آتا تھا تو میں غصے کے ساتھ کانپتا تھا اور جب تک جواب نہ لکھ لیتا تھا مجھے چَین نہیں آتا تھا۔لیکن جب سے میں نے سکہ رائج الوقت کو سمجھ لیا ہے مجھے اب زیادہ غصہ بھی نہیں آتااور مخالفین کی کسی واقعی اہم بات کا جواب تو ضرور دیتا ہوں مگران کی عام اور سطحی باتوں کی اب میں پرواہ بھی نہیں کرتا۔</b><br />
<b>میں مزاجاََ کنجوس نہیں ہوں لیکن اپنی ذات پر خرچ کرنے کے معاملے میں ہمیشہ سے کنجوس ہوں۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے ایف اے کا امتحان دینے کے لئے مجھے خانپور سے رحیم یارخاں جانا تھا۔ابا جی مجھے خود لے کر رحیم یارخاں گئے۔وہاں انہوں نے مجھے تھوڑی سی رقم دی کہ امتحان کے بعد کچھ کھا پی لینا۔مجھے امتحان گاہ تک چھوڑ کر ابا جی خانپور واپس چلے گئے۔امتحان کے بعد میں نے دو آنے کے چنے بھنوائے اور باقی ساری رقم لا کر ابا جی کو دے دی۔گھر کا خرچ میں نے کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔آج بھی کسی ریستوران میں کھانا کھانے یا کافی پینے کی نوبت آجائے تو بھلے ادائیگی کوئی اور ہی کرے مجھے فضول خرچی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ میں کنجوسی اور فضول خرچی میں فرق سمجھتا ہوں۔اس رویے نے مجھے ادبی لحاظ سے ایک فائدہ پہنچایا ہے کہ میں کفایت لفظی سے کام لیتا ہوں۔یہ بھی میری عادت سی ہے۔مجھے اس کا اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔بس ایک ہلکا سا احساس تھا کہ جو کچھ کہنا ہے اسے مناسب اور کم سے کم لفظوں میں کہنا چاہئے۔ایک بار انڈیا سے شاہد ماہلی اور ڈاکٹر وسیم بیگم جشنِ غالب کے سلسلے میں جرمنی آئے تو ڈاکٹر وسیم بیگم نے میرے افسانوں کی ایک خاص بات مجھے یہ بتائی کہ بہت ہی کم سے کم الفاظ میں اپنی بات پوری کردیتا ہوں۔یہ بات انہوں نے غالباََ اپنے کسی تبصرے میں لکھی بھی تھی۔ تب مجھے خوشی ہوئی کہ میری کفایت شعاری کی کمزوری نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔</b><br />
<b>میرے احباب بخوبی جانتے ہیں کہ مجھے ان کی طرف سے ادائیگی کی صورت میں بھی کسی ریستوران میں کھانا پینا اچھا نہیں لگتا۔جب کہ اپنے گھر پر احباب کی میزبانی سے مجھے ہمیشہ خوشی ہوئی ہے۔میرے اہلِ خانہ نے بھی مہمان نوازی میں کبھی کوئی کسر نہیں رہنے دی۔میرے مقامی احباب کے علاوہ ‘ وہ سارے شعراء اور ادباء بھی اس کی تصدیق کریں گے جو میرے ہاں آچکے ہیں۔</b><br />
<b>میری بیوی کا خیال ہے کہ میں انتہا پسند ہوں۔یا تو اتنا میٹھا بن جاؤں گا کہ دوسرا مجھے محبت ہی میں کھا جائے۔اور یا اتنا کڑوا ہو جاؤں گا کہ کسی کے حلق سے ہی نہیں اتروں گا۔مجھے اپنی اس کمزوری کا ادراک ہے۔میں خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن جو عیب قدرتی طور پر ودیعت کیا گیا ہو وہ ختم نہیں ہو سکتا۔میرے بیٹوں کا کہنا ہے کہ میں کسی رشتہ دار پر جب بگڑتا ہوں تو حق بجانب ہوتا ہوں۔کسی سے بہت تنگ آکر رابطہ منقطع کر لیتا ہوں لیکن جب وہی رشتہ دار آکر جذباتی انداز میں منانے لگیں توفوراََ مان جاتا ہوں۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی دوست یا عزیز سامنے آکر رونے لگ جائے اوراپنی غلطی کا اقرار کرلے تو اس کے بعد میرے لئے ناراض رہنا تکبّر کے زمرہ میں آتا ہے۔کوئی میرے سامنے آکر رونے لگے تویہی بات مجھے بیحد خوفزدہ کردیتی ہے اورپھر میں سب کچھ بھول بھال جاتا ہوں۔ایک قریبی عزیز تو اتنی دفعہ شرارتیں کر چکے ہیں اور پھر اتنی دفعہ گڑگڑا کر معافیاں مانگ چکے ہیں کہ میرے لئے رشتہ داری ہی عذاب بنادی ہے۔نہ ان سے تعلق جوڑا جاسکتا ہے نہ پوری طرح توڑا جا سکتا ہے۔ذرا سی طاقت یا موقعہ ملتے ہی وار کردیں گے اور غبارے میں سے ہوا نکلتے ہی پھر رو رو کر منانا شروع کر دیں گے ۔چونکہ میرے بیٹوں نے ان کے سارے واقعات بچشمِ خود دیکھے ہیں۔شاید اسی لئے وہ میرے رویے کو میرا عیب کہتے ہیں۔</b><br />
<b>میری چھوٹی بیٹی مانو کے نزدیک مجھ میں جو عیب ہے وہ ذرا بعد میں بتاؤں گا۔پہلے یہ واضح کردوں کہ میری امی جی نے گھر کے کام کاج میں مَردوں کو زحمت نہیں دی۔اباجی ہوں‘یا باباجی‘میں یا میرے چھوٹے بھائی‘ہم میں سے کسی نے گھر کے اندر کے کام کاج نہیں کئے۔مثلاََ کپڑے یا برتن دھونا‘چارپائیاں اُٹھانا‘بستر بچھانا‘کھانا پکانا وغیرہ۔مبارکہ سے میری شادی ہوئی تو یہ بھی اپنی پھوپی کے رنگ میں رنگ گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ نہ بٹانے کی میری عادت مضبوط ہوگئی۔حالانکہ گھر کے کام کاج میں بیوی کا ہاتھ بٹانا چاہئے۔اور تو اور میری بڑی بیٹی رضوانہ بھی ماں جیسی ہی نکلی۔اس کی شادی ہو گئی تو گھر کے کام کاج کی ذمہ داری مانو پر آن پڑی اور اس نے بڑی چالاکی کے ساتھ گھر کے معمولات کو تبدیل کردیا۔چائے بنانے سے لے کربرتن دھونے تک بھائیوں کو بھی کام پر لگا لیا۔یوں اب میرے تینوں بیٹے ماشاء اﷲ گھر کے بیشتر کام کاج کر لیتے ہیں۔۔۔۔۔سو جب میں نے مانو سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک میری سب سے بڑی کمزوری کونسی ہے؟تو اس نے فوراََ کہا آپ گھر کے کام کاج بالکل نہیں کرتے۔بات تو ٹھیک ہے لیکن اب عادت پختہ ہو چکی ہے۔</b><br />
<b>اس قسم کی عادتوں کو بیماریوں میں شمار کرنا چاہئے کہ ایسی عادت علّت کے زمرہ میں آتی ہے اور علّت و علالت کا قرب ظاہر ہے۔مجھے بیشتر عادتیں اور بیماریاں والدین سے ملی ہیں۔میرے ننہال میں شوگر کی بیماری موروثی ہے۔امی جی کو بھی شوگر کی شکایت تھی اور اسی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔سو مجھے شوگر کی شکایت ہے۔اسی طرح ابا جی کو بواسیر کی شکایت تھی ۔ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف بھی تھی۔مجھے یہ دونوں بیماریاں بھی ایک عرصہ سے لاحق ہیں۔بس اتنا ہے کہ ابا جی کے مقابلہ میں مجھے ایسے وسائل میّسر ہیں کہ میں آسانی سے انہیں کنٹرول کئے رکھتا ہوں۔’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘پر ممکنہ حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔کبھی کبھی بد پرہیزی بھی ہو جاتی ہے۔ویسے جرمنی آنے کے بعد بلڈ پریشر بالکل نارمل ہو گیا ہے۔اس کے باوجود وقتاََ فوقتاََ چیک کرتا رہتا ہوں۔بواسیر کی جڑیں ختم تو نہیں ہوئیں لیکن یہ بیماری بھی اس حد تک کنٹرول میں آگئی ہے کہ گویا ہے ہی نہیں۔اسے خدا کا فضل کہنا چاہئے کہ بیماری ہوتے ہوئے بھی’’ نہ ہونے‘‘ جیسی ہے۔</b><br />
<b>بواسیر کی تکلیف سے یاد آیا اس کا ایک سادہ سا دیسی علاج یہ ہے کہ مولیوں کے بیج لے کر انہیں تھوڑا سا کُوٹ کردو چمچ صبح‘دوپہر‘شام پانی کے ساتھ پھانک لینے سے دو ہفتوں میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔آپریشن تو نہیں ہوتا لیکن جلن اور تکلیف بھی نہیں ہوتی۔جب میں شوگر مل میں ملازم تھا اس زمانے میں ایک بار میں نے لیبارٹری میں ایک خوراک پھانکی تو ایک دوست نے پوچھا کہ یہ کیاہے؟ساری تفصیل جاننے کے بعد پھر کہنے لگا اگر یہ بیج اس بیماری کے لئے مفید ہیں تو انہیں کُوٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ثابت بیج بھی تو کھائے جا سکتے ہیں۔تب میں نے اسے کہا تھا کہ بھائی!یہ مُولی کا بیج ہے اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔خدانخواستہ پیٹ میں جاکر بیج سے مُولی اُگ آئی تو بواسیر کا مریض بے چارہ بیماری کے بجائے اپنے علاج کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ </b><br />
<b>میں پاکستان میں بھی پانی بہت پیتا تھا اس سے قبض کی شکایت نہیں ہوتی۔جرمنی آنے کے بعد جب شوگر کی بیماری لگی تب ڈاکٹر کی ہدایت کے پیش نظر میں نے پانی پینے کی مقدار میں اضافہ کردیا۔چاہے جرمنی کی دسمبر کی یخ سردیاں ہوں‘میں اپنے معمول کے مطابق دن میں کم از کم تین جگ پانی کے پی جاتا ہوں۔کسی شرط کے بغیر پانی کا ایک جگ تو میں آرام سے آدھ‘پون گھنٹے میں پی جاتا ہوں ۔پانی زیادہ پینے کے نتیجے میں مجھے بار بار پیشاب کے لئے جانا پڑتا ہے لیکن اپنی صحت کی خاطر اتنا کچھ تو کرنا ہی چاہئے۔پانی کثرت سے پینے کے باعث مجھے اپنے اندر کی صفائی کی بھی زیادہ ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔</b><br />
<b>بواسیر‘بلڈ پریشر اور شوگرکی بیماریاں مجھے اپنے والدین سے ملی ہیں تو میں انہیں اپنی وراثت سمجھتا ہوں۔ان ساری بیماریوں کے میرے حصے کے دُکھ بھی وہ آپ اُٹھا گئے ہیں کہ تب نہ تو ان کی تشخیص اور بروقت چیک کرنے کی سہولت تھی اور نہ ہی مناسب علاج میّسر تھا۔اور ان کے حصے کے بروقت تشخیص‘بروقت کنٹرول اور مناسب علاج معالجے کے سارے سُکھ مجھے مل گئے ہیں۔اگرچہ میں نے بغیر چینی کے چائے پینے کی عادت بنا لی ہے لیکن اب ’’شوگر فری‘‘گولیاں عام مل جاتی ہیں۔اور تو اور ’’شوگر فری‘‘ چینی بھی مل جاتی ہے۔اس سے اپنی مرضی کی مٹھائیاں تیار کرائیں‘کیک بنائیں۔گھر والے عموماََ میرے لئے ایسی چیزیں تیار کرتے رہتے ہیں۔گویا ورثے میں ملی ہوئی یہ بیماریاں تو اچھی بھلی عیّاشی ہیں۔میرے امی ‘ابو بھی عجیب تھے۔بیماریوں کے معاملے میں بھی میرے سُکھ کے لئے‘خود ہی سارے دُکھ بھوگ گئے۔</b><br />
<b>بخار ہونے کی صورت میں مجھے گھبراہٹ تو ہوتی ہے لیکن میں ٹمپریچر کی زیادتی کے باوجود بخار کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہوں۔بخار کے اختتام پر مجھے عموماََ متلی سی ہونے لگتی ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے کچا تھوک مسلسل نکلتا آرہا ہے۔مسلسل تھوکنا پڑتا ہے اور مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔امرت دھارا کے استعمال سے اس وحشت سے نجات ملتی ہے۔ایک عرصہ تک بخار کے ساتھ یہ مصیبت رہی اور میں بخار سے زیادہ بخار کے ختم ہونے سے گھبرایا کرتا تھا۔خدا کا شکر ہے اب ایک عرصہ سے بخار کے بعد متلی کی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہے۔</b><br />
<b>۱۹۷۳ء میں خانپور میں قیامت خیز سیلاب آیا تھا۔تب ہمارا مکان اس سیلاب کی نذر ہو گیا تھا۔مشرقی جانب کمرے کی دیوارگر چکی تھی۔خیال تھا کہ اس طرف نئی دیوار اُٹھا کر کام چلا لیں گے۔لیکن باقی دیواروں کی حالت بھی سیلاب کی مار سے کچھ مخدوش سی لگتی تھی۔اسی دوران بابا جی ایک کمرے اور برآمدے کے درمیانی دروازے کو اینٹ مار کر نکالنے لگے۔تب بابا جی کمرے کی طرف تھے۔اباجی اور میں برآمدے کی طرف تھے۔برآمدے کی مشرقی سائڈ والی دیوار سلامت تھی۔جبکہ کمرے کی مشرقی سائڈ والی دیوار گر چکی تھی۔میں دروازے کے قریب تھا۔۔۔۔۔ابا جی تھوڑا سا پیچھے تھے اور بابا جی کو روک رہے تھے کہ غلام حسین !ایسے مت کرنا۔لیکن باباجی نے اسی دوران ہی اینٹ سے دروازے کے اوپری حصّہ پر ضرب لگا دی۔ایک دھماکہ سا ہوا۔میں پیچھے پلٹا تو ابا جی کو باہر جمپ کرتے دیکھا۔باباجی کے بارے میں مجھے ایسے لگا جیسے وہ اندر ملبے کے نیچے آگئے ہوں۔ابا جی نے بعد میں بتایا کہ بابا جی نے تو مشرقی جانب چھلانگ لگالی تھی۔ابا جی کو ایک بار تو ایسے لگا کہ بیٹا گیا۔دل میں انّا ﷲ بھی پڑھ لیا۔ پھر انہوں نے مجھے آواز دی تو میں نے ملبے میں سے کہا کہ میں توٹھیک ہوں‘باباجی کا پتہ کریں۔تب ابا جی کو تھوڑی سی تسلی ہوئی ۔انہوں نے وہیں سے بتایا کہ بابا جی بھی خیر سے ہیں۔یہ سب کچھ کیسے ہوا؟اس کا تو کچھ پتہ نہیں‘ لیکن صورتحال یہ تھی کہ برآمدے کی چھت کے ساتھ ساتھ‘اس سے منسلکہ کمرے کا بیشتر ملبہ بھی مجھ پر آن گرا تھا۔لیکن ایسے طریقے سے کہ شہتیروں نے ایک دوسرے کو ٹیک دے کر اوپر آئی ہوئی کَڑیوں کو روک رکھا تھا۔جب سارا ملبہ ہٹاکر مجھے باہرنکالا گیا تو میں خود چل کر ساتھ والے ہمسائے چاچابگو کے گھر تک گیا۔میں کہہ رہا تھا میں بالکل ٹھیک ہوں۔لیکن بابا جی کا کہنا تھا کہ ابھی جسم گرم ہے اس لئے ایسا لگ رہا ہے۔ابا جی مجھے چارپائی پر لیٹنے کو کہہ رہے تھے۔جب میں چارپائی پر بیٹھا تو اندر کی ضربوں نے اپنے ’’ہونے‘‘کا احساس دلانا شروع کردیا۔تب مجھ پر گھبراہٹ سی طاری ہوئی۔اسی دوران دودھ اور دیسی گھی کو ملا کر گرم کر چکے تھے۔اسے پینے سے کچھ بہتر محسوس ہوا۔بعد میں ہسپتال بھی گئے لیکن دودھ اور دیسی گھی والا نسخہ زیادہ کارگر رہا۔</b><br />
<b>دودھ اور دیسی گھی سے ایک اور واقعہ یاد آگیا۔شوگر مل کی ملازمت کے دوران ایک بار رمضان شریف کا مہینہ تھا۔میری ڈیوٹی کا وقت ایسا تھاکہ افطاری ڈیوٹی پر ہی کرنا ہوتی تھی۔سو لیبارٹری میں ہم سارے لوگ افطاری کا انتظام کرلیتے تھے۔لیبارٹری میں نمک بھی اچھی کوالٹی کا ہوتا تھا۔اس دن کسی نے غلطی سے نمک جیسا کوئی اور کیمیکل لا کر رکھ دیا۔مالٹے کاٹ کر ان پر نمک چھڑک دیا گیا۔جب افطار کے وقت سب نے روزہ کھولاتو کھجور کے بعد بیشتر نے مالٹے کی طرف توجہ کی۔اس کے بعد جب مٹھائی اور پکوڑوں کی باری آئی تو دونوں چیزیں ہی پھیکی بلکہ بے ذائقہ لگ رہی تھیں۔جن ایک دو ساتھیوں نے ابھی مالٹے نہیں چکھے تھے‘وہ کہہ رہے تھے کہ مٹھائی بھی اچھی ہے اور پکوڑے بھی مزے کے ہیں۔لیکن باقی سارے ساتھیوں کو کچھ بھی محسوس نہیں ہورہا تھا۔تب ہمارے چیف صاحب یا لیبارٹری انچارج نے آکر چیک کیا تو پتہ چلا کہ نمک کا ہم شکل کوئی اور کیمیکل غلطی سے استعمال ہو گیا ہے۔یہ مرکری سے متعلق کوئی کیمیکل تھا۔اب نام یاد نہیں آرہا۔اس سے مجھے اور تو کوئی تکلیف نہیں ہوئی لیکن ذائقے کا احساس بالکل ختم ہوگیا۔ کئی قسم کے دیسی ٹوٹکے کرنے سے غالباََ بارہ گھنٹے کے لگ بھگ وقفہ کے بعد اس کیمیکل کا اثر زائل ہوا۔گھریلو ٹوٹکوں میں دودھ گرم کرکے اس میں دیسی گھی ملا کر پینا بھی شامل تھا۔اس تجربے سے مجھے ’’ذائقے‘‘کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہوا۔ذائقے کا احساس نہ ہو تو لذیذ ترین چیز بھی بے معنی ہوجاتی ہے۔</b><br />
<b>شوگر مل اور لیبارٹری سے مہدی حسن یاد آگئے۔یہ ہمارے لیبارٹری کیمسٹ تھے۔شوگر مل کی سیاست کے حوالے سے ان کا ذکرپہلے بھی کر چکا ہوں۔حیدر آباد دکن سے آنے والے یہ دوست بہت ہی نفیس انسان تھے۔گفتگو کرنے کے بادشاہ تھے۔ ادب‘ سیاست‘ فلم ‘مذہب ۔ ۔۔۔ کسی موضوع پر بات ہو‘عمدہ گفتگو کرتے تھے۔ باقی موضوعات پر سب ہی کچھ نہ کچھ معلومات رکھتے تھے لیکن انڈین فلموں کے معاملے میں انہیں اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔تب میں ہی تھا جس کی معلومات پر وہ بھی حیران ہوئے۔</b><br />
<b>تب ٹی وی چینلزکا موجودہ سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔میں اُس زمانے میں دوسرے رسائل کے ساتھ فلمی رسائل بھی پڑھتا تھا‘ ویکلی’’مصوّر‘‘لاہور نے غلام اکبر کی ادارت میں ایک ہنگامہ خیز اور باغیانہ روایت آغاز کیا تھا۔پاکستانی فلموں پر بے لاگ تبصروں کے ساتھ انڈین فلموں کی کہانیوں اور ان کے بارے میں معلومات شائع کرنے کا سلسلہ ’’مصور‘‘میں بے حدپسند کیا جاتا تھا۔تب کہانی چوروں کو بے نقاب کیا جاتا تھا(افسوس کہ بعد میں کہانی چوروں نے مل کر غلام اکبر کو ’’مصورّ‘‘کی ادارت ہی سے فارغ کرادیا)یوں مجھے بہت سی فلموں کی کہانیاں اور ڈائیلاگ تک یاد ہو گئے تھے۔گانوں سے ریڈیو کے ذریعے اتنا رابطہ تھا کہ گانے کے بول کے ساتھ گلوکارکانام‘ فلم کا نام ‘گیت کار کا نام‘اور موسیقار کا نام بھی یاد ہوتا تھا۔ اب ایک طرف میری معلومات ایسی تھی کہ دورانِ گفتگو مہدی حسن بھی حیران ہوجاتے دوسری طرف میں یہ بھی کہتا تھا کہ میں نے کبھی کوئی فلم نہیں دیکھی۔مہدی حسن میری یہ بات نہیں مانتے تھے اور اندر کی بات میں نے انہیں بتائی نہیں تھی۔</b><br />
<b>خیر ۔۔۔یہ بات یونہی طویل ہوئی جارہی ہے۔اصل میں مجھے یہ ذکر کرنا تھا کہ مہدی حسن چائے پینے کے معاملے میں بہت نفاست دکھاتے تھے۔لیبارٹری میں چائے بنائی جاتی‘ان کی وجہ سے چینی بہت ہی کم ڈالی جاتی۔اس کے باوجود وہ ہمیشہ کہتے کہ یار!چینی زیادہ ہے۔</b><br />
<b>ایک بار میں نے اپنے ساتھی لال دین سے کہا کہ آج چائے میں بناؤں گا۔ساتھ ہی اسے بتا دیا کہ آج چینی بالکل نہیں ڈالیں گے۔چنانچہ بغیر چینی کے چائے تیار کی گئی۔میں نے خود مہدی حسن کو چائے پیش کی اورکہا کہ امید ہے آج آپ کو چینی مناسب لگے گی۔مہدی حسن نے چائے کی ایک چُسکی لی اور کہنے لگے پہلے سے بہت بہتر ہے لیکن میرے حساب سے ابھی بھی تھوڑی سی زیادہ ہے۔ </b><br />
<b>ابے سالے!تیری افسری کی بھی اور تیری بھی ایسی کی تیسی۔۔۔۔اس سے کم اور کیا ہوگی؟</b><br />
<b>مہدی حسن میرے اندازِ گفتگو سے سٹپٹا گئے کیونکہ میں کبھی ایسے نہیں بولتا۔جب انہیں چائے میں چینی کی ساری حقیقت بتائی تو نہ صرف بے حد شرمندہ ہوئے بلکہ اس کے بعد ہم کچھ اور قریبی دوست ہوگئے۔یہ دوستی وقت اچھا گزارنے والی تھی۔باہمی اعتماد والی نہیں تھی۔اور اب میں خود بغیر چینی والی یا شوگر فری گولیوں والی چائے پیتا ہوں تو کبھی کبھی مہدی حسن یاد آجاتے ہیں۔</b><br />
<b>شوگر مل کے ماحول میں صرف مہدی حسن ہی ایسے تھے جن سے مختلف موضوعات پر نہ صرف گفتگو ہو سکتی تھی بلکہ اس گفتگو کا مزہ بھی آتا تھا۔ان کے بعد اظہر ادیب سے رابطہ ہوا ۔وہ اچھے دوست تھے لیکن ان کے ساتھ ایک حد تک ادبی یا پھر ذاتی باتیں کی جاسکتی تھیں۔یوں مہدی حسن کی اہمیت اپنی جگہ رہی۔پھر وہ شوگر مل کی نوکری چھوڑ گئے۔اپنے رشتہ داروں میں کہیں شادی کرکے سسرال کی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے لگے۔اسی دوران ایک دن اچانک شوگر مل میں آگئے۔انہیں دیکھ کر‘ ان سے مل کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔میں ان کے ساتھ بیٹھنا اور گپ شپ کرنا چاہتا تھا۔لیکن مجھے اُس وقت ہلکا سا شاک لگا جب پتہ چلا کہ انہیں پٹرول کی ضرورت ہے۔ان دنوں پٹرول کی فراہمی کا مسئلہ بنا ہوا تھا۔سو مجھے کہا گیا کہ خانپور میں پٹرول نہیں مل رہا‘میں جا کر ظاہر پِیر سے پٹرول کا ایک کنستر لادوں۔ظاہر پِیر کو سڑکوں کا جنکشن سمجھیں۔یہ خانپور سے دس پندرہ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔میں پٹرول لینے چلا گیا۔جب واپس آیا تو مہدی حسن کے جانے کاوقت ہو گیا تھا۔اس کے بعد ایک زمانہ گزر گیا مہدی حسن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔</b><br />
<b>۱۹۹۲ء میں جب میں ایبٹ آباد میں تھا‘ایک بار اسلام آباد گیا۔وہاں انڈین سفارت خانے سے انڈیا کا ویزہ لینے کے لئے لائن میں کھڑا تھا۔ایک موٹے سے شخص نے آکر مجھے مخاطب کیا:’’آپ حیدر قریشی ہی ہیں نا؟‘‘</b><br />
<b>’’جی‘‘میں نے مختصر سا جواب دیا۔</b><br />
<b>’’مجھے پہچانا؟‘‘ اُس شخص نے پھر پوچھا۔میں نے ایک ثانئے کے لئے اسے غور سے دیکھا او رپھر ’مہدی حسن‘ کا نعرہ لگا کر ان سے لپٹ گیا ۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مہدی حسن کبھی اتنے موٹے ہو سکتے ہیں۔جیسے شمی کپور کی ابتدائی فلموں والی جسامت اور آج کی ضخامت میں فرق ہے بالکل ویسا ہی فرق پہلے والے اور اب والے مہدی حسن میں تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ مہدی حسن اتنے موٹے ہو گئے ہیں۔</b><br />
<b>سفارت خانے سے فارغ ہو ئے تو مجھے ویزہ مل گیاتھا اور مہدی حسن کو انکار کر دیا گیا تھا۔حالانکہ میرا کوئی رشتہ دار انڈیا میں نہ تھا جبکہ مہدی حسن کی آبائی حویلی بھی وہاں تھی اور بہت سارے رشتہ دار حیدرآباد اورانڈیا کے دوسرے شہروں میں مقیم تھے۔بہر حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مہدی حسن کو میں نے ایبٹ آباد ساتھ چلنے کی دعوت دی ۔انہوں نے اپنی بہن یا کزن کو کوئی ضروری بات بتانا تھی۔اس لئے طے پایا کہ راولپنڈی کے اس ویگن اڈہ پر ملیں گے جہاں سے ایبٹ آباد کے لئے ویگنیں جاتی ہیں۔وقتِ مقررہ تک مہدی حسن وہاں نہیں پہنچے تو میں نے مزید انتظار نہیں کیا اور ایبٹ آباد چلا گیا۔یوں ہماری ملاقات ادھوری رہ گئی۔مجھے مہدی حسن سے ملاقات نہ ہو سکنے کا آج تک افسوس ہے۔لیکن کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ راولپنڈی جیسے شہر میں جہاں بسوں اور ویگنوں سے سفر کرنے والوں کو دیر سویر ہو سکتی ہے۔مجھے چاہئے تھا کہ میں مقررہ وقت کے بعد بھی ان کا انتظار کر لیتا۔اور پھر مجھے ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں نے مہدی حسن کا مزید انتظار نہ کرکے ان سے پٹرول منگانے والی زیادتی کا بدلہ لے لیا تھا۔شعوری طور پر نہ سہی‘لا شعوری طور پر بھی تو ہم سے کمینگیاں سرزد ہو جاتی ہیں ۔</b><br />
<b>اپنی خامیاں آپ گنوانا مشکل کام ہے۔اپنے آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم میں کیا کمزوری ہے۔جب تک پتہ چلتا ہے تب تک عادتیں اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہیں کہ ان سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے یہی صورت حال درپیش ہے۔اس کے باوجود اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے پوچھنے کے بعد اپنی جو کمزوریاں سمجھ پایا ہوں‘لکھ دی ہیں۔</b><br />
<b>مجھے اونچائی سے اور دریا‘یا سمندر کے پانی سے ڈر لگتا ہے۔حالانکہ پانی زندگی کی بنیاد ہے اور بلندیوں کے حصول کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔پہاڑ کی چوٹی تو دور کی بات ہے‘مجھے دس بارہ منزلہ عمارتوں سے نیچے جھانکتے ہوئے بھی وحشت ہوتی ہے۔ در اصل میں بچپن سے بہت ڈرپوک ہوں۔’’اندھیرے کی ماں‘‘سے ایک عرصہ تک بہت ڈر لگتا رہا۔امی‘ابو مجھے کسی شرارت سے روکنے کے لئے عموماََ آخری حربے کے طور پر ’’اندھیرے کی ماں آجائے گی‘‘کہہ کر ڈراتے اور میں شرارت سے باز آجاتا۔یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ’’اندھیرے کی ماں‘‘تو بڑی کام کی چیز ہے۔انسان کی پردہ پوشی جیسا نیک کام کرتی ہے۔</b><br />
<b>دوپہر کے وقت بھی اگر کبھی امی مجھے کہتیں کہ گھر کی چھت پر پڑی کوئی چیز لے آؤ تو میں بھری دوپہر میں بھی چھت پر جاتے ہوئے گھبراتاتھا۔کسی چھوٹے بھائی کو ساتھ لے لیتا۔گھر پر کوئی اور نہ ہوتا تو ڈرتے ڈرتے چھت پر جاتا اور وہاں سے آوازدیتا رہتا۔</b><br />
<b>’’امی !چھاج نہیں مل رہا۔کس طرف ہے؟۔۔۔۔۔۔۔‘‘ </b><br />
<b>امی جی وہیں سے ہنس کر آواز دیتیں:</b><br />
<b>’’تُو بھی میری طرح ڈرپوک ہے۔دھیان سے دیکھ چھت پر ہی ہے‘‘</b><br />
<b>اور میں جیسے تیسے چھاج(یا جو کچھ بھی منگایا جاتا)لے کر چھت کی سیڑھیوں سے جلدی جلدی اترنے لگتا اور اترتے اترتے بھی کوئی نہ کوئی بات کرتا جاتا۔</b><br />
<b>تو صاحب!اندھیرا ہو یا اجالا۔۔۔۔میں تنہائی سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ایک عمر کے بعد معلوم ہوا کہ گیان کی روشنی اسی تنہائی سے نصیب ہوتی ہے۔پَر خوف اور گناہ کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ منزل نصیب ہوتی ہے۔میں بھی گیان کی منزل کا راہی ہوں لیکن ابھی رستے میں ہوں اور شاید جان بُوجھ کر رستے میں ہوں کہ رستوں کا‘سفر کا اور سفر کی چھوٹی چھوٹی منزلوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ </b></div><div style="text-align: center;"><b>*** </b></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-69165453247127409142011-07-15T06:05:00.000-07:002011-07-15T23:17:07.667-07:00اَ ن دیکھے‘ پر جانے دوست<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">اَ ن دیکھے‘ پر جانے دوست</span></b></div><br />
<b>میری ادبی زندگی میں بہت سے دوست آئے۔کچھ نے چند قدم تک ساتھ نبھایا۔بعض سے لمبی دوستی نبھی۔کسی سے نباہ میں میرا سلیقہ کام آیا تو کسی سے نباہ میں اُس کی اپنی محبت کارگر رہی۔ادبی دوستوں میں اَن دیکھے دوستوں سے تعلق کی نوعیت عام دوستیوں سے خاصی مختلف ہوجاتی ہے۔میرے بہت سے اَن دیکھے دوست ہیں لیکن یہ میرے لئے اور میں ان کے لئے انجانے نہیں۔ایسے دوستوں کی فہرست خاصی طویل ہے تاہم ان میں سے بعض بہت زیادہ اہم دوستوں کا ذکر یہاں کرنا ضروری سمجھتاہوں۔ </b><br />
<b>ایسے دوستوں میں سب سے پہلے نمبر پر مشہور جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا نام آتا ہے۔میں نے غالباََساتویں جماعت سے انہیں پڑھنا شروع کیا تھا۔شروع میں جاسوسی سیریز کے ناول پڑھے۔ان میں کرنل فریدی‘کیپٹن حمید اور قاسم کے کردار مجھے بے حد دلچسپ لگے ۔ پھر عمران سیریز کے ناول پڑھے تو ان کا ایک الگ ذائقہ محسوس ہوا۔میں ابنِ صفی کے ناول اپنے شہر کی ’’تھری اسٹار لائبریری‘‘سے کرائے پر لاتا تھا اور دن میں بعض اوقات دودو ناول آرام سے پڑھ جاتا تھا۔خانپور میں میرے گھر سے یہ لائبریری تقریباََ دس ‘پندرہ منٹ کے پیدل فاصلے پر تھی۔میں ناول لیتے ہی پڑھنا شروع کردیتا تھا اور گھر پہنچنے تک اس کا آدھے سے کچھ کم حصہ پڑھ چکا ہوتا تھا۔رستے میں کبھی کبھار کسی سائیکل والے سے ٹکر ہوتے ہوتے رہ جاتی‘ گھر پر بھی ناول ختم کرنے کے بعد سانس لیتا تھا۔</b><br />
<b>عمران سیریز میں ایکسٹو کی ٹیم کے متوازی مجھے ٹی۔تھری بی یعنی تھریسیا کا کردار بہت اچھا لگتا تھا۔سنگ ہی کے کردار کی اپنی ایک الگ آن بان تھی۔میں آج بھی اگر کبھی بہت بوریت محسوس کروں اور کسی اچھی ادبی کتاب سے بھی بوریت دور نہ ہو توابنِ صفی کا کوئی ناول پڑھ لیتا ہوں۔ابنِ صفی سے پہلے مجھے کسی مصنف نے اس طرح سے نہیں جکڑا تھا۔سو ان سے غائبانہ طور پر محبت کا ایک تعلق بن گیا۔اسی لئے مجھے وہ ہمیشہ اپنے دوست محسوس ہوئے ۔ایسے دوست جو دوست ہونے کے باوجود رہنمائی کا کام بھی خاموشی سے کرتے رہے۔ اگرچہ میری تحریریں‘ اُن کے موضوعات اورمیدان سے بالکل الگ ہیں لیکن مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ میری نثر پر کہیں نہ کہیں ان کے اسلوب کا کوئی نہ کوئی اثر ضرور ہے۔ہماری ادبی دنیا نے ابنِ صفی کے ساتھ انصاف یا ناانصافی تو کیا کرنا تھی انہیں ادب کے زمرہ سے ہی خارج رکھا ہے جو ادبی جرم سے کم نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ابنِ صفی سے میرے جیسے سینکڑوں ادیبوں نے پڑھنے اور لکھنے کا سلیقہ سیکھا ہے۔اور ہماری ادبی دنیا کی کم ظرفی ہے کہ ابنِ صفی سے سیکھنے والوں نے بھی انہیں نظر انداز کیا ہے۔میری دلی آرزو تھی کہ مجھے ان کے ناولوں کا مکمل سیٹ مل جائے تو میں مربوط طریقے سے ان کے فن پر تحقیقی اور تنقیدی کام کروں۔حال ہی میں مجھے انگلینڈ جانے کا موقعہ ملا تو وہاں ابنِ صفی کی ایک عزیزہ اور لندن کی معروف افسانہ نگار اور کالم نگارصفیہ صدیقی تقریب کے دوران مجھے ملنے آئیں۔مجھے ان سے مل کر دوہری خوشی ہوئی ایک تو اس لئے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو پڑھتے رہتے تھے ۔دوسرے اس لئے کہ ان سے ملاقات کے دوران ابنِ صفی کا مکمل سیٹ دستیاب ہونے کی امید بن گئی ہے۔کراچی میں مقیم ابنِ صفی کے صاحبزادے ڈاکٹر ایثار احمد صفی سے میرا رابطہ انہوں نے کرادیا ہے۔سو جودوست ادبی مباحث میں مجھ سے تنگ یا خفا ہیں ‘ان کے لئے خوشخبری ہے کہ میں ابنِ صفی کا مکمل سیٹ ملنے کے بعد شاید سال بھر تک بالکل اسی پراجیکٹ کا ہوجاؤں گا۔سو اس عرصہ میں مذکورہ سارے دوست میری واپسی تک اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ سکتے ہیں۔خدا کرے مجھے یہ کام کرنے کی توفیق مل جائے!</b><br />
<b>میں نے بے روزگاری کے ایام میں تین ماہ کے لئے گوجرانوالہ میں ملازمت کی تھی۔تب تو امین خیال جی سے رابطہ نہیں ہوا تھا لیکن جیسے ہی ماہیے کی تحریک شروع ہوئی‘میرا امین خیال جی سے رابطہ ہوگیا۔ اس رابطے میں ماہیے کی محبت شامل تھی۔امین خیال جی اس لئے خوش تھے کہ پنجابی کی لوک شاعری اردو میں مقبول ہو رہی ہے۔میں اس لئے خوش تھا کہ پنجابی کے ایک اہم اورمعروف شاعر کی شمولیت سے اردو ماہیے کی اس تحریک کو تقویت ملے گی۔بے شک ماہیے کو تقویت ملی لیکن ہماری دوستی بہت جلد اس سطح سے اونچی چلی گئی۔جب امین خیال جی نے پنجابی اخبار ’’بھنگڑا‘‘ کا اردو ماہیا نمبر شائع کیا تب ان کے شاگرد اور پرانے دوست غلام مصطفی بسملؔ نہ صرف ان کے ساتھ تھے بلکہ ان کا دَم بھرتے تھے۔انہوں نے ماہیا نمبر میں اختلافی اداریہ لکھا۔میں نے بڑی نیازمندی کے ساتھ اس کے جواب میں اپنا موقف دلائل کے ساتھ واضح کرتے ہوئے فیصلہ انہیں پر چھوڑ دیا۔امین خیال جی نے وہ خط من و عن شائع کردیا۔اس پر بسمل صاحب نے جواب دینے کی بجائے امین خیال جی سے لاتعلقی اختیار کرلی۔نہ استاد کی استادی کا خیال کیا‘نہ پرانی دوستی کا پاس کیا اور نہ ہی علمی سطح پر دلیل کا جواب دلیل سے دینے کی ہمت کی۔تب امین خیال جی بہت دکھی ہوئے تھے۔اگرچہ بسمل صاحب نے پھر خود پسِ پردہ رہ کر مختلف لوگوں سے مجھ پر مختلف قسم کے حملے کرائے لیکن دلائل کی سطح پر ان کا بھی وہی حشر ہوا جو اس سے پہلے بسمل صاحب کے اپنے اداریے کا ہوچکا تھا۔تاہم مجھے ابھی تک یہ احساس ستاتا رہتا ہے کہ میری وجہ سے امین خیال جی اپنے ایک عزیز شاگرد اور دوست کو گنوا بیٹھے ہیں۔ دراصل امین خیال جی دوستی نبھانے والے دوست ہیں اسی لئے مجھے ان کے نقصان کا احساس ابھی تک تنگ کرتا رہتا ہے۔دوستی میں وہ اتنے بے لوث ہیں کہ فی زمانہ انسان کو اتنا بے لوث نہیں ہونا چاہئے۔</b><br />
<b>میری تحریروں کو امین خیال جی نہ صرف محبت کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ میری تحریروں کے تراشے سنبھال سنبھال کر انہوں نے رکھ چھوڑ ے ہیں۔صرف میرے ہی نہیں‘ دوسرے دوستوں کے تئیں بھی ان کا رویہ ایسا ہی ہے۔میری ’’کھٹی میٹھی یادیں‘‘قسط وار چھپ رہی ہیں اور وہ ہر قسط پر مجھے اتنی داد دیتے ہیں کہ مجھے نئی قسط لکھنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔میرے سفرنامہ’’سُوئے حجاز‘‘کی ایک قسط سہ ماہی ’’شعرو سخن‘‘مانسہرہ میں چھپی تو انہوں نے مجھے ’’مستجاب الدعوات‘‘سمجھ لیا اور بعض مسائل کے حل کے لئے دعا کرنے کی تاکید کر دی۔تب میں نے انہیں لکھا کہ میں کسی ریاکارانہ انکساری کے بغیر لکھ رہا ہوں کہ میں بے حد گنہگار انسان ہوں۔اس کے باوجود خدا کی مِنّت کروں گا کہ آپ کی مشکلات دور کردے۔خدا جانے پھر ان کی مشکلات دور ہوئیں یا اور بڑھ گئیں۔</b><br />
<b>امین خیال جی سے ٹیلی فون پر بھی کبھی کبھی بات ہوجاتی ہے۔خطوط کے ذریعے تو رابطہ مستقل طور پر قائم ہے۔ان کے خط اتنے محبت بھرے ہوتے ہیں کہ بعض اوقات میں سچ مچ آبدیدہ ہوجاتا ہوں اورسوچنے لگتا ہوں کہ یہ میری کونسی نیکی ہے جس کے اجر کے طور پر خدا نے مجھے ایسی بے لوث اوربے غرض دوستی عطا کردی ہے۔امین خیال جی نے مجھے اپنی ذات کے لئے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی لیکن اپنے دوسرے دوستوں کے لئے وہ ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔دوستوں کی کامیابیوں کے لئے وہ کوشش کرتے رہتے ہیں اور ان کامیابیوں پر پھر خود ہی خوش ہوتے ہیں ۔ </b><br />
<b>تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے ان کے ایک دوست نے ایک اور دوست سے ان کا تعارف یہ کہہ کرکرایا کہ یہ امین خیال ہے‘میرا دوست‘جس کے پچھلے پینتیس سال سے میرے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔اس پر دوسرے دوست نے کہا کہ کوئی اورتعارف ؟۔۔۔۔اس پر امین خیال جی کے دوست نے کہا: کیا پینتیس سالہ دوستی سے بڑھ کر بھی کوئی تعارف ہوسکتاہے! </b><br />
<b>میری ادبی ترقی جتنی بھی ہے اور جیسی بھی ہے یہ میرے دوستوں میں سے سب سے زیادہ امین خیال جی کی محبت ‘خلوص اور دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ </b><br />
<b>نذیر فتح پوری’’ اسباق ‘‘ پُونہ کے مدیر ہیں۔ان سے براہِ راست قلمی رابطہ تو بہت بعد میں ہواہمارے درمیان محبت کا پہلا غیر ارادی اور غیر مفاداتی رابطہ تب ہوا جب انہوں نے ’’اسباق‘‘کا ضخیم اور بڑے سائز کا سالِ اوّلیں نمبر شائع کیا۔یہ ۱۹۸۲ء کی بات ہے۔اس میں انہوں نے میرا ایک مضمون ’اوراق‘لاہور سے لے کر شائع کیا تھا۔’’جدید افسانے کا اصل مسئلہ‘‘کے عنوان سے میرا مضمون دراصل شہزاد منظر کے ایک مضمون کے جواب میں تھا۔اس کے بعد ۱۹۹۲ء میں ان سے رابطہ ہوا۔تب انہوں نے پہلے رابطہ پر ہی نہ صرف ’’اسباق‘‘میں میرا گوشہ چھاپنے کا پروگرام بنا لیا بلکہ انڈیا میں ماہیے کے درست وزن کورائج کرنے کے لئے میرا ساتھ دیا۔نہ صرف خود ماہیے کہے بلکہ اپنے دوسرے احباب کو بھی اس کے لئے تحریک کی۔اگرچہ انڈیا میں ماہیے کی برسات ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ماہیے کی طرف آمد کے بعد شروع ہوئی تاہم اس برسات کے لئے بخارات نذیر فتح پوری کے ذریعے بننا شروع ہوگئے تھے۔نذیر فتح پوری کی شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ صرف پرائمری پاس ہیں‘اس کے باوجود شعر و ادب کے ساتھ ان کی وابستگی اور ان کی تخلیقی سرگرمیاں حیران کن ہیں۔تعلیم کسی تخلیق کارکو پالش تو کرسکتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ تخلیقی صلاحیتیں خدا کی طرف سے ودیعت ہوتی ہیں۔نذیر فتح پوری اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ </b><br />
<b>احمد حسین مجاہد کے ماہیے ’’اوراق‘‘ لاہور میں شائع ہوئے تو میں نے ان کی تلاش شروع کی۔ان سے رابطہ ہوا تو بہت ہی محبت کرنے والے انسان لگے۔ان کی آمد سے ماہیے کی تحریک کو عروضی حوالے سے بڑی تقویت ملی۔یار لوگوں کا عام طور پر خیال ہے کہ میں جرمنی میں ہونے کے باعث کوئی بہت مالدارانسان ہوں ۔چنانچہ کئی اغراض کے بندے محبت جتاتے ہوئے آئے۔ایسے لجاجت آمیز او رمنت سماجت والے خط لکھے کہ میں ان کی طلب پر شرمندہ ہوگیا اور ان کی تھوڑی سی مدد کردینا ضروری سمجھا۔اُن غرض کے بندوں نے غرض پوری ہونے کے بعد ایسے آنکھیں پھیرلیں کہ میں اُن کے لجاجت سے بھرے خطوط دوبارہ پڑھ کر حیران ہوتا رہا۔ایک بار میرے پاس یہاں چند پاکستانی ڈاک ٹکٹ موجود تھے ۔میں نے ایسے ہی وہ ٹکٹ احمد حسین مجاہد کے خط میں ڈال دئیے۔دراصل انہیں میں وہاں سے پوسٹ کرنے کے لئے اپنے دوسرے خطوط بھیجتا رہتا ہوں۔شاید کچھ ان کا خیال تھا۔جواباََاحمد حسین مجاہد کا تھوڑی سی خفگی والا خط آیاکہ میں دوستی میں یہ خطوط پوسٹ کرنا افورڈ کر سکتا ہوں۔ٹکٹ واپس لیجئے اور آئندہ ایسی زیادتی مت کیجئے گا۔</b><br />
<b>احمد حسین مجاہد کے اس طرزِ عمل نے مجھے ’’غرض کے بندوں‘‘ اور محبت کرنے والے دوستوں کے فرق سے آشناکر دیا وگرنہ میں تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہورہا تھا کہ شاید رابطہ کرنے والے بیشتر لوگ ’’اغراض‘‘کے باعث ہی محبت جتاتے ہیں۔احمد حسین مجاہد ایک معقول سرکاری عہدے پر فائز ہیں۔بنکنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے۔ان کی مصروفیات کا مجھے اندازہ ہے۔اس کے باوجود میں انہیں تھکاتا رہتا ہوں۔ہر رسالے کے ماہیا نمبر میں ان کا براہِ راست یا بالواسطہ اہم کردار شامل رہاہے۔رسالہ’’گلبن‘‘کے غزل نمبر کے لئے میرابہت سارا مطلوبہ میٹر اور اس کے علاوہ بھی بہت سارا اہم میٹر مجھے فراہم کیا۔یہ خاصا محنت طلب کام تھا۔انہوں نے نام کی پرواہ کئے بغیر کام کیا اور نام میرا ہی ہوا۔میری غلطی کہ اپنی بہت زیادہ مصروفیات کے باعث اداریہ میں ان کا شکریہ تک ادا کرنا بھول گیا۔لیکن مجال ہے انہوں نے ہلکا سا شکوہ بھی کیا ہو۔حالانکہ یہ’’شکریہ‘‘ان کا کم از کم ادبی حق تھا۔ </b><br />
<b>احمد حسین مجاہد ماہیے کے معیار کے سلسلے میں متفکر رہتے ہیں اور مجھے اس سلسلے میں توجہ بھی دلاتے رہتے ہیں۔ان کے ٹکٹ والے تجربے سے ملتا جلتا ایک تجربہ ترنّم ریاض سے رابطے پر پیش آیا۔ان سے رابطہ ان کی ماہیا نگاری کے باعث ہوا۔دہلی میں رہنے والے کسی ماہیا نگار کے ہاں پنجابی مزاج سے لبریز ماہیے ملنا حیران کن بات تھی۔تب ترنّم ریاض نے وضاحت کی کہ وہ اپنے والدین میں سے ایک کی طرف سے لاہوری پنجابی اور ایک کی طرف سے کشمیری ہیں۔تب میری حیرت تو دور ہوگئی لیکن خوشی برقرار رہی۔میں نے انہیں انڈیا کے دوستوں کے لئے اپنی ڈاک آگے پوسٹ کرنے کے لئے بھیجی‘ ساتھ ہی انہیں لکھا کہ کہ آپ کو جلد ہی ڈاک کے جملہ اخراجات بھیج دوں گا‘اس پر ایسا بگڑیں کہ باقاعدہ خفا ہوگئیں اور مجھ سے’’سوری‘‘ کہلوا کر پھر ٹھیک ہوئیں۔تب میں نے اندازہ کیا کہ یہ احمد حسین مجاہد اور ترنّم ریاض کہیں روحانی طور پر بہن بھائی ہیں۔</b><br />
<b>ترنّم ریاض بہت ہی اچھی خاتون ہیں۔افسانے لکھتی ہیں۔تھوڑی بہت نظمیں بھی لکھی ہیں‘لیکن ماہیا نگاری میں تو انہوں نے کمال ہی کردیا ہے۔میری تحریروں کی اتنی فین ہیں کہ مجھے ’’پِیرومُرشد‘‘کہہ کر شرمندہ کرتی رہتی ہیں۔جب انہوں نے میرے ڈاک کے اخراجات لینے سے بھی انکار کردیا تب میں نے بہانے سے انہیں کہا کہ’’مجھے دلی میں کوئی ایسا شریف نوجوان ڈھونڈ دیں جو ادب سے شغف بھی رکھتا ہو اور میرے ادب سے متعلق بعض کا م بھی وہاں کردیا کرے۔جس میں کتابوں اور رسالوں کی ڈسپیچنگ بھی شامل ہوگی‘‘۔بی بی نے صاف جواب دیا ’’فی الحال دلی میں مجھ سے زیادہ شریف کوئی نہیں ہے۔ جب مجھے خود سے زیادہ کوئی شریف مل گیا ‘آپ کو بتا دوں گی‘‘</b><br />
<b>پروفیسر ریاض دلی کے اقتدار کے کوریڈورز میں اپنی ایک اہمیت رکھتے ہیں۔لیکن وہ اقتدار کے مقابلہ میں تخلیقی کام کی اہمیت کو نہ صرف مانتے ہیں بلکہ اسی وجہ سے اپنی اہلیہ ترنّم ریاض کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہتے ہیں۔جب مجھے اپنے طور پر پروفیسرریاض کی سیاسی اہمیت کا علم ہوا تو میں نے ترنّم ریاض کو لکھا کہ اب تو آپ کو ’’بی بی جی!‘‘لکھنا پڑے گا۔تب جواب آیا مجھے ایسا مت لکھئے گا۔آپ کے ملک کی بی بی(بے نظیر بھٹو) کا یہ حال ہو اہے کہ وہ وطن واپس جانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ سو مجھے میرے وطن میں ہی رہنے دیں۔بی بی جی مت لکھیں۔ </b><br />
<b>’’اردو دنیا‘‘جرمنی کے دوسرے شمارہ(دسمبر ۱۹۹۹ء)میں ترنّم کی ایک تصویر شائع ہوئی۔ رسالے کے ایڈیٹرارشاد ہاشمی ملے تو ایک دوست کا حال بتانے لگے۔دوست نے رسالہ لیا ۔باہر سے الٹ پلٹ کر دیکھا۔اندر کا صفحہ کھولا اور پھر اسی صفحہ کا ہی ہورہا۔ موصوف بس ترنّم ریاض کی تصویر کو ہی دیکھے جارہے تھے۔ارشادہاشمی انہیں ہوش میں واپس لائے کہ بھائی !رسالہ ابھی آگے بھی ہے۔تب وہ تھوڑا سا خفیف ہوئے اور ورق اُلٹنے لگے۔ویسے تو ’’اردو دنیا‘‘نے بہت اچھی اچھی تصویریں چھاپی ہیں تاہم ترنّم ریاض‘فرزانہ خان نیناںؔ ‘فرحت نواز‘کوکب اختر اور ریحانہ قمر کی تصویریں بلا شبہ خواتین کی خوبصورت تصویروں میں شمار کی جاسکتی ہیں۔</b><br />
<b>ڈاکٹر رضیہ حامد بھوپال کی ایک اہم ادبی شخصیت ہیں۔دہلی سے ان کا ایک ادبی رسالہ’’فکر وآگہی‘‘شائع ہوتا ہے۔جس کے خصوصی نمبروں کی خاص اہمیت بنتی ہے۔میری کتاب ’’میری محبتیں‘‘ان کے ہاتھ لگی اور بے حد پسند آئی۔مجھے ان کا جو توصیفی خط ملا اس نے ان کی حوصلہ افزائی سے شرابور کر دیا۔ بے ساختہ لکھی گئی ایسی چند سطریں جو کئی مضامین پربھی بھاری ہیں۔صرف پہلی سطر سے ہی ان کی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:’’میری محبتیں کئی مرتبہ پڑھ چکی ہوں اور یہی حال رہا تو میں اس کی حافظ ضرور ہو جاؤں گی‘‘</b><br />
<b>ڈاکٹر رضیہ حامد کا ادارتی کام ہو یاتصنیف وترتیب و تدوین کا۔۔۔ ، وہ سکہ رائج الوقت کی بجائے اپنے اصل موضوع پر سنجیدہ توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔انہوں نے اپنے والد مرحوم کے حوالہ سے محبت میں گندھا ہوا مختصر مگر بھرپور کام کیا ہے۔مجھے لگا کہ میں نے ’’میری محبتیں‘‘ میں جو چند چراغ جلائے تھے،ان کے نتیجہ میں حقیقی اور محبت کے رشتوں کے مزید چراغ جلنے شروع ہو گئے ہیں۔ آج کے عہدِ ناسپاس میں جب قریبی رشتے ٹوٹ پھوٹ کی تاریکی کا شکارہورہے ہیں،ضروری ہے کہ ان رشتوں کی اہمیت کو قلبی حوالوں سے روشن کیا جائے۔</b><br />
<b>میرے تئیں ڈاکٹر رضیہ حامد بہت زیادہ خلوص اور تعلقِ خاطر رکھتی ہیں۔ان کے شوہر حامد صاحب اور ان کے ساحبزادے عامر میاں سے بھی میرا رابطہ رہتا ہے۔میں اس اخلاص اور محبت کی تفصیل یہاں درج نہیں کر سکتا کہ اس کے لیے تو ایک پورا مضمون درکار ہوگا،تاہم یہ حقیقت ہے ڈاکٹر رضیہ حامد کی حوصلہ افزائی میرے لیے بڑی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہے۔اللہ انہیں ہمیشہ خوش رکھے۔</b><br />
<b>رؤف خیر بہت اچھے دوست ہیں۔ایک بار ان کا خط آیا تو ان سے رابطہ ہوا۔پھر یکایک رابطہ ٹوٹ گیا۔میں نے کافی انتظار کے بعد دوستانہ خفگی کے ساتھ انہیں خط لکھا۔اس کے جواب میں انہوں نے جو خط لکھا اُس سے مجھے بڑی دلی تقویت ملی۔ حالانکہ رؤف خیر نے میری بعض کتابوں کے مطالعہ کے بعد مجھے اپنے خوبصورت تاثرات سے خاصا حوصلہ دیاہے۔ تاہم یہ خط اتنا خوش کرنے والا ہے کہ میں اس کا ایک حصہ یہاں درج کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں سے رؤف خیر کی محبت کے ساتھ بہت ساری دوسری اَن دیکھی ادبی محبتوں کا بھی انکشاف ہورہا ہے۔خط تاخیر سے لکھنے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بیان کیا:</b><br />
<b>’’حکومتِ مغربی بنگال کی دعوت پر کلکتہ گیا جہاں ٹیپو سلطان صدی تقاریب کے سلسلے میں ایک کُل ہند مشاعرہ ۳؍مئی کو منعقد ہوا۔وہیں ماہیا نگاروں سے ملاقاتیں رہیں۔فراغ روہوی‘ضمیر یوسف‘نسیم فائق‘نوشاد مومن‘محسن باعشن حسرت وغیرہ وغیرہ سب آپ کے عشق کے گرفتار نکلے‘یعنے </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ہم ہوئے ‘تم ہوئے کہ مِیرؔ ہوئے </b><br />
<b>اُن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے</b></div><b>آپ پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ رہتے کہاں ہیں اور کہاں کہاں اپنے چاہنے والے پیدا کر رکھے ہیں‘‘</b><br />
<b>ایسی وضاحت کے بعد کون کافر رؤف خیر سے ناراض رہ سکتا تھا۔ویسے مِیرؔ کا شعر مجھ پر فِٹ کرکے رؤف خیر نے کچھ اچھا نہیں کیا کیونکہ اس میں زلف کا ذکر آتا ہے اور میں تو کب کا ’’فارغ البال‘‘ہوچکا ہوں۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں</b><br />
<b>اک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے</b></div><b>کلکتہ کے کچھ اور دوست بھی مجھے یاد آرہے ہیں۔اختر بارک پوری‘شمیم انجم وارثی‘احمد کمال حشمی‘کچھ اور نام فی الوقت بھول رہا ہوں۔یہ سب بھی اَ ن دیکھی محبت کے زمرے میں شامل ہیں۔خدا سب کو خوش رکھے۔یہاں کسی فلمی گیت کا ایک شعر یاد آگیا ہے </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>پیار جھوٹا نہ ہو ‘ پیار کم ہی سہی</b><br />
<b>ساتھ دے تو کوئی‘ دوقدم ہی سہی</b></div><b>مانسہرہ سے ایک دن مجھے ایک خط ملا۔کوئی جان عالم صاحب تھے۔ایک سہ ماہی رسالہ’’شعرو سخن‘‘ کے نام سے جاری کیا تھا۔ مجھ سے تعاون چاہتے تھے۔میں نے انہیں اپنی ایک دو کتابیں فراہم کردیں۔چند تخلیقات بھیج دیں۔سالانہ چندہ بھی اداکردیا لیکن یہ صاحب تو جان کو آگئے۔میں نے یہی سمجھا کہ رسالہ کیلئے مزید چندہ درکار ہوگا۔لیکن پھر پتہ چلا کہ رسالے کا چندہ تو کہیں رستے میں ہی رہ گیا ہے ۔جان عالم میرے خاکوں اور افسانوں سے بہت خوش تھے۔شاعری بھی انہیں پسند تھی لیکن میری نثر کی بہت تعریف کرنے لگے۔اسی دوران میں نے اپنے سفرنامہ’’سُوئے حجاز‘‘کا ایک باب انہیں اشاعت کے لئے بھیجا ۔ساتھ ہی لکھا کہ اسے سہولت کے ساتھ چھاپ سکیں تو چھاپیں ورنہ بیشک رہنے دیں۔دراصل میرے اس سفرنامہ میں از خود بہت ساری ’’بریلویت‘‘آگئی تھی اور بعض دوستوں کی دل شکنی کا بھی خدشہ تھا۔جان عالم نے وہ قسط چھاپ دی اور ہر طرح سے خیروعافیت رہی۔</b><br />
<b>یوں جان عالم سے دوستی میں فکری مکالمہ شروع ہوا۔میں حیران ہوا کہ جان عالم نے کم عمری میں ہی کتنا سفر طے کر لیا ہے۔یہ نوجوان روحانیت کی دنیا سے گزرتا ہواسوالات کی دنیا میں آ گیا۔سوال اُٹھتے رہے اور اس کی جستجو بڑھتی رہی اور جان عالم کی جان یقین اور گمان کے بیچ اَٹکی رہی۔کسی سے سوال کرتے ہوئے بھی ڈرتا کہ کہیں کوئی جواب دینے کی بجائے فتویٰ ہی نہ صادر کردے۔کم ظرف لوگ تو ماہیے کی بحث میں بھی فتویٰ صادر کرنے سے باز نہیں آئے۔جان عالم کے پاس تو ویسے بھی بڑے تیکھے سوال تھے۔اسی دوران اسکی زندگی کئی زاویوں میں بٹتی گئی۔ اچھائی اور برائی کے چکر میں ہی خواہشوں کا سفر شروع ہوگیا۔لوگ ‘ آئے‘ گئے۔۔۔۔کچھ زخم‘ کچھ یادیں‘۔۔۔احساسِ محرومی‘۔۔۔احساسِ نارسائی۔۔۔ سب جمع ہوتا رہا۔</b><br />
<b>پھر اس نے سر سید احمد خاں‘مولانا اسلم جیراج پوری‘مولانا عبداﷲ چکڑالوی‘مولانا غلام احمد پرویزجیسے قرآنی فکر کے داعیوں کو پڑھا۔اسے لگا کہ یہاں تو ہر شے کا منطقی جواب دیا جارہا ہے۔سوال مرتے جارہے ہیں۔غیر محسوس طریقے سے جستجو کے ساتھ روح کو بھی ما را جارہا ہے۔چنانچہ جان عالم مادیت پرست افکار والی پُر کشش تفاسیر کے سحر سے بھی نکل آیا اور پھر اسے لگا کہ جنہیں میں نے سوال سمجھا تھا وہ توسرے سے سوال تھے ہی نہیں۔سوال تو وہ ہوتے ہیں جن کے پیچھے جہانِ حیرت ہو۔ یوں حیرت کی تلاش میں تصوف کی طرف راغب ہوا۔اور پھر تصوف کی دنیا سے بھی نکل آیا۔اس کے تجربے کے مطابق ہر انسان کے اندر ایک صوفی موجود ہے بس اسے تخلیے کی ضرورت ہوتی ہے ۔لیکن یہ بھی ہے کہ تصوف درحقیقت ہمیں صرف سفر کی طرف Stimulateکرتا ہے‘خود سفر نہیں ہے۔ہم mediumکو منزل سمجھ کر رستے میں رُک جاتے ہیں۔ جان عالم کے نزدیک تصوف کی شان یہ ہے کہ دنیا کے اند ر رہتے ہوئے دنیا سے کاٹ کررکھ دے۔جیسے حضرت علیؓکا تِیر نماز کے دوران نکالا جاتا ہے اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔اب عالم یہ ہے کہ جانِ عالم کہیں بھی نہیں ہے اور ہر جگہ تھوڑا تھوڑاموجود بھی ہے۔اس سارے سفر کے نتیجہ میں مطالعہ ء قرآن اور مطالعہ ء حدیث کو اس نے حرزِ جاں بنالیا ہے۔ایسا شخص جو اپنے ارد گرد کے ڈر سے کسی سے سوال پوچھنے کی ہمت نہ رکھتا ہو ‘کیا اُس سے یہ سارے بھید دوستی کی گہری حد تک گئے بغیر اگلوائے جاسکتے تھے؟اور کیا محض ایڈیٹر اور رائٹر کے رشتے سے ایسا فکری مکالمہ کیا جاسکتا تھا؟مجھے خوشی ہے کہ ایک ایسا شخص میری تحریروں کا فین ہے جس کے فکری سفر کے باعث میں خود اس کا فین ہوں۔یوں بھی ہم اپنے اپنے فکری اسفار میں کہیں آس پاس سے ضرور گزرتے ہیں۔اسی لئے اس نوجوان کی دوستی سے مجھے ایک الگ سی خوشبو آتی ہے۔</b><br />
<b>ماہیے کی بحث چٹخی تو راولپنڈی سے مجھے تین دوست یکے بعد دیگرے ملے۔عارف فرہاد‘محمد وسیم انجم اور اختر رضا کیکوٹی ۔ ۔ ۔ عارف فرہاد تخلیقی لحاظ سے زیادہ فعال ہیں تاہم مجھے ان تینوں دوستوں سے خلوص کی ایک جیسی مہک آتی ہے۔عارف فرہاد نے راولپنڈی سے ماہیے کے فروغ کے لئے بنیادی نوعیت کی خدمات انجام دی ہیں۔میری دو کتابیں ’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘ اور ’’اردو ماہیے کی تحریک‘‘عارف فرہاد کی محنت کے نتیجہ میں شائع ہوسکی ہیں۔انہوں نے انہیں اپنے ادارہ’’فرہاد پبلی کیشنز‘‘ کے زیرِ اہتمام شائع کیا ۔</b><br />
<b>محمد وسیم انجم نے بھی اپنی بساط کے مطابق ماہیے کی ترویج کے لئے خاصا کام کیا ہے۔مجھے معلوم ہے کہ وسیم انجم اور عارف فرہاد دونوں کو وہاں کے بعض ماہیا مخالفین کی مقتدر حیثیت کے باعث ذاتی طور پر مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے لیکن اس کے باوجود ماہیے کے تئیں اور میرے لئے ان کے اخلاص میں کوئی کمی نہیں آئی۔وسیم انجم سے دوستی عارف فرہاد کے ذریعے سے ہوئی تھی۔میری تین کتابیں’’میری محبتیں‘‘۔’’عمرِ گریزاں‘‘ اور’’محبت کے پھول‘‘ انہوں نے عارف فرہاد کے ہاں دیکھیں۔ان سے وہ کتابیں لے کر ان پر ایک دلچسپ سا مضمون لکھا اور اسے شائع کرا دیا۔یوں ہمارا رابطہ ہوا۔پھر انہوں نے میری دوسری کتابوں پر بھی مضامین لکھے اور جلد ہی ایک کتاب’’حیدر قریشی فکرو فن‘‘مکمل کرکے چھاپ دی۔وسیم انجم مزاجاََ اور فطر تاََ دوستی نبھانے والے ‘محبت کرنے والے اور مخلص نوجوان ہیں۔ان کے ذریعے پھر مجھے ماہیا نگار اختر رضا کیکوٹی کی دوستی نصیب ہوئی ۔یہ تب ویکلی ’’ہوٹل ٹائمز‘‘اسلام آباد کے ایڈیٹر تھے۔میری کتابیں انہوں نے وسیم انجم سے لے کر پڑھیں اور ہماری دوستی ہو گئی۔ماہیے کے فروغ کے لئے انہوں نے اپنے اخبار کا فورم مہیا کردیا ۔مجھ سے محبت میں اس حد تک گئے کہ میرے ردِ عمل والے وہ مضامین جو کوئی اور اخبار یا رسالہ چھاپنے سے ہچکچاتا تھا انہوں نے بے دھڑک اپنے اخبار میں چھاپے‘ خود میرے لئے اپنے اخبار کے دوصفحات مختص کر کے اور اس پر میری حیثیت سے بڑھ کر عنوان دے کر میری عزت افزائی کی۔ عارف فرہاد ‘محمد وسیم انجم اور اختر رضا کیکوٹی تینوں دوست راولپنڈی میں میرے اَن دیکھے لیکن بے حد جانے پہچانے دوست ہیں۔سچی بات ہے ان کی دوستی میرے لئے بڑی تقویت کا باعث بنی ہے۔ </b><br />
<b>دو ماہی’’گلبن‘‘احمد آبادکے ایڈیٹر سیّد ظفر ہاشمی سے تعلق کی نوعیت بھی نذیر فتح پوری کی طرح بہت پرانی اور غائبانہ تھی۔ ’’گلبن‘‘کے اجراء کے تھوڑے عرصہ بعد ہی اس میں میری بعض تخلیقات شائع ہوئیں۔یہ تخلیقات ڈاکٹر مناظر عاشق کے ذریعے سے چھَپیں۔تب وہ ’’گلبن‘‘سے براہِ راست وابستہ تھے۔ پھر ان سے ۱۹۹۳ء میں رابطہ ہوا۔میں نے ’’ماہیے کے بارے میں چند باتیں‘‘کے عنوان سے ایک تعارفی نوٹ لکھا اور ماہیے کا ایک انتخاب کرکے انہیں بھیجا۔انہوں نے اسے اہتمام سے شائع کیا۔پھر ’’گلبن‘‘ماہیے کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرنے والا رسالہ بن گیا۔اس کا ماہیا نمبر شائع ہوا۔لیکن میرے تعلق کی نوعیت ماہیے کی حد سے آگے چلی گئی۔ایک دوسرے سے ملے بغیر ہمارے فیملی مراسم ہوگئے۔ اب بھابی ثریا اور میری بھتیجی سیما نہ میرے لئے اجنبی ہیں نہ میں ان کے لئے اجنبی ہوں ۔ سید ظفر ہاشمی کے ساتھ یہ مراسم ان کے خلوص اور محبت کا نتیجہ ہیں ۔</b><br />
<b>ابھی مجھے علامہ شارق جمال(ناگپور)‘قاضی حسیب(کراچی)‘سیّد اخترالاسلام (میرٹھ) ‘ شفیق سرونجی‘سلیم انصاری‘ساجد حمید(شیموگہ)‘غیاث انجم(بکارو سٹیل سٹی)‘ناوک حمزہ پوری‘ظہیر غازی پوری ‘محسن بھوپالی(کراچی)‘نیاز احمدصوفی(لاہور)‘بشری رحمن (لاہور) ‘ شاہدہ ناز(جہلم)قاضی اعجاز محور(گوجرانوالہ)،ذوالفقار احسن(سرگودھا)اور کئی اور نام یاد آ رہے ہیں۔ان میں سے بعض کے ساتھ میرے باقاعدہ دوستانہ تعلقات ہیں۔بعض سے براہِ راست رابطہ نہیں لیکن وہ میری تحریریں پڑھ کر اپنی محبت بھری رائے رسائل میں ہی بھیجتے رہتے ہیں۔ان کے جذبات پڑھتا ہوں تو مجھے خوشی ہوتی ہے کہ یہ لوگ تو کسی ربط کے بغیر صرف تحریر پڑھ کر خوشی کا اظہار کرنے والے مخلص لوگ ہیں اور تب ہی میں انہیں بھی اپنے اچھے دوستوں میں شمار کرتا ہوں۔</b><br />
<b>ناوک حمزہ پوری صاحب کے ساتھ تعلق میں پہلے بزرگی کا ایک حجاب سا تھا۔بعد میں انہوں اپنی بے تکلفی سے اسے بھی دور کردیا۔شارق جمال صاحب کے ساتھ بزرگی والا حجاب آج بھی قائم ہے لیکن مجھے ان کی محبت کا ہمیشہ احساس ہوتا ہے۔ظہیر غازی پوری کے ساتھ ابھی تک میری جھڑپیں ہی ہوئی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم اس کے باوجود ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں۔اسی لئے ان سے جھگڑوں کے باوجود مجھے ان سے بھی اپنائیت کی خوشبو آتی ہے۔ایک گمشدہ دوست ذکاء الدین شایاں ہیں۔’’جدید ادب‘‘کے پہلے دور میں ان سے بڑی دوستی رہی ۔پھر پتہ نہیں کیا ہوا میں ابھی بھی انہیں دل سے یاد کرتا ہوں۔</b><br />
<b>ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی سے دوستی کی نوعیت کچھ اور طرح کی ہے۔افسوس کہ ہم نے حال ہی میں ایک دوسرے سے انگلینڈ میں ملاقات کرلی ہے۔یوں وہ اَن دیکھے دوست نہیں رہے وگرنہ ان کے بارے میں تو بہت کچھ لکھنا تھا۔حالانکہ یہ ملاقات بھی کیا تھی۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی</b><br />
<b>بڑی آرزو تھی ملا قات کی</b></div><b>ڈاکٹر مناظر کے ذریعے ہی ایک اور دوست ڈاکٹر فراز حامدی سے رابطہ ہوا۔انہیں میں نے بہت ہی مخلص ‘محبت کرنے والا اور دعا گو دوست پایا ہے۔ڈاکٹر جمیلہ عرشی کے بھائی ہی نہیں ادبی رہنما بھی ہیں۔مجھے ان کے ذریعے زندگی کے بعض نئے گوشے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے۔</b><br />
<b>ان سارے دوستوں سے ہٹ کر اب ایک ایسے دوست کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔جو مجھ سے بہت زیادہ پیار کرتا ہے۔یہ بہت ہی انوکھادوست ہے۔اس سے میرا کوئی بھی بھید نہیں چھپا۔ایسے بھید جو انسان اپنے آپ سے بھی بعض اوقات چھپانا چاہتا ہے‘ میرے وہ بھید بھی اس کے علم میں ہیں۔اس نے ہمیشہ میرا بھلا چاہا ہے۔میں نے اس کی بات نہیں مانی اور نقصان اٹھایا تو اس نے خود ہی نقصان کی تلافی بھی کردی۔ایک زمانے میں ہمارا شدید قسم کا جھگڑا ہوگیا۔میں نے اس کے زندگی بھر کے احسانات کو نظر انداز کر کے اسے طعنہ دے دیا کہ تم ہو ہی کیا؟۔۔۔۔۔۔اس نے تب بھی بُرا نہیں منایا۔ حالانکہ تب میرے سارے گھر والوں نے بھی مجھے بے حد بُرا بھلا کہا تھا۔ویسے ایک بات ہے بظاہر بُرا نہ ماننے کے باوجود مجھے لگتا ہے اس نے مجھے خاصا رگڑا دلایا ہے۔دوستی میں ایسا بھی تو ہوتا ہے۔خصوصاََ محبت میں تو محبوب ‘محب پر یا محب‘محبوب پر بے وفائی کی صورت میں وار بھی کرا دیتا ہے۔سو اس نے بھی مجھے رگڑے دلائے۔اُن لوگوں کے ہاتھوں جنہیں میں اس سے زیادہ اپنا سمجھ بیٹھا تھا۔</b><br />
<b>آخر کار مجھے خود ہی اس کی طرف آنا پڑا۔لیکن میری واپسی محض نقصان اور فائدے کے باعث نہ تھی۔میں نے اس عرصہ میں اس کی دوستی اور محبت کا باقی دنیا کی دوستیوں اور محبتوں سے موازنہ بھی کیا اور پھر اس سے از سرِ نَو دوستی کرلی۔تجدیدِ محبت کرلی۔</b><br />
<b>کیا کوئی کسی ایسے دوست کا تصور کر سکتا ہے جو کبھی سامنے آکر ملا بھی نہ ہو اور اپنے دوست کی خیر خواہی میں ماں ‘باپ‘ بھائی‘ بہن ‘بیوی‘بچوں ‘ مخلص دوستوں سے بڑھ کر خیر خواہ ہو۔شاید آپ نے میرے اس بہت ہی پیارے دوست کو پہچان لیا ہے۔جی ہاں یہ میرا خدا ہے! جو ہم سب کا خدا ہے۔ہم سب کا خیر خواہ اور ہم سب سے بے پناہ محبت کرنے والا۔اپنا انکار کرنے والوں کے انکار پر مسکرا کر ان سے بھی محبت کرنے والا۔ مجھے جتنی دوستیاں نصیب ہوئی ہیں میرے اسی دوست کی عنایت سے نصیب ہوئی ہیں۔میں نے خلوصِ دل سے اس سے کہا تھا کہ مجھے بے لوث پیار کرنے والے دوست عطا فرما۔اس نے بے لوث دوستوں کی دولت سے مجھے مالامال کردیا۔اوپر جتنے اَن دیکھے دوستوں کا ذکر ہے وہ سب میرے اسی سب سے بڑے دوست کی محبت کا نتیجہ ہیں۔اسی کی عنایت ہیں </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ستم جو ہم پہ کئے اس نے بے حساب کئے </b><br />
<b>کرم بھی کرنے پہ آیا تو بے شمار دیا</b></div><b>اَن دیکھے دوست انسانوں میں سے ہوں یا خود خد اہو۔ ان کی دوستی فاصلے اور اَن دیکھے ہونے کے باوجودسچے خلوص کی مہک اور سچی محبت کی خوشبو دیتی رہتی ہے ۔یوں دوستی اور تعلق کو جانا پہچانا بنادیتی ہے۔اسی لئے میرے سارے اَن دیکھے دوست میرے لئے جانے پہچانے دوست ہیں اور مجھے ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کی موجودگی کا احساس رہتا ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-58655107301856630052011-07-15T06:00:00.000-07:002011-07-15T23:18:12.753-07:00ابتدائی ادبی زمانہ<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">ابتدائی ادبی زمانہ</span></b><br />
<br />
<span style="font-size: large;"> یادوں کے خزینے میں</span><br />
<span style="font-size: large;"> خانپور اپنا تو</span><br />
<span style="font-size: large;"> آباد ہے سینے میں</span> </div><div style="text-align: right;"><br />
<b>اردو میں الفاظ کے استعمال کے حوالے سے دیکھیں تو خانپور کا تلفظ ’’خان پُور‘‘ بنتا ہے۔خانپور سے تعلق رکھنے والے لیکن بنیادی طور پر لکھنوکے تربیت یافتہ ہمارے ایک قدیم شاعر محسن خانپوری نے خانپور کا ذکر اپنے ایک شعر میں یوں کیا تھا ۔۔۔ </b></div><div style="text-align: center;"><b>نہیں ہے قدرتِ حق سے بعید کچھ محسنؔ </b><br />
<b>کہ لے ہی جائے وہ ساون میں خانپور مجھے</b></div><div style="text-align: right;"><b>لیکن میری زبان پر ہمیشہ سرائیکی تلفظ والا’’خان پُر‘‘ہی آتا ہے۔اگر اسے ایسے ادا نہ کروں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ میرا خانپور نہیں بلکہ لکھنو کا کوئی مضافاتی خانپور ہے۔سو میرا خانپور لکھنے میں بھلے’’ خان پور‘‘ لکھا جائے لیکن اپنی ادائیگی میں ہمیشہ ’’خان پُر‘‘ ہوتا ہے۔میری شاعری میں خانپور اسی سرائیکی تلفظ کے ساتھ ہی آیا ہے۔مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میری ادبی نشوونما میں خانپور کا اور میری سرائیکی دھرتی کا بہت زیادہ حصہ ہے۔ </b><br />
<b>میری بالکل ابتدائی ادبی تربیت میں میرے خاندان کے تین اہم افراد کا لاشعوری عمل دخل رہا۔ان کا میں اپنی بعض تحریروں میں ہلکا سا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ابا جی نے مجھے اسکول جانے سے پہلے جس طرح اردو پڑھنا ،لکھنا سکھا دیا تھا وہ میری ادبی تربیت کا پہلا زینہ تھا۔ پھر امی جی کا گھر میں دلچسپی لے کر ناول پڑھنا بھی مجھے ادب کے ساتھ جوڑنے کا ایک سبب بنا۔امی جی نے ایک بار ایک طویل دعائیہ پنجابی نظم لکھی تھی ۔پھرمیرے بچپن ہی میں ماموں حبیب اﷲ صادق کا شاعر ہونا۔ میں سمجھتا ہوں میرے بچپن کے یہ سارے عوامل میری ادبی تربیت کا سبب بنتے رہے ہیں۔مجھے یاد ہے یہ ۱۹۶۴ء یا ۱۹۶۵ء کا زمانہ تھا ۔میں چھٹی ساتویں میں پڑھتا تھا۔ماموں صادق ڈیرہ اسماعیل خاں سے ہمارے ہاں خانپور آئے تھے۔تب شام کے وقت میں نے اور ابا جی نے ان سے ان کی ایک نظم سنی جو ویت نام کے موضوع پر تھی۔اس کا مرکزی مصرعہ میرے ذہن میں یوں رہ گیا ہے۔ زندہ باد اے ویت نام</b><br />
<b>ماموں صادق کا ترنم شاعرانہ انداز کا تھا۔مجھے اپنی وہ حیرت آج بھی یاد ہے جب میں ماموں صادق کی نظم سنتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا اور اس دیکھنے میں ایک عجیب سی خوشی اور تفاخر کا احساس شامل تھاکہ میرے ایک ماموں شاعر ہیں!۔اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ جس کو اس کے قسم کے حالات مل جائیں وہ شاعر اور ادیب بن جاتا ہے۔یہ صلاحیت تو خدا کی طرف سے ملتی ہے۔صلاحیت بیج کی طرح ہوتی ہے اور جب تک اسے مناسب زمین اورموزوںآب و ہوانہ ملے ان کی نشوونما نہیں ہو سکتی۔میرے پانچوں بچوں میں ایسی خداداد صلاحیت نہیں تھی تو میری ادبی زمین اور آب و ہوا کے باوجود ان میں سے کوئی بھی شاعر اور ادیب نہیں بن سکا۔</b><br />
<b>اپنے گھر والوں کے مذکورہ اثرات سے ابھرتے ہوئے میں نے سب سے پہلی غزل خانپور میں اپنی نویں کلاس کے اختتام تک کہنے کی کوشش کی۔یہ غزل کیا تھی۔بس تُک بندی تھی۔مصرعوں کی روانی میں کہیں نہ کہیں سقم ضرور ہوں گے۔میں نے وہ غزل اس زمانہ میں سب سے چوری چھپے لاہور کے فلمی ماہنامہ’’شمع‘‘کو اشاعت کے لئے بھیجی۔چند دنوں ہی میں ’’شمع‘‘کی طرف سے جواب آگیا کہ آپ کی غزل ناقابلِ اشاعت ہے۔مزید یہ کہ آپ کسی سے اصلاح لیا کریں۔ اس وقت دل کی عجیب حالت تھی۔کبھی ’’شمع‘‘ رسالہ کے ایڈیٹر پر غصہ آتا اور کبھی اپنے آپ میں شر مندگی محسوس ہوتی۔میں نے اس بات پر خدا کا بے حد شکر ادا کیا کہ گھر والوں کو نہ میرے شاعری کرنے کا علم ہوا اور نہ ہی میری غزل کوناقابلِ اشاعت قرار دینے والے اس خط کا علم ہو سکا۔(چلو کچھ بھرم رہ گیا)اس غزل کا مقطع اب بھی مجھے یاد ہے۔ </b></div><div style="text-align: center;"><b>نہیں لطف حیدر ؔ وہ ذکرِ خدا میں </b><br />
<b>جو ملتا ہے لطف ہم کو ذکرِ صنم میں</b></div><div style="text-align: right;"><b>اس غزل کے مسترد ہونے کے دو فائدے ہوئے۔ایک تو یہ کہ میں نے پھر چھوٹی موٹی تک بندی کرتے رہنے کے باوجودایک عرصہ تک کسی رسالے کو غزل بھیجنے کی جرات نہیں کی۔دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے پھر اپنی کسی غزل میں ’’صنم‘‘کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ ’’سلگتے خواب‘‘ کی ایک غزل میں ایک بار یہ لفظ از خود آگیا تو میں نے اسے بھی حذف کردیا۔</b><br />
<b>۱۹۶۸ء میں دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد میں نے حئی سنز شوگر ملز میں ملازمت کر لی۔اسی دوران میں نے ایک چھوٹا سا ناول لکھا۔یہ ناول اسکول کی ایک پتلی سی کاپی میں مکمل ہوگیا ۔ممکن ہے وہ طویل افسانہ ہولیکن مجھے اس زمانہ میں ناول ہی لگا ہو۔لیکن شایدوہ نہ تو ناول تھا نہ افسانہ۔۔۔وہ تو بس میرے اس وقت کے کچے پکے جذبات اور سماجی ناانصافیوں کے زخموں کی کسک کا اظہار تھا۔نیم رومانی،اور نیم انقلابی قسم کی جیسے میری اپنی ہی کہانی تھی جو میں نے لکھی تھی۔اس کہانی کی ایک ہی خوبی تھی کہ اس کا واحد قاری میں خود تھا اور قاری بھی ایسا کہ جو اسے مکمل کرتے ہوئے شدتِ جذبات سے آبدیدہ ہوتارہا اور بعد میں اسے پڑھتے ہوئے غم سے روتا رہا۔اس ناول کا ہیرو غریب تھا جو ظاہرہے میں خود تھا اور ہیروئن امیر تھی اور امیر ہونے کے علاوہ بہت خوبصورت بھی تھی۔ویسے بیک وقت بہت خوبصورت اور بہت امیر ہیروئن مجھے ابھی تک کہیں نہیں ملی۔</b><br />
<b>شوگر ملز میں ملازمت کرنے کے بعدمیری اپنے ایک ہمسایہ حفیظ سوز صاحب سے سلام دعا بڑھ گئی۔ہمارے گھر کے ساتھ والی گلی میں یہ فیملی آباد تھی۔ حفیظ سوز صاحب فلمی دنیا میں جانے کا شوق رکھتے تھے۔خانپور کے ماحول میں اور میرے اس وقت کے ذہن کے مطابق وہ شاعری کو جتنا جانتے تھے میرے لئے کافی تھا۔کالونی مڈل اسکول خانپور کے سامنے محکمہ انہار کے دفاتر تھے۔وہاں کے کسی افسر کے ایک صاحبزادہ (اب نام یاد نہیں رہا)سے حفیظ سوز کی دوستی تھی۔چنانچہ ہم تینوں نے مل کر ’’ایوان ادب‘‘نامی ایک ادبی انجمن قائم کی۔محکمہ انہار کے افسر کے صاحبزادے اس کے سرپرست،حفیظ سوز صدر،میں جنرل سیکریٹری،امین(مینو)خزانچی مقرر ہوئے۔ تاہم اس ادبی انجمن کا کبھی کوئی اجلاس نہ ہو سکا۔حفیظ سوز نے بھی شوگر ملز میں ملازمت کر لی۔وہاں سے وہ لاہور چلے گئے اوراداکار قوی کے فلمی ادارہ سے منسلک ہو گئے۔لیکن کوئی اہم ترقی نہ کر سکے تو پھر ملتان میں کوئی ملازمت کر لی۔</b><br />
<b>یہ وہ دور تھا جب ابھی میں نے باقاعدہ ادبی دنیا میں قدم نہیں رکھا تھا۔۱۹۷۱ء میں ، میں نے پہلی باقاعدہ غزل کہی۔یہ غزل بغیر کسی ردو بدل کے ۱۹۷۲ء کے کسی مہینے میں ہفت روزہ’’ لاہور‘‘ میں چھپ گئی۔ بالکل روایتی انداز کی اس غزل کا مطلع یہ تھا ۔۔۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>عقل نے جتنا مِری راہ کو ہموار کیا </b><br />
<b>اتنا ہی میرے جنوں نے اسے دشوار کیا </b></div><div style="text-align: right;"><b>اس غزل کے چھپنے کے بعد مجھ میں خود اعتمادی پیدا ہوئی۔چنانچہ پھر میں باقاعدہ غزلیں کہنے لگا۔ </b><br />
<b>۱۹۷۴ء میں بزمِ فرید خانپور کے ذریعے سے مجھے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ پڑھنے کا موقعہ ملا اور ہفت روزہ مدینہ بھاولپور میں چھپنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ بزمِ فرید کے دوستوں کا تذکرہ میرے خاکوں کے مجموعہ’’میری محبتیں‘‘میں آچکا ہے۔ اسی دوران غالباََ ۱۹۷۵ء کے وسط میں میرا نذر خلیق سے رابطہ ہوا۔انہیں میں نے اپنے ایک محلہ دار کے ساتھ دیکھا۔وہ محلہ دارحفیظ سوز کے بھائی عنایت نصرت صاحب تھے جو نصرت شیخ کے نام سے جانے جاتے تھے۔نصرت شیخ صاحب میرے محلہ دار تھے،میرے دوست حفیظ سوز کے چھوٹے بھائی تھے،اور ہفت روزہ مدینہ بھاولپور کے نمائندہ بھی تھے۔جبکہ میں ’’مدینہ‘‘میں بہت باقاعدگی سے لکھنے والا تھا۔چونکہ میرا میدان شروع سے ہی صحافتی سطح کا نہیں بلکہ ادبی سطح کا تھا(چاہے اس کا لیول کتنا ہی معمولی کیوں نہ رہا ہو) اس لئے کسی اخبار کی نمائندگی نہ میرا مسئلہ تھا نہ مجھے اس سے کوئی غرض تھی۔نذر خلیق تیرہ سال کا لڑکا تھا۔نصرت شیخ کی دوستی سے انہیں صحافت کا شوق ہوا۔مگر نصرت شیخ ہی ان کی راہ کی رکاوٹ بن گئے۔ نذر خلیق نے مجھ سے رابطہ کیا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ لکھنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ادب و صحافت سے دلچسپی رکھنے کے ساتھ اپنی تعلیم کو لازماََ مکمل کرنے کی نصیحت کی۔ </b><br />
<b>تب نذر خلیق محلہ رحیم آباد میں رہتے تھے اور میں محلہ خواجگان میں۔لیکن دن میں ہمارا ایک بار ملنا ضروری ہوتا تھا۔ کبھی میں نذر خلیق کے گھر جاتا اور وہاں سے پھر ہم میرے محلہ تک آتے۔کبھی نذرخلیق میرے ہاں آتے اور پھر ہم ان کے محلہ تک جاتے۔یہ عجیب زمانہ تھا جس میں پیدل چلتے ہوئے تھکن کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے پیدل چلتے ہوئے میری رفتار خاصی تیز ہوتی تھی۔نذر خلیق بھی تیز رفتار تھے لیکن جیسے مجھ سے تھوڑا سا پیچھے رہ جاتے تھے۔بعد میں مجھے خانپورسے باہر کے بعض دوستوں سے باقاعدہ سننا پڑا کہ یار !اتنی تیزی اچھی نہیں ہوتی۔اطمینان سے چلتے ہیں۔ میں نے خود بھی اپنی اس عادت پر غور کیا تو مجھے احساس ہوا کہ میرے مزاج میں جلد بازی کا عنصر بہت زیادہ ہے۔اسی لئے تیزتیز پیدل چلنے سے لے کر کسی کام میں جت جانے کے بعد اسے نمٹا کر ہی دَم لینے تک اسی جلد بازی کے مختلف مظاہر ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں زندگی کے مختلف کاموں میں جلد بازی کی طرح، موت کے معاملہ میں بھی جلد بازی سے کام لے جاؤں گا۔بقول اقبال ساجد </b></div><div style="text-align: center;"><b>میں جلد باز تھا میدانِ عشق ہار گیا </b><br />
<b>جو آخری تھا وہی داؤ پہلے ہار گیا</b></div><div style="text-align: right;"><b>ویسے مجھے اقبال ساجد جیسا شکست کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے کیونکہ عشق میں ہار جیت دونوں ہی بے معنی ہوتی ہیں۔ویسے بھی جس کے لئے موت ’’وصلِ یار‘‘جیسی ہو اس کے لئے تو جلدبازی بھی مفید ہوتی ہے۔بس اتنا ہے کہ موت کےوقت عزرائیل سے اتنا ضرور کہنا چاہوں گاکہ:</b><br />
<b>حضور آہستہ آہستہ،جناب آہستہ آہستہ</b><br />
<b>ہو سکتا ہے جلدبازی کے نتیجہ میں اتنا کہنے کی نوبت بھی نہ آئے۔خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بات ہو رہی تھی میری تیز رفتاری کی۔</b><br />
<b>صفدر صدیق رضی،آسی خانپوری اور نردوش ترابی وغیرہ میرے اچھے دوست تھے لیکن ایک مرحلہ پر آکر یہ سارے دوست مجھ سے الگ ہو کر متحد ہو گئے۔جن دنوں میں یہ دوست متحدہ محاذ بنانے کی تیاری کر رہے تھے ،انہیں دنوں میں ایک بار میں آسی خانپوری صاحب سے ملنے ان کے مینا بازار والے گھر میں گیا۔وہاں صفدر صدیق رضی بھی آ گئے۔کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد میں وہاں سے روانہ ہوا۔مینا بازار سے صدر بازار کو پار کرنے کے بعد میں جیٹھہ بھٹہ بازار کی طرف مڑ کر چند قدم ہی آگے گیا تھا کہ پیچھے سے صفدر صدیق رضی اپنی موٹر سائیکل پر پہنچ گئے۔انہوں نے موٹر سائیکل روک کر پہلے حیرت کا اظہار کیا کہ میں پیدل ہوتے ہوئے اتنی جلدی یہاں تک پہنچ گیا ہوں۔تب میں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بے ساختہ طور پر انہیں کہا تھا’’رضی صاحب! عقل سے پیدل ہونے اور ویسے پیدل ہونے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔اور آپ جانتے ہیں کہ میں صرف ویسے پیدل ہوں‘‘صفدر صدیق رضی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ بولے:</b><br />
<b>’’چلیں بیٹھیں میں آپ کو ڈراپ کرتا چلوں گا‘‘</b><br />
<b>رضی صاحب کا باقی ذکر بعد میں یہاں اس سے پہلے زمانے کی بات ہو رہی تھی۔نذر خلیق کے ساتھ دوستی میں چھوٹے بھائی جیسی صورت تھی۔تب ہم لوگ مل کر نہ صرف ہفت روزہ مدینہ میں چھپتے رہے بلکہ ادبی رسالہ ’’نئی قدریں‘‘ حیدرآبادمیں بھی چھپنے لگے۔بزم فرید سے الگ ہونے کے بعد میں نے نذر خلیق،اے کے ماجداور جمیل محسن کے ساتھ مل کر حلقہ ء ارباب ذوق خانپور کی بنیاد رکھی۔ تب ہی ہم دونوں نے مل کر ’’نئی قدریں‘‘کے ایڈیٹر جناب اختر انصاری اکبرآبادی کو خانپور میں مدعو کیا۔پاپولیشن پلاننگ والوں کے دفتر میں ان کے اعزاز میں تقریب منعقد کی۔یہ دفتر تب پیراڈائز سینما کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں ہوتا تھا۔ اختر انصاری اکبرآبادی کے بارے میں ہمارے اہلِ ادب کا رویہ زیادہ تر تمسخرانہ رہا ہے۔ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ہفت روزہ ’’مدینہ‘‘بھاولپور کے علامہ منظور احمد رحمت کے بعد ادبی جرائد میں میری اوّلین حوصلہ افزائی اختر انصاری اکبر آبادی نے اپنے رسالہ’’نئی قدریں‘‘ میں کی۔اسی لئے میں آج بھی ان کے لئے اپنے دل میں ایک احترام محسوس کرتا ہوں۔</b><br />
<b>اسی دوران ایک بار میں اور نذر خلیق میرے گھر کے سامنے بیٹھے تھے۔سامنے سڑک پر سے گزرتے ہوئے خواجہ ادریس اور رب نواز قریشی نے ہمیں دیکھا اور ہماری طرف چلے آئے۔میں نے انہیں بیٹھے بیٹھے ہاتھ ملایا اور تشریف رکھنے کو کہا۔خواجہ ادریس کو یہ برا لگا اور انہوں نے تشریف رکھنے کی بجائے مجھے تھپڑ جڑ دیا۔اس واقعہ اور بد مزگی کے بعد نذر خلیق نے ویکلی ’’زندگی‘‘میں اس واقعہ کو درج کرکے میری حمایت میں اور مذکورہ دوستوں کی مذمت میں ایک طویل مکتوب شائع کرایا۔رب نواز قریشی ذاتی طور پر بہت اچھے انسان ہیں۔ہمارے اور ان کے درمیان بہت بڑا طبقاتی فرق تھا اس کے باوجود وہ کئی بار میرے ساتھ برابر ہو کر بیٹھے اور دوستانہ انداز میں ملے۔میری ابتدائی غزلوں کو سن کر انہوں نے ایک دوبار تبدیلی کے معقول مشورے بھی دئیے۔جو مجھے واقعی اچھے لگے۔۔۔خواجہ ادریس بھی طبعاََ اچھے انسان ہیں۔بس یہ بد قسمت واقعہ ایسے ہونا تھا، ہو گیا۔شاید اس میں کچھ میری بے وقوفی بھی شامل تھی۔اختر انصاری کے بعد ۔۔۔۔اور ایک عرصہ کے بعد جب ڈاکٹر وزیر آغا خانپور تشریف لائے تو میں نے ان کے اعزاز میں بلدیہ خانپور کے جناح ہال میں تقریب کا اہتمام کیا۔تب خواجہ ادریس نے سابقہ تلخی کی ساری تلافی کردی۔میں نے ان سے کہا کہ آپ اس تقریب کی نظامت کریں۔انہوں نے بڑی صاف گوئی سے مجھے نصیحت کی کہ اتنا بڑا ادیب ہمارے شہر میں آرہا ہے۔اس تقریب کی نظامت میرے لئے اعزاز ہے لیکن اصلاََ یہ آپ کا حق بنتا ہے۔اس حق کو ضائع نہ کریں۔ایسے مواقع بار بار نہیں آتے۔چنانچہ پھر میں نے ہی اس تقریب کی نظامت کی۔خواجہ ادریس نے اس تقریب کو کامیاب بنانے کے لئے ہر ممکن تعاون کیا۔ نہ صرف تقریب میں شرکت کی بلکہ اپنے مخصوص انداز میں ایک زبردست تقریر کی۔ اس تقریب میں خانپور کے بیشتر اہم شاعر اور ادیب شامل تھے۔نذر خلیق نے بہت سے انتظامی معاملات کو بہتر طور پر سنبھالے رکھا۔</b><br />
<b>خواجہ ادریس ،رب نواز قریشی کا ذکر ہو اور انجمن انسداد شعراء خانپور کا ذکر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔اس انجمن کا ذکر ’’میری محبتیں‘‘میں آچکا ہے لیکن یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک بار میں بھی ان دوستوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔میں نہ تو مشاعروں کا شاعر ہوں ،نہ مجھے کلام سنانے کا سلیقہ آتا ہے۔ان دوستوں نے اپنے مخصوص انداز کے ساتھ مجھ سے کلام سننا شروع کیا۔پھر ان سے سنجیدہ گفتگو ہوئی تو کہنے لگے ہم صرف متشاعروں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔اچھے شاعروں کی ہم قدر کرتے ہیں۔ خورشید احمد ٹمی کی مثال دے کر کہنے لگے دیکھیں اگر وہ بے تکی شاعری کرنے میں لگا رہتا تو کیا اس کی افسانہ نگاری اتنی ابھر سکتی جتنی اب ابھر آئی ہے؟۔۔۔بات ان دوستوں کی مناسب تھی۔</b><br />
<b>اب یہاں جرمنی میں رہتے ہوئے جب میں مغربی ممالک میں مقیم بیسیوں بے وزن شاعروں کو دیکھتا ہوں،جعلی شاعروں اور ادیبوں کو دیکھتا ہوں جو محض دولت کے بَل پر ریڈی میڈ شاعر اور ادیب بن گئے ہیں تو مجھے کئی بار خواجہ ادریس ،رب نواز قریشی ،شیخ فیاض الدین اور انجمن انسداد شعراء خانپور کے دوسرے دوست شدت سے یاد آتے ہیں۔کاش یہ دوست یہاں آسکتے اور ایسے جعلی شاعروں اور ادیبوں کی سرکوبی کے لئے کچھ کر پاتے۔</b><br />
<b>مجھے تو بالکل ہی بھول گیا تھا لیکن اب نذر خلیق صاحب نے یاد دلایا ہے کہ میں نے ایک بار ایک فلمی رسالہ’’سنگیت‘‘خانپور سے شروع کیا تھا۔یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔تب میں نے جن دوستوں کی ٹیم بنا کر یہ فلمی رسالہ شروع کیا ان میں نذر خلیق بھی شامل تھے۔اس کا صرف ایک ہی شمارہ نکل سکا۔۱۹۷۸ء میں پھر میں نے خانپورسے ’’جدید ادب‘‘جاری کیا۔اس کی ٹیم میں صفدر صدیق رضی اور فرحت نواز(جو اَب رحیم یارخان میں انگریزی کی پروفیسر ہیں)موثر پارٹنر تھے ۔ رضی صرف دو،ڈھائی سال تک دوستی نبھا سکے۔اور پھر وہ ’’جدید ادب‘ ‘ کی ادارت میں شامل نہ رہے۔البتہ فرحت نواز رسالہ کی ادارت میں آخر دَم تک شامل رہیں۔</b><br />
<b>رضی میرے بہت قریبی دوست تھے۔میرے ذاتی عمومی حالات تو ایسے تھے کہ میں اپنی غزلیں اور دوسری تخلیقات لکھنے کے لئے کاغذ قلم اور سیاہی خریدنے کی بھی پوری استطاعت نہیں رکھتا تھا۔اس کے باوجود ’’جدید ادب‘‘جیسا رسالہ جاری کر رکھا تھا۔اس سلسلے میں صفدر صدیق رضی نے پیراڈائز سینما کے قریب سٹیشنری کی ایک دوکان پر اپنا کھاتہ کھول رکھا تھا اور اسکے مالک کوہدایت کر رکھی تھی کہ حیدر قریشی جو سٹیشنری جب چاہے رضی کے حساب سے لے سکتا ہے۔’’جدید ادب‘‘کے سلسلہ میں جتنی سٹیشنری کی ضرورت پڑتی تھی میں وہاں سے لے لیا کرتا تھا۔اپنی ضرورت کے لئے میں نے کبھی ایک پیسے کی چیز بھی نہیں لی تھی۔ پھر جب وہ ایک بہت ہی معمولی بات پر دوستی کو چھوڑ گئے تب ایسا نہیں کیا کہ مجھے براہ راست کہہ دیتے کہ میری طرف سے ’’جدید ادب‘‘ کا کام ختم ہوا۔اب میری طرف سے کوئی اسٹیشنری نہیں لیجئے گا۔اس کے بجائے انہوں نے سٹیشنری شاپ والوں کو کہہ دیا کہ جب حیدر قریشی کوئی سامان لینے آئے اسے بتادیں کہ میں نے منع کردیا ہے۔مجھے ان کے اندر کی ’’پاک تبدیلی‘‘کا کوئی علم نہ تھا۔چنانچہ حسب معمول اگلے شمارہ کی تیاری کے سلسلہ میں دوکان پر گیا اور ایک دستہ کاغذ کے لئے کہا تومجھے رضی صاحب کا پیغام سنا دیا گیا۔میں پیغام سن کر حیران رہ گیا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>اچھا ہوا کہ ہم سے محبت نہیں تمہیں </b><br />
<b>اچھا ہوا کہ دل کا یہ ابہام مر گیا</b></div><div style="text-align: right;"><b>میری ’’اوقات‘‘دیکھئے کہ اس وقت میری جیب میں ایک دستہ کاغذ خریدنے جتنے پیسے بھی نہ تھے کہ اپنی طرف سے ہی کاغذ خرید لیتا۔شرمندہ ہو کر وہاں سے لَوٹ آیا۔میرا خیال ہے کہ ناحق ملنے والے دکھ کی تلافی خدا کی طرف سے کسی نہ کسی اجر کی صورت میں ضرور ملتی ہے۔اب جو کاغذ کے بجائے کمپیوٹر پر بیٹھ کر اپنی تخلیقات لکھتا رہتا ہوں تو شاید یہ بھی انہیں دکھوں کا صلہ ہو جو بعض دوستوں نے بے جا طور پر دئیے۔بہر حال اﷲ صفدر صدیق رضی صاحب کو خوش رکھے۔</b><br />
<b>خانپور نے مجھے میری ادبی پہچان عطا کی۔بھاولپور کی سطح پر مجھے نقوی احمد پوری،مظہر مسعود،خورشید ناظر،ڈاکٹر انور صابر جیسے دوست عطا کئے ،توپروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد جیسے غائبانہ محبت کرنے والے مہربان بھی ملا دئیے۔ ایک طرف خانپور سے نذر خلیق نے دلی محبت کے ساتھ میرے بارے میں تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک بہت عمدہ کتاب ’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘مرتب کرکے چھاپ دی ہے۔دوسری طرف ڈاکٹر انور صابر کی صاحبزادی منزّہ یاسمین نے اپنے ایم اے کے مقالہ کے لئے میرے ادبی کام کو اپنا موضوع بنایا تو اس میں ڈاکٹر انور صابر اور خورشید ناظر کی محبت کا بھی کچھ حصہ شامل تھا اور ڈاکٹر شفیق تو بہ نفس نفیس اس مقالہ کے نگران تھے۔فل اسکیپ کے ۲۰۰ سے زائد صفحات پر مشتمل یہ مقالہ در حقیقت میری سرائیکی دھرتی کی طرف سے خود میرے لئے میری پہچان کا ایک تحفہ ہے۔میں اس مقالہ کو پڑھ کر صرف خوش ہی نہیں ہوا،اپنی دھرتی کے حوالے سے اپنی پہچان کے ایک اہم مرحلے سے بھی گزرا ہوں۔ </b><br />
<b>جیسا کہ میں شروع میں ذکر کرچکا ہوں،میں نے اپنی سب سے پہلی بے تکی اور ناقابلِ اشاعت غزل میں لکھا تھا۔۔ </b></div><div style="text-align: center;"><b>نہیں لطف حیدرؔ وہ ذکرِ خدا میں</b><br />
<b>جو ملتا ہے لطف ہم کو ذکرِ صنم میں</b></div><div style="text-align: right;"><b>اب اپنے پورے ادبی سفر کو شاعری کے حوالے سے دیکھنے لگا ہوں تو مجھے اپنی تین نئی غزلوں کے مقطعوں میں جیسے اپنے ادبی سفر کی پوری روداد مل گئی ہے۔بس میں نے مذکورہ بالا شعر سے لے کر ان اشعار تک کا سفر کیا ہے۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>یا آنکھوں میں خاک برستی تھی حیدرؔ </b><br />
<b>یا اب پیہم اشک دعا میں گرتے ہیں</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>بن جاتا تریاق اسی کا زہر اگر تم حیدر ؔ </b><br />
<b>کوئی آیت پیار کی پڑھتے اور اُس پر دَم کرتے</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>آنکھیں اُس کی بھی ہیں اب برسات بھری </b><br />
<b>حیدرؔ مَیل دلوں کے دُھلنے والے ہیں</b></div><div style="text-align: right;"><b>میری شاعری کی بات میری پہلی کے غزل کے مقطع سے شروع ہوئی تھی اور اب تک کی تازہ غزلوں کے مقطعوں تک آ پہنچی ہے۔گویا ’’سخن گسترانہ ‘‘بات مقطع سے شروع ہو کر مقطعوں میں آ پڑی ہے۔ </b><br />
<b>میرے پہلے بے تکے اظہار سے لے کر ایسے اشعار تک۔۔۔۔یہی میرے اب تک کے شعری سفر کی رُوداد ہے۔فکری اور شعری لحاظ سے جتنا بھی سفر طے ہوا ہے سراسر خدا کا فضل اور احسان ہے۔وگرنہ من آنم کہ من دانم!</b></div><div style="text-align: center;"><b>*** </b></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-28707413977409229112011-07-15T05:51:00.000-07:002011-07-15T23:19:08.713-07:00میری عمر کا ایک سال<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: large;"><span style="font-size: x-large;">میری عمر کا ایک سال</span></span></b></div><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: large;"> (۱۳ ؍جنوری ۲۰۰۳ء سے ۱۳؍ جنوری ۲۰۰۴ء تک</span></b>)</div><div style="text-align: right;"><br />
<b>عام طور پرشاعروں اور ادیبوں نے اپنی زندگی کے کسی خاص سال کے حوالے سے کچھ لکھا ہے تو اپنی عمر کے چالیس سال پورے ہونے پر لکھا ہے،یا پچاس سال پورے ہونے پر۔اپنی ادبی زندگی کی کسی نوعیت کی جوبلی پر بھی لکھا ہے۔لیکن میرا طرزِ عمل غیر ارادی طور پر شروع سے ہی اس معمول سے مختلف رہا ہے۔میں نے اپنی شادی کے ساڑھے بارہ سال گزرنے کے بعد ایک نظم ’’نصف سلور جوبلی‘‘ کہی تھی جبکہ شادی کی سلور جوبلی پر کچھ بھی نہیں لکھا۔عمر کے چالیس سال پورے ہونے سے پہلے تینتیس سال کی عمر میں ’’بڑھاپے کی حمایت میں‘‘انشائیہ لکھ دیا تھا لیکن چالیس سال پورے ہونے پر کچھ نہیں لکھا۔اسی طرح عمرِ عزیز کے پچاس سال پورے ہونے پر کچھ نہیں لکھا لیکن اب باون سال پورے ہونے پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔جی ہاں۔۔۔آج ۱۳؍جنوری ۲۰۰۴ء کو میں باون سال کا ہو کر ۵۳ویں سال میں قدم رکھ چکا ہوں۔سال کے باون ہفتے ہوتے ہیں اور تاش کے باون پتے ہوتے ہیں۔گردش ماہ و سال تاش کے سارے پتے مجھ پر آزما چکی ہے تو مجھے اپنی ایک غزل کا یہ شعر یاد آگیاہے ۔ </b></div><div style="text-align: center;"><b>داؤ پر جو ہمیں لگا بیٹھا</b><br />
<b>وقت شاید کوئی جواری ہے </b></div><div style="text-align: right;"><b>آج سے دس سال پہلے میں نے اپنے انشائیہ ’’وِگ‘‘ میں لکھا تھا:</b><br />
<b>’’میں بیالیس سال کی عمر میں بلا وجہ باون برس کا بنا ہوا تھا‘‘ </b><br />
<b>اور اب جب واقعی باون برس کا ہو گیا ہوں تو عمر کے اس ایک برس کی تازہ ترین یادوں کو لکھنے بیٹھ گیا ہوں۔۱۳؍جنوری ۲۰۰۳ء سے ۱۳ جنوری ۲۰۰۴ ء تک کے ایام کیسے گزرے؟ یہ سال کئی لحاظ سے میرے لئے خاص اہمیت کا حامل سال بن گیا ہے۔خداکے کچھ ایسے فضل ایک تسلسل کے ساتھ ہوئے ہیں کہ تحدیث نعمت کے طور پر ان کا ذکر کردینا مناسب ہے۔ میری یادوں میں ان سب کا بھی ایک حصہ ہے۔لیکن تحدیث نعمت سے پہلے اپنی دو کمزوریوں کا ذکر کروں گا جو مجھ پر گزشتہ سال کے دوران منکشف ہوئیں۔پہلی کمزوری یہ ہے کہ میں جب کوئی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہوں ،صفحہ الٹتے ہی دائیں طرف پڑھنا شروع کرنے کے ساتھ اس سے اگلے صفحہ کو الٹنے کے لئے بائیں طرف کے صفحہ کو انگلیوں سے پکڑ لیتا ہوں تاکہ ورق الٹنے میں دیر نہ ہو۔عادت تو یہ میری ہمیشہ سے ہے مجھے اس عادت کا تب شدت سے احسا س ہوا جب میں نے حالیہ رمضان شریف میں ایک بزرگ کو ایسا کرتے دیکھا۔ تب مجھے اپنی اس عادت پر غورکرنے کا موقعہ ملا اور مجھے لگا یہ بھی میری جلد بازی کی عادت کا ایک اثر ہے۔اپنی جلد بازی کی عادت کے بارے میںیادوں کے ایک باب میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں،اس عادت کو اسی تسلسل میں دیکھا جا سکتا ہے۔</b><br />
<b>دوسری عادت یہ ہے کہ میں عام طور پر’’ جھکی جھکی نگاہوں ‘‘کے ساتھ بات کرتا ہوں۔ایک بار ہالینڈ میں مقیم میرے ایک ’’کرم فرما‘‘جمیل الرحمن میرے پاس آئے تو انہوں نے مجھے میری اس عادت پر ٹوکا تھا اورکافی کھول کر بتایاتھا کہ آنکھ ملا کر بات نہ کرنے والوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں بنتی۔</b><br />
<b>اس سال مجھے اپنی اس کمزوری پر غور کرنے کا موقعہ ملا۔بچپن کا شرمیلا پن اس عادت کا سبب ہو سکتا ہے۔اگرچہ میں نے اب تک کافی بے شرمی کر لی ہے پھر بھی جو بچپن کی عادت سی تھی وہ تومزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ اگر ماہرین نفسیات کے حساب سے مان لیا جائے کہ ایسے لوگوں کے دل میں کوئی چورہوتا ہے تو مجھے اپنی بکل میں چھپے چور سے کبھی بھی انکار نہیں رہا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>میری بکل دے وچ چور نیں میری بکل دے وچ چور</b><br />
<b>جس ۔ ڈھونڈ۔یا تس نے ۔پایا،نہ ۔جھُر جھُر ہویا مور</b><br />
<b>جیہڑا ۔لیکھ ۔متھے۔ دا ۔لکھیا ۔کون ۔کرے۔ بھن توڑ</b><br />
<b>میری بکل دے وچ چور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b></div><div style="text-align: right;"><b>بابابلہے شاہ کے ہاں تو ایک ہی چور تھا میرے اندر پتہ نہیں کتنے چور چھپے ہوئے ہیں۔بکل سے نکلوں گا تو پتہ چلے گا۔ اپنی ان دونوں کمزوریوں نے اس سال مجھے کچھ سوچنے پر مائل کیا۔ان کمزوریوں سے قطع نظر جنوری ۲۰۰۳ء کے وسط میں خبر ملی کہ اسلامیہ یونیورسٹی بھاولپور سے منزہ یاسمین نے میرے ادبی کام پر ایم اے اردو کاجو تحقیقی کام کیا تھا ،اس کی منظوری یونیورسٹی کی طرف سے دے دی گئی ہے۔اور اسی سال اگست،ستمبر تک وہ مقالہ یونیورسٹی کی منظوری کے ساتھ کتابی صورت میں شائع ہو گیا ہے۔اس سال خدا کا اس سے بھی بڑا کرم یہ ہوا کہ پہلے ایک مایوسی کی کیفیت ہونے کے بعد یکایک جنوری کے اواخر میں پہلے امکان روشن ہوااور پھر فروری کی پہلی کو مجھے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج پر جانے کی توفیق ملی۔دسمبر ۱۹۹۶ء میں ہم نے عمرہ کیا تھا اور اب فروری ۲۰۰۳ء میں ہمیں حج کرنے کی توفیق مل رہی تھی۔اسی سال میں نے دسمبر میں اس حج کی روداد لکھ لی اور اب یہ روداد میرے عمرہ کے سفر نامہ’’سوئے حجاز‘‘ کے نئے ایڈیشن میں اضافہ کے ساتھ شائع ہو گی۔انشاء اﷲ۔</b><br />
<b>اس برس میری شاعری کی رفتار دھیمی رہی تاہم میں نے تین غزلیں اور تین نظمیں کہیں۔جو ادبی رسائل میں چھپ چکی ہیں۔چند سیاسی نوعیت کی نظمیں اور افسانے بھی لکھے گئے لیکن ان کی ادبی حیثیت مجھے اچھی نہیں لگی۔مجھے لگا کہ ان پر صحافت غالب آگئی ہے اس لئے میں نے ان سب کو ضائع کر دیا۔عالمی حالات کے حوالے سے میں نے کچھ عرصہ سے جو کالم قسم کی چیزیں لکھنا شروع کی ہیں ان سے میرا کتھارسس ہوجاتا ہے ،یوں مجھے ادب اور صحافت کو الگ الگ رکھنے میں سہولت مل گئی ہے۔میری ساری صحافتی نوعیت کی سرگرمیاں www.urdustan.com پر مکمل فائل کی صورت میں دستیاب ہیں۔ میں نے ’’منظر اور پس منظر‘‘عنوان کے تحت ۲۵ کالم لکھے ہیں۔اس سال یہ فائل مکمل ہوئی۔اور یہ کتاب جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔اگرچہ یہ کالم عالمی صورتحال پر میرے دکھ اور بے بسی کے احساس کے نتیجہ میں لکھے گئے ہیں،تاہم مجھے لگتا ہے کہ میرے بہت سے مندرجات کی اہمیت وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ واضح ہوتی جائے گی۔میں ۲۲؍جولائی ۲۰۰۲ء کو اس وقت اپنے کالم میں یورپی یونین کی طرز پر سارک یونین کے قیام کی ضرورت کا احساس دلا رہا تھا جب انڈو پاک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس برس مجھے یہ دیکھنے کا موقعہ ملا کہ سارک کے سب سے بڑے ملک نے اس تصور کو سب کے سامنے رکھا اور اب سب اس کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔یقیناََ یہ ایک عمدہ پیش رفت ہے اور میرے لئے ذاتی طور پر بھی خوشی اور اطمینان کا باعث ہے۔ اسی طرح قلبِ اسلام کے حوالے سے میرے کالموں کے نتیجہ میں فوری طور پر اخبارات سے لے کر ٹی وی تک ایک تحرک پیدا ہوا لیکن تمام متعلقین پھر خوابِ خرگوش میں چلے گئے۔ آنے والے سنگین وقت میں میرے لکھے کو شاید پھر یاد کیا جائے۔اردوستان پر ہی میں نے خبرنامہ کی صورت میں خبروں پر ہلکے پھلکے تبصروں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔اس سارے لکھے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں فوری طور پر ہنگامی موضوعات کو مدِ نظر رکھ کر ادب میں صحافیانہ تحریریں پیش کرنے سے بچ گیا اور براہِ راست صحافت کے میدان میں اتر کر میں نے اپنے احساسات کو بہتر انداز سے بیان کر دیا۔</b><br />
<b>اس سال کی میری ادبی تحریروں میں یوں توساختیات اور ماہیا پر میرے مباحث اور چھ کتابوں پر تبصروں کو بھی شمار کیا جا سکتا ہے، تاہم مجھے دو اہم مضامین لکھنے کی توفیق ملی۔’’تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر‘‘ اور’’ماریشس میں عالمی اردو کانفرنس‘‘۔۔پہلا مضمون ماریشس کی اردو کانفرنس میں پڑھنے کے لئے لکھا گیا تھا اور دوسرا مضمون اس کانفرنس کی روداد تھا۔ماسکو میں اردو کی معروف خدمتگار ڈاکٹر لڈ میلا کے بقول میرا رپورتاژ پہلا آرٹیکل تھاجس کے ذریعے ماریشس کانفرنس کی تفصیلات انٹرنیٹ کے ذریعے ساری اردو دنیا تک پہنچیں۔ </b><br />
<b>اس برس میرے فن کے حوالے سے منزہ یاسمین کے مقالے کے ساتھ براد رم نذر خلیق کی مرتب کردہ کتاب’’حیدر قریشی کی ادبی خدمات‘‘ بھی شائع ہوئی ۔ اسی برس مجھے جدید ادب کے از سر نو اجراء کا موقعہ ملا۔اور سال میں دو شمارے پیش کئے۔اس بار جدید اد ب کی پیش کش میں بعض نمایاں تبد یلیاں دیکھی جا سکتی ہیں۔سب سے اہم تبدیلی یہ رہی کہ یہ ادبی رسالہ کتابی صورت میں چھپنے کے ساتھ انٹرنیٹ پر بھی مکمل جریدہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ ویب سائٹ www.jadeedadab.com پرجدید ادب کا ہر شمارہ مستقل طور پر موجود رہے گا۔ ادبی رسائل کی دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی سب سے پہلی مکمل پیش کش ہے۔اس سلسلہ میں جہاں ریحانہ احمد،نذر خلیق اور عمر کیرانوی نے میرے ساتھ ادارتی ٹیم کا کام کیا ہے وہیں امریکہ میں مقیم اردوستان ڈاٹ کام کے کرتا دھرتا کاشف الہدیٰ نے ویب سائٹ کے قیام میں بہت بنیادی اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ان کے تعاون سے ہی جدید ادب کو انٹرنیٹ پر اتنی کامیابی سے پیش کیا جا سکا۔جدید ادب کے دو شمارے شائع ہونا اور ویب سائٹ پر دونوں شماروں کا بروقت آن ہوجانا میری عمر کے اِسی سال میں ہوا۔میری ٹیم کے باقی ارکان کے نام تو رسالہ پر موجود ہیں جبکہ کاشف الہدیٰ کی خوبی دیکھیں کہ اتنا سارا کام کرنے کے بعد بھی انہوں نے ادب کی خاموش خدمت کو ہی اپنا اجر مانا ہے۔اﷲ ان کو جزائے خیر دے۔</b><br />
<b>شروع میں ذکر کر چکا ہوں کہ اس برس میں نے اپنی دو کتب ’’منظر اور پس منظر‘‘اور سوئے حجاز‘‘(حج کی روداد کے اضافہ کے ساتھ)کو فائنل کیا۔ان کے ساتھ اپنی دو کلیات فائنل کی ہیں۔ شعری کلیات ’’غزلیں،نظمیں،ماہیے‘‘ کا پہلا ایڈیشن چار مجموعوں پر مشتمل تھا۔اب نیا ایڈیشن میرے پانچویں مجموعے سمیت شائع ہو سکے گا اور نثری کلیات ’’افسانے،خاکے،یادیں،انشائیے‘‘ بھی پانچ نثری مجموعوں پر مشتمل ہو گا۔اس سال ۱۲؍جنوری ۲۰۰۴ء کو میں نے دونوں کلیات کی پروف ریڈنگ کا جان لیوا کام مکمل کر لیا۔اب صرف ان زیر تحریر یادوں کو ’’ کھٹی میٹھی یادیں‘‘میں شامل کرنے کا کام باقی ہے۔مجموعی طور پر اس برس میں نے اپنی بارہ کتب کی پروف ریڈنگ کرنے کے ساتھ ان کی نوک پلک سنوارنے کا کام بھی کیا۔یہ اچھی خاصی مشقت تھی۔</b><br />
<b>اس سارے مطالعہ سے گزرتے ہوئے مجھے اپنی لکھی ہوئی کئی پرانی تحریریں نئے حالات کے تناظر میں بہت ہی تازہ دکھائی دیں۔ایسے لگتا ہے جیسے بیس پچیس سال پہلے کی تحریریں وجدان کی کسی ان جانی سطح سے لکھی گئی تھیں۔اس کے لئے مجھے تخلیقات میں سے متعدد مثالیں ملی ہیں یہاں صرف دو مثالوں پر اکتفا کروں گا۔</b><br />
<b>اس وقت ساری اسلامی دنیا عمومی طور پر اور پاکستان خصوصی طور جس قسم کے حالات سے دو چار ہے۔اندرونی اور بیرونی دونوں طور پر حالات اتنے تکلیف دہ ہیں کہ ایسے لگتا ہے ہمارے لئے کوئی راہِ نجات نہیں رہی۔اس صورتحال کو میرے ۱۹۸۰ء میں شائع ہونے والے ایک افسانے میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:</b><br />
<b>’’مجھے عجیب سی بے بسی کا احساس ہوتاہے۔ بے چارگی اور مایوسی کے اندھیرے چاروں طرف رقص کررہے ہیں۔ یوں لگتاہے جیسے انہوں نے میرے اندر والے فنکارکو قتل کردیا ہے اور میں اپنی لامتناہی تلاش کے سفر میں ایک ایسے ٹیلے پر کھڑاہوں جس کے ایک طرف سربفلک دشوار گزار پہاڑ ہیں اور دوسری طرف گہراناقابل عبورسمندر۔ ایک طرف سینکڑوں اژدہوں اور عفریتوں کی پھنکاریں ہیں تودوسری طرف آبی بلاؤں کی چیخیں۔میں اپنے آپ کو پکارناچاہتاہوں مگر میری صدا بھی کہیں کھوگئی ہے۔۔۔۔۔تب میری تجرید کی ساری معنویت مجھ پر آشکار ہوتی ہے۔۔۔۔یہ معنویت اتنی گھناؤنی اور مکروہ ہے کہ میں کسی کو بھی اس سے آگاہ کرکے خوفزدہ نہیں کرناچاہتا۔ کیونکہ یہ معنویت صرف میری نہیں۔ ۔۔ہم سب کی ہے۔ شاید اسی لئے وہ مقدس آواز بھی اب نہیں آرہی ہے جس نے کہا تھا:’’خارجی دنیاکو بھی تمہارے اس کشف کا ادراک ہونا چاہیے!‘‘(افسانہ ’’اپنی تجرید کے کشف کا عذاب‘‘)</b><br />
<b>امریکہ اور اس کے حلیفوں کے ذریعے اس وقت جو نام نہاد صلیبی جنگ شروع کی گئی ہے،اس کے دیگر مقاصد سے قطع نظر اگر اسے صرف صلیبی رنگ میں ہی لیا جائے تب بھی یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کی باہمی لڑائی ہے۔بنی اسرائیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد کی ایک شاخ ہیں جن سے یہودی اور مسیحی مذاہب نکلے۔۔۔جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے حضرت محمد ﷺ ہوئے جو دینِ اسلام کے بانی ہیں۔اس وقت امریکہ اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو مذہب کے ساتھ خاندانی سطح پر دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے کہ اسحاق علیہ السلام کی اولاد اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کے ساتھ وہی سوتیلا سلوک کر رہی ہے جو ماضی بعید میں ایک بار پہلے بھی ہو چکا ہے۔۔۔عام مسلمانوں کو عمومی طور پر علم نہیں ہے کہ مسیحی اور یہودی دنیا کی نظروں میں ہمارا شجرہ نسب کیا ہے ۔بائبل کی رُو سے بی بی ہاجرہ کی حیثیت بی بی سارہ کی لونڈی کی تھی۔اور وہ اسماعیل علیہ السلام کو لونڈی کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کی حقیقی اولاد میں شمار نہیں کرتے۔اسی سے ان کی ذہنیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ میں نے۱۹۸۲ء میں افسانہ لکھا تھا ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘۔سوتیلے جذبوں کی اذیت سہتے ہوئے اس افسانے میں تین اہم تاریخی کرداروں کو ایک کردار میں یکجا کیا گیا تھا۔ اس میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حوالے سے جو کچھ آیا تھا اس کی ہلکی سی جھلک یہاں دیکھ لیں۔۔باقی پورا افسانہ تو اپنے پورے تناظر میں ہی پڑھنے سے سمجھ میں آئے گا: </b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>’’میری بے گناہی۔۔۔ میری نیکیاں دنیا نہیں دیکھتی اور میں تہمتوں کی زد میں ہوں۔ </b><br />
<b>میں اذیت میں ہوں کہ میری ماں ابھی تک میری خاطر پانی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔وہ جو بادشاہ زادی ہے۔ میرے سوتیلے بھائی اسے لونڈی اور مجھے لونڈی کا بیٹا کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>میرے سوتیلے عزیز تاریخ کو جتنا چاہیں مسخ کر لیں مگر وہ میرے باپ کا نام کیونکر مٹا سکیں گے کہ پھروہ خود بھی بے شناخت ہو جائیں گے۔</b><br />
<b>میں ابراہیم کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b><br />
<b>آگ ابراہیم کے لئے گلزار ہوگئی تھی تو مجھے کیونکر نقصان پہنچاسکے گی۔</b><br />
<b>’’آگ سے ہمیں مت ڈراؤ یہ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے۔‘‘</b><br />
<b>یہ آسمانی آواز مجھے یقین دلاتی ہے کہ میری ایڑیوں کی رگڑ سے ایک چشمہ پھوٹ بہے گا اور اس کا پانی میری مدد کو آئے گا۔‘‘</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>اس نوعیت کے اتنے حوالے میرے سامنے آئے کہ انہیں پڑھتے ہوئے مجھے اپنی تخلیقات میں خود ایک انوکھے وجدان کا احساس ہوا۔شاید میں خود کبھی ایسے اشارات کو کسی مضمون کی صورت میں یکجا کر دوں جو اب تک کے حالات میں ظاہر ہو چکے ہیں۔شاید اسی کیفیت کو بھانپ کر جیلانی کامران صاحب نے میرے افسانوں کے حوالے سے لکھتے ہوئے اپنے تجزیہ کا اختتام ان الفاظ پر کیا تھا کہ</b><br />
<b>’’ان افسانوں میں ایک ایسا رویہ بھی شامل ہے جو کہانی سنتے ہوئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کہانی محض کسی واقعے ہی کی بات نہیں کرتی بلکہ اس سچائی کا ذکر بھی کرتی ہے جو واقعیت کے رگ وریشے میں جاگتی ہے اور سب سے کہتی ہے کہ مجھے پہچانو، میں کون ہوں؟سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن رکھا ہے‘‘ </b><br />
<b>یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ دنیا ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ہم لوگ روایات کے نام پر ابھی تک ماضی سے چمٹے ہوئے ہیں ،ماضی سے جُڑ کر رہنا کوئی بری بات نہیں اگر آپ اس کے ساتھ حال سے باخبر رہتے ہوئے مستقبل کی طرف بھی قدم بڑھاتے رہیں۔ایک بہت ہی ہلکی پھلکی سی ذاتی واردات یاد آگئی۔میں ایک بار انٹر نیٹ پر بیٹھا ہوا ایک ویب سائٹ سے اپنی پسند کا گانا’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر کچھ جذباتی بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ آئی ہوئی ای میلز کے جواب بھی دیتا جا رہا تھا۔اپنے اس عمل سے میں نے بعد میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ماضی سے کٹ کر نہیں رہنا لیکن ماضی کے چکر میں حال اور مستقبل سے غافل ہوجانا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اخلاقی قدریں بھی دو طرح کی ہیں ایک تو وہ جن کی حیثیت مستقل نوعیت کی ہے،دوسری وہ جو زمانے کے ساتھ بدلتی جاتی ہیں۔مثلاََ ایک طویل دور تک سینہ تان کر لڑنا اور سینے پر زخم کھانا بہادری کی علامت تھا۔اب ہولناک بموں کے دور میں ایسا کرنا بہادری نہیں بلکہ سیدھی سی بے وقوفی ہے۔ایک قدر جو ہمارے بچپن تک بہت اہم رہی یہ تھی ’’پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔جو کھیلو گے ،کودو گے ،ہوگے خراب‘‘۔آج کے دور میں سپورٹس کے سٹارز کی جو حیثیت ہے اور ان کے مقابلہ میں بڑی بڑی ڈگریاں رکھنے والوں کی جو بے توقیری ہے،اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بہت سی قدریں کس حد تک بدل کر رہ گئی ہیں۔ بہر حال وقت کی رفتار تو اپنے بہاؤ میں رہتی ہے۔</b><br />
<b>جدید دور کی سب سے اہم اور عام ایجادکمپیوٹر ہے۔پچاس سال سے اوپر کی عمر کے بہت کم لوگ ہوں گے جو میری طرح اس ٹیکنالوجی سے بنیادی واقفیت نہ رکھنے کے باوجود اس ایجاد سے بہت زیادہ منسلک ہوں۔ میری کمپیوٹر سے دوستی بہت گہری ہو چکی ہے۔ اتنی گہری کہ اس نے قلم اور کاغذ سے میرا عمر بھر کا تعلق بڑی حد تک ختم کرکے رکھ دیا ہے۔میں جو چند برس پہلے تک دن میں بیس پچیس خطوط آسانی سے لکھ لیا کرتا تھا۔اب قلم پکڑنا بھی بھول گیا ہوں۔کمپیوٹر پر میرا اردو پروگرام اتنا موثر ہے کہ میں ساری خط و کتابت اسی کے ذریعے کرتا ہوں۔اس اردو فائل کو پھر ان پیج فائل میں یا گف فائل میں ای میل سے بھیج دینا میرے لئے سیکنڈوں کا کام بن گیا ہے۔پوری کتاب یا رسالے کی فائل ایک ای میل سے میرے پاس پہنچ جاتی ہے اور ایک کلک سے میں اسے بیک وقت کئی دوستوں تک پہنچا سکتا ہوں۔</b><br />
<b>اب میرے زیادہ تر دوست وہی ہیں جو کسی نہ کسی طرح انٹر نیٹ سے منسلک ہو گئے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں نے سابقہ دوستوں کو فراموش کر دیا ہے۔ان سب کو یاد کرتا رہتا ہوں لیکن ان سے اب خط و کتابت والا تعلق موثر طور پر برقرار نہیں رکھ سکتا۔اس وجہ سے بہت سے دوست مجھ سے شاکی ہیں اور ان کی شکایت بجا ہے۔لیکن کیا کروں کمپیوٹر نے مجھے اسیر کر لیا ہے۔اہم ادباء میں وزیر آغا،جوگندر پال،فتح محمد ملک،شمس الرحمن فاروقی،شمیم حنفی اور ان کی اہلیہ صبا حنفی ،الطاف احمد اعظمی،رشید امجد، صلاح الدین پرویز،سلطان جمیل نسیم ،داؤد رضوان،منظر حسین،ڈاکٹر شفیق،ڈاکٹر انور صابر،منزہ یاسمین،مرتضیٰ اشعر، فیصل ہاشمی ،رفعت مرتضیٰ اور سنجئے گوڑ بولے سے کبھی کبھار ای میل سے رابطہ ہو جاتا ہے۔ منشا یاد،امین خیال ،اسلم بدر،کرشن مہیشوری،احمد سہیل، سعادت سعید،عارف فرہاد،وسیم عالم،ارباب بزمی،ارشد خالد،رؤف خیر،صفدر ہمدانی ،جواز جعفری سے بھی وقتاََ فوقتاََ رابطہ رہتا ہے۔یوں تبسم کاشمیری،ڈاکٹر لڈمیلا ،فاروق باؤچہ اور متعدد دیگرشعراء و ادباء بھی رابطہ میں رہتے ہیں۔ اکبر حمیدی نے بھی ایک دو بار منشا یاد کے توسط سے ای میل سے رابطہ کیا ہے۔یقیناََ اور بھی کئی دوست رابطے میں رہتے ہیں اور میں فی الوقت ان کے نام بھول رہا ہوں۔’یاہو ‘یا ’ہاٹ میل ‘پر چیٹنگ کرتے ہوئے بھی کئی ادبی دوستوں سے گپ شپ رہی ہے۔بعض دوستوں کے ساتھ ویب کیمرے کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے۔یعنی ہم دونوں ایک دوسرے کو Live دیکھ رہے ہوتے ہیں اور گفتگو بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ سو یوں مجھے انٹر نیٹ پر ادبی دوستوں کی ایک بھری پری محفل ملی ہوئی ہے۔اس وقت میرے بے حد قریبی حلقہ میں خورشید اقبال،کاشف الہدیٰ،نذر خلیق،سعید شباب،ریحانہ احمد، عاصمہ خان اور عمر کیرانوی شامل ہیں ۔</b><br />
<b>چند دن پہلے میرے ایک کرم فرما مسعودہاشمی صاحب تشریف لائے اور بتانے لگے کہ سال ۲۰۲۵ء تک دنیا ایٹمی جنگ سے تباہ ہو جائے گی۔میں نے انہیں کہا کہ دنیا تباہ نہیں ہونی چاہئے ، کیونکہ میں اس جنگ کے باوجود زندہ بچ جاؤں گا لیکن پھر محض کمپیوٹر نہ ہونے کی وجہ سے مر جاؤں گا۔اگرچہ یہ بات مزاح کے رنگ میں کہی گئی تھی لیکن واقعی کمپیوٹر میری بہت بڑی ضرورت اور اس سے بھی بڑی کمزوری بن گیا ہے۔پاکستان،انڈیا، امریکہ،کنیڈا، روس، فرانس، برطانیہ، ترکی، آسٹریلیا،جاپان تک پھیلے ہوئے میرے سارے ادبی دوست کمپیوٹر کی بدولت مجھ سے صرف ایک ہلکی سی کلک کے فاصلے پر ہیں اور میں ان سے جب چاہوں رابطہ کر لیتا ہوں۔اتنا برق رفتار،اتنا سستا اور اتنا موثر رابطہ جو پرانی داستانوں میں محض کہانی کے طور پر آتا تھا میرے عہد کی ایک حقیقت بن کر میرے تجربے میں آرہا ہے۔</b><br />
<b>اردو میں لکھنے کا کوئی کام ہو میں کمپیوٹر پر بیٹھے ہوئے اطمینان سے کر لیتا ہوں۔دن میں کتنی ہی ای میلز آتی ہیں اور اسی وقت ان کا جواب میری طرف سے چلا جاتا ہے۔میری ان مصروفیات کی وجہ سے میری بیوی نے میرے کمپیوٹر کے کمرے کو ’’سوتن کا کمرہ‘‘کہنا شروع کر دیا ہے۔ای میلز اور چیٹنگ کے تعلق سے جتنا کچھ لکھ چکا ہوں اسی حوالے سے یہاں صرف آج ۱۳؍جنوری ۲۰۰۴ء کو موصول ہونے والی ای میلز بھیجنے والے احباب کے نام لکھ دیتا ہوں۔عمر کیرا نوی (دہلی) ، نذر خلیق(خانپور)،ریحانہ احمد(کنیڈا)،بشارت احمد استاد (گلبرگہ) ، ناصر عباس نیر(جھنگ)، ترنم ریاض(دہلی)،دانش طاہر(کراچی)،علی اختر رانا(لاہور)،عارف فرہاد(راولپنڈی۔آف لائن میسج)،ایک رائٹرز فورم کی ٹریش قسم کی چار پانچ ای میلزاور بعض کمپنیوں کی اشتہاری ای میلز میں نے کھولے بغیر ضائع کر دیں۔</b><br />
<b>آج ہی ان دوستوں سے براہِ راست چیٹنگ ہوئی۔ناصرعباس نیر (جھنگ)، سلمان (ڈاکٹرشفیق احمد کا صاحبزادہ،بھاولپور) ، لقمان (میرا بھانجہ، کراچی)، دانش (میرابھتیجہ،کراچی ) ریحانہ احمد(کینیڈا)، نادرہ سلطانہ(امریکہ)۔</b><br />
<b>کمپیوٹر سے اتنی وابستگی کے باوجودمیری ایک کمزوری کسی حد تک تکلیف کا باعث بھی ہے۔میں نے ٹائپ رائٹنگ نہیں سیکھی ہوئی،اس لئے دس انگلیوں کے بجائے صرف دو انگلیوں سے کام کرتا ہوں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دونوں بازؤںں کی کہنیوں میں تکلیف ہوتی رہتی ہے۔ انگلیوں سے درد اٹھا،کہنیوں تک آگیا</b><br />
<b>لیکن ادب سے وابستگی ،اور بیک وقت تینوں زمانوں سے جڑے رہنے کا جنون ابھی تک کسی تکلیف کو خاطر میں نہیں لا رہا۔</b><br />
<b>لکھتے رہے جنوں کی حکایات ’’دمبدم‘‘ </b><br />
<b>ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے </b><br />
<b>یہ میرے گزشتہ برس کی یادوں کی ایک جھلک تھی۔۔۔۔ایسی یادیں جومجھے اپنے حال سے باخبر اور مستقبل پر نظر رکھنے کی قوت دیتی ہیں۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>***</b></div><div style="text-align: right;"><b>نوٹ:ان یادوں کو لکھنے کے بعد یاد آیا کہ ان اہم دوستوں کے ساتھ بھی کبھی کبھار انٹرنیٹ سے رابطہ رہتا ہے۔شان الحق حقی، احمد ہمیش، انجلا ہمیش، مسعود منور،رحیم انجان،ڈاکٹر کرسٹینا ،ارشاد ہاشمی ،حمید شاہد،ہارون عباس اورقمر علی عباسی۔۔۔یقیناََ ابھی اور بھی کئی نام ہیں جو فوری طور پر یاد نہیں آرہے۔</b><br />
<b>***موجودہ ایڈیشن کی اشاعت تک ان دوستوں کے ناموں میں بے شمار حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ (حیدر قریشی</b>)</div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-49510391261824542352011-07-15T02:11:00.000-07:002011-07-15T23:20:17.447-07:00۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">۔۔۔ادبی کائنات میں رنگ</span></b></div><br />
<b>شعرو ادب میں مردانہ اور زنانہ ڈبوں والی کوئی بات نہیں رہی تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی سوسائٹی میں خواتین کے مختلف رشتوں اور رنگوں سے حسن پیدا ہوا ہے۔میری زندگی پر میری والدہ کا جتنا گہرا اثر ہے وہ میری مختلف تحریروں میں ب�آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔اردو میں والدہ کے حوالے سے اب کئی لوگ لکھنے لگے ہیں۔ عام طور پر قدرت اللہ شہاب کے خاکے’’ماں جی‘‘ کو اس نوعیت کا پہلا اردو نمونہ کہا جاتا ہے۔تاہم میں اپنی معلومات کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ قدرت اللہ شہاب سے بھی بہت پہلے سر محمد ظفر اللہ خان نے ۱۹۳۸ء میں ایک مختصر سی کتاب ’’میری والدہ‘‘شائع کی تھی ۔اپنے کردار کی مضبوطی کے حوالے سے اور بعض دوسرے حوالوں سے بھی سر محمد ظفراللہ خان کی والدہ کا کردار قدرت اللہ شہاب کی’’ماں جی‘‘سے کہیں زیادہ اہم دکھائی دیتا ہے۔لیکن کچھ ہماری اردو سوسائٹی کے بعض تحفظات اور تعصبات کے باعث اور کچھ اردو ادب کے سنجیدہ قارئین میں سے بعض کی بے خبری کے باعث اردو میں ماں کے بارے میں لکھے گئے اس اولین شہ پارے کی طرف توجہ ہی نہیں جا سکی۔میرا خیال ہے کہ سر محمد ظفراللہ خان اور قدرت اللہ شہاب کے بعد اکبر حمیدی نے ’’ماں جی‘‘ کے عنوان سے ایک زبردست خاکہ لکھا جو ان کی والدہ کا نہیں بلکہ دادی کا خاکہ تھا۔ دادی کو انگریزی میں گرانڈ مدر یعنی بڑی ماں کہتے ہیں۔سو یوں اکبر حمیدی نے اس خاکے کے ذریعے ماں کے رشتے کے ایک اور زاویے کو اجاگر کیا۔اکبر حمیدی کے بعد میں نے’’مائے نی میں کنوں آکھاں‘‘کے عنوان سے اپنی امی جی کا خاکہ لکھا۔اس کے بعد جیسے والدہ کے بارے میں لکھنے والوں کی بہار آگئی۔بعض دوستوں نے اپنی اپنی والدہ کے حوالے سے پوری کتابیں لکھ دیں۔ اگر چہ ایسی کتابوں میں طوالت کے باعث جذباتیت زیادہ راہ پا گئی ہے تاہم ایک مثبت رویے کی طرف لکھنے والے دھیان تو دینے لگے،یہی بڑی بات ہے۔ اپنی والدہ کے علاوہ میں نے اپنی بڑی بہن کا خاکہ’’محبت کی نمناک خوشبو‘‘ اوراپنی اہلیہ کا خاکہ ’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘لکھا جنہیں ادبی دنیا میں کافی پسند کیا گیا۔مجموعی طور پر میرے خاکوں اور یادوں میں ماں،دادی،نانی،بہن، بیٹی، ممانی، کے کردار براہ راست آئے ہوئے ہیں۔مجھے اعتراف ہے کہ میں اپنی امی جی کے اثرات سے خود کو کبھی بھی آزاد نہیں کر سکتا بلکہ ان کے اثرات سے آزاد ہونا ہی نہیں چاہتا۔</b><br />
<b>عورت کے یہ سارے روپ میرے دل میں عقیدت ، احترام اور محبت سے گندھے ہوئے ہیں ۔اس پس منظر کے ساتھ اردو دنیا کی خواتین کے بارے میں غور کرنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ وہاں عقیدت تو نہیں ہے لیکن بہت ساری ایسی ادبی خواتین ہیں جن کے لئے میرے دل میں احترام اور محبت کے جذبات ہیں۔کئی ہیں جن کے لئے دنیاوی سطح پر سہی لیکن اخلاص موجود ہے۔بعض خواتین کے منفی روپ بھی ہیں ۔ کئی ایسی ادبی خواتین ہیں جن سے ملنا میرے لئے ذاتی طور پر ایک اعزاز سے کم نہیں۔سو یادوں کے اس باب میں ادبی حوالے سے ایسی شاعرات اور ادیباؤں کو یاد کروں گا جن سے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پرملاقات ہوئی ہے ۔کہیں کہیں ادب سے غیر متعلق خواتین کا ذکر ناگزیر ہوا تو وہ بھی آجائے گاکیونکہ یادوں کا بہاؤ توخواتین کی طرف ہے۔ </b><br />
<b>قرۃالعین حیدرسے دو بار ملاقات ہوئی۔ایک بار جب وہ پہلی بار پاکستان آئیں تو ان کے اعزاز میں فیصل آباد کے چناب کلب نے ایک ادبی تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا۔میں اس میں شریک ہوا تھا اور تقریب کے بعد بھی ان کے ساتھ تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی۔تاہم اس ملاقات کا حاصل فوٹو سیشن رہا۔کشور ناہید لاہور سے ان کے ساتھ آئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ جو بڑے بڑے مردوں کے سامنے مردانہ وار گفتگو کرتی ہیں وہی کشور ناہید ان کے سامنے سراپا نیاز بنی ہوئی تھیں۔قرۃالعین حیدر سے دوسری ملاقات سال ۲۰۰۰ء میں لندن میں ہوئی۔یہاں بھی ایک کانفرنس چل رہی تھی اور یہاں بھی سلام دعا،پہلی ملاقات کا ہلکا سا ذکراور فوٹو سیشن۔فیصل آباد والی تصویرانہیں دنوں میں ماہنامہ ماہِ نَو لاہور میں چھپی تھی اور لندن والی تصویر تو انگلینڈ اور جرمنی کے رسالوں میں چھپ چکی ہے۔ پہلی ملاقات میں وہ زور آور دکھائی دی تھیں جبکہ اس بار وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔تاہم ان کے ساتھ ملنا بھی میرے لئے ملاقاتِ مسیحا و خضر جیسی بات تھی۔</b><br />
<b>کشور ناہید کا ذکر ہوا ہے،ان کے بارے میں مثبت اور منفی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ان سے میری بہت زیادہ ملاقاتیں تو نہیں رہیں لیکن اتنی کم بھی نہیں ہوئیں۔میں جدید ادب کی اشاعت کے سلسلے میں جب لاہور جاتاتھا تو مختلف ادباء سے ملا کرتا تھا۔کشور ناہید سے بھی سات آٹھ بار تو ملاقات ہوئی ہو گی۔خوش مزاج اور لبرل خاتون ہیں۔مردوں کی محفل میں بیٹھ کر بھی پوری محفل پر چھا جاتی تھیں۔مرد حضرات زچ ہو کر پھر ان کے ساتھ مردوں جیسا رویہ اختیار کر لیتے۔ایک بار عید الفطر کے بعد ادیبوں کی عید ملن پارٹی ہوئی۔اس میں کشور ناہید حسبِ معمول خوب چہک رہی تھیں جبکہ ان کے شوہر یوسف کامران خاموش بیٹھے تھے۔کسی ادیب نے اس صورتحال کی طرف توجہ دلائی تو ڈاکٹر انور سدید کہنے لگے عید الفطر کے موقعہ پر کشور ناہید بولتی ہیں اور یوسف کامران چُپ رہتے ہیں اور عید الاضحی پریوسف کامران بولتے ہیں اور کشور ناہید خاموش رہتی ہیں۔ایک اور موقعہ پر پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری کشور کے جملوں کی لپیٹ میں آگئے۔انہیں کشور ناہید کے جملوں کا جواب نہیں سوجھ رہا تھا، آخر تنگ آکر بولے:اگر میں نے تمہیں پہلے دیکھ لیا ہوتا تو قومی ترانے میں کبھی یہ مصرعہ شامل نہ کرتا کشورِ حسین شادباد!</b><br />
<b>مدت کے بعد ماریشس کی ادبی کانفرنس میں ان سے ملاقات ہوئی۔شفقت سے پیش آئیں۔لیکن جملہ بازی سے وہاں بھی باز نہیں آئیں۔رات کو مشاعرہ ہوا تھا۔ میں نے اس میں جو غزل سنائی تھی ،اس کے ایک شعر پر کشور نے داد دی ۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>دودھ بدن ہے وہ تو مصری کوزہ ہم </b></div></div><div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b>سو اب اس کے عشق میں گھلنے والے ہیں </b></div><b>اگلے دن ایک اجلاس کی صدارت کشور ناہید کے ذمہ تھی۔وہ کرسئ صدارت پر بیٹھی تھیں۔اسٹیج سیکریٹری اعلان کر رہے تھے کہ اب فلاں صاحب اسٹیج پر آکر ساری کانفرنس کی تقاریر اور مقالات کا خلاصہ دو دو سطروں میں کوزے میں سمندر کی طرح بند کرکے پیش کریں گے۔جب وہ صاحب اسٹیج کی طرف جانے لگے تو میں نے صدا لگائی: لائیے صاحب!آپ اپنے کوزے۔اس پر کشور ناہید نے صدارت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہی جواب داغا:’’پر۔۔۔ مصری اپنی اپنی‘‘۔</b><br />
<b>کشور ناہید غزل اور نظم کے میدان میں آگے چلتیں تو ان کے ہاں موجود امکانات بہتر طور پر سامنے آتے لیکن انہوں نے خود ہی نثری نظم کو سب کچھ مان کر شاعری کی دنیا میں اپنے تخلیقی امکانات کی راہیں مسدود کر دیں۔اس کے باوجود ان کے مجموعی ادبی کام کے حوالے سے بھی اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی انہیں ایک بہادر خاتون کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ </b><br />
<b>۱۹۹۳ء میں دہلی میں مجھے امرتا پریتم سے تین چار بار ملنے کا موقعہ ملا۔حوض خاص کے علاقہ میں ان کی رہائش گاہ پر ان سے طویل نشستیں ہوئیں۔تب اردو میں ماہیے کی بحث کا آغازہو رہا تھا،میں نے ان سے بھی اس موضوع پر بات کی۔عروضی حوالے سے تو انہیں میری بات سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب میں نے ایک ماہیا گنگنا کر انہیں سنایا توکہنے لگیں یہ تجربہ تو ساحر لدھیانوی کئی سال پہلے اردو میں کر چکے ہیں۔میں نے فلم نیا دور کا حوالہ دے کر ماہیا سنایا :دل لے کے دغا دیں گے؍یار ہیں مطلب کے؍ یہ دیں گے تو کیا دیں گے</b><br />
<b>میرے حافظہ کی تحسین کرنے لگیں۔ایک پاکستانی شاعر نے ان کی پنجابی نظموں کے اردو میں تراجم کئے تھے،امرتا پریتم ان سے مطمئن نہیں تھیں۔چنانچہ ہم نے طے کیا کہ وہ نظم سنائیں گی اور ساتھ کے ساتھ اردو ترجمہ کرتے جائیں گے۔اس طرح ان کی کوئی آٹھ دس نظموں کا ترجمہ کیا گیا۔افسوس کہ میں اپنی مسافرت میں وہ قیمتی کام کہیں گم کر بیٹھاہوں۔امروز صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔اور امرتاکے بیٹے کو بھی دیکھا جس کی شکل ساحر سے ملتی ہے اور جس کا بہت سارا ذکر امرتا پریتم نے اپنی کتاب’’ رسیدی ٹکٹ‘‘میں کیا ہوا ہے۔امرتا پریتم نے جو کچھ لکھا ہے سب سچ ہوگا لیکن مجھے اس جوان کا ذہنی توازن کچھ گڑ بڑ سا لگاتھا۔</b><br />
<b>ایک بار ٹائمز آف انڈیا کے سنڈے ایڈیشن میں ہندی کے ایک معروف ادیب(اس وقت نام ذہن میں نہیں آرہا) کا مضمون چھپا۔وہ ساحر کے اور امرتا کے پرانے دوستوں میں سے تھے لیکن اس مضمون میں انہوں نے امرتا کے بارے میں بعض نامناسب باتوں کا ذکر کیا تھا۔میں اسی روز سہ پہر کے بعد ملنے گیا تو گھر پر افسردگی اور ذہنی تناؤ کی سی کیفیت طاری تھی۔امروز غصہ میں دکھائی دے رہے تھے۔مجھے افسوس ہوا کہ میں ایسے موقعہ پر ان کے گھر کیوں چلا گیا۔بہر حال امرتا پریتم سے ملنا بھی میرے لئے ایک اعزاز رہا۔یہ ان سینیئرز میں سے ہیں جنہیں پڑھ کر ہمارے دلوں میں اپنے لئے ادب کی مزید نئی راہوں کی تلاش کی جستجو پیدا ہوئی۔ </b><br />
<b>بانو قدسیہ سے صرف ایک بار اور ان کی کوٹھی پر ملاقات ہوئی۔اشفاق صاحب علیل ہو گئے تھے۔ڈاکٹروزیر آغا کے ساتھ میں بھی ان کی عیادت کے لئے گیا ۔اشفاق صاحب اور بانو قدسیہ کے لئے تو میں کوئی انجان سا نیا ادیب تھالیکن خدا بھلا کرے ممتاز مفتی کا جو اسلام آباد سے اشفاق صاحب کی عیادت کے لئے آئے ہوئے تھے۔جدید ادب کے حوالے سے میرا ان سے باقاعدہ رابطہ رہتا تھا سو انہوں نے اتنے تپاک سے ملاقات کی کہ اپنا کچھ بھرم سا رہ گیا۔تاہم بانو قدسیہ سے رسمی علیک سلیک ہی ہوئی۔ان سے اصل ملاقات تو تب ہوئی جب ان کا ناول راجہ گدھ پڑھا۔ عشرت آفریں(کراچی۔حال امریکہ)،حمیدہ معین رضوی(لندن)نوشی گیلانی(بہاولپور۔حال امریکہ ) صفیہ صدیقی(لندن)سے سرسری ایک دو ملاقاتیں ہوئیں تاہم ان کا مثبت تاثر میرے ذہن میں رہا۔پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے پاکستانی ادیبوں کا ایک وفد جرمنی میں آیا تھا۔تب انتظار حسین صاحب کو میں اپنے ہاں لے آیا ۔اگلے روز انہیں جس گھر پر پہنچانے گیا وہاں پاکستانی وفد کے دوسرے افراد سے بھی ملاقات ہوئی۔میں نے ایک خاتون کو دیکھ کر استفسار کیا:آپ خالدہ حسین ہیں؟۔۔خالدہ حسین ان کے ساتھ بیٹھی تھیں اور وہ خاتون فہمیدہ ریاض تھیں۔عمر کے اس مقام پر بھی اچھی لگیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان کی بے باک شاعری کبھی اچھی نہیں لگی۔شاید یہ مرد شاونزم کی کوئی صورت ہو لیکن میرا تاثر ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے۔</b><br />
<b>ماہ طلعت زاہدی سے ایک بار بہاولپور میں ہونے والی ایک ادبی کانفرنس میں ملاقات ہوئی تھی اور اس کے بعد ایک بار ان کے گھر ملتان میں ملاقات ہوئی۔دھان پان سی بی بی ماہ طلعت اپنے انداز کی بھلی شاعرہ ہیں۔اب بھی رسائل میں کہیں دکھائی دے جائیں تو انہیں پڑھ کر خوش ہوتا ہوں۔خانپور کی ایک شاعرہ تھیں سیدہ ماہ طلعت۔ان دونوں ماہ طلعتوں کے ناموں کا مسئلہ سامنے آیاتو خانپور کی ماہ طلعت،نے غزالہ طلعت کے قلمی نام سے لکھنا شروع کر دیا اور پھر بہت جلد ان کی شادی ہو گئی اور ان کی شاعری کا شوق اپنے انجام کو پہنچ گیا۔خانپور کی ایک شاعرہ شیما سیال تھیں۔اردو اور سرئیکی میں شاعری کرتی تھیں۔ان کی شادی کے بعد بھی شاعری کا سلسلہ جاری رہا۔ان کے مقابلہ میں ان کی چھوٹی بہن پروین عزیز میں شاعرانہ صلاحیت بہت عمدہ تھی۔خانپور کی سب سے اچھی شاعرہ انہیں کہا جا سکتا ہے۔شروع میں مجھ سے ان کے معاملہ میں کچھ زیادتی ہوئی،میں نے انہیں نظر انداز کیا۔لیکن کچھ عرصہ کے بعد مجھے غلطی کا احساس ہوا۔میں نے اس کی تلافی کرنا چاہی لیکن تب تک وہ مجھ سے شدید خفا ہو چکی تھیں۔وہ شاعری کی طرف آئیں لیکن بے دلی سے۔اب خانپور میں ہی انگریزی کی پروفیسر ہیں۔تاہم میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ میری زیادتی کی وجہ سے پروین عزیز نظر انداز ہوئیں اور اس سے اتنا دلبرداشتہ ہوئیں کہ ادب سے ہی کسی حد تک کنارا کر گئیں۔میں خود بھی پھر ادب کی دنیا میں انہیں واپس نہ لا سکا۔اور میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں کہ پروین عزیز کو ابتدا میں اچھی حوصلہ افزائی کرنے والے احباب مل جاتے تو وہ یقیناََ آج کی ایک معتبر شاعرہ ہوتیں۔ایسا نہیں ہوا تو یہ میرا ادبی گناہ ہے۔</b><br />
<b>خدا میرے ادبی بے انصافی کے گناہ کو معاف کرے۔</b><br />
<b>ثمینہ راجہ رحیم یارخان کے قریب ایک گاؤں راجہ کوٹ میں رہتی تھیں۔ان میں شروع سے ہی شاندار تخلیقی صلاحیتیں تھیں۔گاؤں کے ماحول میں تو شاید یہ صلاحیتیں پوری طرح ابھر نہ پاتیں تاہم انہوں نے ہمت سے کام لیا اور قسمت نے یاوری کی اور وہ جلد ہی اسلام آباد کے کشادہ ماحول میں پہنچ گئیں۔اردو کے ایک اچھے شاعر زمان ملک سے ان کی شادی ہو گئی۔پھر غالباََ رشتہ زیادہ نبھ نہیں سکا۔تاہم ثمینہ راجہ نے بڑی بہادری کے ساتھ سماجی سطح پر بھی اور ادبی سطح پر بھی زندگی کی بنیادوں کو مضبوط کیا۔ثمینہ راجہ کو ادبی دنیا میں کافی حد تک پذیرائی ملی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ان کا جو ادبی مقام بنتا ہے ابھی تک ان کے ساتھ وہ انصاف نہیں کیا گیا۔میری ان کے ساتھ رحیم یارخان کے زمانے سے ہی خط و کتابت تھی۔ادبی رابطہ تھا۔تاہم ان سے بالمشافہ ملاقات غالباََ ۹۲۔۱۹۹۱ء ہوئی تھی۔عذرا اصغر نے میری اسلام آباد میں آمد پر اپنے گھر میں ہی ایک ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ کا اہتمام کیا تھا۔ثمینہ راجہ بھی اس موقعہ پر آئی تھیں۔</b><br />
<b>عذرا اصغر کے گھراور ان کے نام سے کچھ ان کابھی ذکر ہوجائے۔ویسے میں ان کا خاکہ لکھ چکا ہوں جو میرے خاکوں کے مجموعہ میں شامل ہے۔میرے پہلے دو شعری مجموعے اور پہلا افسانوی مجموعہ عذرا اصغر نے اپنے اشاعتی ادارہ تجدید اشاعت گھر کی طرف سے شائع کئے تھے۔ ان کے سرورق ان کی صاحبزادی شبہ طراز نے بڑی محنت کے ساتھ بنائے تھے۔شبہ طراز بیک وقت شاعرہ بھی ہیں اور مصورہ بھی۔ان سے بھی عذرا کے گھر پر ہی ملاقات ہوئی تھی،جہاں وہ اپنے سسرال سے آئی ہوئی تھیں۔ویسے فون پر تو کچھ عرصہ پہلے بھی میری شبہ اور عذرا دونوں سے بات ہوئی تھی۔میرا دل رکھنے کے لئے دونوں نے تھوڑے تھوڑے سے ماہیے بھی کہے تھے۔</b><br />
<b>ہندوستان میں کرشنا پال سے جوگندر پال جی کے ہاں ملاقات ہوئی ۔جوگندر پال جی کی اہلیہ کرشنا پال یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ہندی میں زیادہ تر لکھتی ہیں۔جوگندر پال جی کی کئی کہانیوں کے انہوں نے ہندی میں ترجمے کئے ہیں۔ان سے دہلی میں کئی بار ملاقات ہوئی۔مجھے ایک بار حدیث قدسی’’زمانے کو برا مت کہو،میں خود زمانہ ہوں‘‘ کا اصل عربی متن درکار تھا۔کرشنا پال سے ذکر ہواتو انہوں نے دوسرے دن مجھے عربی متن فراہم کر دیا۔پتہ چلا انہوں نے یونیورسٹی کے عربی یا اسلامیات کے پروفیسر سے پوچھ کر متن حاصل کر لیا اور مجھے دے دیا۔جوگندر پال جی اور کرشنا پال کی صاحبزادی سکریتا پال کمار انگریزی کی ڈاکٹر اور پروفیسر ہیں۔متعدد بین الاقوامی سیمینارز اور کانفرنسوں میں شرکت کر چکی ہیں۔ انگریزی کی اچھی شاعرہ بھی ہیں۔ان کی متعدد انگریزی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ان سے دو بار ملاقات ہوئی تھی اور گفتگو کرتے ہوئے اپنی کم علمی کا احساس ہوتا رہا تھا۔</b><br />
<b>ظفر پیامی کے قلمی نام سے لکھنے والے دیوان صاحب کی اہلیہ منورما دیوان اردو کی ممتاز صحافی ہیں ۔یہ لوگ ہندو مسلم اتحاد کے داعیوں کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ان سے دو تین بار ملاقات ہوئی اور ہر ملاقات کا ایک گہرا نقش میرے دل پر موجود ہے۔ کرشنا سوبتی ہندی کی پاپولر رائٹرہیں۔دیوندر اسر مجھے ان سے ملانے لے گئے۔بہت اچھی طرح ملیں۔باتوں باتوں میں حضرت خواجہ غلام فرید کا ذکر چھڑا اور پٹھانے خان کا نام آیا تو کرشنا سوبتی بتانے لگیں کہ پٹھانے خاں ہندو تھے۔پاکستان بننے کے بعد وہاں رہ گئے تو مسلمان ہو گئے تاہم انہوں نے خواجہ غلام فرید کے در کی غلامی پکڑ لی ۔خیال رہے کہ بر صغیر کے مسلمان اولیاء کے مزاروں پر ہندو بھی اتنی ہی عقیدت سے حاضری دیتے ہیں جتنی عقیدت سے مسلمان حاضر ہوا کرتے ہیں۔کرشنا سوبتی کا کہنا تھا کہ پٹھانے خاں کے گلے میں جو درد اورسوزہے وہ اسی المیہ کے بھیتر کی داستان ہے۔جیسے میرے لئے پٹھانے خاں کے بارے میں کرشنا سوبتی کے بیان کی تردید کرنا مشکل ہے اسی طرح میں اس کی تصدیق بھی نہیں کر سکتا۔مجھے اتنا یاد ہے ابا جی بتایا کرتے تھے کہ وہ اپنے بچپن میں پٹھانے خاں کو سڑکوں اور بازاروں میں گاتے ہوئے دیکھا کرتے تھے۔ظاہر ہے تب پٹھانے خاں کا بھی بچپن ہی ہوگا۔اب تو حضرت خواجہ غلام فرید کانام اور کلام ذہن میں آتے ہی پٹھانے خاں کا چہرہ بھی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ حیدر آباد دکن کی رہنے والی ممتاز افسانہ نگارجیلانی بانو سے ان کی پاکستان میں آمد پرڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ملاقات ہوئی تھی۔لیکن یہ بس رسمی سی ملاقات تھی۔شمیم حنفی کی اہلیہ صبا حنفی کے ساتھ ماریشس میں اچھی ملاقاتیں رہی تھیں۔شمیم حنفی کی صحبت نے ان کا ادبی ذوق نکھار دیا ہے۔بنیادی طور پر بچوں کی تعلیم ان کا شعبہ ہے لیکن جز وقتی شاعری بھی کرتی ہیں ۔بہت ہی نفیس اور شائستہ خاتون ہیں۔</b><br />
<b>کسی زمانے کی معروف براڈ کاسٹرثریا شہاب جرمنی میں رہ رہی تھیں۔ان سے ملاقات ہوئی تو تھوڑا ربط بڑھا۔وہ ڈیلی جنگ لندن سے بھی منسلک تھیں۔جرمنی میں مقیم پاکستانی کمیونٹی سے پوری طرح رابطے رکھتی تھیں۔مجھ سے انہوں نے جنگ لندن کے لئے ایک انٹرویو کیاجو اس اخبار میں تب ہی چھپ گیا تھا۔میں نے اس انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں ادب کی مجلسی زندگی سے اپنی بے رغبتی اور بے تعلقی کااظہار کیا تھا۔ثریا نے دل میں طے کر لیا کہ اس بندے کو مجلسی زندگی میں لانا ہے۔چنانچہ جلد ہی ایک حلقۂ ادب قائم کرکے مجھے اس کا سیکریٹری بنا دیا گیا۔ میں نے کام شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہاں آنے والوں کی بڑی تعداد تو وزن میں شعر بھی نہیں سنا سکتی۔بے وزن کلام تنقید کے لئے پیش کیا جانے لگا تو میں نے کہا کہ یہ تو حلقہ کے نام پر دھبہ ہے۔کمال یہ ہے کہ یہاں کے شعراء مکمل بے وزن ہونے کے باوجود پورے اعتماد کے ساتھ خود کو باوزن شاعر سمجھتے تھے۔چنانچہ میں نے ایسے ماحول سے جان چھڑانے کے لئے حلقہ کی سیکریٹری شپ چھوڑ دی۔دو تین ہفتوں کے بعد ثریا میرے ہاں آگئیں۔نہیں حلقہ آپ نے ہی چلانا ہے۔بہر حال مجھے اس حلقہ میں دوسری اور تیسری بار بھی جانا پڑا۔لیکن حلقہ ادب تو ’’ہلکا‘‘ادب بھی نہیں تھا۔تیسری بار میں نے کچھ ناراضی اورکچھ منت کے ساتھ جان چھڑائی۔</b><br />
<b>ثریا شہاب ادبی طور پر پہلے افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئیں۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’’سرخ لباس‘‘چھپ چکا تھا لیکن اس میں ایک افسانہ بھی ایسا نہیں جسے کسی ادبی حوالے کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔اسی دوران ان کا ناول’’سفر جاری ہے‘‘چھپ کر آگیا۔میں اس ناول کو پڑھ کر حیران ہوا اور خوش بھی ہوا۔ناول بڑا نہ سہی لیکن ثریا کی ادبی پہچان اس سے بن رہی تھی۔اس دوران میں انہوں نے اپنا شعری مجموعہ ترتیب دینے کے لئے مجھے اپنا مسودہ دیا۔میں نے اس پر بہت محنت کی۔بہت سی بے وزن چیزیں قلم زد کیں۔چند ایک کی درستی کی۔نظموں کی نوک پلک سنواری۔ردھم سے عاری نظموں کو الگ کرکے میں نے مشورہ دیا کہ انہیں نثری نظم کے الگ سیکشن میں شامل کر لیں۔</b><br />
<b>لیکن جب مجموعہ چھپ کر آیا تو نظم اور نثری نظم سب ملی جلی تھیں۔ایک بار انہوں نے مجھے کہا کہ میرا ایک ادھورا ناول ہے،آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں تو شاید اس پر ہم گفتگو کر سکیں اور ناول مکمل ہو جائے۔میں نے وقت کی کمی اور اپنی دوسری مصروفیات کے باعث معذرت کر لی۔تھوڑے عرصہ کے بعد ان کا ناول ’’بارشوں کے موسم میں ‘‘چھپ گیا۔تاہم مجھے ایک حیرانی رہتی ہے کہ ان کے پہلے ناول کے بعد دوسرے ناول کی زبان و بیان پر گرفت مضبوط ہونا چاہئے تھی لیکن دوسرے ناول پر یہ گرفت پہلے کے مقابلہ میں بے حد کمزور ہے۔</b><br />
<b>بنیادی طور پر ثریا نیوز ریڈر تھیں۔ٹی وی سے ریٹائرمنٹ کے بعد جنگ لندن کی نمائندگی کرکے جرمنی میں رونق میلہ لگائے رکھا۔پھر انہیں کینسر کا عارضہ ہو گیا۔ جرمنی میں علاج معالجہ کی شاندار سہولتوں کے ہوتے ہوئے ثریا نے پاکستان واپس جانے کا طے کر لیا۔ ان کے جرمن شوہر مسٹر ہنس بھی ان کے ساتھ پاکستان چلے گئے۔چند برس وہاں رہے۔اب سنا ہے کہ وہ بھی ثریا کو چھوڑ کر جرمنی میں واپس آگئے ہیں۔اور ثریا ڈپلومیٹس کے شہر اسلام آباد میں کینسر کے عارضہ کی آخری اسٹیج پر بالکل تنہائی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔</b><br />
<b>جرمنی میں برلن سے ایک شاعرہ کا پتہ چلا۔رخسانہ شمیم ان کا نام تھا۔ان سے رابطہ ہوا تو تھوڑے عرصہ کے بعد ملنے کے لئے آگئیں۔تین چار دن ہمارے گھر پر رہیں۔شاعری واعری کا تو کچھ خاص پتہ نہیں چلا کہ کیسے کرتی ہیں لیکن مجھے ایسا لگا کہ اپنے بعض مسائل کی وجہ سے وہ کچھ نیم خبطی سی ہو رہی ہیں۔پھر پتہ چلا کہ وہ امریکہ جا رہی ہیں۔ان کا کلام ’’توازن‘‘ مالیگاؤں میں چھپتا رہتا ہے۔</b><br />
<b>جرمنی میں اردو بولنے والی جرمن خواتین ڈاکٹر کرسٹینا اور اولرک اسٹارک ہیں۔دونوں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے جنوبی ایشیا ئی زبانوں کے شعبہ سے متعلق ہیں۔اولرک اسٹارک تو اب شکاگو چلی گئی ہیں۔کرسٹینا اب بھی اسی ادارہ میں ہیں۔انہوں نے مشرقی جرمنی کے زمانہ میں برلن سے قرۃالعین حیدر پر پی ایچ ڈی کی تھی۔میرا خیال تھا کہ انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہو گی لیکن کرسٹینا نے خود ایک بار بتایا کہ مقالہ جرمن زبان میں لکھا تھا۔ان سے دو تین ملاقاتیں ہوئی ہیں۔بوقت ضرورت ہم رابطہ کر لیتے ہیں۔اردو بول چال سکھانے کے لئے نصابی نوعیت کا کام زیادہ کرنا پڑتا ہے۔ اردو ادب کا ایک انتخاب جرمن زبان میں ترجمہ کرکے شائع کرچکی ہیں۔ادبی تحقیق کے حوالے سے کسی ریفرینس کی ضرورت ہو اور وہ ان کی دسترس میں ہو تو فراہمی کے لئے مخلصانہ تعاون کرتی ہیں۔قلی قطب شاہ اور ملّا وجہی سے لے کر ن۔م۔راشد اور میرا جی تک کتنے ہی اردو شاعروں اور ادیبوں پرانگریزی اور جرمن زبانوں میں مضامین لکھ چکی ہیں۔شاعروں سے زیادہ نثر نگاروں پر کام کیا ہے۔کئی یورپی اور عالمی ادبی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کر چکی ہیں،لیکن ان کا میلان مجلسی سے زیادہ علمی ہے۔</b><br />
<b>اردو جاننے والی اور فیض احمد فیض کی عاشقِ صادق روس کی ڈاکٹر لڈمیلا باغ و بہار شخصیت کی حامل ہیں۔اردو ادب پر ان کی نظر کافی گہری ہے۔کثیر المطالعہ ہیں اور ادبی شعور بھی رکھتی ہیں۔ترقی پسند تحریک سے شروع سے وابستگی رہی جو روح میں رچ سی گئی۔لیکن اب جو سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد کیمونزم کا زور ٹوٹا ہے تو ڈاکٹر لڈمیلا نے بھی خود کو نئی صورتحال میں اچھے طریقے سے ایڈجسٹ کر لیا ہے۔فیض اور اردو سے ان کی وابستگی آج بھی قائم ہے۔دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کوئی اردو کانفرنس ہوانہیں بلایا جاتا ہے۔بے شک ہم لوگوں کے لئے کسی گورے یا گوری کا اردو بولنا حیرانی اور خوشی کا موجب بنتا ہے اور انہیں بلانے میں یہ فیکٹر بھی موجود ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر لڈمیلا اپنی اہلیت کی بنا پراردو،فیض اور ترقی پسند حوالے سے بلائے جانے کا استحقاق رکھتی ہیں۔میری ان سے دو کانفرنسوں میں ملاقات ہو چکی ہے اور وہ اتنے خلوص کا تاثر دیتی ہیں کہ جیسے میں ان کے لئے ذرا سا بھی اجنبی نہیں رہا۔ </b><br />
<b>ڈاکٹر وسیم بیگم دہلی سے انگلینڈ آئی تھیں تو میں نے شاہد ماہلی صاحب کے ساتھ انہیں بھی جرمنی میں مدعو کیا تھا۔یہاں انہوں نے غالب پر ہونے والی ایک تقریب میں اپنا مقالہ پڑھا تھا۔دہلی جانے کے بعد کبھی کبھار ان سے رابطہ ہوجاتا تھا۔پھر ایک لمبا وقفہ آیا اور اس کے بعد اچانک ان کی ای میل ملی جس میں انہوں نے لکھا کہ انہین علی گڑھ یونیورسٹی میں اپنی پسند کی جاب مل گئی ہے۔تحقیق کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہیں۔بعض رسائل میں ان کے تبصرے بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔</b><br />
<b>صدیقہ بیگم ادبِ لطیف کے بانی برکت علی چوہدری کی صاحبزادی ہیں۔خود شاعرہ یا ادیبہ نہیں ہیں لیکن نامساعد حالات کے باوجود انہوں نے اپنے پُرکھوں کی یاد کے طور پر ادبِ لطیف کو جیسے تیسے جاری رکھا ہوا ہے۔پاکستان میں اپنے بے روزگاری کے دور میں مجھے ادبِ لطیف کے لئے تھوڑ ابہت کام کرنے کا موقعہ ملا۔ان کے پچپن سالہ نمبر کے لئے میں نے بطور خاص محنت کی تھی۔لاہور میں کئی بار ان سے ویسے بھی ملنا رہا۔ملنسار خاتون ہیں۔جرمنی آنے کے بعد بھی وقتاََ فوقتاََ ان سے رابطہ رہتا ہے۔ادبِ لطیف کی ویب سائٹ اردوستان کے زیر اہتمام میں نے جاری کرائی تھی۔کاشف صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے میرے کہنے پر اتنی بڑی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ادبِ لطیف کی تاریخ ترقی پسند تحریک کی حمایت سے عبارت رہی ہے۔تاہم اس کی گولڈن جوبلی تقریب کی صدارت قدرت اللہ شہاب سے کرائی گئی اور انہوں نے اپنی تقریر میں ادبِ لطیف کے ماضی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے پرانے دکھ بیان کئے اور ادارہ کا شکریہ ادا کیا کہ اب انہیں اتنی عزت دی گئی ہے۔صدیقہ بیگم نے جرمنی میں مقیم ایک رائٹر خاتون سلمیٰ جبیں سید کا اتہ پتہ بھیجا اور انہیں اپنی دوست لکھا۔ان سے رابطہ ہوا۔میں انہیں وہ سلمیٰ جبیں سمجھتا رہا جوخواتین کے رسائل میں لکھا کرتی تھیں اور رضیہ بٹ کی طرح پاپولر ناولسٹ بھی تھیں۔ لیکن جب وہ میرے ہاں آئیں تو انہوں نے اس کی تردید کی۔لکھنے کا شوق انہیں ضرور رہا لیکن بنیادی طور پر براڈ کاسٹر تھیں۔قمر علی عباسی بڑے خوش مزاج انسان ہیں اور ان کے سفر نامے بھی ان کی شخصیت کی طرح خوشگوار ہوتے ہیں۔اپنے جرمنی کے سفر نامہ ’’اور دیوار گر گئی‘‘ میں انہوں نے ہم سب کا محبت کے ساتھ ذکر کیا ہے لیکن ثریا شہاب اور سلمیٰ سید کے ذکر میں بین السطور جو کچھ لکھا گیا ہے وہ کچھ گراں سا گزرا ۔ہم سب خطا کے پتلے انسان ہیں کوئی ادبی خامی ہو تو ضرور بیان کریں لیکن شخصی کمزوریوں کا ذکر محبت کے باب میں کچھ اچھا نہیں لگتا۔بہر حال یہ تو یونہی بات سے بات نکل آئی۔ قمر علی عباسی سے اور ان کی اہلیہ اور کسی زمانے کی معروف ٹی وی اسٹار نیلوفر عباسی سے دو تین بارملاقات ہو چکی ہے۔ دونوں میاں بیوی ایک بار جرمنی میں میرے گھر بھی تشریف لا چکے ہیں۔نیلوفر عباسی کی گفتگو میںیہاں مغرب میں مقیم کئی شاعروں اور ادیبوں سے زیادہ ادبی شعور جھلکتا تھاجو میرے لئے حیران کن بات تھی۔ دورانِ گفتگو نیلوفر عباسی نے جب یہ بتایا کہ آصف فرخی ان کے خالہ زاد بھائی ہیں تو ان کے ادبی شعور پر حیرت دور ہو گئی اور یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کہ وہ ایک علمی و ادبی خاندان کی فرد ہیں۔کراچی میں مقیم فردوس حیدر معروف افسانہ نگار ہیں۔ٹی وی کے لئے ان کی ایک دو سیریلز بھی کافی مقبول ہوئیں۔ان سے سلطان جمیل نسیم صاحب اور جمیل زبیری صاحب کے ذریعے رابطہ ہوا تھا۔کراچی میں دو تین ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ایک بار دہلی میں بھی جوگندر پال جی کے یہاں ملاقات ہوئی ۔مجھے ان کی شخصیت میں ہمیشہ ایک نفاست اور وقارکا احساس ہوا۔ہم بہت زیادہ نہیں ملے لیکن جتنا ملے ہماری گفتگو نے ادب کے کئی تازہ موضوعات کو اپنے محیط میں لیا اور ہم نے ان پر بے تکلفانہ اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ </b><br />
<b>سیدہ حنا جب پشاور میں تھیں اور وہاں سے اپنا رسالہ ابلاغ نکالتی تھیں،تب ان سے رابطہ ہوا۔میں اپنے سسرال پشاور گیا تو ان سے بھی ملنے کے لئے گیا۔حامد سروش اور سیدہ حنا دونوں اچھے لوگ تھے۔دونوں بہن بھائی مل کر ادب کی خدمت کر رہے تھے۔اچانک کہیں بیچ میں ماہیے کا مسئلہ شروع ہو گیا اور پھر کسی نہ کسی بہانے سے یہ تعلق ٹوٹنا ہی تھا،سو ٹوٹ گیا۔پھرہمارے درمیان گھمسان کا رن پڑا تھا۔ماہیے کی بحث کو ادبی سلیقے سے آگے بڑھا جا سکتا تھا لیکن اُدھر سے ایسی بے جا الزام تراشیاں ہوئیں کہ پھر ویسا ہی جواب دینا پڑ گیا۔ہمارے جھگڑے سے کئی جعلی یا کمزور شاعروں اور ادیبوں نے رسالہ ابلاغ سے فائدے سمیٹے۔بہر حال اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔اب سیدہ حنا کی مغفرت اور درجات کی بلندی کے لئے دعاہی کر سکتا ہوں۔ اللہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین۔</b><br />
<b>نجمہ منصور سے ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ملاقات ہوئی۔مجھے اوراق میں پڑھتی رہتی تھیں۔انہیں دنوں ان کی نثری نظموں کا مجموعہ شائع ہونے والا تھا۔انہوں نے اپنی نثری نظمیں مجھے دیں اور ان پر تاثرات لکھنے کی فرمائش کی۔میں نے انہیں بتایا کہ میں نثری نظم میں شعری مواد کو تو مانتا ہوں لیکن اسے شاعری نہیں مانتا۔اس کے باوجود انہوں نے اصرار کیا کہ میں جیسے چاہوں اپنی رائے کا اظہار کردوں۔چنانچہ میں نے مناسب طور پر اپنی رائے لکھ دی،اسے انہوں نے اپنی اولین کتاب ’’میں سپنے اور آنکھیں‘‘میں شامل کر لیا۔ میرا پہلا شعری مجموعہ ’’سلگتے خواب‘‘چھپا تو انہوں نے سرگودھا میں کسی ادیب سے لے کر پڑھا اور پھر مجھے ایک خط لکھا جس میں مبارک باد اور خوشی کے اظہار کے ساتھ میری شاعری پر دلی تاثرات کا اظہار کیا۔</b><br />
<b>روشن آرا نزہت لاہور میں پنجاب سیکریٹریٹ میں شعبہ اطلاعات میں سیکشن آفیسر تھیں۔جنرل ضیا الحق کا آمرانہ دور تھا۔ملک میں سرِ عام کوڑوں کی سزاؤں اور دوسری اسی طرح کی تعزیرات کے ذریعے اسلام کی ایسی خوفناک صورت پیش کی جا رہی تھی جو مغربی دنیا کے وقتی مفادات پورے کرنے کے ساتھ آج خود مغربی دنیا کے اعتراضات کی زد میں ہے اور جس کی قیمت پاکستان ابھی تک ادا کر رہا ہے۔میں جدید ادب کو کتابی صورت میں ہر دو ماہ کے بعد چھاپ رہا تھا۔سنسر شپ لگی تو پرچہ سنسر کرانے کے لئے متعلقہ آفس میں گیا۔وہاں کی کرتا دھرتا روشن آرا نزہت تھیں۔مجھے ڈر تھا کہ کتابی سلسلہ دیکھ کربندش کا حکم ہی نہ ہو جائے لیکن وہ بہت شفیق انداز سے ملیں۔اس بات پر خوشی ظاہر کی کہ میں خانپور جیسے شہر میں بیٹھ کر ایسا کام کر رہا ہوں۔انہوں نے رسالے کی جڑی ہوئی کاپیوں کو سرسری نظر سے دیکھا اور مجھ سے پوچھا کہ اس میں کوئی قابلِ اعتراض سیاسی مواد تو نہیں ہے۔اور میری وضاحت پر انہوں نے اسی وقت پرچہ کی سنسر شپ کا مرحلہ کلئیر کر دیا۔جبکہ عام طور پر کتابوں اور رسالوں کی کلیرنس کے لئے ایک دو دن کے بعد کا وقت دیا جاتا تھا۔وہ خود ناول نگار تھیں اور نظمیں بھی لکھتی تھیں۔میرے ساتھ ان کی خصوصی توجہ اور جدید ادب کے معاملہ میں بہت زیادہ رعائت کا علم سرگودھا کے ادبی دوستوں کو بھی تھا۔چنانچہ شاید اس کو ٹھیک سے نہ سمجھنے کانتیجہ ہوا کہ راغب شکیب نے اپنے سفرنامہ ’’سفر ہم سفر‘‘میں خانپور کے حلقۂ ادب کا ذکر کرتے ہوئے روشن آرا نزہت کو بھی خانپور کی ناول نگار شمار کیا۔یہ بات جب روشن آرا کو معلوم ہوئی تو خوش ہوئیں کہ چلو آپ لوگوں کے شہر میں شمار کی گئی ہوں۔ روشن آراء نزہت جہاں بھی ہوں خدا انہیں خوش رکھے۔</b><br />
<b>راغب شکیب کے ذکر سے سیما شکیب یاد آگئیں۔ان کی شادی ہونے سے پہلے ہی سیما سے میرا رابطہ تھا۔وہ جدیدادب میں چھپا کرتی تھیں۔جب دونوں کی شادی کی خبر ملی تو بہت خوشی ہوئی۔پھر ان میاں بیوی سے سرگودھا میں بھی ملاقات ہوئی اور یہ لوگ ربوہ میں بھی مجھے ملنے آئے۔وہاں میں نے اپنے گھر پر ہی چند ادبی دوستوں کو بھی مدعو کر لیا تھا ۔ ڈاکٹرپرویز پروازی نے راغب کے سفر نامہ پر مضمون پڑھا تھا ۔سیما شکیب بطور شاعرہ چونکاتے ہوئے ابھری تھیں۔ان کی غزل تمام عام اور خاص شاعرات سے کچھ الگ دکھائی دیتی تھی۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>نہ میں کسی کی نہ کوئی مِری سہیلی تھی</b><br />
<b>ہر ایک کھیل میں اپنے خلاف کھیلی تھی</b></div><b>لیکن شادی کے بعد گھر گرہستی نبھانے میں ان کی شاعری کی چمک ماند پڑتی گئی۔اگرچہ انہوں نے بعد میں بھی راغب کے ساتھ مل کر کافی ادبی کام کیا لیکن ان کی وہ تخلیقی چمک جو شروع کی غزلوں اور نظموں میں دکھائی دی تھی ،نہ صرف ارتقائی سفر نہ کر سکی بلکہ اسی مقام پر بھی نہ رہ سکی۔یہ صرف سیما کا مسئلہ نہیں ہے ہمارے معاشرے میں خواتین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی وجہ سے کئی با صلاحیت خواتین اپنی خداداد صلاحیتوں کا پورا اظہار کر ہی نہیں پاتیں ۔اس کے باوجود کہا جا سکتا ہے کہ سیما شکیب اردو شاعرات میں اپنی الگ جگہ رکھتی ہیں۔ </b><br />
<b>پروین عاطف سے میرا قلمی رابطہ تھا لیکن آمنا سامنا کبھی نہیں ہوا تھا۔ افسانے بھی اچھے لکھتی ہیں لیکن مجھے ان کے سفر نامے زیادہ اچھے لگے۔اب کالم نگاری بھی کرنے لگی ہیں۔ایک بار ایک محفل میں ان کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو میں نے بتایا ہی نہیں کہ یہ میں ہوں ۔ میرے جانے کے بعد انہیں میرا علم ہوا تو افسوس کرنے لگیں۔ایک دو دوستوں سے بھی افسوس کا اظہار کیاکہ مجھے بتانا تو چاہئے تھا کہ میں حیدر قریشی ہوں۔لیکن میرے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ جن سے کافی سارا قلمی رابطہ تھا انہیں دیکھ بھی لیا تھا۔اور اب مجھے حلقہ ارباب ذوق اسلام آباد کی ایک تقریب یاد آرہی ہے۔اس میں بعض مرد حضرات کے انداز گفتگو کے نتیجہ میں پروین عاطف نے شکوہ کیا کہ خواتین کا کچھ لحاظ کرنا چاہئے، حلقہ کے اجلاسوں میں خواتین پہلے ہی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔تب ممتاز مفتی نے اپنی روایتی شگفتگی کے ساتھ کہا تھا:لیکن آٹے میں سارا مزہ تو نمک کی وجہ سے ہی ہوتا ہے۔</b><br />
<b>امریکہ میں مقیم ریحانہ قمر کا بہت چرچا سننے میں آرہا تھا۔ان سے رابطہ ہوا تو ادبی حوالے کے علاوہ ذاتی طور بھی اچھا لگا۔میں نے ان کے ساتھ جرمنی میں ایک تقریب کا اہتمام کر ڈالا۔ان کی کتاب’’ہم پھر نہ ملیں شاید‘‘ ملی تو پڑھ کر حیرت ہوئی کہ یہ تو پروین شاکر سے آگے کی کوئی شاعرہ ہیں۔جرمنی میں آئیں ،تقریب ہوئی،رونق میلہ رہا۔۔۔۔بعد میں میری زندگی کی یہ ایک ادبی غلطی ثابت ہوئی۔جب میں ان کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام کر رہا تھا مجھے امریکہ سے افتخار نسیم نے ایک دو بار بتایا کہ یہ خود نہیں لکھتیں بلکہ لاہور میں عباس تابش انہیں لکھ کر دیتے ہیں۔میں ان کی بات نہیں مانا تو افتخار نسیم نے اتناکہا دیکھ لینا بعد میں جب اصلیت سامنے آگئی تو خود ہی پچھتاؤ گے۔اس بات کے معاملہ میں افتخار نسیم ولی ثابت ہوئے۔ان کی بات سچ نکلی۔ بعد میں اصلیت کھل گئی۔جرمنی میں قیام کے دوران انہوں نے مجھ سے صرف ایک شاعر کے بارے میں فرمائش کی کہ اس کے اعزاز میں ایک تقریب جرمنی میں کرادوں ۔اس کے لئے پانچ سو ڈالر کی رقم دینے کی پیش کش بھی از خود کر دی۔(میں نے موقعہ پر ہی معذرت کر لی کہ اب ایسی تقریب کرانا مشکل ہے)۔پھر بھی انہوں نے غور کرنے کے لئے کہا۔میں نے بعد میں غور ضرور کیا لیکن اس بات پر کہ ریحانہ قمرنے صرف عباس تابش کے لئے ہی کیوں کہا؟</b><br />
<b>ایک اور بات جو مجھے کھٹکنے لگی۔۔۔جرمنی میں قیام کے پورے عرصہ میں بھی اور اپنے طویل دورانیہ کے ٹیلی فونز پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھی انہوں نے کبھی ادب کی صورتحال پر کوئی گفتگو نہیں کی۔ادبی اشوزکا کبھی کوئی ذکر نہیں کیا۔بس اپنی غزلیں سنا دیاکرتیں یا پھر دوسری گپ شپ۔میں ان کی غزل سنتے ہوئے پیچیدہ بحر کے باعث رُک رُک جاتا ۔اتنی عروضی مہارت پر حیرت ہوتی۔اسی دوران میں نے ان کی ایک زمین میں غزل کہی۔ان کی چار اشعار کی غزل ان کے شعری مجموعہ’’ہم پھر نہ ملیں شاید‘‘میں شامل تھی۔میں نے اس زمین میںآٹھ شعر کہے۔میں عام طور پر جن بحورمیں شعر کہتا ہوں یہ ان سے بالکل مختلف تھی اور سچی بات ہے اس بحر میں شعر کہتے ہوئے میں جیسے پسینے پسینے ہو گیا لیکن میں نے سارے کے سارے اچھے شعر نکالے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>جو بس میں ہے وہ کر جانا ضروری ہو گیا ہے</b><br />
<b>تری چاہت میں مر جانا ضروری ہو گیا ہے</b><br />
<b>درختوں پر پرندے لَوٹ آنا چاہتے ہیں </b><br />
<b>خزاں رُت کا گزر جانا ضروری ہو گیا ہے</b><br />
<b>نئے زخموں کا حق بنتا ہے اب اس دل پہ حیدرؔ </b><br />
<b>پرانے زخم بھر جانا ضروری ہو گیا ہے</b></div><b>جب یہ غزل محترمہ کو سنائی تو انہوں نے اسے اتنا رواروی سے لیا کہ میں حیران رہ گیا۔جس نے خود اس بحر کو نبھایا ہو اُس کی تودوسرے کے ہر شعر کے ایک ایک لفظ پر نظر ہوتی ہے کہ اس نے کیسے اسے ادا کیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہی غزل میں نے عباس تابش کو سنائی ہوتی تو وہ اس کے معائب اور محاسن کو ساتھ ساتھ دیکھتے جاتے۔شاعر اور غیر شاعر کے فرق کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب مجھے عباس تابش کا شعری مجموعہ’’چاند کسی سے مت کہنا‘‘مل گیا۔قطع نظر اس سے کہ ریحانہ قمر کے نام کے قمر اور عباس تابش کے مجموعہ کے چاند میں کسی روحانی نسبت کا اشارہ تو نہیں ہے ؟،مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ عباس تابش کی پسندیدہ بحور (جو میرے لئے کافی مشکل بحور ہیں۔شاید ہر شاعر کے اپنے مزاج سے ان بحور کا کوئی نہ کوئی تعلق ضرور ہوتا ہے)اور ریحانہ قمر کی بحور اصل میں دونوں ایک ہیں۔مجھے یاد آرہا ہے کہ انہیں دنوں میں غالباََ لاہور کی کسی تقریب کی رپورٹنگ میں یہ بات آئی کہ ریحانہ قمر کی شاعری میں نسائیت ملتی ہے۔اور افتخار نسیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہم نہ کہتے تھے کہ عباس تابش کی شاعری میں نسائیت پائی جاتی ہے۔</b><br />
<b>انہیں دنوں میں لالی چودھری کا ایک خط تخلیق لاہور میں شائع ہوا۔اس میں نام لئے بغیر بتایا گیا تھا کہ ایک شاعر نے ایک بھری محفل میں خود بتایا کہ مجھے فلاں خاتون نے اتنے ڈالرز دئیے ہیں کہ میرے لئے شاعری لکھو بھی اور اسے کتابی صورت میں چھپوا بھی دو ۔ میں نے ان شاعر اور شاعرہ کے بارے میں لالی چودھری اور نیر جہاں دو ذرائع سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ ’’شاعرہ‘‘ ریحانہ قمرہیں اور جس پاکستانی شاعر نے انکشاف کیا وہ عباس تابش ہیں۔نیر جہاں نے تو یہ بھی بتایا کہ جب میں نے عباس تابش کو اس ادبی بد دیانتی سے روکنا چاہا تو انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کام نہیں کروں گا توریحانہ کسی اور شاعر سے یہی کام کرا لے گی۔اس لئے مجھے ہی چار پیسے کما لینے دیں۔اور اب تو صرف عباس تابش ہی نہیں ہمارے ادب کے کتنے ہیں اچھے اور شاندار شعراء اس بُرے کام میں لگ گئے ہیں۔اور مغربی دنیا میں اردو کی نئی بستیاں زیادہ تر اسی طرح بسی ہوئی ہیں۔جو گنتی کے چند اچھے اورجینوئن لکھنے والے ہیں وہ ایسی بستیوں سے پرے اپنی ذات کے ویرانوں میں ادبی مراقبہ کر رہے ہیں۔</b><br />
<b>مجھے ذاتی طور پر جب واضح ہوگیا کہ محترمہ خود شعر نہیں کہتیں تب میں نے انہیں کہہ دیا کہ آپ کو یا تو اپنی ہی بحور میں موقعہ پر قافیہ ردیف کی تبدیلی کے ساتھ وزن میں شعر کہنے کے ٹیسٹ سے گزر نا چاہئے یا پھر دوسروں سے لکھوا کر کتابیں چھپوانے کا سلسلہ بند کرنا چاہئے ۔ساتھ ہی میں نے کہا کہ میں نے آپ کے بارے میں جو مضمون پڑھا تھا اسے کہیں نہیں چھپوائیے وگرنہ مجھے معذرت کے ساتھ اعلان کرنا پڑے گا کہ اسے اب ترمیم کے ساتھ اصل شاعر عباس تابش کی شاعری پر میرا مضمون شمار کیا جائے۔مغربی ممالک میں شاعر بن جانے والے بہت سارے شعرا اسی طرح کے ہیں۔اس المیہ کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہے کہ ایک تو یہاں اصل اور نقل کا فرق مٹتا جا رہا ہے۔ دوسرے سارے جعلی شعراء اپنے مالی وسائل کے بل پر اپنے ’’شاعر گروں‘‘اور دوسرے چاہنے والوں کے ذریعے پھر خود اوریجنل شعراء کے خلاف گند اچھالنا شروع کر دیتے ہیں۔مسئلے کا آسان حل یہی ہے کہ جو لوگ مغربی دنیا میں بس جانے کے بعد ادھیڑ عمر میں جا کر یکایک شاعر بن گئے ہیں ان سب کا پاکستان اور انڈیا میں جانے پر ایک ٹیسٹ لیا جائے جس میں صرف اتنا دیکھا جائے کہ یہ وزن میں شعر کہہ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟ ایسا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب ادب سے متعلق سرکاری اداروں میں بھی ایسے جعلی شعرا کی بڑے پیمانے پر پذیرائی ہونے لگی ہے۔یوں مختلف حکومتی شعبوں میں کرپشن کی جو داستانیں گزشتہ نصف صدی سے بنتی آرہی ہیں ان کی طرح اب ادب کے حکومتی شعبہ میں بھی ایسی کرپشن پھیلتی جائے گی۔ ریحانہ قمر اگر واقعی خود شعر کہتی ہیں اور ان کا اوریجنل شاعرہ ہونا ثابت ہوجائے تو میں نہایت شرمندگی کے ساتھ ان سے معافی مانگ لوں گا۔لیکن جو موجودہ صورت ہے اس کے مطابق وہ قطعاََ شاعرہ نہیں ہیں اور انہیں ان بحور میں تو شعر کہنے کا پتہ ہی نہیں جو اِن کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں۔ریحانہ قمر کے اس ذکر میں ان تمام شاعرات کو شمار کر لیا جائے جو جرمنی،انگلینڈ،امریکہ اور کینیڈا میں انہیں کی طرح یا پھر بے وزن ،شعری مجموعے چھپوا چکی ہیں یا چھپوارہی ہیں۔</b><br />
<b>ریحانہ قمر کے ذکر کے ساتھ افتخار نسیم کا ذکر ہوا ہے تو یہاں ان کا بھی کچھ بیان ہو جائے۔مجھے شروع میں ان کے جسمانی مسئلہ کا قطعاََ کوئی علم نہیں تھا۔یہاں تک کہ وہ جرمنی میں میرے ہاں آئے تو انہیں میں نے شادی کی تقریب میں مردانہ حصہ میں ٹھہرایا۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ انسانیت میں مرد اور عورت کی بجائے تیسری صنف سے تعلق رکھتے ہیں۔اور اس صنف میں بھی کہیں دو قسمیں ہوتی ہیں۔ایک مردانہ مخنث اور ایک زنانہ مخنث۔افتخار نسیم کا تعلق موخر الذکر سے ہے۔سو یوں خواتین شاعرات کے ذکر میں بھی انہیں شامل کیا جا سکتا ہے اور مرد شعرا کے ذکر میں بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ہمارے ہاں عام طور پر اس طبقہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میں اس طبقہ کے دوہرے استحقاق کا حامی ہوں۔افتخار نسیم جو اب افتی نسیم کے نام سے مقبول ہیں اس لحاظ سے بہت بہادر ہیں کہ اپنے پاکستانی ماحول کی سماجی گھٹن اور منافقت کے باوجود انہوں نے اپنی نام نہاد مردانگی کا بھرم رکھنے کی بجائے کھل کراپنی جسمانی حقیقت کو بتا دیا۔اس پر ان کے خاندان میں کہرام برپا ہوا۔ان کی ماں جیسی بڑی بہن نے انہیں خط لکھا کہ مجھے بتاؤ کس نے تمہیں اس راہ پر ڈالا ہے میں اس کا گلا گھونٹ دوں گی۔تب افتی نے اپنی بہن کو جواب میں کچھ ایسا لکھاکہ مجھے جس نے ایسا بنایا ہے ہمارے ہاتھ اس کے گلے تک نہیں پہنچ سکتے،صرف اس کے سامنے دعا کے لئے اُٹھ سکتے ہیں۔</b><br />
<b>چونکہ مجھے شروع میں افتی کے مسائل کا اندازہ نہیں تھا اس لئے میں انہیں ایک عام مرد ادیب کی طرح لیتا تھا۔چنانچہ ان کے ساتھ کچھ نوک جھونک بھی رہی لیکن جیسے ہی مجھے اصل بات کا علم ہوا مجھے اپنی ساری نوک جھونک کا افسوس ہوا اور افتی سے کسی قسم کا لفظی الجھاؤ بھی اچھا نہ لگا۔ہاں ویسے میں ان کے ساتھ ہلکی پھلکی جملہ بازی کر لیتا ہوں لیکن دلی احترام کے ساتھ۔اپنے کڑے جسمانی،نفسیاتی اور سماجی مسائل سے گزرتے ہوئے افتی نے تخلیقی اظہار سے اپنی شخصیت کو سنبھالا دیا ہے اور ایک بڑی،کڑوی سچائی کا اظہار کرکے معاشرتی منافقت کو بھی آئینہ دکھایا ہے۔اپنے مخصوص موضوع کے حوالے سے افتی کو امریکہ کے بعض نصابوں میں بھی جگہ مل گئی ہے جو بہر حال اس کی کامیابی ہے۔ </b><br />
<b>لندن میں عطیہ خان سے ملاقات ہوئی،بزرگ اور بھلی خاتون ہیں۔مختلف نثری اصناف میں طبع آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ان سے بعض اصناف خلط ملط بھی ہو جاتی ہیں۔ اپنی ہلکی پھلکی تحریروں کو انشائیہ لکھ دیتی ہیں۔ ان کے افسانوں کا مجموعہ چھپا تو اس میں کام کی چیز وہ تحریر تھی جس میں انہوں نے اپنی داستان بیان کی تھی۔بڑی پُر تاثیر تحریر تھی۔اسے ادبِ لطیف لاہور نے بھی اپنی ایک اشاعت میں شائع کر دیا تھا۔میں نے انہیں توجہ دلائی کہ اپنے افسانوں اور اس مضمون کے فرق کو دیکھیں اور اپنی داستان جیسی تحریریں اردو ادب کو عطا کریں۔</b><br />
<b>رضیہ اسماعیل سے ابھی تک ملاقات نہیں ہوئی۔اصلاََ ان کا ذکر یادوں کی اس قسط میں ہونا چاہئے تھا جس میں اَن دیکھے احباب کا ذکر ہے، لیکن شومءئ قسمت کہ اس قسط میں ان کا ذکر کرنا بھول گیا۔ان سے رابطے اور تعلق کی ایسی صورت ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر یادوں کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکے گا۔اس لیے خواتین سے متعلق اس قسط میں ہی ان کا ذکر کر رہا ہوں۔یوں بھی ہمارا باہمی رابطہ اتنا زیادہ رہا ہے کہ اسے براہِ راست ملنے جیسا ربط بھی کہا جا سکتا ہے۔رضیہ اسماعیل انگلینڈ کی ان معدودے چند خواتین میں شمار ہوتی ہیں جو بیک وقت شعر بھی کہتی ہیں اور نثر بھی لکھتی ہیں۔طنزیہ مزاحیہ مضامین لکھتی ہیں تو انہیں اسی حیثیت میں پیش کرتی ہیں،انشائیہ یا کوئی اور اس طرح کا لیبل نہیں لگاتیں۔غزل سے لے کر نثری نظم تک میں طبع آزمائی کر چکی ہیں اور ان سب کے الگ الگ مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔خواتین کی ادبی و ثقافتی تنظیم آگہی کی سربراہ ہیں اوراس کے لیے متحرک بھی رہتی ہیں۔</b><br />
<b>میرے لیے دو حوالوں سے خاص اہمیت رکھتی ہیں۔انہوں نے مجھ سے کوئی رابطہ ہونے سے پہلے ماہیا نگاری شروع کر رکھی تھی اور مجھ سے تب رابطہ ہوا جب ان کا مجموعہ تقریباََ مکمل ہو چکا تھا۔ان کے ماہیے اپنے ذائقے اور مزاج کے لحاظ سے مغربی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے دل کی آواز ہیں،شاید ایسی آواز جسے سب اپنے اندر سنتے ہیں لیکن سب ہی دوسروں سے چھپاتے ہیں۔صرف دو مثالوں سے ہی میری بات کو جانچا جا سکتا ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>کڑوے ہیں سکھ ماہیا کلچر کا رونا ہے </b><br />
<b>کس کو سنائیں اب آکے ولایت میں </b><br />
<b>انگلینڈ کے دُکھ ماہیا اب کچھ تو کھونا ہے </b></div><b>رضیہ اسماعیل نے ایک اور اچھا کام یہ کیا کہ بی بی سی ایشیا کے ذریعے اردو ماہیا کو متعارف کرایا۔نہ صرف ماہیا کو متعارف کرایا بلکہ میرا بھی وہاں سے ایک انٹرویو کرا دیا۔یہ انٹرویو بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی درمیانی شب کافی دیر تک جاری رہا۔اور دونوں صدیوں کا نکتۂ اتصال اس میں شامل رہا۔میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی اور یہ صرف رضیہ اسماعیل کے ذریعے ہو پایا تھا۔بعد میں بی بی سی ایشیا کے منتظمین مجھے فون کرکے مختلف شاعروں کے نام اور فون نمبرز مانگتے رہے۔یوں میں نے پاکستان اور انڈیا میں مقیم اپنے بہت سارے دوستوں کے بی بی سی ایشیا ریڈیو کے ذریعے براہِ راست انٹرویوز کرادئیے۔جن دوستوں کے انٹرویوز نشر ہوئے انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا تاہم انٹرویوز کے ہونے کو اپنے عظیم ادیب ہونے کاثبوت نہیں بنایا۔صرف انڈیا سے دو دوستوں نے ایسا کیا اور ان کے ایسا کرنے پر مجھے شرمندگی ہوتی رہی جب وہ لکھ رہے تھے اور چھاپ رہے تھے کہ انڈیا سے صرف ہمارا برا ہِ راست انٹرویو ہوا ہے جبکہ اس دوران اور ان سے پہلے بھی کئی پاکستانی اور انڈین اردو شاعروں،شاعرات کے انٹرویوز ہو چکے تھے اور میرے ہی ذریعے ہو چکے تھے۔میری شرمندگی دہری تھی کہ ان کے فخریہ اعلان چھپنے کے بعد میں انہیں یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان کا دعویٰ غلط ہے اور دوسری طرف جن دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایسا دعویٰ کیا جا رہا ہے میں ان کے سامنے بھی سوائے شرمندگی کے اظہار کے اور کچھ نہ کر سکا ۔جبکہ صرف ترنم ریاض کا دو بار انٹرویو ہو چکا تھا۔بہر حال اس سارے اچھے کام کے عقب میں بنیادی کردار رضیہ اسماعیل کا تھا۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد رضیہ اسماعیل اب ڈاکٹر رضیہ اسماعیل بن چکی ہیں،تاہم میں انہیں لیڈی ڈاکٹر رضیہ اسماعیل کہتا ہوں۔ </b><br />
<b>فرزانہ خان نیناں انگلینڈ کے شہر نوٹنگھم میں رہتی ہیں۔ایک بار جرمنی کے کسی مشاعرے میں شرکت کے لئے آئیں تو میرے ہاں بھی آئیں۔ان کے شوہر اختر خان بھی ساتھ تھے۔پھر جب ایک بار میں انگلینڈ کی ایک کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے گیا تو دونوں میاں بیوی لندن آئے،مجھے اپنے شہر لے گئے،وہاں ایک چھوٹی سی تقریب برپا کر ڈالی اور پھر کانفرنس میں بھی شرکت کرکے ساتھ رہے۔میں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ نام میں سے نیناں کو حذف کر دیں لیکن انہوں نے میرا مشورہ قبول نہیں کیا۔اپنے اپنے ذہن کی بات ہے۔شاید میرا مشورہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ایک بار انہوں نے اپنی پسند کے گانوں کی ایک کیسٹ خود ریکارڈ کرکے مجھے تحفتاََ بھیجی۔ان گانوں میں ایک گانا موسیقار روی کی اپنی آواز میں تھا جسے میں ایک عرصہ سے تلاش کر رہا تھا۔وہ کیسٹ میں نے ابھی تک سنبھال رکھی ہے۔کچھ عرصہ سے ان کی شاعری میں ان کے معمول سے زیادہ پختگی آنے لگی ہے جو ظاہر ہے ان کی شعرو ادب سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔کچھ عرصہ ایک ٹی وی چینل سے بھی وابستہ ر ہیں۔ایک ادبی پروگرام کرتی تھیں جس میں کئی کال کرنے والے مزے سے بے وزن اشعار بھی سناتے ۔ لیکن بے وزن شعر سنانے والے تو ہر چینل پر کال کرتے سنائی دیتے ہیں۔شاید فرزانہ خان کے پروگرام میں ان کا تناسب نسبتاََ کم ہی رہا۔</b><br />
<b>پروین شیر کینیڈا میں ایک طویل عرصہ سے مقیم ہیں۔(اس طویل عرصہ سے ان کی عمر کا اندازہ لگانے کی کوشش نہ کریں۔ملاقات پر سارے اندازے غلط ثابت ہوں گے)ان سے چند برسوں سے انٹرنیٹ کے ذریعے رابطہ تھا۔ستیہ پال آنند نے بھی ان کی تعریف کی تھی ۔ شاعرہ ہونے کے ساتھ مصورہ بھی ہیں اور موسیقی سے بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہیں شاعرہ،مصورہ اور موسیقار کہا جا سکتا ہے۔ان کا شعری مجموعہ’’کرچیاں‘‘ حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر کرسٹینا نے ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں اس کتاب کی تقریب کی ۔تقریب کے بعد پروین شیر اور ان کے شوہر وارث شیر میرے گھر آئے،دو تین دن ہمارے ہاں رہے۔ان کی کتاب دیکھی تو دیکھتے ہی رہ گئے۔سائز کے بارے میں پروین بتا رہی تھیں کہ اسے ’’کافی ٹیبل بک‘‘ کہتے ہیں۔میں نے کہا کہ یہ توکافی ٹیبل سے بھی کافی بڑے سائز کی بک لگ رہی ہے۔بہر حال اس کتاب میں ان کی اردو شاعری کے ساتھ انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے اور ہر نظم یا غزل کے ساتھ موضوعاتی اعتبار سے میل کرتی ہوئی ان کی اپنی بنائی ہوئی پینٹنگ دی گئی ہے ۔یوں یہ کتاب اردو اور انگریزی کے قارئین کے ساتھ مصوری سے دلچسپی رکھنے والوں کی توجہ بھی حاصل کرتی ہے اور اپنی پیش کش کے لحاظ سے واقعتاََ ایک منفرد تجربہ ہے۔ پروین شیر کی کامیابیوں کے پیچھے ان کے شوہر پروفیسر وارث شیر کی حوصلہ افزائی کا بڑا عمل دخل ہے۔پروین شیر کا خاندانی پس منظر بھی علم و ادب سے منور ہے۔ شکیلہ اختر اور اختر اورینوی دو بڑے حوالے ہیں جو ان کے خالہ، خالو تھے۔</b><br />
<b>اور اب کچھ ذکرفرحت نواز کا۔خانپور میں جدید ادب کے سات آٹھ برس ہم نے مل کر رسالہ نکالا تھا۔فرحت کی شاعری میں ایک انوکھی چمک تھی۔میرا خیال ہے شعر کہنے کے لئے جس انسپائریشن کی ضرورت ہوتی ہے ،ہم ایک دوسرے کے لئے ویسی انسپائریشن رہے ہیں۔اس کا اندازہ پہلی بار تب ہوا جب ملتان یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے ہم دونوں کے ساتھ ایک تقریب کا اہتمام کیا۔ہمیں باری باری بلایا جا رہا تھا۔میں کچھ غزلیں سنا کر جاتا،پھر فرحت سے کچھ سنا جاتا۔دو تین بار ایسا ہوا تو لگا کچھ سوال جواب جیسی صورت خوامخواہ بن رہی ہے۔رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب فرحت نے میرے بعد آتے ہی اپنی نظم شروع کر دی’’مجھ کو اوور ٹیک نہ کرنا‘‘۔اور ان کی نظم کے بعد ڈاکٹر انوار احمد نے کچھ دلچسپ سے جملے کہہ دئیے۔فرحت کے ساتھ تب تک رابطہ رہا جب تک جدید ادب جاری رہا اور میں خانپور میں رہا۔جب رسالہ بند ہوا تو میں خانپور شہر کو چھوڑ کر گوجرانوالہ،ربوہ ،لاہوراور ایبٹ آباد تک بھٹکتا پھرا ۔اس کے بعد رابطہ منقطع ہو گیا ۔تب تک وہ ایم اے اکنامکس اور ایم اے انگریزی کرنے کے بعد انگریزی کی لیکچرر ہو گئی تھیں۔پھر ایک بار پتہ چلا کہ انہوں نے شادی کر لی ہے اور اپنی شادی کی تصویریں میرے لئے بھیجی ہیں۔افسوس میں ان کی انڈونیشین نژاد سہیلی ایڈا(سعیدہ) تک دیر سے پہنچا۔وہ کافی انتظار کے بعد فرحت کو ان کی وہ البم واپس بھیج چکی تھیں جو میرے لئے بھیجی گئی تھی۔اس کے بعد وہ اپنی لیکچرر شپ اور ازدواجی زندگی میں مصروف ہو گئیں اور ادب پس پشت چلا گیا۔کبھی کبھار ادھراُدھر سے خبر مل جاتی کہ اب وہ ایک بچے کی ماں بن گئی ہیں،اب دو بچوں کی ماں بن گئی ہیں۔</b><br />
<b>اسی دوران جب بہاولپوریونیورسٹی میں میرے بارے میں تحقیقی کام شروع کیا گیا تو مقالہ نگار بچی نے میرے دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے سوالنامہ تیار کیا،جو کہیں فرحت کو بھی پہنچایا گیا۔تیرہ دوستوں اور عزیزوں میں سے فرحت کے جواب سب سے پہلے مقالہ نگار کو موصول ہوئے۔فرحت نے نہ صرف بڑے خلوص کے ساتھ سوالات کے جواب دئیے بلکہ میری حیثیت سے کہیں زیادہ مجھے عزت دی۔یوں ہمارا رابطہ پھر سے بحال ہو گیا۔میرا بڑا بیٹا شعیب اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان گیا تو فرحت کے گھر بھی گیا اور ان کی ساری فیملی سے مل کر آیا۔پھر طارق پاکستان گیا تو وہ بھی ان سب سے مل کر آیا۔ میری خواہش تھی کہ فرحت پھر سے تخلیقی طور پر متحرک ہوں،وہ بھی ایسا چاہنے لگی تھیں لیکن غالباََ گھریلو اور تدریسی مصرفیات انہیں مہلت نہیں دے رہیں۔ فرحت کے ساتھ میرے روابط میں لاگ اور لگاؤ دونوں تھے لیکن ان کے ساتھ سب سے اہم چیز ہمارا ایک دوسرے پر گہرا اعتماد اوررشتوں کے تقدس کا احترام تھا۔مجھے خوشی ہے کہ ہم دونوں نے اپنے رشتوں کی پاکیزگی کو کبھی بھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ان کے ساتھ رابطہ رہے یا نہ رہے لیکن ایک انسپائریشن اور ایک اعتماد کبھی کم نہیں ہوئے ۔</b><br />
<b>فرحت نواز،پروین عزیز اور ثمینہ راجہ تینوں میرے آبائی علاقہ کی شاعرات تھیں۔فرحت کو جتنے مواقع میسر آئے انہوں نے عمدہ ادبی کام کیا۔پروین کے ساتھ کچھ میں نے اور کچھ قسمت نے اچھا نہیں کیا اور یوں ایک بہت اچھی شاعرہ سامنے نہ آسکیں۔ثمینہ کے حالات بھی کچھ ایسے موافق نہ تھے لیکن انہوں نے اپنے حالات سے خود ٹکر لی ،قسمت نے ان کا ساتھ دیااور اب بہر حال وہ اردو کی ایک اچھی بلکہ بہت اچھی شاعرہ شمار کی جاتی ہیں۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>*** </b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com1tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-65608096186789082202011-07-15T02:03:00.000-07:002011-07-15T23:21:20.754-07:00رہے نام اللہ کا<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">رہے نام اللہ کا</span></b></div><div style="text-align: right;"><br />
<br />
<b>نام تو اللہ کا ہی رہنے والا ہے،باقی سب کو فنا ہے لیکن یہ نام کیا چیز ہے؟چلیں ہم انسان تو نام کی مجبوری رکھتے ہیں ،کیا خدا کوبھی نام کی ضرورت ہے؟یہ مسئلہ تھوڑا سا نازک ہے،اس لئے اس پر آگے چل کر بات کروں گا۔فی الحال اپنے نام کے ساتھ یورپ میں ہونے والے سلوک کا حال بتادوں۔میرا پورا نام قریشی غلام حیدر ارشد ہے۔ادب کی دنیا میں آیا تو اتنے طویل نام کو سنبھالنا مشکل لگا،سو قلمی نام حیدر قریشی موزوں لگا اور اسے اختیار کر لیا۔ میرے آنے سے پہلے میری اہلیہ اور تین بچے جرمنی پہنچ چکے تھے۔پاکستان میں تو تین چار ٹکڑوں کے نام عام طور پر رکھے جاتے ہیں۔اور ان ٹکڑوں میں فیملی نام اور پہلے نام کی تخصیص بھی نہیں کی جاتی۔چنانچہ چوہدری شاہ محمد صاحب کی اگلی پیڑھی آسانی سے شاہ صاحب بن جاتی ہے۔لیکن ادھر یورپ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ بچے دو ہی اچھے کی طرح نام کے بھی دو ہی حصے اچھے۔مبارکہ سے پوچھا گیا کہ فیملی نام کیا ہے؟اس نے آسانی سے خود کو مبارکہ حید ر لکھوا لیا۔بچوں کے نام بھی اسی طرح حیدر فیملی نام کے ساتھ لکھ لئے گئے۔جب میں جرمنی میں پہنچا تو میرے ساتھ آنے والے بیٹوں نے بھی اپنے نام شعیب حیدر اور عثمان حیدر لکھوائے،جبکہ میں نے اپنا پورا نام قریشی فیملی نام کے ساتھ درج کرایا۔اب صورتحال یوں بنی کہ میرے گھر کے باقی سارے افراد کا فیملی نام حیدر تھا اور میرا فیملی نام قریشی۔کسی آفس سے واسطہ پڑتا تو وہاں تھوڑی سی الجھن ہوتی لیکن پھر مسئلہ حل ہوجاتا۔</b><br />
<b>اسی دوران ایک آفس کی افسر نے بتایا کہ ہمیں تو اس صورتحال سے کوئی پریشانی نہیں ہے لیکن آگے چل کر جب آپ لوگوں نے جرمن نیشنلٹی حاصل کرنا چاہی ،تب آپ لوگوں کو فیملی بک بنواتے وقت مشکل پیش آئے گی۔اس لئے یا تو باقی سب کا فیملی نام قریشی کرا لیں یا اپنا فیملی نام حیدر کر لیں۔مجھے مسئلے کی نزاکت کا اندازہ ہو گیا۔اس کا حل ڈھونڈنے کے لئے ایک وکیل سے رابطہ کیا۔فیملی نام میں تبدیلی سرکاری اور عدالتی سطح پر کرانا ہوتی ہے اور فی کس کے حساب سے یکساں فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔اب صورتحال یوں بنی کہ یا تو میرا فیملی نام بھی حیدر کرا لیا جائے اور صرف ایک بندے کی فیس ادا کی جائے یا پھر چھ افراد کا فیملی نام قریشی کرایا جائے اور چھ گنا زیادہ فیس ادا کی جائے۔اپنی مالی حالت دیکھتے ہوئے یہی مناسب لگا کہ میرا فیملی نام ہی حیدر کرا لیا جائے۔سو یوں اب میرا فیملی نام حیدر ہو گیا اور پہلا نام شاہ محمد کی طرح قریشی ہو گیا۔یوں قریشیت کے حوالے سے ہم اہلِ عرب خود ہی عجم ہوگئے۔باقی صاحب! کہاں کا عرب اور کہاں کا عجم۔ہم سیدھے سادے پاکستانی تھے اور اب اتنی ہی سیدھی سادی پاکستانی اصلیت کے ساتھ جرمن نیشنلٹی کے حامل ہیں۔فیملی نام کی اس تیکنیکی تبدیلی کے نتیجہ میں واقعتاََ ہم بہت سی قباحتوں سے بچ گئے اور بہت سارے کام بڑی آسانی سے ہو گئے۔</b><br />
<b>فیملی نام کے مسئلہ کو شاید پاکستانی دوست ٹھیک سے نہ سمجھ پائیں اس لئے یہاں کی بہت ساری مثالوں میں سے ایک دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں۔ایک لڑکے کے والدرانا تھے اور پاکستان میں مجسٹریٹ تھے،ان کی والدہ قریشی تھیں۔میاں بیوی میں علیحدگی ہوگئی۔لڑکے کی والدہ بیٹے کو لے کر جرمنی میں آگئیں۔یہاں انہوں نے اپنا فیملی نام قریشی لکھوایا اور اسی مناسبت سے راجپوت بیٹے کا فیملی نام بھی قریشی ہو گیا۔ایک خاتون پہلے جرمنی پہنچیں تو انہوں نے اپنے نام کے ساتھ بیگم لکھوایا۔اندراج کرنے والوں نے بیگم کو بطور فیملی نام لکھ لیا۔اس کے بعد لطیفہ اس وقت بنا جب ان کے ہر بچے کے نام کے ساتھ بیگم بطور فیملی نام کے لکھا گیا۔مثلاََ عتیق بیگم،لئیق بیگم وغیرہ۔اس فیملی کو واقعتاََ بعد میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اور کئی برس کی بھاگ دوڑ کے بعد اب اپنے نام ٹھیک کرا سکے ہیں ،جبکہ خرچہ بھی بہت کرنا پڑا۔ </b><br />
<b>یہ نام اور ذات کیا ہے؟ بلہے شاہ نے کہا تھا: </b></div><div style="text-align: center;"><b>چل اوئے بلہیا اوتھے چلیے جتھے سارے اَنھیں </b><br />
<b>نہ کوئی ساڈی ذات پچھانے نہ کوئی ساہنوں منے </b><br />
<b>(بلہے شاہ! چلو وہاں چلیں جہاں سب اندھے ہوں، </b><br />
<b>تاکہ نہ کوئی ہماری ذات پہچان سکے اور نہ ہی ہمیں مانے۔)</b></div><div style="text-align: right;"><b>ذات اور ہستی تو صرف خدا ہی کی ہے۔اور نام ۔۔پتہ نہیں خدا کا کوئی ایسا نام بھی ہے جس کے بغیر اس کی شناخت ممکن نہ ہو؟جہاں تک مختلف مسالک اور مذاہب کا تعلق ہے،جسے خدا کا جو نام ملا ہواہے یا بتا دیا گیا ہے وہ اسی نام کو خدا کا اصل نام قرار دیتا ہے۔اورخدا کے لئے دوسروں کے اختیار کردہ ناموں کوصفاتی یا فرضی نام سمجھتا ہے۔یہاں جرمنی میں مسیحی فرقہ یہوواہ وٹنسز کے کچھ لوگ میرے پاس آتے رہے۔ان کا کہنا ہے کہ خدا کا اصل نام یہوواہ ہے۔میں نے انہیں کہا کہ سارے اچھے نام جو خدا کے لئے بولے جاتے ہیں،میں ان سب کا احترام کرتا ہوں۔اس لئے مجھے یہوواہ کے نام پر بھی کوئی اعتراض نہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ صرف یہی نام خدا کا حقیقی نام ہے۔پاکستان میں بھی اسلام کے نام پر انتہا پسندی کی جو لہر آئی ہوئی تھی اس کے نتیجہ میں وہاں خدا کا لفظ ایک طرح سے ممنوع قرار دے دیا گیا اور صرف’ اللہ ‘نام کو حقیقی قرار دیا گیا۔’اللہ‘ نام تو خود میری روزمرہ بول چال کا بھی حصہ ہے لیکن میں صرف اسی پر ایسا اصرار نہیں کرتا کہ دوسروں کے ناموں پر پابندی لگادوں۔خدا کا نام تو ویسے بھی فارسی روایت کا حصہ ہے جو اردو میں رچ بس چکاہے۔خدا کے نام کوچھوڑ کر صرف اللہ پر اصرارکرنے والے دنوں میں مجھے اکبر الہٰ آبادی کا ایک شعر یاد آتا رہا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں </b><br />
<b>کہ اکبر ؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں</b></div><div style="text-align: right;"><b>لفظ اللہ کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ اِیل الہٰ سے بنا ہے۔ الہٰ کا مطلب ہے معبود۔ اِیل کا لفظ خدا کے لئے بولا جاتا ہے۔حضرت اسماعیل کا اصل نام اسمع اِیل ہے۔یعنی خدا نے سن لی۔بی بی ہاجرہ کے دکھ کو دیکھ کر خدا نے ان کی سن لی اورفرشتہ کے ذریعے انہیں ایک بیٹا ہونے کی بشارت دی تھی۔اور اس کا یہی نام رکھنے کا حکم دیا تھا یعنی اسمع اِیل۔چار معروف فرشتوں کے نام بھی خدا (اِیل)سے ان کی وابستگی اور نسبت کو ظاہر کرتے ہیں۔جبرایل، میکائیل، عزرائیل ، اسرافیل ۔ ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بنائے ہوئے بیت اِیل کا ذکر بھی بائبل میں موجود ہے۔اور بائبل میں بعض دوسرے مقامات پر بھی ایل بمعنی خدا مذکور ہے۔ باقی واللہ اعلم! </b><br />
<b>جرمن زبان میں خدا کے لئےt Got گاٹ کا لفظ بولا جاتا ہے۔اس کا صحیح تلفظ گاٹ اور گوٹ کے درمیان کی آوز میں ہے۔جس میں گؤٹ سے ملتی جلتی آواز نکلتی ہے۔میں یہاں جس اولڈ ہوم میں ملازم ہوں،یہاں ایک بزرگ خاتون فراؤ کلاسن (Frau Klassen) داخل ہوئی تھیں،اب فوت ہو چکی ہیں۔وہ جب کبھی کسی بات پر جھنجھلا جاتیں تو گوٹ گوٹ گوٹ گوٹ چار پانچ بار ایک ساتھ کہہ جاتیں اور میں دل ہی میں کہتا فراؤ کلاسن تم نے تو اپنے خدا کو گھوٹ کر رکھ دیا۔ </b><br />
<b>سائنسی ترقی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کمپیوٹر سے کلوننگ کے عہد تک آگئی ہے۔ابھی آئرن ایج تھا،’’لوہے کے پر اُگ آئے‘‘تھے،ہم اسی عہد کے سحر میں تھے کہ ڈیجیٹ ایج شروع ہوگیا ۔چِپ کی جادو گری کی حیرتیں ختم نہیں ہوئیں کہ کلوننگ کا زمانہ بھی شروع ہو گیا۔اور ابھی پتہ نہیں مزید کیا سے کیا ہوتاجائے گا۔نئی سائنسی ترقیات سے ایک سطح پر مذہبی تصورات میں ٹوٹ پھوٹ ہورہی ہے تو ایک بڑی سطح پر مذہب کااثبات بھی ہو رہا ہے۔</b><br />
<b>کمپیوٹر چِپ کی کارکردگی دیکھیں تو اس میں لکھت پڑھت کے ساتھ آڈیو،ویڈیو ریکارڈنگ بھی محفوظ ہو جاتی ہے۔اگر انسانی چِپ کی کار کردگی اتنی حیران کن ہے تو منکر نکیر کے تصوراور انسانی اعمال و افعال کی خدائی ریکارڈنگ کی بات بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔</b><br />
<b>میں چھ سات برس تک تو کمپیوٹر سے اور انٹر نیٹ سے جنون کی حد تک وابستہ رہا ہوں۔لیکن اب لگتا ہے دریا کی سیلابی کیفیت ختم ہو گئی ہے اور بس عام بہاؤ والی حالت ہو گئی ہے۔معمول کے اخبارات دیکھے،ای میلز پڑھیں،جواب بھیجے،اپنا ادبی کام کیا اور بس!وہ جو کئی کئی گھنٹے کمپیوٹر پر بیٹھنے کا شوق تھا اب ختم ہوگیا ہے۔ہاں معمول کے مطابق روزانہ ایک سے دو گھنٹے تک کمپیوٹر پر صرف ہوجاتے ہیں ۔تاہم اپنے سارے بچوں کے مقابلہ میں اب بھی کمپیوٹر پر زیادہ وقت میں ہی بیٹھتا ہوں۔</b><br />
<b>جب میرے بچوں کے بچے گھر پر آتے ہیں،مجھے اپنی بہت ساری چیزوں کی فکر رہتی ہے اور میں ان سے انہیں بچائے پھرتا ہوں۔ایک سال سے نو سال کی عمر تک کے یہ سارے بچے مجھ سے متعلق چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔میری کتابیں ہوں،ٹوپیاں ہوں،کھانے پینے کی شوگر فری اشیاء ہوں یا میرا کمپیوٹر ہو،میرے پوتے ، پوتیاں ،نواسے سب اپنے اپنے طور پر داؤ میں لگے رہتے ہیں۔ٹوپیاں پہن لیں گے،اشیاء چکھتے پھریں گے۔ ایک بچہ میری زیر مطالعہ کتاب کو اٹھائے گا اور جو صفحہ ایک بار دیکھ لے گا ،اسے پھر کوئی اور کتاب میں نہیں دیکھ سکے گا۔ایک پوتاپہلے کتابیں کتر کتر کر کھاتا تھا۔میں نے کہا بھئی یہ تو علم اور ادب کو ہضم کر رہا ہے۔ کمپیوٹر پرنٹر کے لئے اے۔۴ سائز کے پیپرز کے پیکٹس کو بچے ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر ہر بچہ ان پیپرز پر اپنی مرضی کی پینٹنگ یا شاعری کر رہا ہوتا ہے۔پیپرز کو بچوں سے بچانے کے لئے آخر اپنے کمپیوٹر کے ساتھ منسلک پرنٹر کو میں نے کمپیوٹر ٹیبل پر اس طرح سیٹ کیا کہ بچوں کا ہاتھ کاغذات والے حصے تک پہنچ ہی نہ سکے۔ میں مطمئن ہو کر بیٹھ گیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد دیکھا تو سب کے ہاتھ میں پیپرز تھے اور وہ اپنے معمول کے مطابق پینٹنگ یا شاعری’’ کرنے‘‘ میں مصروف تھے۔پہلے بڑے افراد سے پوچھا کہ کس نے انہیں اتنے سارے پیپر نکال کر دئیے ہیں؟۔۔کسی بڑے نے ایسا نہیں کیا تھا۔پھر بچوں سے ڈائریکٹ تفتیش شروع کی تو پتہ چلا بڑے پوتے نے سب کو پیپر نکال کر دئیے ہیں۔میں نے اس سے پوچھا آپ میز کے اوپر چڑھ گئے تھے؟ پوتے نے بتایا کہ نہیں ویسے نکالے ہیں۔میں اسے کمپیوٹر والے کمرے میں لایا۔اس کی عمر ،قد اور میز پر رکھے پرنٹر کی سیٹنگ ایسی تھی کہ وہ کسی کی مدد کے بغیر یا میز پر چڑھے بغیر پیپر نکال ہی نہیں سکتا تھا۔میں نے اسے کہا ایک اور پیپر نکال کر دکھاؤ۔</b><br />
<b>پوتے نے فوراََ پرنٹر کا سوئچ آن کیا پھر اس کے اس بٹن کو دبایا جس کے ذریعے حسبِ ضرورت فوٹو کاپی نکالی جا سکتی ہے۔بٹن دبانے کی دیر تھی بالکل پیچھے رکھے ہوئے پیپرز میں سے ایک پیپر باہر �آگیا۔چونکہ فوٹو کاپی کرنے کے لئے کوئی میٹر نہیں رکھا تھا اس لئے پیپر پلین ہی آنا تھا۔میں پوتے کی ترکیب پر حیران ہو کر ہنس رہا تھا اور پوتا مجھ سے پوچھ رہا تھا دادا ابو ! اور کاغذ نکال دوں؟ </b><br />
<b>پوتے کے ساتھ اس تجربہ کے بعد مجھے لگا کہ کمپیوٹر چِپ کے کمالات کی طرح،اگلی زندگی میں ہمارے اعمال کا سارا ریکارڈ ہونے کے باوجود ہم گنہگاروں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی کئی ترکیبوں پر اللہ میاں بھی پہلے تو پوچھے گا کہ اوئے بدمعاشو! تم نے یہ ساری حرکتیں کیسے کی تھیں؟ اور پھر ہمارے کسی جواب کے بغیر ہی ہنس دے گا کہ وہ تو سب کچھ ہی جانتا ہے۔اس کے پاس سارا ریکارڈ بھی موجود ہے ۔</b><br />
<b>کمپیوٹر برق رفتاری کی علامت ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں رفتار بہت تیز ہے۔ہم لوگ ۳۰ میل فی گھنٹہ سے زندگی شروع کرنے والے ۵۰ کلو میٹر فی گھنٹہ تک ہی پاکستان میں خوش ہوجاتے تھے۔کسی عزیز کو الوادع کہنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر جاتے یا کوئی ہمیں الوداع کہنے آتا،گاڑی ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ رینگنا شروع کرتی تو الوداع کہنے والے چلتی ٹرین کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے چلتے اور الوداع کہنے کا یہ ایک ڈیڑھ منٹ کا وقت جیسے ملنے اور بچھڑنے کے سارے زمانے ساتھ لئے ہوتا تھا۔ابا جی کبھی ہمیں ٹرین پر سوار کرنے آتے تو عموماََ پلیٹ فارم کے آخری سرے تک ساتھ ساتھ چلتے آتے۔اور جب پلیٹ فارم اور ابا جی ایک ساتھ آنکھ سے اوجھل ہوجاتے تو اگلی منزل پر جانے کی خوشی کے باوجود ایسے لگتا جیسے ابا جی گم ہوگئے ہیں۔اور اب کہ زندگی کی اس منزل پر آگیا ہوں جہاں لوکل ٹرین بھی سٹارٹ ہوتی ہے تواتنی رفتار پکڑ لیتی ہے کہ ایک قدم بھی ساتھ ساتھ چلنے کی نوبت نہیں آنے دیتی۔یہاں ایک بار بچوں کو ٹرین کے ذریعے سفرکرکے ہمبرگ جانا تھا،میں انہیں خدا حافظ کہنے کے لئے ریلوے اسٹیشن تک ساتھ گیا۔جب ٹرین روانہ ہوئی تو میں بچوں کو ٹرین کے ساتھ چلتے چلتے ہاتھ ہلا کرخدا حافظ کہنے کی خواہش دل میں ہی لئے رہ گیا۔لیکن اس تجربہ نے مجھے فرینکفرٹ ریلوے اسٹیشن پر ابا جی سے ملا دیا۔مجھے لگا ابا جی عدم کے پلیٹ فارم پر کھڑے مجھے زندگی کی ٹرین میں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ،ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ </b><br />
<b>خیر بات ہو رہی تھی مخصوص جدید سائنسی تجربات و ایجادات کی۔ حال ہی میں کلوننگ کا ایک انوکھا تجربہ کا میابی کے ساتھ کیا گیا تھا۔کسی جاندار کے کسی ایک سیل کو لے کر سائنسی عمل سے گزار کر ہوبہو ویسا ہی جاندار بنا دینا۔یہاں تک کہ آپ کے مکھڑے پر دائیں جانب تل ہے تو آپ کے ایک سیل سے بنایا جانے والا آپ کا ہمزاد بھی بعینہ ویسے تل کا حامل ہوگا۔اس کے نتیجہ میں پیدائش کے عمل میں مرد اور عورت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی۔یہاں ٹیسٹ ٹیوب بے بی والا کوئی جھنجھٹ بھی نہیں ہے۔ بے شک یہ تجربہ ایک سطح پر بہت سارے مذہبی تصورات کو توڑتا دکھائی دیتا ہے۔میرے جیسا بندہ جو بچپن میں خوش الحانی سے ایک نظم میں یہ شعر پڑھا کرتا تھا</b></div><div style="text-align: center;"><b>بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہر گز </b><br />
<b>تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اس پہ آساں ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b>اب عمر کے اس حصے میں دیکھ رہا ہے کہ ایک بھیڑ(ڈولی) کی کلوننگ کا کامیاب تجربہ ہوچکا ہے۔اس کے بعد اسی انداز کے چند اور تجربے بھی ہوئے ہیں تاہم پہلے تجربے کے بعد کسی بڑے بریک تھرو کی خبر نہیں آئی۔اس تجربہ کے فوراََ بعد پوپ سمیت سنجیدہ مذہبی حلقوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور امریکہ سمیت بعض ممالک نے بھی اس تجربہ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ویسے امریکہ کی تشویش کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ آج کی ترقی یافتہ ترین سائنس کے عہد کا سب سے بڑا سائنسی تجربہ کرنے والا کوئی امریکی نہیں تھا بلکہ اسکاٹ لینڈ کا ایک سائنس دان تھا۔جدید سائنس کی ابتدا گلیلیو سے شروع کریں تو اس کے یہ کہنے پر کہ زمین گول ہے اور سورج کے گرد گردش کر رہی ہے،اُ س وقت کے پوپ کے حکم سے اسے کافر قرار دے کر مار دیا گیا تھا۔اب کلوننگ کے تجربے پر ناپسندیدگی کرنے والے بھی در اصل سائنس کو عقائد کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔بے شک کلوننگ کے کامیاب تجربہ سے موت پر قابو پانے کے انسانی خواب کی امیدیں بڑھ گئی ہیں ۔ ہم پرانی داستانوں میں جو آبِ حیات ڈھونڈتے پھرتے تھے،کلوننگ بھی اس سے ملتی جلتی کوئی چیز لگتی ہے۔ویسے آبِ حیات کی تلاش کا ایک اور تجربہ بھی ہو رہا ہے جس کے مطابق انسانی زندگی کو دو اڑھائی سو سال تک آسانی سے لے جایا جا سکے گا۔سائنس ابھی سائنسی آبِ حیات کے کنارے تک پہنچنے والی ہے مگر ہم تو اپنی داستانوں میں پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آبِ حیات پی چکنے والے سارے لوگ آبِ حیات نہر کے کنارے پرایسی عبرتناک حالت میں زندہ تھے کہ تڑپ رہے تھے اور موت کی دعا کر رہے تھے لیکن انہیں موت نہیں آ رہی تھی۔شاید ہماری سائنس بھی اسی طرف یا اس سے کچھ ملتی جلتی طرف جا رہی ہے۔اس کے باوجود کہ سائنسی ایجادات کے اس تیز رفتار دور میں کوئی ایجاد کسی ایسی تباہی کا باعث بن سکتی ہے جو انسان کو پھر سے پتھر کے زمانے میں لے جائے،پھر بھی میں مذہب کی طرح سائنس کی بھی خودمختاری کا حامی ہوں۔کلوننگ کے تجربہ کی کامیابی سے ایک چھوٹی سطح پر مذہبی افکار پر ضرب تو لگی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر مذہب کا اثبات ہوا ہے۔اگر ایک سائنسدان کسی جاندار کے ایک سیل سے بالکل ویسا جاندار بنا سکتا ہے تو حیات بعد الموت کا مذہبی عقیدہ سائنسی طور پر ثابت ہو گیا کہ خدا کے لئے ہماری خاک یا راکھ میں سے کسی ایک سیل کو نکال کر اس سے ہمیں دوبارہ زندہ کر دینا کونسا مشکل کام ہو گا۔قرآن شریف میں کئی مقامات پر معترضین کے الفاظ آئے ہیں کہ جب ہم مر کر خاک ہو جائیں گے تو پھر ہمیں کیسے دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔اللہ کی قدرتوں کا تو اپناہی انداز ہے لیکن کلوننگ کا تجربہ بجائے خود حیات بعد الموت کے عقیدہ پر اعتراض کا سائنسی جواب ہے۔</b><br />
<b>میری کئی دہریے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔پاکستان میں،انڈیا میں اور اب یہاں جرمنی میں بھی۔دہریے لوگوں کی کم از کم دو قسمیں تو میرے ذہن میں واضح ہیں۔ایک قسم کے دہریے وہ ہیں جو کچے پکے مطالعہ کے ساتھ، دانشور کہلانے کے لئے شوقیہ دہریے بن گئے۔ یہ لوگ محض محفلوں میں نمایاں ہونے کے لئے نازیبا زبان میں بات کرتے ہیں ۔خدا کو سمجھنے کی کاوش یا اس کی جستجو(چاہے اس کے نتیجہ میں بندہ کوچۂ الحاد میں بھی چلا جائے)ان کے ہاں بالکل نہیں ہوتی۔نام آوری کے ایسے شوقین دہریوں کو میں شیخ چلی دہریے سمجھتا ہوں۔ان کے بر عکس وہ لوگ جو واقعتاََ خدا کی ہستی کو عقل کے ذریعے سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں،میں ان کے انکار کے باوجود انہیں خدا پرست کہتا ہوں۔</b><br />
<b>لاتسبو الدہر والی حدیث قدسی میں خدا خود کہتا ہے کہ زمانے (دہر) کو برا مت کہو،میں خود زمانہ(دہر) ہوں۔تو صاحب!اگر خدا دہر ہے تو دہریہ کا مطلب ہوا خدا پرست۔</b><br />
<b>مختلف مذاہب کا پس منظر رکھنے والے دہریوں میں ایک دلچسپ چیز میں نے یہ دیکھی کہ کسی نہ کسی سطح پر وہ اپنے مذہب سے لازماََ وابستہ ہوتے ہیں۔یہاں فرینکفرٹ میں ایک بی بی کرسٹین Kerstin خود کو انسانیت کا علمبردار کہتی ہیں۔مسیحی چرچ سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں،مذہب ان کے نزدیک نفرتوں کی بنیاد ہے۔مسٹر مُلر Muller خود کو واضح لفظوں میں دہریہ کہتے ہیں۔میں نے ان سے ان کا فکری پس منظر جاننا چاہا تو انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔لیکن اتنا معلوم ہو گیا کہ ان کی اہلیہ یہودی ہیں۔ایک دن فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے حوالے سے کسی تازہ خبر پر گفتگو شروع ہوئی تومسٹر مُلر کی ساری دہریت کھل گئی۔مجھے احساس ہوا کہ وہ دہریے تو ہیں لیکن یہودی دہریے۔یوں دہریوں کے بھی کئی مسلک سمجھ لیجیے۔مسلمان دہریے،مسیحی دہریے،ہندو دہریے۔یہاں کراچی کے ایک معروف ترقی پسند نقاد اور لاہور کے بھی ایک نیم ترقی پسند کالم نگار کی یاد آگئی۔ان میں سے ایک نے انڈیا کے ادیب دوستوں میں بیٹھ کر اظہر جاوید کے مسلک کا مذاق اڑایا اور ایک نے میرے مذہبی رجحانات کی خطرناکی سے وہاں کے ہندو دوستوں کو آگاہ کیا۔سو ثابت ہوا کہ دہریوں کی بھی اقسام ہیں یعنی مسلمان دہریے،مسیحی دہریے،ہندودہریے،یہودی دہریے،وغیرہ وغیرہ۔ جو حسبِ موقع صاحبِ ایمان بھی بن جاتے ہیں۔ </b><br />
<b>یہاں مجھے پاکستان سے سائنس کے ایک استاد ایم سلیم کی یاد آگئی۔پندرہ سولہ سال قبل ان کی ایک چھوٹی سی کتاب پڑھی تھی۔’’پُر اسرارکائنات کا معمہ‘‘۔اس میں کاسمالوجیکل حوالے سے بڑی زبردست معلومات درج کی گئی تھی۔لیکن میرے مطلب کا سب سے اہم حصہ وہ تھا جس میں خلا کی بعض صفات اور خدا کی صفات کا ذکر کیا گیا تھا۔میں نے خدا کو سمجھنے میں اس موازنہ سے زبردست استفادہ کیا۔پہلی سطح پر یہ موازنہ خدا کے بارے میں ہمارے معین تصورات پر کاری ضرب لگاتاہے۔لیکن میں نے (لا الہٰ۔۔) نفی کے اس مرحلہ سے گزر کر خدا کے بارے میں ایک برتر تصور (لا الہ الااللہ )تک رسائی حاصل کی۔نفی کا مرحلہ بجائے خود ایک دلچسپ سفر تھا۔خدا کی جتنی صفات ہیں انہیں ہم دو بڑے خانوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ایک خانے میں وہ صفات آتی ہیں جو انسان میں چھوٹی سطح پر پائی جاتی ہیں اور خدا میں بہت بڑی سطح پر ان صفات کا جلوہ دکھائی دیتا ہے۔جیسے ربوبیت،رحیمیت،رحمانیت،قہاریت،جباریت وغیرہا۔ ان صفات کے علاوہ ایسی جتنی بھی صفات ہیں جو انسان میں تو نہیں پائی جاتیں لیکن وہ ساری صفات خدا کے ساتھ خلا میں بھی پائی جاتی ہیں۔ایم سلیم نے مجھے ان صفات کا موازنہ کرکے ایک نئے فکری جہان کی سیر کرادی تھی۔چند مثالیں یہاں بھی درج کر دیتا ہوں۔</b><br />
<b>۱۔خدا سب سے بڑا ہے۔اس کی بڑائی کی کوئی حد نہیں ہے۔خلا بھی ساری کائنات سے بڑا ہے۔جہاں تک مادی کائنات ہے،خلا موجود ہے اور اس سے سوا بھی خلا ہی خلا ہے۔</b><br />
<b>۲۔خدا واحد ہے۔خلا بھی پوری کائنات میں ایک ہی ہے۔</b><br />
<b>۳۔خدا کسی سے پیدا نہیں ہوا۔خلا بھی کسی سے پیدا نہیں ہوا۔</b><br />
<b>۴۔خدا بے نیاز ہے۔اور بے نیاز کی تعریف یہ ہے کہ اسے کسی کی کوئی ضرورت نہ ہو لیکن سب کو اس کی ضرورت ہو۔اس مادی کائنات کو اپنے وجود کے قیام کے لئے خلا کی اشد ضرورت ہے۔لیکن خلا کو کسی کی نہ کوئی ضرورت ہے نہ پرواہ۔</b><br />
<b>۵۔خدا ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ خلا بھی ہر جگہ موجود ہے اور ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے ۔</b><br />
<b>لیکن شاید اتنا کہہ دینے سے بات واضح نہیں ہو گی اس لئے اس سائنسی نکتے کی آسان لفظوں میں وضاحت کردینا ضروری ہے۔ ڈاکٹروزیر آغا سے زبانی طور پر بھی اور ان کی خود نوشت سوانح کے ذریعے بھی اتنا تو جان چکا ہوں کہ اگر کروڑوں نوری سال سے بھی زیادہ مسافت پر پھیلی ہوئی ساری مادی کائنات میں سے خلا کو نکال دیا جائے تو سارامادہ ایک گیند کے برابر یا اس سے بھی کم چمچ بھر رہ جائے گا۔بعض سائنس دانوں کے نزدیک اسے Compress کیا جائے تویہ اس سے بھی کم ہوکر سوئی کی نوک پر سما جائے گا ۔اگر کوئی اینٹی میٹر اس سے ٹکرا جائے تو یہ مادہ بھی گاما ریز میں تبدیل ہو کر غائب ہوجائے گا اور باقی صرف خلا رہ جائے گا۔اور خدا کی بجائے خلا کے لفظ سے بھی غالبؔ کا یہ شعر اپنے مفہوم میں غلط نہیں رہے گا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>نہ تھا کچھ، تو خلا تھا، کچھ نہ ہوتا، تو خلا ہوتا </b><br />
<b>ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں، تو کیا ہوتا! </b></div><div style="text-align: right;"><b>شہ رگ سے قریب ہونے والی بات کی وضاحت رہی جا رہی ہے۔اسے بھی آسان لفظوں میں بیان کرنا ضروری ہے۔ایٹم کے اندر جو پارٹیکلز ہیں ان کے درمیان بھی خلا ہے۔پروٹون اور الیکٹرون کے درمیان خلا کو سمجھنے کے لئے یہ جان لیں کہ اگر پروٹون کا سائز ایک فٹ بال جتنا تصور کر لیا جائے تو اس سے الیکٹرون تقریباََ دو میل کی دوری پر ہوگا۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے وجود کے ہر ذرے میں خلا کس حد تک سرایت کئے ہوئے ہے اور اسی مناسبت سے وہ واضح طور پر ہم سے ہماری شہ رگ سے بھی قریب ہے۔</b><br />
<b>سو یوں ایک سطح پر فکری طورپر میرا مسئلہ یہ بنا کہ خدا کو اس کی صفات کے ذریعے جانا جائے تو انسانی صفات اور خلا کی صفات جیسی مشترکہ صفات کو چھوڑ کر کوئی ایسی صفت بھی ہونی چاہئے جو صرف خدا ہی کا امتیاز ہو۔اور وہ صفت کونسی ہے؟۔۔۔میری زندگی کا بیشتر عرصہ ایک شوگر مل میں مزدوری کرتے گزرا ہے۔وہاں لیبارٹری میں گرمیوں کے دنوں میں بہت ہی چھوٹے چھوٹے روشنی کے کیڑے آجاتے تھے(ان کیڑوں کے کچھ احوال کے لئے میرا ایک پرانا افسانہ’’پتھر ہوتے وجود کا دُکھ‘‘ پڑھئے)۔ان میں سے کوئی کیڑا اگر پوری شوگر مل کی حقیقت جا ننا چاہے تو یہ اس کے بس کی بات نہیں ہے۔انسان کی حقیقت خدا کے سامنے کیڑے اور شوگر مل کی مناسبت جیسی بھی نہیں ہے۔لیکن پھر بھی انسان میں اپنے خالق و مالک کو جاننے کی جستجو تو ہے۔</b><br />
<b>حضرت علیؓ کا ایک فرمان اس جستجو میں میری رہنمائی کر گیا۔کمال التوحید نفی عن الصفات۔۔۔توحید کی حقیقت اور کمال تب ظہور فرماتا ہے جب صفات کی بھی نفی ہوجاتی ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ صفات بھی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔اور اس حقیقتِ عظمیٰ کے سامنے صفاتی نام بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔پھر ایک حدیث شریف میں مذکور ایک دعا کے ذریعے بھی خدا کو جاننے کی جستجو کو تسکین سی ملی۔مسلم شریف کی اس دعا کا متعلقہ حصہ یہاں تبرکاََ درج کر دیتا ہوں۔اللھم ۔۔۔اسئا لک بکل اسمِِ ھو لک سمیت بہ نفسک او انزلتہ فی کتابک او علمتہ احدا من خلقک اواستاء ثرت بہ فی علم الغیب عندک ان تجعل القرآن العظیم ربیع قلبی اے اللہ !۔۔۔میں سوال کرتا ہوں تیرے اس نام کے ساتھ جو تونے اپنے لیے پسند کیا،یا اپنی کتاب میں تونے اتارا ہے،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ہے،یا اپنے علم غیب میں تو نے اسے اختیار کر رکھا ہے،اس بات کا کہ تو کر دے قرآن مجید کو میرے دل کی فرحت و خوشی۔</b><br />
<b>گویا خدا کا کوئی ایک ایسا نام ابھی ہے جو بڑی بڑی صاحبِ عرفان ہستیوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔یہ دعا کا اقتباس ہے،پوری دعا میری روز کے معمول کا حصہ ہے اور شاید اسی دعا کی برکت ہے کہ جرمنی جیسے ملک میں رہتے ہوئے اب تک میرے دو نواسوں اور ایک پوتے نے قرآن شریف ختم کر لیا ہے۔بڑے نواسے رومی نے تین سال پہلے سات سال کی عمر میں،دوسرے نواسے جگنو نے اِسی برس(۲۰۰۶ء میں) ساڑھے سات برس کی عمر میں اور بڑے پوتے شہری نے بھی اِسی برس ساڑھے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا ہے۔رومی اور جگنو کی قرأت کا تو مجھے علم تھا کہ بہت عمدہ ہے۔تاہم اپنے پوتے کے بارے میں مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کا تلفظ اور لہجہ بھی اتنا عمدہ ہے۔اب ۲۴ جون (۲۰۰۶ء)کو جب اس کی آمین کی تقریب میں اس سے قرآن شریف سنا تو میں حیران رہ گیا،حقیقتاََ میرے پوتے نے اپنی قرأت سے میرا دل خوش کر دیا۔میری عربی ریڈنگ پنجابی لہجے والی ہے،میرے مقابلہ میں تینوں بچوں کی قرأت سن کر جی خوش ہوتا ہے۔خدا میری بڑی بیٹی اور بڑی بہو کو اجرِ عظیم عطا کرے کہ ان کی توجہ کے بغیر بچے گھر پر رہ کر اتنا پڑھ ہی نہیں سکتے تھے ۔اور باقیوں کو بھی خدا توفیق دے کہ وہ بھی اپنے بچوں کو اسی طرح قرآن شریف پڑھنا سکھا دیں۔آمین </b><br />
<b>میں نے مسلم شریف والی مذکورہ دعا کواپنے روزانہ معمول کا حصہ بتایا ہے۔دعاؤں کے بارے میں’’ دعائیں اور قسمت‘‘باب میں کچھ ذکر کرچکا ہوں۔اس دوران معمولات میں تھوڑی بہت تبدیلی بھی آجاتی ہے۔گھر پر فجر کی نماز کے بعد والی دعائیں بدستور جاری ہیں۔پھر گھر سے نکل کر جاب پر جانے تک دعاؤں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔رمضان شریف کے مہینہ میں ایسا کرتا ہوں کہ چھوٹے سائز کا قرآن شریف جاب پر ساتھ لے جاتا ہوں۔دعاؤں کا سلسلہ مکمل کرنے کے بعد دورانِ سفر قرآن شریف پڑھتا رہتا ہوں۔رمضان شریف کے مہینہ میں یہ عادت سی بن جاتی ہے چنانچہ میں نے رمضان شریف کے بعد بھی قرآن شریف ساتھ لے جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔لیکن پھر مجھے ایک دو جھٹکے لگے۔ٹرین کے انتظار میں کھڑا ہوں۔کوئی پاکستانی واقف دوست مل گئے۔رسمی سی خیر خیریت کی باتیں ہوتی ہیں۔اور مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم لوگ سچائی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام زندگی میں دن بھر میں کتنے ہی جھوٹ بول جاتے ہیں۔بے ضرر سے سہی لیکن جھوٹ تو جھوٹ ہی ہے۔دوست مجھ سے کل کا پروگرام پوچھتا ہے اور میں اس سے جان چھڑانے کے لئے ڈیوٹی کا وقت غلط بتادیتا ہوں۔ اس قسم کے کئی جھوٹ جو ہم دن میں بلا تکلف بول جاتے ہیں۔مجھے لگا کہ قرآن شریف کو ساتھ رکھ کرمعمول کی زندگی بسر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔بولتے ہوئے بار بار اٹکنا پڑتا ہے اور پھر رُک جانا پڑتا ہے۔نہ رُکیں تو قرآن اُٹھا کر جھوٹ بولنے والی بات ہو جائے۔اب میرے سامنے دو رستے تھے،یا تو میں ہمیشہ قرآن شریف ساتھ رکھا کروں اور اس طرح بے ضرر قسم کے جھوٹ بولنے سے بھی بچنے کی عادت کو مستحکم کر لوں۔یا پھر قرآن شریف کو صرف گھر پر ہی پڑھا کروں اور بلا وجہ قرآن اٹھا کر جھوٹ بولنے کا مجرم نہ بن جاؤں۔اور صاحب! سچی بات ہے میں نے دوسری صورت اختیار کرنے میں عافیت سمجھی ہے۔</b><br />
<b>دعاؤں کا ورد تو اب بھی جاری ہے لیکن غضِ بصر والی عادت کم ہوتی جا رہی ہے۔ٹرین میں بیٹھے ہوئے وِرد از خود جاری رہتا ہے۔ذہن کسی اور طرف ہو تب بھی وِرد عموماََ کسی روک کے بغیر جاری رہتا ہے۔لیکن بعض اوقات سوئی اٹکنے بھی لگتی ہے۔میں دعا پڑھ رہا ہوں: اللھم طھر قلبی من النفاق و عملی من الریآءِ و لسانی من الکذب و عینی من الخیانتہ ۔۔۔۔(اے اللہ میرے دل کو نفاق سے پاک و صاف کر دے اور میرے ہر عمل کو ریا سے اور زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک کردے۔۔۔)دعا ابھی یہاں تک پہنچتی ہے اور نظر باہر اسٹیشن پر لگے ہوئے ایک بڑے اشتہاری بورڈ پر جا پڑتی ہے۔آٹھ دس خواتین مکمل برہنگی کی حالت میں کھڑی مسکرا رہی ہیں۔اگرچہ اشتہاری کمپنی نے اشتہار کو بے حیائی سے بچانے کے لئے ان خواتین پر دو بڑی پٹیاں کھینچ دی ہیں جن سے ان کی زینت کے مقامات کی کسی ھد تک پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔لیکن عینی من الخیانتہ پڑھتے ہوئے ہی وہ منظر سامنے آجائے توکمزور انسان کیا کرے؟</b><br />
<b>اگلے اسٹیشن تک دعا پڑھ رہا ہوں رب تقبل توبتی واغسل حوبتی و اَجب دعوتی۔۔اور سامنے بورڈپر ایک مکمل برہنہ مرد کسی سنسر شپ کی پٹی کے بغیر نیم دراز ہے۔البتہ فوٹو گرافی کا کمال یہ ہے کہ اس کا ستر بھی ظاہر نہیں ہوتا۔ لیکن میری دعا واغسل حو بتی پراٹکتی ہے، میں کراہت کے ساتھ کسی تھوک کے بغیر تھوک نگلنے جیسی کیفیت سے گزرتا ہوں اور باقی دعا مکمل کرنے لگتا ہوں۔سید الاستغفار کے ان الفاظ پر پہنچتا ہوں انا علیٰ عھدک و وعدک مااستطعت۔۔۔۔سامنے کوئی خوبصورت خاتون بورڈ پر توبہ شکن حالت میں بیٹھی دکھائی دیتی ہیں ۔ بدن پرایک گرہ کپڑا بھی نہیں ہے۔لیکن فوٹو گرافر کا کمال یہ ہے کہ بازو کے ایک زاویے سے سینے کی پوری ستر پوشی کر دی ہے اور ٹانگ کے ایک زاویے سے زینت کی بھی ستر پوشی ہو گئی ہے۔لیکن ایسی تصاویراپنی تاثیر کے لحاظ سے بالکل گندی تصویر سے زیادہ ’’ہدف بہ تیر‘‘ثابت ہوتی ہیں۔اورمیں بار بار یہی الفاظ وِرد کئے جاتا ہوں۔انا علیٰ عھدک و وعدک ماا ستطعت ۔۔۔۔۔۔۔ ما ا ستطعت ۔۔ ۔ ۔ ۔ مااستطعت ۔۔۔۔ ۔۔۔ مااستطعت ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ استطاعت سے زیادہ کچھ کیابھی تو نہیں جا سکتا۔ </b><br />
<b>یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے ان مولوی صاحب کا لطیفہ یاد آگیا ہے جو جمعہ کے خطبہ میں اس کرب کا اظہار کر رہے تھے کہ معاشرے میں بے حیائی اور عریانی بہت زیادہ پھیل رہی ہے اور پھر بطور ثبوت انہوں نے جزئیات میں جانا شروع کیا تو ایک نمازی نے کھڑے ہو کر التجا کی جناب !آپ نے جمعہ کی جماعت کھڑی کرانی ہے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمیں کسی ابتلا میں ڈالنا ہے؟</b><br />
<b>سو مجھے بھی ایسا کچھ نہیں کرنا ،اپنے ابتلا سے خود ہی گزرنا ہے۔ </b><br />
<b>جو کچھ زمیں دکھائے سو ناچار دیکھنا</b><br />
<b>اب ہماری اگلی نسلیں اس مغربی ماحول میں کس حد تک خود کو بچا سکیں گی؟یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں بزرگوں کے شوق ہی پورے نہیں ہو رہے۔پچاس سال سے ساٹھ سال تک کی عمر کے کئی پاکستانی جوڑے ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔کہیں خواتین کو معاشی تحفظ ملا ہے تو انہوں نے خاوندوں کو چھوڑ دیا ہے اور کہیں مردوں کو کوئی نئی چمک دکھائی دی ہے تو انہوں نے عمر بھر کے ساتھ کو توڑ کر رکھ دیاہے۔وفا کے کئی ایسے بھرم ٹوٹے ہیں جو مشرقی ماحول میں مجبوریوں کے باعث بنے ہوئے تھے۔یورپ میں جہاں یہ احساس ہوا کہ ہمیں معاشی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور معاشرتی طور پر بھی کوئی دباؤ نہیں رہے گا تو مشرقی روایات کے سارے بھرم ٹوٹ کر بکھرگئے۔لیکن صرف مغرب میں مقیم ہم لوگوں کا ہی ذکر کیوں؟اب تو پاکستان بھی انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز کی برکت سے، حرکات کے لحاظ سے لگ بھگ آدھا یورپ بن چکا ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں جو کچھ ریلوے اسٹیشنوں اور بس اڈوں پر سرِ عام دکھائی دیتا ہے وہاں وہ سب کچھ اور اس سے سوا بھی بہت کچھ، انٹرنیٹ پراور ٹی وی چینلز پر دستیاب ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق انٹرنیٹ پر فحش ویب سائٹس پر کثرت سے جانے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔میڈیائی یلغار اور مغربی تہذیب کی چکا چوند کے ساتھ قناعت کا دامن ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گیا ہے۔لیکن اس کی ایک اور وجہ بھی ہے،پاکستان میں ایک طرف لوٹ مار کرنے والے مقتدر طبقے ہیں تو دوسری طرف غربت اور بھوک کی ماری ہوئی رعایا ہے جو قناعت کا درس بھول گئی ہے۔عوام کو معلوم ہو گیا ہے کہ ایک طویل عرصہ سے انہیں قناعت کا درس دینے والے اور دلانے والے ملی بھگت کے ساتھ ان کا استحصال کر رہے ہیں۔درس دلانے والے لکھ پتی سے کروڑپتی اور اب ارب پتی بنتے جا رہے ہیں۔ قناعت کا درس دینے والے بھی لکھ پتی سے بڑھ کر کروڑ پتی ہو گئے پھر بھی بھوکے ننگے عوام کو ہی درس دیا جارہاہے کہ قناعت سے کام لیں اور وطن کے لئے مزید قربانیاں دیں۔عوام اس فریب سے آشنا ہو گئے ہیں اسی لئے اخلاقی مسائل کے ساتھ افراتفری کا سماں بڑھتا جا رہا ہے۔ </b><br />
<b>اس وقت دنیا کو مذہبی انتہا پسندی سے شدید خطرات لا حق ہیں۔کسی ایک مذہب یا مسلک کو قصوروار کہے بغیر میرے نزدیک ہر مسلک اور مذہب کے انتہا پسند انسانیت کے لئے شدیدخطرہ ہیں۔میرے ذاتی خیال کے مطابق ہر مسلک اور مذہب کے پاس کچھ ایسی بنیادیں ہوتی ہیں جن پر وہ باقاعدہ قائم اور استوار ہوتا ہے۔اسی لئے اس کے پیروکاروں کے لئے اس پر کاربند رہنے کا کچھ جواز بنتا ہے۔اسی طرح ہر مذہب اور مسلک میں کچھ ایسے کمزور پہلو بھی ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ان پرمدلل اعتراض وارد ہوتے ہیں۔بس جہاں ایسے اعتراضات میں شدت آتی ہے وہیں دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی اپنے مخالف کے کمزور پہلوؤں پر حملہ کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔یوں مذہبی نفرتیں بڑھتی ہیں۔عمومی طور پر ہمارے تہذیبی اور ثقافتی میلان کے ساتھ ہمارا نفسیاتی میلان ہمیں کسی مسلک پر کاربند رکھتا ہے۔یا پھر بھیڑ چال کا نسل در نسل رویہ بھی ہمیں ہانکتا ہے۔یوں کوئی انتہائی جذباتی اور مشتعل قسم کا سچا مومن اگر کسی مسیحی،یہودی،ہندو یا سکھ گھرانے میں پیدا ہوتا تو وہاں بھی وہ اتنا ہی مخلص،سچا،کھرا،جذباتی اور مشتعل قسم کا مسیحی،یہودی،ہندو یا سکھ ہوتا۔</b><br />
<b>میں ہر مذہب کے اس قسم کے مومنین کا احترام بھی کرتا ہوں اور ان سے ڈرتا بھی ہوں اور ہر سال اکبر حمیدی کے الفاظ میں دعا کرتا ہوں:</b></div><div style="text-align: center;"><b>یا رب العالمین! ترے لطف سے رہیں</b><br />
<b>محفوظ ’’مومنین ‘‘ سے ’’کفار‘‘ اس برس</b></div><div style="text-align: right;"><b>مجھے مذہب اور سائنس کے اس پہلو سے دلچسپی ہے جہاں سائنس آزادانہ طور پرکائنات اور اس کے بھیدوں کی نقاب کشائی کا کوئی مرحلہ سرکرتی ہے اور لا الہ ۔۔کا منظر دکھاتی ہے اور وہیں کہیں آس پاس سے مذہب کی بخشی ہوئی کوئی روحانی کیفیت یا کوئی مابعد الطبیعاتی لہر مجھے اس نفی میں سے اثبات کا جلوہ دکھاتی ہے اور الا اللہ کی صدائیں آنے لگتی ہیں۔اور یہ سارا سائنسی اور مابعد الطبیعاتی آہنگ میری ادبی جمالیات میں میری ادبی استطاعت کے مطابق اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے۔کمپیوٹر کے چِپ کی کارکردگی منکر نکیر اور یومِ حساب پر ایمان پختہ کرتی ہے تو کلوننگ کا تجربہ حیات بعد الموت کا سائنسی ثبوت دے کر اس عقیدہ پر مجھے مزید راسخ کرتا ہے۔خلا کو نکال دینے سے ساری کائنات کا مادہ سوئی کی نوک پر سما جانے ،اور پھر کسی اینٹی میٹر کے اس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں اس کے بھی غائب ہوجانے کا سائنسی دعویٰ مجھے اس قیامت پر پکا یقین دلاتا ہے جس میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی اور صرف خدا کی ہستی باقی رہے گی۔ میر ا شروع سے یہی خیال رہا ہے کہ سائنس خدا کی نفی کرتے ہوئے اسی کی طرف جارہی ہے،مذہب روحانی طور پر اسی کی طرف سفر کراتا ہے اور ادب بھی جمالیاتی سطح پر اسی حقیقتِ عظمیٰ کی طرف سفر کرتا ہے۔اور بس۔۔۔بات اپنے نام کے حصے بخروں کی داستان سے شروع ہوئی تھی اور اس کے نام پر تمام ہو رہی ہے جو اس ساری بھید بھری کائنات کا مالک و خالق ہے۔ </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>سب موت کا شکار ہیں اس کو فنا نہیں</b></div><b>رہے نام اللہ کا! </b></div><div style="text-align: center;"><b>***</b></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-76480725644562492422011-07-15T01:57:00.000-07:002011-07-15T23:23:08.016-07:00روح اور جسم<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">روح اور جسم</span></b></div><br />
<br />
<b>برادرم نذر خلیق نے مجھے ایک الجھن میں ڈال دیا ہے۔انہوں نے میری دوسری تحریروں کے بعض مندرجات سے عمومی طور پر اور یادوں کی قسط ’’رہے نام اللہ کا!‘‘سے خصوصی طورپر اخذ کرکے استفسار کیا ہے کہ میں جب روحانیت کی بات کرتا ہوں تو اس سے میری کیا مراد ہوتی ہے؟اور ان کا اصرار ہے کہ میں اس کا جواب کسی مضمون میںیا پھریادوں کی کسی قسط میں ہی لکھ دوں ۔یہ بیک وقت بہت ہی آسان اور بہت ہی مشکل سوال ہے۔سو اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مختصر ترین عرض کرتا ہوں کہ انسانی روح جب اپنے اصل مالک و خالق کی جستجوکا سفر کرتی ہے تو یہ سفر روحانیت کہلاتا ہے۔خالقِ کائنات روحِ اعظم ہے۔ہم سب اسی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف ہم سب نے لوٹ کر جانا ہے۔ کسی کی وفات پر انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہوئے ہم دراصل اسی حقیقت کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>اُسی کے پاس تو جانا ہے لَوٹ کر آخر</b><br />
<b>سو خوب گھومئیے ،پھرئیے ،رجوع سے پہلے </b></div><b>پیغمبران الٰہی کی روحانیت ایک الگ مقام و مرتبہ ہے،اولیا و صوفیا کی روحانیت کے بھی اپنے اپنے مدارج ہیں۔ان سے ہٹ کر کوئی عام انسان اگر سچی لگن کے ساتھ خدا کی جستجو کرتا ہے،تو اس کی یہ جستجو ہی اس کی روحانیت ہے،اس میں وہ جتنی ترقی کرتا جائے گا،اتنا ہی روحانی طور پر آگے بڑھتا جائے گا۔روحانی مدارج طے کرنے کے لئے مختلف مذاہب کے ہاں مختلف طریقے ملتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ طریق کار کوئی بھی اختیار کیا جائے،اصل چیز یہ ہے کہ انسان کی جستجو اور لگن سچی ہو۔اگر جستجو اور لگن واقعی سچی ہوتو خدا خودمتلاشی کے ظرف کے مطابق اس تک پہنچ جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ اس پر منکشف ہوجاتاہے۔جب کوئی ایسا دعویٰ کرتاہے کہ خدا تک پہنچنے کا رستہ صرف اسی کے پاس ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے اس نے اپنی سوجھ بوجھ کے خدا کو اپنی جیب میں ڈال رکھا ہے یا کسی تجوری میں بند کر رکھا ہے اور یوں وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کا ذریعہ صرف وہی ہے۔ خدا کا عرفان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا۔وہ لا محدود ہے اور ہم لوگ اس کی پوری معرفت حاصل کر ہی نہیں سکتے۔جس خدا کا عرفان مکمل طور پر حاصل ہوجائے وہ خدا لامحدود نہیں رہتا۔ میری دانست میں تنہائی،یکسوئی و ارتکاز کے نتیجہ میں روح بہتر طور پر اپنی اصل منزل کی طرف سفر کر سکتی ہے،اسی لئے بیشتر بڑی روحانی شخصیات نے عمر کے ایک حصہ میں اپنے معاشرے سے الگ ہو کر تنہائی میں اس سفر کوطے کرنے کی کاوش کی۔اسے آپ چلہ کشی کہہ لیں،ریاضت کہہ لیں،تپسّیا کہہ لیں اور چاہے کوئی اور ملتا جلتا نام دے لیں۔یہ میرے ذاتی خیالات ہیں،ان کا مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں ہے۔ہو سکتا ہے میرے کچے پکے روحانی تجربوں کے نتیجہ میں ایسے خیالات ذہن میں آتے ہوں اور جو لوگ مجھ سے بدرجہا بہتر روحانی تجربات سے گزر چکے ہیں،وہ اس معاملہ میں زیادہ اچھے اور درست خیالات رکھتے ہوں۔</b><br />
<b>معاشرتی سطح پر رہتے ہوئے انسان کو نہ تو مناسب تنہائی میسرہوتی ہے اور نہ ہی ذہنی یکسوئی۔۔۔ایسے ماحول میں انفرادی ریاضت و مجاہدہ کی بجائے مذاہب کی عبادات کے طریق احسن طور پر خداکی طرف رہنمائی کرنے میں ممد ہو تے ہیں۔یوں روحانیت کے سفر میں مذہب کی بڑی اہمیت ہے۔تاہم خدا کی جستجوکے روحانی تجربات کا سلسلہ کسی ایک مذہب تک محدود نہیں ہے۔یہ ہر طالب اور متلاشی کی طلب اور تلاش پر منحصر ہوتا ہے۔ یہاں ایک وضاحت کر دوں۔میرے نزدیک کوئی کسی بھی مذہب سے تعلق رکھے،اپنے طریق عبادت کے مطابق خدائے واحد کی عبادت ضرور کرے۔البتہ اپنے ذاتی تجربے کے حوالے سے یہ بتانا چاہوں گا کہ میں جن دنوں میں اسلام سے کچھ دور ہوا تھاان دنوں میں بھی میری عادت رہی کہ روزے اسلامی طریق کے مطابق رکھتا تھا اور نمازیں بھی اسلامی طریق والی پڑھتا تھا۔اسے بچپن کی عادت کہہ لیں،ماں باپ کی تربیت کا گہرا اثر کہہ لیں یا کچھ اور کہہ لیں۔ایک عرصہ کے بعد کسی حدیث میں یا کسی بزرگ کے فرمان میں پڑھا کہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں،تباہی کے دہانے پر بھی پہنچ جائیں تو خدا انہیں بچا لیتا ہے۔ہو سکتا ہے میری نمازیں ہی مجھے بچا لائی ہوں۔(پتہ نہیں میں بچا بھی ہوں یا نہیں؟)۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سلیم آغا کی شادی تھی۔بہت سارے ادیب ڈاکٹر وزیر آغا کے گاؤں وزیر کوٹ میں جمع تھے۔رات کو خانپور اور راولپنڈی ،اسلام آباد کے ادیبوں کی چارپائیاں ایک ساتھ حویلی کے صحن میں بچھائی گئی تھیں۔اگلے روز کافی دن چڑھے،جب سارے دوست جاگ گئے تو وزیر آغا ہنستے ہوئے کہہ رہے تھے:میں اپنے معمول کے مطابق فجر کے وقت جاگا اور باہر آیا تو عجیب منظر دیکھا۔</b><br />
<b>سارے دوست وزیر آغا صاحب سے کوئی حیران کن بات سننے کے منتظرہوئے تو انہوں نے کہا:</b><br />
<b>جب میں باہر آیا تو میں نے دیکھا کہ سارے مسلمان سوئے ہوئے تھے اور ایک غیر مسلم بڑے خشوع و خضوع سے فجر کی نماز پڑھ رہا تھا۔</b><br />
<b>میں بہت ہی کھلے ذہن اور دل کا شاعر اور ادیب ہوں۔نماز ،روزہ میرے مزاج کا حصہ ہیں ۔یقیناوالدین کی تربیت کے سبب ہی ایسا ہوا ہے،وگرنہ نمازی ہونے کا ایسا ذکر کرنا اپنے کسی تقویٰ کے اظہار کے لئے نہیں ہے۔کسی انکساری کے بغیر اور پوری ایمانداری سے لکھ رہا ہوں کہ میں قطعاََ کوئی متقی نہیں ہوں، بہت ہی گنہگار بندہ ہوں۔اپنے گناہوں کے سبب خدا سے کئی بار مار بھی کھائی ہے۔سو ان عباداتی معاملات کو بچپن کی عادت سمجھیں اور کچھ نہیں۔اپنی اس عادت کی وجہ سے اپنے گھر میں میری اپنے کسی بچے کے ساتھ تلخی ہوتی ہے توعام طور پر وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ بچہ نمازوں میں سست ہو رہا ہوتا ہے۔ </b><br />
<b>روحانیت کی بات تو ہو گئی لیکن خود روح کیا ہے؟اس بارے میں دو تصورات پائے جاتے ہیں۔ایک تصور یا عقیدہ کے مطابق حمل ٹھہر جانے کے کچھ عرصہ کے بعد آسمانِ ارواح سے رُوح بچہ میں داخل ہوتی ہے۔جبکہ دوسرے تصور یا عقیدہ کے مطابق رُوح ایک لطیف نُور ہے ، یہ نور نطفہ کے اندر ہی موجود ہوتا ہے اور نطفہ کی نشوونما کے ساتھ مستحکم ہوتاجاتا ہے۔’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘میں اس پر سیر حاصل بحث موجود ہے اور میرا یہی عقیدہ ہے کہ جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔ علامہ اقبال بھی فلسفیانہ سطح پر اسی تصور کے قائل تھے۔تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ میں وہ روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے اور انسان کو ایک ایسی وحدت قرار دیتے ہیں جس کے اعمال و افعال کا مشاہدہ عالم خارجی کے حوالے سے کیا جائے تو اسے بدن کہیں گے اور جب ان کی حقیقی غرض و غایت اور نصب العین پر نظر رکھی جائے تو اسے روح کہیں گے۔عقیدہ اور فلسفہ سے ہٹ کر سائنس میں کلوننگ کے تجربہ سے اس عقیدہ اور تصوّرکی مزید تصدیق ہوتی ہے۔روح ہمارے ہر سیل میں سرایت کئے ہوئے ہے۔اس کا مطلب ہے پانی کی طرح روح کے نور کو بھی توڑا نہیں جا سکتا۔جتنا اسے توڑا جائے گاہر قطرہ کی طرح روح کے نور کا ہر قطرہ بھی اپنی اصل کی پوری بنیاد کے ساتھ اپنی جگہ موجزن رہے گا۔اب کلوننگ سے جس بات کی تصدیق ہو رہی ہے،ہمارے صوفیائے کرام تو ایک عرصہ سے صوفیانہ سطح پر اسی بات کو قطرہ میں دجلہ اور دجلہ میں قطرہ دیکھنے کی صورت بیان کرچکے ہیں۔ یوں میرے نزدیک جسم اور روح دونوں لازم و ملزوم ہیں،موت کے بعد بھی یہ تعلق کسی نہ کسی سطح پر قائم رہتا ہے اور قیامت کے دن ہمیں ہمارے جسم دوبارہ دے دئیے جائیں گے۔اور انہیں جسموں کو ہی جزا ،سزا سے گزرنا ہوگا،ظاہر ہے یہ جسم اپنی اپنی روح سمیت ہوں گے۔کلوننگ کے تجربے کا گہرا جائزہ لیا جائے تو قیامت کے دن انہیں جسموں کے ساتھ دوبارہ زندہ کئے جانے کا عقیدہ ،عقلی لحاظ سے بھی مزید واضح اور روشن ہوتا چلا جاتا ہے۔</b><br />
<b>ان دنوں میں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ میری مختلف اصنافِ ادب میں تخلیق کاری کا عمل ایک دوسری اصناف میں کچھ کچھ مدغم ہونے لگا ہے۔مثلاَ یادوں کی گزشتہ اور موجودہ قسط میں یادوں کے ساتھ افکار و خیالات کی زیادہ یلغار ہو رہی ہے،یوں یادیں مضمون جیسی صورت اختیار کر رہی ہیں۔اسی طرح میرے آخری تین افسانوں(مسکراہٹ کا عکس،کہانیوں سے بھاگا ہوا کہانی کار اور اپنے وقت سے تھوڑا پہلے ) میں یادوں کے گہرے اثرات کہانی کا رُوپ اختیار کر گئے ہیں۔اگرچہ ایسے اثرات میری دوسری کہانیوں اوردیگر تخلیقات میں بھی ہیں لیکن اتنے گہرے نہیں جتنے مذکورہ تین افسانوں میں در آئے ہیں۔ اب تو مجھے ایسا لگنے لگا ہے کہ شاید ان یادوں کی یلغار کسی ناول کا روپ اختیار کرنا چاہ رہی ہے۔ایسا ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی سمجھوں گا۔ناول اورافسانہ فکشن میں شامل ہیں اور فکشن کو تو لغوی معنوں میں ویسے بھی جھوٹ شمار کیا جاتا ہے۔اوپر سے میں نے اپنی پچھلی قسط میں روزمرہ زندگی میں بے ضرر سے جھوٹ بولنے کا اقرار کیا تو ایک دوست کہنے لگے آپ نے تو خود مان لیا کہ آپ جھوٹ بھی بولتے ہیں۔مجھ پر طنز کرنے والے دوست فرینکفرٹ میں ٹیکسی چلاتے ہیں اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور احباب قانونی طور پر دویا چار گھنٹے کی ملازمت کے پیپرز پُر کراتے ہیں اور بارہ بارہ گھنٹے کام کرکے بلیک منی کماتے ہیں،پھر دو،چار گھنٹے کی ملازمت کے جتنی آمد ظاہر کرتے ہیں،اس کے نتیجہ میں حکومت کے فلاحی قوانین کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت سے مالی امداد بھی وصول کرتے ہیں۔اس سارے’’ ایماندارانہ عمل‘‘ کو مکمل کرنے کے لئے دستاویزی طور پر کتنے ہی’’سچ‘‘ لکھ کر یہ سب کچھ کمایا جاتا ہے۔۔۔اب ایسے دوست خود کو سچا سمجھ کر مجھ پر طنز فرما رہے تھے تو ان کے حصے کی شرمندگی بھی مجھے ہی محسوس کرنا پڑی۔ان کے سچ کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے میں نے ان سے پوچھاکہ بھائی کیا یہ بذاتِ خود میرا سچ نہیں ہے کہ میں مان رہا ہوں کہ ہم دن میں کئی بار غیر ارادی طور پر اور کسی کو نقصان پہنچائے بغیر بے ضرر سے جھوٹ بول جاتے ہیں ؟کوئی لاکھوں، کروڑوں جھوٹ بولنے والا اگر اپنے جھوٹ کا اعتراف نہ کرے تو کیا وہ محض اس لئے سچا کہلائے گاکہ اس نے اپنے کروڑوں جھوٹ بولنے کا اقرار نہیں کیا؟حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے فقیہیوں اور فریسیوں کو مخاطب کرکے کیا خوب کہا تھا کہ: ’’تم مچھروں کو توچھانتے ہومگر اونٹوں کو نگل جاتے ہو‘‘</b><br />
<b>ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ ہم انسان کو انسان کی سطح پر دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔اگر کوئی ہمارا ہیرو ہے تو وہ ہر عیب سے پاک ہے،اس میں کوئی انسانی عیب ہو ہی نہیں سکتا اور اگر کوئی ہمارے لئے کسی زاویے سے ولن ہے تو اس بد بخت میں کوئی خوبی ہو ہی نہیں سکتی۔خدا اسے جہنم میں بھیجے نہ بھیجے،ہم خود اس کی زندگی کو ضرور جہنم بنا کر رکھ دیں گے۔حالانکہ ہم سب انسان اچھائی اور برائی،نیکی اور خیر کا مجموعہ ہوتے ہیں ۔ کسی میں شر کے مقابلہ میں خیر کا پلڑا بھاری ہو تو اتنا ہی کافی ہے۔ لیکن مذہبی انتہا پسند اتنی سی بات سمجھ لیں تو پھر ان کا کام کیسے چلے۔</b><br />
<b>میں نے اپنے خاکوں اور یادوں میں جو کچھ لکھا ہے ،وہ سب سچ ہے۔بیتا ہوا سچ،دیکھا ہوا سچ یا سنا ہوا سچ اور وہ انکشافی سچ جو کسی تخلیق کار کو نصیب سے ملتا ہے۔اب جو ناول لکھنے کا ارادہ ہے اگر لکھا گیا تو اس میں بھی سارا سچ ہی لکھوں گا۔کہیں مشکل پیش آئی تو زندگی کے بعض حصے نہیں لکھوں گا لیکن جھوٹ نہیں لکھوں گا۔خدا کرے مجھے اب ناول لکھنے کی توفیق مل جائے کیونکہ میں نے کم از کم ایک پورے ناول کی زندگی بسر کر لی ہے۔ </b><br />
<b>پاکستان میں مجھے ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف رہتی تھی۔جرمنی میں آنے کے بعد سے یہ بیماری ایسی غائب ہوئی ہے کہ جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔یہاں زندگی میں بعض انتہائی تکلیف دہ اوربہت زیادہ دکھی کرنے والے سانحات بھی پیش آئے لیکن ہر مرحلہ پر ذہنی و روحانی دکھ کے باوجود میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا ۔ایک دو مواقع پر شوگر کی مقدار بڑھ گئی تو ڈاکٹر نے فکر مند ہو کر میرا بلڈ پریشر بھی چیک کرنا شروع کیا۔میں نے مسکرا کر ڈاکٹر کو بتایا کہ فشارِ خون کو تو آپ بالکل متوازن پائیں گے۔میری بات درست نکلی تو ڈاکٹر حیرت سے مسکرا دیا۔تب میں نے اس سے کہا کہ مجھے لگتا ہے جب فوت ہو جاؤں گا تب بھی میرا فشارِ خون دیکھا گیا تو اسی طرح نارمل رزلٹ آئے گا۔کچھ عرصہ کے بعد ایک بار امین خیال جی سے یاہو کے میسنجر پر گفتگو ہو رہی تھی۔میں نے انہیں بلڈ پریشر والی ساری بات بتائی تو وہ کہنے لگے بھائی یہ تو نفسِ مطمئنہ کا مقام ہے۔مجھے بہت شرمندگی ہوئی۔بہت سارے’’ یقین ‘‘کے باوجود میں گنہگار تو ابھی تک’’ تذبذب‘‘ کے مراحل سے گزرتا رہتا ہوں۔مجھے نفسِ مطمئنہ کی دولت کہاں نصیب ہوئی ہے۔نصیب ہو جائے تو میری زندگی کا مقصد ہی پورا ہو جائے۔بہر حال بلڈ پریشر کے نارمل رہنے کو خدا کا خود پر بڑا فضل اور احسان سمجھتا ہوں۔اس نے دوسری بیماریوں اور موسمی علالتوں سے بھی کافی حد تک محفوظ رکھا ہوا ہے۔اور میں شاعرکے الفاظ میں’’ تندرستی ہزار نعمت ہے ‘‘کا مزہ لیتا رہتا ہوں۔</b><br />
<b>مجھ پر آنے والے تکلیف دہ دنوں میں سے ایک وہ عرصہ تھا جب بے وزن شعری مجموعے رکھنے والوں اور جعلی شاعروں اور ادیبوں نے مل کر میرے خلاف غلیظ مہم شروع کی تھی۔اس تمام عرصہ میں بھی میرا بلڈ پریشر بالکل نارمل رہا۔میرے خلاف مہم چلانے والے اس لائق نہیں کہ میں ان کے ناموں سے اپنی یادوں کے اس سلسلہ کو آلودہ کروں۔ان کا ذکر کسی اور جگہ پر ہی کافی رہے گا لیکن دو شخصیات اس غلیظ کھیل میں ایسی بھی شریک ہوئیں،جن کا صدمہ مجھے آج بھی ہے۔یہ شخصیات تھیں (تب)سویڈن میں مقیم ڈاکٹر پرویز پروازی اورہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن ۔دونوں صاحبان نے میرے جرمنی پہنچنے کے بعد مجھے خود ڈھونڈا اور خود مجھ سے رابطہ کیا۔پرویز پروازی کا میرے بزرگوں سے بھی تعلق رہا تھا اس لئے ان کے معاملہ میں دوستی کے ساتھ احترام کا تعلق بھی تھا۔انہوں نے اس احترام کا کچھ فائدہ اٹھانا چاہا۔میرے ایک شعر پر اعتراض فرما دیا </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>متن میں آپ کا ہی ذکر چلا آتا ہے </b></div><div style="text-align: center;"><b>اچھا ہے بچ کے رہیں حاشیہ آرائی سے </b></div><b>ان کا کہنا تھا کہ متن کی ت پر زبر ہے جبکہ میں نے ت کو ساکن باندھا ہے۔میں ان کا اعتراض والا خط پڑھ کر ہی ساکت ہو گیا۔تو آپ ساری زندگی پاکستان سے جاپان تک ت کی زبر کے ساتھ متن پڑھاتے رہے ہیں؟۔میں نے ادب کے ساتھ وضاحت کی تو انہیں احساس ہو گیا کہ وہ غلط تھے،چنانچہ انہوں نے معذرت کر لی لیکن دل سے شاید مجھے معاف نہیں کیا۔چنانچہ پھر انہوں نے ماہیے کی بحث میں غیر ضروری دخل اندازی فرما دی۔میں نے ان سے درخواست کی کہ آپ کسی مضمون میں یہ سب لکھیں تاکہ بحث آگے چلے۔لیکن انہوں نے مضمون نہیں لکھا۔میرا ذاتی قیاس ہے کہ انہوں نے جاپانی ہائیکو کے حوالے سے جو کام کیا تھا اس کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی۔اس کے برعکس تب ماہیے کی بحث کو کئی بڑے ادبی رسائل اہمیت دے رہے تھے۔اور جہاں بھی ماہیے کی بحث چلتی تھی میرا حوالہ آجاتا تھا۔اسی دوران جنگ لندن کے ادبی صفحہ پر ہائیکو کے حوالے سے ایک مضمون چھپاجس میں پروازی صاحب کے کام کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے ان کا ذکر تک نہ کیا گیا۔پروازی صاحب کا اس پر غصہ کرنا یا دُکھی ہونا بجا تھا لیکن اس میں ماہیا کا کوئی قصور نہیں تھا۔بہر حال تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنی حمایت میں ایک جوابی مضمون لکھ کر مجھے بھیج دیا کہ میں اسے اپنی طرف سے جنگ لندن میں چھپوا لوں۔ اس باران کی اس ’’بے پایاں محبت‘‘ پرمیں صرف ساکت نہیں ہوا، مجھے جیسے سکتہ سا ہو گیا۔جی کڑا کرکے ان کے جرمنی میں مقیم ایک شاگرد کو وہ مضمون دے دیاکہ بھائی! چاہو تو استاد کی استادی کا بھرم رکھ لو۔لیکن ان کے اس شاگرد نے بھی پروازی صاحب کا دفاع کرنے والا مضمون استعمال کرنے سے معذرت کر لی اور وہ مضمون مجھے واپس کر دیا۔ اسی دوران پرویز پروازی صاحب نے مجھے حمید نسیم کی خود نوشت میں شامل ایک اقتباس بھیجا جس سے زمانی طور پرچراغ حسن حسرت کو اردو ماہیے کا بانی قرار دلوایا جا سکتا تھا۔یہ تحقیقی اور علمی معاملہ تھا۔اس لئے میں نے بالکل ایسا باور نہیں کیا کہ پروازی صاحب یہ اقتباس مجھے کسی دباؤ میں لانے کے لئے بھیج رہے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے اس موضوع پر مزید تحقیق کرنے کا موقعہ مل گیا۔اس تحقیق کے نتائج حمید نسیم کے حوالے کے ساتھ میری کتاب’’اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما‘‘ کے پیش لفظ میں اور میرے بعد کے ایک مضمون ’’مرزا (حامد بیگ)صاحب کے جواب میں‘‘پوری تفصیل سے موجود ہیں۔(اور ابھی تک تحقیقی حوالے سے حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں،تاوقتیکہ کوئی نئی تحقیق انہیں رد نہ کر ے) بس میری ان حرکتوں کے بعد پروازی صاحب مجھ سے ایسے خفا ہوئے کہ ان گھٹیا لوگوں کے ساتھ مل کر میرے خلاف نہایت غلیظ مہم کے روحِ رواں بن گئے۔ان کی شخصیت کا یہ رُخ اخلاقی طور پر اتناافسوسناک تھا کہ میں ابھی تک ان کے حوالے سے اس صدمے سے باہر نہیں آسکا۔ جسے تہذیب اور اخلاق کا آسمان سمجھا تھا وہ کیا نکلا تفو بر تو اے چرخِ گردوں تفو !</b><br />
<b>جمیل الرحمن نے جب میرا اتہ پتہ ڈھونڈ کر مجھ سے رابطہ کیا تب انہوں نے ادبی حوالے سے مجھے تعریف کی حد تک جوکچھ کہا،اسے درج کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن جب وہ پرویز پروازی کے کہنے پر میرے خلاف غلیظ مہم کے سپاہی بنے تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔وہ جس طرح کی حرکتیں ہالینڈ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان تک کرآئے تھے،مجھے ساتھ کے ساتھ ان کی رپورٹ مل رہی تھی۔اس مہم کے بعد کئی بار جمیل الرحمن کے فون آتے رہے۔میں نے انہیں ان کی کسی زیادتی کا احساس تک نہیں دلایا لیکن ان کے ساتھ کبھی گرمجوشی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا۔انسان کتنا ہی زیادتی کر لے اگر اس کی فطرت میں تھوڑی بہت نیکی کی رمق ہو تو ضمیر کچوکے ضرور لگاتا ہے۔چنانچہ ایک بار جمیل نے خود ہی کھل کر معذرت کی اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو کچھ کیا صرف استاد،شاگرد کے رشتے کی وجہ سے کیا۔میں نے تب بھی خاموشی اختیار کئے رکھی۔وقفے وقفے سے آٹھ دس بار ٹیلی فون کرنے کے بعد ایک بار انہوں نے گلہ کیا کہ وہ اتنی بار مجھے فون کرچکے ہیں جبکہ میں انہیں فون نہیں کر رہا۔میں نے تب بھی بات کو ٹال دیا۔اس سے اگلی بار جب جمیل الرحمن کا فون آیا تو مجھ پر برہمی کا اظہار کرنے لگے کہ میں ہر بار فون کرتا ہوں۔آپ فون نہیں کرتے۔تب میں نے اتنا جواب دے دیا کہ میں نے کب آپ سے کہا ہے کہ آپ مجھے فون کیا کریں؟</b><br />
<b>اس دن کے بعد سے ان کا کوئی فون نہیں آیا یعنی وہ بھی ہیں آرام سے اور میں بھی ہوں آرام سے *</b><br />
<b>میں اپنے ایک ہم نام کے حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا بھول گیا تھا۔خانپور میں ہی میں نے شاہکار والوں کی چھاپی ہوئی ایک پاکٹ سائز کتاب دیکھی تھی’’ستاروں کا سجدہ‘‘۔اس ناول کو لکھنے والے تھے حیدر قریشی صاحب۔اس نام کے ساتھ ’’صاحب‘‘ اس لئے لکھا ہے کہ مذکورہ ناول نگار میں نہیں تھا کوئی اور صاحب تھے۔کون تھے؟ میری بدقسمتی کہ مجھے آج تک ان کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔اب حال ہی میں کراچی سے ایک دوست نعیم الرحمن صاحب نے توجہ دلائی تو میں نے انہیں لکھا کہ ان حیدر قریشی صاحب کا کچھ اتہ پتہ کریں۔دیکھیں شاید ان کی بابت کچھ معلوم ہو جائے۔ویسے ایک بات طے ہے کہ وہ جو بزرگ بھی ہیں یاتھے ،گزشتہ ربع صدی سے زائد عرصہ سے ادب کی دنیا میں ،ادبی رسائل میں کہیں دکھائی نہیں دئیے۔</b><br />
<b>جرمنی میں بہت ہی معمولی سی مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلا رہا ہوں۔ایک بار ایک دوست مجھے میری جاب پر ہی ملنے کے لئے آئے۔بعد میں گھر پر ملے تو کہنے لگے،اس دن آپ کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا تھا کہ اردو کا اتنااچھا شاعر اور ادیب اور اتنی معمولی سی ملازمت کررہا ہے۔میں نے فوراََ انہیں کہا کہ بھائی !شاعر اور ادیب تو میں ویسے بھی معمولی ساہوں لیکن آپ اس ساری صورتحال کو یوں دیکھیں تو آپ کو خوشی ہوگی کہ اتنا معمولی سا مزدور ہے اور خدا نے ایسی صلاحیتیں عطا کر رکھی ہیں کہ چکی کی مشقت کے باوجود اتنا ادبی کام کر رہا ہے۔ </b><br />
<b>جرمنی میں نیشنلٹی لینے کے لئے پہلے اتنی شرائط تھیں کہ بندے کو جرمنی میں رہتے ہوئے سات آٹھ سال ہو گئے ہوں،اپنے ذرائع آمدن ہوں یعنی حکومت سے اسے کوئی امداد نہ ملتی ہو اور جرمن زبان مناسب حد تک آتی ہو۔امریکہ کے ٹریڈ ٹاورز پر حملوں یعنی نائن الیون کے بعد سے پورے یورپ میں بھی رویوں میں قدرے سختی آگئی ہے۔میرے سارے بچوں کو جرمن نیشنلٹی مل چکی تھی۔میرا اور میری اہلیہ کا معاملہ یوں ہے کہ ہمیں جرمن زبان بالکل نہیں آتی۔میری ملازمت کی آمدنی اتنی کم ہے کہ حکومت کو اپنے فلاحی قوانین کے مطابق مجھے ہر مہینے میری ضرورت کی بقیہ رقم دینا ہوتی ہے۔گویا ہمیں زبان بھی نہیں آتی تھی اور ہماری آمدنی بھی اپنے لئے پوری نہ تھی۔اس لئے ہم دونوں شرائط پر پورے نہیں اترتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ہم نے نیشنلٹی کے حصول والے اپنے فارم پُر کروا کر پانچ سال تک اپنے پاس ہی رکھ چھوڑے تھے ۔ چونکہ اپنی لیگل پوزیشن کا اندازہ تھااس لئے اپلائی کرنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی۔آخر پانچ سال کے بعد میں نے کچھ ہمت کی اور مبارکہ سے کہا کہ اپلائی تو کر دیتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ درخواست مسترد ہو جائے گی۔خیر ہے،ایک تجربہ تو ہو جائے گا۔سو، جی کڑا کرکے ہم نے درخواست جمع کرا دی۔ روٹین کے مطابق ہمیں جرمن زبان کے ٹیسٹ کے لئے بلاوا آگیا۔جس دن ٹیسٹ تھا اس دن میں نے علی الصبح انٹرنیٹ پر یاہو کے قسمت کے حال والے حصہ کو دیکھا تو وہاں کچھ اس مفہوم میں واضح احوال لکھا ہوا تھا کہ آپ آج جس خاص کام کے لئے جا رہے ہیں،اس میں کامیابی نہیں ہو گی لیکن ہمت نہ ہاریں اور کوشش جاری رکھیں۔یہ پڑھ کر میں دل میں ہی ہمت ہار بیٹھا۔مبارکہ بیدار ہوئی تو اس نے ایک انوکھا سا خواب سنایا ۔اس کی کوئی جاننے والی باجی کوثر ہیں،انہوں نے ہم دونوں کو اپنے گھر پر دعوت دی ہوئی ہے اور ہم باجی کوثر کی دعوت کھا رہے ہیں۔اس خواب سے کچھ امید بندھتی نظر آئی تومیں نے گومگو کی حالت میں مبارکہ کو اپنا آزمودہ ایک ٹوٹکا بھی بتا دیا۔جب زبان کا ٹیسٹ لینے والی کے کمرے میں جانے لگیں تو اپنی انگلی سے اپنی پیشانی پر یاعزیز! لکھ لیں۔افسر کا رعب دل پر نہیں رہے گا اور افسر کے دل میں آپ کے لئے نرمی پیدا ہو جائے گی ۔ </b><br />
<b>پہلے مجھے ٹیسٹ کے لئے بلایا گیا،ایک اخباری تراشہ کی ریڈنگ کرائی گئی پھر اُس پر گفتگو کی گئی۔مجھے آج تک علم نہیں ہے کہ میں نے کیا پڑھا تھا اور کیا ڈسکس کی تھی۔لیکن مجھے بتایا گیا کہ میں امتحان میں پاس ہو گیا ہوں۔میرے بعد مبارکہ گئی اور وہ بھی اسی طرح پاس قرار دے دی گئی۔میری جرمن زبان اتنی خراب ہے آج بھی کسی ٹیسٹ میں بٹھایا جائے توفیل ہو جاؤں گا لیکن اللہ کا کرم تھا کہ ہم دونوں کو زبان کے ٹیسٹ میں بھی پاس قرار دے دیا گیااور آمدن پوری نہ ہونے کی خامی کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔وہ دن اور آج کا دن میں نے اخبارات ورسائل میں اور انٹرنیٹ پرقسمت کے احوال بتانے والے حصے دیکھنا ترک کر دئیے ہیں۔البتہ جس خاتون نے ہمارا جرمن زبان کا ٹیسٹ لے کر ہمیں پاس قرار دے دیا تھا اس کے لئے کبھی کبھار دعا ضرور کرلیتا ہوں اللہ اسے خوش رکھے!ہمیں نیشنلٹی ملنے کے معاََ بعد سے اب یہاں اس کے حصول کا طریق کارپہلے سے بھی بہت زیادہ مشکل کر دیا گیا ہے۔</b><br />
<b>ہماری جرمن زبان کا حال تو بس ایسا ہی ہے البتہ اگلی نسلوں کے لئے زبان کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔بچے سکول جاتے ہیں اور وہاں سے انہیں جرمن زبان سیکھنے کے لئے کسی خصوصی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔سب کچھ از خود ہوتاجاتا ہے۔البتہ عربی یا اردو سکھانے کے لئے ان کی ماؤں کو محنت کرنا پڑتی ہے۔اس کے نتیجہ میں کئی مزے کے لطیفے سامنے آتے رہتے ہیں۔ جرمن زبان میں بلی کو Katze کہتے ہیں۔یہ انگریزی میں CAT سے ملتا جلتا نام ہے۔ میرے دوسرے پوتے جہاں زیب کی عمر ابھی چار سال ہے۔اسے عربی قاعدہ کے ساتھ اردو قاعدہ بھی پڑھانا شروع کیا گیاہے۔ الف انار پڑھنے کے بعد جہاں زیب نے قاعدہ کی تصویرپر نظر گاڑی ہوئی تھی اور ب: بلی کی بجائے بڑے مزے سے پڑھ رہا تھا ب:کاٹزے (Katze) ۔ </b><br />
<b>معمولاتِ زندگی میں احتیاط اچھی چیز ہے لیکن بہت زیادہ احتیاط سے بھی خرابی ہوجاتی ہے۔اپنے گھر کی دو مثالیں یاد آگئیں۔ پاکستان میں کھانا کھاتے ہوئے اکثر ایسا ہوتا تھاکہ سالن میرے کپڑوں پر گر جاتا تھا۔یہ عادت یہاں بھی قائم ہے ۔جتنی زیادہ احتیاط کروں کہ سالن نہ گرے اتنا ہی زیادہ ایسا ہوجاتا ہے۔ یوں بیوی کی کڑوی کسیلی سننا پڑتی ہیں۔ میری چھوٹی بہن زبیدہ خانپور کے زمانہ میں جب گھر کے برتن دھورہی ہوتی تو آواز سے پتہ چلتا کہ کوئی گلاس ٹوٹ گیایا پلیٹ ٹوٹ گئی ہے۔نقصان پر امی جی تھوڑا سا بولتیں تو ابا جی ہنستے ہوئے کہتے کہ بیٹا ایک اور گلاس بھی توڑ دو۔اور اسی وقت دوسرا گلاس ٹوٹنے کی آواز آجاتی۔ایک بار اسی طرح جب دوسرا گلاس ٹوٹنے کی بھی آواز آئی تو امی جی ذرا غصے کے ساتھ بولیں۔ابا جی نے وہیں سے آواز دی بیٹا! جگ بھی توڑ دو۔بیچاری زبیدہ کی تمام تر احتیاط کے باوجود دھلا ، دھلایاجگ اٹھاتے وقت جگ بھی ٹوٹ گیا۔ زبیدہ نے اس ناگہانی نقصان پر رونا شروع کر دیا۔اب ایک طرف امی جی کی خفگی بھری آواز ہے دوسری طرف زبیدہ کے رونے کی آواز اور تیسری طرف زبیدہ کو شاباش دیتے ہوئے ابا جی کے ہنسنے کی آواز۔۔۔ابا جی کے ہنسنے کا وہی انداز جس میں ہنستے ہنستے ان کی آنکھ سے پانی بہنے لگتا تھا۔ایک بار امریکہ میں زبیدہ کے ساتھ ٹیلی فون پر ان یادوں کی باتیں ہو رہی تھیں اور ہم دونوں ان پر ہنس رہے تھے۔ہمارے ہنستے ہنستے اباجی کی آنکھوں کا پانی ہماری آنکھوں میں آگیااور ہم دونوں ہی ہنستے ہنستے اپنی بھیگی پلکیں صاف کر رہے تھے۔کبھی کبھی بہت چھوٹی چھوٹی سی بے معنی یادیں بھی ہماری زندگی میں کتنی بامعنی بن جاتی ہیں۔</b><br />
<b>مغربی ممالک میں عمومی طور پر اور یہاں جرمنی میں خاص طور پربجلی اور پانی کی فراہمی میں کسی تعطل کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ٹیلی فون سروس اب تو ہر جگہ بہت بہتر ہوتی جا رہی ہے لیکن جب دوسرے ملکوں میں اچھی سروس نہ تھی یہاں تب بھی عمدہ سروس ہوا کرتی تھی ۔ نکاسئ آب کا معاملہ ہو یا سردیوں میں گھروں کا ہیٹنگ سسٹم،یہ سہولیات یہاں زندگی کا حصہ شمار ہوتی ہیں۔کوئی انتہائی دوردراز کا گاؤں ہو وہاں بھی سڑکیں جاتی ہیں،بجلی،پانی،نکاسئ آب،ہیٹنگ سسٹم،اور ٹیلی فون کی سہولیات میسر ہیں۔کسی پائپ لائن کی کوئی مرمت کرنا ہوئی یا انسپکشن کرنا ہوئی تو کئی دن پہلے نوٹس لگا دیا جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو اتنے بجے سے اتنے بجے تک پانی بند رہے گا۔اپنی ضرورت کا پانی جمع کر رکھیں۔سڑکوں کی مرمت کا کام بھی ساتھ کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔لیکن جہاں ایسا کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہیں متبادل رستوں کا انتظام کر دیا جاتا ہے۔یہاں فرینکفرٹ شہر کے اندر ٹریفک اور عوام کے ہجوم میں بھی دیکھا کہ کسی بلڈنگ کی تعمیر ہو رہی ہے یا کسی عمارت کی مرمت ہو رہی ہے، مجال ہے کوئی کوڑا کرکٹ اِدھر اُدھر بکھر جائے۔تعمیراتی اداروں کا ایسا مربوط نظام ہے کہ نہ تو کوئی رستہ بلاک ہو گا اور نہ ہی گرد و غبار پیدا ہو گا۔ </b><br />
<b>ایک بار اس وقت مجھے بڑی حیرانی ہوئی جب فرینکفرٹ کے بڑے ریلوے اسٹیشن سے لے کر Hauptwache تک انڈر گراؤنڈ ٹریکس کی مرمت کا کام ہونا تھا۔لگ بھگ ۲۰ دن تک یہ مرمت ہونا تھی اور اس عرصہ میں اُ س رُوٹ کو بند رہنا تھا۔مجھے پہلے دن تشویش ہوئی کہ جاب پر جانے کے سارے اوقات درہم برہم ہو جائیں گے۔میں نے مین اسٹیشن پر پہنچ کر انفارمیشن والوں سے رابطہ کیا اور انہیں اپنی منزل کا پتہ بتا کر متبادل رُوٹ پوچھا تو انہوں نے ایک منٹ میں متبادل رُوٹ کی پرچی نکال کر میرے حوالے کر دی۔پہلے دن میں اپنے معمول سے صرف دس منٹ لیٹ ہوا ،اور بعد میں صرف پانچ منٹ کی تاخیر سے پہنچ جاتا تھا۔پاکستان میں کسی ریلوے ٹریک کی مرمت یا کسی سڑک کی مرمت کی صورت میں جو حال ہوتا ہے اس کے بارے میں کیا کہوں۔سارے اہلِ وطن بخوبی جانتے ہیں بلکہ ایسی صورتحال کو بھگتتے رہتے ہیں۔ریلوے کے سلسلے میں تو کچھ عرصہ پہلے’’ رن پٹھانی پُل‘‘ کے بارے میں ہی جتنی خبریں آتی رہیں،انہیں پڑھ کر اپنے ہاں کے انتظامات پر شرمندگی ہوتی رہی۔یہاں جرمنی میں ریلوے کے مذکورہ بہترین متبادل انتظام کے ساتھ کمال یہ تھا کہ نہ صرف ہزاروں مسافر وں کے معمولات میں خلل نہیں پڑابلکہ اس دوران کسی قسم کا گردو غبار پبلک تک نہیں پہنچا۔سچی بات ہے میں تو اپنی پاکستانی یادوں کی وجہ سے گردو غبار دیکھنے کو ہی ترستا رہا۔ </b><br />
<b>پاکستان میں ہمیں یہ حدیث شریف تو پڑھائی جاتی تھی کہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔لیکن جہاں تہاں گندگی کے ڈھیر اب بھی ویسے ہی موجود ہیں۔ادھر جرمنی میں ایسی کوئی حدیث یاآیت نہیں پڑھائی جاتی لیکن صفائی کا حال سب کے سامنے ہے۔ہم لوگوں کی خرابی یہ ہوئی ہے کہ ہم گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح چند باتوں اور نصیحتوں کو تو دہراتے رہتے ہیں لیکن ہمارا عمل کا خانہ یکسر خالی ہے۔قرآن شریف میں سب سے زیادہ دنیا اور کائنات کے اسرار و رموز پر غور و فکر کی تلقین کی گئی ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کا جدید سائنسی انکشافات اور ایجادات میں کتنا حصہ ہے؟ اس سوال کے جواب سے پتہ چل سکتا ہے کہ مسلمان آج کل قرآن کی اس سب سے زیادہ تلقین پر کتنا عمل کر رہے ہیں؟۔ان کے بر عکس اہلِ مغرب نے فلسفہ اور دوسرے علوم میں جتنی پیش قدمی کی، سائنسی ترقی کی،جتنی ایجادات کیں،جو نئی ٹیکنالوجی اختیار کی وہ سب دنیا اور کائنات کے اسرار و رموز پر غور کا نتیجہ اور ثمرہ ہے۔ہم نے تو سوچ بچار اور آزادانہ غور و فکرکو شجرِ ممنوعہ بنا رکھا ہے۔اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہے۔اہلِ مغرب نے آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو عالمی غلبہ حاصل کر رکھا ہے،یہ سب ان کی آزادانہ سوچ،غور و فکراور تدبر کا ثمر ہے۔وہی آزادانہ سوچ،غور و فکر اور تدبر جس کی قرآن نے بار بار تلقین کی اور ہمارے علماء اور رہنماؤں نے لوگوں کو اسی عمل سے دور رکھا۔</b><br />
<b>یہاں ایک وضاحت بھی کر دوں ہمارے مصلحین اور مفکرین جب مغربی معاشرے کے مقابلہ میں اپنے مشرقی معاشرہ کے فضائل بیان کرتے ہیں تو اس میں مغرب کی ’’بے راہروی‘‘کو بطور خاص نشانہ بناتے ہیں۔میں نے اس معاملہ کو ایک اور زاویے سے دیکھا ہے۔ وہ آزادی جو مغرب نے فلسفہ،سائنس،مذہب ،ادب اور دیگر علوم میں اختیار کی اسی کے زیرِ اثر ان کے ہاں معاشرتی سطح پر آزادی کا رجحان بڑھا۔اب صورتحال یوں ہے کہ مغرب میں مرد عورت باہمی رضامندی سے جو کچھ کر لیں روا ہے،لیکن جبراََ کرنا منع ہے۔دوسری طرف ہمارے مشرقی معاشرہ میں مقتدر اشرافیہ طبقہ وہ سب کچھ بھی کرتا ہے جو مغرب میں ہوتا ہے اور جبراََ بھی بہت کچھ کرکے الٹا متاثرہ فریق کو گنہگار قرار دلوا کر جیلوں میں سڑوا دیتا ہے۔ایک طرف عیاشی اور ظلم کی یہ صورت ہے دوسری طرف اخلاقیات اور مذہب کے نام پر عام آدمی کو اس فعل سے روکا جاتا ہے جس کا ارتکاب مقتدر طبقہ دن رات کرتا ہے۔اس حوالے سے جب میں دیکھتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ ہمارا مشرقی معاشرہ مقتدر طبقہ کی منافقت کے باعث استحصالی اور منافقانہ معاشرہ بن گیا ہے۔ہم نیک بننا نہیں چاہتے،صرف نیک دِکھنا چاہتے ہیں۔ہمارے بر عکس مغرب میں جو سہولیات مقتدر طبقہ کو میسر ہیں وہ انہوں نے عام آدمی کو بھی مہیا کررکھی ہیں۔شرط ہر جگہ ایک ہی ہے کہ جو کچھ ہو باہمی رضامندی سے ہو۔جبراََ اگر شوہر بھی اپنی بیوی سے کچھ کرے تو اس پر بھی کیس بن جاتا ہے۔</b><br />
<b>جنرل ضیاع الحق کے دور میں ہونے والی ادیبوں کی ایک کانفرنس میں قبائلی علاقہ سے آئے ہوئے ایک ادیب فائیو سٹار ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔صبح سویرے وہ رفع حاجت کے لئے ڈھیلے کی تلاش میں ویرانے کی طرف نکل گئے۔دیر سے واپس آئے تو بعض ادیبوں کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ ڈھیلے کی تلاش میں ویرانے کی طرف چلا گیا تھا۔ایک ادیب نے انہیں بتایا کہ باتھ روم میں جو ٹشو پیپرز ہیں،آپ انہیں استعمال کر سکتے تھے۔اس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ تو اس پر شاعری لکھتے رہے ہیں۔ہمارے بعض سخت گیر علاقوں میں استنجہ کے لئے ڈھیلے کے استعمال کو آج بھی بعض لوگ ایمانیات کا حصہ سمجھے بیٹھے ہیں۔اس کے نتیجہ میں ایسے کئی لطیفے سامنے آتے رہتے ہیں۔اگر اہلِ مغرب کے عقائد یا معاشرت میں ڈھیلے کا ایسا عمل دخل ہوتا تو مجھے یقین ہے یہ لوگ ڈھیلوں کی ایسی فیکٹریاں بنا لیتے جہاں سے نفیس قسم کے ایسے ڈھیلے تیار ہوتے جو حفظانِ صحت کے مطابق ہوتے اور صفائی کا سارا عمل مقناطیسی اور خودکار طریقے سے مکمل ہوا کرتا۔ </b><br />
<b>سرائیکی میں دو الفاظ کا مطلب واضح کرکے ایک دلچسپ واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔سرائیکی میں ’’ہِے‘‘ کا مطلب ’’ہَے‘‘ اور ’’ہا‘‘ کا مطلب ’’تھا‘‘ ہوتاہے۔ خانپور میں ہمارے محلہ میں ایک تھے چاچا مسُّو لکڑی کے ٹال والے اور ایک تھے چاچا چھتّا موچی۔چھتا موچی بریلوی مسلک کے مطابق حاضر ناظر کے قائل تھے اور چاچا مسودیوبندی مسلک کے مطابق اس کے مخالف تھے۔لیکن علم دونوں کا ہی پورا پورا تھا۔دونوں میں کلمہ طیبہ کی قرات پر بحث ہو رہی تھی۔چاچا مسّو کہہ رہے تھے کہ کلمہ شریف یوں پڑھنا چاہئے۔لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہَ (یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول تھے ۔)’’تھے‘‘ کو واضح کرنے کے لئے وہ کلمہ کے آخر میں سرائیکی ’’ہا‘‘ پڑھ کر سمجھتے تھے کہ وہ حضورﷺ کو وفات یافتہ قرار دے رہے ہیں، جبکہ چاچا چھتا موچی اصرار کر رہے تھے کہ کلمہ کی اصل قرات یوں ہے: لا الٰہ الااللہ محمد الرسول اللہِ یعنی وہ تھے نہیں ،بلکہ اب بھی ہیں،حاضر ناظر ہیں۔اس کے اظہار کے لئے وہ آخر میں سرائیکی لفظ کی طرح ’’ہِے‘‘ پڑھتے۔میں نے دونوں بزرگوں کی اس عالمانہ بحث کو مزے سے سنا تھا۔</b><br />
<b>میں نے اپنے نانا جی کا خاکہ لکھا تھا جو ’’میری محبتیں‘‘میں شامل ہے۔منشا یاد نے میری خاکہ نگاری پر مضمون لکھتے ہوئے اس خاکہ کو نسبتاََ زیادہ اہمیت دی۔اور خیال ظاہر کیا ہے کہ میرے نانا جی کے بعض خاص اثرات مجھ پر ہیں۔نانا جی کے وہ اثرات یقیناََ مجھ پر ہیں اور ان کی طرح دوسرے ان تمام عزیزوں کے اثرات بھی مجھ پر ہیں،جن کے خاکے میں نے لکھے اور وہ سب اپنے اپنے طریق سے میری شخصیت کی بُری بھلی تعمیر کا کام کر گئے۔ابا جی کو تو میں اب براہِ راست اپنے آپ میں دیکھتا ہوں۔منشا یاد کی نشاندہی کے بعد میں نے تھوڑا سا غور کیا تو ایک بڑی عجیب سی مماثلت مجھے اپنے نانا جی میں اور خود میں دکھائی دی۔نانا جی ایک بار لتا کا ایک گانا گنگنا رہے تھے :</b><br />
<b>یہ زندگی اسی کی ہے جو کسی کا ہو گیا</b><br />
<b>ہماری نئی نئی جوانی تھی۔ہم اپنے حساب سے نانا جی کے گانے پر ہنسے تو نانا جی نے ہم سب ہنسنے والوں کو پیار سے اپنے پاس بلایااور بتانے لگے کہ تم بچے اس گانے کو صرف گانا سمجھتے ہو،اس میں تو بڑی معرفت کی بات ہے۔یہ زندگی اس کی زندگی ہے جو ہمیشہ کے لئے خدا کا ہو گیااور اس کی محبت میں گم ہو گیا۔نانا جی کی اس تشریح پر ہمیں مزید ہنسی آئی لیکن ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہم نے ہنسی کو دبائے رکھا۔</b><br />
<b>آج ایک عرصہ گزرنے کے بعد جب میں بھی نانا بن چکا ہوں تو بالکل نانا جی والی صورتحال بن چکی ہے۔مجھے متعدد پرانے گانے پسند ہیں۔کسی زمانے میں صوفیانہ کلام سنتے ہوئے جذباتی کیفیت ہو جایا کرتی تھی۔لیکن چند برسوں سے ایک فلمی گانے نے مجھے عجیب طرح سے جکڑ رکھا ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>اک جاں تھی پاس وہ جاں لے کر ہم تیری گلی میں آنکلے</b></div><div style="text-align: center;"><b>کیا جانے کیا ارماں لے کر ہم تیری گلی میں آنکلے</b></div><b>نورجہاں کی آواز میں گایا ہوا یہ گانا میرے لئے ایک عجیب معنویت اور کیفیت کا حامل بن گیا ہے۔جب بھی اس گانے کو سنتا ہوں ایسے لگتا ہے جیسے میں اپنے گناہوں کی گٹھڑی اُٹھائے ہوئے خدا کے دربار کی طرف جا رہا ہوں اور یہ سب گاتا ہوا جا رہا ہوں:</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ترے سامنے نذر گزارنے کو ہم بے سروساماں کیا لاتے</b></div><div style="text-align: center;"><b>کانٹوں سے بھرا داماں لے کر، ہم تیری گلی میں آنکلے</b></div><b>اور پھر مجھے اپنے آپ پر قابو نہیں رہتا۔اگر گانا سنتے ہوئے جذب کی کیفیت گہری نہ ہو تو میرے صرف ایک مصرعہ گنگنانے سے ہی جذب کی کیفیت گہری ہو جاتی ہے۔یہ نانا جی کے ساتھ کسی نوعیت کی مماثلت ہے،یا ان کے سوچ کے انداز پر ہنسنے کی سزا ہے؟اگر سزا ہے تو میں اسے بہت بڑی جزا سمجھتا ہوں۔عجیب اتفاق ہے کہ نانا جی کو جس گانے کے بول میں معرفت دکھائی دیتی تھی وہ انڈین فلم انارکلی کا گانا تھا اور مجھے جس گانے نے کئی برسوں سے جکڑا ہوا ہے وہ پاکستانی فلم انارکلی کا گانا ہے۔خدا جانے (اچھی اور میٹھی)موسیقی واقعی روح کی غذا ہوتی ہے یا نہیں لیکن مذکورہ گانا تو میرے لئے واقعتاََ روح کا ایک تجربہ بنا ہوا ہے۔صوفیانہ کلام نہ ہوتے ہوئے مجھ پر اس کا اتنا گہرا اثر کیوں ہے اور میں معرفت کے سوا اسے کسی دوسرے رنگ میں کیوں نہیں لے سکتا؟مجھے خود اس کی سمجھ نہیں آتی۔شاید کہیں روح کا کوئی تار، اس گانے کے تاروں سے جُڑ گیا ہے۔</b><br />
<b>کبھی کبھار تھوڑا سا وقت ملتا ہے اور گانے سننے کا موڈ ہوتا ہے تو کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے کوئی سی ڈی لگا لیتا ہوں۔ایک بار صبح سویرے کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے میں نے لتا منگیشکر کا ایک گانا لگایا’’یہ شام کی تنہائیاں،ایسے میں تیرا غم‘‘۔۔۔مبارکہ کمرے کے آگے سے گزری تو کہنے لگی یہ کیا صبح صبح’’شام کی تنہائیاں۔۔۔‘‘لگا کر بیٹھے ہیں۔میرے پسندیدہ گانوں پر مبارکہ کے تبصرے بعض اوقات اپنا الگ لطف پیدا کردیتے ہیں۔پنجابی کا ایک پرانا گانا سنتے ہوئے مبارکہ نے میری کیفیت پر بڑا مزے کا تبصرہ کیا تھا۔میں وہ احوال ڈاکٹر نذر خلیق کے نام اپنے ایک خط میں لکھ چکا ہوں،جسے انہوں نے اپنی مرتب کردہ کتاب میں شامل کر دیا تھا۔ خط کا وہ حصہ بنیادی طور پر یادوں سے تعلق رکھتا ہے اور اب یہاں گانوں کا ذکر ہو رہا ہے تو اپنے ۱۶؍نومبر ۲۰۰۲ء کے تحریر کردہ اس خط کا متعلقہ حصہ یہاں درج کئے دیتا ہوں:</b><br />
<b>’’ایک دن میں پنجابی کی ایک ویب سائٹ ’’اپنا آرگ ڈاٹ کام‘‘ سے طفیل ہوشیارپوری صاحب کا مشہور گانا ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سنتے ہوئے دوستوں کی ای میلز کے جواب دے رہا تھا۔ گانے سے اپنی بعض یادوں کے باعث میں کچھ جذباتی سا بھی ہو رہا تھا۔اسی دوران کمرے میں مبارکہ آگئی اور ہنسنے لگ گئی۔۔۔۔۔میں نے حیران ہوکے پوچھا کیا ہوا ہے؟</b><br />
<b>کہنے لگی انٹرنیٹ پر ای میلز کے جواب لکھ رہے ہیں اور ساتھ ’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘سن کر جذباتی ہو رہے ہیں۔ </b><br />
<b>مبارکہ کی بات سن کر میں اپنی جذباتی کیفیت ہی میں مسکرا دیا۔ </b><br />
<b>لیکن بعد میں غور کیا تو مجھے کبوتروں کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور سے ای میل کے ذریعے پیغام بھیجنے والے دَور تک کے سارے زمانے اپنے اندر برسرِ پیکار نظر آتے ہیں۔نیا دور اپنی طرف بلاتا ہے اور اس میں بڑی کشش ہے،اس کا مضبوط جواز بھی ہے۔پہاڑ کی چوٹی تک جانا آسان ہے لیکن دوسری طرف پرانے دور کی یادیں مسلسل بلاتی ہیں۔روتی ہوئی،ہنستی ہوئی،ہر طرح کی آوازیں بلاتی ہیں۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گزرے زمانے کی آوازوں پر مڑ کر دیکھنے والے شہزادے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔اس کے باوجود میں نہ صرف مڑ کر دیکھتا ہوں بلکہ ہر قدم پر مڑ کر دیکھتا ہوں اور خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش بھی کرتا جاتا ہوں۔</b><br />
<b>’’چٹھی میری ڈھول نوں پچائیں وے کبوترا‘‘جذباتی ہو کر سننا،پہاڑ پر جاتے ہوئے مڑ کر دیکھنے جیسا ہے اور ساتھ ساتھ ای میلز کے جواب لکھتے جانا خود کو مکمل پتھر ہونے سے بچانے کی کوشش ہے۔ ‘‘ </b><br />
<b>مجھے بہت سارے پرانے گانے پسند ہیں،ان سب کی اچھی موسیقی میری روح پر اثر کرتی ہے اور دل میں سوز و گداز بھی پیدا کرتی ہے۔ان گانوں کے ساتھ میں حال میں رہتے ہوئے اپنے گزرے ہوئے زمانوں کا سفر کر لیتا ہوں۔</b><br />
<b>ہر مذہب کے دو پہلو ہیں۔ایک دانش والا اور دوسرا دہشت والا۔دانش والے پہلو میں دوسروں کے ساتھ مکالمہ بلکہ ایک دوسرے کی تفہیم والے تقابلی مطالعہ کا ظرف پیدا ہوتا ہے۔یہی پہلو آگے چل کر صوفیانہ ریاضت کی طرف بھی لے جانے میں ممد ہوتا ہے۔جہاں مختلف علوم ایک نقطے میں یکجا ہو جاتے ہیں۔اسی لئے اپنے ظرف کی وسعت کے باعث مذہب کے اس پہلو میں مکالمہ اور تقابلی مطالعہ سے کسی کو گھبراہٹ نہیں ہوتی۔</b><br />
<b>جبکہ مذہب کا دہشت والا پہلو کسی مکالمہ کی گنجائش نہیں رکھتا۔ اس میں صرف بزور بازو اور خوفزدہ کرکے بات منوائی جاتی ہے۔یہی رویہ آگے بڑھ کر اس دہشت گردی کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو اس وقت ساری دنیا کو درپیش ہے۔یہ دہشت گردی امریکہ کے انتہا پسند مسیحی نیو کونز کی ہویا طالبان کی،کسی پس منظر میں موجودانتہا پسند یہودی گروپ کی ہو یا القاعدہ کی،یہ سارے انتہا پسند انسانیت کے لئے خطرہ ہیں۔ </b><br />
<b>مذہب کا دانش والا پہلو ھاتو برھانکم ان کنتم صادقین کی دعوت دے کر علم اور دلیل کی بنیاد پر مکالمہ کرتا ہے۔ جبکہ علم اور دلیل سے خائف مذہب کا دوسرا پہلو علم کی تضحیک کرکے، دھمکانے ڈرانے سے لے کر دہشت گردی کی اس صورت تک جاتا ہے جیسا آجکل دنیا میں دکھائی دے رہا ہے۔ </b><br />
<b>اگر مشرق اور مغرب کے عمومی رویوں کو دیکھیں یا پھر صرف پاکستان اور جرمنی کے حوالے سے ہی بات کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ من حیث المجموع اِن لوگوں نے روح کے معاملات کو نظر انداز کیا ہے اور جسم کے معاملات پر ہی زیادہ توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ساری سائنسی ترقیات اور برکات کا تعلق بھی افادی لحاظ سے جسم سے ہی تعلق رکھتا ہے۔ان کے بر عکس ہم لوگ جسم کے تقاضوں اور مطالبوں کو یکسر نظر انداز کرکے روح کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ روح کے حوالے سے بھی ہمارے پاس صرف زبانی کلامی دعوے رہ گئے ہیں۔روحانی ترقی سے معاشرے میں جو روحانی ترفع دکھائی دینا چاہئے وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔بات ہم روح کی کرتے ہیں دوڑتے جسم کی ضروریات کی طرف ہیں۔یوں ہم نہ کوئی روحانی معاشرہ برپا کر سکے نہ جدید علوم سے ہی خاطر خواہ طور پر بہرہ ور ہو سکے۔ جسمانی طور پر ہم بے روح ہو چکے ہیں اورروحانی طور پرہم جسم کے بغیر اپنا ہی بھوت بن کر رہ گئے ہیں۔</b><br />
<b>روحانی تجربات کی ایک اہمیت ہے اور کسی روحانیت کے دعویدار معاشرہ میں تو اس کی اہمیت بہت زیادہ ہونی چاہئے۔تاہم روحانی تجربات کا مطلب یہ ہوا کہ اس بندے کو خدا سے پیار ہے اور یہ اپنے رب کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔اس کے بر عکس مغربی اسکالرزجو سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کر رہے ہیں،ان کا شمار ان لوگوں میں کیا جانا چاہئے جو خدا کے بندوں سے پیار کرتے ہیں۔کیونکہ کسی مکاشفہ کرنے والے کے مقابلہ میں بیماریوں کے علاج والی ادویات اور انسانوں کے لئے جدیدترسہولیات کی ایجاد کرنے والا کوئی بھی سائنسدان اس لئے زیادہ اہم ہو جاتا ہے کہ کسی(غیر مامور) کا سچاخواب ،کشف یا خدا سے مکالمہ بھی اس کی اپنی ذات کی حد تک ہے جبکہ جو ادویات ایجاد کر رہے ہیں،بجلی سے لے کر آج تک کی نت نئی ایجادات میں پیش رفت کر رہے ہیں جن سے ساری انسانیت فیض یاب ہو رہی ہے ،وہ سائنس دان اور موجدین اپنی ذات کو نہیں بلکہ پوری انسانیت کو،لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں بندگانِ خدا کو فیض پہنچا رہے ہیں۔سو روحانیت کے ساتھ سائنسی ترقی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔میں یہاں مغربی ممالک کے سیاسی کردار کو موضوع نہیں بنا رہا۔اس حوالے سے میری دو کتابوں ’’منظر اور پس منظر‘‘ اور’’ خبر نامہ‘‘ میں میرا موقف کافی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔یہاں صرف معاشرتی سطح پر روحانی اور مادی امورسے سروکار ہے۔ </b><br />
<b>ایک بار ایک ٹی وی چینل پر روحانیت کے حوالے سے مکالمہ چل رہا تھا۔شرکاء تھے جسٹس جاوید اقبال،پروفیسر مہدی حسن اور مولانا ڈاکٹر اسرار احمد۔ آخر میں شو کے کمپئیر نے تینوں شرکاء سے پوچھا کہ ان کی ذاتی زندگی میں کوئی روحانی تجربہ ہوا ہے؟</b><br />
<b>جسٹس جاوید اقبال نے،جو اقبال کے فرزند ہی نہیں لبرل شارح بھی ہیں،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی والے دن علی الصبح اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کیا۔یہ واقعہ وہ اپنی سوانح حیات میں بھی لکھ چکے ہیں۔اس میں سوتے ہوئے ان کے اوپر سے چادر کھینچ لی جاتی ہے۔میرے ساتھ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہوا تھاجس میں مجھ پر کسی نے آکر رضائی ڈال دی تھی۔یہ واقعہ میرے افسانہ’’ بھید‘‘ اور یادوں کے پہلے باب’’بزمِ جاں‘‘ میں تفصیل سے درج ہے۔پروفیسر مہدی حسن جنہیں ان کی فلسفہ میں گہری دلچسپی کی وجہ سے اہلِ مذہب ملحد بھی کہنے لگے ہیں،ان سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہیں کسی اچھا یا برا کام کرتے وقت ایسا لگتا ہے جیسے ان کے والد انہیں دیکھ رہے ہیں۔ مجھے یہ بات سن کر بھی خوشی ہوئی۔کیونکہ میں ایسا ہی اپنا تجربہ اپنے افسانے ’’مسکراہٹ کا عکس‘‘ میں لکھ چکا ہوں اور نذر خلیق صاحب نے مجھ سے جو تفصیلی انٹرویو کیا تھا اس میں بتا چکا ہوں کہ یہ ’’کہانی خود میرا اپنا نفسی تجربہ تھا جو یہاں جرمنی میں مجھے پیش آیا،اسے آپ سوتی جاگتی حالت کا تجربہ کہہ سکتے ہیں‘‘۔یہ کوئی بڑے روحانی تجربے نہیں ہیں،بس ہم جیسے گنہگاروں کے ظرف کے مطابق خدا کی طرف سے تھوڑی بہت خیرات ہے،ایسی خیرات ہم جیسے اور ہزاروں گنہگاروں کو بھی ملتی رہتی ہے۔کسی کو ایسے تجربات سے بد ہضمی ہوجائے اور وہ خود کو کچھ سمجھنے لگ جائے تو اس کے لئے ابتلا کا موجب بھی بن جاتے ہیں۔لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ایسے تجربات کے لئے تھوڑا سا گنہگار ہونا بھی شاید شرط ہو۔ کیونکہ’’ اللہ کے نیک بندے‘‘ تو ایسے تجربات کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ اس لئے انہیں ایسے تجربے ہوتے بھی نہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی ٹی وی کے’’ ٹاک شو‘‘ کی۔مجھے خوشی ہوئی کہ روایتی معنوں میں غیر مولوی ہوتے ہوئے بھی ، جسٹس جاوید اقبال اور پروفیسر مہدی حسن ،دونوں دانشوروں کے ہاں نہ صرف روحانی تجربات موجود تھے بلکہ ان کی نوعیت سے میرے تجربوں کی نوعیت کی بھی تصدیق ہوئی ۔تاہم اس نشست کا سب سے دلچسپ جواب مولانا ڈاکٹر اسرار احمد کا تھا۔۔۔وہ روح اور روحانیت پر بڑی عالمانہ گفتگو فرماتے </b><br />
<b>رہے تھے لیکن ان کا دامن کسی بھی روحانی تجربہ سے خالی تھا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ انہیں زندگی میں کوئی روحانی تجربہ نہیں ہوا۔ اب جبکہ پاکستان کی روحانی ذمہ داریاں ایسے پڑھے لکھے علماء کرام نے سنبھال رکھی ہیں جو کسی روحانی تجربے سے یکسر محروم ہیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جسم کی نفی کرتے ہوئے،جسم کی ضروریات کی طرف دوڑتا ہوا ہمارا معاشرہ روحانی طور پر کیوں اپنا ہی بھوت بن کر رہ گیا ہے۔ </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>***</b></div><b><br />
</b><br />
<b>* میری یادوں کا یہ باب جدید ادب کے شمارہ: ۹ میں چھپنے کے لئے پریس میں جا چکا تھا جب مجھے ایک مدت کے بعد پھر جمیل الرحمن کا فون آ گیا۔ان کا فون آنے سے خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی ہوا۔میں نے انہیں کھل کر بتا دیا کہ میں نئے باب میں آپ کا ’’ذکرِ خیر‘‘ کر چکا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں،آپ نے جو لکھا،میں کچھ نہیں کہوں گا۔ان کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر بات ہوئی۔’’رہے نام اللہ کا!‘‘کے مندرجات انہیں بہت پسند آئے تھے۔اس پر بہت خوشی کا اظہار کرتے رہے۔سائنس،مذہب اور ادب کی اپنی اپنی خود مختاری کے ساتھ تینوں کے ربطِ باہم پر دلچسپ باتیں ہوئیں۔بحیثیت شاعر میں نے ان کی خوبیوں کو مانا ہے،خامیوں کا انہیں خود بخوبی علم ہے۔میں جمیل الرحمن سے اپنی شدید ناراضی کے دنوں میں بھی اپنے مضمون’’یورپی ممالک میں اردو شعرو ادب:ایک جائزہ‘‘میں نہ صرف ان کا ذکر کر چکا ہوں بلکہ انہیں یورپ کے ان معدودے چند شعراء میں شمار کیا ہے ،جو اردو شاعری کی نام نہاد بین الاقوامیت سے قطع نظر، اردو کی مین سٹریم یا ادب کے مرکزی دھارے کے اہم شعراء کے ہم پلہ ہیں۔ نجی سطح پر جو دکھ تھا وہ ان کی دوبارہ ٹیلی فون کال آنے پر ہونے والی کھلی اور دو ٹوک گفتگو نے دور کر دیا ہے۔شاید بہت ساری غلط فہمیاں عدم رابطہ کے باعث بھی ہو جاتی ہیں۔اللہ انہیں خوش رکھے۔ </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ح۔ق</b></div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-20838490858874021502011-07-15T01:50:00.000-07:002011-07-15T23:24:03.296-07:00چند پرانی اور نئی یادیں<div style="text-align: right;"><div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">چند پرانی اور نئی یادیں</span></b></div><br />
<b>سال ۲۰۰۸ء شروع ہوتے ہی مجھے یادوں کے حوالے سے ایک خوشی یہ ملی کہ میرے بچپن کے ہم جماعت اے کے ماجد کا اچانک ٹیلی فون آگیا۔ اے کے ماجد کا تھوڑا سا ذکر ’’میری محبتیں‘‘ کے ’’پرانے ادبی دوست‘‘ میں موجود ہے۔ عبدالخالق ماجدکو اے کے ماجد بنانے میں میرا مشورہ بھی شامل تھا۔ہم چھٹی جماعت سے ایک ساتھ ہوئے اور خانپور میں قیام تک ہمارا باہمی ملنا جلنا رہا۔سکول کے زمانے میں ان کی کھیتی باڑی والی زمین اور ان کا گھرخانپور کی شہری حدکے ساتھ ملحق تھا۔اب تو وہ سارا علاقہ بھی خانپور کی شہری حد میں آچکا ہے۔ شہر سے جڑے ہوئے اُس گاؤں میں ہم دونوں درختوں کی چھاؤں کے نیچے بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کرتے۔اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم ذہنوں سے سوچی ہوئی باتیں کرتے۔ہمارے کوئی لمبے چوڑے خواب نہیں تھے۔زندگی جیسے گزر رہی تھی ہم دونوں اسی میں خوش تھے۔اے کے ماجد کے والد اور والدہ دیہاتی مزاج کے شفقت اور محبت بھرے کردار تھے۔پھران کے والد اور والدہ کا انتقال ہوا تو حالات میں تبدیلی آئی۔اے کے ماجد نے قومی بچت کے مرکز میں جاب کر لی تھی۔وہ جاب اب بھی قائم ہے۔اے کے ماجد نے ماڈل ٹاؤن کے قریب کی نئی آبادی میں پلاٹ لے لیے تھے۔وہاں گھر بنا لیا تھا اور گھر بسا بھی لیا تھا۔اے کے ماجد کے دیہات والے گھر میں ہم لسی پیا کرتے تھے تو ماڈل ٹاؤن کی حد سے جڑے ہوئے گھر میں ہم کافی پیا کرتے تھے۔دودھ پتی کی طرز پر ہم دودھ کافی بناتے تھے اور اسے پی کر دونوں ہی خود کو کسی حد تک نئے زمانے کا فرد سمجھتے تھے۔حالانکہ ہم دونوں ایک حد تک دیہاتی اور ایک حد تک شہری تھے۔اب سوچ رہا ہوں کہ اے کے ماجد ہمیشہ شہر اور ماڈل ٹاؤن سے الگ لیکن قریب کیوں رہا ہے؟۔۔۔وہ خود شہر یا ماڈل ٹاؤن کا حصہ نہیں بنا بلکہ اس کے کنارے پر آباد ہو کر پھر اُسے اپنے اندر جذب کر لیا ۔شاید اس کی یہی خوبی ہماری دوستی کا لاشعوری سبب بنی رہی اور یہی رویہ میرے اندر پروان چڑھتا رہا جو اب خود میرے مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔بہر حال اے کے ماجد کا فون آیا تو پہلی بار ذوقؔ کا یہ شعر روح کی گہرائی تک مزہ دے گیا۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>اے دوست کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا</b><br />
<b>بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے </b></div><b>اے کے ماجد کے فون کے ساتھ ایک اور فون بھی اچانک آگیا۔یہ تھے خانپور کے ظفر اقبال ماچے توڑ۔ضیاع الحقی دور کے حوالے سے ’’آئین سے انحراف‘‘جیسی کتاب لکھنے والے ظفر اقبال ماچے توڑ کے ساتھ ایک دو بار پہلے بھی ٹیلی فون پر رابطہ ہو چکا تھا تاہم اس بار طویل عرصہ کے بعد ان کا فون آیا تو اچھا لگا۔مزید کمال یہ ہوا کہ سعید شباب کی ہمت کے نتیجہ میں جمیل محسن کے ساتھ بھی رابطہ ہو گیا۔جمیل محسن ہمیشہ جیسا خوش مزاج تھا۔ ڈاکٹر نذر خلیق،سعید شباب اور ارشد خالد کے ساتھ تو ویسے بھی ٹیلی فون پر مستقل رابطہ رہتا تھا۔البتہ آجکل ارشد خالدکے ساتھ رابطہ زیادہ رہتا ہے۔ اب خانپور سے جمیل محسن کے فون کے بعد میرے ابتدائی دوستوں سے رابطہ کا ایک دور مکمل ہو گیا ہے۔</b><br />
<b>ایک بار کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے مجھے لگا کہ ابھی باتھ روم میں جا کر پیشاب کرکے آتا ہوں۔لیکن میرے اُٹھنے سے پہلے ہی خانپور سے نذر خلیق کا فون آگیا ۔میرا خیال تھا بات جلد مکمل ہو جائے گی لیکن نذر خلیق لمبی بات کرنے کے موڈ میں تھے۔میں نے تار کے بغیر والا فون اُٹھایا ہوا تھا، اسے دائیں کندھے اور کان سے ٹکا کر میں باتھ روم میں چلا گیا ۔گھر پر عام طور پر سلوار قمیص پہنتا ہوں۔سو کموڈ کی وجہ سے سلوار اتار کر ہی بیٹھتا ہوں۔میں نے سلوار اتارنے،پیشاب کرنے،طہارت کرنے،پھر سے سلوار پہننے اور ہاتھ دھونے تک سارے مرحلے آسانی سے طے کر لیے۔۔۔اس دوران گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا۔لیکن سلوار کا ازار بند’’آزارِ جاں‘‘بن گیا۔اب یہ مضحکہ خیز صورتحال تھی کہ میں ایک ہاتھ سے ٹیلی فون تھامے نذر خلیق کے ساتھ گپ شپ کر رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے سلوار کے ازار بند کو تھامے باتھ روم سے باہر نکلا۔مبارکہ کو اشاروں میں کہا کہ میرا ازار بند باندھ دیں۔مبارکہ نے اس ناگہانی اور تماشہ صورتحال پر بڑبڑاتے ہوئے ازار بند باندھ دیالیکن ان کی بڑبڑاہٹ اتنی بلند آہنگ تھی کہ نذر خلیق نے فون پر ہی پوچھ لیا:کیا بات ہے لگتا ہے بھابی کسی بات پر غصہ کر رہی ہیں؟</b><br />
<b>میں نے بھی لگی لپٹی رکھے بغیر انہیں ساری بات بتا دی،نتیجتاََ ان کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ نکلا۔اسی ہنسی کے دوران ہی انہوں نے کہا کہ جب چار پانچ سال کے بچوں والے کام کرائیں گے تو اس عمر کے بچوں کو جیسی ڈانٹ پڑتی ہے ویسی ڈانٹ تو لازماََ پڑے گی۔</b><br />
<b>تار کے بغیر والے ٹیلی فون کے فوائد کے ساتھ اب اپنے کمپیوٹر کے’’ بغیر تار والے‘‘ کی بورڈ اور ماؤس کا بھی کچھ ذکرہو جائے ۔یہ کمپیوٹر ابھی نیا لیا ہے۔میرے چھوٹے داماد عادل نے اس کی ساری انسٹالیشن مکمل کرکے مجھے اس کی سہولیات کے بارے میں جب یہ بتایا کہ میں کی بورڈ اور ماؤس کو لے کر کمپیوٹر والی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے اپنے کمرے کے صوفہ پرآرام دہ طریقہ سے بیٹھ کر اور کی بورڈ کو گود میں لے کر بھی سارا کام کر سکتا ہوں تو مجھے اس سہولت نے بڑا خوش کیا۔میں نے ایک بار صوفہ پر بیٹھ کر اردو میں لکھنے کا تجربہ کیا۔دوسری بار صوفہ پر اُلٹا لیٹ کر اور کی بورڈ اور ماؤس کو سامنے رکھ کر اردو لکھنے کا کام کیا۔دونوں تجربے پھر مبارکہ کے سامنے دہرائے۔وہ جو میرے کمپیوٹر والے کمرہ کو ویسے ہی سوتن کا کمرہ کہتی ہیں،ان تجربوں پر صرف مسکرا کر رہ گئیں۔در اصل یہ نیا کمپیوٹر مجھے میری ۵۶ویں سالگرہ پر مبارکہ نے ہی تحفہ کے طور پر لے کر دیا ہے۔ </b><br />
<b>’’بغیر تار والے‘‘ کی بورڈاور ماؤس کی سہولت اس وقت میری دسترس میں ہے تو اپنا تجربہ لکھ دیا ہے،وگرنہ لیپ ٹاپ میں یہ سہولت اس سے بھی زیادہ مزے کے ساتھ میسر ہے۔لیکن مجھے ابھی تک لیپ ٹاپ لینے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔موبائل ٹیلی فونز میں اب ایسی سہولت بھی آگئی ہے کہ موبائل آپ کی جیب میں پڑا ہے اور آپ تنہا، راہ چلتے، ہاتھ اپنی جیب میں ڈالے، کسی کے ساتھ گپ شپ کرتے چلے جا رہے ہیں۔چند برس پہلے کوئی عام دیکھنے والایہ منظر دیکھتا تویہی سمجھتا کہ شاید کوئی نیم خبطی ہے جوخود کلامی کرتا جا رہا ہے۔اب کوئی نیم خبطی بھی اس انداز میں جاتا دکھائی دے تو یہی خیال آئے گا کہ کوئی موبائل پر کسی کے ساتھ محو گفتگو ہے۔محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!</b><br />
<b>چند روز قبل جرمنی کے دو شاعر دوست ظفراللہ محمود اور طاہر عدیم مجھے کہہ رہے تھے کہ برلن میں ایک مشاعرہ ہے،اس میں شرکت کے لیے چلیں۔میں نے مشاعرہ بازی سے پرہیز کی اپنی مجبوریاں بتائیں۔پھر باتوں کا سلسلہ چل نکلاتو میں نے وضاحت کی کہ بھائی! ان مشاعروں سے اردو کی جو بین الاقوامیت بننی ہے سو بننی ہے،مجھے تو اب عالمی کانفرنسوں اور سیمینارز کے حقیقی نتائج پر بہت سے تحفظات ہیں۔نشستند،خوردند،برخاستندسے زیادہ کوئی نتیجہ سامنے آیا ہو تو بتایا جائے۔پھر مجھے وہ کانفرنسیں اور سیمینارز یاد آنے لگے جن میں مجھے مدعو کیا گیا لیکن میں نے شرکت سے معذرت کر لی۔سجاد ظہیر صدی کی تقریبات کے حوالے سے ان کی صاحبزادی نور ظہیر نے بذاتِ خود مدعو کیا ،ڈاکٹر خلیق انجم نے انجمن ترقی اردو ہند کی صد سالہ تقریب کے ضمن میں مدعو کیا،ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے ساہتیہ اکادمی کے زیر اہتمام اردو کی نئی بستیاں کے موضوع پر ہونے والے سیمینار میں مدعو کیا،ڈاکٹر خلیل طوق أر نے استنبول یونیورسٹی کے سیمینار میں مدعو کیا،لندن کی میلینئم کانفرنس کے منتظمین نے اس کانفرنس کے بعد کی کانفرنس میں مدعو کیا۔۔۔میں نے ان سب سے معذرت کی تھی۔وجہ؟۔۔۔تمام دعوت ناموں میں قیام و طعام وغیرہ امور کی ذمہ داری لی جاتی تھی لیکن ہوائی جہاز کا ٹکٹ ’’بین الاقوامی ادیبوں‘‘ کو اپنی جیب سے خریدنا تھا۔میں چونکہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا اس لیے ادب کے ساتھ شرکت سے معذرت کر لیتا ہوں۔اور اس لیے قلبِ یو رپ میں بیٹھ کر بھی پورے کا پورا مقامی شاعر اور ادیب ہوں اور اس بات پر خوش ہوں کہ میں معروف معنوں میں ’’بین الاقوامی ادیب‘‘نہیں ہوں۔</b><br />
<b>امریکہ میں جون ۲۰۰۰ء میں اقوام متحدہ کے دفتر میں ایک اردو کانفرنس ہوئی تھی۔مجھے اس میں ہوائی سفر کا خرچہ دینے کی یقین دہانی کے ساتھ مدعو کیا گیا تھا۔میں جاناچاہتا تھا لیکن امریکی ویزہ کے حصول میں انتظامی تاخیر کی وجہ سے شریک نہ ہو سکا۔اس کا مجھے افسوس رہا ۔ </b><br />
<b>نومبر ۲۰۰۸ء میں لندن کے ایک سیمینار میں ائیر ٹکٹ کی ادائیگی کے ساتھ مدعو کیا گیا لیکن شرکت کی حامی بھرنے کے باوجود میں نے بعد میں معذرت کر لی۔وجہ صرف یہ ہوئی کہ متعلقہ تنظیم کے جنرل سیکریٹری فہیم اخترنے پہلے مجھے کہا کہ جرمنی سے(بلکہ یورپ کے دوسرے ملکوں سے بھی ) کوئی اور شاعر اپنے کرایہ پر آنا چاہیں تو ان کے قیام و طعام کا انتظام ان کی تنظیم کے ذمہ ہو گا۔ میں نے انہیں دو شاعروں ظفراللہ محمود اورطاہر عدیم کے نام دے دئیے۔ایک سامع کا نام بھی دے دیا۔انہوں نے پاکستانی پاسپورٹ والے دوستوں کے لیے برطانیہ سے ویزہ لیٹر بھیج دیا۔لیکن کانفرنس سے چند دن پہلے مجھے لکھا کہ ہم فنڈز کی کمی کی وجہ سے صرف آپ کے قیام کا انتظام کر سکیں گے، دوسرے مہمانوں کے لیے قیام کا انتظام نہیں کر سکتے،اگر وہ اپنے قیام کا انتظام کر سکیں تو آجائیں۔برطانیہ میں دو چار دوستوں کے قیام طعام کا انتظام کرنا کوئی ایسا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔یہ بات اچھے پیرائے میں بھی کہی جا سکتی تھی۔لیکن جس انداز میں یہ پیغام دیا گیا وہ اتنا نامناسب تھا اور مجھے اتنا برا لگا کہ میں نے خود بھی جانے سے معذرت کر لی۔ </b><br />
<b>زندگی میں جن چند کانفرنسوں میں شریک ہوا ہوں ان کانفرنسوں میں بھی میری ترجیحات سادہ سی رہی ہیں۔ ماریشس کی کانفرنس کے الوداعی ڈنر(جو ملک کے نائب صدر کی جانب سے تھا)میں شرکت کی بجائے میں نے ماریشس کی ایک بچی کو اس کے گھر پر اردو ای میل بھیجنے کا طریقہ سکھانے پروقت صرف کر دیا۔جبکہ دوسری طرف الوداعی ڈنر میں ملک کے وزیر اعظم اور نائب صدر شریک ہو رہے تھے۔اب بھی میں یہاں جرمنی کے کسی مشاعرہ میں شرکت کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ کسی بچے کو اردو پروگرام کا شوق پیدا ہو جائے۔سو برلن کے مشاعرہ کی بجائے ایک دوست سجاد ساجن کی دو بیٹیوں عروج اور علینہ کو میں نے اردو پروگرام سے متعارف کرا دیا ہے۔عروج کو تو اردو سیکھنے کا ویسے ہی بہت شوق تھا،چنانچہ اردو پروگرام کو سمجھنے کے بعد اسی وقت ایک گھنٹے کے اندر اس بچی نے ایک غزل ٹائپ کرکے پیش کر دی۔تاہم علینہ نے اس لحاظ سے بہت حیران کیا کہ اردو میں زیادہ دلچسپی نہ رکھنے کے باوجود اسی وقت بہن سے کچھ سمجھا اور پھر اسی وقت اس نے بھی ایک غزل ٹائپ کر کے شاباش حاصل کر لی۔مجھے ایسے بچوں کی اردو سے دلچسپی یہاں کی روایتی مشاعرہ بازی سے بہت زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے۔ </b><br />
<b>بہت زیادہ پُر امید نہ ہونے کے باوجود اپنی اگلی نسلوں کے ساتھ ذہنی فاصلہ کم کرنے کے لیے میں اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ہلکی پھلکی کو شش کرتا رہتا ہوں۔پوتوں،پوتیوں اور نواسوں کو ایک ساتھ بٹھا کر ان کے والدین کے بچپن کے حوالے سے اپنی لکھی تحریروں کے اقتباس سناتا ہوں تو بچے بہت خوش ہوتے ہیں پھر اپنے ماں باپ سے پوچھتے ہیں:آپ نے سچ مچ ایسا کیا تھا؟بات کی تصدیق ہونے پر پہلے سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ایک بار اسی طرح کی باتیں ہو رہی تھیں تو ایک بچے نے کہا کہ آپ نے ہمارے بارے میں بھی ایسا کچھ لکھا ہے؟</b><br />
<b>میں نے ذہن پر زور دیا تو اپنے نواسے رُومی(مشہود)کا ٹی وی والا واقعہ یاد آگیا جو یادوں کے باب ’’گراموفون سے سی ڈی تک‘‘ میں شامل ہے۔ بچوں کو وہ واقعہ سنایاتو سب نہ صرف ہنسنے لگے بلکہ رُومی کو چھیڑنے بھی لگے۔دوسرے نواسے جگنو(مسرور)نے کہا کہ آپ نے رُومی کا ذکر کیا ہے،ہم باقی بچوں کا بھی ذکر کریں۔میں نے اسے بتایا کہ یادوں کے ایک باب ’’رہے نام اللہ کا!‘‘میں اس کے اور پوتے شہر یار کے ختمِ قرآن کا ذکر کیا ہوا ہے۔جب بچوں کو وہ حصہ پڑھ کر سنایا توجگنو نے کہا کہ یہ بھی ٹھیک ہے،پر جیسا رومی کا واقعہ لکھا ہے ویسا ہونا چاہئے تھا۔جگنوکی معصومیت میں چھپی شوخی نے مجھے کافی مزہ دیا۔</b><br />
<b>میں موجودہ پاپولر میوزک سے بہت بور ہوتا ہوں،لیکن بچوں کو یہی زیادہ پسند ہے۔میں نے سوچا انہیں تھوڑا بہت پرانے گانوں کا بھی ذوق دیا جائے۔سو میں نے بچوں کے نک ناموں کی مناسبت سے چند گانے ڈھونڈ لیے۔مثلاََ :</b><br />
<b>پوتے شہری (شہر یار)کے لیے ۔۔</b><br />
<b>کوئی شہری بابو دل لہری بابو ہائے رے پگ باندھ گیا گھنگرو میں چھم چھم نچدی پھراں۔</b><br />
<b>نواسے رُ ومی(مشہود)کے لیے ۔۔نار دانہ، انار دانہ۔۔اساں رُومی ٹوپی والے نال جانا</b><br />
<b>شہر ی پہلے توگانے پر غصہ کرتا تھا،پھر شرمانے لگا اور اب اس کا عادی ہو گیا ہے۔رُومی والا گانا سب نے پسند کیا۔میرے سب سے چھوٹے نواسے شام(احتشام)کو یہ گانا زیادہ ہی پسند آگیا۔اپنی توتلی زبان میں وہ گانا گنگنانے لگا تو رُومی کے نک نام کی بجائے اس کے اصل نام کو گانے میں فٹ کر دیا۔’’نار دانہ، انار دانہ۔۔۔مشہود ٹوپی والے نال جانا‘‘۔</b><br />
<b>شام نے اپنے طور پر یہی سمجھا کہ یہ گانا اس کے بھائی رُومی(مشہود) کے لیے ہے ،اس لیے اس کا کوئی بھی نام لیا جا سکتاہے۔اب بچوں کو کیا پتہ کہ رُومی ٹوپی کس تہذیب کی علامت تھی۔شام ؔ کے لیے میں نے ایک فلمی بھجن کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ سنا دیا۔</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>شامؔ ! تیری بنسی کو بجنے سے کام </b><br />
<b>پاپا کا بھی شامؔ ہے تو ماما کا بھی شامؔ </b></div><b>جگنو کے لیے عالم لوہار کی جگنی سے کام چلانا پڑا اور سونو کے لیے سونی والا گانا تلاش کرنا پڑا۔لڑکے تو سارے خوش ہو گئے۔اب میری پوتی ماہ نور(ماہا) نے کہا کہ میرا گانا بھی لائیں۔اس پر لڑکوں نے مذاق میں ماہی لفظ والے بعض گانے بیان کرنا شروع کر دئیے۔لیکن میں نے اسے بتایا کہ میں نے ماہا کے بارے میں خود ایک ماہیا لکھا ہے۔پھر وہ ماہیا اسے ماہیے کی لَے میں گنگنا کر سنایا:</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>ماہاؔ مِری پوتی ہے</b><br />
<b>روتے ہوئے ہنستی</b><br />
<b>ہنستے ہوئے روتی ہے</b></div><b>اس پرچار سال کی ماہا ؔ بڑی خوش ہوئی اور سب کو اس ماہیے کی تشریح کر کے بتاتی پھرے کہ جب میں چھوٹی تھی تو ایسا کرتی تھی اور دادا ابو نے یہ بات لکھی ہے۔علیشا اور ماہم ابھی بہت چھوٹی ہیں ،وقت آنے پر وہ بھی اپنے حصہ کے ماہیے سن لیں گی۔</b><br />
<b>ستمبر ۲۰۰۸ء میں میرے چھوٹے بیٹے طارق(ٹیپو) کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہو چکی ہے۔میرا نیا پوتا شایان ابھی بمشکل پانچ ماہ کا ہے۔ہمارے گھرمیں ایک ڈیکوریشن مکرامالٹکا ہوا ہے۔مختلف رنگوں کے خوبصورت گول ڈیزائنزکے بیچ ایک میوزیکل راڈ جھول رہا ہے۔ اسے ہلائیں تو جلترنگ سی آواز آتی ہے ۔رنگین گولائیوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آواز مل کر ایک انوکھا سا منظر بنا دیتی ہیں۔شایان جب کسی وجہ سے رو رہا ہو اور چپ نہ کر رہا ہو تو میں اسے اس مکراما کے قریب لا کر مکراما کے میوزیکل راڈ کو تھوڑا سا چھیڑتا ہوں ،رنگوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آواز آتی ہے تو شایان رونا بھول کر پہلے حیرت سے اس منظر کو دیکھتا ہے پھر جیسے اس کے اندر ایک جوش سا بھر جاتا ہے اور دوسری بار راڈ کو چھیڑنے تک وہ خود بھی ایسے ہمکتا ہے کہ میرے لیے وہ بھی اس سارے منظر کا حصہ بن جاتا ہے۔شایان کے ہمکنے اور پُرجوش ہونے سے مجھ پر دنیاایک اور زاویے سے منکشف ہوئی۔مجھے لگا ہم سب انسان جو مختلف خواہشوں کی تکمیل اور مختلف چیزوں کے حصول کے لیے بھاگتے ہیں اور پھر جن خواہشوں کو پورا کر لیتے ہیں اور جن چیزوں کو حاصل کر لیتے ہیں، ان سب کی کیفیت بھی بس رنگوں کی جھلمل اور جلترنگ کی آمیزش جیسی ہوتی ہے۔اب رنگوں اور جلترنگ کے روبرو شایان کے ہمکنے سے مجھ پر جو حقیقت ظاہرہوئی ہے تو میں خود ایک عجیب سی خوشگواریت کے احساس میں گھر گیا ہوں۔ایسا احساس جو زندگی کی ایسی بے معنویت کے انکشاف سے عبارت ہے جو بیک وقت بے معنی بھی ہے اور با معنی بھی۔</b><br />
<b>طارق نے اپنے بچپن میں ابا جی کی وفات پر اپنی ایک معصومانہ حرکت سے مجھے خدا کے بارے میں ایک انوکھی آگاہی عطا کر دی تھی۔تو اب طارق کے بیٹے شایان نے اپنے باپ سے بھی کم عمری میں مجھ پر زندگی کی خواہشوں کی حقیقت منکشف کر دی ہے۔پر اپنی تمام تر بے معنویت کے باوجودخواہشوں کی جھلمل اور جلترنگ اس عمر میں بھی مجھے اپنے شایان جیسا ہی کر دیتی ہیں۔خدا جانے جھلمل اور جلترنگ میں وقتی طور پر اتنی معنویت کہاں سے آ جاتی ہے اور اس کوپالینے کے بعد کہاں غائب ہو جاتی ہے!یہ کچھ زیادہ ہی سنجیدہ بات ہو تی جارہی ہے ،سو اصل موضوع کی طرف واپس آتا ہوں۔ </b><br />
<b>جس وقت میں جگنو اور سونو کے لیے گانے تلاش کر رہا تھا،ایک مزے کا لطیفہ ہو گیا۔یو ٹیوب پر اردو گانوں کے بہت سارے چینل دستیاب ہیں۔ہر گانے کے ساتھ اس سے متعلقہ نوعیت کے کئی اور گانے بھی دائیں طرف سامنے آجاتے ہیں۔یعنی بائیں طرف چھوٹی سکرین پر آپ کا پسندیدہ ایک گانا چل رہا ہے اور دائیں جانب اسی انداز کے یا ملتے جلتے گانوں کی ایک لسٹ آویزاں ہوتی ہے ،جہاں سے آپ اپنی پسند کے مزید گانے منتخب کرسکتے ہیں۔میرے سارے پوتے،نواسے،پوتیاں وغیرہ میرے ارد گرد کھڑے تھے۔چھوٹا بیٹا ٹیپو بھی دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔اسکرین پر ایک نیااور مشہورگانا:</b><br />
<div style="text-align: center;"><b>’’کجرارے۔۔کجرارے</b><br />
<b>تیرے کارے کارے نیناں‘‘</b></div><b>لگا ہوا تھا۔میں نے اسے تبدیل کرنا چاہا تو بچوں نے شور مچا دیا کہ یہ گانا سننا ہے۔میں نے سوچا بچے یہ گانا دیکھ لیں ،میں اسی دوران اس کے دائیں جانب والی لسٹ کو دیکھ لیتا ہوں۔شاید وہاں سے جگنو اور سونوکے نام والا کوئی گانا مل جائے۔</b><br />
<b>اب صورتحال یوں بنی کہ میں عینک اتار کر دائیں جانب والی لسٹ کوکمپیوٹر اسکرین پر جھک کر، قریب سے ہو کر دیکھ رہا ہوں اور اُدھر گانے پر ایشوریا رائے رقص فرما ہیں۔ </b><br />
<div style="text-align: center;"><b>میرا چین وَین سب اُجڑا</b><br />
<b>ظالم نظر ہٹا لے</b><br />
<b>برباد ہو رہے ہیں جی ترے اپنے شہر والے</b></div><b>یہ الفاظ گانے کی ابتدا میں دہراکرگائے جاتے ہیں۔سو جب دوسری بار محترمہ ایشوریہ رائے نے ’’ظالم نظر ہٹا لے‘‘کے الفاظ ارشاد فرمائے توپیچھے سے ٹیپو کی شرارت سے بھری شوخ آواز آئی۔’’ابو! اب تو نظر ہٹا لیں‘‘</b><br />
<b>کبھی کبھی غیر ارادی طور پر ایسی صورتحال بن جاتی ہے کہ واقعاتی حقیقت نہ ہوتے ہوئے بھی سامنے کا منظرحقیقی واقعہ جیسا ہی لگتا ہے۔ اس واقعہ کے وقت ٹیپو کے چہرے پر جو مسکراہٹ تھی وہ میرے چہرے پر بھی منعکس ہو رہی تھی۔چھوٹے بچوں کو پتہ نہیں کتنی بات سمجھ میں آئی،لیکن وہ سب کھلکھلا کر ہنس رہے تھے۔میں اب بھی اس منظر کو ذہن میں لاتا ہوں تو ٹیپو والی مسکراہٹ میرے چہرے پر پھیل جاتی ہے۔</b><br />
<b>جیسا کہ ذکر کر چکا ہوں کہ بچوں کے لیے مذکورہ گانوں کی تلاش میں مجھے انٹرنیٹ پر یو ٹیوب میں جا کر وہاں سے پرانے پاکستانی اور انڈین فلمی گیتوں کے حصہ میں جانا پڑا۔وہاں ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ لنک ملتا گیا۔بچوں کے کام سے نمٹ کر میں خود بچہ بن گیا اور کئی نایاب اور بھولے بسرے گیتوں کو اپنی دسترس میں پا کردیر تک ان سے لطف اندوز ہوتا رہا۔یوں ان گیتوں کے زمانوں سے جڑی ہوئی کئی ذاتی یادیں ذہن میں آتی رہیں،دل میں جگمگاتی رہیں اور آنکھوں میں جھلملاتی رہیں۔</b><br />
<b>مجھے پہلی دفعہ بڑی سطح پرتجربہ ہوا کہ ایسی یادیں کس طرح ہمارا کتھارسس کر دیتی ہیں۔</b><br />
<div style="text-align: center;">***</div></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-12835259791226319702011-07-15T01:42:00.000-07:002011-07-15T23:26:36.011-07:00لبّیک الّہمّ لبّیک<div style="text-align: center;"><b><span style="font-size: x-large;">لبّیک الّہمّ لبّیک</span></b></div><div style="text-align: right;"><br />
<b>قل ان کانت لکم الدّارالآخرۃ عنداللہ خالصۃ من دون الناس فتمنو الموت ان کنتم صادقین</b><br />
O <b>ولن یتمنوہ ابداََ بما قدمت ایدیھم ط واللہ علیم بالظٰٰلمینO </b><br />
<b>(سورۃ البقرۃ ۔آیت ۹۴۔۹۵)</b><br />
<b>(ترجمہ:تو ان سے کہہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر (باقی) لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے ہے،تو اگر تم [اس دعویٰ میں] سچے ہو تو موت کی خواہش کرو۔(یاد رکھو کہ) جو کچھ ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں،اس کے سبب سے وہ کبھی بھی (موت کی)تمنا نہیں کریں گے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے)</b></div><div style="text-align: center;"><b>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>مجھے جنوری ۲۰۰۹ء میں ایک خواب کے ذریعے واضح طور پر بتایا گیا کہ ۳؍دسمبر کو میری وفات ہو گی۔میں یہ تحریر نومبر کے آخری عشرہ میں لکھ رہا ہوں اور قارئین تک تب پہنچے گی جب ۳؍دسمبر ۲۰۰۹ء گزر ہو چکا ہوگا۔</b><br />
<b>زندگی کے معاملہ میں دو جمع دو چار کی طرح کوئی دو ٹوک اور حتمی بات کہہ کر گزر جانا ممکن نہیں۔ہر انسان کی زندگی اس کے اپنے ڈھب سے ہوتی ہے۔زندگی نے اس کے ساتھ کیا کیا اور اس نے زندگی کے ساتھ کیا کیا؟ دونوں معاملات ہی ہر انسان کی ذات اور اس کی اپنی کائنات کے حوالے سے ہوتے ہیں۔میری چھوٹی سی کائنات خاندانی سطح پرمیرے والدین،بہن بھائیوں،بیوی ،بچوں اور ان سب سے منسلک رشتہ در رشتہ کہکشاں پر مشتمل ہے۔ان سارے رشتوں کا ذکر اذکار میرے،خاکوں اور یادوں میں نمایاں طور پر اور دوسری اصناف میں بھی کسی نہ کسی رنگ میں دیکھا جا سکتا ہے۔</b><br />
<b>اب کہ عمر کے اس حصے میں ہوں جب بندہ اِس دنیا سے آگے کی دنیا میں جانے کے لیے بوریا بستر باندھنے میں لگا ہوتا ہے،میں نے بھی کچھ عرصہ سے اپنا بوریا بستر باندھنا شروع کر رکھا ہے۔اگلی دنیا میں جانے کی تیاری کے ساتھ اِس دنیا سے لذت کشید کرنے کا عمل بھی میں نے کم نہیں ہونے دیا۔میری اہلیہ مبارکہ ان معاملات میں ایک حد تک میرے ساتھ ہے اور ایک حد تک مزاحمت کر رہی ہے۔اس دنیا کے معاملات میں تو نہ صرف اس نے مزاحمت نہیں کی بلکہ بڑی حد تک پردہ پوشی بھی کی ہے۔البتہ اگلی دنیا کے معاملہ میں اس نے شدید مزاحمت کر رکھی ہے۔اس حوالے سے جو تازہ ترین صورتحال ہے اسے بعد میں بیان کروں گا پہلے گزرے دنوں کا کچھ ذکر ضروری ہے۔ </b><br />
<b>۱۹۹۶ء میں مبارکہ کوRheumatism کی بیماری کی ابتدا ہوئی تھی۔پہلے تو بیماری کی نوعیت سمجھ میں نہیں آئی۔پتہ نہیں یہ’’ روئے ماٹ ازم‘‘ کونسی اللہ ماری ولایتی بیماری لا حق ہو گئی ہے۔ہم نے تو سوشلزم،کمیونزم،کیپٹل ازم کے نام ہی سن رکھے تھے اور مبارکہ کو ان میں سے کسی سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔بہر حال بیماری کی نوعیت کا جب کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے میں نے ۱۹۹۶ء ہی میں ایک غزل میں کہا تھا:</b></div><div style="text-align: center;"><b>دیکھو مجھے اس حال میں مت چھوڑ کے جانا </b><br />
<b>دل پر ابھی میں نے کوئی پتھر نہیں رکھا</b></div><div style="text-align: right;"><b>پھر مبارکہ نہ صرف اس بیماری کی عادی ہو گئی بلکہ Rheuma نے بھی اس کے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کر دیا۔ بارہ تیرہ برس علاج معالجہ کے ساتھ آرام سے گزر گئے۔مبارکہ کی علالت اور اپنے شروع میں بیان کردہ خواب کامزید ذکر ذرا آگے چل کر ۔۔۔۔یہاں یادوں کے اس نئے باب کے تناظر میں اپنی پرانی تحریروں کا تھوڑا سا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔</b><br />
<b>بیسویں صدی کے آخری سرے پر لکھی گئی میری یادوں کے باب ’’دعائیں اور قسمت‘‘ کا اختتام ان دعائیہ الفاظ پر ہوتا ہے۔</b><br />
<b>’’اب یہی دعا ہے کہ ایسی ہی دافع البلیّات دعاؤں کے سائے میں زندگی کا یہ سفر آسانی کے ساتھ‘حفاظت کے ساتھ‘اور بے حد آرام و سکون اور اطمینان کے ساتھ مجھے اگلی دنیا میں لے جائے۔موت میرے لئے دُکھ کا مُوجب نہیں راحت کا مُوجب بنے۔ہجر کا احساس نہیں بلکہ وصل کا پیغام ہو اور وصل کا راحت بھرا پیغام تو جب بھی آئے‘عشّاق کی خوش نصیبی ہوتا ہے۔‘‘</b><br />
<b>یہ کوئی دنیا کو جتانے یا بتانے کا رویہ نہیں ہے بلکہ زندگی کے مقابلہ میں موت کے تئیں میرا یہ رویہ میری ابتدائی شاعری سے اب تک کسی کسی نہ رنگ میں آتا چلا گیا ہے۔زندگی اور موت کے معاملہ میں میرا رویہ میرے مزاج کی ترجمانی کرتا ہے۔مثلاََ میرے شعری مجموعوں کی بالکل ابتدائی غزلوں سے لے کر اب تک کی شاعری کے یہ اشعار دیکھیں۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>موت سے پہلے جہاں میں چند سانسوں کا عذاب</b><br />
<b>زندگی! جو قرض تیرا تھا ادا کر آئے ہیں</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>دیکھا خلوص موت کا تو یا د آ گیا</b><br />
<b>کتنے فریب دیتی رہی زندگی مجھے</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>چلو پھر آنکھیں کرو چار موت سے حیدرؔ </b><br />
<b>پھر آج موت کی آنکھوں میں زندگی بھر دو</b><br />
<b>زندگی! دیکھ بجھتے ہوئے لوگ ہم </b><br />
<b>بزمِ جاں میں چمکتے رہے رات بھر</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>ابھی ممکن ہی نہیں قرض چکانا تیرا</b><br />
<b>زندگی! قرض ترا ہو گا ادا میرے بعد</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>موت کی بھی حقیقت انہیں سے کھلی </b><br />
<b>زندگی کے جو دل میں دھڑکتے رہے</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>موت کو چھو کے دیکھنا ہے ذرا</b><br />
<b>زندگی ، اپنی دیکھی بھالی ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b>گزشتہ برس میری دو غزلوں میں اس حوالے سے زیادہ کھلا اظہار سامنے آیا:</b></div><div style="text-align: center;"><b>کفن مرے لیے دامانِ یار ٹھہرے گا </b><br />
<b>چلوں گا کوچۂ دلدار میں لحد کے لیے</b><br />
<b><br />
</b><br />
<b>تمام خواہشیں حیدرؔ کبھی کی چھوڑ چکے </b><br />
<b>کہو تو خود سے بھی اب ہم کنارا کرتے ہیں</b></div><div style="text-align: right;"><b>ایسے اشعار کے زمانی تسلسل کے درمیان میں کہیں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا تھا جب موت مجھے کچھ دیر تک دیکھتی رہی۔ساتھ لے جانے کا ارادہ کیا،زندگی کے ساتھ کچھ دیر کے لیے الجھی،مگر پھر خاموشی سے واپس چلی گئی۔اُس وقت کی کیفیات میری تب کی ایک غزل میں موجود ہیں۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>موت آئی ہوئی ہے مجھے لینے کے لیے اور </b><br />
<b>یہ زندگی پاس اپنے ہی رکھنے پہ اڑی ہے</b><br />
<b>ہے زندگی و موت میں اک معرکہ برپا </b><br />
<b>جیتے کوئی،ہم پر یہی اک رات کڑی ہے</b><br />
<b>دیکھو ہمیں ہم ہنستے ہوئے جانے لگے ہیں </b></div><div style="text-align: center;"><b>کچھ جان پہ گزری ہے نہ نزع کی تڑی ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b>ہمبرگ کے خالد ملک ساحل صاحب کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے مجھے اپنی بالکل ابتدائی شاعری کے دو شعر یاد آگئے۔یہ غزل ہفت روزہ مدینہ بھاولپور میں ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء کے درمیانی عرصہ میں کہیں چھپی تھی،میرے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہے۔لیکن اس کے ان دو اشعار سے موت کے تئیں میرے رویہ اور بالخصوص ابتدائی رویہ کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>کوئی آورہ ہے یا بھٹکی ہوئی ہے زندگی </b><br />
<b>موت کی نظروں میں جو کھٹکی ہوئی ہے زندگی</b><br />
<b>شور سنتے تھے بہت لیکن حقیقت اور ہے</b><br />
<b>ایک ہی تو سانس پر اٹکی ہوئی ہے زندگی</b></div><div style="text-align: right;"><b>۲۶جنوری ۲۰۰۹ء کو میں نے صبح چار بجے کے لگ بھگ ایک خواب دیکھا۔اس میں مجھے تاریخِ وفات ۳؍دسمبر بتائی گئی۔خواب میں سَن نہیں بتایا گیا لیکن بیداری پر مجھے اس کی جو تفہیم ہوئی اس کے مطابق سال ۲۰۰۹ء ہی میں وفات ہو گی۔اس تفہیم کے ساتھ ایک بار پھر غنودگی کی کیفیت ہوئی اور اس میں یہ قرآنی الفاظ میرے ہونٹوں پر جاری ہوئے: انی متوفیک۔یعنی بے شک میں تجھے وفات دوں گا۔</b><br />
<b>میں نے اسی روز صبح پانچ بجے سبز رنگ کی جلد والی اپنی نوٹ بک کے بائیں جانب اندر کے پہلے صفحہ پر وہ خواب،اوراس کی تعبیر و تفہیم درج کر دی،اپنے دستخط بھی کر دئیے۔اسی روز اپنے چھوٹے بیٹے طارق کو وہ نوٹ بک دکھا کر بتا دیا کہ دسمبر۲۰۰۹ء میں اگر کچھ رونما ہو جائے تو اس تحریر کو خود بھی پڑھ لینا اور بہن بھائیوں کو بھی پڑھا دینا ۔ ساتھ ہی اسے کچھ اور ہدایات بھی دیں۔ لیکن ہوا یہ کہ طارق نے دو چار دن تک تو صبر سے کام لیا لیکن پھر گھبرا کر اپنی ماں کو اس بارے میں بتا دیا۔مبارکہ کو خواب کی کچھ حقیقت کا اندازہ ہواتو وہ خود بیمار پڑ گئی۔یہاں تک کہ ۶ فروری کو ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔ہفتہ بھر صورتحال اتنی زیادہ نازک رہی کہ ڈاکٹرز نے صاف کہہ دیا کہ ہم اپنی طرف سے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔بچ جانے کے چانسز ہیں تو سہی لیکن بہت کم ۔کیونکہ قوتِ مدافعت کمزور ہوتے ہی Rheuma نے تقریباََ تمام مرکزی اعضا پر حملہ کر دیا ہے۔ان آرگنز کو بچانے کے لیے جن دواؤں کو دیا جا سکتا ہے وہ موجودہ صورت میں جتنی مفید رہیں گی ،سائڈ ایفیکٹ میں اس سے زیادہ نقصان دہ ہوں گی۔عجیب مشکل اور پیچیدہ صورتحال تھی ۔بہر حال دعا اور دوا دونوں کے نتیجہ میں مبارکہ نے ایک مہینہ کے لگ بھگ عرصہ میں بیماری کو کچھ کوَر کر لیا۔شیمو تھراپی جو کینسر کے مریضوں کے لیے ہوتی ہے،اس کا پانچ فیصد چھ مہینوں میں آزمانے کا طے ہو گیا۔ پانچ مہینوں میں مبارکہ اس حد تک صحت یاب ہو گئی کہ مجھے باقاعدہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگی۔کامیاب شوہر بخوبی جانتے ہیں کہ بیوی جب شوہر کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ پوری طرح سے صحت یاب ہو چکی ہے۔وگرنہ ناکام و نامراد شوہر تو بیوی سے سرِ عام جوتے یا دھکے کھا کر بھی کچھ نہیں سمجھ اور سیکھ پاتا،البتہ اس کے انجام سے لوگ سبق ضرور سیکھ لیتے ہیں۔</b><br />
<b>مبارکہ کی حالت سنبھلنے تک ۲۰۰۸ء کے آخر میں دی گئی ،میری بائیں آنکھ کے موتیا کے آپریشن کی تاریخ آ گئی۔اطہر خان جیدی جو پاکستانی مزاحیہ ڈرامہ کا ایک معروف نام ہیں،ان کا ایک شعر حسبِ حال ہو گیا ۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>ہم نے پھولوں کی آرزو کی تھی</b><br />
<b>آنکھ میں موتیا اتر آیا</b></div><div style="text-align: right;"><b>۲؍مارچ کو آپریشن ہوا اور اسی دن مجھے چھٹی بھی مل گئی۔دو تین دن احتیاط سے کام لیا اور پھر اپنی معمول کی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا۔کچھ عرصہ کے بعد دوسری آنکھ کے آپریشن کی تجویز دی گئی تھی۔چند مہینوں کے بعدجب اس کی نوبت آئی،دائیں آنکھ کے کنارے پر نیچے کی جانب ایک چھوٹا سا دانہ نکل آیا۔بس اس دانے کے ختم ہونے تک آپریشن موخر کر دیا گیا۔جو تاحال موخرچلا آرہا ہے۔لیکن یہ تاخیر تو بعد کی بات ہے۔فی الحال بات ہو رہی تھی مبارکہ کی اپنی سنگین بیماری کے وارسے بچ کرگھر واپس آجانے کی۔ </b><br />
<b>مبارکہ کا بہتر حالت میں گھر واپس آنا خدا کا بہت ہی خاص فضل تھا۔گردوں کی کارکردگی متاثر ہو نے کے باعث اس کے پورے جسم سے پانی رِستا تھا۔خوشی سے بھیگنا اور غم میں آنسوؤں سے بھیگ جانا تو ہماری دنیا میں ہوتا ہے لیکن بیماری سے اس طرح بھیگنا ہمارے ہاں پہلا تجربہ تھا۔جسم بھی کسی حد تک پھول گیا تھا،تاہم تھراپی کرانے کے نتیجہ میں حالت تدریجاََبہتر ہوتی جا رہی تھی۔اس دوران مبارکہ کو نہانے کے لیے تو مدد کی ضرورت نہ ہوتی لیکن نہانے کے بعد کھڑا کرنے اور ٹب میں سے باہر نکالنے میں مجھے بہت زیادہ ہیلپ کرنا پڑتی۔</b><br />
<b>اپنے افسانہ’’گھٹن کا احساس‘‘ میں ایک بار اپنی بیوی کے ساتھ ہوئی بات کو میں نے یوں لکھا ہوا ہے۔</b><br />
<b>’’ نہاتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنی پوری کمرپرنہیں پھِرسکتاتھا۔ ماں کا کمرپر صابن مَلنا یادآتاتواس کا جی چاہتا کاش ماں زندہ ہوتی اور اب بھی میری کمرپر صابن مَل دیتی۔ ایسے ہی خیالوں کے دوران ایک بار اُس نے اپنی بیوی کو عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ اس کی بیوی نہ صرف اس کی ماں کی بھتیجی تھی بلکہ بڑی حد تک اس کی ماں کی ہم شکل بھی تھی۔ اس نے اپنی بیوی سے اس خواہش کا اظہارکردیاکہ وہ نہاتے وقت اس کی کمرپر صابن مَل دیا کرے ۔ اس کی بیوی تھوڑا ساشرمائی پھر کہنے لگی:</b><br />
<b>’’مجھ سے یہ فلموں والے باتھ روم کے سین نہیں ہوسکتے‘‘</b><br />
<b>وہ بیوی کے جملے پر مسکرایااور سوچایہ پگلی کہاں جاپہنچی۔ یوں بھی باتھ روم میں اتنی جگہ ہی کہا ں ہے کہ وہ بھی میرے ساتھ سماسکتی۔‘‘</b><br />
<b>اور اب صورتحال یہاں تک آپہنچی تھی کہ ہم انڈین فلموں کے باتھ روم سے بڑھ کر انگریزی فلموں کے باتھ روم والے سین جیسی صورتحال سے گزر رہے تھے۔مبارکہ کا وزن بہت بڑھ گیا تھا اس لیے اس سین کا مزہ تو کیا لیا جاتا،میرا سانس ہی پھولنے لگتا۔ یہ سانس پھولنے کا سلسلہ بڑھا تو ڈاکٹر سے ملاقات کی۔ڈاکٹر نے ای سی جی تک کے اپنے سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد مجھے ہسپتال ریفر کر دیا۔ہسپتال والوں نے ٹیسٹ کے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد بتایا کہ دل کا کوئی وال (شریان)بند ہے۔انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی دونوں کام ایک ساتھ کر دئیے جائیں گے۔اس کے لیے یکم اکتوبر کی تاریخ دے دی گئی۔</b><br />
<b>انہیں دنوں میں ایک نئی غزل ہوئی،جس کے یہ اشعار جیسے ۳؍دسمبر کے لیے ذہنی تیاری کی غمازی کر رہے تھے۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>دردِ دل کی ہمیں اب کے وہ دوائی دی ہے </b><br />
<b>اپنے دربار تلک سیدھی رسائی دی ہے</b><br />
<b>اک جھماکا سا ہوا روح کے اندر ایسے</b><br />
<b>نوری برسوں کی سی رفتار دکھائی دی ہے</b><br />
<b>کیسے زنجیر کا دل ٹوٹا یہ اُس نے نہ سُنا </b><br />
<b>وقت نے قیدی کو بس فوری رہائی دی ہے</b><br />
<b>اک نئی لمبی مسافت کا زمیں زاد کو حکم </b><br />
<b>اور اس بار مسافت بھی خلائی دی ہے</b><br />
<b>جب بھی جانا ہے پلٹ کر نہیں دیکھیں گے کہیں</b><br />
<b>اپنے اندر سے یہ آواز سنائی دی ہے</b></div><div style="text-align: right;"><b>اکیس ستمبر کو عید الفطر تھی،عید بہت اچھی گزری۔سارے بچے گھر پر جمع ہوئے۔پانچ بیٹے بیٹیاں،پانچ بہوئیں اور داماد، دس پوتے،پوتیاں اور نواسے۔۔گھر پر اتنی رونق تھی کہ ہم دونوں تھک گئے۔بائیس ستمبر کو میں ڈٹسن باخ میں خانپور کے زمانے کے ایک دوست وزیر احمد صاحب کو ملنے چلا گیا۔ شام کوگھر آیا تومبارکہ کی طبیعت خراب تھی، بخار ہو گیا تھا۔رات گئے تک بخار میں شدت آگئی اور صبح تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اس کی لیڈی ڈاکٹر فراؤ ہے نگ‘ (Frau Hennig) کو گھر پر بلانا پڑا۔ڈاکٹر نے مبارکہ کی حالت دیکھتے ہی ایمبولینس منگا لی۔جاتے وقت مبارکہ پر غشی سی طاری تھی۔اسے قریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں لے جایا گیا۔۲۴ تاریخ تک حالت اتنی بگڑ گئی کہ اسے صوبائی صدر مقام ویز بادن کے اس ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں پہلے سے اس کا ’’روئے ما ‘‘کاعلاج چل رہا تھا۔ انتہائی نگہداشت والے کمرہ میں جب ہم دیکھنے کے لیے پہنچے تو دل دھک سے رہ گیا۔ وہاں کے ڈاکٹر ز نے کہا کہ ہم بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن اس طرح کے کیسز میں بچنے کا صرف ایک فی صد چانس ہوتا ہے۔ جو بچہ اندر آتا اور رونے لگتا میں اسے باہر بھیج دیتا۔رفتہ رفتہ بچوں نے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا شروع کیا۔</b><br />
<b>میں تو مستقل طور پر مبارکہ کے سر ہانے کھڑا ہوا تھا،بچوں کو دو سے زیادہ تعداد میں آنے کی اجازت نہ تھی۔جب بھی کوئی بچہ آتا۔میں پوچھتا یہ کون ہے؟ آواز نہیں آتی تھی لیکن مبارکہ کے ہونٹ اس طرح ہلتے جس سے بچے کا نام ادا ہوتا ہواپورا سمجھ میں آتا۔حالت تو غیر ہی تھی لیکن تیسرے دن دو دلچسپ باتیں ہوئیں جس سے مجھے کچھ تسلی ہونے لگی۔میں نئے کپڑے پہن کر ہسپتال پہنچا۔مبارکہ نے آنکھ کھولی تو مجھے دیکھ کر کہنے لگی۔’’کتھے چلے او‘‘ (آپ کہاں جا رہے ہیں؟) ۔جب بیوی بے ہوشی اور بے خبری کی حالت میں بھی نگرانی کی اس حد تک آجائے تو اسے کون بے ہوش یا بے خبر کہے گا۔</b><br />
<b>جب سارے بچے باری باری آکر ماں سے مل چکے تو مبارکہ نے دوسری طرف پڑی ہوئی کرسی کی طرف آنکھ سے اشارہ کرکے کہا آپ اب وہاں بیٹھ جائیں۔مجھے ان دونوں باتوں سے کافی تسلی ہو گئی۔لیکن کمال یہ ہے کہ جب مبارکہ بالکل صحت یاب ہو گئی تو اسے ان باتوں میں سے کچھ بھی یاد نہ تھا۔صرف اتنا یاد تھا کہ بچوں کی پرچھائیاں سی دکھائی دیتی تھیں اور بس۔</b><br />
<b>مجھے اندازہ ہے کہ اصلاََ مبارکہ کو اندر سے یہ خوف ہے کہ میں دنیا سے کوچ کرنے والا ہوں۔فروری والی بیماری کے دوران میں نے اسے بڑے رسان سے کہا تھا کہ مبارکہ بیگم!آپ زیادہ فکر مت کریں،میں پہلے چلا گیا تو جاتے ہی آپ کو بلوا لوں گا۔آپ پہلے چلی گئیں تو میں بھی زیادہ دیریہاں نہیں رہوں گا،آپ کے پیچھے پیچھے ہی چلا آؤں گا۔لیکن شاید ہم دونوں کے درمیان اہلِ لکھنؤ کے ’’پہلے آپ۔۔۔۔پہلے آپ‘‘ کے برعکس’’پہلے میں ۔ ۔ ۔ پہلے میں‘‘ کا مقابلہ چلاہوا ہے۔اس چکر میں شاید موت کا فرشتہ بھی کنفیوز ہو رہا ہے کہ ان دونوں میاں بیوی نے مجھے کس چکر میں ڈال دیا ہے۔پہلے کسے لے جاؤں؟</b><br />
<b>۲۹؍ستمبر ۲۰۰۹ء کومبارکہ ابھی انتہائی نگہداشت والے روم میں تھی،گردن میں، ہاتھ پر،سینے پر،بازو پر مختلف کنکشنز لگے ہوئے تھے۔ایک بازو اورہاتھ کے الٹی طرف ڈرپیں لگانے کے لیے،ایک بازو پر بوقتِ ضرورت ٹیسٹ کرنے کی غرض سے خون لینے کے لیے،گردن اور سینے پرکہیں ڈائلسز کے لیے،کہیں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لیے اور کہیں پتہ نہیں مزید کن کن مقاصد کے لیے کنکشن کی تاریں ہی تاریں لگی ہوئی تھیں۔ مبارکہ کیا تھی،اچھی بھلی روبوٹ دکھائی دے رہی تھی۔جیسے روبوٹ کو بالکل انسان جیسا دکھائی دینے کا تجربہ کر لیا گیا ہو۔ہم سارے گھر والے اسے دیکھ کر واپس گھر پہنچے۔چائے بنانے کے لیے کہا،چائے بن کرٹرے میں ہی چائے کے کپ رکھ کرلائی جارہی تھی کہ اچانک میری چھ سالہ پوتی ماہ نور کمرے سے باہر کی طرف دوڑ کر گئی اور اپنی چچی کی اٹھائی ہوئی چائے کی ٹرے سے ٹکرا گئی۔یہ حادثہ ایسے ہوا کہ ساری چائے ماہ نور پر آن گری۔فوراََ ایمبولینس کو بلایا۔ ایمبولینس پہنچی تو انہوں نے حادثہ کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے ایک اور ایمبولینس بلا لی۔ہم سمجھے ابھی فرسٹ ایڈ دے رہے ہیں،بعد میں پتہ چلا کہ گھر پر ہی اصل علاج شروع کر دیا گیا تھا۔معاملہ کی سنگینی کا تب احساس ہوا جب انہوں نے ہیلی کاپٹر بھی منگا لیا۔ماہ نور اور ا س کی امی تسنیم دونوں ہیلی کاپٹر سے من ہائم کے یونیورسٹی کلینک روانہ ہوئے۔یہ شہر ہمارے شہر سے ایک گھنٹہ کی ڈرائیو پر ہے۔بچوں کے اس طرح کے جلنے کے علاج کے سلسلہ میں اسے خصوصیت حاصل ہے۔شعیب اور میں، ہم دونوں کار کے ذریعے من ہائم روانہ ہو گئے۔من ہائم اور ویزبادن کے دونوں ہسپتال بالکل مختلف سمتوں میں واقع ہیں۔بہر حال ابھی پہلے بحران سے نکلے نہ تھے کہ دوسرا بحران آگیا۔اور تیسر ابحران یکم اکتوبر کو میرے دل کا وال (شریان)کھولنے کی صورت میں پہلے سے طے کیا جا چکا تھا۔ کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ ان سارے بحرانوں میں گھرا ہوا تھا اور تب ہی میری گیارہ کتابوں کی کتاب ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘ کا لائبریری ایڈیشن اور جدید ادب کا جنوری ۲۰۰۹ء کا شمارہ ریلیز ہوچکا تھا۔اسی دورانیہ کے اندر میں نے ارشد خالد کے عکاس انٹرنیشنل کے نارنگ نمبر کے لیے بنیادی نوعیت کا کام بھی نمٹایا۔اسی دوران ہی میں نے نہ صرف اپنی کتاب ’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت‘‘کی بیک وقت ہندوستان اور پاکستان سے اشاعت کو ممکن بنایا بلکہ جنوری ۲۰۱۰ء کا جدید ادب کا شمارہ بھی انہیں ایام میں مکمل کر کے اشاعت کے لیے بھیج دیا ۔ اور اب جبکہ نومبر کے آخری عشرہ کے شروع میںیادوں کایہ باب لکھ رہا ہوں تو جدید ادب کا اگلے سال جنوری ۲۰۱۰ء کاشمارہ جدید ادب کی ویب سائٹ پر ریلیز کیاجاچکا ہے اور کتابی صورت میں چھپ جانے کی اطلاع بھی آگئی ہے۔ اورانشا ء اللہ نومبر کے مہینے کے اندر ہی کتابی صورت میں ریلیز بھی کیا جارہا ہے۔اسی اثناء میں غزلیں ، نظمیں بھی تخلیق ہوئیں، ایک نیا افسانہ بھی لکھا گیا،اور اب یادوں کا یہ نیا باب بھی مکمل کر رہا ہوں۔انہیں ایام کے دوران ہی خدا نے مجھے چوتھا پوتا شیراز حیدر بھی عطا کر دیا۔یہ شعیب کا دوسرا بیٹا ہے۔</b><br />
<b>فالحمدللہ علی ذالک!</b><br />
<b>جب شیراز کی پیدائش ہوئی مبارکہ ہسپتال میں تھی۔ہسپتال سے چھٹی ملتے ہی سب سے پہلے اس ہسپتال میں گئی جہاں شیراز کی پیدائش ہوئی تھی،وہاں پوتے کو دیکھا،چوما،دعا کی اور پھر گھرواپس آئی۔اپنے دو نواسوں اور ایک پوتے کے ختم قرآن کا ذکر یادوں کے ایک باب میں کر چکا ہوں۔اس عرصہ میں مزید پیش رفت یہ ہوئی کہ گزشتہ برس عثمان کے بیٹے اور میرے دوسرے پوتے جہاں زیب نے فروری میں ساڑھے پانچ برس کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا ۔ اس برس جولائی میں جہانزیب کی بہن علیشا نے پونے پانچ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کر لیا۔ماہ نور بھی بیس پارے پڑھ چکی ہے اور اگلے دو تین ماہ تک اس کے ختم شریف کی بھی امید ہے ۔سو اپنی ذاتی زندگی کی اس سال کی اچھی خبروں میں ان خبروں کو بھی شمار کرتا ہوں۔</b><br />
<b>ایک بار پھرشکر الحمدللہ!</b><br />
<b>یہاں ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ویسے تو سارے بچے بہت فرمانبردار اور خیال رکھنے والے ہیں۔ہمارے عمرہ اور حج کی توفیق میں ان کا بھرپور ساتھ شامل رہا ہے۔جب مجھے کسی ذاتی کام کے لیے رقم کی ضرورت پیش آئی اور میں نے تینوں بیٹوں کے ذمہ کچھ رقم لگائی ،سب نے وہ رقم فراہم کر دی۔عام حالات کے مطابق میرے کہے بغیر بھی طارق نے دو تین اہم مواقع پر از خود میری ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مجھے خاصی معقول رقم فراہم کی ہے۔تاہم مجھے پہلی بار معلوم ہوا ہے کہ بڑا بیٹا شعیب ایک عرصہ سے ہر سال ایک معقول رقم خاموشی کے ساتھ ماں کو دے رہا ہے۔مجھے کئی برس کے بعد اب علم ہواتو میں نے دونوں ماں بیٹے کونصیحت کی کہ مجھے اس کا علم ہونا چاہیے تھا تاکہ میں تحدیث نعمت کے طور کہیں اس کا ذکر کردیتا۔خدا کا شکر ہے کہ اب مجھے اس کا ذکر کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ </b><br />
<b>یکم اکتوبر کو میری انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی ہوئی۔ایک سائڈ پر سکرین پر سارا منظر دکھائی دے رہا تھا۔’’سمندروں ڈوہنگے‘‘ دل دریا کی گہرائیوں میں تو کئی بار غوطہ زن ہوا ہوں،لیکن اس کی مواجی کا منظر ایک اور طرح سے دیکھ رہا تھا۔دائیں ران سے سوراخ کرکے تار وہاں سے گزارا گیاجو بائیں جانب مقیم دل تک پہنچنا تھی۔تو جناب یہ دل بائیں جانب ہی کیوں ہوتا ہے اور دائیں جانب سے چل کر ہی بائیں جانب والے دل کا علاج کیوں کیا جاتا ہے۔ادب میں دائیں بازو اور بائیں بازو کے مکاتب فکر کی کہانی بھی شاید ران اور دل کے رشتے کی کہانی ہے۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں اور ایک دوسرے سے وابستہ ۔</b><br />
<b>میں ادب میں دائیں بازو ،بائیں بازو والوں کی کارگزاری کے ساتھ مشینوں کی انسان دوستی کا منظر بھی دیکھ رہا ہوں۔علامہ اقبال نے اپنے حساب سے کہہ دیا تھا </b></div><div style="text-align: center;"><b>ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت </b><br />
<b>احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات</b></div><div style="text-align: right;"><b>لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہو رہا ہے۔مشینیں دل کے لیے موت کا نہیں بلکہ حیات کا پیغام بن رہی ہیں۔پیس میکر کی صورت میں دل کا محافظ تو متعارف ہو چکا ہے،حال ہی میں جاپان کے سائنس دانوں نے پلاسٹک کا ایسا دل تیار کیا ہے جو کارکردگی کے لحاظ سے اب تک کے سارے متبادل ذرائع سے زیادہ موثر اور مفید ثابت ہوگا۔</b><br />
<b>علامہ اقبال کی بعض باتیں آج بھی درست ثابت ہو رہی ہیں،لیکن مشینوں کو دل کے لیے موت قرار دینے کی طرح ان کی بعض باتیں درست ثابت نہیں ہوئیں۔انہوں نے مغربی تہذیب کو للکارتے ہوئے کہا تھا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی </b><br />
<b>جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، نا پائیدار ہو گا</b></div><div style="text-align: right;"><b>مغربی تہذیب نے تب سے اب تک خود کشی نہیں کی،البتہ عالمِ اسلام کے کئی خطوں سے چلتی ہوئی خود کش حملوں کی وبااب پاکستان کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔میں یہاں کسی موازنۂ مشرق ومغرب میں نہیں پڑ رہا۔بس اتنا سا اشارہ ہی کافی ہے۔بات ہورہی تھی ،جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے انسان کو ملنے والی سہولتوں کی۔میرے لیے آپریشن کا سارا مرحلہ خیروخوبی کے ساتھ مکمل ہوگیا تھا۔کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔لیکن چند گھنٹوں کے بعد شدید تکلیف اور اضطراب کا سامنا کرنا پڑا۔دائیں ٹانگ کو پٹیوں سے جکڑ دیا گیا تھا اور اگلے چھ گھنٹے تک اس ٹانگ کو ہلاناسختی کے ساتھ منع تھا۔چھ گھنٹے تک ٹانگ کو نہ ہلانے کا احساس اتنا جان لیوا ثابت ہوا کہ میں اس کرب کو بیان ہی نہیں کر سکتا۔رات مجھے ہسپتال ہی میں گزارنا تھی۔رات کو ساڑھے دس بجے کے قریب دائیں ٹانگ کو جکڑ بندی سے نجات ملی تو میں نے فوراََ ہسپتال کی جانب سے پہنایا گیا ملنگوں جیسا چولااتارا،اپنا لباس پہنا اور چہل قدمی کرتا ہوا ہسپتال سے باہر نکل آیا۔ سردی کے باوجود کھلی فضا میں بہت اچھا محسوس ہورہا تھا۔ باری باری سارے بچوں کو فون کیا۔سب کو اپنی خیریت سے آگاہ کیا،ان سب کی خیریت دریافت کی۔مبارکہ اور ماہ نور کا حال پوچھا۔گھنٹہ بھر باہر گھومنے کے بعد ہسپتال میں واپس آگیا۔اگلے دن دوپہر کے بعد مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔اسی دن شام کو مبارکہ سے ملنے گیا۔ وہ انتہائی نگہداشت والے روم سے اب درمیانی نگہداشت والے روم میں منتقل ہو گئی تھی۔ہوش میں آگئی تھی لیکن کوئی جنبش از خود نہیں کر سکتی تھی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ میں خود اپنے دل کے معاملے سے نمٹ کر آرہا ہوں۔ابھی اسے اپنے بارے میں یا ماہ نور کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ جیسے جیسے مبارکہ روبصحت ہو رہی تھی ویسے ویسے ماہ نور کی حالت بھی بہتر ہو رہی تھی۔اس کا چہرہ تو خدا نے اپنے فضل سے محفوظ کر دیا تھا۔سینے کے بیشتر داغ بھی کم ہورہے تھے اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ بچی بہت چھوٹی ہے اس لیے ایک سے دو سال تک یہ داغ بھی دور ہو جائیں گے۔</b><br />
<b>مبارکہ کو جب مختلف کنکشنز سے آزاد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو جہاں جہاں سے سوئی وغیرہ کو ہٹاتے، وہاں گہرے سرخ داغ نمایاں ہو جاتے۔تن ہمہ داغ داغ شد والا منظر تھا۔پنبہ کجا کجا نہم کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ایک دن کے بعد یہ گہرے سرخ داغ جیسے نیلے سے رنگ میں ڈھلنے لگے اور مجھے پنجابی کا ’’تن من نیل و نیل‘‘ یاد دلانے لگے۔(ویسے کمال ہے کہ ایک مہینہ کے اندر ہی وہ گہرے داغ ایسے ختم ہو گئے ہیں جیسے کبھی تھے ہی نہیں) ۔ </b><br />
<b>۲۳؍اکتوبرکو مبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی لیکن اس خبر کے ساتھ کہ ہفتہ میں تین بار ڈائلسز ہوا کرے گا۔ سرکاری طور پرہی سارا انتظام کیا گیا ہے۔مقررہ وقت پر ٹیکسی آتی ہے اور گھر سے ہسپتال لے جاتی ہے،چار سے پانچ گھنٹے کے درمیان ڈائلسز کا عمل مکمل ہوتا ہے تو ٹیکسی گھر چھوڑ جاتی ہے۔مبارکہ کی بیماری،اپنی پوتی ماہ نور کے حادثہ اور اپنے دل کے علاج تک تین چار ہسپتالوں سے واسطہ رہا۔کہیں بھی امیر یا غریب،جرمن یا غیر جرمن کا فرق دکھائی نہیں دیا،کہیں بھی ہسپتال کے عملہ میں دیکھ بھال کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔وہ جو مسیحا نہ مقام تھا ہر جگہ دکھائی دیا۔ انسانی خدمت کا ایسا اعلیٰ معیار کہ سوچنے بیٹھیں تو آنکھیں شکر گزاری سے بھیگ جائیں۔ہمارے معاشرے کے لوگ اپنی ذہنیت کے مطابق اان کے بارے کیا کچھ باور کرتے ہیں لیکن میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اپنی خدمتِ انسانی کے اعلیٰ ترین معیار کے باعث ان لوگوں نے سچ مچ اپنی جنت کمالی ہے۔</b><br />
<b>اپنی اس علالت کے نتیجہ میں مبارکہ کا وزن پچاس کلو کے لگ بھگ رہ گیا۔بیشتر کپڑوں کی نئی فٹنگ کرانی پڑی، چھوٹی بیٹی کا شادی سے پہلے کا ایک کوٹ پورا آگیا۔اب بہو بیٹیوں میں حسرت کے ساتھ مبارکہ کو دیکھا جاتا ہے کہ ہائے امی! آپ اتنی سمارٹ ہو گئی ہیں۔</b><br />
<b>میرے دل کا وال(شریان) ٹھیک کر دیا گیا تھا لیکن سانس پھولنے کی کیفیت نہیں جا رہی تھی۔ڈاکٹر اور ہسپتال کے دو معائنوں کے بعدفرینکفرٹ کے یونیورسٹی کلینک کے ریڈیالوجی نیوکلیر میڈیسن کے شعبہ میں چیک اپ کے لیے بھیج دیا گیا۔ یہ چار گھنٹے طویل دورانیے کا چیک اپ تھا۔پہلے مرحلہ میں جب مجھے انجکشن لگا کر سائیکلنگ کرائی جا رہی تھی تو ڈاکٹر بار بار پوچھتی تھی کہ دل میں کوئی گھبراہٹ تو نہیں ہو رہی؟میں مزے سے سائیکل چلائے جا رہا تھا اور ہر بار بتا رہا تھا کہ دل کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہو رہی،البتہ سائیکل چلاتے ہوئے ٹانگوں میں درد ہورہا ہے۔دوسرے مرحلہ میں جب مجھے لٹا کر اوپر ایک مشین لائی جانے لگی تو شدید گھبراہٹ ہونے لگی ۔ میرے دونوں ہاتھ اس طرح سے میرے سر کے نیچے تہہ کر دئیے گئے تھے کہ میں اُٹھ بھی نہ سکتا تھا۔میں نے کہا میں اپنے جوتے اتارناچاہتا ہوں،جواب ملا آپ اسی طرح پڑے رہو،ہم خود جوتے اتار دیتے ہیں۔پندرہ منٹ تک کسی جنبش کے بغیر پڑے رہنا تھا،یہ بھی ٹانگ سیدھی رکھنے جیسا ہی کربناک تجربہ تھا۔کھجلی جو ویسے کبھی نہ ہوتی تھی اب ہر جگہ ہوئی جا رہی تھی لیکن کہیں بھی کھجانے کی اجازت نہ تھی۔بہر حال پندرہ منٹ کے بعد اس مشکل سے نجات ملی۔ایک وقفہ کے بعد جب ایک بار پھر یہی معائنہ دہرایا گیا تو پھر میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پا لیا تھا۔دوسری بار یہ معائنہ بخیر و خوبی مکمل ہوگیا۔سارے چیک اپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ مزید دو وال بند پائے گئے۔اور اب ایک بار پھر آپریشنل پراسیس سے گزرنا ہوگا۔گھر آکر میں نے مبارکہ سے پنجابی میں کہا کہ ’’سِر تے اک وال نئیں ریہا ،تے اے ہن دل دے والاں دے دوالے ہو گئے نیں‘‘۔بہر حال ۳ نومبر کو ایک بار پھر دل کی انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی ہونا قرار پائی۔</b><br />
<b>میں اپنے دوست احباب کو بتا رہا تھا کہ زندگی بھر جنہیں دل کھول کر دکھانے کی حسرت رہی وہ تو پوری نہیں ہوئی،لیکن یہ لوگ نہ صرف دل میں جھانکتے رہتے ہیں بلکہ جب جی چاہتا ہے اسے کھول کر دیکھ بھی لیتے ہیں، بلکہ بار بار دیکھتے جا رہے ہیں۔بہر حال ۳ نومبر کو یہ مرحلہ بھی خیرو خوبی سے گزر گیا۔رات کو چھ گھنٹے سیدھے لیٹے رہنے اور دائیں ٹانگ کو بالکل نہ ہلانے کی ہدایت پر عمل کے لیے میں اس بار ذہنی طور پر تیار تھا۔میں نے نیند کی گولی کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر نے ڈرپ میں ہی ہلکی سی مقدار میں دوا دے دی۔اس سے نہ تو گہری نیند آئی اور نہ ہی بے چینی والی بیداری رہی۔نیم خوابی کی سی کیفیت تھی۔سو اس بار زیادہ دقت نہیں ہوئی۔جب پٹی کھولی گئی تو میں اطمینان اور آرام کے ساتھ اُٹھا۔ہسپتال والوں کا ملنگوں والا چولا اتارا،اپنالباس پہنا اور اس بار اپنے وارڈ کے باہر لان میں کرسی پر آکر بیٹھ گیا۔ہسپتال سے باہر جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔</b><br />
<b>دوسرے دن معمول کے مطابق چھٹی مل جانی تھی لیکن ایک مہینے میں دوسری بار اس مرحلہ سے گزرنے کے باعث مجھے احتیاطاََ ایک دن کے لیے مزید روک لیا گیا۔۵؍نومبر کو چھٹی دی گئی اور میں مزے مزے سے گھر پہنچ گیا۔</b><br />
<b>پہلی بارآپریشن وارڈ سے جنرل وارڈتک پہنچاتھا تو طارق،نازیہ اور شایان فوراََ ہسپتال پہنچ گئے تھے۔اب دوسری بار جنرل وارڈ میں پہنچا تو مبارکہ ،طارق،نازیہ اور شایان کے ساتھ پہنچ گئی تھی۔دوسرے دن جب چھٹی نہیں ملی تو مبارکہ،شعیب اور عثمان ایک ساتھ ملنے آگئے۔اب عمر کے اس حصے میں اور بیماریوں کی اس یلغار میں مبارکہ اور میں ایک دوسرے کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں۔ بعض عزیز اور دوست احباب ہم دونوں کی خیریت دریافت کرنے لگے تو میں نے کہا ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کی دیکھ ریکھ کرتے رہتے ہیں ۔مثلاََ میں مبارکہ سے کہتا ہوں آپ آرام سے بیٹھیں ،میں چائے تیار کرکے لاتا ہوں۔مبارکہ جواباََ کہتی ہے نہیں آپ آرام سے بیٹھیں میں چائے تیار کرکے لاتی ہوں۔ہم دونوں کا جذبہ دیکھ کر چائے کہتی ہے آپ دونوں آرام سے بیٹھیں میں خودہی تیار ہو کر آجاتی ہوں۔</b><br />
<b>۱۹؍نومبر۲۰۰۹ء کو ڈاکٹر کو میں نے بتایا کہ سانس پھولنے کا مسئلہ جوں کا توں ہے،تو اس نے کہا کہ ایک بار پھر انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔میں نے کہا ۳؍دسمبر کے بعد کی کوئی تاریخ طے کر لیں۔تب تک خواب کی تعبیر نہ آئی تو پھر جیسے چاہیے ہمارے دل پر مشقِ ناز فرمائیے۔</b><br />
<b>جب میرے ۳ ؍دسمبر والے خواب کی بات گھر کے تقریباََ سارے افراد تک پہنچ گئی تو میں نے مناسب سمجھا کہ خوابوں اور ان کی تعبیروں سے دلچسپی رکھنے والے بعض خاص دوستوں کو بھی خواب بتا دیا جائے۔اس سلسلہ میں ہالینڈ سے جمیل الرحمن،انگلینڈ سے نصیر حبیب اور جرمنی سے خالد ملک ساحل تین دوستوں کا بطور خاص حوالہ دوں گا ۔ خالد ملک ساحل صاحب اتنے رقیق القلب نکلے کہ مجھے لگا میری فوتگی پر وہ جس طرح رونے لگیں گے ،انہیں دلاسہ دینے کے لیے شاید مجھے خود ہی اٹھ کرانہیں چپ کرانا پڑے گا۔تاہم انہوں نے تعبیر یہ کی کہ ۳؍دسمبر سے آپ کی زندگی میں ایک نئی زندگی کا آغاز ہوگا،جس میں روحانی پہلو زیادہ ہوگا۔لگ بھگ اسی انداز کی بات نصیر حبیب صاحب نے ہنستے ہنستے اور بعض رنگین اشارے دے کر کردی۔جمیل الرحمن سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ۳ دسمبر کی تاریخ کو ایک طرف رکھیں۔اور انّی متوفّیک کے اعداد نکالیں۔ اعداد نکالے تو ۹ نکلے۔میں نے کہا اب تو بات واضح ہو گئی کہ ۲۰۰۰ کی صدی میں ۲۰۰۹ ایک بار ہی آنا ہے۔اس کی دوسری تاویل کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ۲۰۰۹ء سے اگلے نو برس تک زندگی رہے گی اور ۲۰۱۸ء میں وفات ہو گی۔اس پر جمیل الرحمن نے کہا کہ میرے حساب سے ۲۰۱۶ء کا سال نکلتا ہے۔کیونکہ ۲۰۱۶ کے اعداد نو نکلتے ہیں۔میں نے کہا کہ ہاں یہ بھی قرینِ قیاس ہے۔جب مبارکہ کو اس حساب کتاب کا علم ہوا تو کہنے لگی کہ ۲۰۲۵ ء اور ۲۰۳۴ء کے اعداد بھی تو نو ہی نکلتے ہیں۔میں نے کہا کہ صرف ۲۰۳۴ تک ہی کیوں پھر ۲۰۵۲ء کر لیں۔اس کا عدد بھی ۹ نکلتا ہے اور میری زندگی کی سنچری بھی پوری ہوتی ہے۔۹ کے پھیرمیں جمیل الرحمن نے ڈال دیاہے ورنہ خواب سیدھا سادہ ۳؍دسمبر۲۰۰۹ء سے متعلق ہے۔پورا ہو گیا تو بھی ٹھیک اور پورا نہ ہوا تو بھی خیر۔۔۔لیکن نو کے عدد سے تاویل و تعبیر کا ایک طویل تر سلسلہ بنتا جا رہا ہے۔ اتنی تعبیریں یکجا ہوتی گئیں تومیرا بے چارہ خواب اپنی موت آپ مر جائے گا۔شاید دوستوں نے مجھے بچانے کے لیے یہی ترکیب نکالی ہو کہ اتنی تعبیریں اور تاویلیں جمع کردو کہ سب کچھ خلط ملط ہو جائے۔کثرتِ تعبیر کے ہاتھوں خواب کے انجام سے مابعد جدید والوں کا ڈھکوسلہ بھی مزید سمجھ میں آتا ہے۔لیجیے صاحب معنی کو ہمہ وقت ملتوی کراتے رہیے،موت سے جان بچاتے رہیے،لیکن تا بہ کے! </b><br />
<b>میں نے اپنی یادوں کے باب’’دعائیں اور قسمت‘‘میں بڑی وضاحت سے لکھا تھا: </b><br />
<b>’’چند قرآنی اور مسنون دعائیں مجھے بچپن میں رٹا دی گئی تھیں۔ان کی بھی ایک اہمیت ہے لیکن میں جب کسی دُکھ کی حالت میں ہوتا ہمیشہ اپنی زبان میں خدا سے دعا کرتا۔بہت بار ایسا تجربہ ہوا کہ میں نے دعا کی اور اسی حالت میں مجھے دعا کی قبولیت کا یقین بھی ہو گیا۔جب بارہا ایسا ہوا تو میں نے اپنے بعض قریبی عزیزوں کو اس بارے میں بتایا۔اس بتانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو دعا بظاہر قبول ہو چکی تھی‘ایک لمبے وقفہ تک معلّق ہو گئی۔دو تین بار ایسے جھٹکے لگنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ قبولیت دعا کا نشان تو خدا کے مامورین اور اولیاء کے لئے مخصوص ہے۔میری کسی بھی دعا کا قبول ہونا میرا انفرادی معاملہ ہے۔اگر میں اسے دوسروں کو بتاؤں گا تو مقامِ ولایت پر قدم رکھنے جیسی جسارت کروں گا‘جس کا میں اہل ہی نہیں۔سو اسی لئے وہ دعائیں جن کی قبولیت کے بارہ میں دوسروں کو بتا دیتا ہوں‘لمبے عرصہ کے لئے ردّو قبول کے درمیان معلّق ہوجاتی ہیں اور یہی میرے افشاء کی سزا ہوتی ہے۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>عجب سزا ہے کہ میرے دعاؤں والے حروف </b><br />
<b>نہ مسترد ہوئے اب تک نہ مستجاب ہوئے ‘‘ </b></div><div style="text-align: right;"><b>اپنے خواب اور غنودگی کی حالت میں قرآنی الفاظ کے زبان پر جاری ہونے کے تجربہ کو قبولیت دعا سے ملتا جلتا یا شاید اس سے بھی کچھ زیادہ قرار دیا جا سکتا ہے۔تو میں نے جو اسے مقررہ وقت آنے سے پہلے اپنے عزیزو اقارب اور دوستوں میں اتنا زیادہ بتا دیا ہے تو کہیں لا شعوری طور پر میں نے یہی تو نہیں چاہا کہ تین دسمبر کا سن سچ مچ معلق ہو جائے۔اور چاہے پھر بعد میں تاریخ بھی ادل بدل ہو جائے۔بظاہر ایسا نہیں ہے لیکن انسانی لا شعور کا کیا کہا جا سکتا ہے۔یوں بھی دل دریا سمندروں ڈوہنگے۔مجھے موت کے سلسلہ میں صرف ایک خواہش شدت کے ساتھ رہی ہے کہ جب بھی آئے بہت آرام سے آئے۔جیسے ہلکی سی اونگھ میں گہری اور میٹھی اونگھ آجائے اور میں اسی میٹھی اونگھ میں آگے نکل جاؤں۔روح اور جسم کے حوالے سے میں اپنی بساط کے مطابق کافی کچھ لکھ چکا ہوں۔یہاں اپنی سوچ میں ہوئی پیش رفت کا ہلکا سا ذکر بھی کر دوں۔جسم اور روح لازم و ملزوم ہیں۔جسم کے اندر ہی کہیں کوئی مین سوئچ ہے (جسے ابھی جدید سائنس دریافت نہیں کر پائی)۔وہ مین سوئچ آف کر دیا جاتا ہے تو ہم مر جاتے ہیں۔جسم سے گہرے اور مستقل ربط کے باوجود مجھے روح کی ایک حد تک الگ حیثیت کا بھی پرچھائیں جیسا ادراک ہوتا ہے ۔ اس سے جسم کی نفی نہیں ہوتی لیکن روح جسم کے ساتھ اس سے سوا بھی ہے۔مثال کوئی بہت واضح نہیں ہے لیکن اسے کسی حد تک اور محض مثال کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔سیٹلائٹ سے جو پروگرام نشر کیے جا رہے ہیں ،وہ اپنے اظہار کے لیے ٹی وی سیٹ کے محتاج ہیں۔ٹی وی کے بغیر وہ خود کو ظاہر نہیں کر سکتے،یوں ٹی وی اور سیٹلائٹ سے آنے والے پروگرام میں گہرا ربط ہے۔تاہم ٹی وی کے بغیر بے شک وہ پروگرام خود کو ظاہر نہ کر پائے لیکن وہ یہیں کہیں موجود تو ہوتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس موضوع پر میرے لیے بہت سا مزید غوروفکر کا سامان موجود ہے۔ تاہم اس سے روح اور جسم کے لازم و ملزوم ہونے کے اس تصور کی نفی نہیں ہوتی جو میں اپنی یادوں کے باب ’’روح اور جسم‘‘ میں بیان کر چکا ہوں۔یہ نئی سوچ در اصل اسی سوچ کی محض توسیع اور اسی کے اندر ایک نئے زاویے کی دریافت کا احساس دلاتی ہے۔ </b><br />
<b>بہر حال دوستوں کی تعبیروں کوبھی ایک حد تک مد نظر رکھا جائے تواب تین امکانات ہیں،اسی سال ۲۰۰۹ء کے ۳ دسمبرکو مجھے بارگاہِ الٰہی سے بلاوا آجائے۔یا پھر ۲۰۱۶ء یا ۲۰۱۸ء تک اسے موخر سمجھا جائے۔ذاتی طور پر میرے دامن میں حبّ رسولؐ کے طور پر کچھ بھی خاص نہیں ہے۔ایک ہلکا سا احساس اور بس۔میں نے ایک عرصہ پہلے سے یہ خواہش کر رکھی ہے کہ میرے پاس نذر گزارنے کو اور کچھ بھی نہیں ہے سو اپنی عمر کا نذرانہ بارگاہِ رسالت میں پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ میری عمر ۶۳ برس سے تجاوز نہ کرے ، اس کے اندر ہی اندر کہیں بھی مکمل ہوجائے۔</b><br />
<b>بلاشبہ زندگی خدا کا عطا کردہ بہت بڑا انعام ہے،اس کے لیے خدا کا جتنا شکرادا کیا جائے کم ہے۔موت بھی بر حق ہے ،خدا جب چاہے بلا لے،میں اس کے لیے بھی ہمیشہ اس کی رضا پر راضی اورکوچ کے لیے کمربستہ ہوں۔بس اپنی عمرکے ۶۳ برس سے تجاوز نہ کرنے کی خواہش کے پیش نظرمجھے ۲۰۱۶ء یا ۲۰۱۸ء کے مقابلہ میں ۲۰۰۹ء کا سال ہی زیادہ مناسب لگ رہا ہے۔آگے جو اس کی مرضی!</b><br />
<b>۳دسمبر ۲۰۰۹ء والی تعبیر سچ ثابت ہو گئی تواس لیے بھی خوشی ہوگی کہ یادوں کا یہ باب چھپتے وقت پورا باب بزبانِ حال کہہ رہا ہوگا۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا</b><br />
<b>ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے</b></div><div style="text-align: right;"><b>خواب کی تعبیر کچھ اور ہوئی یا سارا خواب ہی غلط ہو گیا تو پھر ۴؍دسمبر کو ایک دو سطروں کا اضافہ کرکے یہ باب مکمل کر لوں گا۔</b><br />
<b>وماتوفیقی الا باللہ</b></div><div style="text-align: center;"><b>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b></div><div style="text-align: right;"><b><br />
</b><br />
<b>(یہ تحریر میں نے ۲۳؍نومبر ۲۰۰۹ء کو مکمل کرلی تھی۔آج۲۶؍نومبر تک اس میں ہلکے پھلکے اضافے کیے اور آج ہی ان احباب کو ای میل سے یہ فائل بھیج رہا ہوں:شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)،محمد عمر میمن(امریکہ)،شمیم حنفی (دہلی ) ، ڈاکٹرعلی جاوید(دہلی)،منشا یاد(اسلام آباد)،ایوب خاور(کراچی)ڈاکٹر صغریٰ صدف(لاہور)،جمیل الرحمن (ہالینڈ)،خورشید اقبال (۲۴ پرگنہ) ، خالد ملک ساحل (جرمنی) ،شبانہ یوسف(انگلینڈ )،ارشد خالد(اسلام آباد)،احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)،سلیمان جاذب(دبئی)۔۔۔ح۔ق)</b><br />
<b>۲۸نومبر کو یہ فائل سلطان جمیل نسیم (کینیڈا)،عبداللہ جاویداور شہناز خانم عابدی(کینیڈا)کو بھی بھیج دی گئی۔</b></div><div style="text-align: center;"><b>۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</b></div><div style="text-align: right;"><b>۴؍دسمبر کو لکھا جانے والا اضافی نوٹ:</b><br />
<b>اس وقت جرمنی کے وقت کے مطابق رات کے بارہ بج کر سات منٹ ہو چکے ہیں، ۳؍دسمبر۲۰۰۹ء گزر چکا ہے ،۴؍دسمبر کا دن شروع ہو چکا ہے۔ویسا کچھ نہیں ہوا جیسا میں سمجھ رہا تھا۔لیکن منشا یاد کے افسانہ ’’بیک مرر‘‘کے اختتام کے مطابق ایسا ہو تو سکتا تھا۔ح۔ق</b> </div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-55784966212143456202011-07-15T01:24:00.000-07:002012-05-16T23:31:45.642-07:00زندگی دَر زندگی<div style="text-align: right;">
<div style="text-align: center;">
<b><span style="font-size: x-large;">زندگی دَر زندگی</span></b></div>
<br />
<b>یادوں کے گزشتہ باب لبیک اللھم لبیک کی اشاعت کے بعد میرے قریبی دوست احباب نے میرے ۲۶ جنوری ۲۰۰۹ء والے خواب اور اس کی ممکنہ تعبیر کے سلسلے میں مزید اپنی اپنی رائے سے نوازا ہے۔ بعض تاثرات دوستوں اور بزرگوں کی محبت یا ہمدردی پر مبنی ہیں۔ بعض تاثرات میں خواب کو واہمہ جیسا سمجھا گیا ہے اور مجھے بھی یہی باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔شمس الرحمن فاروقی(الٰہ آباد)،محمد عمر میمن(امریکہ)،شمیم حنفی (دہلی ) ، ڈاکٹرعلی جاوید(دہلی)،اشعر نجمی(تھانے)،سلطان جمیل نسیم (کینیڈا)،منشا یاد(اسلام آباد)وغیرہ اسی زمرہ میں آتے ہیں۔البتہ ان میں سے منشا یاد نے تو کسی حد تک غصہ کرکے میری توجہ موت کے احساس سے ہٹانا چاہی جبکہ شمیم حنفی نے میری تحریر کو ادبی طور پر بہت پسند کرتے ہوئے مجھے مزید لکھنے کی تحریک کی۔ایوب خاور(کراچی)،خورشید اقبال (۲۴ پرگنہ) ، شبانہ یوسف(انگلینڈ )، ارشدخالد(اسلام آباد)،عبدالرب استاد(گلبرگہ)،احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)عظیم انصاری (کلکتہ) ،ان احباب نے تو بہت زیادہ جذباتی جوش کے ساتھ میرا خیال رکھا۔ان میں سے بیشتر کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ پروین شیر(کینیڈا)،شہناز خانم عابدی(کینیڈا)،ڈاکٹر صغریٰ صدف (لاہور) ،سلیمان جاذب(دبئی)،بشریٰ ملک(جرمنی) وغیرہ احباب جیسے درازئ عمر کی دعا میں مشغول ہو گئے۔جوگندر پال جی کا ٹیلی فون آگیا،دیر تک باتیں کرتے رہے۔میرا حوصلہ بڑھاتے رہے،تحریر کی سچائی پر داد دیتے رہے۔میں نے انہیں کہا کہ یہ آپ کے ’’خود وفاتیہ‘‘طرزکی تحریر ہے،کہنے لگے :تمہاری واردات بہت گاڑھی ہے۔بعض احباب نے خواب کا غلط ہونا قرار دیا ہے تو بعض نے اس کی تاویل کرکے تعبیرکسی اور زاویے سے دیکھی ہے۔مذکورہ بالا احباب کے تاثرات اگر یکجا کرنے بیٹھوں تو پورا ایک باب بن جائے گا،لیکن ظاہر ہے وہ سارا میٹر ان کی میرے تئیں،محبت اور ہمدردی کا غماز ہے اس لیے اسے یہاں درج کرنے کی بجائے ذاتی ریکارڈمیں ہی سنبھال رکھتا ہوں۔ </b><br />
<b>تین تاویلیں ایسی ہیں کہ میں انہیں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔میرے ماموں صادق باجوہ کا کہنا ہے کہ خواب میں موت سے مراد لمبی عمر ہے۔میرے خیال میں خواب میں کسی زندہ انسان کی موت کی خبر ملنایا اسے مردہ دیکھنا تو اس کی لمبی عمر کی علامت ہو سکتی ہے لیکن اس طرح معین تاریخ وفات کی خبر سے مراد لمبی عمر شاید نہیں بنتی۔باقی واللہ اعلم۔</b><br />
<b>کینیڈا سے عبداللہ جاوید صاحب کی تاویل مجھے مزے کی لگی۔ان کے بقول :جیسے کسی بچے کو کسی شرارت یا کام سے روکنے کے لیے کسی تاریک کمرے کا دروازہ ہلکا سا کھول کر دکھایا جائے اور پھر دروازہ بند کرکے بچے کو ڈرایا جائے کہ اگر تم شرارت سے باز نہ آئے تو تمہیں اس کمرے میں بند کردیا جائے گا۔بالکل اسی طرح ۳ دسمبر کی تاریخ بتا کر اللہ میاں نے موت کے تاریک دروازے کا ڈراوا دیا تھا۔لیکن یہ ضدی بچہ شرارت کو چھوڑ کر دروازے کے اندر میں دلچسپی لینے لگا۔دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا کہ شرارت ورارت کا معاملہ چھوڑیں یہ دروازہ کھولیں مجھے اس کمرے میں جانا ہے۔دیکھوں تو سہی اندر کیا ہے۔جب دروازہ نہیں کھلا تو ۲۶ نومبر آنے تک اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا۔اور پھر ۲۶ نومبر سے ۳ دسمبر تک اس بچے نے دروازہ کھٹکھٹانا اور شور مچانا جاری رکھا۔</b><br />
<b>ایک طرف تعبیر و تاویل کا یہ سلسلہ تھا دوسری طرف بعض دوستوں کا کہنا تھا کہ خواب غلط ثابت ہو چکا ہے۔اس پر میری اہلیہ مبارکہ نے بڑی انوکھی نشان دہی کی۔مبارکہ کی تاویل بیان کرنے سے پہلے دو وضاحتیں کر دوں۔پہلی وضاحت:اپنے قریشی ہونے کی نسبت سے،اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود میں خود کو ہمیشہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کی آل میں شمار کرتا ہوں۔مجھے گہرا احساس ہے کہ روحانی سطح پر مجھ خاک کی اُس عالمِ پاک سے کوئی نسبت نہیں ہے۔پر کچھ ہے تو سہی۔دوسری وضاحت:خواب کی تعبیر و تاویل میں جوایک مماثلت کا بیان آگے آنے والا ہے،وہ صرف خواب کی تفہیم کے سلسلہ میں ایک مثال کے طور پر ہے،وگرنہ میں ابراہیمی سمندر کے سامنے ایک قطرہ اور صحرا کے سامنے ایک ذرہ جتنی وقعت کا بھی حامل نہیں ہوں۔یہ وضاحت اس لیے نہیں کر رہا کہ کوئی مذہبی انتہا پسند میری بات سے کوئی اشتعال انگیزی نہ کر گزرے۔بلکہ اس لیے کر رہا ہوں کہ اس اظہار کے نتیجہ میں کہیں میرے اپنے اندر کوئی فتور نہ آجائے ۔بس میری یہ تحریر مجھے میری اوقات کا احساس دلاتی رہے۔</b><br />
<b>ان وضاحتوں کے بعد مبارکہ کی بیان کردہ تعبیر و تاویل پیش کرتا ہوں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو خدا کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔انہوں نے بیٹے کو اپنا خواب بتایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے فوراََخواب کو پورا کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی۔اب صورتحال یہ بنی کہ باپ بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے اور بیٹا قربان ہونے کو تیار ہے۔جب خدا نے دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں اس کی رضا پر راضی اور اس کے حکم کی تعمیل پر کمر بستہ ہیں تو قربانی کے حکم کے باوجود ذبح کرنے سے روک دیا گیا اور خواب کی تعبیر مینڈھا بھیج کر پوری کر دی گئی۔یوں خواب دوسرے رنگ میں پورا ہو گیا۔</b><br />
<b>میرے خواب میں ایک معین تاریخ وفات کی خبر کے بعد میری طرف سے ایک لمحہ کے لیے بھی موت کا ڈر یا خوف پیدا نہیں ہوا۔اسی برس پے در پے دہلا دینے والے سانحات نے بھی مجھے کسی یاس انگیز کیفیت میں نہیں جانے دیا۔لبیک اللہم لبیک میں جتنا میں ہشاش بشاش ہوں اتنا ہی میں گزشتہ برس اپنی زندگی میں ہشاش بشاش رہا اور ۳ دسمبر کا وعدۂ وصل کی طرح انتظار کرتا رہا۔میری اس کیفیت کو میرے وہ تمام عزیز اور احباب بخوبی جانتے ہیں جو گزشتہ برس میرے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس خدا نے یہ خواب دکھایاتھا اور جوہمارے دلوں کے بھید ہم دل والوں سے بھی زیادہ جانتا ہے،وہ بخوبی جانتا ہے کہ میں اس سلسلہ میں کس حد تک راضی برضا ہو گیا تھا۔سو موت کی خبر پا کر اس کے لیے کسی خوف کے بغیر آمادہ ہوجانے کی سال بھر کی کیفیت کو دیکھ کر میرے خدا نے بھی ۳ دسمبر کی تعبیر کسی اور رنگ میں بدل دی۔کس رنگ میں بدلی؟ یہ ابھی تک مجھے بھی علم نہیں ہے۔</b><br />
<b>کچھ عزیزوں نے کہا کہ اللہ کے نیک بندوں پر بیماریوں کی یلغار کی صورت میں ابتلا اور آزمائش آتے ہیں۔اس پر میں نے کہا کہ میں ان بلاؤں کے آنے پر شاکی نہیں ہوں لیکن خدا کی قسم میں اللہ کا نیک بندہ نہیں ہوں،اس کا گنہگار بندہ ہوں۔ایک کرم فرما نے فرمایا کہ یہ گناہوں کی سزا ہے۔میں نے کہا میری گناہوں کے سلسلہ میں اپنی ایک سوچ ہے۔میں تکبر،رعونت،فرعونیت خواہ وہ کسی صورت میں ہو اس لعنت سے ہمیشہ بچتا ہوں۔ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ مجھ سے کسی کی بے جا تذلیل نہ ہو جائے۔کسی کی زیادتی کا بدلہ ضرور لیتا ہوں لیکن اس زیادتی کے برابر،پوری طرح ناپ تول کر۔میرے نزدیک چاہے کسی رنگ ،روپ اور بہروپ میں ہو۔۔ تکبر،رعونت اور فرعونیت سب سے بڑا گناہ ہے ۔ریاکاری والی انکساری بھی ایسا ہی بہروپ ہے جس کے عقب میں تکبر موجود ہوتا ہے۔سو میں ان سب کے ارتکاب سے ہمیشہ بچتا رہا ہوں اور بچنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔لیکن اس گناہِ عظیم سے ہٹ کر جہاں تک بشری کمزوری والے گناہوں کی سزا کی بات ہے تو اگر یہ بشری کمزوری والے گناہوں کی سزا ہے تو بہت کم ہے، بہت ہی کم ہے ۔اتنی کم ہے کہ سزا لگتی ہی نہیں کیونکہ بشری کمزوریوں والے میرے گناہ تو بے شمار ہیں ۔</b><br />
<b>دسمبر ۲۰۰۹ء گزر گیا تو نئے سال کا استقبال اپنے معمول کے مطابق کیا۔پاکستان سے ہی میرا معمول رہا ہے کہ میں رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے لگ بھگ کسی چھوٹے سے کمرے میں بند ہو کر مصلیٰ بچھا لیتا ہوں۔گزرے ہوئے سال کا ایک جائزہ اپنے اندر لیتا ہوں ۔ کہیں استغفار کرتا ہوں تو کہیں شکر گزار بنتا ہوں۔آنے والے سال کے سلسلہ میں اپنی دعائیں بارگاہِ خداوندی میں پیش کرتا ہوں۔سوا بارہ بجے تک یا ساڑھے بارہ بجے تک میں اسی طرح نئے سال کا استقبال کرتا ہوں۔اسے میں اللہ میاں سے اپنی سالانہ ملاقات بھی سمجھتا ہوں۔</b><br />
<b>۱۹نومبر۲۰۰۹ء کو انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کا جو مرحلہ ملتوی کر دیا گیا تھا وہ گیارہ جنوری ۲۰۱۰ء کو ہونا طے پایا۔گیارہ جنوری کو انجیو گرافی کی گئی لیکن کسی ٹیکنیکل مسئلہ کی وجہ سے انجیو پلاسٹی کو ملتوی کر دیا گیا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مجھے دو گھنٹے تک زیر نگرانی رکھنے کے بعد گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔انجیو پلاسٹی کے لیے ۲۱جنوری کی تاریخ طے کر دی گئی۔مجھے ایک دن پہلے یعنی ۲۰ جنوری کو ہسپتال میں آکر داخل ہونا تھا۔سو ۲۰ جنوری کو ہسپتال میں داخل ہو گیا۔انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا تھا جب گھر سے روانہ ہوا ،اور وہاں سے سیدھا ہسپتال پہنچا۔ایک کوئے یار سے دوسرے کوئے یار میں آنکلا۔منجھلا بیٹاعثمان مجھے ہسپتال تک پہنچا گیا تھا۔بار بار آنے جانے کی وجہ سے بادزودن ہسپتال کے کارڈیو ڈیپارٹمنٹ میں اب کافی جان پہچان ہو گئی ہے۔ پہلی منزل پر کمرہ نمبر ۹ میں میرا بیڈ تھا۔پہلے نرس آئی اور شوگر،بلڈ پریشروغیرہ چیک کر گئی۔پھر نیپالی ڈاکٹر مایا آئی۔اس نے سر سے معائنہ شروع کیا۔آنکھ،منہ اور گلے کو چیک کرتے ہوئے جب پیٹ تک آئی تو پیٹ کو دباتے ہوئے پوچھنے لگی کوئی تکلیف تو نہیں ہو رہی؟ میں نے کہا صرف گیس کی تکلیف ہے۔ڈاکٹر تھوڑا سا مسکرائی۔پھر پیٹ کے دائیں بائیں جانب سے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے دباتے ہوئے پوچھا درد تو نہیں ہو رہی؟میں نے کہا گدگدی ہو رہی ہے۔وہ ڈاکٹر جو ابھی تک مسکراہٹ میں بھی سنجیدگی ظاہر کر رہی تھی،اب زور سے ہنسنے لگی،گویا میرے حصے کا بھی ہنس دی۔</b><br />
<b>شام کا کھانا کھانے کے بعدمیں کچھ دیر چہل قدمی کے لیے نکلا۔پھر اپنے کمرے اور وارڈ سے باہرلگی ہوئی کرسیوں میں سے ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ رات کو گھر والوں سے بات ہوئی۔پھر ایک غزل شروع ہو گئی۔رات گیارہ بجے کے قریب میں اپنے کمرے میں آکر سو گیا۔</b><br />
<b>۲۱جنوری کو فجر کی نمازسے فارغ ہوا تو ٹیپو آگیا۔میرے استعمال کی چند چیزیں جو گھر پر رہ گئی تھیں دینے آیا تھا۔وہیں سے پھر اپنی جاب پر چلا گیا۔صبح ناشتہ سے پہلے میری شوگر ۱۶۹ تھی۔ناشتہ کے بعد یکدم ۳۶۹ ہو گئی۔اس پر فوراََ انسولین کا ٹیکہ لگایا گیا ۔ٹیکہ لگوا کر میں اپنے کاغذ قلم لے کر لابی میں چلا گیا۔(لیپ ٹاپ کی سہولت ہوتی تو کاغذ قلم کی ضرورت نہ پڑتی)شام کو ساڑھے چار بجے انجیو پلاسٹی کا وقت طے تھا۔اس دوران مبارکہ سے فون پر بات ہوئی۔معلوم ہوا کہ کل رات کو کینیڈا سے پروین شیر نے فون کرکے خیریت دریافت کی تھی۔آج دن میں ارشد خالد اور نذر خلیق کے فون آئے تھے اور دونوں خیریت دریافت کر رہے تھے۔ مبارکہ کے فون کے بعد اپنے اپنے گھر سے سارے بچوں نے بھی فون کرکے خیریت دریافت کی۔</b><br />
<b>آج ڈاکٹر ویسنا چیک اپ کے لیے آئیں۔ٹمپریچر،نبض،بلڈ پریشر سب نارمل تھے۔بلڈ پریشر۸۰۔۱۴۰تھا۔ڈاکٹر ویسنا بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے بیڈ پر بہت زیادہ جھک آئی تھیں،شاید اسی لیے بلڈ پریشر ۱۲۰ کی بجائے ۱۴۰ ہو گیا تھا۔بہر حال سب کچھ کنٹرول میں تھا۔</b><br />
<b>شام کو انجیو پلاسٹی بھی ہو گئی۔اپنے کمرے میں آگیااور ٹانگ سیدھی رکھنے والی تکلیف کا مرحلہ بھی نسبتاََ آسانی سے گزر گیا۔۲۲جنوری کو صبح سویرے میرا ای سی جی ٹیسٹ ہوا۔رپورٹ اطمینان بخش تھی۔ اسی روز میں نے دو غزلیں کہیں۔ شام تک مجھے گھر جانے کی اجازت مل گئی۔</b><br />
<b>۱۸ فروری کو چیک اپ ہوا۔اس کے بعد ۱۲؍ اپریل کو پھر معائنہ کیا گیا۔یہ معمول کے چیک اپ ہیں۔ہماری بیماریوں کے معاملہ میں ہم سے زیادہ ان لوگوں کو فکر رہتی ہے۔مبارکہ کاہفتہ میں تین بار ڈائلسزکا سلسلہ جاری ہے اور اب ایک طرح سے معمولاتِ زندگی میں شامل ہے۔۱۶،۱۷؍اپریل کی درمیانی رات اسے بے چینی ہونے لگی۔شوگر اور بلڈ پریشرچیک کیے تو سب نارمل تھے البتہ نبض کی رفتار مدھم تھی۔۴۰ سے ۴۳ کے درمیان۔دواڑھائی گھنٹے اپنے ٹوٹکے کرنے میں گزار دئیے۔صبح ساڑھے پانچ بجے بڑے بیٹے کے گھر فون کیا۔تسنیم سے بات ہوئی۔اس نے فوراََقریبی شہر ہوف ہائم کے ہسپتال میں فون کیا۔چھ بجے وہاں کا ڈاکٹر ہمارے گھر پہنچ گیا۔نبض کے بارے میں جان کر اس نے دستی ای سی جی مشین بھی ساتھ رکھ لی تھی۔مبارکہ کی صورتحال دیکھ کر اس نے گھر پر ہی ای سی جی ٹیسٹ شروع کر دیا۔دل میں گڑ بڑ ہونے کے سگنل مل رہے تھے۔ساڑھے چھ بجے اس نے ایمبولینس بلا لی۔ایمبولینس والوں نے آتے ہی اپنی کاروائی شروع کر دی۔وہ اسٹریچر پر ڈال کر لے جانا چاہتے تھے۔ہم اپنی بلڈنگ کی ساتویں منزل پر رہتے ہیں۔میرے پاس ہاؤس ماسٹر کا فون نمبر نہیں تھا۔ہاؤس ماسٹر سے سارے معاملات چھوٹا بیٹا ٹیپو خودڈیل کر لیا کرتا تھا۔ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ لفٹ کی چابی منگائیں تاکہ مریضہ کو اسٹریچر پر ہی لے جایا جا سکے۔میں نے ٹیپو کے گھر فون کیا،موبائل پر فون کیا،مگر سارے فون بند تھے۔پانچ منٹ کا پیدل رستہ ہے اس دوران میں نے خود جا کر اس کے گھر پر بیل دی اور پیغام دیا کہ فوراََ ہمارے ہاں پہنچو۔ان لوگوں کے پوری طرح بیدار ہونے ،تیار ہونے اور ہمارے ہاں پہنچنے میں اتنا وقت لگ گیا کہ تب تک ڈاکٹرز مزید انتظار کیے بغیر مبارکہ کو وہیل چئیر پر بٹھا کر ہی لے گئے۔تینوں بیٹے ہمارے گھر کے اتنے قریب ہیں کہ کسی ایمر جینسی میں بلانے پر پانچ منٹ کے اندر گھر پر پہنچ سکتے ہیں۔ہر چند آج بڑی بہو تسنیم کو جتنا کام سونپا گیا اس نے احسن طریقے سے کر دیا اور اسی کے نتیجہ میں ڈاکٹر اور ایمبولینس بروقت پہنچ چکے تھے۔لیکن آج ایمر جینسی میں یہ تجربہ بھی ہواکہ سب سے قریب مقیم بیٹا اس وقت ہم تک پہنچا جب اس کے آنے کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اس سے اندازہ ہوا کہ قدرت کی طرف سے آسانی ہو تو دور والے بھی قریب ہیں اور اگرالجھن پیدا ہونی ہے تو سب سے قریب والے بھی دور ہیں۔سبق ملا کہ بچوں کی سعادت مندی پر ان کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے لیکن بھروسہ صرف اور صرف اپنے خدا پر ہی رکھنا چاہیے۔اس کا فضل ہے تو ہر طرف سے ہر طرح خیر ہے۔</b><br />
<b>ساڑھے سات بجے ایمبولینس والے مبارکہ کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ساڑھے نو بجے کے لگ بھگ مبارکہ کا فون آگیا کہ انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی کے دونوں مرحلے طے ہو گئے ہیں۔گویا اب ہم دونوں میاں بیوی ہارٹ کلب کے ممبر بن گئے ہیں۔ میں نے تومبارکہ کی کسی بیماری میں شراکت نہیں کی لیکن وہ میرے دل کی بیماری میں حصہ دار بن گئی۔اگلے دن اس کے ڈائلسز کی باری تھی۔ ۲۳اپریل کو شام تک ڈائلسز کے بعدمبارکہ کو ہسپتال سے چھٹی مل گئی۔</b><br />
<b>۲۴؍اپریل کو ہمارے شہر کے مئیر کی ایک امیدوارمحترمہ کارین کے ساتھ مقامی کمیونٹی سنٹر میں ملاقات طے ہوئی تھی۔ان کا تعلق ایف ڈی پی سے ہے۔جب کمیونٹی سنٹر میں پہنچیں تو بالکل اکیلی۔۔۔مجھے اس لیے حیرانی ہوئی کہ ہمارے ہاں تو یونین کونسل کے امیدوار بھی ڈھول،باجے کے ساتھ آتے ہیں۔یہ تو شہر کی بلدیہ کی مئیر شپ کی امیدوار تھیں اور بالکل اکیلی۔انہوں نے ماضی میں اپنی سماجی سرگرمیوں کی تفصیل سے آگا ہ کیا اور مستقبل کے ارادوں (صرف وعدوں کا نہیں ارادوں )کا ذکر کیا۔ماضی کی سرگرمیوں میں انہوں نے بتایا کہ وہ نوجو ا نو ں کی بہتری کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔میں نے انہیں تجویز دی کہ اس بار آپ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے بھی کچھ کام کرنا۔میری تجویز انہوں نے پرزور مسکراہٹ کے ساتھ قبول کر لی۔جاتے ہوئے مجھے اپنا ای میل ایڈریس دے گئیں۔میں نے اسی دن شام کو انہیں ایک ای میل بھیج دی جس میں اپنے تعارف کے طور پر اپنی نظم’’سرسوں کا کھیت‘‘کا جرمن ترجمہ بھی نتھی کر دیا۔ان کی جوابی میل آئی جس میں نظم پر پسندیدگی کا رسمی اظہار تھا۔اگلے دن ۲۵اپریل کو انتخاب تھا۔ہمارے ووٹ پڑنے کے باوجود محترمہ ہار گئیں۔تب میں نے انہی حوصلہ بڑھانے والی ایک میل بھیجی۔اس کا جواب بڑا دلچسپ آیا ۔انہوں نے لکھا کہ ہارنے کے باوجود ہم لوگ پُر عزم ہیں۔ہار کی خبر سننے کے بعد پارٹی کے مقامی رہنما اور کارکن ایک جگہ جمع ہوئے۔وہاں میں نے بطور خاص آپ کی ای میل کا ذکر کیا اور آپ کی نظم ’’سرسوں کا کھیت‘‘پڑھ کر سنائی،جسے حاضرین نے اس خاص کیفیت میں بطور خاص پسند کیا۔</b><br />
<b>اس سال فروری کے مہینے میں امریکہ سے ستیہ پال آنند کی ای میل آئی کہ میں یورپ کا سفرکرنے والا ہوں۔ان کے ساتھ گزشتہ برس ایک علمی مجادلہ میں ہلکی سی تلخی ہوئی تھی۔میں نے جوابی کاروائی میں ان کی متعلقہ ای میلز شائع کرکے انہیں علمی و اخلاقی دونوں سطح پر خاموش کر دیا تھا۔یہ ساری روداد میری کتاب’’ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت‘‘میں محفوظ ہے۔اس سب کچھ کے باوجود ان کی ای میل آئی تو کچھ اچھا سا لگا۔سو میں نے انہیں لکھا کہ جب یورپ آرہے ہیں تو جرمنی سے بھی ہوتے جائیے۔ڈاکٹر آنند فوراََ راضی ہو گئے۔ مجلسی سرگرمیوں سے تمام تر بے رغبتی کے باوجوداب مجھے ایک تقریب کا اہتمام تو کرنا تھا۔اسی دوران جرمنی کے ایک متشاعر سے بات ہو رہی تھی تو اس نے کہا کہ آپ کو تو تقریبات کرانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے پھر کیسے انتظام کریں گے۔میں نے کہا میں جان بوجھ کر ان سرگرمیوں سے پرہیز کرتا ہوں وگرنہ ان کا برپا کرانا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔چنانچہ ۲۴مارچ کو ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈکی زیر صدارت ڈاکٹر آنند کے اعزاز میں تقریب کامیابی کے ساتھ ہو گئی۔تقریب کے بعد ڈاکٹر آنند کوئی رسمی شکریہ کہنا تو کجا،مجھے خداحافظ کہے بغیرروانہ ہو گئے۔اگلے روز انہوں نے ہمبرگ میں کسی خاتون کی شاعری کی ایسی کتاب کی تقریب رونمائی کرنی تھی جو شائع ہی نہیں ہوئی تھی۔۲۳ مارچ کی رات جب ڈاکٹر آنند میرے ہاں مقیم تھے وہ دیر تک اس خاتون کی شاعری کے مسودے پر اصلاح کا نیک فریضہ انجام دیتے رہے تھے۔ میں نے تب ہی انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر وہ کتاب کے بغیر رونمائی کے ڈرامہ میں شریک ہوئے تو وہ ایک ادبی جرم کے مرتکب ہوں گے۔ لیکن انہیں اس تقریب میں شرکت کی جلدی تھی سو ہائیڈل برگ یونیورسٹی کی تقریب سے فارغ ہوتے ہی ملے بغیر چلے گئے ۔ امریکہ واپس پہنچنے کے بعد بھی ان کی طرف سے کوئی رسمی میل تک نہیں ملی۔شاید یہ ادبی تہذیب کا کوئی مابعد جدید رویہ ہو۔ </b><br />
<b>اسی تقریب کے سلسلہ میں ایک اور لطیفہ در لطیفہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ایک خاتون صدف مرزا کا حوالہ دیا کہ میرے سفر کے جملہ امور کو وہی دیکھیں گی۔ان کا تعارف بطور شاعرہ کرایا گیا۔سو انہیں بھی مدعو کر لیا گیا۔پھر ان خاتون نے پاکستان سے آئے ہوئے ایک شاعرباقر زیدی کا بتایا تو اسے بھی مدعو کر لیا گیا۔تقریب سے پہلے ہی کھل گیا کہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کی متعارف کرائی گئی خاتون کا جو شعری مجموعہ چھپ چکا ہے بے وزن شاعری پر مشتمل ہے۔اب صبر کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔البتہ اس صبر میں یہ اطمینان شامل کر لیا کہ اس تقریب میں اپنا کلام نہیں سناؤں گا۔ مجھے ویسے بھی مشاعرہ بازی کا شوق نہیں ہے،سو یہ طے کر لیا کہ میں اپنی ہی اس تقریب میں کلام نہیں سناؤں گا۔ پروگرام سے چند دن پہلے معلوم ہوا کہ پاکستان سے جو شاعر آئے ہوئے ہیں وہ کسی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں اور پروگرام کی ریکارڈنگ بھی کی جائے گی۔مجھ سے دو دوستوں نے پوچھا: اب تو ٹی وی چینل کی طرف سے ریکارڈنگ بھی ہو گی، تو اب تو کلام سنائیں گے؟میں نے کہا کہ میرے لیے بے معنی بات ہے۔چنانچہ تقریب ہوئی ریکارڈنگ دھوم دھام سے ہوئی لیکن اسٹیج سیکریٹری ہونے کے باوجود میں نے کلام نہیں سنایا ۔بعد میں لطیفہ یہ ہو ا کہ مجھے مذکورہ پاکستانی شاعر کی طرف سے پیغام بھیجا گیا کہ اس تقریب کی ریکارڈنگ کی ڈی وی ڈی کی ماسٹر کاپی لینا چاہیں تو سات سو یورو کا خرچہ دینا ہوگا۔میں نے پیغام پہنچانے والے دوست کو جواب دیا کہ پاکستانی دوست کی جیب کٹ گئی ہو اور اسے کرایا کے لیے ہیلپ کی ضرورت ہو تو کوئی مدد کی جا سکتی ہے لیکن اس ڈی وی ڈی کے لیے میں سات یورو دینے کے لیے بھی راضی نہیں ہوں۔جس ریکارڈنگ کے لیے میں نے کلام سنانے میں بھی دلچسپی نہیں لی مجھے اس کی ڈی وی ڈی میں کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔وہ دوست سات سو سے کم کا بھاؤ تاؤ کرنے لگے تو میں نے انہیں کہا کہ میں سات یورودینے سے بھی انکار کر چکا ہوں تو آپ کیا بھاؤ تاؤ کررہے ہیں۔</b><br />
<b>ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے! </b><br />
<b>اسی دوران بون میں بشریٰ ملک نے ایک ادبی تنظیم اردو سوسائٹی آف یورپ قائم کی اور ۱۶ مئی کو وہاں ایک بڑے مشاعرے کا اہتمام کیا۔اس کی صدارت مجھ سے کرائی گئی۔میں نے بعد میں بشریٰ ملک کو مشورہ دیا کہ الم غلم قسم کے شاعر اور شاعرات کا مجمع لگانے سے بہتر ہے کہ کوئی سلیقے کی ادبی تقریب کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تومیں نے کہا کہ فضول شاعروں اور متشاعروں کی بجائے ایک دو اچھے شاعر بلائیں،ایک افسانہ نگار بلائیں،ایک خاکہ نگار۔۔۔اس طرح چار پانچ ادبی اصناف کے مختلف افراد کو بلا کر ان سب سے باری باری سنا جائے۔پھر ان ساری پڑھی گئی تخلیقات پر گفتگو کی جائے۔حاضرین کو مجمع میں بیٹھ کر نہیں بلکہ اسٹیج پر بلا کر اظہار خیال کی دعوت دی جائے۔اس طرح حاضرین براہ راست اس پروگرام میں شریک ہو سکیں گے۔میری تجویز بشریٰ ملک کو اچھی لگی اور انہوں نے ۳؍جولائی کو اس انداز کی تقریب کا اہتمام کر لیا۔اس کاایک فائدہ یہ ہوا کہ متشاعروں اورفضول قسم کے مشاعرہ بازوں سے نجات مل گئی۔ </b><br />
<b>اس عرصہ میں اٹلی میں مقیم پاکستانی دوست جیم فے غوری جو میرے لیے ادبی محبت اور اخلاص کے جذبات رکھتے ہیں،انہوں نے مجھ سے رابطہ کیااور بتایا کہ وہ اٹلی میں تین روزہ سیمینار کرنا چاہتے ہیں۔موضوع ہے’’مغربی دنیا میں اردو کی صورتحال‘‘۔۲۱ تا ۲۳ جولائی کو سیمینار ہوگا۔۲۴ جولائی کو سوئٹزرلینڈ لے جائے جائیں گے،وہاں شام کو ایک مشاعرہ ہو گا اور وہاں کی سیر بھی ہو گی۔۲۶ تا ۲۸ جولائی اٹلی کی سیر ہو گی۔گویا آٹھ دن کا ادبی و تفریحی پروگرام ہو گا۔میں نے انہیں مشورہ دیا کہ اس تقریب میں روایتی مشاعرہ باز اور کانفرنس باز ادیبوں کو بالکل نہیں بلائیں۔ان جینوئن لوگوں کو بلائیں جو مشاعروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے لیے منتظمین کے پیچھے پاگلوں کی طرح نہیں بھاگتے۔ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے بڑی حد تک میرے مشورے کو قبول کیا۔پھر انہوں نے جو پروگرام بنایااس میں ایک آدھ کو چھوڑ کر تقریباََ ہر نشست کی صدارت پر مجھے بٹھا دیا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ یہ مناسب نہ ہوگا،ویسے بھی پاکستان میں آج کل صدرِ مملکت کے ساتھ مختلف ادارے اور پارٹیاں مل کر جو کچھ کر رہی ہیں اس کے بعد تو لفظ صدر سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔چنانچہ پھر میں نے اوکھے سوکھے ہو کر دو نشستوں کی صدارت قبول کی اور باقی کے لیے خود سے زیادہ بہتر اور موزوں افراد کے نام دے دئیے۔یہ بہت عمدہ پروگرام ہے۔ادبی کامیابی کے ساتھ مہمانوں کے سیر سپاٹے اور کھانے پینے کا بھی عمدہ انتظام کیا جارہا ہے۔کھانے پینے میں پاکستانی کھانوں کو ترجیح دی گئی ہے لیکن ہلکے پھلکے اٹالین کھانے بھی پیش کیے جائیں گے۔</b><br />
<b>کھانے پینے کے ذکر سے خیال آیا،جرمنی میں رہتے ہوئے ہم لوگ پاکستانی کھانے ہی کھاتے رہے ہیں۔لیکن اب کھانے کے معمولات میں کچھ تبدیلی کی ہے۔ناشتہ میں ہم میاں بیوی اپنی اپنی پسند کی بریڈ لیتے ہیں۔دوپہر کو پاکستانی کھانا ہوتا ہے۔مبارکہ شام کو بھی پاکستانی کھانا کھاتی ہے لیکن میں نے شام کو بھی بریڈ لینا شروع کر دی ہے۔ویسے پاکستانی کھانوں میں عام گوشت،سبزی اور دال کے ساتھ ساتھ کبھی کبھارچپلی کباب، نہاری اور پائے کی بد پرہیزی بھی کر لیتے ہیں ۔ویسے آجکل ہماری پسندیدہ ڈش گڑ کے چاول ہے،اگرچہ یہ بچپن کی پسندیدہ ڈش کے طور پر بہت کچھ یاد دلاتی ہے لیکن اس میں ہر طرح کے میوہ جات کی شمولیت بہت کچھ بھلا بھی دیتی ہے۔کبھی کبھار یہ ڈش بنتی ہے تو میں جی بھر کے بد پرہیزی کر لیتا ہوں۔ شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے عام طور پر تشویش تب ہوتی ہے جب شوگر معمول سے بڑھ جاتی ہے۔تاہم حالیہ دنوں میں وقفہ وقفہ سے تین بار ایسا ہو چکا ہے کہ میری شوگر بہت کم ہو گئی۔۵۰ کے لگ بھگ۔پہلی بار تب اس کا انکشاف ہوا جب میں وضوکر رہا تھا اور ٹانگیں کپکپانے لگیں۔ شوگر چیک کی تو پچاس۔فوراََ احتیاطی تدابیر بروئے کار لائے اور شوگر لیول نارمل ہو گیا۔جب وقفہ وقفہ سے تین بار ایسا ہوا تو ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ڈاکٹر فکر مند ہوا اور کہنے لگا اس میں خطرہ زیادہ ہے، خصوصاََ نیند میں ہی شوگر لیول اتنا گر جائے تو بندہ سویا ہوا ہی آگے نکل جائے گا۔اس کے لیے خود ہی الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔لیکن مجھے تو اس مسئلہ میں بھی ایک دلکشی دکھائی دی ہے۔موت برحق ہے ۔ایک نہ ایک دن آنی ہے اور میں اس سلسلہ میں اپنی خواہش پہلے سے لکھ چکا ہوں۔</b><br />
<b>’’مجھے موت کے سلسلہ میں صرف ایک خواہش شدت کے ساتھ رہی ہے کہ جب بھی آئے بہت آرام سے آئے۔جیسے ہلکی سی اونگھ میں گہری اور میٹھی اونگھ آجائے اور میں اسی میٹھی اونگھ میں آگے نکل جاؤں۔‘‘</b><br />
<b>تو اس لحاظ سے نیند میں شوگر لیول کا بہت زیادہ کم ہو جانااس خواہش کی تکمیل کے لیے ممد ہو سکتا ہے لیکن صرف تب جب خدا کی طرف سے بلاوے کا اصل وقت آئے گا۔اس برس پاکستان سے محمد حامد سراج کی اوپن ہارٹ سرجری کے بعد ایک ای میل آئی تو اس میں موت کے خوف کا احساس نمایاں تھا۔میں نے انہیں اپنی یادوں کے گزشتہ باب کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہمت افزا ای میل بھیجی جس کا پھر اچھا جواب آیا۔</b><br />
<b>بے شک انجیو پلاسٹی کے مقابلہ میں اوپن ہارٹ سرجری زیادہ نازک معاملہ ہے لیکن کامیاب آپریشن کے بعد بندہ جیسے جوان ہو جاتا ہے۔میرا خود اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر کے ساتھ یہی مسئلہ چل رہا ہے۔وہ اگلی بار ایک اور انجیو پلاسٹی کرنا چاہتے ہیں۔اور میرا اصرار ہے کہ اب مزید ایسا کچھ نہیں کریں۔اوپن سرجری کر گزریں جو ہونا ہے ہو جائے۔عنقریب اس بارے میں فیصلہ ہونا ہے۔</b><br />
<b>۱۲مئی کو مجھے ہالینڈ سے ایک دوست احسان سہگل کا ٹیلی فون آگیا۔کافی پریشان تھے اور بتا رہے تھے کہ ان کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ جس کی وجہ سے ایمبولینس بلانا پڑ گئی۔چیک اپ ہوا تو تمام رزلٹ اطمینان بخش تھے لیکن احسان سہگل پھر بھی گھبرائے ہوئے تھے۔میں نے انہیں تو تسلی دینے والی باتیں کر دیں لیکن پھرگزشتہ برس اور اس برس کی اب تک کی اپنی صورتحال پر غور کیاتو خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے نہ صرف ہمت اور حوصلہ عطا کر رکھا ہے بلکہ پوری طرح سے خود سنبھال رکھا ہے۔مبارکہ کی جسمانی حالت تو کانچ کی گڑیا جیسی ہو کر رہ گئی۔اس کے باوجود روئے ما،گردوں کے مسئلہ اور دل کی بیماری کو یوں نبھا رہی ہے جیسے گھر کا معمول کا کام ہو۔ڈائلسز سے آنے کے بعد انسان اچھا خاصا نڈھال ہوجاتا ہے۔لیکن مبارکہ پانچ دس منٹ ریسٹ کرنے کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری میں لگ جاتی ہے۔البتہ کھانا کھانے کے بعد پھر گہری نیند سوتی ہے۔ </b><br />
<b>۲۴ مئی کو جرمنی میں سرکاری چھٹی تھی ۔ اس دن بارش نہیں ہونا تھی ۔کئی دنوں سے چل رہی ٹھنڈ کے بر عکس موسم خاصا بہتر تھا۔چمکتی ہوئی لیکن نرم دھوپ میں ۲۵ ٹمپریچرنے فضا کو خوشگوار بنا دیا تھا(اس دن پاکستان کے بعض شہروں میں ٹمپریچر۵۲ ہو گیا تھا)۔ہم نے ،پوری کی پوری فیملی نے اپنے گھر کے قریب سے گزرتے ہوئے دریائے مائن کے کنارے پکنک منانے کا طے کر لیا۔اپنی اپنی سہولت کے مطابق پانچوں بچوں نے جو پکانا مناسب سمجھا پکا کر لے آئے اور سب دریا کے کنارے پر جمع ہو گئے۔چھوٹے بچے،پوتے،پوتیاں،نواسے جو ہمارے گھر میں کھیلتے ہیں تو لگتا ہے کہ اودھم مچا رہے ہیں۔اب یہاں کھل کر کھیل رہے تھے،اودھم مچا رہے تھے لیکن سب اچھا لگ رہا تھا۔گزشتہ برس کی بیماریوں کی یلغار کے بعد مبارکہ پہلی بار دریا کے کنارے پہنچی تو یہ سب کچھ خواب جیسا لگ رہا تھا۔بیماریوں کے حملہ سے پہلے ہم دونوں میاں بیوی کئی بار چہل قدمی کرتے ہوئے دریا کے اس کنارے تک آئے ہیں اور کئی بار یہاں کے بنچوں پر دیر تک بیٹھے قدرتی مناظر کا نظارہ کرتے رہے ہیں۔لیکن گزشتہ برس ۲۰۰۹ء میں ہم جس نوعیت کی سنگین بیماریوں سے گزرے ہیں،اس کے بعد سوچا نہیں تھا کہ مبارکہ اس طرح پھر سے ہنستے کھیلتے ہوئے دریا کے کنارے تک پہنچے گی۔لیکن خدا کے فضل سے ایسا ہو گیا تھا۔ہمارے لیے یہ پکنک بھی خدا کی شکرگزاری کا جواز بن گئی۔دریا کے دوسرے کنارے پر بھی پکنک منائی جا سکتی تھی لیکن بچے اسی طرف رہنے پر مصر تھے کیونکہ یہاں کی گراؤنڈ وسیع تھی۔کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے کے لیے کھلی جگہ تھی۔دوسری طرف صرف بیٹھنے کے لیے دو تین بنچوں کا ہی انتظام تھا۔چھٹی والے دنوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر لے جانے کے لیے ایک کشتی موجود ہوتی ہے۔ کرایا واجبی سا ہوتا ہے۔میں اپنے پوتوں،پوتیوں اور نواسوں کو لے کردریا کے دوسرے کنارے پر لے گیا۔بچوں نے اس مختصر سے دریائی سفر کا لطف لیا لیکن دوسرے کنارے پر پہنچ کر واپسی کا شور مچا دیا۔اصل میں وہ کشتی میں ہی سفر کرتے رہنا چاہتے تھے۔مجھے ہرمن ہیسے کاناول’’ سدھارتھ‘‘ بہت پسند ہے۔ دریا کی آوازیں سننا اوران کا گیان حاصل کرنا بڑی بات تھی لیکن ہرمن ہیسے کے سدھارتھ نے میرے پوتوں ،پوتیوں اور نواسوں کی معصوم اورزندگی سے بھرپورآوازوں کے ساتھ دریا کی آواز کو سنا ہوتا تو اسے ایک اور طرح کا گیان بھی نصیب ہوجاتا۔میں اپنے بچوں کے بچوں میں اپنے ماضی،حال اور مستقبل سمیت اپنی ساری کائنات کا عکس دیکھ رہا ہوں اور وزیرآغا کی نظم’’ آدھی صدی کے بعد‘‘ کا اختتامی حصہ جیسے میرے اس تجربے کا حصہ بن جاتا ہے۔</b><br />
<b>’’ معاََ؍مَیں نے دیکھا؍زمیں پر ہَوا تھی؍ہَوا کے تڑختے ہوئے فاصلے تھے؍مگر سبز دھرتی کی؍ٹھنڈی تہوں میں؍جڑوں کی پُر اسرار وحدت تھی؍سب فاصلے؍ایک نقطے میں سمٹے ہوئے تھے؍ہزاروں جڑیں؍ایک ہی جڑ سے پھُوٹی تھیں؍آگے بڑھی تھیں؍مگر جڑ سے ایسی جُڑی تھیں؍کہ چلنے کے عالم میں؍ٹھہری ہوئی تھیں؍یہ ساری جڑیں؍سبز دھرتی کی اپنی جڑیں تھیں؍جو خود اُس کے گیلے بدن میں؍اُترتی گئی تھیں؍کہو کون تھا وُہ؟؍کہ جس نے کہا تھا:؍ستارے فقط پات ہیں؍کہکشائیں؍گندھی نرم شاخیں ہیں؍آکاش؍اِک سبز چھتنار؍ہر شے پہ سایہ کُناں ہے؍مگر اس کی جڑ؍اس کے اپنے بدن میں؍نہیں ہے!؍ کہو کون تھا وہ؍کہ جس نے ہَوا کی حسیں سرسراہٹ؍لرزتی ہوئی گھنٹیوں کی سہانی صدا؍مشکی گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز؍اور خواہشوں کے تلاطم کو؍دکھ کا سبب کہہ دیا تھا؟؍وہ جس نے؍خود اپنے ہی پانچوں حواسوں کو؍اپنی جڑوں کو؍فریبی ، سیہ کار، جھوٹا کہا تھا؟</b><br />
<b>مرا اُس سے؍کوئی تعارف نہیں ہے؍مجھے تو فقط؍اپنے ’’ ہونے ‘‘ کا عرفان ہے؍میں تو بس اس قدر جانتا ہوں؍پَروں کو ہلاتی؍حسیں قوس بن کر؍مِری سمت آتی ہوئی؍فاختہ؍پھڑ پھڑاتے ستارے؍گھنی کھاس کی نوک پر آسماں؍سے اُترتی نمی؍اور پُورب کے ماتھے پہ؍قشقے کا مدھم نشاں؍تیرگی کی گُپھا سے نکلتا ہُوا؍روشنی کا جہاں؍دھرتیاں، کہکشائیں، جھروکے؍جھروکوں میں اطلس سے کومل بدن؍بھیگی پلکوں پہ دکھ کی تپکتی چُبھن ؍سبز شبدوں کی بہتی ہوئی آبجُو؍اِ ک انوکھے پُر اسرار معنیٰ کے؍گھاؤ سے رِستا لہو؍مُسکراتے ہوئے لب؍یہ سب؍میرے اوتار ہیں؍میری آنکھیں ہیں؍مُجھ کو ہمیشہ سے تکتی رہی ہیں؍سدا مجھ کو تکتی رہیں گی!‘‘</b><br />
<b>زندگی کا اسرارروح سے منسلک ہے اور روح کا بھید روحِ اعظم تک لے جاتا ہے۔میں ایک عرصہ سے اس بھید کو سمجھنے کی جستجو میں ہوں۔کسی حتمی نتیجہ تک پہنچنا تو ممکن نہیں لیکن پھر بھی غور و فکر کے نتیجہ میں جتنا کچھ بھی منکشف ہوتا ہے میرے لیے روحانی لذت کا موجب بنتا ہے۔میں اپنی یادوں کے باب ’’روح اور جسم‘‘میں لکھ چکا ہوں کہ روح اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔کلوننگ کے سائنسی تجربہ کی کامیابی کے بعد یہ مذہبی تصورمزید مستحکم ہوا ہے۔تاہم مجھے جسم اور روح کے اس تعلق کے ساتھ روح کے جسم سے سوا ہونے کا ہلکا سا احساس بھی ہوتا ہے۔میں اس احساس کو شاید ڈھنگ سے بیان نہ کر پاؤں۔تاہم اس کے لیے ایک دو مثالیں کسی حد تک تفہیم میں ممد ہو سکتی ہیں۔خواب میں جسم اپنے بستر پڑا ہوتا ہے اور روح ایک اور جسم کے ساتھ کہاں سے کہاں تک پہنچی ہوتی ہے۔خواب میں ہم جن کیفیات سے گزر رہے ہوتے ہیں بیداری پر ان کے اثرات بھی ہم پر کسی نہ کسی حد تک طاری ہوتے ہیں۔مثلاََ اگر ہم خواب میں دوڑ رہے تھے تو بیداری پر سانس پھولی ہوئی ہوتی ہے۔اگر کوئی ڈراؤنایا بہت سہانا خواب تھاتو بیداری پر اس کے ڈراؤنے یا سہانے اثرات بھی ہم پر چھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک اور مثال بھی معین طور پر تو تفہیم نہیں کرتی لیکن اس سے بھی کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔خوشبو پھول کے اندر موجود ہوتی ہے لیکن پھر وہ پھول سے الگ ہو جاتی ہے اور پھول مرجھا جاتا ہے۔کسی بزرگ کی تحریر میں پڑھا تھا کہ قیامت کے دن ہمیں نئے جسم دئیے جائیں گے۔میں پرانے جسم کی اہمیت سے ابھی تک منکر نہیں ہو پارہا۔یوں تو ہمارے جسم کی کھال چند معین برسوں کے اندر غیر محسوس طور پر تبدیل ہوجاتی ہے۔صاحبِ جسم کو بھی اس تبدیلی کا ادراک نہیں رہتا۔ہم خود کو وہی کا وہی سمجھتے ہیں۔سو قیامت کے دن اگر ہمیں اسی انداز میں کوئی نیا جسم عطا کیا جاتا ہے جس سے ہم سب اپنا آپ اسی طرح اپنا محسوس کریں توپھر اس سے ان بزرگ کی بات بھی بجا رہتی ہے اور نئے،پرانے جسم کا مسئلہ بھی کسی حد تک قابلِ فہم ہو جاتا ہے۔</b><br />
<b>پاکستان اورانڈیاکے کئی چینلز جرمنی میں آسانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ایسے ہی چینلز میں ایک کا نامNDTV ہے۔گزشتہ برس اس چینل پر ایک رئلیٹی شو’’راز پچھلے جنم کا‘‘کے نام سے دکھایا گیا۔چند محدود قسطوں کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔میرے گھر والے اس شو میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے کہ شاید انہیں یہ اپنے معتقدات کے خلاف لگتا تھا۔میرے پیش نظردو باتیں تھیں۔ایک تو یہ کہ میں ایک طویل عرصے سے کبھی ایسا محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں جیسے کسی پچھلے جنم میں بادشاہ؍راجہ یا سردار قسم کی چیز تھااور کبھی ایسے لگتا ہے کہ میں کوئی سادھو، سنت،فقیریا ملنگ تھا۔میں اس بات کو اپنی بیوی کے علاوہ بعض بچوں کے ساتھ بھی کر چکا ہوں۔یہ دو مختلف دھاروں کا احساس پاکستان میں قیام کے زمانے سے چلا آرہا ہے ۔اس لیے پچھلے جنم کا اسرار میرے لیے ذاتی دلچسپی کا موجب تھا۔دوسری بات یہ کہ مجھے روح کے بھید کو سمجھنے کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ یہ گیان اور معرفت مجھے کہیں سے بھی ملنے کی امید ہو میں ممکنہ حد تک وہاں پہنچنے کی کوشش کرتاہوں۔یہ شو تو گھر بیٹھے ہی دستیاب ہو رہا تھا۔اس میں ایک ماہرِ نفسیات خاتون ایک خصوصی نوعیت کے بیڈ کے ساتھ براجمان ہوتی تھیں۔وہاں اپنے پچھلے جنم کی یاترا پر جانے کے خواہشمند کو لٹا کر پچھلے جنم کا کچھ حصہ دکھایا جاتا تھا۔میرا اپنا اندازہ یہ تھا کہ مسمریزم سے ملتے جلتے کسی نفسیاتی طریقے سے مریض کو ٹرانس میں لا کرپھر کسی جینیٹک وے سے یا صدیوں سے محفوظ لاشعور کے ذریعے ہمارے آباؤ اجداد کے کسی کردار کی فلم کے ذریعے سے نفسیاتی علاج کر دیا جاتا ہے۔</b><br />
<b>اس شو میں آنے والے بعض لوگ اپنے پچھلے جنم کی کئی انوکھی داستانیں سنا رہے تھے۔میں ان سب کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو سائنس کی ایک سادہ سی درسی نوعیت کی عام سی بات ہے کہ ہر انسانی سیل کے نیوکلس میں ۴۶کروموزوم ہوتے ہیں۔۲۳ ماں کی طرف سے اور ۲۳ باپ کی طرف سے۔کروموزوم کے اندر ایک کیمیائی مادہ ہوتا ہے جسےDNA کہتے ہیں۔اس DNA کے مالیکیول (سالمے) کے مخصوص حصوں کو جین کہتے ہیں۔سیل کے ہر فعل کو کنٹرول کرنے والی ایک مخصوص جین ہوتی ہے۔انسانی جسم کے اربوں سیل میں سے ہر ایک سیل کے ۴۶ کروموزوموں کو ملا کرکروڑوں کی تعداد میں جینز ہوتی ہیں۔ایک سیل جس کے اندر یہ کروڑوں کی سرگرمیاں جاری و ساری ہیں،اس کی مادی حیثیت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ سوئی کی نوک پر ۲۰ہزار سیل سما جاتے ہیں۔(یہاں مجھے ایک غیر متعلق بات یاد آگئی۔بغداد پر ہلاکو خان کے حملہ کے وقت علماء کے دو گروہوں میں اس مسئلہ پر مناظرہ ہورہا تھا کہ ستر ہزار فرشتے سوئی کے ناکے میں سے گزر سکتے ہیں یا نہیں؟۔سوئی کی نوک پرمادی صورت کے حامل ۲۰ ہزار سیل سما سکتے ہیں جبکہ ہر سیل کے اندر کروڑوں جینز موجود ہیں، تو ناکے میں سے ستر ہزار فرشتوں کا گزرنا تو معمولی سی بات لگتا ہے)۔</b><br />
<b>سیل کی کاکردگی کی اس تفصیل کے بیان سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ہمارے اندر ہمارے آباؤ اجدادکی عادات و افعال کا کتنا بڑا حصہ موجود ہے۔ان کے ذریعے ہمارے نانہال،ددھیال کے اعمال وعادات کا بہت سارا حصہ ہم میں منتقل ہوجاتا ہے۔اپنے آپ کو کبھی کوئی مہاراجہ یا سرداراور کبھی کوئی ملنگ فقیر محسوس کرنا مجھے ایسے لگتا ہے جیسے میرے ددھیال،نا نہال میں سے کوئی ایسے رہے ہوں گے اور انہیں کی وہ بادشاہی اورفقیری میرے اندر بھی سرایت کرکے کسی نہ کسی رنگ میں میرے مزاج کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ </b><br />
<b>این ڈی ٹی وی پرپچھلے جنم کا جو سفر میں دیکھ رہا تھا مجھے لگا کہ وہ اصل میں ان کے کروموزوم میں محفوظ آباؤ اجداد کے کسی کردار کی زندگی کی کوئی پرچھائیں جیسی جھلک تھی۔یہ میں ان افراد کے بارے میں لکھ رہا ہوں جن کی داستانوں میں کہیں کوئی ربط تھا۔لیکن کئی باتیں بے ربط یا بے جوڑ بھی محسوس ہوئیں۔مثلاََ کسی کو شدید گھٹن کا احساس ہوتا ہے تو اس کے پچھلے جنم میں اسے کسی صندوق میں بند کر کے ڈبو دیا گیا تھا۔پچھلے جنم میں ظلم ہوا تھا تو اب تو اس کے بدلہ میں من میں شانتی اور کھلے پن کا احساس ہونا چاہیے تھا۔اگر وہی گھٹن کا احساس ابھی تک موجود ہے تو پھر نیا جنم پچھلے جنم کا اجر نہیں بنتا بلکہ اسی سزا کا تسلسل لگتا ہے جس کے نتیجہ میں پچھلا جنم انجام کو پہنچا۔تاہم میرا مقصد یہاں ہر گز ہرگز کسی کے عقائد پر اعتراض کرنا نہیں ہے بس اس پروگرام کو دیکھتے وقت روح کی کھوج کی میری لگن جو کچھ سجھاتی رہی وہ بیان کر رہا ہوں۔بعض پروگراموں میں جو کچھ دکھایا گیا انہیں کے اندر پچھلے جنم کی داستان کی تردیدہو گئی۔مثلاََ ایک لڑکی کے پچھلے جنم میں اس کی ساس نے اسے زندہ جلا دیا تھا۔وہ اپنے پچھلے جنم کے گھر کے علاقہ اور ہاؤس نمبرسے لے کر اسکول کے نام پتہ تک کی ساری تفصیل بیان کرتی ہے ۔لڑکی کا پچھلا جنم بھی دہلی میں ہوا اور موجودہ جنم بھی دہلی میں ہوا۔لیکن جب پچھلے جنم کے مقامات کی تصدیق کرنے گئے تو کوئی بھی درست ثابت نہ ہوا۔اسی طرح انڈیا میں پنجابی فلموں کی ایک اداکارہ پچھلے جنم میںیاسمین خان تھی،سلطان نامی مسلمان سے محبت کرتی تھی۔رنجیت سنگھ کے مزار پر جھاڑو دیا کرتی تھی۔۱۹۴۷ء میں اسے مسلمانوں نے قتل کر دیا۔کسی مسلمان کو کسی ہندو یا سکھ کے ہاتھوں قتل ہوتا بتایا جاتا تو قابلِ فہم بات ہوتی یا پھر لڑکی ہندو یا سکھ ہوتی اور پھر مسلمانوں کے ہاتھوں ماری جاتی تو پچھلے جنم کا راز سمجھ میں بھی آتا۔ اس طرح کے کئی بے جوڑ نتائج پر مبنی پروگرام ماہرِ نفسیات خاتون کی تشخیص کی کمزوری کو ظاہر کرتے ہیں۔</b><br />
<b>ہندو عقائدکے حوالے سے روح کے اسرار کی باتیں ہو رہی ہیں تو مجھے ان میں ایک بڑا انوکھا اور دلچسپ تصور بھی ملا ہے۔ہستئ باری تعالیٰ جو اس کائنات کی حقیقتِ عظمیٰ بھی ہے اور روحِ اعظم بھی،اصلاََ ہم اس عظیم ترین ہستی کو بھی اپنے معاشرتی رویوں کے حوالے سے دیکھتے یا سمجھتے ہیں۔جبکہ وہ ہمارے سارے تصورات اور قیاسات سے بالا ہے۔چونکہ ہمارا معاشرہ مردانہ بالادستی کا معاشرہ ہے اسی لیے خدا کے بارے میں بھی عام طور پر مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے۔ہمارے بر عکس قدیم ہندوستان کے مادری نظام کے اثرات کے نتیجہ میں ہندوؤں میں دیوتاؤں کے ساتھ دیویوں کا تصور بھی موجود رہا ہے۔</b><br />
<b>شری دیوی بھگوت پُران میں خالقِ کائنات عورت کے روپ میں ہے۔ اس عقیدہ کے مطابق خالقِ کائنات شری دیوی اپنی تنہائی اور شدتِ جذبات سے مضطرب ہوئی تو اس نے اپنی ہتھیلیوں کو رگڑا۔اس کے نتیجہ میں ہاتھوں پر آبلے پڑ گئے،جو پھوٹ بہے تو پانی کا ایک سیلاب آگیا۔اس پانی سے برہما کی پیدائش ہوئی۔شری دیوی نے برہما سے جنسی ملن کی خواہش کا اظہار کیامگر برہما نے اسے اپنی پیدا کرنے والی کہہ کر اس عمل سے انکار کر دیا۔تب شری دیوی نے برہما کو فنا کر دیا۔ان کے بعد وشنو کو پیدا کیا گیا اور اس سے بھی وہی خواہش دہرائی گئی،وشنو نے بھی برہما کی طرح انکار کیا اور ان کو بھی برہماجیسے انجام سے دوچار ہونا پڑا۔</b><br />
<b>وشنو کے بعد شنکر کا جنم ہوا۔شنکر اِن معاملات میں کافی معاملہ فہم نکلے۔انہوں نے دو شرطوں کے ساتھ شری دیوی کی بات ماننے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ ایک شرط یہ کہ برہما اور وشنو کو دوبارہ پیدا کریں اور ان کے لیے دو عورتیں بھی پیدا کی جائیں۔دوسری شرط یہ کہ شری دیوی خود دوسرا روپ اختیار کریں کیونکہ اس روپ میں بہر حال وہ ماں کا مرتبہ رکھتی ہیں۔چنانچہ شری دیوی نے برہما اور وشنو کو ان کے جوڑوں کے ساتھ دوبارہ خلق کیا اور خود بھی پاروتی کا دوسرا روپ اختیار کیا۔شنکر اور پاروتی کی داستان ہندؤں کے عقائد میں آج بھی کئی جہات سے اہمیت کی حامل ہیں۔ہمارے پدری بالا دستی والے معاشروں میں خدا مردانہ صفات کا حامل دکھائی دیتا ہے تو مادری نظام کے قدیم ہندوستان میں خداکے عورت جیسے روپ کی بات دلچسپ ہونے کے ساتھ اپنے ثقافتی پس منظر میں قابلِ فہم بھی لگتی ہے۔باقی خالقِ حقیقی تو ہمارے ہر مردانہ و زنانہ تصور سے کہیں بلند و بالا ہے۔ یہاں تک کہ صفات بھی اس کو سمجھنے اور اس تک رسائی کا ایک وسیلہ تو ہیں لیکن اس عظیم تر حقیقت کے سامنے صفات بھی بہت نیچے رہ جاتی ہیں۔صفات کا معاملہ یوں ہے کہ ذاتِ احد ہونے کے باوجود ہم صفات کے وسیلے سے اسے مخاطب کرتے ہیں۔مثلاََ’’ اے میرے رحیم خدا ! مجھ پر رحم فرما‘‘کہیں گے۔رحیم خدا کی بجائے قہار خدا کہہ کر رحم نہیں مانگیں گے۔اسی طرح رزق مانگتے وقت رزاق خدا کہیں گے،جبار خدا نہیں گے۔علیٰ ھذالقیاس۔اب میرے سوچنے کا معاملہ یوں ہو جاتا ہے کہ بُت سامنے رکھا ہو یا ذہن میں بنایا ہوا ہو،اسے بُت ہی کہیں گے۔کہیں صفاتِ باری تعالیٰ کے معاملہ میں ہم بھی ذہن میں چھپائی ہوئی بت پرستی کا ارتکاب تو نہیں کر رہے؟</b><br />
<div style="text-align: center;">
<b>اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں</b></div>
<div style="text-align: center;">
<b>مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ </b></div>
<b>میرا خیال ہے اپنے آپ کو سمجھنے میں اور خالقِ کائنات کو سمجھنے میں شاید میں کچھ بھٹکنے سا لگا ہوں اس لیے جوگندر پال کے ایک افسانہ ’’سانس سمندر‘‘کے خوبصورت اقتباس کو خود پر منطبق کرتے ہوئے، اپنی اس روداد کو سمیٹتا ہوں۔مزید کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں رہی۔</b><br />
<b>’’وہ پکی قبر؟۔۔۔وہ ایک مجذوب کے قبضے میں ہے۔بے چارہ اپنی اس کھوج میں دنیاسے باہر نکل گیا کہ پیدا ہونے سے پہلے میں کیا تھا۔ارے بھائی تم ہو ہی کیا، جو کچھ ہوتے؟وہ تو شکر کرو کہ تمہارے باپ نے تمہاری ماں کو چوم چاٹ کر تمہیں بنا دیا ۔مگر باؤ لا اپنی چھوٹی سی سمجھ بوجھ کونہ چھوڑے ہوتا تو اتنی بڑی دنیا کیوں چھوڑتا۔ تل گیا کہ اپنی تلاش میں وہیں جانا ہے جہاں سے آیا ہوں۔عین وہیں پہنچاہوا ہے اور اپنی قبر کی پکی دیواروں کے اندر ہی اندر کچی مٹی ہو چکا ہے۔</b><br />
<b>ذرے کو جان کیا ملی کہ پاگل نے مٹی سے کھیلنے سے انکار کر دیا مگر مٹی تو اپنے ذرے ذرے سے کھیلتی ہے۔‘‘ </b><br />
<b>یہاں تک آتے آتے مجھے ایسا لگا ہے جیسے آج میرے اندر کے بادشاہ اور ملنگ میں لڑائی ہو گئی ہے۔پتہ نہیں دونوں میں سے کون جیتا ہے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ بادشاہ جیت گیا ہے اور فقیر کو قبر میں ڈال دیا گیا ہے۔لیکن فقیر کی تو قبر بھی زندہ رہتی ہے اور سانس لیتی ہے۔</b><br />
<b>اب میں نہ خود سے مزید مکالمہ کر سکتا ہوں نہ اپنے قارئین سے مزید گفتگو کی گنجائش ہے،بس خدا سے ایک سوال ہے۔</b><br />
<div style="text-align: center;">
<b>خداوندا! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں </b><br />
<b>کہ درویشی بھی عیاری ہے،سلطانی بھی عیاری</b></div>
<b>لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ اپنی کہانی کا درویش بھی میں ہوں،سلطان بھی میں ہوں ،</b><br />
<b>اورخدا کا سادہ دل بندہ بھی میں ہی ہوں۔</b><br />
<div style="text-align: center;">
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔</div>
</div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-8125846087090830547.post-63211933838691208182011-07-14T16:02:00.000-07:002012-05-16T23:29:36.422-07:00زندگی کا یادگار سفر<div style="text-align: right;">
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: 18px;">
<div style="text-align: center;">
<b><span style="font-size: large;">زندگی کا یادگار سفر</span></b></div>
<br />
<div style="text-align: center;">
<b><span style="font-size: medium;">حیدر قریشی</span></b></div>
<br />
<span style="font-size: medium;">انسانی زندگی ایک سفر جیسی ہے۔۱۳ جنوری ۲۰۱۲ء کواپنی زندگی کے سفر
میں ساٹھ برس کا ہوچکا ہوں۔سال ۲۰۰۹ء میری زندگی میں ایسی بیماریوں،دکھوں
اور تکالیف کا سال بن کر آیا تھاکہ اب ان کا سوچ کر بھی حیرت ہوتی ہے ۔ میں
اور میری فیملی کیسے سنگین حالات سے کیسے حوصلے اور کیسے اطمینان کے ساتھ
گزرتے چلے گئے،یہ سراسر خدا کا فضل و کرم تھا۔اُسی نے ابتلا اور آزمائش
میں ڈالا تھا اور اسی نے اس میں سے کامیاب و سرخرو کرکے زندگی کے سفر کو
جاری رکھا ہوا ہے۔میری اہلیہ دو بار موت کی سرحدتک پہنچ گئی تھیں،اور دونوں
بار ہماری پوری فیملی اللہ میاں کی منت کرکے اسے واپس لے آئی۔دوسری بار
واپسی تو ہو گئی لیکن ساتھ ہی ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی شرط لاگو ہو
گئی۔ ہمارے خاندان میں جو عزیز و اقارب ڈائلے سز پر آئے چار سے چھ مہینے کے
اندر وفات پا گئے۔خود مبارکہ کے والد اور میرے ماموں پروفیسر ناصر احمد بھی
بمشکل چار مہینے ڈائلے سز پر رہے اور پھر وفات پا گئے۔مبارکہ نے سوا سال
سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین بار ڈائلے سز کی مشقت اٹھائی۔اس دوران ہم نے
گردوں کے عطیہ کے لیے درخواست دے دی تھی۔گردے مل جائیں تو ٹرانسپلانٹیشن کے
بعد ڈائلے سز سے نجات مل جاتی ہے۔عام طور پر مطلوبہ گردوں کے ملنے میں کئی
برس گزر جاتے ہیں لیکن خدا کے فضل سے مبارکہ کے لیے سوا سال کےاندر ہی اس
کا انتظام ہو گیا۔ لیکن یہ انتظام بس خوشی کی ایک خبر جیسا ہی تھا۔ ایک طرف
ڈائلے سز والے ڈاکٹر کا کہنا تھا ایسا لگتا ہے کہ ناکارہ گردے کام کرنے لگ
گئے ہیں۔ڈاکٹر نے اپنی تسلی کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ شروع کرائے۔ دوسری
طرف فروری ۲۰۱۱ء میں فرینکفرٹ کے ڈونر ادارہ کی جانب سے فون آ گیا کہ آپ کے
مطلوبہ گردے مل گئے ہیں۔میں نے انہیں ڈائلے سز والے کلینک کا نمبر دے دیا
اور کہا کہ ان سے بات کر لیں۔وہاں سے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ آپ اپریل
۲۰۱۱ء تک یہ گردے ریزرو رکھیں،لیکن ہو سکتا ہے ہمیں ان کی ضرورت پیش ہی نہ
آئے۔اور یہی ہوا،خدا کی رحمتِ خاص نے معجزے جیسا ہی کچھ کر
دیا۔ ٹرانسپلانٹیشن تو رہی ایک طرف ڈائلے سز کی بھی ضرورت نہ رہی۔سارے ٹیسٹ
صحت میں بہتری کی نشان دہی کر رہے تھے۔سوا سال سے زیادہ عرصہ ہفتہ میں تین
بار ڈائلے سز پر رہنے کے بعد مبارکہ کو ڈائلے سز سے نجات مل گئی۔ الحمد
للہ،ثم الحمد للہ۔ ۱۱ فروری ۲۰۱۲ء کو ڈائلے سز کے بغیر ایک سال مکمل ہوگیا
ہے ،بغیر ڈائلے سز کے سب کچھ ٹھیک جا رہا ہے۔صرف دواؤں سے ہی زندگی کا سفر
جاری و ساری ہے۔۲۰۱۲ء کا آغاز اس خوشخبری کو مستحکم کرتا ہوا آیا۔<br />
میری اپنی صحت کے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ڈاکٹر ایک بار پھر
انجیو گرافی وانجیو پلاسٹی کے لیے کہہ رہے ہیں۔میرے لیے اب لمبا سفر کرنا
آسان نہیں رہا۔لیکن سال ۲۰۱۲ء میں ایک ایسابا ضابطہ دعوت نامہ ملا کہ اپنے
بعض ادبی حالات و واقعات کے باعث اسے قبول کرنا ضروری ہو گیا۔دراصل
دسمبر۲۰۱۱ء میں پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی کی طرف سے ای میل آئی کہ ایشیاٹک
سوسائٹی کولکاتا کی طرف سے جلد آپ کو مدعو کیا جائے گا۔آپ نے ان کے فیض
سیمینار میں شرکت کرنی ہے۔میں نے فوراََ انہیں ای میل بھیجی کہ میں جتنی
بچت کر سکتا ہوں وہ جدید ادب کی اشاعت پر لگا دیتا ہوں۔اس لیے میرے پاس سفر
کرنے کے لیےائر ٹکٹ کی گنجائش نہیں ہے۔پروفیسر شہناز نبی کی طرف سے پھر
ای میل آئی کہ آپ اطمینان کریں جب آپ کو مدعو کرا رہی ہوں تو کرایا کی
ادائیگی بھی باضابطہ طور پر ہو جائے گی۔میں نے لکھا کہ ٹھیک ہے جب ائر ٹکٹ
کی سہولت مل رہی ہے تو پھرانشاء اللہ ضرور شرکت کروں گا۔بیماری کے بعض
معاملات کے باجود اپنی جان پر کھیل کر بھی شرکت کروں گا۔پروفیسر شہناز نبی
کے ذریعے کولکاتا میں فیض سیمینار کے سلسلہ میں یہ متوقع دعوت نامہ’’ہمارے
کر دئیے اونچے منارے‘‘کا اعلان اور میری زندگی کا ایک یاد گار سفر بن جائے
گا،اس کا مجھے اس حد تک اندازہ نہیں تھا۔ <br />
۳؍ جنوری ۲۰۱۲ء کی تاریخ تھی جب مجھے ایشیاٹک سوسائٹی کولکاتا کے
جنرل سیکریٹری پروفیسر میہیر کمار چکرورتی کی طرف سے ای میل ملی کہ سوسائٹی
کی جانب سے۲۰۔۲۱ مارچ کوفیض سیمینار منعقدکیا جا رہا ہے،اس سلسلہ میں مجھے
مدعو کیا گیا تھا۔پروفیسر شہناز نبی کی یقین دہانی کے مطابق چونکہ ائر ٹکٹ
کی سہولت موجود تھی ،اس لیے میں نے بخوشی شرکت کی </span><span style="font-size: medium;">ہ</span><span style="font-size: medium;">ا</span><span style="font-size: medium;">می بھر لی۔ کولکاتا
میرے لیے کئی پہلوؤں اور کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔اس لیے اس شہر سے
آنے والا یہ دعوت نامہ میرے لیے ’’سفر وسیلۂ ظفر‘‘کا پیغام تھا۔ انٹرنیٹ سے
انڈیا کے ویزہ فارم کے حصول میں دقت پیش آرہی تھی،جیسے تیسے یہ شکایت دور
ہوئی،ویزہ فارم پُر کیا اور ۱۲جنوری کو فرینکفرٹ میں قائم انڈین قونصلیٹ
پہنچا۔وہاں فائنل صورت یہ سامنے آئی کہ چونکہ میں جرمن شہریت کے باوجود
پاکستانی اوریجن کا ہوں،اس لیے یہ فارم انکوائری کے لیے انڈیا جائیں گے اور
انکو ائری کی با ضابطہ کاروائی میں چار سے چھ مہینے لگ جائیں گے ۔میں نے
کہا مجھے وسط مارچ تک ویزہ مطلوب ہے وگرنہ میرے لیے جانا بے معنی ہو جائے
گا۔سو ویزہ فارم کے کاغذات واپس لیے اور اس اطمینان کے ساتھ گھر آگیا کہ نہ
جانے میں ہی کوئی بہتری ہو گی۔واپس آکرپروفیسر میہیر کمار چکر ورتی کو ایک
ای میل کے ذریعے صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ان کی طرف سے رسمی افسوس کی ای
میل ملی اور بات آئی گئی ہو گئی۔میں نے اس ساری صورت حال سے کینیڈا میں
اپنے دوست عبداللہ جاوید کو آگاہ رکھا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس میں
بہتری ہی ہے۔انڈیا میں اردو کے دونوں بڑے آپ سے ناخوش ہیں،ایسی حالت میں آپ
کا نہ جانا ہی اچھا ہے۔تب میں نے کہا تھا کہ نہیں ایسی صورت میں تو میں
پھر ضرور جانا چاہوں گا۔میں تو صرف خدا کی طرف سے بھلے اور برے کے کسی بھی
فیصلے پر خوش ہوں۔کسی بندے کی طرف سے کہیں کوئی برا سوچنے یا کرنے والی بات
ہے تو پھر میں ضرور وہاں جانا چاہوں گا۔ تاکہ دیکھوں کہ جب خدا اچھا کرنا
چاہے تو کوئی بندہ اسے کس حد تک روک سکتا ہے۔ یہ بات بھی آئی گئی ہو گئی۔ <br />
۲۵ جنوری کو پروفیسر میہیر کمار چکرورتی کی طرف سے اچانک ایک ای
میل آگئی۔اس میل سے اندازہ ہوا کہ ایشیاٹک سوسائٹی کی جانب سے میرے ویزہ کے
لیے متعلقہ حکام سے درخواست کی گئی تھی اور اس کے نتیجہ میں مجھے فرینکفرٹ
میں انڈین قونصلیٹ کے پنکج ترپاٹھی سے رابطہ کے لیے کہا گیا تھا۔ پنکج
ترپاٹھی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ معمول کے مطابق ویزہ فارم جمع
کرا دیں۔ہم ضابطہ کے مطابق آپ کے کاغذات بھیج دیں گے۔ مارچ کے وسط تک کوئی
پیش رفت نہ ہوئی تو ہم قونصل جنرل کی طرف سے خصوصی ویزہ دلا دیں گے۔چنانچہ
میں نے کاغذات جمع کرا دئیے۔یہاں ویزہ فیس جمع کراتے ہوئے ایک اور مشکل کا
سامنا تھا۔عام لوگوں کے لیے ویزہ فیس ۶۷ یورو تھی (یہ اب ۵۰ یورو کر دی گئی
ہے)۔پاکستانی اوریجن والوں کے لیے مزید۲۷ یورودینا لازم تھے اور کانفرنس
ویزہ کے لیے مزید جرمانہ تھا۔۶۷ یورو ویزہ فیس کی جگہ مجھے ۱۳۷ یورو ادا
کرنا پڑے۔میں نے اپنی روانگی کی تاریخ ۱۵ مارچ لکھی تھی،تاہم ٹکٹ ۱۶ مارچ
کی بک کرائی۔ ۱۵ مارچ کو شام چار بجے مجھے ویزہ ملا۔عام طور پر ویزہ چھ
مہینے کے لیے دیا جاتا ہے،لیکن چونکہ مجھے خصوصی ویزہ ملا تھا اس لیے اس کی
معیاد پندرہ دن کی تھی۔۱۵ مارچ سے ۲۹ مارچ تک۔میں نے اس سہولت کو اپنے لیے
مزید آسان کر لیا ہوا تھا۔روانگی ۱۵ مارچ کی بجائے احتیاطاََ ۱۶ مارچ کو
اور واپسی مزید احتیاط کے ساتھ ۲۹ مارچ کی بجائے ۲۸ مارچ کو۔ <br />
اسی رات میں نے کولکاتا میں ایشیاٹک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کو
ویزہ ملنے کی خوشخبری ای میل سے بھیجی۔۱۶ مارچ کو میں اپنی ڈیوٹی سے گھر
واپس آیا تو سارے بچے مجھے خدا حافظ کہنے کے لیے گھر پر جمع تھے۔رات ساڑھے
نو بجے ائر انڈیا کی فلائٹ سے جانا تھا۔سو بروقت ائر پورٹ پہنچے اور معمول
کی کاروائی سے گزرتے ہوئے جہاز میں سوار ہو گیا۔طارق اور عادل مجھے ائر
پورٹ تک چھوڑنے ساتھ آئے تھے۔ ۱۷ مارچ کو دہلی کے انٹرنیشنل ائر پورٹ
پہنچا۔وہاں سے ضابطہ کی کاروائی سے گزرنے کے بعد اندرون ملک کی پروازوں
والے ائر پورٹ جانا تھا۔دہلی سے کولکاتا کے لیے میری سیٹ انڈی گو نامی ایک
ہوائی کمپنی میں بک تھی۔اگلی پرواز کے لیے ابھی کافی وقت تھا سو ایک
ریستوران پردوپہر کا کھانا کھایا۔لچھے دے پراٹھے اور دال مکھنی۔شوگر کے
مریض کی بد پرہیزی کی انتہا۔بہر حال شام تک کولکاتا پہنچ گیا۔ وہاں ائر
پورٹ پر روزنامہ عکاس کے چیف ایڈیٹر کریم رضا مونگیری مجھے لینے کے لیے آئے
ہوئے تھے۔وہاں سے سیدھے ان کے گھر پہنچے۔رستے میں انہوں نے اپنا موبائل
فون عنایت کیا کہ جرمنی میں اطلاع کر دیں کہ آپ خیریت سے کولکاتا پہنچ گئے
ہیں۔سو اسی وقت مبارکہ سے بات ہو گئی،خیریت سے سفر طے ہو جانے کی خبر سن
کروہاں بھی اطمینان ہو گیا اور مجھے بھی تسلی ہو گئی ۔<br />
کریم رضا مونگیری کے گھر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی کولکاتا کے
اپنے خاص احباب کو فون کر کے اپنے آنے کی اطلاع دی۔پروفیسرڈاکٹر شہناز
نبی،اوراردو دوست والے خورشید اقبال دونوں سے ملاقات کا طے کیا۔ اسی دوران
کریم رضا مونگیری کی بیٹی ثنا اور داماد کاشف بھی آگئے۔ان کا بیٹا عمیر بہت
پیارا تھا اور اسے دیکھتے ہیں مجھے اپنے چھوٹے پوتے یاد آنے لگے۔ان سارے
بچوں کے ساتھ کافی دیر گپ شپ رہی۔پھر یہ اپنے گھر چلے گئے۔مجھے بھی تھکاوٹ
کا احساس ہونے لگاتھا۔گزشتہ دو روز میں دن بھر کی ڈیوٹی کے بعدساری رات کا
سفراور پھر اگلا دن بھی کولکاتا پہنچنے تک مسافرت کی حالت میں گزرا
تھا۔چنانچہ رات کا کھانا کھا کراور بچوں کے جانے کے بعد جلد سو گیا۔۱۸ مارچ
کو بروقت آنکھ کھل گئی۔حوائج ضروریہ سے فارغ ہو کر فرض فریضے ادا کیے۔کریم
رضا مونگیری بیدار ہوئے تو ان کے ساتھ گپ شپ کے ساتھ بعض دوستوں سے رابطہ
شروع کیا۔ادبی رسالہ ’’دستک‘‘کے مدیرعنبر شمیم جوَ اب روزنامہ آبشار کا
سارا کام سنبھالے ہوئے ہیں،ان سے رابطہ ہوا اور ان کے دفتر میں ملنا طے
ہوا۔وہیں پہنچنے کے لیے نوشاد مومن مدیر مژگاں کو بھی کہہ دیا۔ناشتہ
اطمینان سے کیا اور پھر کریم رضا مونگیری کے ساتھ دفتر آبشار میں پہنچ گئے۔
عنبر شمیم سے زندگی میں پہلی بار روبرو ملاقات ہو رہی تھی لیکن کہیں کوئی
تکلف آڑے نہیں آیا،ہم برسوں کے شناسا دوستوں کی طرح بات کر رہے تھے۔نوشاد
مومن پہنچے تو محفل کی رونق مزید بڑھ گئی۔میں نے انہیں علامہ اقبال کے اس
شعر کی طرف توجہ دلائی جس میں انہوں نے مومن کے بارے میں دو مختلف آراء کو
بیان کیا ہے۔</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
کہتے ہیں فرشتے کہ دلآویز ہے مومن</span><br />
<span style="font-size: medium;">
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن</span></div>
<span style="font-size: medium;">
کسی نے اس شعر کو دوسرے رنگ میں بھی بیان کر رکھا ہے۔</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
کہنا ہے فرشتوں کا کم آمیز ہے مومن</span><br />
<span style="font-size: medium;">
حوروں کو شکایت ہے بہت تیز ہے مومن</span></div>
<span style="font-size: medium;">
نوشاد مومن اپنی ادبی سرگرمیوں میں خاصے تیز ہیں۔ان کے ساتھ جوگندر پال جی
کا افسانہ’’ سانس سمندر‘‘ اپنے افسانوی مجموعہ میں شامل کر لینے والے سلیم
خان ہمراز کے دلیرانہ سرقہ کا ذکر ہوا۔نوشاد مومن بتانے لگے کہ وہ اتنے
شرمندہ ہیں کہ کسی سے رابطہ میں ہی نہیں آرہے۔اس سرقہ کی نشان دہی جدیدادب
کے شمارہ نمبر ۱۷ میں ارشد کمال کے ایک خط میں کی جا چکی ہے۔اس دوران شہناز
نبی کا فون آگیا،وہ مجھے لینے آرہی تھیں۔کریم رضا مونگیری نے انہیں ملنے
کا مقام بتایا اور پھر ہم آبشار کے دفتر سے نکل کر اس مقام کی طرف روانہ ہو
گئے۔وہاں ڈاکٹر شہناز نبی موجود تھیں،میں کریم رضا مونگیری کی گاڑی سے
شہناز نبی کی گاڑی میں منتقل ہو گیا۔<br />
پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی کے ساتھ میرا اولین تعارف ان کی اُن
نظموں کے ذریعے ہوا تھا جو ’’اوراق‘‘لاہور میں شائع ہوا کرتی تھیں۔یہ نوے
کی دہائی کا اوائل تھا۔ہماری ادبی زندگی کا بھی ابتدائی دور ہی چل رہا
تھا۔مجھے علم نہیں تھا کہ شہناز نبی کون ہیں اور کہاں رہتی ہیں،تاہم ان کی
نظموں میں ایسی انوکھی چمک ہوا کرتی تھی کہ میں ’’اوراق‘‘کے’’آپس کی
باتیں‘‘سیکشن میں ہمیشہ ان نظموں کی تعریف کیا کرتا تھا۔اس سلسلہ میں ایک
لطیفہ اس وقت ظاہر ہوا جب ’’اوراق‘‘ کے ایک شمارہ میں میری بہت اچھی دوست
فرحت نواز کا خط شائع ہوا۔انہوں نے اپنے خط میں کچھ اس قسم کی بات لکھی تھی
کہ حیدر قریشی کو اس بار بھی شہناز نبی کی نظمیں سب سے زیادہ پسند آئیں
گی،لیکن وہ ان نظموں کا نام کیسے لکھیں گے،کیونکہ اس بار تو شہناز نبی کی
کوئی نظم چھپی ہی نہیں۔۔۔میں نے اس خط کی لطیف برہمی کا مزہ لیالیکن اس کے
نتیجہ میں غیر شعوری طور پر جیسے شہناز نبی کے ساتھ ایک تعلق سا بن گیا۔پھر
زمانے گزر گئے۔جرمنی آنے کے بعد انٹرنیٹ سے وابستہ ہونے کے بعد اردو دوست
ڈاٹ کام والے اپنے خورشید اقبال سے شہناز نبی کا ذکر سنا تو میں نے بڑے
اشتیاق سے پوچھا کہ شہناز نبی کولکاتا میں رہتی ہیں؟۔پھر میں نے اُن سے ہی
شہناز نبی کا فون نمبر حاصل کیا۔اور فوراََ انہیں فون کر دیا۔ایک عجیب سے
جوش و خروش کی کیفیت کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کے ساتھ میں ان سے بات کر
رہا تھا اور وہ جیسے پوری طرح شانت ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ میری باتوں کا
جواب دے رہی تھیں۔یہ غالباََ ۲۰۰۴ء کی بات ہے۔پھر ہم میسنجر پربھی چاٹ کرتے
رہے۔فون پر بھی رابطہ رہا اور ای میل سے تو مستقل رابطہ ہو گیا۔ </span><span style="font-size: medium;"></span>۱۹۸۴<span style="font-size: medium;"> کے
زمانے کا ابتدائی ادبی رابطہ جو’’اوراق‘‘سے غائبانہ طور پر شروع ہوا تھا،وہ
اب اس مقام پر آگیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے روبرو تھے ۔اور ایک دوسرے کے
روبرو ہوتے ہوئے بھی بالکل خواب جیسے۔۔۔۔ پتہ نہیں کب آنکھ کھل جائے اور صرف
اوراق میں چھپی نظمیں اور خطوط ہی رہ جائیں۔لیکن نہیں،بے شک یہ سب خواب
جیسا تھالیکن تعبیر سمیت خواب جیسا۔بہر حال ہم پہلے ایک ریستوران میں
پہنچے۔وہاں دوپہر کا کھانا کھایا۔وہاں سے کولکاتا کی تاریخی عمارت وکٹوریہ
میموریل ہال دیکھنے گئے۔اس عمارت کے گیٹ سے اندر داخل ہوئے توجہاں گراسی
میدان ہونا چاہیے تھا،وہاں پتھرپھیلائے ہوئے تھے، وہاں چلنا مشکل ہو رہا
تھا۔میں نے مشکل کا اظہار کرتے ہوئے شہناز نبی کی طرف سے خود ہی یہ شعر پڑھ
دیا:</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
انہیں پتھروں پہ چل کر، اگر آسکو تو آؤ</span><br />
<span style="font-size: medium;">
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے </span></div>
<span style="font-size: medium;">
اس عمارت کو مختلف اطراف سے دیکھااور ملکہ وکٹوریہ کی وفات پرمجھے علامہ
اقبال کا مرثیہ یاد آنے لگا۔یہ مرثیہ باقیات اقبال میں شامل ہے۔اس کا صرف
ڈیڑھ شعر ہی بروقت یاد آسکا۔ایک مصرعہ </span></div>
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: 18px; text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">’’اے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایۂ
خدا‘‘</span></div>
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: 18px;">
<span style="font-size: medium;">سن کر پروفیسرشہناز نبی حیرت کا اظہار کرنے لگیں کہ علامہ نے ایسا
لکھا؟۔ دوسرا شعر سنانے سے پہلے میں نے وضاحتاََ بتایا کہ ملکہ وکٹوریہ کی
وفات عید سے اگلے روز ہوئی تھی،علامہ اقبال نے اس بات کو یوں لطیف پیرائے
میں بیان کیا۔</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
آئی اِدھر نشاط،اِدھر غم بھی آگیا</span><br />
<span style="font-size: medium;">
کل عید تھی تو آج محرم بھی آگیا</span></div>
<span style="font-size: medium;">
وکٹوریہ میموریل ہال کی سیاحت سے نکلنے لگے تو اب شہناز نبی نے میرے حصے کا شعر پڑھ دیا:</span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
کچھ یادگارِ شہرِستم گر ہی لے چلیں</span><br />
<span style="font-size: medium;">
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں</span></div>
<span style="font-size: medium;">
میموریل ہال سے نکلے تو رابندرناتھ بھون میں ٹیگور کا مجسمہ دیکھنے
گئے۔غالباََ اسی مجسمہ کے حوالے سے لطیفہ مشہور ہے کہ جب سرکاری طور پر اس
مجسمہ کی منظوری دی گئی اور ٹیگور کو بتایا گیا کہ ان کے مجسمہ کے بنانے پر
لاکھ روپے سے اوپر لاگت آئے گی تو انہوں نے بے ساختہ کہا کہ یہ رقم مجھے
دے دیں، میں خود مجسمہ ایستادہ کرنے کی جگہ پر کھڑا ہو جایا کروں گا۔رابندر
ناتھ بھون کے ساتھ ہی ایک نکڑ پر بنگال کے سٹریٹ تھیٹر کی جھلک دیکھنے کو
مل گئی۔گلی کے موڑ پر چند فنکاروں نے ایک پرداتان کر اسٹیج کی بیک گراؤنڈ
بنا لی تھی اور سڑک کے اسٹیج پر ہی اپنے فن کے جوہر دکھا رہے تھے۔دیکھنے
والوں کا مجمع بڑا نہیں تھا لیکن پھر بھی لوگ اس تھیٹر کو دیکھ رہے
تھے۔یہاں سے واپسی پر میں نے اپنی ساری کتابوں کا سیٹ پروفیسر شہناز نبی کے
سپرد کیا،یہ ایشیاٹک سوسائٹی کی لائبریری کے لیے میری طرف سے تحفہ
تھا۔شہناز نبی نے اگلے دن کتابیں وہاں پہنچا دی تھیں اور مجھے وہاں سے
باضابطہ رسید مل گئی تھی۔پروفیسرڈاکٹرشہناز نبی کے ساتھ آج آدھے دن کی پوری
ملاقات بھرپور رہی۔ہم نے دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں کر ڈالیں۔شہناز
نبی اس وقت نہ صرف کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ اردوکی سربراہ ہیں بلکہ گزشتہ
چند برسوں سے اقبال چئیر کی پروفیسر بھی ہیں۔ یہ وہی سیٹ ہے جو فیض احمد
فیض کو ملنا تھی،لیکن پھر وہ لوٹس کے مدیر بن کر بیروت چلے گئے۔ان کے بعد
ڈاکٹر مظفر حنفی اس سیٹ پر پروفیسر رہے۔اب کچھ عرصہ سے شعبہ اردو کی
سربراہی کے ساتھ اقبال چئیر کی پروفیسر شپ کا اعزاز بھی پروفیسرڈاکٹر شہناز
نبی کو حاصل ہے۔<br />
شام کو کریم رضا مونگیری مجھے لینے کے لیے آگئے۔ان کے ساتھ پہلے ثنا
اور کاشف کے ہاں پہنچے۔وہاں سے ’’ہوڑہ‘‘میں قائم مکمل طور پر مغربی طرز کی
مارکیٹ دیکھنے گئے۔کلکتہ میں فرینکفرٹ کا نظارہ کر لیا،مارکیٹ کا مشرق و
مغرب کا ایک فرق البتہ واضح تھا۔مغربی مارکیٹوں کے بر عکس اس مارکیٹ میں رش
زیادہ تھا اور خریداری کم تھی۔زیادہ تر لوگ صرف رونق میلہ دیکھنے آرہے
تھے۔کچھ لوگ گرمی کے باعث ایک طرف ائر کنڈیشنڈ کی سہولت کا لطف رہے تھے
تودوسری طرف آنکھیں سینکنے کا کام بھی لے رہے تھے۔فیملی کے ساتھ آنے والے
افراد بھی تھے تو بعض نوجوانوں نے اسے میٹنگ پوائنٹ بھی بنا لیا تھا۔اس
مارکیٹ کو دیکھنا اچھا لگا۔کریم رضا مونگیری نے اپنی ایک ریزرو سِم مجھے
عنایت کر دی،جس سے میرے لیے اندرون ہند اور جرمنی میں رابطہ کرنا بہت آسان
ہو گیا۔<br />
۱۹ مارچ سے۲۳ مارچ کی صبح تک میں باضابطہ طور پرایشیاٹک سوسائٹی
کا مہمان تھا۔سو ۱۹ مارچ کو ایشیاٹک سوسائٹی کے آفس میں پہنچے۔وہاں میہیر
کمار چکرورتی سے ملاقات ہوئی۔سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے ان سے
مراسلت کر چکا تھا۔کافی کے کپ پریہ ایک رسمی ملاقات تھی۔یہیں ڈاکٹر عقیل
احمد عقیل سے پہلی ملاقات ہوئی۔انہوں نے سیمینار کا پروگرام عنایت کیا۔اس
میں افتتاحی خطاب کے لیے شمس الرحمن فاروقی کا نام درج تھا۔خوشی ہوئی کہ
جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۸ کی اشاعت کے بعد ان کے ساتھ ملاقات ہوسکے
گی۔ سوسائٹی کے آفس کے جملہ امور کی دیکھ بھال کرنے والے دلیپ رائے سے
ملے۔ انہوں نے مجھے گیسٹ ہاؤس بھیجنے کا انتظام کر دیا۔گیسٹ ہاؤس کا کمرہ
نمبر ۲۰۲ مل گیا۔دن کا کچھ حصہ آرام کرتے ہوئے گزارا،کچھ وقت گھر پر اور
دوست احباب کو فون کرتے ہوئے گزر گیا۔اسی دوران شام کے وقت ایشیاٹک سوسائٹی
کے آفس سے دلیپ رائے کا فون آگیا۔وہ بتا رہے تھے کہ کل سیمینار کی افتتاحی
تقریر مجھے کرنا ہو گی۔یہ اطلاع میرے لیے دوہری حیرانی و پریشانی کا باعث
تھی۔ایک تو یہ کہ ابھی چند گھنٹے پہلے تو شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام
پڑھ کر آرہا تھاکہ وہ افتتاحی خطاب کریں گے،پھر یکایک یہ کیا ماجرا ہو
گیا؟دوسرے یہ کہ یہاں میرے پاس نہ صرف کمپیوٹر کی سہولت نہیں تھی،جس کے
بغیر میرے لیے اب کچھ لکھنا بے حد مشکل ہوجاتا ہے بلکہ میرے پاس کاغذ قلم
بھی موجود نہیں تھے۔شام گہری ہوئی تو اللہ نے کرم کیا،کریم رضا مجھے ملنے
آگئے۔انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اسی وقت اپنا قلم عنایت
کر دیا اوراخبار کے ایک کارکن کو بھیج کر کاغذبھی مہیا کر دیا۔میں نے
سیمینار کے دوسرے دن اپنا مضمون’’فیض صدی کی ایک جھلک‘‘پیش کرنا تھا۔اسی کے
بعض حصوں سے استفادہ کرکے رات ہی رات میں اپنی افتتاحی تقریر کا مضمون
تیار کر لیااور قدرے اطمینان کا سانس لیا۔ایک طویل عرصہ کے بعد ہاتھ سے
لکھنا پڑا توایسے لگا جیسے پرائمری کلاس کے زمانے کی اپنی ہینڈ رائٹنگ دیکھ
رہا ہوں۔ <br />
۲۰ مارچ کو سیمینار ہال میں بروقت پہنچ گئے۔وہاں میں نے پروفیسر
ڈاکٹر شہناز نبی سے پوچھا کہ فاروقی صاحب کیوں نہیں آرہے؟اتنا جواب ملا کہ
الہٰ آباد سے تو دہلی آچکے تھے لیکن اب اطلاع ملی ہے ان کی طبیعت ناساز ہے
سو کولکاتا نہیں آسکیں گے۔ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ سیمینار کا دیدہ
زیب بروشر تقسیم ہونے لگا۔اسے دیکھا تو افتتاحی تقریر کے لیے میرا نام لکھا
ہوا تھا۔حیرانی ظاہر کی تو جواب ملا کہ یہ بروشر آج رات میں ہی شائع کرایا
گیا ہے۔ اس پر مزید حیرانی ہوئی لیکن یہاں ہر حیرانی کا جواب نہیں تھا،سو
چپ ہو رہا۔افتتاحی پروگرام میں پہلے خاص مہمانوں کو ڈائس پر بلایا
گیا،انہیں پھول پیش کیے گئے۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے کلامِ فیض سے افتتاحی
گیت پیش کیا۔جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے پروفیسر میہیر کمار نے ویلکم ایڈریس
کیا۔سیمینار کے مرکزی خیال کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی نے تعارف
پیش کیا۔ان کے بعد مجھے افتتاحی تقریر کے لیے بلایا گیا۔میرے بعد علی گڑھ
سے آئے قاضی جمال حسین نے کلیدی مقالہ پیش کیا۔ان کے بعد ایشیاٹک سوسائٹی
کے صدرپروفیسر پلب سین گپتا نے صدارتی تقریر کی۔انہوں نے اس سیمینار کے
انعقاد کا بڑا کریڈٹ ڈاکٹر شہناز نبی کو دیااور توقع ظاہر کی کہ یہ سیمینار
فیض احمد فیض کے حوالے سے اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔ آخر میں ووٹ آف تھینکس
کی رسمی کاروائی ہوئی اور افتتاحی سیشن اختتام پذیر ہوا۔<br />
پہلے اکیڈمک سیشن میں ابوذر ہاشمی،پروفیسر ندیم احمد اور ڈاکٹر
معین الدین جینا بڑے کے مقالات اہمیت کے حامل رہے۔ان کے بعد دوپہر کے کھانے
کا وقفہ دیا گیا۔اسی دوران دیکھا کہ خورشید اقبال اور بلند اقبال دونوں
دوست آئے ہوئے ہیں۔ان سے ملاقات ہوئی اور کم سے کم وقت میں جتنا جی بھر کے
ملاقات ہو سکتی تھی وہ ہوتی رہی۔خورشید اقبال ۲۴ پرگنہ میں بیٹھ کر اردو
دوست ڈاٹ کام جیسی عمدہ ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔میری ذاتی ویب سائٹ بھی انہیں
کی ہنر مندی کا نتیجہ ہے۔ان کے ساتھ طے ہوا کہ ہم سیمینار کے بعد گیسٹ
ہاؤس میں میرے روم میں ملیں گے۔ فہیم انور ملنے آئے،یونیورسٹی کے طلبہ و
طالبات کی اور نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ ملتی رہی اور تصویریں بناتی
رہی۔ <br />
کھانے کے وقفہ کے بعد سیمینار کا دوسرا سیشن شروع ہوا۔ڈاکٹر عقیل
احمد عقیل، پروفیسر وہاج الدین،پروفیسر خالد سعید کے مقالات اور صاحب صدر
پروفیسر حسین الحق کی تقریر نے اس سیشن کو گرما دیا ۔ تیسرے سیشن کی صدارت
وہاج الدین علوی نے کی۔ان کی صدارتی تقریر کے علاوہ حسین الحق اور ڈاکٹر
معین الدین جینا بڑے نے بھی فیض کے حوالے سے بڑی اچھی اچھی باتیں کیں لیکن
پروفیسر مظہر مہدی کا انگریزی کا مقالہ دوہرے طور پر پسند آیا۔ایک تو انہوں
نے فیض کے ہاں ارضِ وطن کے ساتھ بلکہ اس سے کچھ زیادہ ارضِ وطن کے رہنے
والوں کے لیے محبت کے زاویے کو ابھارا۔اپنے نفسِ مضمون کے لحاظ سے انہوں نے
ایک نازک مگر اہم نکتہ کو ابھارا تھا جس پر ابھی مزید کام کرنے کی گنجائش
ہے۔مظہر مہدی کا مقصد بھی یہی تھا کہ فیض کے مطالعہ میں روایتی باتوں سے ہٹ
کر کسی نئے زاویے سے نظر ڈالی جائے۔<br />
دوسری دلچسپ بات جو مجھے شدت سے محسوس ہوئی۔ایک تو مظہر مہدی چہرے مہرے سے
دیو آنند سے ملتے جلتے لگتے ہیں،دوسرے ان کے بولنے کا بلکہ عام بات کرنے کا
انداز بھی بار بار دیو آنند کی یاد دلاتا ہے۔اس خوشگوار احساس کے ساتھ یہ
سیشن اختتام پذیر ہوا تو میں نے بلا تکلف انہیں اپنے تاثر سے آگاہ کر
دیا، مظہر مہدی میرے دیو آنند اسٹائل والے انکشاف پر تھوڑا سا حیران ہوئے
اور پھر مسکرا کر رہ گئے۔<br />
سیمینار کے بعد خورشید اقبال کے ساتھ گیسٹ ہاؤس پہنچے۔وہاں انہوں نے
اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کولکاتا کے ارد گرد رہنے والے شاعروں اور
ادیبوں کے ساتھ میری ایک ملاقات کرانا چاہتے ہیں۔<br />
اس کے لیے ۲۳ مارچ کی شام طے پا گئی۔وہاں دیر تک خورشید اقبال،بلند اقبال اورمحمد انتخاب عالم کے ساتھ گپ شپ ہوتی رہی۔<br />
۲۱ مارچ کو سیمینار کا دوسرا دن تھا۔گیسٹ ہاؤس سے بروقت سیمینار
ہال میں پہنچ گیا۔یہاں پھر ایک بری خبر سننے کو ملی۔علی احمد فاطمی اور علی
جاوید جنہیں اس سیمینار میں آنا تھا۔ان میں سے علی احمد فاطمی کے بارے میں
معلوم ہوا کہ وہ واقعی گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکیں
گے،جبکہ علی جاوید نے کل شام تک وعدہ کیا تھا کہ وہ ۲۱ مارچ کو سیمینار کے
دوسرے دن لازماََ پہنچیں گے۔تھوڑی سی خوشی تھی کہ چلو فاروقی صاحب سے نہیں
تو علی جاوید سے تو ملاقات ہوہی جائے گی۔ انہوں نے ۲۰ مارچ کی شام کو اپنا
آنا کنفرم کیا تھالیکن ۲۱ مارچ کو ان کی طرف سے اطلاع آگئی کہ ان کی فلائیٹ
مس ہو گئی ہے۔ایسا ہی ہوا ہوگا۔چونکہ اتنے اہم شرکا غیر حاضر ہو گئے تھے
اس لیے طے ہوا کہ ۲۱ مارچ کے تینوں سیشنز کو ایک سیشن میں مکمل کر لیا جائے
اور دوسرے مرحلہ میں مشاعرہ کر لیا جائے۔چنانچہ قاضی جمال حسین کی صدارت
میں یہ تھری ان ون سیشن شروع ہوا۔پروفیسر منصورعالم،پروفیسرایم فیروز،فاطمہ
حسن اور حیدر قریشی کے مضامین کے بعد قاضی جمال حسین نے صدارتی تقریر
کی۔ ڈاکٹر شہناز نبی نے تمام شرکاء اور حاضرین کاتہہ دل سے شکریہ ادا
کیا۔اس کے ساتھ ہی سیمینار اختتام پذیر ہوا۔<br />
حیدر آباد دکن سے آئے ہوئے پروفیسر خالد سعیدکے ساتھ ابھی حاضرین
کی صف میں ہی بیٹھا تھا،فاطمہ حسن بھی ساتھ تھیں۔ خالد سعید کہنے لگے کہ آج
شام کو ہم گیسٹ ہاؤس میں ملیں گے اوراطمینان سے گفتگو ہو گی۔فاطمہ حسن سے
بھی کہا کہ آج شام کو ہم تینوں مل کر بیٹھیں گے۔لیکن ابھی تھوڑی دیر نہ
گزری تھی کہ مجھے کہنے لگے میری طبیعت خراب ہورہی ہے،طبی امداد کے لیے کسی
سے کہیں۔میں نے فوراََ شہناز نبی کو آگاہ کیا اور چند منٹ کے اندر ڈاکٹر
خالد سعید کو طبی امداد کے لیے لے جانے کا انتظام ہو گیا۔بعد میں اللہ کے
فضل سے وہ ٹھیک ہو گئے،تاہم سیمینار کے دوران ایسی صورت حال کا پیش آنا سب
کے لیے فکر مندی کا باعث بن گیا۔میں نے میہیر کمار چکرورتی کو اس سلسلہ میں
سب سے زیادہ پریشان ہوتے دیکھا۔بہر حال اس ساری پریشان کن صورت حال کے
باوجود سیمینار خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔سیمینار کے بعد مشاعرہ
کا اعلان کیا گیا۔ مشاعرہ کی صدارت فاطمہ حسن نے کی۔میں اس وجہ سے مشکل میں
پڑ گیا کہ سیمینار کی بھاگم بھاگ میں مجھے اپنا کوئی شعر یاد نہیں آرہا
تھا۔ڈائس چھوڑ </span><span style="font-size: medium;"> </span><span style="font-size: medium;">کر</span><span style="font-size: medium;">ایشیاٹک </span><span style="font-size: medium;">سوسائٹی کی لائبریری کے شبیر احمدکو ڈھونڈتا
پھرا،وہ ملے تو ان سے اپنی کتاب’’عمرِ لاحاصل کا حاصل‘‘مستعار مانگی۔انہوں
نے میری مشکل آسان کر دی اور یوں میرے لیے اس اچانک مشاعرہ کو بھگتانے میں
آسانی ہو گئی۔<br />
مشاعرہ کے بعد ڈائس سے اترا تو بہت سارے دوست احباب کے ساتھ
یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے بہت سارے طلبہ و طالبات مجھ سے ملنا چاہ رہے
تھے۔کلکتہ کے شاعرحسن آتش تو جیسے آتشِ شوق کے ساتھ ملنے آئے ہوئے تھے۔ایک
طرف طلبہ و طالبات آٹو گراف لینے اور تصویر بنوانے کے لیے گھیرے ہوئے
تھے،دوسری طرف پروفیسر ڈاکٹر شہناز نبی دور سے کھڑی ڈانٹ کر بلا رہی تھیں
کہ سارے مندوبین پہنچ گئے ہیں ،صرف آپ رہ گئے ہیں،جلدی آجائیں۔بہر حال پانچ
چھ طلبہ و طالبات کو بمشکل آٹو گراف دے سکا،دو چار کے ساتھ تصاویربن سکیں
اور پھر جانا پڑ گیا۔وہاں سارے مندوبین کی جنرل سکریٹری ایشیاٹک سوسائٹی سے
ملاقات تھی۔وہ سب سے سیمینار کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کر رہے
تھے۔ڈاکٹر خالد سعید کی علالت بھی موضوع گفتگو رہی۔اس ملاقات کے بعد
ایشیاٹک سوسائٹی کا میوزیم دیکھنے گئے ۔ اسی دوران دلیپ رائے نے میرے ہوائی
سفر کے جملہ اخراجات،ویزہ فیس سمیت ادا کر دئیے،لیکن یہ رقم انڈین روپوں
میں تھی۔میں نے انہیں بتایا کہ مجھے یہ رقم یورو میں ہی چاہیے۔تنگ وقت کے
باوجود ڈاکٹر عقیل احمد عقیل کی خصوصی توجہ سے دلیپ رائے نے ہمت سے کام لیا
اور با ضابطہ طور پر رقم کی یورو میں تبدیلی کرا کے مجھے ادائیگی کر دی
گئی۔میوزیم کی انچارج میتالی چٹر جی نے خاص طور کرم فرمایا، میں جو رقم کی
وصولی کے چکر میں باقی ساتھیوں سے کچھ لیٹ ہو گیا تھا، انہوں نے مجھے خودلے
جا کر میوزیم کے مخطوطات کے حصے کودیکھنے کا موقعہ دیا۔<br />
کولکاتا کے حوالے سے ہماری درسی معلومات فورٹ ولیم کالج کی حد تک رہی
ہے۔ایشیاٹک سوسائٹی کے بارے میں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ ادارہ ۱۷۸۴ء میں
قائم کیا گیا تھا تو اپنی کم علمی کا افسوس ہوا۔پھر اس ادارہ کی ویب سائٹ
سے لے کر وکی پیڈیا تک اس کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو افسوس میں
شرمندگی بھی شامل ہو گئی۔لیکن اس سب کے باوجود میرے لیے یہ بڑی خوشی کی بات
ہے کہ مجھے اس ادارہ نے نہ صرف باوقار طریقے سے بلایا،بلکہ میرے سفر کی
راہ میں حائل ویزہ کے حصول کی رکاوٹوں کوبھی دور کیا اور مجھے نہایت عزت و
احترام کے ساتھ اس سیمینار میں شریک کیا۔اس کے لیے میں پروفیسر میہیر کمار
چکر ورتی،پروفیسرپلب سین گپتا، اور ڈاکٹر شہناز نبی سب کا انتہائی شکر گزار
ہوں۔ اسی ادارہ کے دلیپ رائے، میتالی چتر جی،شبیر احمد اور یہیں پر ملنے
والے ڈاکٹر عقیل احمد عقیل سب کا شکریہ ادا کرنا واجب سمجھتا ہوں کہ جن کی
رفاقت نے میرے لیے اس سیمینار میں شرکت کو مزید خوشگوار بنا دیا۔<br />
۲۲ مارچ کو مجھے کریم رضا مونگیری اپنے گھر لے گئے۔وہاں کچھ دیر
انٹرنیٹ پر کام کیا۔اپنی تقریر کو ان پیج فائل میں لکھ کر انٹرنیٹ کے دو
فورمز پر ریلیز کیا۔ہوا یہ تھا کہ ایک اخبار نے افتتاحی تقریر کو خاصی
کوریج دی،میرے لیے چارکالمی سرخی خوشی کا باعث تھی لیکن رپورٹنگ میں بہت
سارا خلط ملط ہو گیا تھا۔نوجوان رپورٹر کی رپورٹنگ کے سقم میرے اپنے حوالے
سے کنفیوژن پیدا کر سکتے تھے۔اب اخبار کی تردید کرنایا کسی نوعیت کی وضاحت
کرنا مناسب نہ تھا، کیونکہ جو کچھ ہوا تھا،اس میں بد نیتی کا کوئی دخل نہ
تھا،اس کا حل مجھے یہی مناسب لگا کہ میں اپنی تقریر کا متن ہی جاری کر
دوں۔تقریر کا متن جاری کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ بہت سارے دوست احباب
انٹرنیٹ کے ذریعے میرے اس سفر میں ہم رکاب ہو گئے۔<br />
شام کو مسلم انسٹی ٹیوٹ کولکاتا کی جانب سے ان کے لائبریری ہال
میں فاطمہ حسن اور میرے ساتھ ایک استقبالیہ اور مشاعرہ کا اہتمام کیا
گیا۔صدارت میرے حصہ میں آئی،مہمانِ خصوصی فاطمہ حسن تھیں۔میرے ہاتھ سے ایک
دو کتابوں کی رونمائی بھی کرائی گئی۔سلیمان خورشید نے بڑی محبت کے ساتھ
فاطمہ اور میرے ادبی کام کے بارے میں بات کی،مسلم انسٹی ٹیوٹ کی جملہ خدمات
کا ایک خاکہ سا بیان کیا۔پھر مشاعرہ ہوا۔مشاعرہ میں ہم دونوں مہمانوں کے
علاوہ عنبر شمیم، ف۔س۔ اعجاز،فراغ روہوی،نوشاد مومن،احمد معراج،خواجہ احمد
حسین،وقیع منظر،دمیق القادری،معراج احمد معراج،ارم انصاری،جمیل حیدر
شاد،شمیم انجم وارثی،ڈاکٹر عقیل احمد عقیل،کوثر پروین،نیر اعظمی،حلیم
صابر،انجم عظیم آبادی نے اپنے کلام سے نوازا۔ماہیا نگار دوستوں نے اپنے
دوسرے کلام کے ساتھ چند ماہیے بھی پیش کیے۔نعیم انیس نے اسٹیج سیکریٹری کے
فرائض انجام دئیے۔یہاں مجھے دو خوشگوار تجربات سے دوچار ہونا پڑا۔ نعیم
انیس نے یونیورسٹی کے زمانے میں میرے پہلے شعری مجموعہ’’سلگتے خواب‘‘پر ایک
مضمون لکھا تھا،انہوں نے اسے اپنے مضامین کے مجموعہ میں بھی شامل رکھا
تھا۔مضامین کا مجموعہ ’’اظہار‘‘ ۱۹۹۹ء میں چھپ گیا تھا۔اور آج جب میں مسلم
انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا تو نعیم انیس نے مجھے اپنی کتاب کا تحفہ عنایت
کیا۔دوسراتجربہ یہ ہوا کہ تقریب کے حوالے سے ایک بینر آویزاں کیا ہوا تھا
جس پر دائیں اور بائیں جانب فاطمہ حسن کی اور میری تصویریں بنائی گئی
تھیں۔میں ایسی خوشیوں کو کسی مصنوعی شانِ استغناکے اظہار کی خاطردبا لینے
کا قائل نہیں ہوں۔اس طرح بینر پر اپنی تصویر دیکھ کر بچوں جیسی خوشی ہوئی۔<br />
میں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ کلکتہ شہر سے میرا
ادبی و قلبی تعلق بہت پرانا ہے۔پہلا حوالہ شہناز نبی کا بنتا ہے،پھر عنبر
شمیم کے دستک میں مجھے چھپنے کا موقعہ ملتا رہا۔وہاں ایک دو ایسی چیزیں بھی
چھپیں جو بعد میں کسی ہنگامہ خیز بحث میں بطور حوالہ درج
ہوئیں۔ف۔س۔اعجازکے رسالہ میں گاہے بگاہے چھپ جاتا ہوں لیکن ’’انشاء‘‘ میں
میرے وہ مباحث خاص اہمیت کے حامل رہے جو ماہیا کے بانی کی تحقیق میں کلیدی
نوعیت کے مضمون شمار ہوئے۔اردو ماہیا کے بانی ہمت رائے شرما۔۔۔میری کتاب
چھپنے سے پہلے ’’انشا‘‘میں شائع ہوا۔اسی طرح نوشاد مومن کے مژگاں میں بھی
مجھے ماہیا کے خدو خال واضح کرنے کے لیے ایک اہم مضمون لکھنے کی توفیق
ملی۔کلکتہ وہ شہر ہے جہاں خالصتاََ ماہیا مشاعرہ بھی برپا ہوا ،عبدالرزاق
ملیح آبادی اور قیصر شمیم نے اس مشاعرہ کی صدارت کی تھی۔فراغ روہوی،نسیم
فائق ،شمیم انجم وارثی،اور متعدد دیگر اچھے شعرا نے ماہیا نگاری میں اپنے
امکانات کو آزمایا اور ماہیے کے دامن کو وسیع کرنے میں قابلِ ذکر کام
کیا۔یہ وہی سال ہے جب پاکستان میں سرگودھا میں ایک ماہیا مشاعرہ ہوا تھا
اور ڈاکٹر وزیر آغا نے اس کی صدارت کی تھی۔اردو دوست ڈاٹ کام والے خورشید
اقبال کو بھی کولکاتا میں ہی شمار کیا جانا چاہیے۔ان کے ساتھ میرا تعلق کئی
جہات پر پھیلا ہوا ہے۔خورشید اقبال کے ذریعے مجھے کلکتہ سے انٹرنیٹ کی
دنیا میں داخل ہونے کا موقعہ ملا۔یہاں کے ماہیا نگاروں سے اور دوسرے شعرا و
ادبا سے میرا رابطہ کسی نہ کسی رنگ میں بنا رہا ہے۔اب نعیم انیس سے مل کر
جو کچھ سامنے آیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی رابطے کے بغیر بھی ادبی
محبت کرنے والے دوست موجود ہیں۔ میں یہاں ایشیاٹک سوسائٹی کی جانب سے بلایا
گیا ہوں لیکن مجھے خوشی ہے کہ اس بہانے مجھے یہاں کے دوسرے دوستوں سے ملنے
کا موقعہ بھی مل رہا ہے۔اسے میں اپنی خوش بختی سمجھتا ہوں۔<br />
اس پروگرام کے دوران ہی کینیڈا سے عبداللہ جاویداور شہناز
خانم عابدی کا فون آگیا لیکن مختصر بات کرکے فون بند کرنا پڑا۔کل ۲۳ مارچ
کو کامٹی،ناگپور سے ڈاکٹر صبیحہ خورشید مجھے ملنے کے لیے اپنے بڑے بھائی
شاہد یوسفی کے ساتھ لگ بھگ چوبیس گھنٹے کا سفر کرکے کولکاتا پہنچ رہی
ہیں۔اس سلسلہ میں کریم رضا مونگیری نے ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی
تھی۔انہوں نے کہا کہ میں علی الصبح انہیں اسٹیشن سے لے کر گھر کے قریب کسی
ہوٹل میں ٹھہرانے کا انتظام کروں گااور جب وہ تازہ دم ہو جائیں گے تو انہیں
لے کر یونیورسٹی میں پہنچ جاؤں گا۔کریم رضا مونگیری اس کے بعد گھر چلے گئے
اور ہماری بھی گیسٹ ہاؤس میں واپسی ہوئی۔فاطمہ حسن نے کل علیٰ الصبح دہلی
کے لیے روانہ ہونا تھا،اس لیے انہوں نے بھی اپنا کھانا میرے کمرے میں منگا
لیا۔کھانا کھانے کے دوران ہی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر مظہر
مہدی بھی میرے کمرے میں آگئے۔دیر تک گپ شپ ہوتی رہی۔فاطمہ حسن نے چونکہ کل
صبح سویرے ہی چلے جانا تھا ،اس لیے وہ سونے چلی گئیں اور ان کے جانے کے بعد
بھی میری کافی دیر تک مظہر مہدی کے ساتھ مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی
رہی۔اور گفتگو کا مزہ بھی آتا رہا۔<br />
۲۳مارچ کو مجھے گیسٹ ہاؤس چھوڑ دینا تھا۔سو میں سارا سامان پیک
کرکے تیار ہو کر بیٹھ گیا۔ساڑھے نو بجے ڈاکٹر شہناز نبی مجھے لینے کے لیے
آگئیں۔رستے میں کہیں سے ڈاکٹر معین الدین جینا بڑے کو بھی ساتھ لیااور ہم
کلکتہ یونیورسٹی پہنچے۔یہاں شعبہ اردو نے دو روزہ ٹیگور سیمینار کا اہتمام
کیا ہوا تھا۔۲۲ اور ۲۳ مارچ کو۔لیکن ۲۲ مارچ کو تقسیم اسناد کی تقریب کے
باعث سیمینار کو ایک دن میں محدود کرنا پڑا ۔ لیکن یہ ایک دن پوری طرح پورے
دن پر محیط تھا۔شہناز نبی نہ خود ادھر اُدھر ہوئیں نہ مندوبین یا حاضرین
میں سے کسی کو ہلنے دیا۔ایشیاٹک سوسائٹی کے صدر پلب سین گپتا بھی پہلے سیشن
میں تشریف فرما تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے بارے میں اچھی اچھی باتیں سننے
کو ملیں۔مجھے ٹیگور سے متعارف ہونے کا موقعہ مل رہا تھا۔شاعر،نثر نگار،مصور
ٹیگورکو اس کے اپنوں نے بری طرح نظر انداز کیالیکن اس کا فن اپنے زور پر
آگے بڑھا۔بر صغیر کی واحد ادبی شخصیت جسے۱۹۱۳ء میں نوبل پرائز سے نوازا
گیا۔انور ظہیر کے مقالہ سے ٹیگور سے صحیح معنوں میں ملاقات ہو سکی۔وہ بتا
رہے تھے کہ ٹیگور مذہبی جکڑ بندیوں کو توڑ کر خدا سے محبت اور تعلق قائم
کرنے کے قائل تھے۔میں اس بات کو ہلکی سی ترمیم کے ساتھ یوں مانتا ہوں کہ
کسی توڑ پھوڑ کی ضرورت نہیں ہے،انسان کسی بھی مسلک کا ہو،اگر اس کی جستجو
سچی ہے تو مذہب کی ظاہری سطح سے اوپر اُٹھ کر خدا سے محبت اور تعلق کو قائم
کر سکتا ہے۔انور ظہیر میری طرح جوگندر پال کے چاہنے والے نکلے اور ہم
دونوں ٹیگور سیمینار کے ڈائس پر بیٹھے دیر تک جوگندر پال کی باتیں کرتے
رہے۔<br />
سیمینار کے دوران یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر ممتارئے کچھ دیر کے
لیے تشریف لائیں۔میری خوش قسمتی کہ وہ میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھیں۔لیکن
اس وقت میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے جب انہوں نے بتایا کہ وہ صرف بنگالی یا
انگریزی میں بات کر سکتی ہیں۔اب کیا کیا جائے؟بہر حال جیسے تیسے بولنے کی
کوشش کی۔میں اسے ممتارئے کے ساتھ بیٹھنے کا اثر ہی کہوں گا۔میرے جیسا بندہ
جس کی انگریزی ’’ہاؤ ڈو یو ڈو ‘‘کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے،ممتا رئے نے
انگریزی میں گفتگو شروع کی تو پتہ نہیں کیسے میں بھی فر فر انگریزی بولنے
لگا۔سچ ہے پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت کا اچھا اثرہوتا ہے۔<br />
اسی دوران کریم رضا مونگیری دو نوجوانوں کے ساتھ ہال میں داخل
ہوئے تو میں نے اندازہ کر لیا کہ ان میں ایک ڈاکٹر صبیحہ خورشیدہیں اور
دوسرے ان کے بھائی شاہد یوسفی۔ان سے دور سے ہی سلام دعا ہو سکی۔دن بھر
سیمینار چلتا رہا فیض سیمینار ہو یا ٹیگور سیمینار ان سب تقریبات کی روحِ
رواں پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی ہیں۔۔میں کچھ دیر کے لیے ہال کی آخری سیٹ پر
صبیحہ خورشید کے ساتھ بیٹھا توپانچ منٹ کے بعد ہی اسٹیج سے اعلان کیا گیا
کہ حیدر قریشی ڈائس پر تشریف لے آئیں۔سو جانا پڑا۔دوسرے سیشن میں مجھے
پریزیڈیم میں شامل کر دیا گیا۔گویا اسٹیج سے ہلنا نہیں۔ڈاکٹر عقیل احمد
عقیل بھی ڈائس پر آگئے تھے۔میں کچھ ریلیکس ساہو گیا۔اس دوران میرے حصے کے
آئے ہوئے میرے دوستوں کے فون کریم رضا مونگیری وصول کرتے رہے اور وہی انہیں
جواب دیتے رہے۔سیمینار کے آخر میں مجھے اپنے تاثرات بیان کرنے کے لیے
بلایا گیا تو ٹیگور کے مجسمہ والا لطیفہ یہاں سنا دیا۔ادب میں روحانی حوالے
سے میں خود کو ٹیگور کے قریب سمجھ سکتا ہوں۔انہیں جانے بغیر میں جس انداز
میں لکھ رہا ہوں،وہ لگ بھگ ویسا ہی ہے جیسا ٹیگور کے ہاں ذکر کیا جاتا
ہے۔مجھے یاد آیا اور میں نے ذکر کر دیا کہ کہیں پڑھا تھا کہ ٹیگور کو نوبل
پرائز ملنے کی ٹائم لکیر کھینچ لی جائے۔تو اس کے ایک طرف علامہ اقبال
’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا ‘‘کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف’’ مسلم
ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کہہ رہے ہیں۔کیا واقعی ایسا ہے؟یہ تحقیق
طلب معاملہ ہے۔اسے سنجیدگی کے ساتھ تفتیشی انداز کے بغیر جو کوئی بھی کر
لے،اقبالیات کے حوالے سے ایک اچھا کام ہو گا۔ <br />
یہ سیمینار ختم ہوا تو صبیحہ خورشید اور ان کے بھائی شاہد
یوسفی سے ملاقات ہوئی۔ہمیں اب ایک اور سفر پر جانا تھا۔آج ہی ۲۳مارچ کی شام
کو شِب پور میں اردو دوست ڈاٹ کام اور ہوڑہ میں ایم نصراللہ نصرکی ادبی
تنظیم کی جانب سے ایک خاص تقریب’’حیدر قریشی سے ایک ملاقات‘‘کا انتظام کیا
گیاتھا۔یہاں کلکتہ کے مضافات کے بیشتر اہم شعراء قیصر شمیم،خورشید
اقبال،ڈاکٹر مشتاق انجم،ایم نصراللہ نصر، رحمت امین، احمد کمال حشمی،بلند
اقبال،عظیم انصاری،فراغ روہوی ،نور پیکار،فیروز مرزا،جاوید مجیدی،وفا
صدیقی،شمس افتخاری،احسن شفیق،ارشاد آرزو،ڈاکٹر شبیر ابروی،فہیم انور،علیم
الدین علیم،ڈاکٹر نور بھارتی ،ارشد نیاز،نجم العالم،اور متعدد دیگر احباب
آئے ہوئے تھے۔کلکتہ کے بزرگ اور اہم شاعر قیصر شمیم خصوصی طور پر شرکت کے
لیے تشریف لائے۔ان کی صدارت میں یہ تقریب ہوئی۔پہلے تو دوستوں نے محبت کے
پھولوں سے لاد دیا۔پھر خورشید بھائی نے شال کا خاص تحفہ عطا کیا۔پھر تقریب
کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ یہاں جب میری تعریف و توصیف میں پانچویں تقریر ہونے
لگی تو میں نے قیصر شمیم صاحب کے کان میں درخواست کی کہ ان ساری محبتوں کا
بوجھ بہت بڑھتا جارہا ہے،اس سلسلہ کو رکوائیے۔انہوں نے کرم کیا اور میری
کیفیت سے اسی وقت حاضرین کو آگاہ کر دیا گیا۔صبیحہ خورشید نے اردو ماہیا
پراپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری کے دوران اپنے تجربات میں سے چند خاص
باتیں بتائیں اور بتایا کہ کس طرح انہوں نے ثابت قدمی سے اس پروجیکٹ کو
مکمل کیا اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔اس ضمن میں میرا بھی ذکر ہونا تھا،سو
ہوا۔جب ہم شِب پور پہنچے تھے تب ڈاکٹر صبیحہ خورشیدنے اپنا مقالہ ہاتھوں
میں اُٹھا رکھا تھا۔دھان پان سی بچی کے ہاتھ میں اتنا بھاری بھرکم مقالہ
دیکھ کر قیصر شمیم صاحب آگے بڑھے ،صبیحہ کے ہاتھ سے مقالہ لیتے ہوئے کہنے
لگے بیٹے! آپ نے اپنے وزن سے زیادہ بڑا کام کر لیا ہے۔ ماشاء اللہ۔ بہرحال
اب تک کی تقاریر کے بعد طے پایا کہ مزید تقاریر کی بجائے جن احباب نے مجھے
پڑھ رکھا ہے وہ اس حوالے سے کوئی سوال کریں اور اس طرح براہ راست مکالمہ کی
صورت بن سکے۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ دوستوں نے میری بیشتر تحریروں کو پڑھ
رکھا تھا اور ان کے سوالات بھی بڑے نپے تلے تھے۔ چنانچہ مجھے ان ساری باتوں
کا جواب دیتے ہوئے بہت خوشی ہوئی۔یہی کیفیت سارے دوستوں کی تھی۔یہاں بہت
سارے شعرائے کرام کی موجودگی کے باوجود کوئی مشاعرہ نہیں کیاگیا،بلکہ ادبی
حوالے سے مکالمہ جیسی صورت حال بن گئی، مجھے کسی بھی مشاعرہ سے زیادہ ایسی
تقریب کا مزہ آتا ہے۔یہاں میرے ساتھ ہونے والی تقریب کا بینر پہلے والی
تقریب کے بینر سے بھی زیادہ خوبصورت بنا ہوا تھا۔سو اسے دیکھ کر پہلے سے
بھی زیادہ خوشی ہوئی۔میں خورشیداقبال کے سارے دوستوں کی محبت سے جھولی ہی
نہیں جیبیں بھی بھر کر لے جا رہا تھا۔ کریم رضا مونگیری اس پورے دن کی
تقریبات میں ہمہ وقت ساتھ رہے۔اپنے سارے کام کاج کو تج کر وہ ہر جگہ میرے
میزبان تھے۔تقریب اپنے اختتام کو پہنچی تو سارے دوستوں سے مل کر کریم
رضامونگیری کے ساتھ واپسی کا سفر شروع ہوا۔صبیحہ خورشید اور شاہد یوسفی
ہوٹل میں گئے اور ہم کریم رضا مونگیری کے گھر پہنچے۔دن بھر کی مصروفیت نے
کسی حد تک تھکا دیا تھا سو تھکن کے باعث اچھی نیند آئی۔<br />
۲۴ مارچ کو اطمینان سے بیدار ہوئے۔اس سے بھی زیادہ اطمینان کے
ساتھ ناشتہ کیا۔دوپہر کے کھانے کے لیے فراغ روہوی نے اپنے گھرپر مدعو کر
رکھا تھا۔ اطمینان سے ان کے گھر پہنچے۔مہمان نوازی کے کتنے ہی لوازمات
موجود تھے، ادھر میں شوگر اور دل کے معاملات سے بچنے کے لیے بہت پرہیز کرنے
پر مجبور تھا۔پھر بھی گھر والوں نے انواع و اقسام کے اتنے کھانے تیار کیے
تھے، اب انہیں کچھ نہ کچھ تو چکھنا تھا۔کریم رضا مونگیری،صبیحہ خورشید،شاہد
یوسفی کو میرے جیسے پرہیز کا کوئی مسئلہ نہیں تھا،سو انہوں نے اطمینان سے
اور مزے سے کھانا کھایا۔بعد میں فراغ روہوی کی صاحب زادی ملنے آئیں۔ایم اے
کی طالبہ ہیں اور شعر بھی کہتی ہیں۔یہ جان کر خوشی ہوئی۔اللہ شاعری کے
میدان میں بھی اور عملی زندگی میں بھی کامیاب و کامران کرے۔<br />
فراغ روہوی سے اجازت لے کر وہاں سے روانہ ہوئے۔ویسے تو کریم رضا
مونگیری چیف ایڈیٹر روزنامہ عکاس کولکاتا ہمہ وقت میرے ساتھ تھے۔جب میں
ایشیاٹک سوسائٹی کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھا تب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا
تو کریم رضا ہی کرم فرماتے۔تاہم آج شام کوانہوں نے ادارہ عکاس کولکاتا کی
جانب سے ’’ایک شام حیدر قریشی کے نام‘‘کر رکھی تھی۔آج کے عکاس میں اس سلسلہ
میں ایک رنگین با تصویر اشتہار صفحہ اول پر دیا گیا تھا۔تقریب کے لیے مسلم
انسٹی ٹیوٹ کولکاتا کا لائبریری ہال لیا گیا تھا۔جب وہاں پہنچے تو معلوم
ہوا کہ عکاس میں جو دیدہ زیب اشتہار چھپا ہوا تھا،اسی کا بینروہاں سجا ہوا
تھا۔میرے ساتھ ذاتی حیثیت میں یہ تیسری تقریب تھی اورہر تقریب منانے والوں
نے اپنا الگ بینر بنوا یا تھا۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے نظامت کے فرائض ادا
کیے۔کریم رضا مونگیری تقریب کے صدر تھے۔ حیدر قریشی صاحبِ شام اور ڈاکٹر
صبیحہ خورشید مہمان خصوصی تھیں۔ شبیر اصغر کی کتاب’’معصوم کہانیاں‘‘کی
رونمائی بھی اس موقعہ پر کی گئی۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل کے تعارفی و توصیفی
کلمات کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا۔انجم عظیم آبادی،حلیم صابر،عنبر شمیم،فراغ
روہوی،احمد کمال حشمی،خورشید اقبال،خواجہ احمد حسین،مجسم ہاشمی،ارم
انصاری،نوشاد مومن،انجم نایاب،طالب صدیقی،اگم شرما،فیروز اختر،نسیم
فائق،بشریٰ سحرنے اپنے کلام سے نوازا۔ڈاکٹر صبیحہ خورشید نے اپنے تاثرات کا
اظہار کیا۔میں نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کہا کہ مرزا غالب کلکتہ میں آئے
تھے۔جب واپس دہلی گئے تو کلکتہ کو یاد کرکے ہائے ہائے کرتے رہے۔ میرا جی
تو کلکتہ بھی نہیں گئے اور لاہور میں ہی کلکتہ کے’’ میرا سین ‘‘نامی تیرکے
ایسے گھائل ہوئے کہ ثناء اللہ ڈار سے ہمیشہ کے لیے میرا جی بن گئے۔میں نے
یہاں اتنی اپنائیت،اتنا خلوص اور اتنی محبت پائی ہے کہ باقی کی ساری زندگی
اسی کے سرور میں گزر جائے گی۔کولکاتا کا یہ سفر میری زندگی کا یادگار سفر
بن گیا ہے۔میرے کلام سنانے کے بعد کریم رضا مونگیری نے صدارتی کلمات سے
نوازا۔اور یوں یہ خوبصورت تقریب اپنے اختتام کو پہنچی۔تقریب کے بعد بہت
سارے دوست ملنا چاہ رہے تھے۔اسی دوران ایک انگریزی اخبار سے منسلک لیڈی اور
ایک اردو اخبار کے رپورٹر کچھ انٹرویو کرنا چاہ رہے تھے۔میں نے انگریزی
والی لیڈی کے چند سوالوں کے جواب دے کر کہا کہ بہتر ہے آپ مجھے ای میل سے
سوالات بھیج دیں، میں ایک ہی دن میں جواب لکھ کر بھیج دوں گا۔یہی بات
اردواخبار والے صحافی سے کہی۔لیکن بعد میں کسی کی کوئی ای میل نہیں آئی۔<br />
۲۵ مارچ کو صبح سویرے دہلی کے لیے روانہ ہونا تھا۔کریم رضا
مونگیری نے سارا انتظام کر رکھا تھا۔صبیحہ خورشید اور ان کے بھائی شاہد
یوسفی بھی بیدار ہو کر اور تیار ہو کر آگئے تھے۔سو بروقت ائر پورٹ کے لیے
روانہ ہوئے۔بروقت وہاں پہنچے۔کریم رضا مونگیری،ڈاکٹر صبیحہ خورشید،شاہد
یوسفی سب کو خدا حافظ کہا۔اور بورڈنگ کارڈ کے حصول کے لیے اندر داخل ہو
گیا۔سارے مرحلے خیر و خوبی سے طے ہوئے اور مقررہ وقت پر جہاز میں سوار ہو
گیا۔دہلی پہنچ کر بارہ بجے کے لگ بھگ غالب انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا۔وہاں کے
گیسٹ ہاؤس میں میری رہائش کا انتظام کر دیا گیا تھا۔جاتے ہی شاہد ماہلی سے
ملاقات ہوئی۔ہم ایک مدت کے بعد لیکن چوتھی بار ایک دوسرے سے مل رہے
تھے۔انسٹی ٹیوٹ میں ’’غالب کے عہد میں فارسی‘‘کے موضوع پر سیمینار ہو رہا
تھا۔میں اپنے کمرہ میں چلا گیا اور کچھ تازہ دم ہو کر وہاں سے پھر انسٹی
ٹیوٹ میں آگیا۔سیمینار جاری تھا تاہم اس وقت کھانے کا وقفہ تھا۔کھانا
کھایا۔سیمینار کے آخری سیشن میں شرکت کی۔ ڈاکٹر صادق وہاں آگئے۔ڈاکٹر شاہینہ
پہلے سے موجود تھیں۔عمر کیرانوی سے ملاقات ہوئی ۔یہ نوجوان جدید ادب کے
ابتدائی شماروں میں میرے ساتھ تھے۔ان کے تعاون سے کافی سہولت میسر رہی
تھی۔ایک عرصہ سے یہاں انسٹی ٹیوٹ میں کمپیوٹر سیکشن کو سنبھالے ہوئے ہیں
اور تن تنہا سنبھالے ہوئے ہیں۔ جرمنی سے روانہ ہونے سے پہلے جب میں نے مظفر
گڑھ میں افضل چوہان کو انڈیا جانے کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا کہ وہاں
میرے ایک دوست ہیں بابو لال شرما۔گاندھی فاؤنڈیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔وہ
آپ سے ملنے آئیں گے۔ان سے رابطہ ہو گیا تھا،چنانچہ وہ بھی ملنے کے لیے
تشریف لے آئے۔کچھ عرصہ قبل ہی ان کا دل کا بائی پاس ہوا ہے۔اس کے باوجود ۲۵
سے ۲۷ مارچ </span><span style="font-size: medium;">تک </span><span style="font-size: medium;"> ہر روز ملنے کے لیے غازی آباد سے تشریف لاتے رہے۔میں شاہد
ماہلی کے دفتر میں تھا جب ڈاکٹر شاہینہ نے آکر کہا کہ باہر چند طلبہ آپ کے
ساتھ تصویر بنوانا چاہتے ہیں۔باہر آکر طلبہ کی فرمائش پوری کی۔پھر دفتر میں
جا کر بیٹھے تو ایک صاحب اندر آئے اور کہنے لگے آپ کا فون ہے۔مجھے حیرت
ہوئی کہ کسی انجان بندے کے موبائل پر میرا فون کیسے آسکتا ہے۔سنا تو دوسری
طرف سکریتا پال کمار بول رہی تھیں اور بتا رہی تھیں کہ پاپا آپ سے ملنے کے
لیے بہت زیادہ بے چین ہیں۔اس لیے آپ کو ڈھونڈ کر بتا رہی ہوں۔اب بتائیے کب
ہمارے ہاں آنا ہے؟۔میں نے انہیں بتایا کہ میں پہلے ہی سے طے کر چکا ہوں کہ
کل یعنی ۲۶ مارچ کا آدھا دن جوگندر پال جی کے ساتھ گزاروں گا۔ان کے بعد
ترنم ریاض سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ وہ انڈیا انٹرنیشنل سنٹرمیں
آج ڈنر کا انتظام کر چکی ہیں۔ترنم ریاض کے ایک صاحب زادے علیل تھے۔ ان کے
شوہر پروفیسر ریاض کی طبیعت بھی کچھ ناساز تھی۔ایسی حالت میں ڈنر کا انتظام
کرنا،خاصا مشکل کام تھا ۔انڈیا انٹرنیشنل سنٹراعلیٰ سوسائٹی کا ثقافتی
مرکز ہے۔یہاں کانفرنس ہال کی سہولت کے علاوہ ریستوران سروس بھی ہوتی ہے
لیکن صرف ممبران کے لیے۔میں سرسوں کا ساگ اور دال کھانے کے موڈ میں تھا ۔
اونچی دوکان پھیکا پکوان کے برعکس کھانا بھی بہت عمدہ تھا۔ساگ اور دال کو
ملا کر کھانا مجھے ہمیشہ اچھا لگا ہے۔یہاں ایک ادیب دوست سید محمد اشرف سے
ملاقات ہوئی۔واپسی کے وقت سید محمد اشرف نے مجھے انسٹی ٹیوٹ میں ڈراپ کرنے
کی پیش کش کر دی جسے میں نے بخوشی قبول کر لیا۔ وہاں پہنچے تو میں نے
’’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘کی ایک جلد ان کی نذر کی۔انہوں نے بلا تکلف کہا کہ
آپ دو دن کے لیے دہلی میں آئے ہیں،کہیں آنے جانے کے لیے گاڑی کی ضرورت ہو
تو مجھے بتا دیں،میں انتظام کر دوں گا۔میں نے ہلکی سی ہچکچاہٹ کے ساتھ کہہ
دیا کہ ہاں کل مجھے جوگندر پال جی کے ہاں جانا ہے۔انہوں نے وقت پوچھا۔ میں
نے ساڑھے دس اور گیارہ بجے کے درمیان کا وقت دے دیا۔ ۲۶ مارچ کوپونے گیارہ
بجے کے قریب ان کی طرف سے گاڑی آگئی۔اور میں اطمینان سے جوگندر پال جی سے
ملنے چلا گیا۔<br />
۲۶مارچ کو صبح سویرے نوجوان صحافی مطیع الرحمن عزیز مجھے ملنے
کے لیے آگئے تھے۔نوجوان اور تازہ دم ہیں اس لیے بہت کچھ کر گزرنے کو بے تاب
رہتے ہیں۔ان کی یہی خوبی مجھے ہمیشہ اچھی لگی۔ان کے ساتھ بہت ساری باتیں
ہوئیں۔ جب جوگندر پال جی کے ہاں جانے کا وقت ہوا تو انہیں گاڑی میں ساتھ
بٹھا لیا اور رستے میں ان کے کسی قریبی مقام پر انہیں ڈراپ کر دیا۔<br />
جوگندر پال جی کے ہاں پہنچا تو وہ گھر کے دروازے کے باہر بیٹھے
میرا انتظار کر رہے تھے۔بڑی محبت کے ساتھ ملے۔گھر کے اندر جا کر
بیٹھے۔بھابی کرشنا پال کچھ دیر کے لیے کسی کام سے گئی تھیں،کچھ دیر کے بعد
وہ بھی آگئیں۔جوگندر پال جی کے ساتھ بہت ساری باتیں ہوئیں لیکن مجھے احساس
ہوا کہ وہ بات کرکے بھول جاتے ہیں اور پھر اسی بات کو بتانے لگتے ہیں۔ایک
بات پوچھتے،جواب ملنے کے کچھ دیر بعد پھر وہی سوال پوچھنے لگتے۔اس سے
اندازہ ہوا کہ یادداشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔لیکن ایک اور تجربہ ایسا ہوا
کہ بہت اداس کرنے والا بھی تھا اور خوشی کا ایک رنگ بھی اس میں شامل
تھا۔میرے سامنے ایک دوست کا فون آیا۔ان کا نام راجکمار ملک تھا،میں نے
تھوڑی سی بات کرکے فون جوگندر پال جی کو دے دیا۔ان سے کچھ دیر بات کرتے
رہے۔بات ختم کرکے فون واپس کیا تو بھابی کرشنا نے ریسیور لے لیا،انہیں
ریسیور دیتے ہوئے کہنے لگے ’’حیدر قریشی کا فون تھا‘‘۔اس پر بھابی کرشنا نے
بتایا کہ پہلے بھی کئی بار ایسا ہوا ہے کہ فون پر کسی اور سے بات کرتے
رہتے ہیں اور جب بات ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں حیدر قریشی کا فون تھا۔میں
دہلی شہر میں جوگندر پال جی کوآج کے عہد کے ادبی تخلیقی سطح کے دلی کا دل
سمجھتا ہوں،اور مجھے یہ دیکھ کر ایک لحاظ سے خوشی ہوئی کہ میں ادب کی دلی
کے دل میں اس حد تک بستا ہوں۔تاہم یہ دکھ کی بات بھی تھی کہ ایسا ذہین
تخلیق کار عمر گزرنے کے ساتھ اپنی یادداشت کھورہا تھا۔دراصل بعض باتیں ان
کے اندر کھب کر رہ گئی تھیں ورنہ باقی ساری باتیں معمول کے مطابق ہی کر رہے
تھے۔مثلاََ ڈاکٹر وزیر آغا کی باتیں،اکبرحمیدی کی باتیں،رشید امجد اور
منشا یاد کا ذکر،اور بھی بہت ساری باتیں معمول کے حساب سے کر رہے تھے،بس
چند باتیں اور سوال ایسے تھے جنہیں وقفے کے بعد پھر بتانے یاپوچھنے لگتے
تھے۔ دوپہر کا کھاناجوگندر پال جی کے ہاں کھایا۔وہیں چند تصویریں
بنائیں۔ جوگندر پال جی کے سٹڈی روم میں،ڈرائنگ روم میں اور ڈائننگ ٹیبل سے
تھوڑا سا ہٹ کر ۔۔۔۔تصویریں بنائیں۔بھابی کرشنا پال بہت زیادہ کمزور ہو گئی
ہیں ،تاہم ان کی یادداشت ذرا بھی کمزور نہیں ہوئی۔اردو فکشن کے جدید تر
اور اہم ترین فکشن رائٹر جوگندر پال جی سے زندگی میں ایک بار پھر ملنا میری
خوش بختی تھی۔یہ ایک یادگار ملاقات تھی، خوشی اور اداسی کی مختلف کیفیتوں
سے بھیگی ہوئی ملاقات۔چار بجے کے قریب ان کے گھر سے جانے کی اجازت طلب
کی۔وہ نہ صرف گھر سے باہر تک بلکہ گلی کی سڑک کے آخری سرے تک چھوڑنے آئے۔
انہیں خدا حافظ کہا اور میری گاڑی منداکنی انکلیو سے غالب انسٹی ٹیوٹ کی
طرف روانہ ہو گئی۔<br />
غالب انسٹی ٹیوٹ میں پہنچا تو عمر کیرانوی کے ذریعے انٹرنیٹ کی
سہولت میسر آئی۔میں اپنے کولکاتا کے سفر کی جو مختصر خبریں انٹرنیٹ پر
ریلیز کرتا رہا تھا، ان پر ردِ عمل آیا ہوا تھا۔دوستوں نے بہت زیادہ خوشی کا
اظہار کیا تھا۔ابھی انٹرنیٹ پر ہی تھا کہ ڈاکٹر صادق آگئے۔سو کمپیوٹر کو
چھوڑ کر دوسرے کمرے میں آگئے۔ بابو لال شرما،عبدالرحمن ایڈووکیٹ،کیول
دھیر،ڈاکٹر خالد علوی،شاہد ماہلی،دوست آتے گئے اور ایک کشادہ کمرے میں
گفتگو کا دلچسپ سلسلہ چلتا رہا۔ بعض حساس علمی مسائل پر سنجیدہ گفتگو سے لے
کر بعض باتوں پر بے تکلفانہ گپ شپ بھی ہوتی رہی۔ڈاکٹر خالد علوی اور
عبدالرحمن ایڈووکیٹ کے درمیان نوک جھونک کا اپنا ایک انداز تھا۔اس گپ شپ سے
اس وقت اٹھنا پڑا جب معلوم ہوا کہ تقریب کا وقت ہو گیا ہے۔غالب انسٹی ٹیوٹ
دہلی کی جانب سے یہ میرے ساتھ ایک شام کا اہتمام تھا۔شاہد ماہلی کی محبت
کا اظہار تھا۔اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔ ڈاکٹر رضا
حیدرنے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض ادا کیے۔ جیسے ہی پروگرام شروع ہوا،میرے
موبائل پر مبارکہ کا فون آگیا۔میں نے صورت حال سے آگاہ کیاکہ پروگرام شروع
ہو گیا ہے۔اور ساتھ ہی کہا کہ چلیں اسی بہانے آپ بھی فون کرکے پروگرام کا
حصہ بن گئی ہیں۔غالب انسٹی ٹیوٹ کی روایت کے مطابق مجھے شاہد ماہلی نے
انسٹی ٹیوٹ کی کتابوں کے سیٹ کا تحفہ عنایت کیا، جبکہ صاحبِ صدر نے محبت کے
پھول عطا کیے۔رضا حیدر،شاہد ماہلی، عبدالرحمن ایڈووکیٹ،ڈاکٹر صادق،ڈاکٹر
خالد علوی،ڈاکٹر خلیق انجم،ڈاکٹر کیول دھیر اور صدیق الرحمن قدوائی نے میرے
بارے میں اپنے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ توصیف کا پہلو یہاں بھی نمایاں
تھا تاہم یہ سب دوست ایک توازن کے ساتھ بات کر رہے تھے،جو مجھے خود بھی
اچھی لگ رہی تھی۔اہم بات یہ تھی کہ سارے دوست میری تازہ ترین ادبی سرگرمیوں
سے نہ صرف پوری طرح با خبر تھے بلکہ ان کی تعریف بھی کر رہے تھے۔میں نے
اپنی چند غزلیں،نظمیں ،ماہیے سنانے کے ساتھ اپنے افسانہ ’’میں انتظار کرتا
ہوں‘‘ کے آخری دو پیراگراف سنائے۔یہ تقریب خیرو خوبی کے ساتھ اختتام پذیر
ہوئی۔کولکاتا میں تین دن دو سیمینارز میں مصروف گزرے اور مختلف اداروں کی
جانب سے تین تقریبات میرے اعزاز میں ہوئیں ۔ دہلی میں دو روزہ قیام کے
دوران بھی ایک تقریب ہو گئی۔گیارہ دنوں کے سفر میں سات دن مسلسل تقریبات
میں گھرے رہنا،میری زندگی کابھرپور اور یادگار سفر بن گیا ہے۔باقی وقت بھی
دوست احباب سے ملاقاتوں میں ہی بسر ہوا۔ یہ سارے پروگرام اگر خود ہی دوستوں
کو خرچہ دے کرسجائے گئے ہوتے یا کسی دوسرے دوست کو اشارا کرکے ترتیب دلائے
ہوتے،(جیسا کہ ہمارے’’ بین الاقوامی‘‘ شاعر ، ادیب اپنے اعزاز میں کراتے
رہتے ہیں) تو میرے لیے یہ سب کچھ بے معنی ہوتا۔فیض سیمینار کے علاوہ باقی
سارے پروگرام از خوداورمیری دستیابی کے باعث ہنگامی طور پر ترتیب پاتے چلے
گئے۔اسی لیے میں اس سفر کو اپنی زندگی کا یادگار سفر سمجھتا ہوں۔ <br />
۲۶ مارچ کو تقریب کے بعد معید رشیدی کا فون آگیا۔ان سمیت
چند اور دوستوں کے ساتھ مراسم میں ایک خاموش سا کھچاؤ آگیا تھا۔میری کوشش
رہی ہے کہ اچھے دوستوں کے ساتھ تعلقات میں کوئی خرابی آجائے تو خاموشی
اختیار کر لینی چاہیے۔ اگر غلط فہمی دور ہو سکے تو اچھا ہے ورنہ معاملہ
دشمنی کی حد تک نہیں جانا چاہیے۔ہاں البتہ اگر کوئی دوست بے لحاظی کی ساری
حدیں پار جائے اور حقائق کو مسخ کرنے لگے تو پھر ریکارڈ درست رکھنے کے لیے
تھوڑا بہت حساب سامنے لانا پڑتا ہے۔معید رشیدی کے ساتھ تو بہت ہلکا سا
کھچاؤ تھا۔ </span><span style="font-size: medium;">تاہم</span><span style="font-size: medium;">میں نے دہلی آکر بھی انہیں اطلاع نہیں دی۔انہیں جیسے ہی
میری آمد کا علم ہوا،فوراََفون کیا۔اور بڑی اپنائیت کے ساتھ کہا کہ یہ کیسے
ہو سکتا ہے کہ آپ دہلی آئیں اور ہماری ملاقات نہ ہو۔۲۷ مارچ کو میری کوئی
خاص مصروفیت نہیں تھی ،چنانچہ دن کا پہلا حصہ ان کے نام ہوا۔<br />
۲۷ مارچ کو علی الصبح اردو اخبارات دیکھے۔ گزشتہ شام کو ہونے والی تقریب کی
خبر تقریباََ ہر اخبار نے شائع کی تھی۔تاہم نادیہ ٹائمز نے تو کمال کر
دیا۔اس اخبار کی ہیڈ لائن تھی’’حیدر قریشی کے اعزاز میں جلسے کا
اہتمام‘‘۔اسی دن کے اخبار کے اندر کے صفحہ نمبر ۴ پر میری فیض سیمینار والی
افتتاحی تقریرکا پورا متن دیا ہوا تھا اور ساتھ ہی وہ ساری رپورٹس شائع کی
گئی تھیں جو میں کولکاتا سے انٹرنیٹ پر جاری کرتا رہا تھا۔اس خصوصی توجہ
کے لیے نادیہ ٹائمز کے احمد رئیس صدیقی اور مطیع الرحمن عزیز دونوں کا شکر
گزار ہوں۔ڈاکٹر عقیل احمد عقیل نے نادیہ ٹائمز کی کوریج کے حوالے سے بہت ہی
مزے کی ایک میل بھیجی ۔۲۷ مارچ کو ابھی ان خبروں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ
معید رشیدی، فیاض وجیہہ، اظہار ندیم اورطارق اقبال کے ساتھ آگئے۔ان کے ساتھ
مل کر بہت اچھا لگا۔جن باتوں کی غلط فہمی تھی،ان پر کھل کر بات ہوئی۔موضوع
زیر بحث کے کئی اور پرت کھلے،کچھ نئے انکشاف ان کی طرف سے ہوئے تو ایک دو
دلچسپ اور افسوسناک قصے میں نے بھی انہیں بتائے۔(بعد میں کہیں سے ملنے والی
ایک ای میل انہیں فارورڈ بھی کر دی)۔اسی دوران معلوم ہوا کہ فیاض وجیہہ
،ڈاکٹر مظہر مہدی کے شاگرد ہیں۔ڈاکٹر مظہر مہدی کے ساتھ طے ہوا تھا کہ دہلی
میں ملاقات کی کوئی صورت دیکھیں گے۔انہیں دہلی میں موجود اپنی کتاب’’عمرِ
لا حاصل کا حاصل‘‘کی ایک جلد دینا تھی۔فیاض وجیہہ نے اسی وقت فون پر رابطہ
کرا دیا۔ان کے ساتھ طے ہوا کہ میں ان کے حصے کی کتاب فیاض وجیہہ کو دے
دوں۔سو سپردم بہ تو مایۂ خویش را!<br />
دوپہر کا کھانا ہم سب نے ایک ساتھ کھایا۔ دوپہر کو دوستوں کا یہ
گروپ مل کرچلا گیا تو میں نے تھوڑا سا آرام کیا۔پھر انسٹی ٹیوٹ میں آیا تو
ڈاکٹر صادق،ڈاکٹر خالد علوی اور بابو لال شرما جی آگئے،شاہد ماہلی پہلے ہی
سے موجود تھے۔ان سب کے ساتھ گفتگو رہی۔بابولال شرما بتا رہے تھے کہ پاکستان
جانے کے لیے انہیں روانگی سے ایک دن پہلے ویزہ دیا گیا۔ دونوں ملکوں کے
سفارت خانے اپنی کسی خاموش پالیسی کے تحت اسی طرح ویزے جاری کر رہے
ہیں۔جانے والے آخری دن تک بے یقینی اور تذبذب کا شکار رکھے جاتے ہیں۔ دونوں
طرف کے سفارت خانوں کایہ ان لوگوں کے ساتھ سلوک ہے جو دونوں ملکوں کے
درمیان تعلقات کو بہتر دیکھنے کے آرزومند ہیں۔<br />
عبدالرحمن ایڈووکیٹ نے آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وعدہ کے
باوجودنہیں آئے،سو ان کے اور ڈاکٹر خالد علوی کے درمیان ہونے والی مزید
نونک جھونک کے لطف سے محروم رہ گئے۔لیکن اتفاق سے مجھے نہرو فیملی کے حوالے
سے پڑھے گئے ایک تازہ مضمون کا خیال آگیااور میں نے ڈاکٹر خالد علوی سے اس
کا ذکر کیا تو انہوں نے اس مضمون کے بعض حساس مندرجات کو یکسر غلط قرار
دیا۔پھر انہوں نے دلیل کے طور پر ایسے شواہد اور حوالہ جات پیش کیے کہ ان
کی بات کا قائل ہونا پڑا۔اسی گفتگو کے تناظر میں آج کے بعض سیاست دانوں اور
بعض معروف ایکٹریسوں کے جنسی سکینڈلزکی بات بھی نکل آئی۔ایک دو شادی شدہ
اور مشہور ترین ایکٹریسوں کے بارے میں جان کر شدید حیرانی ہوئی۔ اسی کا نام
دنیا ہے،بلکہ فلمی دنیا ہے۔آج کا الوداعی ڈنر ڈاکٹر صادق کی طرف سے
تھا۔ایک مقامی ہوٹل میں گئے۔کھانا بہت عمدہ تھا، میری تمام تراحتیاط کے
باوجود بد پرہیزی ہو گئی۔پھر شاہد ماہلی اور ڈاکٹر صادق کو خدا حافظ
کہا۔رات کو آرام سے سوئے۔اگلے دن ۲۸ مارچ کو میری جرمنی کے لیے روانگی
تھی۔مطیع الرحمن عزیز مجھے ائر پورٹ تک الوداع کرنے کے لیے آگئے۔ائر پورٹ
تک کا سفر ان کے ساتھ ہند میں اردوصحافت کے موضوع پر بات کرتے گزرا۔<br />
انڈیا میں صحافت کے مرکزی دھارے پر انگریزی،ہندی اور لگ بھگ ہر
صوبے کی صوبائی زبان کے اخبارات کی کمانڈ ہے۔عمومی طور پر ان سب میں تال
میل کی ایک صورت بھی موجود ہے۔اردو صحافت کے معاملہ میں ایسا لگا کہ یہ
مرکزی دھارے سے بالکل الگ تھلگ دنیا ہے۔بے شک انہیں نظر انداز کیے جانے میں
کئی عوامل کارفرما ہوں گے،لیکن اردو صحافیوں کو خود آگے بڑھ کر مرکزی
دھارے کا حصہ بننے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔کوٹہ سسٹم کے تحت چند مراعات
پر مطمئن ہو کر بیٹھ جانا اخبارات کے مالکان کے لیے ’’چلو یہ بھی غنیمت
ہے‘‘جیسا ہو سکتا ہے،لیکن اردو صحافت کا مجموعی کردار اور تاثر اس سے بہت
محدود ہوتا جا رہا ہے۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کئی اردو اخبارات کے مالکان
ہندو ہیں لیکن یہ دیکھ کر تشویش بھی ہوئی کہ ہندو مالکان کے اخبارات بھی
مسلمانوں میں سستی جذباتیت کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔مسلمانوں کوحال مست
بنائے رکھنے کی بجائے انہیں زمانے کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کاوشیں
کی جائیں تو یہ ہند کے مسلمانوں کے لیے مفید ہوسکیں گی۔مطیع الرحمن عزیز
نے مجھے اور میں نے انہیں دہلی ائر پورٹ پرخدا حافظ کہا اورپھر میں ائر
انڈیاکی فرینکفرٹ والی پرواز کے لیے معمول کی کاروائی سے گزرتا گیا۔مقررہ
وقت پر جہاز روانہ ہوا اور آدھے گھنٹے کی تاخیر سے فرینکفرٹ پہنچ گیا۔ بڑے
بیٹے شعیب نے ائر پورٹ سے مجھے لیا اور ہم خیر و عافیت سے اپنے گھر پہنچ
گئے۔ <br />
کولکاتا اور دہلی کا یہ سفر میری زندگی کا یادگار سفر ثابت ہواہے
۔اس سے ادبی کانفرنسوں،سیمینارس اور تقریبات کے سلسلہ میں میرے پہلے خیالات
مزید مستحکم ہوئے ہیں۔ان تقریبات کا سب سے بڑا فائدہ یہی ہے کہ ادیب دوست
ایک دوسرے سے مل بیٹھتے ہیں۔باقی نشستند،خوردند،برخواستند۔میری کتاب’’عمرِ
لاحاصل کا حاصل‘‘ کے صفحہ نمبر ۴۳۲ ۔۴۳۳ پر کلکتہ میں مجھ سے ادبی محبت
رکھنے والوں کا ہلکا سا ذکر ہے۔بارہ تیرہ برس پہلے لکھا گیا یادوں کا
باب(اَن دیکھے ،پر جانے دوست)تب گلبن میں چھپا تھا۔اس میں رؤف خیرکے ایک خط
کااقتباس بھی شامل تھا۔انہوں نے اطلاع دی تھی کہ وہ حیدرآباد دکن سے کلکتہ
گئے تو وہاں کے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔وہاں کے دوستوں کے سلسلہ میں انہوں
نے لکھا:<br />
’’حکومتِ مغربی بنگال کی دعوت پر کلکتہ گیا جہاں ٹیپو سلطان صدی تقاریب
کے سلسلے میں ایک کُل ہند مشاعرہ ۳؍مئی کو منعقد ہوا۔وہیں ماہیا نگاروں سے
ملاقاتیں رہیں۔فراغ روہوی‘ضمیر یوسف‘نسیم فائق‘نوشاد مومن‘محسن باعشن حسرت
وغیرہ وغیرہ سب آپ کے عشق کے گرفتار نکلے‘یعنے </span><br />
<div style="text-align: center;">
<span style="font-size: medium;">
ہم ہوئے ‘تم ہوئے کہ مِیرؔ ہوئے</span><br />
<span style="font-size: medium;">
اُن کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے</span></div>
<span style="font-size: medium;">
آپ پر بڑا رشک آتا ہے کہ آپ رہتے کہاں ہیں اور کہاں کہاں اپنے چاہنے والے پیدا کر رکھے ہیں‘‘<br />
اپنی یادوں کے اس باب میں کلکتہ کے حوالے سے میں نے جو کچھ شامل کیا
ہے،یہ سفر اس سے کہیں زیادہ بڑی سطح پر اس کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔تو اصل
بات تو وہی ہے جو میں نے بارہ تیرہ برس پہلے سے لکھی ہوئی تھی،۲۰۱۲ء میں
ایسے شواہد سامنے آگئے جن سے اس لکھے کی توثیق ہوئی۔تو نتیجہ کیا نکلا ؟
یہی کہ اچھا تخلیق کار اپنے گھر میں بھی بیٹھا رہے تو اس کا لکھا ہوا اپنی
واضح شناخت رکھتا ہے۔کسی تقریب میں شرکت یا عدم شرکت سے کسی کے قد کاٹھ میں
کوئی علمی و ادبی اضافہ نہیں ہوتا۔ہر ادیب بنیادی طور پر وہی کچھ ہے اور
اتنا ہی ہے جتنا وہ اپنی تخلیقات میں موجود ہے۔<br />
میں ناشکرگزاری نہیں کررہا،ایک بار پھر ایشیاٹک سوسائٹی کے جنرل
سیکریٹری پروفیسر میہیر کمار چکرورتی،پروفیسرڈاکٹر شہناز نبی،کا خصوصی
شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے لیے ہر سطح پر اس سفر کو آسان اور ممکن
بنایا ۔کریم رضا مونگیری ،خورشید اقبال اور شاہد ماہلی کا بہت زیادہ شکریہ
کہ انہوں نے مجھے اس سفر میں ویسی ہی عزت بخشی جیسی ہمارے روابط میں پہلے
سے دیا کرتے ہیں۔فرداََ فرداََاُن تمام دوستوں کا شکر گزار ہوں جن کی رفاقت
نے میرے اس سارے سفر کو اتنا خوشگوار ، شانداراور یادگار بنا دیا۔اللہ سب
کو خوش رکھے۔ اور اب ایک خاص نوعیت کی ادبی سیاسی فضا کے پس منظر کے باعث
یہ بات اظہار تشکر کی سرشاری کے ساتھ بجا طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ربِ کریم
نے نے ’’ہمارے کر دئیے اونچے منارے!‘‘ <br />
یہاں ان دوستوں کا شکریہ ادا کرنا بھی واجب سمجھتا ہوں جنہوں نے میرے
اس سفر کے دوران انٹرنیٹ پر میری مصروفیات کی خبریں پڑھ کر مجھے اپنی خوشی
اور دلی جذبات سے آگاہ کیا۔اور اس طرح سے اس سفر میں کسی نہ کسی طور میرے
ساتھ شریک رہے۔ ان دوستوں کے چند اہم اسماء یہاں درج کر رہا ہوں۔ <br />
راجہ محمد یوسف خان(جرمنی)،سعید شباب(خانپور)،حسن چشتی(شکاگو)،ارشد
خالد(اسلام آباد)،جبار واصف(رحیم یار خاں)، کاوش عباسی(سعودی عرب)،مبشر میر
(گجرات)، راحت سعید(کراچی ) ، یعقوب نظامی(انگلینڈ)،پروفیسر وارث
شیر(کینیڈا) ،پروین شیر(کینیڈا)،عبداللہ جاوید (کینیڈا)،شہناز خانم
عابدی(کینیڈا)، عبدالرب استاد (گلبرگہ) ،ہاجرہ بانو (اورنگ آباد)،ماسیمو بون
(اٹلی)، میخائل گرابر(فرینکفرٹ)،ناصر عباس نیر(لاہور)،ناصر
نظامی(ہالینڈ)،ناصر علی سید (پشاور) ،خادم علی ہاشمی(ملتان)،واجد
علی(بھاولپور)،ڈاکٹر رضیہ حامد(بھوپال)، ڈاکٹر امجد پرویز (لاہور)،نصر
ملک(ڈنمارک)،خورشید علی(جرمنی)، خلیق الرحمن (انگلینڈ) ، محمدافضل
چوہان(مظفر گڑھ)،ڈاکٹر فریاد آزر(دہلی)،اویس جعفری، صادق باجوہ(امریکہ)
،ڈاکٹر ریاض اکبر (آسٹریلیا) ، عبدالحئی ، ڈاکٹر پنہاں (امریکہ)، سریندر
بھوٹانی (پولینڈ)،معید رشیدی(دہلی)،اظہار ندیم(دہلی)،ڈاکٹر عقیل احمد عقیل
(کولکاتا) ،سید انور جاوید ہاشمی(کراچی)،ڈاکٹر رضیہ اسماعیل (برمنگھم)،قاسم
یعقوب(اسلام آباد)،احمد حسین مجاہد(ایبٹ آباد)،اسحاق ساجد (جرمنی)،مقصود
الہٰی شیخ(بریڈ فورڈ)،مستبشرہ ادیب(علی گڑھ)،خالد ملک ساحل(جرمنی)،طاہر
ملک(جرمنی)،ڈاکٹر حامد اشرف(اودگیر)،سہیل اختر (بھوبھنیشور)،ڈاکٹر مظہر
مہدی(دہلی)،شاہد جمیل(گوجرانوالہ)،طاہر عدیم (جرمنی) ،ارم ہاشمی(میانوالی)<br /><br />
جب سے میں نے اس سفر کی روداد کا یہ بلاگ بنایا ہے،</span></div>
<div name="str" style="direction: rtl; font-family: Jameel Noori Nastaleeq; font-size: 18px; text-align: center;">
<span style="font-size: medium;"> http://haiderqureshi-in-kolkata-delhi.blogspot.de</span></div>
<span style="font-size: medium;">خوشی کا ردِ عمل ظاہر
کرنے والے دوستوں کی ای میلز کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔سو سب بہی خواہوں کا
اور محبت کرنے والوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی کے اس
یادگار سفر کی روداد کو مکمل کرتا ہوں۔ </span>
<span style="font-size: medium;"><br /></span></div>khatti-mithi-yadenhttp://www.blogger.com/profile/09727116991049212048noreply@blogger.com0